مندرجات کا رخ کریں

مسودہ:قوم نوح

ویکی شیعہ سے
قوم نوح
اس مینیاتور میں حضرت نوح طوفان شروع ہونے پر اپنی قوم کی طرف دیکھ رہا ہے جو دنیا کے امور میں محو ہیں، مرقع گلستان سعدی کی چھوٹی کتاب (1014-1039ھ)
اس مینیاتور میں حضرت نوح طوفان شروع ہونے پر اپنی قوم کی طرف دیکھ رہا ہے جو دنیا کے امور میں محو ہیں، مرقع گلستان سعدی کی چھوٹی کتاب (1014-1039ھ)
کوائف
قرآنی نامقوم نوح
مربوطہ آیاتسورہ نوح آیت نمبر 7، سورہ قمر آیت نمبر 9 اور سورہ ذاریات آیت نمبر 46
نبیحضرت نوح
دینبت پرستی
سرانجامعذاب الہی

قومِ نوح، ان اقوام میں سے ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں کثرت سے آیا ہے۔ قوم نوح اپنے پیغمبر کی نافرمانی اور مخالفت کے باعث عذاب الہی کا شکار ہوئی۔ قوم نوح کی داستان قرآن مجید کی مختلف سوروں میں ستر سے زائد مقامات پر مذکور ہے۔

حضرت نوح کی طرف سے اپنی قوم کو ایک طویل مدت تک حق و توحید کی دعوت دینے کے باوجود ان کی قوم میں سے چند افراد کے سوا کوئی ایمان نہ لایا۔ قوم نوح بت پرست تھے اور اپنے پیغمبر پر جھوٹ، دیوانگی، جنون اور جھگڑالو ہونے کے الزامات لگاتے تھے۔ وہ حضرت نوح پر ایمان لانے والوں کو کم عقل اور سادہ لوح سمجھتے تھے اور لوگوں کو حضرت نوح کی مخالفت اور ایذا رسانی پر اُکساتے تھے۔

اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت نوح کو کشتی بنانے کا حکم ملا۔ ان کی قوم نے اس عمل پر حضرت نوح کا مذاق اڑایا، لیکن جب طوفان شروع ہوا تو صرف حضرت نوح کے ساتھ ان پر ایمان لانے والے نجات پاگئے اور باقی سب حتیٰ کہ ان کی بیوی اور بیٹا بھی طوفان میں غرق ہوگئے۔

تعارف اور اہمیت

قومِ نوح کی داستان قرآن میں ستر سے زائد مرتبہ آئی ہے۔[1] یہ قصہ سورۂ اعراف، سورہ یونس، سورہ ہود، سورہ انبیاء، سورہ مؤمنون، سورہ شعراء اور سورہ نوح میں مذکور ہے۔[2] اسی طرح تورات، انجیل اور دنیا کی مختلف اقوام کے افسانوں میں بھی اس واقعے کے مختلف پہلو بیان ہوئے ہیں۔[3] قومِ نوح کا زمانہ قوم عاد، ثمود اور لوط سے پہلے کا بتایا گیا ہے۔[4]

قرآن قوم نوح کو بت پرست قرار دیتا ہے۔[5] قوم نوح متعدد خداؤں کے پجاری تھے، ان کے پانچ مشہور بت: بت وَدّ، بت سُواع، بت یَغوث، بت یَعوق اور بت نَسر کو ان کے یہاں خاص احترام حاصل تھا۔[6] اہل سنت مؤرخ ابن اثیر کے مطابق قوم نوح کے اعتقادات اور ان کے حالات زندگی کے بارے میں دو قسم کے نظریات پائے جاتے ہیں: بعض مورخین انہیں مختلف گناہان کبیرہ جیسے فحاشی اور شراب نوشی وغیرہ کے مرتکب قرار دیتے ہیں، جبکہ بعض کے نزدیک ان میں سے کچھ لوگ صابئین کے مذہب پر تھے اور اطاعت گزار تھے۔

حضرت نوح کی دعوت پر قوم نوح کا ردِّ عمل

مفسرین قومِ نوح کو ایک جاہل اور نادان قوم قرار دیتے ہیں[7] جو اپنے گناہوں پر اصرار کرتی تھی۔[8] وہ حضرت نوح کو جھٹلاتے،[9] ان کی نصیحتوں کو نظر انداز کرتے اور حضرت نوح کو ایک عام انسان کی طرح قرار دیتے ہوئے کہتے تھے کہ اگر رسالت، واقعی خدا کی طرف سے ہوتی تو وہ فرشتوں پر نازل ہوتی، نہ انسان پر۔[10] اسی طرح وہ حضرت نوح کو جھگڑالو قرار دیتے اور بعض اوقات انہیں سنگسار کرنے کی دھمکی دیتے،[11] اور انہیں مجنون اور دیوانہ خطاب کرتے تھے۔[12] تفسیر نمونہ کے مطابق، یہ لوگ بعض اوقات حضرت نوح کو اتنا ستاتے تھے کہ آپ بے ہوش ہوکر زمین پر گر پڑتے تھے۔[13]

قومِ نوح، حضرت نوح پر ایمان لانے والوں کو نادان اور کم عقل قرار دیتے تھے۔[14] ان کے امراء اور مالدار طبقہ عوام کو حضرت نوح کی دعوت قبول کرنے سے روکتے اور انہیں اپنے بتوں کی عبادت پر قائم رہنے کی تلقین کرتے تھے،[15] اور دوسروں کو بھی "نبیِ خدا" کی مخالفت پر اُکساتے تھے۔[16]

علامہ سید محمد حسین طباطبائی کے مطابق، سورہ نوح آیت نمبر 7 سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب حضرت نوح اپنی قوم کو دعوت دیتے تو وہ حضرت نوح کی بات نہ سننے کے لئے اپنی انگلیاں کانوں میں ڈال لیا کرتے تھے اور اپنے سروں پر کپڑا ڈال لیتے تھے تاکہ انہیں دیکھ نہ سکیں۔ وہ ضد اور تکبر کی وجہ سے حضرت نوح کی دعوت کو رد کرتے تھے۔[17] حضرت نوح کی طرف سے اپنی قوم کو ایک طولانی مدت جسے قرآن میں 950 سال ذکر کیا گیا ہے،[18] حق کی طرف دعوت دینے کے باوجود ان پر ایمان لانے والوں کی تعداد بہت کم تھی، ان کی تعداد مختلف منابع میں صرف سات(7) سے اسی(80) افراد تک ذکر کی گئی ہے۔[19] قوم نوح نہ صرف حضرت نوح کو بلکہ دیگر انبیاء کو بھی جھٹلاتی تھی۔[20]

قومِ نوح کا انجام

حضرت نوح جب اپنی قوم کو عذاب الہی کی خبر سناتے،[21] تو ان کی قوم تحدّی (چیلینز) کرتے ہوئے عذاب کے فوری نزول کا مطالبہ کرتی۔[22] یہاں تک کہ جب حضرت نوح ان کی ہدایت سے مایوس ہوگئے تو انہوں نے ان پر نفرین و بد دعا کیا اور خدا سے دعا کی کہ وہ ان ظالموں سے انتقام لے لے۔[23] اللہ تعالی نے حضرت نوح کو کشتی بنانے کا حکم دیا۔[24] جب حضرت نوح کشتی بنانے لگے تو ان کی قوم کے سردار ان کا مذاق اڑاتے تھے۔[25]

آخرکار جب خدا کی طرف سے عذاب کا حکم آیا تو تنور سے پانی اُبلنے لگا[26] اور طوفان شروع ہوگیا۔ حضرت نوح اپنے اوپر ایمان لانے والے مؤمنین کو ساتھ لے کر کشتی پر سوار ہوگئے،[27] لیکن ان کی قوم، ان کی بیوی اور ان کا بیٹا کشتی میں سوار نہ ہوئے[28] اور طوفان میں غرق ہوگئے۔[29] علامہ طباطبائی کے مطابق آسمان سے لگاتار بارش ہونے لگی اور زمین سے چشمے پھوٹ پڑے، یہاں تک کہ پانی زمین و آسمان کے درمیان جمع ہوگیا،[30] پہاڑ، درخت اور بستیاں غرق ہوگئیں۔[31] شیعہ مفسر فضل بن حسن طبرسی نے امام جعفر صادقؑ سے ایک روایت نقل کی ہے جس کے مطابق طوفان نوح سے چالیس سال قبل قوم نوح کی خواتین بانجھ ہوگئی تھیں اور ان سے کوئی بچہ پیدا نہ ہوتا تھا؛ یہ ان پر عذاب آنے کی تمہید و مقدمہ تھا۔[32]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، 1385ھ، ج1، ص102-105۔
  2. ابن‌کثیر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، ج1، ص101۔
  3. مہدوی راد و دیگران، «تحلیل تطبیقی طوفان نوح در تورات و قرآن»، ص60۔
  4. طیب، اطیب البیان، 1378ش، ج8، ص233-234۔
  5. ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، 1385ھ، ج1، ص67۔
  6. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج20، ص34۔
  7. مکارم شیرازی، قصہ‌ہای قرآن، 1382ش، ص44۔
  8. قرائتی، تفسیر نور، 1388ش، ج9، ص263۔
  9. مکارم شیرازی، قصہ‌ہای قرآن، 1382ش، ص43۔
  10. مکارم شیرازی، قصہ‌ہای قرآن، 1382ش، ص41۔
  11. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج23، ص30۔
  12. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج23، ص30۔
  13. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج23، ص30۔
  14. مکارم شیرازی، قصہ‌ہای قرآن، 1382ش، ص43۔
  15. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج20، ص33۔
  16. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج20، ص33۔
  17. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج20، ص29۔
  18. قرائتی، تفسیر نور، 1388ش، ج9، ص263۔
  19. ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، 1385ھ، ج1، ص70۔
  20. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج19، ص67۔
  21. میبدی، کشف الاسرار و عدۃ الابرار، 1371ش، ج10، ص244۔
  22. مکارم شیرازی، قصہ‌ہای قرآن، 1382ش، ص46۔
  23. ابن‌کثیر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، ص109۔
  24. مکارم شیرازی، قصہ‌ہای قرآن، 1382ش، ص48۔
  25. مکارم شیرازی، قصہ‌ہای قرآن، 1382ش، ص48۔
  26. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج9، ص97۔
  27. مکارم شیرازی، قصہ‌ہای قرآن، 1382ش، ص51۔
  28. مکارم شیرازی، قصہ‌ہای قرآن، 1382ش، ص51۔
  29. شاہ‌عبدالعظیمی، تفسیر اثنی‌عشری، 1363ش، ج12، ص278۔
  30. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج19، ص68۔
  31. طیب، اطیب البیان، 1369ش، ج12، ص352۔
  32. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج5، ص242۔

مآخذ

  • ابن‌اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، 1385ھ۔
  • ابن‌کثیر، حافظ ابن‌کثیر‏، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دارالفکر، بی‌تا.
  • شاہ‌عبدالعظیمی، حسین، تفسیر اثنی‌عشری، تہران، میقات، 1363ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، چاپ دوم، 1390ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تصحیح: فضل‌اللہ یزدی طباطبایی و ہاشم رسولی، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، 1372ہجری شمسی۔
  • طیب، عبدالحسین، اطیب البیان فی تفسر القرآن، تہران، اسلام، 1378ہجری شمسی۔
  • حائری طہرانی، علی، مقتنیات الدرر، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، 1338ہجری شمسی۔
  • قرائتی، محسن، تفسیر نور، تہران، مرکز فرہنگی درس‌ہایی از قرآن، 1388ہجری شمسی۔
  • قطب‌الدین راوندی، سعید بن ہبۃ اللہ‏، قصص الأنبیاء، مصحح: غلامرضا عرفانیان یزدی، مشہد، مرکز پژوہش ہای اسلامی، چاپ اول، 1409ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، محقھ، جمعی از محققان‏، بیروت‏، دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • مہدوی راد، محمدعلی و جلیل پروین و فریبا شجاعی، «تحلیل تطبیقی طوفان نوح در تورات و قرآن»، دوفصلنامہ پژوہشنامہ تفسیر و بان قرآن، سال ہفتم، شمارہ13، 1397ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران‏، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ دہم، 1371ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، قصہ‌ہای قرآن، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ سوم، 1382ہجری شمسی۔
  • میبدی، احمد بن محمد، کشف الاسرار و عدۃ الابرار (معروف بہ تفسیر خواجہ عبداللہ انصاری)، تحقیق: علی‌اصغر حکمت، تہران، امیر کبیر، چاپ پنجم، 1371ہجری شمسی۔