مندرجات کا رخ کریں

"اہل بیت علیہم السلام" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 154: سطر 154:
ایک نکتہ یہ ہے کہ [[حدیث ثقلین]] کی بعض نقلوں میں ثقلین کے بجائے لفظ "خلیفتین" استعمال ہوا ہے اور قرآن و اہل بیت کو "خلیفتین" (دو خلیفہ) قرار دیا گیا ہے:<font color=green> {{حدیث| '''"إنّی تركت فيكم خليفتين: کتاب اللّه وأهل بيتي"۔''' }}</font>(ترجمہ: میں نے تمہارے درمیان دو خلیفہ چھوڑے ہیں: قرآن اور اہل بیت)۔ <ref>المسند، ج5، ص181؛ مجمع الزوائد، ج9، ص163؛ فیض القدیر، ج3، ص14؛ کنزالعمال، ج1، ص166؛ نفحات الأزهار، ج2، ص284ـ 285</ref>، اس حدیث کے مطابق اہل بیت علیہم السلام [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]] کے جانشین ہیں اور ان کی جانشینی ہمہ جہت اور وسیع ہے۔
ایک نکتہ یہ ہے کہ [[حدیث ثقلین]] کی بعض نقلوں میں ثقلین کے بجائے لفظ "خلیفتین" استعمال ہوا ہے اور قرآن و اہل بیت کو "خلیفتین" (دو خلیفہ) قرار دیا گیا ہے:<font color=green> {{حدیث| '''"إنّی تركت فيكم خليفتين: کتاب اللّه وأهل بيتي"۔''' }}</font>(ترجمہ: میں نے تمہارے درمیان دو خلیفہ چھوڑے ہیں: قرآن اور اہل بیت)۔ <ref>المسند، ج5، ص181؛ مجمع الزوائد، ج9، ص163؛ فیض القدیر، ج3، ص14؛ کنزالعمال، ج1، ص166؛ نفحات الأزهار، ج2، ص284ـ 285</ref>، اس حدیث کے مطابق اہل بیت علیہم السلام [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]] کے جانشین ہیں اور ان کی جانشینی ہمہ جہت اور وسیع ہے۔


غدیر خم کے مقام پر [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ]](ص) نے اپنے خطبے کے ضمن میں [[قرآن]] اور [[عترت]] کو اپنی دو گرانقدر میراثوں سے تعبیر کیا ہے اور فرمایا ہے:<font color=green> {{حدیث| '''"ولا تخلو الارض منهم، ولو خلت لانساخت بأهلها. ثم قال: اللهم إنك لا تخلي الارض من حجة على خلقك لئلا تبطل حجتك، ولا تضل أولياءك بعد إذ هديتهم، أولئك الاقلون عددا والاعظمون قدرا عند الله (عزوجل)"۔''' }}</font>(ترجمہ: زمین ہرگز ان (اہل بیت) سے خالی نہیں ہوگی کیونکہ اگر ایسا ہوا تو زمین اپنے باشندوں پر غضبناک ہوجائے گی۔ اور پھر فرمایا: بار خدایا! تو ہرگز زمین کو حجت سے خالی نہیں چھوڑتا اس لئے کہ تیری حجت و دلیل باطل نہ ہو اور تیرے دوست گمراہ نہ ہوں بعد اس کے کہ انہیں تو نے راہ ہدایت پر گامزن کیا ہے، وہ تعداد کے لحاظ سے بہت کم ہیں مگر اللہ عز وجل کے نزدیک نہایت بہت عظیم اور صاحبان قدر و منزلت ہیں)۔<ref> سليمان بن ابراهيم القندوزي الحنفي، ينابيع المودة لذوي القربى، (1220 - 1294 ه‍) تحقيق سيد علي جمال اشرف الحسيني، تاريخ النشر: 1416۔ ج3 ص74۔</ref>. بنابراین، اهل بیت، حجت‌های خداوند بر زمین‌اند، و امامت و رهبری متعلق به حجت‌های خداوند است.
غدیر خم کے مقام پر [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ]](ص) نے اپنے خطبے کے ضمن میں [[قرآن]] اور [[عترت]] کو اپنی دو گرانقدر میراثوں سے تعبیر کیا ہے اور فرمایا ہے:<font color=green> {{حدیث| '''"ولا تخلو الارض منهم، ولو خلت لانساخت بأهلها. ثم قال: اللهم إنك لا تخلي الارض من حجة على خلقك لئلا تبطل حجتك، ولا تضل أولياءك بعد إذ هديتهم، أولئك الاقلون عددا والاعظمون قدرا عند الله (عزوجل)"۔''' }}</font>(ترجمہ: زمین ہرگز ان (اہل بیت) سے خالی نہیں ہوگی کیونکہ اگر ایسا ہوا تو زمین اپنے باشندوں پر غضبناک ہوجائے گی۔ اور پھر فرمایا: خدایا! تو ہرگز زمین کو حجت سے خالی نہیں چھوڑتا اس لئے کہ تیری حجت و دلیل باطل نہ ہو اور تیرے دوست گمراہ نہ ہوں بعد اس کے کہ انہیں تو نے راہ ہدایت پر گامزن کیا ہے، وہ تعداد کے لحاظ سے بہت کم ہیں مگر اللہ عز وجل کے نزدیک نہایت بہت عظیم اور صاحبان قدر و منزلت ہیں)۔<ref> سليمان بن ابراهيم القندوزي الحنفي، ينابيع المودة لذوي القربى، (1220 - 1294 ه‍) تحقيق سيد علي جمال اشرف الحسيني، تاريخ النشر: 1416۔ ج3 ص74۔</ref>. بنابراین، اهل بیت، حجت‌های خداوند بر زمین‌اند، و امامت و رهبری متعلق به حجت‌های خداوند است.


[[حدیث ثقلین]] اہل بیت(ع) کی امامت و رہبری پر دلالت کرتی ہے اور اس حقیقت کا ایک ثبوت یہ ہے کہ [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنین]](ع) نے بعض مواقع پر اس حدیث سے اپنی ولایت و امامت کے اثبات کے لئے استدلال و استناد کیا ہے۔ [[امام علی علیہ السلام|آپ]](ع) کا [[یوم شوری|شوری کے دن]] شوری کے اراکین کے ساتھ بحث کرتے ہوئے اس حدیث سے استناد اس کی ایک مثال ہے۔<ref>مناقب ابن مغازلی، ص112</ref>
[[حدیث ثقلین]] اہل بیت(ع) کی امامت و رہبری پر دلالت کرتی ہے اور اس حقیقت کاایک ثبوت یہ ہے کہ [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنین]](ع) نے بعض مواقع پر اس حدیث سے اپنی ولایت و امامت کے اثبات کے لئے استدلال و استناد کیا ہے۔ [[امام علی علیہ السلام|آپ]](ع) کا [[یوم شوری|شوری کے دن]] شوری کے اراکین کے ساتھ بحث کرتے ہوئے اس حدیث سے استناد اس کی ایک مثال ہے۔<ref>مناقب ابن مغازلی، ص112</ref>


ایک موقع پر [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنین]](ع) نے [[طلحہ]] ، [[عبدالرحمن بن عوف]] اور [[سعد بن ابی وقّاص]] سے بات چیت کرتے ہوئے ان کو اس حدیث کی صحت اور اپنی حقانیت پر گواہ بنایا۔<ref>ینابیع المودة، ص43</ref>، اور ایک بار [[خلافت]] [[عثمان بن عفان|عثمان]] کے دور میں [[امام علی علیہ السلام|آپ]](ع) [[مسجد النبی]](ص) میں [[صحابہ رسول(ص)|صحابہ]] سے مخاطب ہوکر اس حدیث سے استناد کیا اور انہیں اس حدیث کی صحت اور اپنی فضیلت کا گواہ بنایا۔<ref>ینابیع المودة، ص137</ref>
ایک موقع پر [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنین]](ع) نے [[طلحہ]] ، [[عبدالرحمن بن عوف]] اور [[سعد بن ابی وقّاص]] سے بات چیت کرتے ہوئے ان کو اس حدیث کی صحت اور اپنی حقانیت پر گواہ بنایا۔<ref>ینابیع المودة، ص43</ref>، اور ایک بار [[خلافت]] [[عثمان بن عفان|عثمان]] کے دور میں [[امام علی علیہ السلام|آپ]](ع) [[مسجد النبی]](ص) میں [[صحابہ رسول(ص)|صحابہ]] سے مخاطب ہوکر اس حدیث سے استناد کیا اور انہیں اس حدیث کی صحت اور اپنی فضیلت کا گواہ بنایا۔<ref>ینابیع المودة، ص137</ref>
گمنام صارف