نوروز

ویکی شیعہ سے
ایرانی کلچر میں نوروز کے دن بچھایا جانے والا دسترخوان ہفت‌سین (حسین شیخ کا شاہکار)

نوروز ہجری شمسی سال کا آغاز ہے جو شمسی سال کے پہلے مہینے فروردین کی پہلی تاریخ اور مارچ کی 21 تاریخ کو واقع ہوتا ہے۔ اس دن کئی ممالک میں بالخصوص ایران میں خوشی کا جشن منایا جاتا ہے۔ شیعہ احادیث کی کتابوں میں نوروز کی تائید یا تردید میں بعض احادیث نقل ہوئی ہیں۔ امام صادقؑ کی ایک حدیث میں نوروز کے بعض اعمال اور آداب بھی ذکر ہوئے ہیں۔ علامہ مجلسی جیسے بعض شیعہ علما نے اس روایت کی تائید کی ہے جبکہ سید محمدحسین حسینی تہرانی اس کی سند کو ضعیف قرار دیتے ہوئے اسے نہیں مانتے ہیں۔

نوروز کے تہوار کو ایرانی ثقافت کی سب سے قدیمی نشانی سمجھا جاتا ہے جس میں کئی ایک قومی، ملی اور مذھبی آداب و رسومات شامل ہیں۔ نوروز کو بعض دیگر ممالک میں بھی منایا جاتا ہے اور اس دن عام تعطیل ہوتی ہے۔

اسی طرح افغانستان اور پاکستان کے بعض علاقوں میں اس عقیدے کے تحت کہ اس دن واقعہ غدیر انجام پایا ہے عَلَم کشائی کی جاتی ہے۔

ایران میں بعض لوگ تحویل سال کے موقع پر ائمہؑ یا امامزادوں کی بارگاہوں پر حاضری دیتے ہیں۔

تعارف اور اہمیت

فروردین کا پہلا دن جو ہجری شمسی اور موسم بہار کے پہلے دن[1] کو،[2] نوروز کہا گیا ہے۔ بعض نے نوروز کی ایجاد کو ایران کے پہلے بادشاہ کی طرف نسبت دی ہے اور بعض نے زرتشتیوں کے عقائد میں سے قرار دیا ہے؛[3] اسی لیے اسے زرتشتیوں کا جشن بھی کہتے ہیں.[4] ان کے مقابلے میں بعض لوگ نوروز کو ایران کا قومی اور قدیمی رسم اور تہوار اور ثقافتی نشانی گردانتے ہیں[5] اور ایرانیوں کا سب سے بڑا قومی جشن ہے۔[6]

شیعہ احادیث کی کتابوں میں نوروز کی تائید میں بعض احادیث میں اس دن کے کچھ اعمال بیان ہوئے ہیں۔[7] اور نوروز کو ایرانی مختلف تہذیبوں اور آپس میں صلح و آشتی کا زمینہ قرار دیا ہے[8] چونکہ ایک ہی وقت میں زرتشتی، شیعہ، اہل سنت، عیسائی اور... مختلف عقائد، آسمانی کتابوں اور سلیقوں کے باوجود نوروز کو سب مناتے ہیں[9] اسی طرح کہا گیا ہے کہ نوروز کے دنوں حکمران اپنی رعایا سے تحفے[10] اور خراج لیتے تھے[11] اور بعض اوقات بادشاہ اپنے درباریوں کو مختلف منصب پر اسی دن منصوب کرتا تھا۔[12]

کابل میں سخی دربار پر نوروز کے دن عَلَم کشائی کا منظر

نوروز کے دن مختلف اقوام اور ممالک جشن مناتے ہیں اور بعض ملکوں میں عام تعطیل ہوتی ہے۔[13] اسی طرح اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے نوروز کو ایرانی ماہیت کے ساتھ اپنے کیلنڈر میں ثبت کیا ہے۔[14]

رسومات

نوروز قدیم الایام سے بعض سنتوں کے ہمراہ ہے[15]جشن نوروز کی تیاریوں میں قدیم زمانے سے،[16] گھر کی صفائی،[17] نئے کپڑے پہننا،[18] سبزہ اگانا،[19] ہفت‌سین کا دسترخوان،[20] اور اس پر قرآن مجید رکھنا[21]عیدی دینا،[22] قبور کی زیارت کرنا اور سال کے آخری جمعرات کو ان کے ایصال ثواب کے لئے خیرات و صدقات دینا[23] نوروز کے رسومات میں سے ہیں۔ دیگر رسومات میں ایک دوسرے کے گھر جاکر مبارکبادی دینا، اور صلہ رحمی ہے۔[24]

علَم کشائی

افغانستان اور پاکستان کے شہر پاراچنارِ میں وہاں کے لوگ معصومینؑ کی بعض روایات[25] کے تناظر میں نوروز کو روز خلافت امام علی(ع) قرار دیتے ہوئے اس دن علَم کشائی کے ساتھ جشن مناتے ہیں۔[26] یہ جشن افغانستان کے شہر مزار شریف میں امام علی سے منسوب زیارتگاہ،[27] اور اسی طرح پاکستان کے شہر پاراچنار میں بھی امام علیؑ سے منسوب زیارت گاہ پر منعقد کرتے ہیں۔[28]

نوروز کے دن پاراچنار میں عَلَم کشائی کا منظر

مذہبی مقامات پر اجتماعات

بعض لوگ تحویل سال کے وقت ائمہ علیہم السلام کے حرم اور امامزادوں کے مزار پر حاضری دیتے ہیں۔[29] ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای ہر سال نوروز کے دن قوم کے نام ایک پیغام دیتے ہیں[30] اور ا امام رضاؑ کے حرم میں تقریر کرتے ہیں[حوالہ درکار]


نوروز احادیث کے آئینے میں

شیعہ مآخذ میں نوروز کے بارے میں دو ظرح کی روایات نقل ہوئی ہیں۔ مُعلّی بن خُنَيس کی امام صادق(ع) سے منقول روایت کے مطابق، امام عید نوروز کی تائید کرتے ہوئے اس دن غسل کرنے، اچھے کپڑے زیب تن کرنے، روزہ رکھنے اور اس دن سے مخصوص نماز پڑھنے کی تاکید کرتے ہیں۔[31] علامہ مجلسی بھی ایک روایت کے مطابق، جس میں امام صادق غدیر[یادداشت 1]، اور سورج طلوع ہونے والا سب سے پہلے دن کو نوروز سمجھتے ہیں۔[32] اس کے مقابلے میں امام موسی کاظم(ع) سے منقول ایک حدیث میں نوروز کو اسلام کی تائید شدہ رسومات میں شمار نہیں کیا ہے اور اس کو منعقد کرنے سے منع کیا ہے۔[33]

بعض محققین نے احادیث کے ان دونوں گروہوں کی سند اور مضمون کے اعتبار سے تحقیق کی ہے؛[34] علامہ مجلسی ان روایات کو تقویت دیتے ہیں جو نوروز کے حق میں ہیں اور انہیں قوی اور مشہور قرار دیتے ہیں اور نوروز مخالف روایتوں کو تقیہ پر حمل کرتے ہیں۔[35] امام خمینی بھی نوروز کے دن غسل[36] کرنے اور روزہ رکھنے[37] کو مستحب سمجھتے ہیں۔ سید محمدحسین تہرانی (1345-1416ھ) کا کہنا ہے کہ نوروز کے بارے میں جو کچھ مشہور ہے کہ اسلام نے نوروز کی تائید کی ہے اور اس دن غسل کرنے، نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے کو درست نہیں سمجھتے ہیں۔ وہ اس دن عید منانے اور قومی جشن منانے کو بدعت سمجھتے ہیں اور معلی بن خنیس کی حدیث کو سند کے اعتبار سے ضعیف سمجھتے ہیں۔[38]

اہل سنت کے بعض علما نوروز منانے،[39] اور اس دن ایک دوسرے کو ہدیہ دینے کو حرام سمجھتے ہیں۔[40] ان میں سے بعض کا عقیدہ ہے کہ اگر کوئی شخص پچاس سال عبادت خدا بجا لائے اور پھر نوروز کی وجہ سے کسی کو ہدیہ دے تو وہ شخص کافر ہوجائےگا اور اس کے اعمال اس کے کوئی کام نہیں آئیں گے۔[41] طالبان کی حکومت کے پہلے دور میں افغانستان میں نوروز کو اسلام مخالف سمجھتے ہوئے اسے بدعت، حرام اور اس روز کی مناسبت سے جشن منانا ممنوع قرار دیا گیا۔[42]

بعض کا کہنا ہے کہ عید نوروز چونکہ عیدی دینا، صلہ رحمی، بزرگوں کا احترام، چھوٹوں پر شفقت کرنا نیز صفائی اور ستھرائی جیسے اعمال کے ساتھ ہے اس لیے عقل اور شریعت کی رو سے یہ چیزیں پسندیدہ عمل ہیں، لہذا اس دن کو جشن منانے میں کوئی حرج نہیں۔[43]

دینی آداب

مزید معلومات کے لئے دیکھئے: نوروز کے دن کی دعا

شیعہ احادیث پر مشتمل کتاب وسائل الشیعہ میں نوروز سے متعلق احادیث کا ایک مستقل باب موجود ہے۔[44] اس باب میں مذکور احادیث میں اس دن کے آداب ذکر ہوئے ہیں جن میں غسل کرنا، روزہ رکھنا، نئے اور صاف کپڑے پہننا اور عطر لگانا شامل ہے[45] علامہ مجلسی نے تحویل سال کے لئے «يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ وَ الْأَبْصَارِ يَا مُدَبِّرَ اللَّيْلِ وَ النَّہَارِ يَا مُحَوِّلَ الْحَوْلِ وَ الْأَحْوَالِ حَوِّلْ حَالَنَا إِلَى أَحْسَنِ الْحَال» کی دعا نقل کی ہے۔[46] انہوں نے نوروز کی ایک اور دعا بھی نقل کی ہے: «اللَّہُمَّ ہَذِہِ‏ سَنَۃٌ جَدِيدَۃٌ وَ أَنْتَ مَلِكٌ قَدِيمٌ أَسْأَلُكَ خَيْرَہَا وَ خَيْرَ مَا فِيہَا وَ أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّہَا وَ شَرِّ مَا فِيہَا وَ أَسْتَكْفِيكَ مَؤُنَتَہَا وَ شُغْلَہَا يَا ذَا الْجَلَالِ وَ الْإِكْرَامِ»[47][یادداشت 2] دعا کے علاوہ دو رکعت کی دو نمازیں بھی مخصوص آداب کے ساتھ مآخذ میں ذکر ہوئی ہیں۔ [48]

بعض کا کہنا ہے کہ نوروز کی ایسی کوئی خاص اہمیت نہیں جو اس کے بارے میں مخصوص اعمال ذکر ہوئے ہوں بلکہ بعض کی طرف سے اس دن نماز اور روزے کی تاکید اس لئے ہے تاکہ لوگ بےہودہ کاموں سے منصرف ہوجائے۔[49]

حوالہ جات

  1. دہخدا، لغتنامہ دہخدا، واژہ «نوروز».
  2. طہماسبی، نوروز،‌ پیر برنای جاوید، 1384ہجری شمسی، ص5.
  3. افشار، جشن نوروز، 1382ہجری شمسی، ص22.
  4. ابوالفرج اصفہانی، الأغانی، 1415ھ، ج23،‌ص154.
  5. امین بیدختی و شریفی، سرمایہ اجتماعی در عید نوروز و پیش از آن، 1393ہجری شمسی، ص649
  6. دہخدا، لغتنامہ دہخدا، واژہ «نوروز».
  7. حرّ عاملی، وسائل الشیعہ، 1409ھ، ج8، ص172.
  8. طباطبایی، «نوروز؛ نمادی از تساہل و تسامح».
  9. طباطبایی، «نوروز؛ نمادی از تساہل و تسامح».
  10. ابن عبدالبر، الإستيعاب فی معرفۃ الأصحاب، 1412ھ، ج3، ص1420.
  11. جعفریان، «نوروز در فرہنگ شیعہ»
  12. دارابی، نوروز از دید سفرنامہ نویسان دورہ صفویہ و قاجاریہ، 1395ہجری شمسی، ص104.
  13. نفر، «آشنایی با مراسم نوروز در ہشت کشور جہان»
  14. UNITED NATIONS
  15. دارابی، نوروز از دید سفرنامہ نویسان دورہ صفویہ و قاجاریہ، 1395ہجری شمسی، ص113.
  16. دارابی، نوروز از دید سفرنامہ نویسان دورہ صفویہ و قاجاریہ، 1395ہجری شمسی، ص110.
  17. دارابی، نوروز از دید سفرنامہ نویسان دورہ صفویہ و قاجاریہ، 1395ہجری شمسی، ص110.
  18. افشار، جشن نوروز، 1382ہجری شمسی، ص23.
  19. افشار، جشن نوروز، 1382ہجری شمسی، ص23.
  20. دارابی، نوروز از دید سفرنامہ نویسان دورہ صفویہ و قاجاریہ، 1395ہجری شمسی، ص114.
  21. افشار، جشن نوروز، 1382ہجری شمسی، ص23.
  22. رحیمی، «جشنی تاریخی در دل مردم»
  23. افشار، جشن نوروز، 1382ہجری شمسی، ص23.
  24. فجری، فرصت‌ہای طلایی نوروز، اسفند1386ہجری شمسی، ص38.
  25. مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج56، ص 91.
  26. «آغازجشن نوروز در افغانستان با برافراشتن علم حضرت علی (ع)» خبرگزاری ایرنا.
  27. «آغازجشن نوروز در افغانستان با برافراشتن علم حضرت علی (ع)» خبرگزاری ایرنا.
  28. «پاکستان میں نوروز "عالم افروز" اور "ایران صغیر" کی کہانی» ایرنا نیوز ایجنسی
  29. فجری، فرصت‌ہای طلایی نوروز، اسفند1386ہجری شمسی، ص37.
  30. نگاه کنید به: «بازخوانی پیام‌های نوروزی امام خمینی(ره)» و «بازخوانی پیام‌های نوروزی رهبر انقلاب از سال ۶۹ تا ۹۷»
  31. حرّ عاملی، وسائل الشیعہۃ، 1409ھ، ج8، ص172.
  32. مجلسی، بحار الأنوار، 1403ھ، ج56، ص92-100.
  33. ابن‌شہر آشوب، مناقب آل أبی‌طالب، 1379ہجری شمسی، ج4، ص319.
  34. فاضل استرآبادی، مجموعہ مقالات در زمینہ عاشورا، اربعین، و نوروز، 1392ہجری شمسی،ص112-120.
  35. مجلسی، بحار الأنوار، 1403ھ، ج56، ص101.
  36. امام خمینی، تحریرالوسیلہ، 1379ہجری شمسی، ج1، ص82
  37. امام خمینی، تحریرالوسیلہ، 1379ہجری شمسی، ج1، ص237
  38. حسینی تہرانی، امام‌شناسی، ج6، ص215.
  39. المناوی، فيض القدير شرح الجامع الصغير، 1356ھ، ج4، ص511.
  40. أبوالبركات النسفی، كنز الدقائھ، 2011م، ج1، ص695
  41. التقی الغزی، الطبقات السنيۃ في تراجم الحنفيۃ، ص343.
  42. جعفریان، «نوروز در فرہنگ شیعہ»
  43. زمانی محجوب، «بازخوانی سند نوروز در روایات اسلامی؛ مطالعہ موردی: روایت معلی بن خنیس»، ص41.
  44. حرّ عاملی، وسائل الشیعہ، 1409ھ،ج8، ص172.
  45. حرّ عاملی، وسائل الشیعۃ، 1409ھ،ج8، ص172.
  46. مجلسی، زاد المعاد، 1423ھ، ص328.
  47. مجلسی، زاد المعاد، 1423ھ، ص328.
  48. حر عاملی، ہدايۃ الأمۃ، 1414ھ، ج3، ص316.
  49. فاضل استرآبادی، «مجموعہ مقالات در زمینہ عاشورا، اربعین و نوروز»، ص119.

نوٹ

  1. گہا گیا ہے کہ نوروز کی اہمیت اور عظمت شمسی کلینڈر کے مطابق عید غدیر کا اس دن واقع ہونے کی وجہ سے ہے۔ («سالگرد شمسی عید غدیر» ، مؤسسہ فرہنگی ہنری سلیس.)
  2. ترجمہ: اے اللہ یہ نیا سال ہے اور تو قدیمی معبود؛ پس تم سے اس کی خیر و خوبی چاہتا ہوں اور اس کی برائی اور تم سے شر سے پناہ مانگتا ہوں اور اس سال کے مشکلات کے حل کا تم سے طلبگار ہوں اے جلال و عظمت کے مالک

مآخذ

  • ابوالبركات النسفی، كنز الدقائق، محقق: سائد بكداش، بی‌جا، دار البشائر الإسلاميۃ، 2011ء.
  • ابن‌شہر آشوب مازندرانی، مناقب آل أبی‌طالب علیہم السلام، قم، انتشارات علامہ، چاپ اول، 1379ھ.
  • ابن‌عبدالبر، یوسف بن عبد اللہ‏، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، تحقیق: علی محمد البجاوی، بیروت، دار الجیل، چاپ اول، 1412ھ.
  • ابن‌فوطى، عبدالرزاق بن احمد، مجمع الآداب في معجم الألقاب‏، محقق: محمد كاظم، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامى‏، 1416ھ.
  • ابوالفرج اصفہانی، علی بن حسین‏، الاغانی،‌ بیروت‏، دار إحیاء التراث العربی، 1415ھ.
  • افشار، ایرج، جشن نوروز، مجلہ کیہان فرہنگی، شمارہ 198، 1382ہجری شمسی.
  • التقی الغزی، الطبقات السنيۃ في تراجم الحنفيۃ، بی‌جا، بی‌تا.
  • المناوی، زین‌الدین، فيض القدير شرح الجامع الصغير، مصر، المكتبۃ التجاريۃ الكبرى، 1356ھ.
  • امام خمینی، روح‌اللہ، تحریرالوسیلہ، تہران، تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1379ہجری شمسی.