امام علی نقی علیہ السلام

فاقد تصویر
حوالہ جاتی اصول کی عدم رعایت
غیر جامع
تلخیص کے محتاج
ویکی شیعہ سے
(ابوالحسن ثالث سے رجوع مکرر)
امام علی نقی علیہ السلام
روضہ امام علی نقی ؑ، سامرا، عراق
روضہ امام علی نقی ؑ، سامرا، عراق
منصبشیعوں کے دسویں امام
نامعلی بن محمد
کنیتابوالحسن (ثالث)
القابنجیب، مرتضی، ہادی، نقی، عالم، فقیہ، امین، طیّب
تاریخ ولادت15 ذوالحجہ ، سال 212 ھ
جائے ولادتصریا، مدینہ
مدت امامت33 سال (220 تا 254ھ)
شہادت3 رجب، 254ھ
مدفنسامرا، عراق
رہائشمدینہ
والد ماجدمحمد بن علی
والدہ ماجدہسمانہ مغربیہ
ازواجحدیث
اولادحسن، محمد، حسین، جعفر
عمر42 سال
ائمہ معصومینؑ
امام علیؑامام حسنؑامام حسینؑامام سجادؑامام محمد باقرؑامام صادقؑامام موسی کاظمؑامام رضاؑامام محمد تقیؑامام علی نقیؑامام حسن عسکریؑامام مہدیؑ


علی بن محمد (212۔254 ھ)، امام علی نقی ؑ کے نام سے مشہور، شیعوں کے دسویں امام ہیں۔ آپ کے والد ماجد نویں امام امام محمد تقیؑ ہیں۔ آپؑ سنہ 220 سے 254 ہجری یعنی 34 برس تک امامت کے منصب پر فائز رہے۔ دوران امامت آپ کی زندگی کے اکثر ایام سامرا میں عباسی حکمرانوں کے زیر نگرانی گزرے ہیں۔ آپؑ متعدد عباسی حکمرانوں کے ہم عصر تھے جن میں اہم ترین متوکل عباسی تھا۔

عقائد، تفسیر، فقہ اور اخلاق کے متعدد موضوعات پر آپؑ سے کئی احادیث منقول ہیں۔ آپ سے منقول احادیث کا زیادہ حصہ اہم کلامی موضوعات پر مشتمل ہیں من جملہ ان موضوعات میں تشبیہ و تنبیہ اور جبر و اختیار وغیرہ شامل ہیں۔ زیارت جامعۂ کبیرہ جو حقیقت میں امامت سے متعلق شیعہ عقائد کے عمدہ مسائل اور امام شناسی کا ایک مکمل دورہ ہے، آپؑ ہی کی یادگار ہے۔

امامت کے دوران مختلف علاقوں میں وکلاء تعیین کر کے اپنے پیروکاوں سے رابطے میں رہے اور انہی وکلاء کے ذریعے شیعوں کے مسائل کو بھی حل و فصل کیا کرتے تھے۔ آپؑ کے شاگردوں میں عبد العظیم حسنی، عثمان بن سعید، ایوب بن نوح، حسن بن راشد اور حسن بن علی ناصر شامل ہیں۔

آپ کا روضہ سامرا میں حرم عسکریین کے نام سے مشہور ہے۔ سنہ 2006 اور 2007 ء میں مختلف دہشت گردانہ حملوں میں اسے تباہ کیا گیا تھا جسے بعد میں پہلے سے بہتر انداز میں تعمیر کیا گیا ہے۔

نسب، کنیت و لقب

آپ کے والد امام محمد تقی علیہ السلام، شیعیان اہل بیتؑ کے نویں امام ہیں۔ آپؑ کی والدہ سمانہ[1] یا سوسن[2] نامی ایک کنیز تھیں۔

امام ہادیؑ اور آپؑ کے فرزند امام حسن عسکری علیہ السلام عسکریین کے نام سے بھی مشہور ہیں۔[3] کیونکہ عباسی خلفا انہیں سنہ 233 ہجری میں سامرا لے گئے اور آخر عمر تک وہیں نظر بند رکھا۔

امام ہادیؑ نجیب، مرتضی، ہادی، نقی، عالم، فقیہ، امین اور طیّب جیسے القاب سے بھی مشہور تھے۔[4] آپؑ کی کنیت ابوالحسن ہے۔[5] اور چونکہ امام کاظمؑ اور امام رضاؑ کی کنیت بھی ابوالحسن ہے اسی لئے اشتباہ سے بچنے کے لئے امام کاظمؑ کو ابوالحسن اول، امام رضاؑ کو ابوالحسن ثانی اور امام ہادیؑ کو ابوالحسن ثالث کہا جاتا ہے۔

انگشتریوں کے نقش

امام علی نقی علیہ السلام کی انگشتریوں کے لئے دو نقش منقول ہیں:

"الله رَبّي وهو عِصمَتي مِن خَلقِه".[6] اور "حِفْظُ الْعُهُودِ مِنْ‏ أَخْلَاقِ‏ الْمَعْبُود"۔[7]

ولادت اور شہادت

کلینی، شیخ مفید، اور شیخ طوسی نیز ابن اثیر کے بقول امام ہادیؑ 15 ذوالحجہ سنہ 212 ہجری کو مدینہ کے قریب صریا نامی علاقے میں پیدا ہوئے۔[8]

شیخ مفید اور دوسرے محدثین کی روایت کے مطابق آپؑ رجب سنہ 254 ہجری کو سامرا میں 20 سال اور 9 مہینے تک قیام کرنے کے بعد شہید ہوئے۔[9] بعض مآخذ میں آپؑ کی شہادت کی تاریخ 3 رجب نقل کی گئی ہے[10]، جبکہ دیگر مآخذ میں یہ تاریخ  25  یا  26  جمادی الثانی بیان کی گئی ہے۔[11] اس زمانے میں تیرہواں عباسی خلیفہ معتز برسر اقتدار تھا۔

زندگی نامہ امام ہادیؑ

15 ذی‌الحجہ 212ھ
ولادت امام ہادیؑ

218ھ
وفات مامون عباسی- ناصبی عالم جنیدی کا امام ہادیؑ کے بچپنے میں آپؑ کے علم کا اعتراف

219ھ
معتصم عباسی کے حکم سے امام جواد کی گرفتاری اور بغداد کی طرف اسیر

آخر ذی‌القعدہ 220ھ
شہادت امام جوادؑ

231ھ
مدینہ میں امام حسن عسکریؑ کی ولادت- قرآن کا مخلوق ہونے کے عقیدے کی تحقیق- امام علی النقیؑ کا خلق قرآن کے بارے میں جدال کو بدعت قرار دیکر خط تحریر کرنا

232ھ
واثق بن معتصم کی وفات

234ھ
متوکل کے حکم سے امام ہادیؑ کی گرفتاری اور سامرا کی طرف اسارت- دعوت متوکل کی طرف سے ابن‌سکیت کو امام ہادی کا علم جانچنے کی دعوت

234 تا 247
زینب کذاب کا ظہور اور امام علی النقیؑ کے ذریعے اس کی رسوائی

236ھ۔
متوکل کے حکم سے تخریب قبر امام حسینؑ

237ھ
یعقوب لیث صفاری کے قیام کا آغاز

244ھ
امیر المومنینؑ اور انکی آل کی محبت کے اظہار پر متوکل کے حکم سے ابن‌سکیت کی شہادت

246ھ
وفات دعبل خزاعی

247ھ
متوکل کی امام ہادی کو جسارت- متوکل کا اپنے بیٹے منتصر کے ہاتھوں قتل اور زیارت امام حسینؑ سے منع اور منتصر کے حکم سے فدک کو اہل بیتؑ کی طرف پلٹانا

248ھ
مستعین کی خلافت کا آغاز

252ھ
مستعین کا استعفی اور معتز کی خلافت- وفات محمد ابن امام ہادیؑ

3 رجب 254ھ
شہادت امام علی النقیؑ

آپ اپنی 34 سالہ عہد امامت میں عباسی حکمرانوں "مأمون ، معتصم، واثق، متوکل، منتصر، مستعین اور معتز کے ہم عصر تھے۔ معتز کے حکم پر معتمد عباسی نے آپ کو مسموم کرکے شہید کیا [جبکہ امام حسن عسکریؑ کا قاتل بھی معتمد ہی ہے]۔ معتمد نے معتز کے حکم پر امام ہادی علیہ السلام کو شہید کیا اور امام حسن عسکری علیہ السلام کو معتمد عباسی نے اپنے دور حکومت میں شہید کیا اور یوں شاید معتمد خلافت اسلام کے دعویداروں میں واحد حکمران ہے جس نے دو ائمہ اہل بیت رسولؐ کو قتل کیا ہے گوکہ بعض نے کہا ہے کہ امام ہادی علیہ السلام کا قاتل متوکل عباسی تھا۔ [12]

تاہم متوکل کے ہاتھوں امامؑ کی شہادت کی روایت بحار کی درج ذیل روایت سے متصادم ہے : متوکل نے اپنے وزیر سے کہا کہ والیوں کے اجلاس کے دن امام ہادیؑ کو پائے پیادہ اس کے پاس لایا جائے۔ وزیر نے کہا: اس سے آپ کو نقصان ہوگا لہذا اس کام کو بھول جائیں۔ یا پھر حکم دیں کہ دوسرے والی اور امراء بھی پیدل آپ کی طرف آئیں۔ متوکل مان گیا۔ امام جب دربار میں پہنچے تو موسم گرم ہونے کی وجہ پسینے میں شرابور تھے۔ عباسی دربار کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ "میں نے امامؑ کو محل کی دہلیز میں بٹھایا اور آپ کا چہرہ مبارک تولیے سے خشک کرکے عرض کیا کہ اپنے چچا زاد بھائی متوکل نے سب کو پیدل آنے کا کہا تھا لہذا اس سے ناراض نہ ہوں۔ امام ہادی علیہ السلام نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: "تَمَتَّعُواْ فِي دَارِكُمْ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ ذَلِكَ وَعْدٌ غَيْرُ مَكْذُوبٍ"(ترجمہ:اپنے گھروں میں بس اب تین دن تک مزے اڑالو، یہ وعدہ ہے جو جھوٹا نہیں ہے)۔[13] میں نے اپنے ایک شیعہ دوست کو ماجرا سنایا تو اس نے کہا: اگر امام ہادیؑ نے یہ بات کہی ہے تو متوکل تین دن یا مرے گا یا قتل ہوگا چنانچہ اپنا سازوسامان دربار سے نکال دو۔ مجھے یقین نہ آیا لیکن دور اندیشی میں کوئی نقصان بھی نہ تھا چنانچہ میں نے اپنا سب کچھ اپنے گھر منتقل کیا اور تین دن بعد رات کے وقت مارا گیا اور میرا سرمایہ بچ گیا اور میں امام ہادیؑ کی خدمت میں پہنچا اور آپ کی ولایت صادقہ کو تسلیم کر کے شیعیان اہل بیتؑ میں سے ہو گیا۔[14]

زوجہ اور اولاد

امام ہادی علیہ السلام کی زوجہ مکرمہ کا نام سلیل خاتون[15] تھا؛ وہ ام ولد تھیں اور ان کا تعلق "نوبہ" ۔[16] سے تھا اور وہی امام حسن عسکری علیہ السلام کی والدہ ماجدہ ہیں۔

اکثر شیعہ علماء کے مطابق آپؑ کی چار بیٹے اور بیٹیاں ہیں لیکن آپؑ کی بیٹیوں کی تعداد میں اختلاف ہے۔ خصیبی کے قول کے مطابق آپؑ کے چار فرزند امام حسن عسکریؑ، محمد، حسین اور جعفر ہیں۔ مؤخر الذکر نے امامت کا جھوٹا دعوی کیا چنانچہ جعفر کذاب کے نام سے مشہور ہوا۔[17]

شیخ مفید آپ کے فرزندوں کے بارے میں لکھتے ہیں: امام ہادیؑ کے جانشین حضرت ابو محمد حسن ہیں جو آپؑ کے بعد گیارہویں امام ہیں، اور حسین، محمد اور جعفر اور ایک بیٹی بنام عائشہ،[18] جبکہ ابن شہرآشوب کا کہنا ہے کہ آپؑ کی دوسری بیٹی کا نام علیہ ہے۔[19] البتہ قرائن اور نشانیوں کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ آپؑ کی ایک ہی بیٹی تھیں جن کے کئی نام تھے۔ علمائے اہل سنت کی روایات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپؑ کے چار بیٹے اور ایک بیٹی، ہیں۔[20]

امامت

امام ہادیؑ:

"النّاسُ فِي الدُّنْيا بِالاْمْوالِ وَفِى الاْخِرَةِ بِالاْعْمالِ"
لوگ دنیا میں اپنے اموال کے ساتھ ہیں اور آخرت میں اپنے اعمال کے ساتھ۔

مآخذ، مسند الامام الہادی، ص304۔

امام ہادیؑ سنہ 220 ہجری میں اپنے والد امام جوادؑ کی شہادت کے بعد منصب امامت پر فائز ہوئے۔ ظاہر ہے کہ امام کی کمسنی کا مسئلہ امام جوادؑ کی امامت کے آغاز پر حل ہوچکا تھا چنانچہ اکابرین شیعہ کے لئے امامت کے وقت یہ مسئلہ حل شدہ تھا اور کسی کو کوئی شک و تردد پیش نہ آیا۔ شیخ مفید کے بقول[21] چند معدودافراد کے سوا امام جوادؑ کے پیروکاروں نے امام ہادیؑ کی امامت کو تسلیم کیا۔ متذکرہ معدود افراد کچھ عرصے کے لئے قم میں مدفون موسی بن محمد (متوفی  296ہجری ) المعروف بہ موسی مبرقع کی امامت کے قائل ہوئے؛ لیکن کچھ عرصہ بعد ان کی امامت کے عقیدے سے پلٹ گئے اور انھوں نے امام ہادیؑ کی امامت کو قبول کیا۔[22]   سعد بن عبد اللہ کہتے ہیں: یہ افراد اس لئے امام ہادیؑ کی امامت کی طرف پلٹ آئے کہ موسی مبرقع نے ان سے بیزاری اور برائت کا اظہار کیا اور انہیں بھگا دیا۔[23]

دلائل امامت

طبرسی اور ابن شہر آشوب کے مطابق، امام ہادی علیہ السلام کی امامت پر شیعیان آل رسولؐ کا اتفاق رائے آپؑ کی امامت کی محکم اور ناقابل انکار دلیل ہے۔[24] ان سب کے ساتھ، کلینی اور ديگر محدثین نے آپؑ کی امامت کے لئے دوسری نصوص اور دلائل کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔

روایات کے مطابق معتصم نے امام جوادؑ کو بغداد بلوایا تو آپؑ نے اس بلاوے کو اپنی جان کے لئے خطرہ اور عباسی خلیفہ کی طرف سے دھمکی، قرار دیا چنانچہ آپؑ نے امام ہادی علیہ السلام کو شیعیان اہل بیت کے درمیان اپنے جانشین کے طور پر پہچنوایا۔[25] حتی کہ آپؑ نے ایک نصِّ مکتوب بھی مدینہ میں چھوڑ دی تا کہ اس سلسلے میں کوئی شک وشبہہ باقی نہ رہے۔[26]

اس کے علاوہ رسول اللہؐ سے متعدد احادیث منقول ہیں جن میں 12 ائمۂ شیعہ کے اسماء گرامی ذکر ہوئے ہیں اور یہ احادیث امام علی نقی الہادی علیہ السلام سمیت 12 آئمہؑ کی امامت و خلافت و ولایت کی تائید کرتی ہیں۔[27] جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں کہ سورہ نساء کی آیت 59 (آیت اولو الامر) یعنی ("اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول و اولی الامر منکم") نازل ہوئی تو رسول اللہؐ نے 12 آئمہ کے نام تفصیل سے بتائے جو اس آیت کے مطابق واجب الاطاعہ اور اولو الامر ہیں؛[28] امام علیؑ سے روایت ہے کہ ام سلمہ کے گھر میں سورہ احزاب کی آیت 33 (آیت تطہیر) یعنی ("انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا") نازل ہوئی تو پیغمبر نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے کہ وہ اس آیت کا مصداق ہیں؛[29] ابن عباس سے مروی ہے کہ نعثل نامی یہودی نے رسول اللہؐ کے جانشینوں کے نام پوچھے تو آپؐ نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے۔[30]

ہم عصر عباسی خلفاء

امام ہادی اپنی امامت کی مدت میں بنی عباس کے کئی ایک خلفاء کے ساتھ ہم عصر تھے جن کے نام حسب ذیل ہیں:

  • معتصم، جو مامون کا بھائی تھا (دوران حکومت: 218 سے 227 ہجری تک)۔
  • واثق، جو معتصم عباسی کا بیٹا تھا۔ (دوران حکومت 227 سے 232 ہجری تک)۔
  • متوکل عباسی، جو واثق عباسی کا بھائی تھا۔ (دوران حکومت 232 سے 248 ہجری تک)۔
  • منتصر، جو متوکل کا بیٹا تھا۔ (مدت حکومت 6 مہینے)۔
  • مستعین، منتصر عباسی کا چچا زاد بھائی تھا۔ (دوران حکومت 248 سے 252 ہجری تک)۔
  • معتز عباسی، متوکل کا دوسرا بیٹا تھا۔ (دوران حکومت 252 سے 255 ہجری تک)۔

امام نقی علیہ السلام کو مؤخر الذکر عباسی حکمران معتز کے زمانے میں بمقام سامرا زہر دیا گیا اور وہیں آپ جام شہادت نوش کرگئے۔ آپؑ سامرا میں ہی مدفون ہوئے۔[31]

امام کے مقابل متوکل کی روش

امام ہادیؑ:

"اَلْحِكْمَةُ لا تَنْجَعُ فِى الطِّباعِ الْفاسِدَةِ"۔
حکمت فاسد طینتوں پر اثر نہیں کرتی۔

مآخذ، مسند الامام الہادی، ص304۔

متوکل کے بر سر اقتدار آنے سے پہلے عباسی خلفاء کی روش مامون ہی کی روش تھی۔ یہ روش اہل حدیث کے مقابلے میں معتزلیوں کا تحفظ کررہی تھی اور اس روش نے علویوں کے لئے مساعد و مناسب سیاسی ماحول پیدا کردیا تھا۔ متوکل کے آتے ہی تنگ نظریوں کا آغاز ہوا۔ متوکل نے اہل حدیث کی حمایت کی اور انہیں معتزلہ اور شیعہ کے خلاف اکسایا اور یوں معتزلہ اور شیعہ کی سرکوبی شروع کردی اور یہ سلسلہ شدت کے ساتھ جاری رہا۔

ابو الفرج اصفہانی نے طالبیون کے ساتھ متوکل کے نفرت انگيز طرز سلوک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ متوکل کا وزیر عبید اللہ بن یحیی بن خاقان بھی متوکل کی طرح خاندان علوی کا شدید دشمن تھا۔ طالبیوں کے ساتھ متوکل عباسی کے ناخوشایند روشوں کے نمونے بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس نے زمین کربلا ـ اور بالخصوص مرقد منور کے گرد کے علاقے ـ کو ہموار کروایا اور وہاں ہل چلوایا اور وہاں کھیتی کا انتظام کیا؛ زائرین امام حسینؑ کے ساتھ سختگیرانہ رویہ اختیار کیا اور ان کے لئے شدید اور ہولناک سزائیں مقرر کردیں۔[32] اس صورت حال کا صرف ایک ہی سبب تھا کہ کربلا میں واقع حرم حسینی شیعہ طرز فکر اور مکتب آئمہؑ کے ساتھ عوام کا پیوند و تعلق استوار کرسکتا تھا۔

سامرا میں طلب کیا جانا

حکمران صرف ظواہر کو دیکھتے ہیں

عن صالح بن سعيد قال: دَخَلْتُ عَلَى أَبِي الْحَسَنِ ع فَقُلْتُ جُعِلْتُ‏ فِدَاكَ‏ فِي‏ كُلِ‏ الْأُمُورِ أَرَادُوا إِطْفَاءَ نُورِكَ وَ التَّقْصِيرَ بِكَ حَتَّى أَنْزَلُوكَ هَذَا الْخَانَ‏ الْأَشْنَعَ خَانَ الصَّعَالِيكِ فَقَالَ هَاهُنَا أَنْتَ يَا ابْنَ سَعِيدٍ ثُمَّ أَوْمَأَ بِيَدِهِ فَقَالَ انْظُرْ فَنَظَرْتُ فَإِذَا بِرَوْضَاتٍ آنِقَاتٍ وَ رَوْضَاتٍ نَاضِرِاتٍ فِيهِنَّ خَيْرَاتٌ عَطِرَاتٌ وَ وِلْدَانٌ كَأَنَّهُنَّ اللُّؤْلُؤُ الْمَكْنُونُ وَ أَطْيَارٌ وَ ظِبَاءٌ وَ أَنْهَارٌ تَفُورُ فَحَارَ بَصَرِي وَ الْتَمَعَ وَ حَسَرَتْ عَيْنِي فَقَالَ حَيْثُ كُنَّا فَهَذَا لَنَا عَتِيدٌ وَ لَسْنَا فِي خَانِ الصَّعَالِيكِ‏" (ترجمہ: صالح بن سعید سے مروی ہے: میں ابوالحسن (امام ہادی) علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: میں تمام امور میں آپ پر فدا ہوجاؤں، وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو بجھا دیں آپ کے حق میں کوتاہی کریں۔ اسی بنا پر آپ کو اس برے مقام" خان الصعالیک" (اور نامناسب کاروان سرا) میں ٹھرایا گیا ہے۔ امامؑ نے فرمایا: اے ابن سعید کے فرزند! تمہاری مراد یہ مقام ہے؟ اور پھر ہاتھ سے اشارہ کیا اور فرمایا: دیکھو؛ پس میں نے ایک دوسرے سے ملے ہوئے جاذب نظر باغات، معطر خواتین، صدف میں پیوست موتیوں جیسے غلاموں، پرندوں اور جاری نہروں کو دیکھا؛ پس میری آنکھیں حیرت زدہ ہوئیں۔ چمکتی ہوئی روشنیاں مجھ تک آتی تھیں اور میری نظریں عاجز ہوچکی تھیں۔ بعد ازاں امامؑ نے فرمایا: ہم جہاں بھی ہوں یہ ساری سہولیات ہمارے لئے فراہم ہیں۔ اور ہم خان صعالیک میں نہیں ہیں۔ [بات صرف یہ ہے کہ حکمران صرف ظواہر کو دیکھتے ہیں]۔ [33])

مآخذ، الكليني، الکافی، ج1 ص498۔

متوکل نے سنہ 233 ہجری میں امامؑ کو مدینہ سے سامرا طلب کیا۔ ابن جوزی نے خاندان رسالتؐ کے دشمنوں کی طرف سے متوکل کے ہاں امامؑ کی بدگوئی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے: متوکل نے بدگمانیوں پر مبنی خبروں کی بنیاد پر جو امامؑ کی طرف عوام کے رجحان و میلان پر مبنی تھیں، امام ہادیؑ کو سامرا طلب کیا۔[34]

شیخ مفید لکھتے ہیں: امام علی نقیؑ نے متوکل کو ایک خط کے ضمن میں بدخواہوں کی شکایات اور بدگوئیوں کی تردید کی اور متوکل نے جواب میں احترام آمیز انداز اپنا کر ایک خط لکھا اور آپؑ کو سامرا آنے کی دعوت دی۔[35] کلینی نیز شیخ مفید نے متوکل کے خط کا متن بھی نقل کیا ہے۔

متوکل نے امامؑ کی مدینہ سے سامرا کا منصوبہ اس انداز سے ترتیب دیا تھا کہ لوگ مشتعل نہ ہوں اور امامؑ کی جبری منتقلی کی خبر حکومت کے لئے ناخوشگوار صورت حال کے اسباب فراہم نہ کرے تاہم مدنیہ کے عوام ابتدا ہی سے اس حقیقت حال کو بھانپ گئے تھے۔

ابن جوزی اس سلسلے میں یحیی بن ہرثمہ سے نقل کرتے ہیں: میں مدینہ چلا گیا اور شہر میں داخل ہوا تو وہاں کی عوام کے درمیان غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور انھوں نے بعض غیر متوقع مگر پرامن اور ملائم اقدامات عمل میں لا کر اپنے رد عمل کا اظہار کیا۔ رفتہ رفتہ عوامی رد عمل اس حد تک پہنچا کہ اعلانیہ طور پر آہ و فریاد کرنے لگے اور اس سلسلے میں اس قدر زیادہ روی کی کہ مدینہ نے اس سے قبل کبھی اس قسم کی صورت حال نہیں دیکھی تھی۔[36]

خطیب بغدادی (متوفٰی 463 ہجری) نے لکھا ہے: متوکل عباسی نے امام ہادیؑ کو مدینہ سے بغداد اور وہاں سے سرّ من رأٰی منتقل کیا اور آپؑ 20 سال اور 9 مہینے کی مدت تک وہیں قیام پذیر رہے اور معتز کے دور حکومت میں وفات پاکر وہیں مدفون ہوئے۔[37]

سامرا میں قیام اور متوکل کا رویہ

سامرا پہنچنے پر امام ہادیؑ کا عوامی سطح پر بہت زیادہ خیر مقدم کیا گیا اور آپؑ کو خزیمہ بن حازم کے گھر میں بسایا گیا۔[38]

شیخ مفید کہتے ہیں: سامرا میں پہنچنے کے پہلے روز متوکل نے حکم دیا کہ آپؑ کو تین دن تک "خَانِ الصَّعَالِيكِ" یا("دار الصَّعَالِيكِ")[39] میں رکھا اور بعدازاں آپؑ کو اس مکان میں منتقل کیا گیا جو آپؑ کی سکونت کے لئے معین کیا گیا تھا۔ صالح بن سعید کی رائے کے مطابق متوکل نے یہ اقدامات امامؑ کی تحقیر کی غرض سے کیا تھا۔[40]

امامؑ آخر عمر تک اسی شہر میں مقیم رہے۔ شیخ مفید سامرا میں امامؑ کے جبری قیام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: خلیفہ بظاہر امامؑ کی تعظیم و تکریم کرتا تھا لیکن درپردہ آپؑ کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتا تھا گو کہ وہ کبھی بھی ان سازشوں میں کامیاب نہ ہوسکا۔[41]

امامؑ سامرا میں اس قدر صاحب عظمت و رأفت تھے کہ سب آپؑ کے سامنے سر تعظیم خم کرتے تھے اور نہ چاہتے ہوئے بھی آپؑ کے سامنے منکسرالمزاجی کا اظہار کرتے اور آپؑ کا احترام کرتے تھے۔[42] امام علی نقی سامرا میں جبری اقامت 20 سال اور 9 ماہ کی مدت کے دوران ظاہری طور پر آرام کی زندگی گزار رہے تھے مگر متوکل انہیں اپنے درباریوں میں لانا چاہتا تھا تا کہ اس طرح وہ امام کی مکمل نگرانی و جاسوسی کر سکے نیز لوگوں کے درمیان امام کے مقام کو گرا دے۔[43]

متوکل کو خبر دی گئی کہ امام کے گھر میں جنگی اسلحہ اور شیعوں کی جانب سے امام کو لکھے گئے خطوط موجود ہیں۔ اس نے ایک گروہ کو امام کے گھر پر غافل گیرانہ حملے کا حکم دیا۔ حکم پر عمل کیا گیا جب اس کے کارندے امام کے گھر داخل ہوئے تو انہوں نے اس گھر میں امام کے ایسے کمرے میں اکیلا پایا جس کا دروازہ بند تھا اور اس کے فرش پر صرف ریت اور ماسہ موجود تھا۔ امام پشم کا لباس زیب تن کئے اور سر پر ایک رومال لئے قرآنی آیات زمزمہ کر رہے تھے۔ امام کو اسی حالت میں متوکل کے حضور لایا گیا ۔

جب امام متوکل کے پاس حاضر ہوئے تو متوکل کے ہاتھ میں ایک کاسۂ شراب تھا۔ اس نے امام کو اپنے پاس جگہ دی اور شراب کا پیالہ امام کو پیش کیا۔ امام نے جواب دیا میں میرا گوشت و پوست شراب سے ابھی تک آلودہ نہیں ہوا ہے۔ اس نے امام سے تقاضا کیا کہ وہ اس کے لئے اشعار پڑھیں جو اسے وجد میں لے آئیں امام نے جواب دیا میں اشعار کم کہتا ہوں ۔متوکل کے اصرار پر امام نے درج ذیل اشعار کہے :[44]

"باتوا علی قُلَلِ الأجبال تحرسهم""غُلْبُ الرجال فما أغنتهمُ القُللُ"
"انہوں نے پہاڑوں کی چوٹیوں پر رات بسر کی تا کہ وہ ان کی محافظت کریں لیکن ان چوٹیوں نےان کا خیال نہ رکھا"
"واستنزلوا بعد عزّ عن معاقلهم""فأودعوا حُفَراً، یا بئس ما نزلوا"
"عزت و جلال کے دور کے بعد انہیں نیچے کھینچ لیا گیاانہیں گڑھوں میں جگہ دی گئی اور کتنی ناپسند جگہ اترے ہیں"

اشعار ختم ہوئے تو متوکل سمیت تمام حاضرین سخت متاثر ہوئے یہاں تک کہ متوکل کا چہر آنسؤوں سے بھیگ گیا اور اس نے بساط مےنوشی لپیٹنے کا حکم دیا اور ہدایت کی کہ امامؑ کو اکرام و احترام کے ساتھ گھر چھوڑ آئیں۔[45]

منتصر کا دور

امامت امام علی نقیؑ 220-254ھ
منتصر6 مہینے 248ھ کے
امام علی نقی کی امامت کے ہم عصر حکمران

  متوکل کے بعد اس کا بیٹا منتصر اقتدار پر قابض ہوا جس کی وجہ سے امام علی نقیؑ سمیت علویوں پر عباسی حکمرانوں کا دباؤ کم ہوگیا؛ گوکہ دوسرے علاقوں میں عباسی کارگزاروں کا دباؤ شیعیان اہل بیت پر بدستور جاری تھا۔

گذشتہ ادوار کی نسبت گھٹن کی کسی حد تک کمی کے بدولت مختلف علاقوں میں شیعیان اہل بیت] کی تنظیم کو تقویت ملی۔ جب بھی کسی شہر میں امامؑ کا کوئی وکیل گرفتار کیا جاتا تھا، آپؑ دوسرا وکیل مقرر کر دیتے تھے۔

اسلامی معارف کی تشریح

یہ وہ زمانہ تھا جب رسول اللہؐ کی بعثت کے اہداف و مقاصد اور امامؑ کا ہم عصر معاشرے اور حکمرانوں کے درمیان بڑا فاصلہ حائل ہوچکا تھا اور آپؑ عباسی گھٹن کے اس دور میں رسول اللہؐ کے اہداف کے لئے کوشش کر رہے تھے اور اللہ کی عنایت خاصہ سے اس عجیب طوفان اور مبہم صورت حال میں کشتی ہدایت کو ساحل تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے اور آپ نے ہدایت و ارشاد اور ابلاغ و تبلیغ کے عصری تقاضوں کو سامنے رکھ کر اسلامی معارف و تعلیمات کی نشر و اشاعت میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ مختلف روشوں اور مختلف فرقے اسلامی معاشرے کو گمراہ کرنے میں مصروف تھے اور بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ گویا امامت کا نظام مغلوب ہوچکا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر آج امام ہادیؑ کے گرانقدر آثار ہمارے درمیان موجود ہیں تو یہ اس تصور کے بطلان کی دلیل ہے۔ جو روشیں امامؑ اس دور میں تبلیغ اسلام کی راہ میں بروئے کار لارہے تھے وہ بالکل منفرد اور اپنی مثال آپ تھیں۔

قرآن کی بنیادی حیثیت

اہل تشیع کے درمیان غُلات کی سرگرمیوں کی وجہ سے معرض وجود میں آنے والے انحرافات کی وجہ سے دوسرے فرقوں نے مکتب تشیع کو اپنی یلغار کا نشانہ بنانا شروع کیا۔ ان انحرافات میں سے ایک تحریف قرآن کا مسئلہ تھا جس کا تصور البتہ تشیع تک محدود نہیں ہے بلکہ اہل سنت کی بعض کتب و مآخذ میں بھی تحریف کے سلسلے میں بعض غلط روایات نقل ہوئی ہیں۔

اس تہمت کا ازالہ کرنے کے لئے آئمۂ شیعہؑ نے قرآن کو بنیاد قرار دیتے اور فرماتے جو روایت قرآن سے متصادم ہو وہ باطل ہے۔

امام ہادیؑ نے ایک مفصل رسالہ لکھا جس میں آپؑ نے قرآن کی بنیادی حیثیت پر زور دیا اور قرآن ہی کو روایات کی کسوٹی اور صحیح اور غیر صحیح کی تشخیص کا معیار قرار دیا۔قرآن کو ایک باضابطہ طور ایک ایسا متن قرار دیا کہ تمام اسلامی مکاتب فکر اس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ یہ رسالہ ابن شعبہ حرانی نے نقل کیا ہے۔

امامؑ نے اپنے زمانے کے مختلف مکاتب اور فرقوں کے اکابرین کے ساتھ ایک اجلاس سے خطاب کرکے قرآن سے استناد کیا اور سب کو اپنی رائے قبول کرنے پر آمادہ کیا۔[46] عیاشی کی روایت میں ہے کہ:"كان ابو جعفر وابو عبد الله عليهما السّلام لا يصدّق علينا إلا بما يوافق كتاب الله وسنّة نبيه"، ترجمہ: امام ابوجعفر و امام ابو عبداللہ علیہما السلام ہمارے لئے صرف ان روایات کی تصدیق فرمایا کرتے تھے جو قرآن و سنت کی موافق ہوتی تھیں۔[47]

امامؑ اور خلق قرآن کا مسئلہ

تیسری صدی ہجری کے آغاز میں حدوث و قِدَمِ قرآن کی بحث نے عالم تسنن کو اپنی طرف متوجہ کیا ۔ یہ بحث خود اہل تسنن میں فرقوں اور گروہوں کے معرض وجود میں آنے کا سبب بنی۔

شیعیان اہل بیتؑ نے آئمہؑ کے فرمان کے مطابق خاموشی اختیار کرلی۔ امام ہادیؑ نے ایک شیعہ عالم کے خط کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: اس سلسلے میں اظہار خیال نہ کرو اور حدوث و قِدَمِ قرآن میں کسی فریق کی جانبداری نہ کرو۔[48]

امام ہادیؑ کے اس مؤقف کی بنا پر ہی شیعہ اس لاحاصل بحث میں الجھنے سے محفوظ رہے۔

علم کلام

مختلف شیعہ گروہوں کے درمیان اختلاف رائے، ان کی ہدایت کو آئمہؑ کے لئے دشواری کا سبب بن رہا تھا؛ شیعیان اہل بیتؑکا مختلف شہروں میں پھیلے ہونے اور کبھی دوسرے فرقوں کی بعض نظریات کے تحت تاثیر قرار پانا مزید دشوار تر کرتا تھا ۔ اس شور وغوغا میں شیعہ مخالف گروہ اور شیعہ دشمن مسالک ان اختلافات کو مزید ہوا دیتے اور انہیں بہت زيادہ عمیق ظاہر کرتے تھے ۔ کشی سے منقولہ روایت واضح طور پر بتاتی ہے کہ ایک فرقے سے تعلق رکھنے والے شخص نے بیٹھ کر زراریہ، عمّاریہ اور یعفوریہ نامی مذاہب بنا دئے اور انہیں تشَیُع فرقے قرار دیتے ہوئے امام صادقؑ کے بزرگ اصحاب یعنی زرارہ بن اعین ، عمار ساباطی اور ابن ابی یعفور سے منسوب کیا۔[49]

آئمۂ شیعہؑ کو کبھی ایسے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا تھا جن میں سے بعض کا سبب شیعہ علما کے درمیان اختلافات سے ہوتا تھا۔ یہ سوالات کبھی تو سطحی قسم کے لیکن کبھی گہرائی کے حامل ہوتے تھے اور آئمہؑ مداخلت کرکے اصلاح کیا کرتے تھے۔ ان کلامی و اعتقادی مسائل میں سے ایک تشبیہ اور تنزیہ کا مسئلہ تھا۔ آئمہؑ ابتدا ہی سے نظریۂ تنزیہ کی حقانیت پر تاکید کرتے تھے۔

تشبیہ اور تنزیہ کی بحث میں ہشام بن حکم اور ہشام بن سالم کا موقف اور کلام شیعیان اہل بیتؑ کے درمیان اختلاف کا سبب بنااورآئمہؑ کو مسلسل اس قسم کے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

اس سلسلے میں امام ہادیؑ سے 21 حدیثیں نقل ہوئی ہیں جن میں سے بعض مفصل ہیں اور وہ سب اس حقیقت کی ترجمان ہیں کہ امامؑ تنزیہ کے مؤقف کی تائید کرتے تھے۔[50]

جبر و اختیار کے مسئلے میں بھی ایک مفصل رسالہ امام ہادیؑ کے علمی ورثے کے طور پر موجود ہے۔ اس رسالے میں قرآن کریم کی آیات کو بنیاد بنایا گیا ہے اور امام صادقؑ سے منقولہ حدیث "لا جبر ولا تفویض بل امر بین الامرین" کی تحلیل و تشریح کی گئی ہے اور مسئلہ جبر و تفویض کے سلسلے میں شیعہ کلامی اصولوں کو بیان کیا گیا ہے۔[51]

حضرت امام علی نقیؑ سے مقام استدلال میں بیان ہونے والی اکثر روایات جبر و تفویض سے مربوط ہیں۔

دعا اور زیارت

دعا اور زیارت امام علی نقی ؑ کا ایک ایسا نمایاں کارنامہ ہے جس نے شیعیان اہل بیتؑ کی تربیت اور انہیں شیعہ معارف و تعلیمات سے روشناس کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ دعائیں اگر ایک طرف سے خدا کے ساتھ راز و نیاز پر مشتمل تھیں تو دوسری جانب مختلف صورتوں میں ایسے سیاسی اور معاشرتی مسائل کی طرف اشارہ بھی کرتی ہیں جو شیعوں کی سیاسی زندگی میں بہت مؤثر رہیں اور منظم انداز سے مخصوص قسم کے مفاہیم کو مذہب شیعہ تک منتقل کرتی رہی ہیں۔

زیارت جامعۂ کبیرہ

مفصل مضمون: زیارت جامعۂ کبیرہ

زیارت جامعۂ کبیرہ آئمہ معصومینؑ کا اہم ترین اور کامل ترین زیارت نامہ ہے جس کے ذریعے ان سب کی دور یا نزدیک سے زیارت کی جا سکتی ہے۔

یہ زیارت نامہ شیعیان اہل بیتؑ کی درخواست پر امام ہادیؑ کی طرف سے صادر ہوا۔ زیارت نامے کے مضامین حقیقت میں آئمہؑ کے بارے میں شیعہ عقائد، ائمۂؑ کی منزلت اور ان کی نسبت ان کے پیروکاروں کے فرائض پر مشتمل ہے۔ یہ زیارت نامہ فصیح ترین اور دلنشین ترین عبارات کے ضمن میں امام شناسی کا ایک اعلی درسی نصاب فراہم کرتا ہے۔ زیارت جامعہ حقیقت میں عقیدۂ امامت کے مختلف پہلؤوں کی ایک اعلی اور بلیغ توصیف ہے کیونکہ شیعہ کی نظر میں دین کا استمرار و تسلسل اسی عقیدے سے تمسک سے مشروط ہے۔ چونکہ اس زیارت کے مضامین و محتویات ائمۂؑ کے مقامات و مراتب کے تناظر میں وارد ہوئے ہیں چنانچہ امام ہادیؑ نے فرمایا ہے کہ زیارت جامعہ پڑھنے سے پہلے زائر 100 مرتبہ تکبیر کہے تاکہ ائمۂؑ کے سلسلے میں غلو سے دوچار نہ ہو۔[52]

شیعوں سے رابطہ

امام ہادی علیہ السلام ادارہ وکالت کے توسط سے اپنے پیروکاروں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ یہ روش حقیقت میں ابتداء ہی سے آئمہؑ کی سیرت کا تسلسل تھی۔ اس دور میں پیروان اہل بیتؑ کی اکثریت کا مسکن ایران تھا اور امام ہادیؑ کا غالیوں سے بھی مقابلہ رہا۔

نظامِ وکالت

اگرچہ ائمۂ شیعہ کا آخری دور عباسی خلفا کے شدید دباؤ کا دور تھا لیکن اس کے باوجود اسی دور میں شیعہ تمام اسلامی ممالک میں پھیل چکے تھے۔ عراق، یمن اور مصر اور دیگر ممالک کے شیعوں اور امام نقی ؑکے درمیان رابطہ برقرار تھا۔ وکالت کا نظام اس رابطے کے قیام، دوام اور استحکام کی وجہ تھا۔ وکلا ایک طرف سے خمس اکٹھا کرکے امام کے لئے بھجواتے تھے اور دوسری طرف سے لوگوں کی کلامی اور فقہی پیچیدگیاں اور مسائل حل کرنے میں تعمیری کردار ادا کرتے اور اپنے علاقوں میں اگلے امام کی امامت کے لئے ماحول فراہم کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتے تھے۔

ڈاکٹر جاسم حسین کے بقول: تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وکلا کے تعین کے لئے مطلوبہ شہروں کو چار علاقوں میں تقسیم کیا جاتا تھا:

  1. بغداد، مدائن، سواد اور کوفہ؛
  2. بصرہ اور اہواز؛
  3. قم اور ہمدان؛
  4. حجاز، یمن اور مصر۔

آئمہ کے وکلا قابل اعتماد افراد کے توسط سے خط و کتابت کے ذریعے امامؑ کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے۔ ان بزرگواروں کے فقہی اور کلامی معارف کا ایک بڑا حصہ خطوط و مکاتیب کے ذریعے ان کے پیروکاروں تک پہنچتا تھا۔

امام ہادی ؑ کے وکلا میں سے ایک علی بن جعفر تھے جن کا تعلق بغداد کے قریبی گاؤں ہمینیا سے تھا۔

ان کے بارے میں متوکل کو بعض خبریں ملیں جن کی بنا پر انہیں گرفتار کرکے طویل عرصے تک قید و بند میں رکھا گیا اور رہائی کے بعد امام ہادیؑ کی ہدایت پر وہ مکہ چلے گئے اور آخر عمر تک وہیں سکونت پذیر رہے۔[53]

حسن بن عبد ربہ یا بعض روایات کے مطابق ان کے فرزند علی بن حسن بن عبد ربہ بھی امام ہادیؑ کے وکلا میں سے ایک تھے جن کے بعد امام ہادیؑ نے ان کا جانشین ابو علی بن راشد کو مقرر کیا۔

اسماعیل بن اسحق نیشاپوری کے بارے میں کشی کی منقولہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ احتمال ہے کہ احمد بن اسحق رازی بھی امام ہادیؑ کے وکلا میں سے ایک تھے۔[54]

شیعیانِ ایران

پہلی صدی میں زیادہ تر شیعیان اہل بیتؑ کا تعلق شہر کوفہ سے تھا کیونکہ ان افراد کا کوفی سے ملقب ہونا حقیقت میں ان کے شیعہ ہونے کی علامت تھی۔

امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے دور سے بعض اصحاب آئمہ کے نام کے ساتھ قمی کا عنوان دکھائی دیتا ہے۔ حقیقت میں یہ وہ عرب نژاد اشعری خاندان ہے جس نے قم میں سکونت اختیار کرلی تھی۔

امام ہادیؑ کے زمانے میں قم شیعیان ایران کا اہم ترین مرکز سمجھا جاتا تھا اور اس شہر کے عوام اور علما اور آئمہؑ کے درمیان گہرا اور قریبی رابطہ پایا جاتا تھا؛ جس قدر شیعیان کوفہ کے درمیان غلو آمیز اعتقادات رائج تھے اسی قدر قم میں اعتدال اور غلو کی مخالف فضا حاکم تھی۔ ایرانی اور قمی شیعیان اس مسئلے میں اعتدال پر اصرار رکھتے اور غلو سے دوری کرتے تھے۔

قم کے ساتھ ساتھ شہر آبہ یا آوہ اور کاشان کے عوام بھی شیعہ معارف و تعلیمات کے زیر اثر اور قم کے شیعہ تفکرات کے تابع تھے۔ بعض روایات میں محمد بن علی کاشانی کا نام مذکور ہے جنہوں نے توحید کے باب میں امام ہادیؑ سے ایک سوال پوچھا تھا۔[55]

قم کے عوام کا امام ہادیؑ سے مالی حوالے سے بھی رابطہ تھا۔ اس حوالے سے محمد بن داؤد قمی اور محمد طلحی کا نام لیا گیا ہے جو قم اور نواحی شہروں کے عوام کا خمس اور ان کے عطیات امامؑ تک پہنچا دیتے تھے اور ان کے فقہی اور کلامی سوالات بھی آپؑ کو منتقل کرتے تھے۔[56]

قم اور آوہ کے عوام امام رضاؑ کے مرقد منور کی زیارت کے لئے مشہد کا سفر اختیار کرتے اور امام ہادیؑ نے انہیں اسی بنا پر "مغفور لہم" کی صفت سے نوازا ہے۔[57]

ایران کے دوسرے شہروں کے عوام کا رابطہ بھی آئمہؑ کے ساتھ برقرار رہتا تھا؛ حالانکہ امویوں اور عباسیوں کے قہر آمیز غلبے کی وجہ سے ایرانیوں کی اکثریت کا رجحان سنی مسلک کی جانب تھا اور شیعہ اقلیت سمجھے جاتے تھے۔

امام ہادیؑ کے اصحاب میں سے ابو مقاتل دیلمی نے امامت کے موضوع پر حدیث اور کلام پر مشتمل ایک کتاب تالیف کی۔[58] دیلم [59] دوسری صدی ہجری کے اواخر سے بہت سے شیعیان اہل بیتؑ کا مسکن و ماوٰی تھا؛ علاوہ ازیں عراق میں سکونت پذیر دیلمی بھی مذہب تشیع اختیار کر چکے تھے۔

امام ہادیؑ کے اصحاب کی مقامی نسبتوں کو واضح کرنے والے شہری القاب کسی حد تک شیعہ مراکز اور مساکن کی علامت بھی قرار دیئے جا سکتے ہیں. مثال کے طور پر بشر بن بشار نیشاپوری، فتح بن یزید جرجانی، احمد بن اسحق رازی، حسین بن سعید اہوازی، حمدان بن اسحق خراسانی اور علی بن ابراہیم طالقانی کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے جو ایران کے مختلف شہروں میں سکونت پذیر تھے. جرجان اور نیشاپور چوتھی صدی ہجری میں شیعہ فعالیتوں کی بنا پر شیعہ مراکز میں تبدیل ہوگئے.

بعض دیگر شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ہادیؑ کے بعض اصحاب قزوین میں سکونت پذیر تھے۔[60]

اصفہان ـ کہ جن کے متعلق متعصب سنیوں حنبلی ہونے کی خبر معروف تھی اور اس شہر کی اکثریت کا تعلق اہل سنت سے ہی تھاـ میں امام ہادیؑ کے بعض اصحاب سکونت پذیر تھے جن میں سے بطور نمونہ ابراہیم بن شیبہ اصفہانی کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے وہ اگرچہ کاشانی کے تھے لیکن ظاہرا طویل مدت تک اصفہان میں قیام پذیر ہونے کے وجہ سے اصفہانی کے عنوان سے مشہور ہوئے۔ اس کا برعکس بھی صحیح ہے جیسا کہ امام ہادیؑ کے ایک صحابی علی بن محمد کاشانی کاشانی کے لقب سے معروف ہوئے اگرچہ انکا تعلق اصفہان سے تھا؛ نیز[61] ایک روایت میں عبد الرحمن نامی شخص کا ذکر آیا ہے جن کا تعلق اصفہان سے تھا۔ وہ سامرا میں امام ہادیؑ کی ایک کرامت دیکھ کر مذہب شیعہ اختیار کر چکے تھے.[62] ْ ہمدان میں امام ہادی علیہ السلام اپنے وکیل کے نام خط پر مشتمل روایت میں آپ اس طرح فرماتے ہیں: میں نے ہمدان میں اپنے دوستوں سے تمہاری سفارش کی ہے۔[63]

غالی شیعہ

امام ہادیؑ آئمۂ سابقین علیہم السلام کی روش جاری رکھتے ہوئے غالیوں کے خلاف میدان میں اترے کیونکہ آپؑ کے اصحاب میں بھی بعض غالی شامل تھے.ان میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں:

  • علی بن حسکہ: یہ قاسم شعرانی یقطینی کا استاد تھا اوریہ دونوں غالیوں کے بزرگوں اور آئمہؑ کے نفرین اور لعن شدہ اشخاص تھے۔ محمد بن عیسی نے ان دونوں کے متعلق امام حسن عسکری ؑ کو خط میں لکھا: ہمارے یہاں ایک جماعت ہے جو آپ سے ایسی احادیث نقل کرتے ہیں جنہیں ہم نہ تو رد کر سکتے ہیں چونکہ آپ سے منقول ہیں اور ان میں ایسی باتیں ہوتی ہیں کہ جن کی وجہ سے انہیں قبول بھی نہیں کر سکتے۔ وہ "ان الصلاة تنہی عن الفحشاء و المنکر..."میں کہتے ہیں۔ ان سے شخص (امام حسن عسکری) مراد ہے کوئی رکوع و سجود مراد نہیں ہے اسی طرح فرائض و سنن کی وہ تاویل کرتے ہیں....امام نے جواب میں لکھا۔ یہ ہمارا دین نہیں ہے تم ان سے دوری اختیار کرو۔[64]
  •   حسن بن محمد بن بابا قمی اور محمد بن موسی شریقی: یہ علی بن حسکہ کے شاگرد تھے۔ جو لوگ امام ہادیؑ کے لعن کا مصداق قرار پائے۔ امامؑ نے ایک خط کے ضمن میں ابن بابا قمی سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: وہ سمجھتا ہے کہ میں نے اسے بھیجا ہے اور وہ میرا باب ہے۔ پھر فرمایا: اے محمد!اگر تمہارے لئے ممکن ہو تو پتھر سے اسکا سر کچل ڈالو۔[65]
  • محمد بن نصیر نمیری: یہ بھی غالیوں میں سے ہے۔ امام حسن عسکری ؑ نے اس پر لعن کی تھی۔ ایک فرقہ محمد بن نصیر نمیری کی نبوت کا قائل تھا کیونکہ نمیری نے ادعا کیا تھا کہ امام حسن عسکری ؑ نے اسے نبی اور رسول بنا کر بھیجا ہے۔ امام حسن عسکری ؑ کے بارے میں خدائی کا دعویدار تھا۔ تناسخ کا قائل تھا، محارم سے نکاح نیز مرد کا مرد سے نکاح جائز ہے و ...[66].محمد موسی بن حسن بن فرات بھی اس کی پشت پناہی کرتا تھا. محمد بن نصیر کے پیروکار، جو نُصَیری کہلائے۔ نصیری مشہور ترین غالی فرقے کا نام ہے جو خود کئی فرقوں میں بٹ گئے ہیں۔[67]
  • فارس بن حاتم قزوینی: امام ہادیؑ نے حکم دیا کہ فارس بن حاتم کو جھٹلایا جائے اور اس کی ہتک کی جائے۔ جب علی بن جعفر اور فارس بن حاتم کے درمیان جھگڑا واقع ہوا تو آپؑ نے علی بن جعفر کی حمایت کی اور ابن حاتم کو رد کر دیا۔ نیز آپؑ نے ابن حاتم کے قتل کا حکم جاری کیا اور اس کے قاتل کے لئے اخروی سعادت اور جنت کی ضمانت دی۔ بالآخر جنید نامی شیعہ فرد نے امامؑ سے بالمشافہہ اجازت حاصل کرکے ابن حاتم کو ہلاک کر دیا۔[68]
  • حسین بن عبید اللہ محرر: یہ امام ہادیؑ کے اصحاب میں تھا۔[69].اس پر غلو کا الزام تھا۔ قمیوں کی جماعت نے غلو کے ملزمین کے ہمراہ اسے قم سے باہر نکال دیا۔[70].

امام کی شہادت

معتمد عباسی نے امامؑ کو زہر دے کر شہید کیا[73] لوگ آپؑ کے جنازے میں اپنے چہرے اور رخساروں کو پیٹ رہے تھے. انہوں نے امامؑ کے جنازے کو اپنے کندھوں پر اٹھاکر گھر سے باہر نکالا اور "‌موسی بن بغا‌" کے گھر کے سامنے قرار دیا. معتمد نے انہیں دیکھا تو فیصلہ کیا کہ امامؑ کے جنازے کی نماز پڑھائے. چنانچہ اس نے حکم دیا کہ جنازہ زمین پر رکھا جائے اور اس نے نماز پڑھائی اگرچہ امام حسن عسکری علیہ السلام قبل ازاں شیعیان سامرا کے ہمراہ آپؑ کی نماز جنازہ ادا کرچکے تھے. اس کے بعد امامؑ کو اس گھر میں دفنا دیا گیا جہاں آپؑ کو کچھ عرصے سے قید رکھا گیا تھا. روایت ہے کہ امامؑ کے جنازے میں عوام کی بھیڑ اس قدر زيادہ تھی کہ امام عسکریؑ کے لئے ان کے درمیان حرکت کرنا مشکل ہورہا تھا. حتی کہ ایک نوجوان ایک گھوڑا امام کے پاس لایا اور لوگ گھر تک آپ کے ساتھ چلے.[74]

شاگرد اور اصحاب

مفصل مضمون: اصحاب امام ہادیؑ

شیخ طوسی نے مرقوم کیا ہے کہ دسویں امامؑ کے شاگردوں اور آپؑ سے روایت کرنے والے اصحاب کی تعداد 185 تک پہنچتی ہے. امامؑ کے بعض معروف و مشہور اصحاب کے نام حسب ذیل ہیں:

عبدالعظیم حسنی

مفصل مضمون: عبدالعظیم حسنی

عبدالعظیم حسنی ـ جن کا سلسلۂ نسب امام حسنؑ تک پہنچتا ہے ـ شیخ طوسی کے مطابق امام ہادیؑ کے اصحاب میں سے ہیں گوکہ بعض دیگر مآخذ میں ان کو امام جوادؑ اور امام ہادیؑ کے اصحاب میں شمار کیا گیا ہے.

"عبدالعظیم" ایک زاہد و پارسا، صاحب حریت، عالم و فقیہ‌ اور امام دہمؑ کے نزدیک قابل اعتماد اور موثق شخصیات میں سے ہیں. "ابو حماد رازی‌" کہتے ہیں: میں سامرا میں امام ہادیؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپؑ سے بعض مسائل اور حلال اور حرام کے بارے میں بعض سوالات پوچھے. وداع کا وقت آیا تو امامؑ نے فرمایا: ‌اے حماد! جب بھی تمہیں اپنے منطقۂ سکونت میں دین کے سلسلے میں کوئی مشکل پیش آئے تو عبدالعظیم حسنی سے پوچھو اور میرا سلام انہیں پہنچا دو.[75]

عثمان بن سعید

مفصل مضمون: عثمان بن سعید

عثمان بن سعید نے صرف گیارہ سال کی عمر میں امام ہادیؑ کی حدمت میں زانوئے تلمذ تہہ کیا اور بہت تھوڑے عرصے میں اس قدر ترقی کی کہ امامؑ نے انہیں اپنا "ثقہ" اور "امین" قرار دیا.[76]

ایوب بن نوح

مفصل مضمون: ایوب بن نوح

ایوب بن نوح امین اور قابل اعتماد انسان تھے اور عبادت اور تقوی میں اعلی رتبے کے مالک تھے یہاں تک کہ علمائے رجال انہیں اللہ کے صالح بندوں کے زمرے میں قرار دیتے تھے. وہ امام ہادیؑ اور امام عسکریؑ کے وکیل تھے اور انھوں نے امام ہادیؑ سے بہت سی احادیث نقل کی ہیں.[77]

حسن بن راشد

مفصل مضمون: حسن بن راشد

حسن بن راشد ـ جن کی کنیت ابو علی ہے ـ امام جوادؑ اور امام ہادیؑ کے اصحاب میں سے ہیں اور ان دو بزرگواروں کے نزدیک اعلی منزلت کے مالک تھے۔ شیخ مفید کہتے ہیں کہ وہ نمایاں فقہاء اور ان رتبۂ اول کی شخصیات میں سے ہیں جن سے حلال و حرام اخذ کیا جاتا ہے اور ان کی مذمت اور ان پر طعن کا امکان نہیں پایا جاتا۔

شیخ طوسی نے بھی آئمہؑ کے ممدوح اصحاب اور سفراء کے بارے میں بحث کرتے ہوئے حسن بن راشد کا نام امام ہادیؑ کے اصحاب کے ضمن میں بیان کیا ہے اور امام ہادیؑ کی طرف سے انہیں ارسال کردہ مکاتیب و خطوط کی طرف اشارہ کیا ہے۔[78]

حسن بن علی ناصر

مفصل مضمون: حسن بن علی ناصر

شیخ طوسی نے انہیں امام ہادیؑ کے اصحاب میں شمار کیا ہے. وہ سید مرتضی علم الہدی کے نانا ہیں.[79] سید مرتضی ان کے بارے میں کہتے ہیں: علم، فقہ اور زہد و پارسائی میں اس کی مرتبت اور برتری سورج سے زیادہ روشن ہے. وہی ہیں جنہوں نے "دیلم" میں اسلام کی ترویج کی. یہاں تک کہ اس علاقے کے لوگوں نے ان کی برکت سے گمراہی سے نجات پائی اور ان کی دعا سے حق کی طرف پلٹ آئے. ان کی پسندیدہ صفات اور نیک اخلاق حد و حساب سے باہر ہیں.[80]

امام ہادیؑ کی حدیثیں

امام ہادی علیہ السلام سے مروی 12 حدیثیں:

عنوان حدیث
قم اور آبہ کے لوگ "أهْلُ قُمْ وَأهْلُ آبَةِ مَغْفُورٌ لَهُمْ، لِزيارَتِهِمْ لِجَدّى عَلىّ ابْنِ مُوسَى الرِّضا عليه السلام بِطُوس، ألا وَمَنْ زارَهُ فَأصابَهُ فى طَريقِهِ قَطْرَةٌ مِنَ السَّماءِ حُرَِّمَ جَسَدُهُ عَلَى النّار".

ترجمہ: "قم اور آبہ کے لوگوں کی مغفرت ہوچکی ہے کیونکہ وہ طوس میں میرے جد بزرگوار حضرت امام علی ابن موسی الرضا (علیہ السلام) کی زیارت کو جاتے ہیں. جان لو کہ جو بھی ان کی زیارت کرے اور راستے میں اس کے اوپر آسمان سے ایک قطرہ پڑجائے (اور کسی مشکل سے دوچار ہوجائے) اس کا جسم آتش جہنم پر حرام ہو جاتا ہے".[81]

قرآن سدا بہار "عَنْ يَعْقُوبِ بْنِ السِّكيتْ، قالَ: سَألْتُ أبَاالْحَسَنِ الْهادي عليه السلام: ما بالُ الْقُرْآنِ لا يَزْدادُ عَلَى النَّشْرِ وَالدَّرْسِ إلاّ غَضاضَة؟ قالَ ؑ: إنَّ اللّهَ تَعالى لَمْ يَجْعَلْهُ لِزَمان دُونَ زَمان، وَلالِناس دُونَ ناس، فَهُوَ فى كُلِّ زَمان جَديدٌ وَعِنْدَ كُلِّ قَوْم غَضٌّ إلى يَوْمِ الْقِيامَةِ".

"یعقوب ابن سکیت کہتے ہیں کہ میں نے امام ہادیؑ سے سوال کیا کہ کیا وجہ ہے کہ قرآن مجید نشر و اشاعت اور درس و بحث سے مزید تر و تازہ ہوجاتا ہے؟ امامؑ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اسے کسی خاص زمانے اور خاص افراد کے لئے مخصوص نہیں کیا ہے پس وہ ہر زمانے میں نیا اور قیامت تک ہر قوم و گروہ کے پاس ترو تازہ رہے گا".[82]

غصہ کبھی نہیں! "الْغَضَبُ عَلى مَنْ لا تَمْلِكُ عَجْزٌ، وَعَلى مَنْ تَمْلِكُ لُؤْمٌ".

"جس پر تمہارا تسلط نہیں اس پر غصہ ہونا عاجزی ہے اور جس پر تسلط ہے اس پر غصہ ہونا پستی ہے".[83]

اطاعت کرو! "مَنۡ جَمَعَ لَكَ وُدَّهُ وَرَأیَهُ فَأجۡمَعۡ لَهُ طَاعَتَكَ".

"جو بھی تم سے دوستی کا دم بھرے اور نیک مشورہ دے تم اپنے پورے وجود کے ساتھ اس کی اطاعت کرو".[84]

جانکنی کو یاد کرو "اُذكُرْ مَصْرَعَكَ بَيْنَ يَدَىْ أهْلِكَ لا طَبيبٌ يَمْنَعُكَ، وَلا حَبيبٌ يَنْفَعُكَ".

"اپنے گھر والوں کے سامنے (حالت احتضار میں لاچار) پڑے رہنے کو یاد کرو جب نہ طبیب تمہیں (مرنے سے) سے بچا سکتا ہے اور نہ حبیب (دوست) تمہیں کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے".[85].[86]

حرام میں برکت نہیں "إنَّ الْحَرامَ لا يَنْمى، وَإنْ نَمى لا يُبارَكُ لَهُ فيهِ، وَ ما أَنْفَقَهُ لَمْ يُؤْجَرْ عَلَيْهِ، وَ ما خَلَّفَهُ كانَ زادَهُ إلَى النّارِ".

"(مال) حرام بڑھتا پھولتا نہیں ہے اور اگر بڑھے اور پھولے بھی تو اس میں (صاحب مال حرام) کے لئے برکت نہیں ہوتی، اگر جو وہ اس مال میں سے انفاق کردے تو اس کا اسے کوئی اجر و ثواب نہیں ملتا اور اگر (ترکے میں) چھوڑ جائے تو جہنم کی راہ کا توشہ ہے".[87]

دوہری مصیبت "اَلْمُصيبَةُ لِلصّابِرِ واحِدَةٌ وَ لِلْجازِعِ اِثْنَتان".

"مصیبت صبر كرنے والے كے لئے اکہری (ایك ہی) اور بے صبری کرنے والے كے لئے دوہری ہے".[88].[89]

خدا کے مقامات "اِنّ لِلّهِ بِقاعاً يُحِبُّ أنْ يُدْعى فيها فَيَسْتَجيبُ لِمَنْ دَعاهُ، وَالْحيرُ مِنْها".

فرمایا: "خدا کے کچھ (خاص) مقامات ہیں جہاں اسے پکارا جانا پسند ہے لہٰذا جو ان میں خدا کو پکارتا ہے خدا اس کی سن لیتا ہے اور حائر حسینی ؑ ان ہی مفامات میں سے ایک ہے".[90]

جزا اور سزا کا مالک "اِنّ اللّهَ هُوَ الْمُثيبُ وَالْمُعاقِبُ وَالْمُجازى بِالاَْعْمالِ عاجِلاً وَآجِلاً".

"خدا ہی ثواب و عقاب دینے والا اور اعمال کی جلد یا بدیر جزا و سزا دیتا ہے".[91]

بےآبرو شخص سے ڈرو "مَنْ هانَتْ عَلَيْهِ نَفْسُهُ فَلا تَأمَنْ شَرَّهُ".

"جس کا نفس پست ہو جائے اس کے شر سے اپنے کو محفوظ مت سمجھو".[92]

تقیہ اور نماز "إنَّ بَيْنَ جَبَلَىْ طُوسٍ قَبْضَةٌ قُبِضَتْ مِنَ الْجَنَّةِ، مَنْ دَخَلَها كانَ آمِنا يَوْمَ الْقِيامَةِ مِنَ النّار".

"اے داؤد اگر تم یہ کہو کہ (تقیہ کے موقع پر) تقیہ چھوڑنے والا بے نمازی کے مانند ہے تو تم سچے ہو".[93]

بد گمانی کہاں؟ "اِذَا كانَ زَمانُ العَدلِ فيهِ أَغلَبَ مِنَ الجَورِ فَحَرامٌ أَن یظُنَّ بِاَحَدٍ سُوءً حَتّی یَعلَمَ ذالِكَ مِنهُ واِذَا كانَ زَمانُ الجَورِ أَغلَبَ فیهِ مِنَ العَدلِ فَلَیسَ لِأَحَدٍ أَن یَظُنَّ بِاَحَدٍ خَیراً ما لَم یَعلَم ذالِكَ مِنهُ".
"جب بھی معاشرے میں عدل و انصاف ظلم و ستم پر غلبہ کرے، کسی پر بدگمانی کرنا حرام ہے مگر یہ کہ وہ اس کے بارے میں یقین تک پہنچے؛ اور جب بھی ظلم و ستم عدل و انصاف پر غالب آجائے تو کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ کسی کے بارے میں حسن ظن رکھے مگر یہ کہ اس کے بارے میں یقین حاصل کرے".[94].[95]

حرم امام ہادیؑ پر حملہ

دہشت گردوں کے دھماکے میں حرم امامین عسکریین کی شہادت

حالیہ برسوں میں دہشت پسند سلفی و تکفیری ٹولوں نے کئی مرتبہ امام ہادی اور امام عسکری علیہما السلام کے حرم پر حملے کئے ہیں. سب سے خطرناک حملہ دہشت گردوں نے 22 فروری سنہ 2006 عیسوی کو انجام دیا اور القاعدہ نامی دہشت گرد جماعت نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرلی؛ دہشت گردی کی اس کاروائی میں 200 کلو گرام دھماکہ خیز مواد استعمال کرکے گنبد کے مرکز اور میناروں کے بعض طلائی گلدستوں کو منہدم کیا گیا.[96]

دو سال بعد مورخہ 13 مارچ سنہ 2008 عیسوی کو امام ہادی اور امام عسکری علیہما السلام کا حرم پھر سے دہشت گردانہ حملے کا نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں باقیماندہ گلدستے بھی مکمل طور پر منہدم ہوئے.[97] مورخہ 6 جون سنہ 2014 عیسوی کو بھی داعش نامی ٹولے نے امام ہادی اور امام عسکری علیہما السلام کی غرض سے ایک پھر ایک وسیع حملے کا آغاز کیا جو حرم کے محافظین اور عراقی افواج کی زبردست مزاحمت کے نتیجے میں ناکام ہوا.[98]

حرم کی تعمیر نو

حرم کے گنبد اور گلدستوں کی تخریب و ویرانی کے بعد، گنبد کی تعمیر نو کا کام دس کروڑ ڈالر کی لاگت سے شہر قم میں سید جواد شہرستانی کے زیر سرپرستی شروع ہوا۔ اس گنبد کو سونے کی 23 ہزار اینٹوں سے مزین کیا گیا ہے۔

امام ہادیؑ کی ضریح بھی آیت اللہ سید علی سیستانی کے زیر اہتمام تعمیر کی گئی ہے۔ اس ضریح میں 70 کلوگرام سونے، 4500 کلوگرام چاندی، 1100 کلوگرام تانبے و 11 ٹن ساگوان (Teak) کی لکڑی (جو 300 سال تک بادوام رہتی ہے) سے استفادہ کیا گیا اور یہ سارے اخراجات آیت اللہ سید علی سیستانی نے ہی اٹھائے ہیں۔[99]

متعلقہ مآخذ

حوالہ جات

  1. مفید، الارشاد، ص635۔
  2. نوبختی، فرق الشیعہ، ص135۔
  3. ابن جوزی، تذکرة الخواص، ج2 ص 492 ۔
  4. اربلی، مناقب، ج4 ص432۔
  5. اربلی، مناقب، ج4، ص432۔
  6. اللہ میرا پروردگار ہے اور وہی مجھے اپنی مخلوقات سے محفوظ رکھنے والا ہے: دخیل، ائمتناسیرةالآئمہ اثنی عشر، ج2، ص209۔
  7. عہد و پیمان کی پابندی اللہ کی اخلاقیات میں سے ہے: جزائری، سید نعمۃ اللہ، ریاض الأبرار فی مناقب الأئمہ الأطہار، ج2، ص460، حسینى عاملى‏، التتمہ فی تواریخ الأئمہ ؑ، ص 136، مجلسی، بحار الانوار، ج50، ص117
  8. مفید، الارشاد ص635۔
  9. مفید، الارشاد ص649۔
  10. نوبختی، فرق الشیعہ، ص134۔
  11. اربلی، کشف الغمہ، ج4 ص7۔
  12. بحار الانوار، ج 50، ص 206۔ منتخب التواریخ، ص 705۔ منتهی الامال، ج2، ص 258۔
  13. سورہ ہود (11) آیت 65۔ ترجمہ: علی نقی نقوی (نقن)۔
  14. محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، ج 50، ص 147، شماره 32۔
  15. دخیل، ائمتنا، ج2 ص209۔
  16. نوبہ افریقہ کا ایک علاقہ ہے جو دریائے نیل کے کنار واقع ہے؛ جنوب سے شمالی سوڈان میں اور شمال سے جنوبی مصر میں واقع ہوا ہے۔ | Elkab's hidden treasure نوبہ کا نصف حصہ سوڈان اور نصف حصہ مصر میں واقع ہے۔
  17. خصیبی، الہدایہ الکبرای، ص313۔
  18. مفید، الارشاد، ص649۔
  19. ابن شہر آشوب، مناقب ج4 ص433۔
  20. ابن حجر، الصواعق المحرقہ، ص207۔
  21. مفید، الارشاد ص638۔
  22. نوبختی، فرق الشیعہ، ص134۔
  23. اشعری قمی، المقالات و الفرق، ص 99 ۔
  24. مسند الامام الہادی علیہ السلام، ص 20 ۔
  25. کلینی، کافی، ج1 ص381۔
  26. کلینی، کافی، ج1 ص382۔
  27. مفید، الاختصاص، ص211۔؛ صافی، شیخ لطف اللہ، منتخب الاثر باب ہشتم ص97۔؛ طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ج2، ص182-181۔؛ عاملی، اثبات الہداة بالنصوص و المعجزات، ج2، ص285۔
  28. بحارالأنوار ج23 ص290۔ّاثبات الہداة ج3،‌ ص123۔؛ابن شہر آشوب، المناقب ج1، ص283۔
  29. مجلسی، بحارالأنوار ج36 ص337۔؛ علی بن محمد خزاز قمى، كفايۃ الأثر في النص على الأئمۃ الإثنی عشر، ص157۔
  30. سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة، ج2، ص387 – 392، باب 76۔
  31. اربلی، کشف الغمہ، ج4، ص40۔
  32. ابو الفرج اصفہانی مقاتل الطالبیین، ص 478 ۔
  33. مجلسی، بحارالانوار، ج 50، ص 132۔؛ صفار، شیخ محمد، بصائر الدرجات ص 406 و 407۔؛ طبرسی، اعلام الورى ج2 ص126۔
  34. ابن جوزی، تذکرة الخواص، ج2 ص493۔
  35. مفید، الارشاد ص644۔
  36. ابن جوزی، تذکرة الخواص، ج2 ص492۔
  37. بغدادی، خطیب، تاریخ بغداد، ج12، ص56۔
  38. مسعودی، اثبات الوصیہ، ص200۔
  39. مسکین ترین افراد کا مسکن، مسافر خانہ جہاں قافلے پڑاؤ ڈالتے تھے اور وہ مقام جہاں ہر قسم کا دکھ درد اکٹھا ہوچکا ہوں۔
  40. مفید، الارشاد، ص648۔
  41. مفید، الارشاد ص649۔
  42. مفید، الارشاد، ص649۔
  43. طبرسی، اعلام الوری، ج2، ص126۔
  44. مسعودی، مروج الذہب، ج4، ص11۔
  45. ابن جوزی، تذکرة الخواص، ج2 ص497۔
  46. ابن شہرآشوب، مناقب، ج4 ص435۔
  47. عياشى، تفسير، ج1، ص9۔؛ مجلسی، بحار الانوار، ج 2 ، ص 244 ۔
  48. صدوق، أمالی، ص 438 ۔
  49. رجال کشی، 265۔
  50. مسند الامام الہادی علیہ السلام، صص 94 - 84 ۔
  51. مسند الامام الہادی علیہ السلام، صص 213 - 198۔
  52. محمدتقی مجلسی، 1377 ہجری شمسی، ج8، ص666۔
  53. رجال کشی، ص 608 - 607۔
  54. مسند الامام الہادی ص 320 ۔
  55. صدوق، التوحید، ص101۔
  56. عطاردی، مسند الامام الہادی ص 45۔
  57. صدوق، عیون اخبارالرضا، ج2 ص260۔
  58. مسند الامام الہادی علیہ السلام، ص 317 ۔
  59. دیلم ایران کے موجودہ صوبہ گیلان کے مشرقی علاقے کا نام تھا۔
  60. طوسی، رجال کشی، ص 526 .
  61. مسند الامام الہادی علیہ السلام، ص 352 .
  62. عطاردی، مسند الإمام الہادی، ص 123 .
  63. طوسی، رجال کشی، ص 610 .
  64. شیخ طوسی ،اختیار معرفۃ الرجال، 995و2/802/994.
  65. شيخ طوسي ،اختيار معرفۃ الرجال ،جلد : 2،ص 805 ش 999.
  66. شیخ طوسی،اختیار معرفۃ الرجال،1/805/1000.
  67. نوبختی، فرق الشیعہ ص136.
  68. شیخ طوسی،اختیار معرفۃ الرجال،2/807/1006.
  69. شیخ طوسی،الرجال،385
  70. شیخ طوسی،اختیار معرفہ الرجال،2/790/999.
  71. مسند الامام الہادی علیہ السلام، ص 323 .
  72. رجال کشی، ص 806.
  73. دلائل الائمہ، ص409.
  74. مسعودی، ترجمہ اثبات الوصیہ، ص456.
  75. مستدرک الوسائل، ج17، ص321.
  76. طوسی، رجال طوسی، صص401 و389.
  77. شیخ طوسی،الغیبہ، ج1 ص349.
  78. شیخ طوسی،الغیبہ، ج1 ص350.
  79. شیخ طوسی، رجال، ص385.
  80. سید مرتضی، مسائل الناصریات، ص63.
  81. شیخ صدوق، عیون اخبار الرضاؑ، ج1، ص291، ح22.
  82. شیخ طوسی، الامالی، ج2، ص580، ح8.
  83. مستدرك الوسائل؛ میرزا حسین نوری، ج12، ص11، ح13376.
  84. حرانی، ابن شعبہ، تحف العقول، ص483.
  85. دیلمی، حسن، اعلام الدین، ص311، س16.
  86. مجلسی، بحار الانوار: ج 75، ص370، ح4.
  87. كلینی، الكافی، ج5، ص125، ح7.
  88. اعلام الدین؛ ابو الحسن دیلمی، ص311، س4.
  89. بحار الانوار؛ علامہ محمد باقر مجلسی، ج75، ص326.
  90. تحف العقول؛ ابن شعبہ حرانی، ص482.
  91. حرانی، ابن شعبہ، وہی ماخذ ص483.
  92. حرانی، ابن شعبہ، وہی ماخذ.
  93. حرانی، ابن شعبہ، وہی ماخذ.
  94. ميرزا حسين النوري، مستدرک الوسائل، ج9 ص145.
  95. | امام علی النقی علیہ السلام كی چالیس حدیثیں.
  96. حرم امامین عسکریین پر حملہ (فارسی)
  97. حرم امامین عسکریین پر دوسرا حملہ (فارسی)
  98. سامرا اور حرم امامین عسکریین پر حملہ (فارسی).
  99. حرم امامین عسکریین کی تعمیر نو (فارسی).

مآخذ

  • ابن جوزی، یوسف بن قزاوغلی، تذکرة الخواص، قم، لیلی، 1426ہجری.
  • ابن حجر ہیثمی، احمد بن محمد، الصواعق المحرقہ علی اہل الرفض و الضلال و الزندقہ، مکتبہالقاہره، بی‌تا
  • ابن شہرآشوب، ابی جعفر محمدبن علی بن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، بیروت، دارالاضواء، 1421ہجری.
  • ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، 1987عیسوی.
  • اربلی، ابی الحسن علی بن عیسی بن ابی الفتح اربلی، کشف الغمہ فی معرفہ الائمہ، قم، مجمع جہانی اہل بیت، 1426 ہجری..
  • اشعری قمی، سعدبن عبدالله ابی خلف اشعری قمی، المقالات و الفرق، تہران، انتشارات علمی و فرہنگی، 1361ہجری شمسی.
  • خصیبی، حسین بن حمدان خصیبی الہدایہ الکبرای، لبنان، موسسہ بلاغ، 1991عیسوی.
  • دخیل، علی محمدعلی دخیل، ائمتناسیرةالائمہ اثنی عشر، قم، انتشارات ستار، 1429 ہجری..
  • سید مرتضی، علی بن حسین بن موسیٰ، مسائل الناصریات، تہران، موسسہ الہدی، 1417 ہجری..
  • طوسی، محمد بن حسن طوسی، الغیبہ، دارالمعارف اسلامی، چاپ اول، 1411ہجری..
  • صدوق، محمد بن علی بن حسین قمی، التوحید، قم، جامعہ مدرسین، چاپ اول، 1389ہجری.
  • صدوق، محمد بن علی بن حسین قمی، عیون اخبارالرضاعلیہ السلام، تہران، نشر جہان، چاپ اول 1378ہجری شمسی.
  • الطبرسي، الفضل بن الحسن، إعلام الورى بأعلام الہدى، تحقيق مؤسسہ ال البيت لإحياء التراث - قم: الطبعہ: الأولى - ربيع الأول - 1417ہجری.
  • طوسی، محمد بن حسن طوسی، رجال کشی، قم جامعہ مدرسین، چاپ اول، 1415ہجری.
  • طوسی، محمدبن الحسن بن علی، اختیار معرفہ الرجال، مشہد، دانشگاه مشہد، 1348 ہجری شمسی.
  • عطاردی، عزیزالله، مسند الامام الہادی علیہ السلام، قم: المؤتمر العالمی للامام الرضاؑ، 1410ہجری.
  • مسعودی، علی بن الحسین بن علی مسعودی، اثبات الوصیہ للامام علی بن ابی طالب، قم، منشورات رضی، بی‌تا.
  • مسعودی، مروج الذہب ومعادن الجوہر، ج4، قم: منشورات دار الہجرة، 1404ہجری قمری/1363ہجری شمسی/1984 عیسوی.
  • مفید، محمد بن محمد بن‏ نعمان، الارشاد، ترجمہ ساعدی خراسانی،تہران، انتشاراتاسلامیہ، 1380 ہجری شمسی.
  • نوبختی، حسن بن موسی، حسن بن موسی، فرق الشیعہ، ترجمہ محمد جواد مشکور،تہران، مرکز انتشارات علمی و فرہنگی 1361ہجری شمسی.
  • جزائري، سيد نعمت الله بن عبد الله موسوي، رياض الأبرار في مناقب الأئمہ الأطہار، مؤسسہ التاريخ العربي، بیروت، 2006 عیسوی.
  • حسینى عاملى‏، سید تاج الدین، التتمہ فی تواریخ الأئمہ ؑ، نشر بعثت، قم، چاپ اول، 1412ہجری.
  • الخطیب البغدادی، تاریخ بغداد، تحقیق: مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت: دارالکتب العلمیہ، 1417ہجری /1997عیسوی.
  • الصفار، الشیخ ابو جعفر محمد بن الحسن بن فروخ ، بصائر الدرجات ناشر: منشورات مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، الطبعہ: الاولى 2010 عیسوی.
  • أبو الفداء عماد الدين إسماعيل بن علي بن محمود بن محمد ابن عمر بن شاہنشاه بن أيوب، الملك المؤيد، صاحب حماة، (المتوفى: 732هـ)، کتاب: المختصر في أخبار البشر، المطبعہ الحسينيہ المصريہ الطبعہ: الأولى.
  • شوشتری، شہید سید نور اللہ، احقاق الحق.
  • شيخ صدوق محمد بن على بن الحسين بن بابويہ القمى، عيون أخبار الرضاؑ، تصحيح و مقدمہ و تعلیق، الشيخ حسين الاعلمي، مؤسسہ الاعلمي للمطبوعات بيروت – 1404ہجری. 1984عیسوی.
  • شيخ الطائفہ ابو جعفر محمد بن الحسن الطوسي، الامالي، تحقيق: قسم - مؤسسہ البعثہ للطباعہ والنشر والتوزيع دار الثقافہ - قم، الطبعہ الاولى: 1414ہجری.
  • النوري الطبرسي، الحاج ميرزا حسين، مستدرك الوسائل ومستنبط المسائل، تحقيق موسسہ آل البيت عليهم السلام لاحياء التراث بيروت، الطبعہ الثانية 1308 ہجری 1988عیسوی.
  • الكليني الرازي، أبي جعفر محمد بن يعقوب بن اسحاق، الكافي، صححه وقابلہ وعلق عليہ على اكبر الغفاري، دار الكتب الاسلاميہ ـتہران، طبع سوم، بہار 1367ہجری شمسی.
  • الديلمي، الشيخ الحسن بن أبي الحسن، أعلام الدين في صفات المؤمنين، المحقق: موسسہ آل البيت عليہم السلام لإحياء التراث ـ قم.
  • ابن شعبہ الحرانى، حسن بن على، "تحف العقول عن آل الرسولؐ"،تصحيح و تعليق، على اكبر الغفاري، جماعہ المدرسين بقم المشرفة (ايران)، الطبعہ الثانيہ 1363ہجری شمسی/1404ہجری قمری.
چودہ معصومین علیہم السلام
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا
بارہ امام
امام علی علیہ السلام امام سجّاد علیہ‌السلام امام موسی کاظم علیہ السلام امام علی نقی علیہ السلام
امام حسن مجتبی علیہ السلام امام محمد باقر علیہ السلام امام علی رضا علیہ السلام امام حسن عسکری علیہ السلام
امام حسین علیہ السلام امام جعفر صادق علیہ السلام امام محمد تقی علیہ السلام امام مہدی علیہ السلام