امام حسینؑ کے نام کوفیوں کے خطوط
واقعات | |
---|---|
امام حسینؑ کے نام کوفیوں کے خطوط • حسینی عزیمت، مدینہ سے کربلا تک • واقعۂ عاشورا • واقعۂ عاشورا کی تقویم • روز تاسوعا • روز عاشورا • واقعۂ عاشورا اعداد و شمار کے آئینے میں • شب عاشورا | |
شخصیات | |
امام حسینؑ علی اکبر • علی اصغر • عباس بن علی • زینب کبری • سکینہ بنت الحسین • فاطمہ بنت امام حسین • مسلم بن عقیل • شہدائے واقعہ کربلا • | |
مقامات | |
حرم حسینی • حرم حضرت عباسؑ • تل زینبیہ • قتلگاہ • شریعہ فرات • امام بارگاہ | |
مواقع | |
تاسوعا • عاشورا • عشرہ محرم • اربعین • عشرہ صفر | |
مراسمات | |
زیارت عاشورا • زیارت اربعین • مرثیہ • نوحہ • تباکی • تعزیہ • مجلس • زنجیرزنی • ماتم داری • عَلَم • سبیل • جلوس عزا • شام غریبان • شبیہ تابوت • اربعین کے جلوس |
امام حسینؑ کے نام کوفیوں کے خطوط سے مراد وہ خطوط ہیں جو کوفہ کے رہنے والوں نے معاویہ بن ابی سفیان کی موت کے بعد، یزید کے تخت نشین ہونے پر فرزند رسول حضرت امام حسین کو لکھے ۔کوفہ کے بزرگوں نے یزید بن معاویہ کی بیعت سے انکار کے بعد یہ خطوط اس وقت امام حسین کو لکھے جب آپ مکہ میں قیام پذیر تھے اور ان خطوط میں امام کو کوفہ آنے کی دعوت دی نیز ان خطوط میں اپنی مدد کی یقین دہانی کروائی ۔ان خطوط کے لکھنے والوں میں سلیمان بن صرد خزاعی، حبیب بن مظاہر اور رفاعہ بن شداد جیسے کوفہ کے اشراف اور شیعہ شامل تھے ۔لیکن عبید اللہ بن زیاد نے کوفہ میں آنے کے بعد کوفہ کے لوگوں پر نہایت سختی کی اور کوفہ میں خوف وہراس کو پھیلا دیا جس کی وجہ سے وہاں کے لوگوں نے امام کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا جس کے نتیجے میں واقعۂ کربلا رونما ہوا اور فرزند رسول کو انکے اہل خانہ اور انکے اصحاب کے ہمراہ شہید کر دیا گیا۔
خطوط کی تعداد
مؤرخین کوفیوں کے امام حسینؑ کو لکھے جانے والے خطوط کی تعداد سینکڑوں بلکہ ہزاروں میں سمجھتے ہیں ۔[1] بعض ان خطوط کی تعداد 150ذکر کرتے ہیں جن میں سے ہر ایک خط ایک، دو یا چار افراد کی طرف سے تھا۔[2] طبری نے ان کی تعداد ۵۳ [3] اور بَلاذُری نے ۵۰ خطوط شمار کئے ہیں.[4] لہوف اور اعیان الشیعہ میں ان خطوط لکھنے والوں کی تعداد ۱۲ ہزار بیان ہوئی ہے (یعنی ہر خط پر اس تعداد میں لوگوں نے دستخط کئے تھے).[5] شیخ عباس قمی کوفیوں کے خطوط کی تعداد کو ۱۲ ہزار سمجھتے ہیں۔[6]
بعض خطوط کا متن
پہلا خط
جب معاویہ کی ہلاکت کی خبر کوفہ کے عوام تک پہنچی تو وہ یزید کے بارے میں متردد ہوئے اور انہیں خطرہ محسوس ہوا۔ اسی اثناء میں انہیں معلوم ہوا کہ امام حسینؑ نے یزید کی بیعت سے انکار کیا ہے اور مکہ چلے گئے ہیں۔[7] چنانچہ شیعیان کوفہ سلیمان بن صُرَدِ خُزاعی کے گھر میں اکٹھے ہوئے اور معاویہ کی ہلاکت پر تبادلہ خیال کیا اور اس سلسلے میں اللہ کا شکر ادا کیا۔ بعدازاں سلیمان نے کہا:
- معاویہ ہلاک ہوچکا اور امام حسینؑ نے اس جماعت کی بیعت سے انکار کیا اور مکہ چلے گئے، اور تم امام حسینؑ کے شیعہ اور آپؑ کے والد کے شیعہ ہو؛ پس اگر تم اپنے اوپر یقین کرسکتے ہو کہ آپؑ کا ساتھ دوگے اور آپؑ کے دشمنوں کے خلاف لڑوگے تو آپؑ کو خبر دو؛ اور اگر شکست اور کمزوری سے خائف ہو تو آپؑ کو فریب مت دو اور آپؑ کی جان کو خطرے میں مت ڈالو۔
انھوں نے کہا: ہم ضرور آپؑ کے دشمنوں کے خلاف لڑیں گے اور اپنی جان آپؑ پر نچھاور کریں گے۔
اس کے بعد انہوں نے امام حسینؑ کو خط لکھا جو کچھ یوں تھا:
- بسم اللہ الرحمن الرحیم
- حسین بن علی علیہما السلام کے نام، سلیمان بن صرد، مسیب بن نجبہ، رفاعہ بن شداد، حبیب بن مظاہر اور شیعیان و مؤمنین و مسلمینِ کوفہ کی طرف سے۔
- سلام ہو آپ پر اور ہم آپ کی طرف حمد و ثناء کرتے ہیں اس خدا کی جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔
- امّا بعد، تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے مختص ہیں جس نے آپ کے ستمکار اور سرکش دشمن کو توڑ کر رکھ دیا، وہی جس نے اس امت پر حملہ کیا اور خلافت کو غارت کردیا اور امت کے اموال کو غصب کردیا اور ان کی رضا کے بغیر ان کی فرمانروائی پر قبضہ کیا، بعدازاں اس نے اس امت کے نیک انسانوں کو قتل کردیا اور اشرار اور برے انسانوں کو بحال کردیا اور اللہ کے مال کو ظالموں اور صاحبان ثروت کے درمیان بانٹ دیا۔ پس دور رہے اللہ کی رحمت سے جس طرح کہ قوم ثمود خدا کی رحمت سے دور ہوگئی۔
- بے شک ہمارے اوپر کوئی امام و پیشوا نہیں ہے، پس ہماری طرف آئیں شاید اللہ آپ کے واسطے سے ہمیں حق کے گرد متحد کرلے اور نعمان بن بشیر امارت کے محل میں ہے اور ہم نہ تو جمعہ کے دن اس کے ساتھ نماز بجا لاتے ہیں اور نہ ہی عید میں اس کے ساتھ باہر نکلتے ہیں؛ اور جب بھی خبر ملے کہ آپ ہماری طرف آئے ہیں تو ہم اس کو شہر سے نکال باہر کریں گے حتی کہ اس کو شام کی طرف روانہ کریں۔ ان شاء اللہ۔
انھوں نے خط عبداللہ بن مسمع ہمدانی اور عبداللہ بن وائل کے ہاتھوں روانہ کیا اور انہیں حکم دیا کہ تیز رفتارکے ساتھ حرکت کریں۔ اور وہ تیزرفتارکے ساتھ روانہ ہوئے حتی کہ 10 رمضان سنہ 60 ہجری کو مکہ پہنچے۔
دوسرا خط
پہلے خط کے دو روز بعد اہلیان کوفہ نے قیس بن مسہر صیداوی، عبدالرحمن بن عبداللہ ارحبی اور عمارۃ بن عبد سلولی کو امام حسینؑ کے پاس روانہ کیا اور ان کے ہاتھوں تقریبا 150 خطوط ارسال کئے۔ ان خطوط میں بعض ایک شخص کی طرف سے تھے اور بعض دو، اور چار افراد نے مل کر لکھے تھے۔
تیسرا خط
دوسرا خط بھجوانے کے بعد ہانی بن ہانی سبیعی اور سعید بن عبداللہ حنفی کو امام حسینؑ کی طرف روانہ کیا اور ان کے ہاتھوں ایک خط ارسال کیا جس کا مضمون کچھ یوں تھا:
- بسم اللہ الرحمن الرحیم
- یہ خط ہے حسین بن علی کے نام، آپ کے پیروکاروں کی جانب سے جو مؤمنین اور مسلمین میں سے ہیں۔
- اما بعد، ہماری طرف عجلت کے ساتھ آئیے کیونکہ لوگ آپ کا انتظار کررہے ہیں اور سب آپ کے آنے پر متفق القول ہیں، پس عجلت کریں، عجلت کریں، اور پھر بھی عجلت کریں عجلت کریں! والسلام۔[8]
چوتھا خط
شبث بن ربعی، حجار بن ابجر، یزید بن حارث بن رویم، عروہ بن قیس، عمرو بن حجاج زبیدی اور محمد بن عمرو تیمی نے امام حسینؑ کو خط لکھا کہ:
- باغات ہرے بھرے ہیں اور پھل پکے ہوئے ہیں، پس جب بھی ارادہ کریں ہماری طرف آجائیں کیونکہ یہاں تیار سپاہی آپ کی نصرت کے لئے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ والسلام۔[9]
کوفیوں کو امام حسینؑ کا جواب
کوفیوں کے قاصدین سب امام حسین ؑ کے ہاں جمع ہوئے اور آپؑ نے سب کے خطوط پڑھ لئے اور قاصدوں سے لوگوں کا حال پوچھا۔ اور پھر ایک خط لکھا اور ہانی بن ہانی سبیعی اور سعید بن عبداللہ حنفی کے ہاتھوں ـ جو کوفیوں کے آخری قاصد تھے ـ، اہل کوفہ کے لئے روانہ کیا۔ خط کا متن کچھ یوں تھا:
- بسم اللہ الرحمن الرحیم، حسین بن علی کی طرف سے مسلمین اور مؤمنین کی جماعت کے نام۔
- اما بعد، ہانی اور سعید تمہارے خطوط لے کر میرے پاس آئے اور یہ دو افراد تمہارے آخری ایلچی تھے جو میرے پاس آئے اور میں سمجھ گیا کہ جو کچھ تم نے بیان کیا اور جس چیز کا تم نے ذکر کیا اور تمہاری اکثریت کا بیان کہ: ہمارا کوئی امام نہیں ہے پس ہماری طرف آؤ تاکہ شاید خداوند متعال تمہارے سبب ہمیں حق کے گرد متحد کردے۔ اب میں اپنے بھائی اور چچا زاد اور میرے خاندان کے قابل اعتماد فرد کو تمہاری جانب روانہ کررہا ہوں؛ چنانچہ، اگر وہ میرے لئے لکھے کہ تمہاری اکثریت کی رائے اور تمہارے دانا افراد اور اکابرین کی رائے مطابقت رکھتی ہے اس چيز کے ساتھ جو میں نے تمہارے خطوط میں پڑھا، بہت جلد تمہاری طرف آؤں گا۔ ان شاء اللہ۔ کیونکہ میری جان کی قسم! امام کوئی بھی نہیں ہے سوا اس فرد کے جو کتاب خدا کے مطابقت حکم کرے اور فیصلہ کرے اور عدل و انصاف کی خاطر قیام کرے اور دین حق کا پابند ہو اور اور اپنے آپ کو اللہ کے کلام اور اس کے احکام کا پابند کردے۔ والسلام۔[10]
مسلم بن عقیل کو کوفہ روانہ کیا جانا
امام حسین علیہ السلام نے مسلم بن عقیل کو حاضر کیا اور انہیں قیس بن مسہر صیداوی، عمارۃ بن عبد سلولی اور عبدالرحمن بن عبداللہ ارحبی کے ہمراہ کوفہ روانہ کیا اور انہیں حکم دیا کہ تقوی اختیار کریں اور اپنا کام پوشیدہ رکھیں اور لوگوں کے ساتھ رواداری پر مبنی سلوک کریں؛ پس اگر وہ دیکھ لیں کہ لوگ متفق القول ہیں اور اور ان کے درمیان ضرورت کے برابر یکجہتی قائم ہے، تو عجلت سے آپؑ کو مطلع کریں۔[11]
حوالہ جات
- ↑ شہیدی، قیام حسینؑ، ص۱۱۴.
- ↑ ابن اعثم، کتاب الفتوح، ج۵، ص۲۹؛ مفید، الارشاد(دارالمفید، ۱۴۱۳ق) ، ج۲، ص۳۸; ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، ج۴، ۹۸; ابن جوزی، المنتظم، ج۵ ص۳۲۷؛ خوارزمی، مقتل الحسین(علیہ السلام)، ج۱، ص۲۸۳؛ اربلی، کشف الغمہ، ج۲، ص۲۵۳؛ شافعی، مطالب السؤول، ج۲، ص۷۱؛ سبط ابن جوزی، تذکرة الخواص من الامۃ بذکر خصائص الائمہ(علیہم السلام)، ج۲، ص۱۴۶؛ سید ابن طاووس، الملہوف علی قتلی الطفوف، ص۲۴؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج ۸، ص۱۶۲؛ ابن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، ج۲، ص۳۰۲.
- ↑ طبری، تاریخ الامم و الملوک (۱۴۰۹ق)، ج۴، ص۲۶۲. وہ ان کے متعلق لکھتا ہے : ... فحملوا معهم نحواً من ثلاثة و خمسین صحیفة...؛ البتہ بعض محققین «ثلاثہ» کی تعبیر میں تصحیف کے قائل ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ اصل میں «مائۃ» تھا اور وہ طبری کی گزارش کو ۱۵۰ خطوط ہی سمجھتے ہیں۔ اس کیلئے شیخ مفید، ابن اعثم، خوارزمی اور سبط ابن جوزی کی تعبیرات کو بعنوان شاہد ذکر کرتے ہیں۔احتمال دیتے ہیں کہ ان سب نے ابو مخنف سے ہی نقل کیا ہے (محمد ہادی یوسفی غروی، وقعۃ الطف، ص۹۳)؛ لیکن جیسا کہ متن میں ملاحظہ کیا جاتا ہے کہ بلاذری نے شاید ابو مخنف سے 50 کا عدد نقل کیا ہے ،اسی طرح سبط ابن جوزی نے ابومخنف کی بجائے ابن اسحاق سے ۱۵۰ خطوط نقل کئے ہیں ۔ (محمد ہادی یوسفی غروی، وقعۃ الطف، ص۲۴۴)
- ↑ بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۳۷۰
- ↑ سيد ابن طاووس، کتاب الملہوف في قتلي الطفوف، ص۳۵؛ امين عاملی، أعیان الشیعہ، ج۱، ص۵۸۱.
- ↑ قمی، منتہی الآمال، ج۱، ص۵۶۶.
- ↑ المفید، الارشاد، ص295۔
- ↑ طبری، تاریخ طبری، ج4، ص262؛ ابن شہرآشوب، مناقب، ج4، ص97؛ ترجمہ تاریخ طبری، ج7، صص2923-2924؛ سماوی، ابصار العین، ص216؛ جلالی، سلحشوران طف، ص262۔
- ↑ طبری، تاریخ طبری، ج4، صص261-262؛ سماوی، ابصار العین، ص216؛ ابن شہرآشوب، مناقب، ج4، ص97؛ جلالی، سلحشوران طف، ص262؛ کمرہای، عنصر شجاعت، ج1، ص162۔
- ↑ رکـ:طبری، تاریخ طبری، ج4، ص262؛ ابن شہرآشوب، مناقب، ج4، ص97؛ ترجمہ تاریخ طبری، ج7، صص2924-2925۔
- ↑ المفید، الارشاد، صص295-297؛ ترجمہ ارشاد، صص339-342۔
مآخذ
- ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، تحقیق و فہرست یوسف البقاعی، دارالاضواء، 1421ہجری قمری۔
- سماوی، محمد بن طاہر، ابصار العین فی انصار الحسین علیہالسلام، تحقیق محمد جعفر طبسی، مرکز الدراسات الاسلامیة لحرس الثورة، [بی جا]، 1377 ہجری شمسی/1419 ہجری قمری۔
- ہمو، سلحشوران طف، تحقیق و نگرشی جامع بر زندگانی امام حسینؑ و حماسہ آفرینان کربلا، ترجمہ ابصار العین فی انصار الحسین (علیہالسلام)، مترجم عباس جلالی، انتشارات زائر، قم، 1384 ہجری شمسی۔
- طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، المعروف بتاریخ الامم و الملوک، مؤسسة الاعلمی للمطبوعات، بیروت، 1879عیسوی۔
- ہمو، تاریخ طبری یا تاریخ الرسل و الملوک، ترجمہ ابوالقاسم پایندہ، انتشارات بنیاد فرہنگ ایران، تہران، 1352 ہجری شمسی۔
- کمرہای، خلیل، عنصر شجاعت یا ہفتاد دو تن و یک تن، اصحاب سید الشہداء، دارالعرفان، قم، 1389 ہجری شمسی۔
- مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الارشاد فی معرفة حجج اللہ علی العباد، قم: سعید بن جبیر، 1428 ہجری قمری۔
- ترجمہ ارشاد شیخ مفید، سیرہ ائمہ اطہارؑ، ج1، ترجمہ موسوی مجاب، حسن، قم: سرور، 1388ہجری شمسی۔