خطبہ قاصعہ

فاقد خانہ معلومات
حوالہ جاتی اصول کی عدم رعایت
علاقائی تقاضوں سے غیر مماثل
غیر سلیس
تلخیص کے محتاج
ویکی شیعہ سے
(خطبۂ قاصعہ سے رجوع مکرر)

خطبہ قاصِعَہ، نہج البلاغہ کا سب سے لمبا خطبہ ہے جس میں اخلاقی اور معاشرتی پہلو پر تاکید ہوئی ہے اور خود پسندی اور تعصب کی مذمت ہوئی ہے۔ یہ خطبہ امیر المومنین کی حکومت کے آخری دنوں کوفہ میں دیا گیا ہے اور اس میں امام علیہ السلام نے معاشرتی اختلافات سے اجتناب کی تلقین اور فتنہ برپا کرنے والوں کی مذمت کی ہے۔ اس خطبے کے دوسرے موضوعات میں ناکثین، قاسطین اور مارقین سے امام کی جنگیں، امام کی جوانی کی شجاعت و بہادری اور عرب کے بڑے نامور پہلوانوں کی آپ کے ہاتھوں شکست، فرشتے کے ذریعہ پیغمبر اکرم کی تربیت، امام علی کی پیغمبر سے قرابت اور ان کے زیر نظر تربیت حاصل کرنا، شیطان کی چالاکیاں اور قریش کے بزرگوں کے سامنے پیغمبر اکرم کے ایک معجزے کا تذکرہ ہے۔ اس خطبے کا مستقل ترجمہ بھی ہوا ہے اور ترتیب کے حوالے سے اس خطبے کا نمبر نہج البلاغہ کے مختلف نسخوں میں مختلف ہے۔

نسخے کا نام خطبہ نمبر[1]
المعجم المفہرس و صبحی صالح، ذیشان حیدر جوادی (اردو) ۱۹۲
فیض الاسلام و ابن میثم ۲۳۴
شرح خوئی و ملاصالح ۱۹۱
عبدہ ۱۸۵
ملافتح اللہ ۲۷۳
ابن ابی الحدید ۲۳۸
فی ظلال، مفتی جعفر حسین (اردو) ۱۹۰

نام

نہج البلاغہ پر شرح لکھنے والوں نے اس خطبے کے نام کی کچھ وجوہات پیش کی ہیں۔ قطب راوندی کی شرح میں تین دلیلیں ذکر ہوئی ہیں:[2]

  1. قصع اونٹ کی جگالی کے لئے استعمال ہوتا ہے چونکہ اونٹ جگالی کرتے ہوئے اپنے پیٹ سے غذا منہ میں لا کر چباتا ہے اور پھر سے نگل لیتا ہے، اور اس خطبے میں بھی چونکہ ابتدا سے آخر تک امر اور نہی تکرار ہوتے ہیں اس لئے قاصعہ نام دیا گیا ہے۔
  2. قصع یعنی مارنا اور ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اسی بنا پر خطبہ قاصعہ در حقیقت ابلیس کا قاتل اور اسے خوار و ذلیل کرنے والا ہے۔
  3. قصع تحقیر کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اس معنی کے اعتبار سے یہ خطبہ متکبر لوگوں کی تحقیر کرتا ہے اگرچہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوں۔

خطبہ دینے کی وجہ

اس خطبہ کو بیان کرنے کی وجہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ امیر المومنین کی خلافت کے آخری دنوں میں کوفہ میں جو مختلف قبیلے موجود تھے وہ فساد اور جھگڑوں کی طرف مائل ہوئے اکثر اوقات ایسا ہوتا تھا کہ جب کسی ایک قبیلے کا کوئی فرد اپنے محلے سے باہر چلا جائے اور دوسرے قبیلے کو اس کی خبر ملے تو بعض لوگ معمولی باتوں پر شور شرابہ کرتے تھے اور اپنے قبیلے سے مدد طلب کرتے ہوئے بلند آواز میں پکارتے تھے؛ مثلا: اے نخعی قبیلہ یا اے کندی قبیلہ! اور اس طرح کرنے کا مقصد صرف فساد برپا کرنا تھا اور ان شور و غوغا کی وجہ سے قبیلہ کے کچھ جوان جمع ہوتے تھے اور قبیلہ کے دوسرے لوگوں کو بھی جمع کرتے اور پھر اس شخص کو خوب پٹائی کرتے اور پھر وہ شخص اپنے قبیلے میں جاکر مدد طلب کرتا اور وہ بھی اس کی مدد میں آتے اور یوں ایک دوسرے کے خلاف دست بہ شمشیر ہوتے اور یوں کسی عاقلانہ عذر کے بغیر فتنہ فساد برپا ہوتا اور جوان ایک دوسرے کے دست بہ گریباں ہوتے۔ اور جب یہ کام شدت پکڑ گیا تو امام (ع) ایک اونٹنی پر سوار ہوکر ان کے درمیان چلے گئے اور یہ خطبہ بیان فرمایا۔[3]

مضمون

خطبہ قاصعہ میں اجتماعی، کلامی اور اخلاقی پہلو بیان ہوئے ہیں۔

اخلاقی نکات

تعصب کی نفی: اس خطبے میں تعصب اور تفاخر کی شدت سے مذمت ہوئی ہے اور متعصب لوگوں کو خود خواہ، جاہل اور شیطان کے پیروکار قرار دیئے گئے ہیں۔۔[4] انکساری کی تحسین: اللہ تعالی انسان کو مشکلات کے ذریعے آزماتا ہے تاکہ ان کے دلوں میں انکساری ایجاد کرے اور یوں بخشش اور مغفرت کا وسیلہ بن سکے۔[5] اچھی تعصب: امام تعصب کی مذمت کرنے کے بعد فرماتے ہیں اگر تعصب کرنے پر مجبور ہو تو اچھے امور میں تعصب کرو: نیک اور اچھی صفات اور نیک کردار پر تعصب کرو، صبر اور بردباری، ہمسایوں کے حقوق کی پاسداری، عہد و پیمان پر وفا، نیک لوگوں کی اطاعت، متکبروں کی نافرمانی، نیک کام سیکھنے، ظلم سے اجتناب کرنے، خونریزی سے اجتناب اور لوگوں کے ساتھ عدل اور انصاف، غصے پر کنٹرول اور زمین پر فساد سے اجتناب، ان میں تعصب کریں۔[6]

اجتماعی نکات

وحدت کی تحسین: پیغمبر اکرم(ص) کی دعوت قبول کرنے کے نتیجے میں مسلمانوں کے لئے جو توحیدی معاشرہ وجود میں آیا اس میں اتحاد اور وحدت، تعصب، قوم پرستی اور تفرقہ سے پاک معاشرہ ہے، جاہلیت کے معاشرے کے برخلاف جس میں لوگ ایک دوسرے سے جھگڑتے تھے اور باہمی محبت نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔[7]

باہمی اتحاد توڑنے کی مذمت: ہمیں گزشتہ اقوام سے عبرت لینا چاہیے کہ کس طرح سے تفرقہ ان کے زوال کا باعث بنی جس کی بنیادی وجہ دل میں بغض اور سینے میں نفاق رکھنا اور ایک دوسرے کی مدد نہ کرنا تھا۔[8]

اللہ کی راہ میں مشکلات میں صبر اور اللہ کے خوف سے انہیں تحمل کرنا عزت کا باعث بنتی ہے اور متحد معاشرہ باعزت اور قدرتمند ہوتا ہے جبکہ تفرقہ ذلت اور سستی کا باعث بنتی ہے۔[9]

کلامی نکات

اللہ تعالی اگر اپنے بندوں کو ایسے امور کے ذریعے سے آزماتا ہے جن کے بارے میں انہیں کوئی شناخت نہیں تو اس کی وجہ تکبر اور خود بینی کی نفی کرنا ہے۔ [10]

انبیاء کے فقر کی وجہ: اگر انبیاء الہی مالدار ہوتے تو سب لوگ مجبور ہو کر سر تسلیم خم کرتے اس سے امتحان اور آزمایش کا پہلو ختم ہوتا اور جس کے نتیجے میں ثواب اور اخلاص کا تصور ختم ہوتا۔[11] بھوک، مشکلات، خوف اور خطرہ وغیرہ پیغمبروں کی آزمائش کے اسباب تھے۔ [12]

خانہ کعبہ اگر خشک اور بے آب و گیاہ صحرا میں بنتا ہے تو اس میں میں بندوں کی آزمایش اور امتحان کا پہلو مدنظر ہے۔ اگر کسی باغ کے درمیان، اور میوہ دار باغ میں ہو تا تو اس کی زیارت کا ثواب کم ہوتا اور امتحان بھی آسان ہوتا۔ [13]

عبادتوں کا راز: ہر کسی کے دل میں تکبر آسکتا ہے لیکن نماز، زکات اور روزہ جیسی عبادتیں خشوع و خضوع کے لئے اور خود بینی ختم کرنے کے لیے ہیں اور زکات میں تو نادار اور مستحق لوگوں کی تعاون بھی ہے۔[14]

مشکلات کے ذریعے سے مومنین کا امتحان لینا: ایمانی معاشرہ مشکلات اور بلاووں میں مبتلا ہوتا ہے اور یہ انسان کے امتحان کے لیے ہے۔[15]

پیغمبر(ص) کی تربیت اور امام علی(ع)

امام علی اس خطبے میں پیغمبر اکرم(ص) کی تربیت کے بارے میں یوں بیان کرتے ہیں: « جب پیغمبر اکرم سے دودھ چھڑایا گیا تو اللہ تعالی نے اپنے سب سے برگزیدہ فرشتے کو آپکا ہمنشین بنادیا جو دن رات آپ کے ساتھ ہوتے تھے تاکہ کمال کے راستے طے کرے اور دنیا کی نیکیاں سیکھے»[16]

پیغمبر اکرم کے ساتھ اپنے رابطے کے بارے میں امام علی(ع) یوں فرماتے ہیں:« جب میں بچہ تھا تو مجھے اپنے ساتھ رکھا، اور اپنے سینے پر جگہ دی۔ اپنے بستر پر مجھے ساتھ سلاتے تھے اور اپنے بدن مبارک سے میرا بدن مَلتے تھے اور اپنی خوشبو سونکھاتے تھے اور بعض دفعہ تو کچھ چیزیں خود چبا کر پھر مجھے کھلاتے تھے۔ مجھ سے کبھی جھوٹ نہیں سنا اور میرے کردار میں کبھی خطا نہیں دیکھا۔۔۔ اور ہمیشہ انکے پیچھے پیچھے ہوتا تھا سفر میں ہو یا حضر میں۔ جس طرح سے اونٹ کا بچہ اپنی ماں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہر روز اپنے اخلاق حسنہ کی ایک نشانی دکھاتے تھے، اور اس پر عمل کرنے کا کہتے تھے۔ ہر سال غار حرا میں خلوت فرماتے تھے جبکہ صرف میں ہی انہیں دیکھتا تھا کسی اور کو پتہ نہیں ہوتا۔ اس وقت رسول اللہ اور خدیجہ کے گھر کے علاوہ کسی گھر پر کوئی مسلمان نہیں تھا، اور میں ان میں تیسرا تھا اور میں وحی کا نور دیکھتا تھا اور نبوت کی خوشبو محسوس کرتا تھا۔»[17]

پیغمبر کی دیکھی اور سنی ہوئی چیزوں کو دیکھنا اور سننا

اس خطبے کے دوسرے اہم نکتے میں یوں بیان کیا ہے: « جب ان پر وحی نازل ہوئی تو میں نے شیطان کی چیخ سن لی۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول یہ آواز کیا تھی؟ فرمایا: «یہ شیطان ہے اس کی پرستش نہ ہونے کی وجہ سے نا امید اور مایوس ہوا ہے۔ اور جو کچھ میں سنتا ہوں تم بھی سنتے ہو، اور جو کچھ میں دیکھتا ہو وہ تم بھی دیکھتے ہو صرف یہ کہ تم پیغمبر نہیں ہو اور میرے وزیر ہو اور راہ راست پر ہو اور امیر المومنین ہو۔»[18]

درخت کی حرکت کا معجزہ

اس خطبے میں اس معجزے کا بھی تذکرہ ہے جو قریش کے بزرگوں کی درخواست پر دکھایا گیا تھا اور اس کے بارے میں یوں ارشاد ہوتا ہے: «اور میں ان کے ساتھ تھا جب قریش کی اہم شخصیات آپ کے پاس آئیں اور کہا:«اے محمد (ص) تم بہت بڑے کام کا دعوی کر رہے ہو نہ تمہارے باپ دادا نے ایسا دعوی نہیں کیا تھا اور نہ ہی خاندان والوں میں سے کسی نے۔ اب تم سے جو کچھ کہتے ہیں اگر وہ کام انجام دیا اور ہمیں کر دکھایا تو پھر تم پیغمبر اور اللہ کے رسول ہو وگرنہ معلوم ہوگا کہ تم جھوٹے اور جادوگر ہو۔» آپ (ص) نے کہا: « کیا پوچھنا چاہتے ہو ؟» کہا: «اس درخت سے کہو کہ کہ جڑوں سمیت نکل کر تمہارے سامنے آئے۔» فرمایا(ص): «اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے۔ اگر اللہ تعالی ایسا کرے تو کیا تم قبول کرو گے اور حق کی شہادت دو گے؟» کہا: «جی»۔ کہا: « تم جو چاہتے ہو وہ تمہیں دکھاتا ہوں۔ اور یہ بھی مجھے پتہ ہے کہ تم راہ راست پر نہیں آو گے۔ اور تم میں ایسا شخص بھی ہے جسے کنویں میں پھینکا جائے گا۔ [19] اور ایسا شخص بھی ہے جو گروہوں کو آپس میں ملا کر لشکر جمع کرے گا۔[20]» پھر آپ(ص) نے فرمایا: « اے درخت اگر تم اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہو اور اگر جانتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں تو اپنی جگہ سے نکل کر اللہ کے حکم سے میرے پاس آجاو۔» پس اس خدا کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا، اس نے درخت کو جڑوں کے ساتھ نکالا پھر درخت اپنی جگہے سے نکل کر سخت آواز نکالتے ہوئے اور پرندے پر مارتے ہوئے رسول اللہ کے سامنے آیا اور اپنے بلند شاخ پیغمبر اکرم پر پھیلایا اور ایک شاخ میرے دوش پر آیا جبکہ میں پیغمبر اکرم کے دائیں طرف تھا۔ پھر جب انہوں نے یہ معجزہ دیکھا تو پھر تکبر اور غرور سے کہا: «درخت سے کہو کہ آدھا درخت تمہارے پاس آئے اور آدھا اپنی جگہ رہے۔» پھر آپ نے درخت سے حکم دیا تو آدھا درخت چھوڑ کر بڑی دلچسپ حالت میں آدھا سخت آواز کے ساتھ سامنے آیا اور درخت چاہتا ہے کہ پیغمبر اکرم سے چمٹ لے۔ پھر انہوں نے نافرمانی اور ناشکری کرتے ہوئے کہا: «اس حصے سے کہو کہ دوبارہ جاکر اپنے اس حصہ سے مل کر ایک ہو جائے جس طرح پہلے سے تھا۔» آپ نے درخت سے یوں حکم دیا۔ پھر درخت چلا گیا اور میں نے کہا: لاالہ الَّا ال‍لّہ،‌اے اللہ کے رسول! میں وہ پہلا شخص ہوں جو آپ پر ایمان لایا ہوں اور پہلا شخص ہوں جو اقرار کرتا ہوں کہ درخت نے جو کچھ کہا ہے اللہ کے حکم سے کیا ہے تاکہ تمہاری پیغمبری کی گواہی دے اور آپ کی بات کو اہمیت بخشے۔» پھر انہوں نے کہا: « تم نہ صرف جھوٹا ساحر تھا بلکہ بڑا زبردست جادوگر بھی ہو، اور کتنا آسان ہے اس کا کام، تمہاری تصدیق اس کے سوا اور کون کرے گا!» (ان کی مراد میں تھا)۔ »[21]

خطبہ کی سند

مصادر نہج البلاغہ نامی کتاب کے مصنف کا کہنا ہے کہ خطبہ قاصعہ نہج البلاغہ کا سب سے لمبا خطبہ ہے جس میں بہت سارے اہم مسائل کو بیان کیا ہے، اور پھر کہتا ہے کہ سید رضی سے پہلے بعض نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے ان میں سے سید ابن طاووس نے اپنی کتاب یقین میں 280ھ کے کسی نسخے سے نقل کیا ہے، کلینی نے کافی میں خطبہ کے بعض حصے، اور صدوق نے کتاب من لایحضرہ الفقیہ میں اس خطبے کے بعض حصے ذکر کیا ہے۔ اہل سنت میں سے زمخشری نے ربیع الابرار کی پہلی جلد میں اور ماوردی نے اعلام النبوۃ میں بھی اس خطبے کے بعض حصوں کو نقل کیا ہے۔[22]

ترجمہ اور شرح

اس خطبے کا ترجمہ نہج البلاغہ کے ہر ترجمے میں ذکر ہونے کے علاوہ مستقل طور پر بھی مختلف زبانوں میں خاص کر فارسی میں مستقل ترجمہ ہوا ہے۔ البتہ اردو میں نہج البلاغہ کے مشہور ترجمے مفتی جعفر حسین اور ذیشان حیدر جوادی صاحب کے ہیں جن میں اس خطبے کا ذکر ہوا ہے۔

خطبہ کا متن اور ترجمہ

خطبہ کا متنترجمہ: مفتی جعفر حسین
اَلْحَمْدُ ل‍لّهِ الَّذِی لَبِسَ الْعِزَّ وَ الْكِبْرِیاءَ; وَ اخْتَارَهُمَا لِنَفْسِهِ دُونَ خَلْقِهِ، وَ جَعَلَهُمَا حِمی وَ حَرَماً عَلَی غَیرِهِ، وَ اصْطَفَاهُمَا لِجَلاَلِهِ. وَ جَعَلَ ال‍لّعْنَةَ عَلَی مَنْ نَازَعَهُ فِیهِمَا مِنْ عِبَادِهِ. ثُمَّ اخْتَبَرَ بِذلِكَ مَلاَئِكَتَهُ الْمُقَرَّبِینَ، لِیمِیزَ الْمُتَوَاضِعِینَ مِنْهُمْ مِنَ الْمُسْتَکْبِرِینَ، فَقَالَ سُبْحَانَهُ وَ هُوَ الْعَالِمُ بِمُضْمَرَاتِ الْقُلُوبِ، وَ مَحْجُوبَاتِ الْغُیوبِ: (إِنِّی خَالِقٌ بَشَراً مِّنْ طِین * فَإِذَا سَوَّیتُهُ وَ نَفَخْتُ فِیهِ مِنْ رُّوحِی فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِینَ * فَسَجَدَ الْمَلاَئِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ * إِلاَّ إِبْلِیسَ) اعْتَرَضَتْهُ الْحَمِیةُ فَافْتَخَرَ عَلَی آدَمَ بِخَلْقِهِ، وَ تَعَصَّبَ عَلَیهِ لِاَصْلِهِ. فَعَدُوُّ ال‍لّهِ إِمَامُ الْمُتَعَصِّبِینَ، وَ سَلَفُ الْمُسْتَکْبِرِینَ، الَّذِی وَضَعَ أَسَاسَ الْعَصَبِیةِ، وَ نَازَعَ ال‍لّهَ رِدَاءَ الْجَبْرِیةِ، وَ ادَّرَعَ لِبَاسَ التَّعَزُّزِ، وَ خَلَعَ قِنَاعَ التَّذَلُّلِ. ألاَ تَرَوْنَ كَیفَ صَغَّرَهُ ال‍لّهُ بِتَكَبُّرِهِ، وَ وَضَعَهُ بِتَرَفُّعِهِ، فَجَعَلَهُ فِی الدُّنْیا مَدْحُوراً، وَ اَعَدَّ لَهُ فِی الْاخِرَةِ سَعِیراً؟! ہر تعریف اس اللہ کے ليےہے جو عزت و کبریائی کی ردا اوڑھے ہوئے ہے اور جس نے ان دونوں صفتوں کو بلا شرکت غیرے اپنی ذات کے ليےمخصوص کیا ہے اور دوسروں کے ليےممنوع و نا جائز قرار دیتے ہوئے صرف اپنے ليےانہیں منتخب کیا ہے،اور اس کے بندوں میں سے جو ان صفتوں میں سے اسے ٹکرے اس پرلعنت کی ہے اور اسی کی رو سے اس نے اپنے مقرب فرشتوں کا امتحان لیا تاکہ ان میں سے فروتنی کرنے والوں کو گھمنڈ کرنے والوں سے چھانٹ کر الگ کر دے۔چنانچہ اللہ سبحانہ، نے باوجو دیہ کہ وہ دل کے بھید وں اور پردہ غیب میں چھپی ہو ئی چیز وں سے آگاہ ہے۔فرمایا کہ میں مٹی سے بشر بنانے والا ہوں۔جب میں اس کو تیار کر لوں اور اپنی خاص روح پھونک دوں تو تم اس کے سامنے سجدہ میں گر پڑنا۔سب کے سب فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس کواسے سجدہ کرنے میں خار آئی اور اپنے مادہ تخلیق کی بنا پر آدم کے مقابلے میں گھمنڈ کیا اور اپنی اصل کے لحاظ سے ان کے سامنے اکڑ گیا۔چنانچہ یہ دشمن خدا عصبیّت برتنے والوں کا سرغنہ اور سرکشوں کا پیشرو ہے کہ جس نے تعصب کی بنیاد رکھی اللہ سے اس کی روائے عظمت و کبریائی چھیننے کا تصو ّر کیا۔تکبر و سر کشی کا جامہ پہن لیا اور عجز و فرو تنی کی نقاب اتار ڈالی۔پھر تم دیکھتے نہیں کہ اللہ نے اسے بڑے بننے کی وجہ سے کس طرح چھوٹا بنا دیا،اور بلندی کے زعم کی وجہ سے کس طرح پستی دی۔دنیا اور آخرت میں اس کے ليےبھڑکتی ہو ئی آگ مہیا کی
لَوْ أَرَادَ ال‍لّهُ أَنْ یخْلُقَ آدَمَ مِنْ نُور یخْطَفُ الْاَبْصارَ ضِیاؤُهُ، وَ یبْهَرُ الْعُقُولَ رُوَاؤُهُ، وَ طِیب یأْخُذُ الْاَنْفَاسَ عَرْفُهُ، لَفَعَلَ. وَ لَوْ فَعَلَ لَظَلَّتْ لَهُ الْاَعْنَاقُ خَاضِعَةً، وَ لَخَفَّتِ الْبَلْوَی فِیهِ عَلَی الْمَلاَئِكَةِ. وَ لكِنَّ ال‍لّهَ سُبْحَانَهُ یبْتَلِی خَلْقَهُ بِبَعْضِ مَا یجْهَلُونَ أَصْلَهُ، تَمْییزاً بِالاِخْتِبَارِ لَهُمْ، وَ نَفْیاً لِلاِسْتِکْبارِ عَنْهُمْ، وَ إِبْعَاداً لِلْخُیلاَءِ مِنْهُمْ. فَاعْتَبِرُوا بِمَا كَانَ مِنْ فِعْلِ ال‍لّهِ بِإبْلِیسَ إِذْ أَحْبَطَ عَمَلَهُ الطَّوِیلَ، وَجَهْدَهُ الْجَهِیدَ، وَ كَانَ قَدْ عَبَدَال‍لّهَ سِتَّةَ آلاَفِ سَنَة، لایدْرَی أَمِنْ سِنِی الدُّنْیا أَمْ مِنْ سِنِی الْاخِرَةِ، عَنْ كِبْرِ سَاعَة وَاحِدَة. فَمَنْ ذَا بَعْدَ إِبْلِیسَ یسْلَمُ عَلَی ال‍لّهِ بِمِثْلِ مَعْصِیتِهِ؟ كَلاَّ، مَا كَانَ ال‍لّهُ سُبْحَانَهُ لِیدْخِلَ الْجَنَّةَ بَشَراً بأَمْر أَخْرَجَ بِهِ مِنْهَا مَلَکاً. إِنَّ حُکْمَهُ فِی أَهْلِ السَّمَاءِ وَ أَهْلِ الْاَرْضِ لَوَاحِدٌ. وَ مَا بَینَ ال‍لّهِ وَ بَینَ أَحَد مِنْ خَلْقِهِ هَوَادَةٌ فِی إِبَاحَةِ حِمی حَرَّمَهُ عَلَی الْعَالَمِینَ.اور اگر اللہ چاہتا تو آدم کو ایک ایسے نور سے پیداکرتاجس کی روشنی آنکھوں کو چندھیا دے او ر اس کی خوشنمائی عقلو ں پر چھا جائے اور ایسی خوشبو سے کے جس کی مہک سانسوں کو جکڑ لے اور اگر ایسا کرتا تو ان کے آگے گردنیں خم ہو جاتیں اور فرشتوں کو ان کے بارے میں آزمائش ہلکی ہو جاتی لیکن اللہ سبحانہ،،اپنی مخلوقات کو ایسی چیزوں سے آزماتا ہے جن كى اصل و حقیقت سے وہ نا واقف ہو تے ہیں تاکہ اس آزمائش کے ذریعے (اچھے اور برے افراد میں )امتیاز نہ کردے۔ان سے نخوت و برتری کو الگ اور غرور و خود پسندی کو دور کرے۔تمہیں چاہیئے کہ اللہ نے شیطان کے ساتھ جو کیا اس سے عبرت حا صل کرو،کہ طویل طویل عبادتوں اور بھر پور کو ششوں پر اس کے ایک گھڑی کے گھمنڈ نے پانی پھیر دیا۔حالانکہ اس نے چھ ہزار برس تک جو پتہ نہیں دنیا کے سال تھے یا آخرت کے اس کی عبادت کی تھی،تو ابلیس کے بعد کون رہ جاتا ہے جو اس جیسی معصیّت کرکے اللہ کے عذاب سے محفوظ رہ سکتا ہو ؟ہرگز نہیں،یہ تو جنت سے نکال باہر کیا ہو اسی پر کسی بشر کو جنت میں جگہ دے۔اس کا حکم تو اہل آسمان اور اہل زمین میں یکساں ہے۔اللہ او رمخلوقات میں سے کسی فرد خاص کے درمیان دوستی نہیں کہ اس کو ایسے امر ممنو ع کی اجازت ہو کہ جسے تمام جہاں والوں کے ليےاس نے حرام کیا ہو۔
اِحْذَرُوا عِبَادَ ال‍لّهِ عَدُوَّ ال‍لّهِ أَنْ یعْدِیكُمْ بِدَائِهِ، وَ أَنْ یسْتَفِزَّكُمْ بِنِدَائِهِ، وَ أَنْ یجْلِبَ عَلَیكُمْ بِخَیلِهِ وَ رَجِلِهِ. فَلَعَمْرِی لَقَدْ فَوَّقَ لَكُمْ سَهْمَ الْوَعِیدِ، وَ أَغْرَقَ إِلَیكُمْ بِالنَّزْعِ الشَّدِیدِ، وَ رَمَاكُمْ مِنْ مَكَان قَرِیب، فَقَالَ: (رَبِّ بِمآ أَغْوَیتَنِی لاَُزَینَنَّ لَهُمْ فِی الْاَرْضِ وَ لاَُغْوِینَّهُمْ أَجْمَعِینَ)، قَذْفاً بِغَیب بَعِید، وَ رَجْماً بِظَنٍّ غَیرِ مُصِیب، صَدَّقَهُ بِهِ أَبْنَاءُ الْحَمِیةِ، وَ إِخْوَانُ الْعَصَبِیةِ، وَ فُرْسَانُ الْكِبْرِ وَ الْجَاهِلِیةِ. حَتَّی إِذَا انْقَادَتْ لَهُ الْجَامِحَةُ مِنْكُمْ، وَ اسْتَحْكَمَتِ الطَّمَاعِیةُ مِنْهُ فِیكُمْ، فَنَجَمَتِ الْحَالُ مِنَ السِّرِّ الْخَفِی إِلَی الْاَمْرِ الْجَلِی، اسْتَفْحَلَ سُلْطَانُهُ عَلَیكُمْ، وَ دَلَفَ بِجُنُودِهِ نَحْوَكُمْ، فَأَقْحَمُوكُمْ وَ لَجَاتِ الذُّلِّ، وَ أَحَلُّوكُمْ وَرَطَاتِ الْقَتْلِ، وَ أَوْطَؤُوكُمْ إِثْخَانَ الْجِرَاحَةِ، طَعْناً فِی عُیونِكُمْ، وَ حَزًّا فِی حُلُوقِكُمْ، وَ دَقًّا لِمَنَاخِرِكُمْ، وَ قَصْداً لِمَقَاتِلِكُمْ، وَ سَوْقاً بِخَزَائِمِ الْقَهْرِ إِلَی النَّارِ الْمُعَدَّةِ لَكُمْ. فَأَصْبَحَ أَعْظَمَ فِی دِینِكُمْ حَرْجاً، وَ أَوْرَی فِی دُنْیاكُمْ قَدْحاً مِنَ الَّذِینَ أَصْبَحْتُمْ لَهُمْ مُنَاصِبِینَ، وَ عَلَیهِمْ مُتَأَلِّبِینَ. فَاجْعَلُوا عَلَیهِ حَدَّكُمْ، وَ لَهُ جَدَّكُمْ. خدا کے بندو ! اللہ کے دشمن سے ڈرو کہ کہیں وہ تمہیں اپنا روگ نہ لگا دے،اپنی پکار سے تمہیں بہکا نہ دے،اور اپنے سوار و پیادے لے کر تم پر نہ چڑھ دوڑے اس ليےمیری جان کی قسم !اس نے شر انگیزی کے تیر کو چلہ کمان میں جوڑ رکھاہے اور قریب کی جگہ سے تمہیں اپنے نشانہ کی زد پر رکھ کر کمان کو زور سے کھینچ لیا ہے۔جیسا کہ اللہ نے اس کی زبانی فرمایا ہے کہ اے میرے پروردگار !چونکہ تو نے مجھے بہکا دیا ہے،اب میں بھی ان کے سامنے زمین پر گناہوں کو سچ کر پیش کرو ں گا اور ان سب کو گمراہ کروں گا،حالانکہ یہ اس نے بالکل اٹکل پچّو کہا تھا۔اور غلط گمان کی بناء پر (اندھیرے میں) تیر چلایا تھا لیکن فرزندان رعو نت برادران ُعصبیّت اور شہسواران غرور و جاہلیت نے اس کی بات کو سچ کر دکھایا،یہا ں تک کہ جب تم میں سے سرکش اور منہ زور لوگ اس کے فرمانبردار ہوگئے،اور تمہارے بارے میں اس کی ہوس و طمع قوی ہو گئی اور صورت حال پردہ خفا سے نکل کر کھلم کھلا سامنے آگئی تو اس کا پورا پورا تسلّط تم پر ہو گیا اور وہ اپنے لشکر و سپاہ کو لے کر تمہاری طرف بڑھ آیا اور انہوں نے تمہیں ذلت کے غارو ں میں دھکیل دیا اور قتل و خون کے بھنوروں میں لا گرایا اور گھاؤ پر گھاؤ لگا کر تمہیں کچل دیا۔تمہاری آنکھوں میں نیزے گڑ کر،تمہارے گلے کاٹ کر،تمہارے نتھنوں کو پارہ پارہ کر کے تمہارے ایک ایک جوڑ بند کو توڑ کر اور تمہاری ناک میں غلبہ و تسلّط کی نکیلیں ڈال کر تمہیں اس آگ کی طرف کھینچے ليےجاتا ہے جو تمہارے ليےتیار کی گئی ہے اسی طرح ان دشمنوں سے جن سے کھلم کھلا تمہاری مخالفت ہے اور جن کے مقابلے کے ليےتم فوجیں جمع کرتے ہو،زیادہ بڑھ چڑھ کر وہ تمہارے دین کو مجروح کرنے والا اور دنیا میں تمہارے ليے(فتنہ و فساد)کے شعلے بھڑکانے والا ہے لہٰذا تم پر لازم ہے کہ اپنے جوش و غضب کا پورا مرکز اسے قرار دو،اور پوری کوشش اس کے خلا ف صرف کرو۔
لَعَمْرُ ال‍لّهِ لَقَدْ فَخَرَ عَلَی أَصْلِكُمْ، وَ وَقَعَ فِی حَسَبِكُمْ، وَ دَفَعَ فِی نَسَبِكُمْ، وَ أَجْلَبَ بِخَیلِهِ عَلَیكُمْ، وَ قَصَدَ بِرَجِلِهِ سَبِیلَكُمْ، یقْتَنِصُونَكُمْ بِكُلِّ مَكَان، وَ یضْرِبُونَ مِنْكُمْ كُلَّ بَنَان. لاَتَمْتَنِعُونَ بِحِیلَة، وَ لاتَدْفَعُونَ بِعَزِیمَة، فِی حَوْمَةِ ذُلٍّ، وَ حَلْقَةِ ضِیق، وَ عَرْصَةِ مَوْت، وَ جَوْلَةِ بَلاَء. فَأَطْفِئُوا مَا كَمَنَ فِی قُلُوبِكُمْ مِنْ نِیرَانِ الْعَصَبِیةِ وَ اَحْقَادِ الْجَاهِلِیةِ، فَإِنَّمَا تِلْكَ الْحَمِیةُ تَكُونُ فِی الْمُسْلِمِ مِنْ خَطَرَاتِ الشَّیطَانِ وَ نَخَوَاتِهِ، وَ نَزَغَاتِهِ وَ نَفَثَاتِهِ. وَ اعْتَمِدُوا وَضْعَ التَّذَلُّلِ عَلَی رُؤُوسِكُمْ، وَ إِلْقَاءَ التَعَزُّزِ تَحْتَ أَقْدَامِكُمْ، وَ خَلْعَ التَّكَبُّرِ مِنْ أَعْنَاقِكُمْ، وَاتَّخِذُوا التَّوَاضُعَ مَسْلَحَةً بَینَكُمْ وَ بَینَ عَدُوِّكُمْ إِبْلِیسَ وَ جُنُودِهِ; فَإِنَّ لَهُ مِنْ كُلِّ أُمَّة جُنُوداً وَ أَعْوَاناً، وَ رَجِلاً وَ فُرْسَاناً، وَ لاتَكُونُوا كَالْمُتَكَبِّرِ عَلَی ابْنِ أُمِّهِ مِنْ غَیرِ مَا فَضْل جَعَلَهُ ال‍لّهُ فِیهِ سِوَی مَا أَلْحَقَتِ الْعَظَمَةُ بِنَفْسِهِ مِنْ عَدَاوَةِ الْحَسَدِ، وَ قَدَحَتِ الْحَمِیةُ فِی قَلْبِهِ مِنْ نَارِ الْغَضَبِ، وَ نَفَخَ الشَّیطَانُ فِی أَنْفِهِ مِنْ رِیحِ الْكِبْرِ الَّذِی أَعْقَبَهُ ال‍لّهُ بِهِ النَّدَامَةَ، وَ أَلْزَمَهُ آثَامَ الْقَاتِلِینَ إِلَی یوْمِ الْقِیامَةِ.خدا کی قسم اس نے شروع ہی میں تمہاری اصل (آدم)پر فخر کیا تمہارے حسب (قدرومنزلت) پرحرف رکھا،تمہارے نسب(اصل و طینت )پر طعن کیا،او راپنے سواروں کو لے کر تم پر يورش کی اور اپنے پیادوں کو لے کر تمہارے راستہ کا قصد کیا ہے۔و ہ ہر جگہ سے تمہیں شکار کرتے ہیں اور تمہاری انگلی کی ایک ایک پور پر چوٹيں لگاتے ہیں۔نہ کسی حیلہ و تدبیر سے تم اپنا بچاؤاور نہ پورا تہیا کر کے اس کی روک تھام کرسکتے ہو،درآنحاليکہ تم رسوائی کے بھنور تنگی و ضیق کے دائرہ،موت کے میدان اور مصیبت و بلا کی جو لانگا ہ میں ہو،تمہیں لازم ہے کہ اپنے دلو ں میں چھپی ہوئی عصبیّت کی آگ اور جاہلیت کے کینوں کو فرو کرو۔کیوں کہ مسلمان میں یہ غرور خود پسندی شیطان کی وسوسہ اندازی، نخوت پسندی،فتنہ انگیزی اور افسوں کا ری کا نتیجہ ہوتی ہے عجز و فرو تنی کو سر کاتاج بنانے۔کبرو خود بینی کو پیروں تلے روندنے او رتکبر و رعو نت کا طوق گردن سے اتارنے کا عزم بالخبرم کرلو۔اپنے دشمن شیطان اوراس کی سپاہ کے درمیان تواضع فروتنی کا مورچہ قائم کرو۔کیونکہ ہر جماعت میں اس کے لشکر،یار و مددگار اور سوار و پیادے موجود ہیں۔تم اس کی طرح نہ بنو کہ جس نے اپنے ماں جائے بھائی کے مقابلے میں غرور کیا۔بغیر کسی فضیلت و بلندی کے کہ جو اللہ نے اس میں قراردی ہو،سوا اس کے کہ حاسد انہ عداوت سے اس میں اپنی بڑائی کا احساس پیدا ہو ا،اور خود پسندی نے اس کے دل میں غیظ و غضب کی آگ بھڑکا دی اور شیطان نے اس کے ناک میں کبر و غرور کی ہو ا پھونک دی کہ جس کی وجہ سے اللہ نے مذامت و پشیمانی کو اس کے پیچھے لگا دیا اور قیامت تک کے قاتلوں کے گناہ اس کے ذمہ ڈال دیئے
لاَ وَ قَدْ أَمْعَنْتُمْ فِی الْبَغْی، وَ أَفْسَدْتُمْ فِی الْاَرْضِ مُصَارَحَةً ل‍لّهِ بِالْمُنَاصَبَةِ، وَ مُبَارَزَةً لِلْمُؤْمِنینَ بِالْمُحَارَبَةِ. فَال‍لّهَ ال‍لّهَ فِی كِبْرِ الْحَمِیةِ وَ فَخْرِ الْجَاهِلِیةِ! فَإِنَّهُ مَلاَقِحُ الشَّنَآنِ، وَ مَنَافِخُ الشَّیطَانِ، الَّتِی خَدَعَ بِهَا الْاُمَمَ الْمَاضِیةَ، وَ الْقُرُونَ الْخَالِیةَ. حَتَّی أَعْنَقُوا فِی حَنَادِسِ جَهَالَتِهِ، وَ مَهَاوِی ضَلاَلَتِهِ، ذُلُلاً عَنْ سِیاقِهِ، سُلُساً فِی قِیادِهِ. أَمْراً تَشَابَهَتِ الْقُلُوبُ فِیهِ، وَ تَتَابَعَتِ الْقُرُونُ عَلَیهِ، وَ كِبْراً تَضَایقَتِ الصُّدُورُ بِهِ.

أَلاَ فَالْحَذَرَ الْحَذَرَ مِنْ طَاعَةِ سَادَاتِكُمْ وَ كُبَرَائِكُمْ! الَّذِینَ تَكَبَّرُوا عَنْ حَسَبِهِمْ، وَ تَرَفَّعُوا فَوْقَ نَسَبِهِمْ، وَ أَلْقَوُا الْهَجِینَةَ عَلَی رَبِّهِمْ، وَ جَاحَدُوا ال‍لّهَ عَلَی مَا صَنَعَ بِهِمْ، مُكَابَرَةً لِقَضَائِهِ، وَ مُغَالَبَةً لاِلاَئِهِ. فَإِنَّهُمْ قَوَاعِدُ أَسَاسِ الْعَصَبِیةِ، وَ دَعَائِمُ أَرْكَانِ الْفِتْنَةِ، وَ سُیوفُ اعْتِزَاءِ الْجَاهِلِیةِ. فَاتَّقُوا ال‍لّهَ وَ لاتَكُونُوا لِنِعَمِهِ عَلَیكُمْ أَضْدَاداً، وَ لالِفَضْلِهِ عِنْدَكُمْ حُسَّاداً. وَ لاتُطِیعُوا الْاَدْعِیاءَ الَّذِینَ شَرِبْتُمْ بِصَفْوِكُمْ كَدَرَهُمْ، وَ خَلَطْتُمْ بِصِحَّتِكُمْ مَرَضَهُمْ، وَ أَدْخَلْتُمْ فِی حَقِّكُمْ بَاطِلَهُمْ، وَ هُمْ أَسَاسُ الْفُسُوقِ، وَ أَحْلاَسُ الْعُقُوقِ. اتَّخَذَهُمْ إِبْلِیسُ مَطَایا ضَلاَل. وَ جُنْداً بِهِمْ یصُولُ عَلَی النَّاسِ، وَ تَرَاجِمَةً ینْطِقُ عَلَی أَلْسِنَتِهِمْ، اسْتِرَاقاً لِعُقُولِكُمْ وَ دُخُولاً فِی عُیونِكُمْ، وَ نَفْثاً فِی أَسْمَاعِكُمْ. فَجَعَلَكُمْ مَرْمَی نَبْلِهِ، وَ مَوْطِئَ قَدَمِهِ، وَ مَأْخَذَ یدِهِ.

دیکھو!تم نے اللہ سے کھلم کھلا اتر کر اور مومنین سے آمادہ پیکار ہو کرظلم و تعدی کی انتہا کر دی۔اور زمین میں فساد مچا دیا۔تم زمانہ جاہلیت والی خود بینی کی بنا پر فخر و غرور کرنے سے اللہ کا خوف کھاؤ۔کیو نکہ یہ دشمنی و عناد کا سر چشمہ اورشیطان کی فسوں کاری کا مرکز ہے جس سے ا س نے گزشتہ امتوں اور پہلی قوموں۴ کو ورغلایا۔یہاں تک کہ وہ اس کے دھکیلنے اور آگے سے کھینچنے پر بے چون وچرا جہالت کی اندھیا ریوں اور ضلالت کے گڑھوں میں تیزی سے جا پڑیں۔ایسی صور ت ہے جس میں ایسے لوگوں کے تمام دل ملتے جلتے ہوئے ہیں اور صدیوں کا حال ایک ہی سا رہاہے اور ایسا غرور جس کے چھپانے سے سینوں کی وسعتیں تنگ ہوتی ہیں۔ دیکھو ! اپنے ان سردار وں اور بڑوں کا اتباع کرنے سے ڈرو کہ جو اپنی جاہ وحشمت پر اکڑتے او ر اپنے نسب کی بلندیوں پرغرہ کرتے ہوں اور بد نما چیزوں کو اللہ کے سر ڈال دیتے ہوں اور اس کی قضا وقدر سے ٹکر لینے اور اس کی نعمتوں پر غلبہ پانے کے ليےاس کے احسانات سے يکسر انکار کر دیتے ہوں۔ یہی لوگ تو عصبیّت کی عمارت کی گہری بنیاد،فتنہ کے کاخ و ایوان کے ستون اور جاہلیت کے نسبی تفاخر کی تلواریں ہیں،لہٰذا اللہ سے ڈرو،اس کی دی ہوئی نعمتوں کے دشمن نہ بنو،اور ۱نہ اس کے فضل و کرم کے جو تم پر ہے۔حاسد نہ بنو اور جھوٹے مدعیان اسلام کی پیرو ی نہ کرو کہ جن کا گدلا پانی تم اپنے صاف پانی میں سمو کر پیتے ہو اور اپنی درستگی کے ساتھ ان کی خرابیوں کو غلط ملط کر لیتے ہو اور اپنے حق میں ان کے باطل کے ليےبھی راہ پیدا کر دیتے ہو وہ فسق و فجور کی بنیا د ہیں۔اور نافرمانیوں کے ساتھ چسپیدہ ہیں۔جنہیں شیطان نے گمراہی بار بردار سواری قرا ر دے رکھا ہے اور ایسا لشکر جس کے ساتھ لے کر لوگوں پر حملہ کرتا ہے ایسے تر جمان کے جن کی زبان سے وہ گویا ہوتا ہے تاکہ تمہاری عقلیں چھین لے تمہاری آنکھوں میں گھس جائے اور تمہا رے کانوں میں پھونک دے۔اس طرح اس نے تمہیں اپنے تیروں کا ہد ف اپنے قدموں کی جولانگاہ اور اپنے ہاتھو ں کا کھلونا بنالیا ہے۔
اِعْتَبِرُوا بِمَا أَصَابَ الْاُمَمَ الْمُسْتَکْبِرِینَ مِنْ قَبْلِكُمْ مِنْ بَأْسِ ال‍لّهِ وَصَوْلاَتِهِ، وَ وَقَائِعِهِ وَ مَثُلاَتِهِ، وَ اتَّعِظُوا بِمَثَاوِی خُدُودِهِمْ، وَ مَصَارِعِ جُنُوبِهِمْ، وَ اسْتَعِیذُوا بِال‍لّهِ مِنْ لَوَاقِحِ الْكِبْرِ، كَمَا تَسْتَعِیذُونَهُ مِنْ طَوَارِقِ الدَّهْرِ. فَلَوْ رَخَّصَ ال‍لّهُ فِی الْكِبْرِ لِاَحَد مِنْ عِبَادِهِ لَرَخَّصَ فِیهِ لِخَاصَّةِ أَنْبِیائِهِ وَ أَوْلِیائِهِ; وَ لكِنَّهُ سُبْحَانَهُ كَرَّهَ إِلَیهِمُ التَّكَابُرَ، وَ رَضِی لَهُمُ التَّوَاضُعَ، فَأَلْصَقُوا بِالْاَرْضِ خُدُودَهُمْ، وَ عَفَّرُوا فِی التُّرَابِ وُجُوهَهُمْ. وَ خَفَضُوا أَجْنِحَتَهُمْ لِلْمُؤْمِنِینَ، وَ کانُوا قَوْماً مُسْتَضْعَفِینَ. قَدِ اخْتَبَرَهُمُ ال‍لّهُ بِالْمَخْمَصَةِ، وَ ابْتَلاَهُمْ بِالْمَجْهَدَةِ، وَ امْتَحَنَهُمْ بِالْمَخَاوِفِ، وَ مَخَضَهُمْ بِالْمَكَارِهِ. فَلاَ تَعْتَبِرُوا الرِّضَی وَ السُّخْطَ بِالْمَالِ وَ الْوَلَدِ جَهْلاً بِمَواقِعِ الْفِتْنَةِ، وَ الْاِخْتِبَارِ فِی مَوْضِعِ الْغِنَی وَ الْاِقْتِدَارِ، فَقَدْ قَالَ سُبْحَانَهُ وَ تَعَالَی: (أَیحْسَبُونَ أنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مَّال وَ بَنِینَ * نُسَارِعُ لَهُمْ فِی الْخَیرَاتِ بَلْ لایشْعُرُونَ). فَإِنَّ ال‍لّهَ سُبْحَانَهُ یخْتَبِرُ عِبَادَهُ الْمُسْتَکْبِرِینَ فِی أَنْفُسِهِمْ بِأَوْلِیائِهِ الْمُسْتَضْعَفِینَ فِی أَعْینِهِمْ.تمہیں لازم ہے کہ تم سے قبل سرکش امتوں پر جو قہر و عذاب اور عتاب و عقاب نازل ہوا،اس سے عبرت لو،اور ان کے رخساروں کے بل لیٹنے اور پہلوؤں کے بل گرنے کے مقامات سے نصیحت حاصل کرو،اورجس طرح زمانہ کی مصیبتوں سے پناہ مانگتے ہو،اسی طرح معزور و سرکش بنانے والی چیزوں سے اللہ کے دامن میں پناہ مانگو۔اگر خدا عالم اپنے بندوں میں سے کسی ایک کو بھی کبر و رعونت کی اجازت دے سکتا ہوتا تو وہ اپنے مخصوص انبیاء و اولیاء کو اس کی اجازت دیتا لیکن اس نے ان کو کبرو غرور سے بیزار ہی رکھا،اور ان کے ليےعجزو مسکنت ہی کو پسند فرمایا۔چنانچہ انہوں رخسار زمین سے پیوستہ اور چہرے خاک آلود ہ رکھے اور مومنین کے آگے تواضع و انکسا ر سے جھکتے رہے اور وہ دنیا میں کمزور و بے بس تھے،جنہیں اللہ نے بھوک سے آزمایا تعب و مشقت میں مبتلاکیا۔ خوف و خطر کے موقعو ں سے انہیں تہ و بالا کیا۔لہٰذا خد اکی خوشنو د ی کا معیار اولادو مال کو قرار نہ دو۔کیونکہ تم نہیں جانتے کہ اللہ دولت اور اقتدار سے بھی کس کس طرح بندوں کا امتحان لیتا ہے چنانچہ اللہ سبحانہ،،کا ارشاد ہے کہ "وہ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم جو مال و اولاد سے انہیں سہارا دیتے ہیں تو ہم ان کے ساتھ بھلائیاں کرنے میں سرگر م ہیں۔مگر جو (جو اصل واقعہ ہے اسے ) یہ لوگ سمجھتے نہیں" اسی طرح کا واقعہ یہ ہے کہ اللہ اپنے ان بندوں کا جو بجائے خود اپنی بڑائی کا گھمنڈ رکھتے ہیں۔امتحان لیتا ہے۔اپنے ان دوستوں کے ذریعہ سے جو ان کی نظروں میں عاجز و بے بس ہیں۔
لَقَدْ دَخَلَ مُوسَی بْنُ عِمْرَانَ وَ مَعَهُ أَخُوهُ هَارُونَ(علیهما السلام)عَلَی فِرْعَوْنَ، وَ عَلَیهِمَا مَدَارِعُ الصُّوفِ، وَ بِأَیدِیهِمَا الْعِصِی، فَشَرَطَا لَهُ إِنْ أَسْلَمَ بَقَاءَ مُلْكِهِ، وَ دَوَامَ عِزِّهِ; فَقَالَ: «أَلاَ تَعْجَبُونَ مِنْ هذَینِ یشْرِطَانِ لِی دَوَامَ الْعِزِّ، وَ بَقَاءَالْمُلْكِ; وَ هُمَا بِمَا تَرَوْنَ مِنْ حَالِ الْفَقْرِ وَ الذُّلِّ، فَهَلاَّ أُلْقِی عَلَیهِمَا أَسَاوِرَةٌ مِنْ ذَهَب»؟ إِعْظَاماً لِلذَّهَبِ وَ جَمْعِهِ، وَ احْتِقَاراً لِلصُّوفِ وَ لُبْسِهِ! وَ لَوْ أَرَادَ ال‍لّهُ سُبْحَانَهُ لِاَنْبِیائِهِ حَیثُ بَعَثَهُمْ أَنْ یفْتَحَ لَهُمْ كُنُوزَ الذِّهْبَانِ، وَ مَعَادِنَ الْعِقْیانِ، وَ مَغَارِسَ الْجِنَانِ، وَ أَنْ یحْشُرَ مَعَهُمْ طُیورَ السَّماءِ وَ وُحُوشَ الْاَرَضِینَ لَفَعَلَ، وَ لَوْ فَعَلَ لَسَقَطَ الْبَلاَءُ، وَ بَطَلَ الْجَزَاءُ، وَ اضْمَحَلَّتِ الْاَنْبَاءُ، وَ لَمَا وَجَبَ لِلْقَابِلِینَ أُجُورُ الْمُبْتَلِینَ، وَ لااسْتَحَقَّ الْمُؤْمِنُونَ ثَوَابَ الُْمحْسِنِینَ، وَ لالَزِمَتِ الْاَسْمَاءُ مَعَانِیهَا. وَ لكِنَّ ال‍لّهَ سُبْحَانَهُ جَعَلَ رُسُلَهُ أُولِی قُوَّة فِی عَزَائِمِهِمْ، وَضَعَفَةً فِیمَا تَرَی الْاَعْینُ مِنْ حَالاَتِهِمْ، مَعَ قَنَاعَة تَمْلاَُ الْقُلُوبَ وَ الْعُیونَ غِنی، وَ خَصَاصَة تَمْلاَُ الْاَبْصَارَ وَ الْاَسْمَاعَ أَذی.(چنانچہ اس کی مثال یہ ہے کہ ) موسیٰ (علیہ السلام) اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو ساتھ لے کر اس حالت میں فرعون کے پاس آئے کہ ان کے جسم پر اونی کُرتے اور ہاتھوں میں لاٹھیاں تھیں۔اور اس سے یہ قول و قرار کیا کہ وہ اسلام قبول کرلے تو اس کا ملک بھی باقی رہے گا اور اس کی عزت بھی برقرار رہے گی۔تو اس نے (اپنے حاشیہ نشینوں سے ) کہا کہ تمہیں تعجب نہیں ہوتا کہ یہ دونوں مجھ سے یہ معاملہ ٹھہرا رہے ہیں کہ میری عزت بھی برقرا ر رہے گی۔اور ذلیل صورت میں یہ ہیں تم دیکھ ہی رہے ہو (اگر ان میں اتنا ہی دم خم تھاتو پھر )ان کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن کیوں نہیں پڑے ہوئے۔یہ اس ليےکہ وہ سونے کو اور اس کی جمع آوری کو بڑی چیز سمجھتا تھا اور بالوں کے کپڑوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔اگر خداوند عالم یہ چاہتا کہ جس وقت اس نے نبیوں کو مبعوث کیا تو ان کے ليےسونے کے خزانوں اور خالص طلاء کی کانوں منہ کھول دیتا اور باغوں کی کشت زاروں کو ان کے ليےمہیا کردیتا اور فضا کے پرندوں اور زمین کے صحرائی جانوروں کو ان کے ہمراہ کر دیتا تو کرسکتا تھا اور اگر ایسا کرتا تو پھر آزمائش ختم،جزا ؤ سزا بیکار اور (آسمانی)خبریں اکارت ہوجاتیں اور آزمائش میں پڑنے والوں کا اجر اس طرح ماننے والوں کے ليےضروری نہ رہتا اور نہ ایسے ایمان(1) لانے والے نیک کرداروں کی جزا کے مستحق رہتے۔اورنہ الفاظ اپنے معنی کا ساتھ دیتے لیکن اللہ سبحانہ، اپنے رسولوں کو ارادوں میں قوی اور آنکھو ں کو دکھائی دینے والے ظاہری حالت میں کمزور و ناتواں قرار دیتا ہے اور انہیں ایسی قناعت سے سرفراز کرتا ہے۔جو (دیکھنے اور سننے والے کے )دلوں اور آنکھوں کو بے نیازی سے بھر دیتی ہے اور افلاس ان کے دامن سے وابستہ کرتا ہے جس سے آنکھوں کو دیکھ کر اور کانوں کو سن کر اذیت ہوتی ہے۔ (1)مطلب یہ کہ جس طرح حاسد محسود کی تباہی کے درپے ہوتا ہے اسی طرح تم کفران نعمت و ارتکاب معاصی سے زوال نعمت کے اسباب پیدا نہ کرو۔
لَوْ كَانَتِ الْاَنْبِیاءُ أَهْلَ قُوَّة لاتُرَامُ، وَ عِزَّة لاَتُضَامُ، وَ مُلْک تُمَدُّ نَحْوَهُ أَعْنَاقُ الرِّجَالِ، وَ تُشَدُّ إِلَیهِ عُقَدُ الرِّحَالِ، لَكَانَ ذلِكَ أَهْوَنَ عَلَی الْخَلْقِ فِی الإِعْتِبَارِ، وَ أَبْعَدَ لَهُمْ فِی الإِسْتِکْبَارِ، وَ لاَمَنُوا عَنْ رَهْبَة قَاهِرَة لَهُمْ، أَوْ رَغْبَة مَائِلَة بِهِمْ، فَكَانَتِ النِّیاتُ مُشْتَرَكَةً، وَالْحَسَنَاتُ مُقْتَسَمَةً. وَ لكِنَّ ال‍لّهَ سُبْحَانَهُ أَرَادَ أَنْ یكُونَ الاِتِّبَاعُ لِرُسُلِهِ، وَ التَّصْدِیقُ بِكُتُبِهِ، وَ الْخُشُوعُ لِوَجْهِهِ، وَ الاِسْتِكَانَةُ لِاَمْرِهِ، وَ الاِسْتِسْلاَمُ لِطَاعَتِهِ، أُمُوراً لَهُ خَاصَّةً لاتَشُوبُهَا مِنْ غَیرِهَا شَائِبَةٌ.وَ كُلَّمَا کانَتِ الْبَلْوَی وَ الاِخْتِبَارُ أَعْظَمَ کانَتِ الْمَثُوبَةُ وَ الْجَزَاءُ أَجْزَلَ.اگر انبیاء ایسی قوت و طاقت رکھتے کہ جسے دبانے کا قصد و ارادہ بھی نہ ہو سکتا ہوتا اور ایسا تسلّط و اقتدار رکھتے کہ جس پر تعد ی ممکن ہی نہ ہوتی اور ایسی سلطنت کے مالک ہو تے کہ جس کی طرف لوگوں کی گردنیں مڑتیں اور اس کے رخ پر سواریوں کے پالان کسے جاتے تو یہ چیز نصیحت پذیری کے ليےبڑی آسان اور اس سے انکار وسرتابی بہت بعید ہوتی اور لوگ چھائے ہوئے خوف یا مائل کرنے والے اسباب رغبت کی بناء پر ایمان لے آتے تو اس کے پیغمبروں کا اتباع اس کی کتابوں کی تصدیق اس کے سامنے فروتنی ا س کے احکا م کی فرمانبرداری اور اس کی اطاعت یہ سب چیزیں اسی کے ليے مخصوص ہوں اور ان میں کوئی دوسرا شائبہ تک نہ ہواور جتنی۔آزمائش کڑی ہو گی اتنا ہی زیادہ اجرو ثواب ہوگا۔
ألاَتَرَوْنَ أَنَّ ال‍لّهَ، سُبْحَانَهُ، اخْتَبَرَ الْاَوَّلِینَ مِنْ لَدُنْ آدَمَ صَلَوَاتُ ال‍لّهِ عَلَیهِ، إِلَی الْاخِرِینَ مِنْ هذَا الْعَالَمِ; بِأَحْجَار لاتَضُرُّ وَ لاتَنْفَعُ، وَ لاتُبْصِرُ وَ لاتَسْمَعُ. فَجَعَلَهَا بَیتَهُ الْحَرَامَ «الَّذِی جَعَلَهُ لِلنَّاسِ قِیاماً». ثُمَّ وَضَعَهُ بِأَوْعَرِ بِقَاعِ الْاَرْضِ حَجَراً، وَ أَقَلِّ نَتَائِقِ الدُّنْیا مَدَراً، وَ أَضْیقِ بُطُونِ الْاَوْدِیةِ قُطْراً. بَینَ جِبَال خَشِنَة، وَ رِمَال دَمِثَة، وَ عُیون وَشِلَة، وَ قُرًی مُنْقَطِعَة; لایزْكُوبِهَا خُفٌّ، وَ لاحَافِرٌ وَ لاظِلْفٌ. ثُمَّ أَمَرَ آدَمَ علیه‌السلام وَ وَلَدَهُ أَنْ یثْنُوا أَعْطَافَهُمْ نَحْوَهُ، فَصَارَ مَثَابَةً لِمُنْتَجَعِ أَسْفَارِهِمْ، وَ غَایةً لِمُلْقَی رِحَالِهِمْ. تَهْوِی إِلَیهِ ثِمَارُ الْاَفْئِدَةِ مِنْ مَفَاوِزِ قِفَار سَحِیقَة وَ مَهَاوِی فِجَاج عَمِیقَة، وَ جَزَائِرِ بِحَار مُنْقَطِعَة، حَتَّی یهُزُّوا مَنَاكِبَهُمْ ذُلُلاً یهَلِّلُونَ ل‍لّهِ حَوْلَهُ، وَ یرْمُلُونَ عَلَی أَقْدَامِهِمْ شُعْثاً غُبْراً لَهُ. قَدْ نَبَذُوا السَّرَابِیلَ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ، وَ شَوَّهُوا بِإِعْفَاءِ الشُّعُورِ مَحَاسِنَ خَلْقِهِمْ، ابْتِلاَءً عَظِیماً، وَ امْتِحَاناً شَدِیداً، وَ اخْتِبَاراً مُبِیناً، وَ تَمْحِیصاً بَلِیغاً، جَعَلَهُ ال‍لّهُ سَبَباً لِرَحْمَتِهِ، وَ وُصْلَةً إِلَی جَنَّتِهِ.تم دیکھتے نہیں کہ اللہ سبحانہ، نے آدم سے لے کر اس جہاں کے آخر تک کے اگلے پچھلوں کو ایسے پتھروں سے آزمایا ہے کہ جو نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ فائدہ نہ سن سکتے ہیں اور نہ دیکھ سکتے ہیں اس نے ان پتھروں ہی کو اپنا محترم گھر قرار دیا کہ جسے لوگوں کے ليے(امن کے )قیام کا ذریعہ ٹھہرایا ہے۔پھر یہ اس نے اسے زمین کے رقبوں میں سے ایک سنگلاخ رقبہ اور دنیا میں بلندی پر واقع ہونے والی آبادیوں میں سے ایک کم مٹی والے مقام اور گھاٹیوں میں سے ایک تنگ اطراف والی گھاٹی میں قرار دیا کھرے اور کھردرے پہاڑو ں نرم ریتلے میدانوں،کم آب چشموں اور متفرق دیہاتوں کے درمیان فرق کہ جہاں اونٹ،گھوڑا اور گائے بکری نشوونما نہیں پاسکتے۔پھر بھی اس نے آدم اور ان کی اولاد کو حکم دیا کہ اپنے رخ اس کی طرف موڑیں،چنانچہ وہ ان کے سفروں سے فائدہ اٹھانے کا مرکز اور پالانوں کے اترنے کی منزل بن گیا کہ دور افتادہ بے آب و گیاہ بيابانوں دور دراز گھاٹیوں کے نشیبی راہوں اور (زمین سے)کٹے ہوئے دریاؤں کے جزیروں سے نفوس انسانی ادھر متوجہ ہوتے ہیں یہاں تک کہ وہ پوری فرمانبرداری سے اپنے کاکندھوں کو ہلاتے ہوئے اس کے گرد لبیک الہم لبیک کی آوازیں بلند کرتے ہیں اور اپنے پیروں سے پویہ دوڑ لگاتے ہیں۔اس حالت میں کہ ان کے بال بکھرے ہو ئے اور بدن خاک میں اٹے ہوئے ہیں۔انہوں نے اپنا لباس پشت پر ڈال دیا ہوتا ہے اور بالوں کو بڑھا کر اپنے کوبد صورت بنا لیا ہوتا ہے۔یہ بڑی ابتلا،کڑی آزمائش کھلم کھلا امتحان اور پوری پوری جانچ ہے۔اللہ نے اسے اپنی رحمت کا ذریعہ اور جنت تک پہنچنے کا وسیلہ قراردیا ہے۔
لَوْ أَرَادَ سُبْحَانَهُ أَنْ یضَعَ بَیتَهُ الْحَرَامَ، وَ مَشَاعِرَهُ الْعِظَامَ، بَینَ جَنَّات وَ أَنْهَار، وَ سَهْل وَ قَرَار، جَمَّ الْاَشْجَارِ، دَانِی الثِّمَارِ، مُلْتَفَّ الْبُنَی، مُتَّصِلَ الْقُرَی، بَینَ بُرَّة سَمْرَاءَ، وَ رَوْضَة خَضْرَاءَ، وَ أَرْیاف مُحْدِقَة، وَ عِرَاص مُغْدِقَة، وَ رِیاض نَاضِرَة، وَ طُرُق عَامِرَة، لَكَانَ قَدْ صَغُرَ قَدْرُ الْجَزَاءِ عَلَی حَسَبِ ضَعْفِ الْبَلاَءِ. وَ لَوْ كَانَ الْاِسَاسُ الْمَحْمُولُ عَلَیهَا، وَ الْاَحْجَارُ الْمَرْفُوعُ بِهَا، بَینَ زُمُرُّدَة خَضْرَاءَ، وَ یاقُوتَة حَمْرَاءَ، وَ نُور وَ ضِیاء، لَخَفَّفَ ذلِكَ مُصَارَعَةَ الشَّكِّ فِی الصُّدُورِ، وَ لَوَضَعَ مُجَاهَدَةَ إِبْلِیسَ عَنِ الْقُلُوبِ، وَ لَنَفَی مُعْتَلَجَ الرَّیبِ مِنَ النَّاسِ، وَ لكِنَّ ال‍لّهَ یخْتَبِرُ عِبَادَهُ بِأَنْوَاعِ الشَّدَائِدِ، وَ یتَعَبَّدُهُمْ بِأَنْوَاعِ الْمَجَاهِدِ، وَ یبْتَلِیهِمْ بِضُرُوبِ الْمَكَارِهِ، إِخْرَاجاً لِلتَّكَبُّرِ مِنْ قُلُوبِهِمْ، وَ إِسْكَاناً لِلتَّذَلُّلِ فِی نُفُوسِهِمْ، وَ لِیجْعَلَ ذلِكَ أَبْوَاباً فُتُحاً إِلَی فَضْلِهِ، وَ أَسْبَاباً ذُلُلاً لِعَفْوِهِ.اور اگر خداوند عالم یہ چاہتا کہ وہ اپنا محترم گھر اور بلند پایہ عبادت گاہیں ایسی جگہ پر بنائے کہ جس کے باغ و چمن کی قطاریں بہتی ہوئی نہریں ہو ں زمین نرم وہموار ہو کہ (جس میں) درختوں کے جھنڈ اور (ان میں ) جھکے ہوئے پھلوں کے خوشے ہوں جہا ں عمارتوں کا جال بچھا ہو اہو۔اور آبادیوں کا سلسلہ ملا ہو ا ہو۔جہاں سرخی مائل گیہوں کے پودے، سر سبز مرغزار،چمن درکنار سبزہ زار پانی میں شرابور میدان،لہلہاتے ہوئے کھیت اور آبا د گزرگاہیں ہوں،تو البتہ وہ جزا و سزا کو اسی اندازے سے کم کر دیتاہے کہ جس اندازہ سے ابتلاء وآزمائش میں کمی واقع ہوئی اگر وہ بنیاد کہ جس پر اس گھر کی تعمیر ہوئی ہے او ر وہ پتھر کہ جس پراس کی عمارت اٹھائی گئی ہے زمرد سبز و یاقوت سرخ کے ہوتے اور (ان میں) نور و ضیاء ( کی تابانی) ہوتی تو یہ چیز سینے میں شک و شبہات کے ٹکراؤ کو کم کر دیتی اور دلوں سے شیطان کی دو ڑ (کا اثر)مٹا دیتی اور لوگوں سے شکوک کے خلجان دور کردیتی۔لیکن اللہ سبحانہ، اپنے بندوں گو ناگوں سختیوں سے آزماتا ہے اور ان سے ایسی عبادت کا خواہاں ہے کہ جو طرح طرح کی مشقتوں سے بجا لائی گئی ہواور انہیں قسم قسم کی ناگواریوں سے جانچتا ہے تاکہ ان کے دلوں سے تمکنت و غرور کو نکال باہر کرے اور ان کے نفوس میں عجز و فروتنی کو جگہ دے اور یہ کہ اس ابتلا ؤ آزمائش( کی راہ)سے اپنے فضل و اتنان کے کھلے ہوئے دروازوں تک (انہیں ) پہنچائے او ر اسے اپنی معافی و بخشش کا آسان وسیلہ و ذریعہ قرار دے۔
اَل‍لّهَ ال‍لّهَ فِی عَاجِلِ الْبَغْی، وَ آجِلِ وَخَامَةِ الظُّلْمِ، وَ سُوءِ عَاقِبَةِ الْكِبْرِ، فَإِنَّهَا مَصْیدَةُ إِبْلِیسَ الْعُظْمَی، وَ مَكِیدَتَهُ الْكُبْرَی، الَّتی تُسَاوِرُ قُلُوبَ الرِّجَالِ مُسَاوَرَةَ السُّمُومِ الْقَاتِلَةِ، فَما تُکْدِی أَبَداً، وَ لاتُشْوِی أَحَداً، لاعَالِماً لِعِلْمِهِ، وَ لامُقِلاًّ فِی طِمْرِهِ. وَ عَنْ ذلِكَ مَا حَرَسَ ال‍لّهُ عِبَادَهُ الْمُؤْمِنِینَ بِالصَّلَوَاتِ وَ الزَّكَوَاتِ، وَ مُجَاهَدَةِ الصِّیامِ فِی الْاَیامِ الْمَفْرُوضَاتِ، تَسْكِیناً لِاَطْرَافِهِمْ، وَ تَخْشِیعاً لِاَبْصَارِهِمْ، وَ تَذْلِیلاً لِنُفُوسِهِمْ، وَ تَخْفِیضاً لِقُلُوبِهِمْ، وَ إِذْهَاباً لِلْخُیلاَءِ عَنْهُمْ، وَ لِمَا فِی ذلِكَ مِنْ تَعْفِیرِ عِتَاقِ الْوُجُوهِ بِالتُّرَابِ تَوَاضُعاً، وَ الْتِصَاقِ كَرَائِمِ الْجَوَارِحِ بِالْاَرْضِ تَصَاغُراً، وَ لُحُوقِ الْبُطُونِ بِالْمُتُونِ مِنَ الصِّیامِ تَذَلُّلاً; مَعَ مَا فِی الزَّكَاةِ مِنْ صَرْفِ ثَمَرَاتِ الْاَرْضِ وَ غَیرِ ذلِكَ إِلَی أَهْلِ الْمَسْكَنَةِ وَ الْفَقْرِ. اُنْظُرُوا إِلَی مَا فِی هذِهِ الْاَفْعَالِ مِنْ قَمْعِ نَوَاجِمِ الْفَخْرِ، وَ قَدْعِ طَوَالِعِ الْكِبْرِ.دنیامیں سرکشی کی پاداش اور آخرت میں ظلم کی گرانباری کے عذاب اور غرور و نخوت کے برے انجام کے خیال سے اللہ کا خوف کھاؤ کیونکہ یہ (سرکشی ظلم او رغرور و تکبر ) شیطان کا بہت بڑا جال اور بہت بڑا ہتھکنڈا ہے جو لوگوں کے دلوں میں زہر قاتل کی طر ح اتر جاتا ہے۔نہ اس کا اثر کبھی رائیگاں جاتا ہے نہ اس کا وار کسی سے خطا کرتا ہے۔نہ 3عالم سے اس کے علم باوجود اور نہ پھٹے پرانے چیتھڑوں میں کسی فقیر بے نوا سے۔یہی وہ چیز ہے جس سے خدا وند عالم ایمان سے سر فراز ہونے والے بندوں کو نماز،زکٰوة اور مقرر دنوں میں روزوں کے جہاد کے ذریعہ محفوظ رکھتا ہے اور اس طرح اس کے ہاتھ پیروں (کی طغیانیوں )کو سکون کی سطح پر لاتا ہے۔ان کی آنکھوں کو عجزو شکستگی سے جھکا کر نفس کو رام اور دلوں کو متواضع بنا کر رعونت و خود پسندی کو ان سے دور کرتا ہے (نماز میں) نازک چہروں کو عجز و نیازمندی کی بناء پر خاک آلودہ کیا جاتاہے اور روزوں میں ارزوئے فرمانبرداری پیٹ پیٹھ سے مل جاتے ہیں اور زکٰوةمیں زمین کی پیداوار وغیرہ کو فقراء اور مساکین تک پہنچایا جاتا ہے۔ دیکھو ! کہ ان اعمال وعبادت میں غرور کے ابھرے ہوئے اثرات کو مٹانے اور تمکنت کے نمایا ں ہونے والے آثار دبانے کے کیسے کیسے فوائد مضمر ہیں۔
لَقَدْ نَظَرْتُ فَمَا وَجَدْتُ أَحَداً مِنَ الْعَالَمِینَ یتَعَصَّبُ لِشَیء مِنَ الأَشْیاءِ إِلاَّ عَنْ عِلَّةِ تَحْتَمِلُ تَمْوِیهَ الْجُهَلاَءِ، أوْ حُجَّة تَلِیطُ بِعُقُولِ السُّفَهَاءِ غَیرَكُمْ. فَإِنَّكُمْ تَتَعَصَّبُونَ لِاَمْر مَا یعْرَفُ لَهُ سَبَبٌ وَ لاعِلَّةٌ. أَمَّا إِبْلِیسُ فَتَعَصَّبَ عَلَی آدَمَ لِاَصْلِهِ، وَ طَعَنَ عَلَیهِ فِی خِلْقَتِهِ، فَقَالَ: أَنَا نَارِی وَ أَنْتَ طِینِی. وَ أَمَّا الْاَغْنِیاءُ مِنْ مُتْرَفَةِ الْاُمَمِ، فَتَعَصَّبُوا لاِثَارِ مَوَاقِعِ النِّعَمِ، فَقَالُوا: (نَحْنُ أَکْثَرُ أَمْوَالاً وَ أَوْلاَداً وَ مَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِینَ).میں نے نگاہ دوڑائی تو دنیا بھر میں ایک فرد کو بھی ایسا نہ پایا کہ وہ کسی چیز کی پاسداری کرتاہو،مگر یہ کہ اس کی نظروں میں اس کی کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے کہ جو جاہلوں کے اشتباہ کا باعث بن جاتی ہے یا کوئی ایسی دلیل ہوتی ہے جو بیوقوفوں کی عقلوں سے چپک جاتی ہے۔سوا تمہارے کہ تم ایک چیز کی جا نب داری کرتے ہو،مگر اس کی کوئی علت اور وجہ نہیں معلوم ہوتی،ابلیس ہی کو لو کہ اس نے آدم کے سامنے حمیّت و جاہلیت کا مظاہرہ کیا تو اپنی اصل (آگ)کی وجہ سے اور ان پر چوٹ کی تو اپنی خلقت و پیدائش کی بناء پر،چنانچہ اس نے آدم سے کہا کہ میں آگ سے بنا ہوں اور تم مٹی سے ( یونہی) خوش حال قوموں کے مالدار لوگ اپنی نعمتوں پر اتراتے ہوئے بڑے بول بولے کہ "ہم مال و اولاد میں بڑھے ہوئے ہیں ہمیں کیونکر عذاب کیا جاسکتا ہے"۔
إِنْ كَانَ لاَبُدَّ مِنَ الْعَصَبِیةِ فَلْیكُنْ تَعَصُّبُكُمْ لِمَكَارِمِ الْخِصَالِ، وَ مَحَامِدِ الْاَفْعَالِ، وَ مَحَاسِنِ الْاُمُورِ، الَّتی تَفَاضَلَتْ فِیهَا الْمُجَدَاءُ وَ النُّجَدَاءُ مِنْ بُیوتَاتِ الْعَرَبِ وَ یعَاسِیبِ الْقَبَائِلِ; بِالْاَخْلاَقِ الرَّغِیبَةِ، وَالْاَحْلاَمِ الْعَظِیمَةِ، وَ الْاَخْطَارِ الْجَلِیلَةِ، وَ الْاثَارِ الْمَحْمُودَةِ. فَتَعَصَّبُوا لِخِلاَلِ الْحَمْدِ مِنَ الْحِفْظِ لِلْجِوَارِ، وَ الْوَفَاءِ بِالذِّمَامِ، وَالطَّاعَةِ لِلْبِرِّ، وَ الْمَعْصِیةِ لِلْكِبْرِ، وَ الْاَخْذِ بِالْفَضْلِ، وَ الْكَفِّ عَنِ الْبَغْی، وَ الْاِعْظَامِ لِلْقَتْلِ، وَ الْاِنْصَافِ لِلْخَلْقِ، وَ الْكَظْمِ لِلْغَیظِ، وَ اجْتِنَابِ الْفَسَادِ فِی الْاَرْضِ.اب اگر تمہیں فخر کرنا ہی ہے تو اس کی پاکیزگی اخلاق،بلند کردار اور حسن سیرت پر فخر و ناز کرو کہ جس میں عرب گھرانوں کے با عظمت و بلند ہمت سر داران قوم اپنی خوش اطواریوں بلند پایہ دانائیوں اعلیٰ مرتبوں اور پسندیدہ کارناموں کی وجہ سے ایک دوسرے پر برتری ثابت کرتے تھے۔تم بھی ان قابل ستائش خصلتوں کی طرفداری کرو۔جیسے ہمسایوں کے حقوق کی حفاظت کرنا عہدو پیمان کو نبھانا۔ نیکوں،اطاعت اور سر کشوں کی مخالفت کرنا حسن سلوک کا پابند اور ظلم و تعدی سے کنارہ کش رہنا خونریزی سے پناہ مانگنا،خلق خدا سے عدل و انصاف برتنا غصہ کو پی جانا،زمین میں شر انگیزی سے دامن بچانا
اِحْذَرُوا مَا نَزَلَ بِالْاُمَمِ قَبْلَكُمْ مِنَ الْمَثُلاَتِ بِسُوءِ الْاَفْعَالِ، وَ ذَمِیمِ الْاَعْمَالِ. فَتَذَكَّرُوا فِی الْخَیرِ وَ الشَّرِّ أَحْوَالَهُمْ، وَ احْذَرُوا أَنْ تَكُونُوا أَمْثَالَهُمْ. فَإِذَا تَفَكَّرْتُمْ فِی تَفَاوُتِ حَالَیهِمْ، فَالْزَمُوا كُلَّ أَمْر لَزِمَتِ الْعِزَّةُ بِهِ شَأْنَهُمْ، وَ زَاحَتِ الْاَعْدَاءُ لَهُ عَنْهُمْ، وَ مُدَّتِ الْعَافِیةُ بِهِ عَلَیهِمْ، وَ انْقَادَتِ النِّعْمَةُ لَهُ مَعَهُمْ، وَ وَصَلَتِ الْكَرَامَةُ عَلَیهِ حَبْلَهُمْ مِنَ الْاِجْتِنَابِ لِلْفُرْقَةِ، وَ ال‍لّزُومِ لِلْاُلْفَةِ، وَ التَّحَاضِّ عَلَیهَا، وَ التَّوَاصِی بِهَا، وَ اجْتَنِبُوا كُلَّ أَمْر كَسَرَ فِقْرَتَهُمْ، وَ أَوْهَنَ مُنَّتَهُمْ; مِنْ تَضَاغُنِ الْقُلُوبِ، وَ تَشَاحُنِ الصُّدُورِ، وَ تَدَابُرِ النُّفُوسِ، وَ تَخَاذُلِ الْاَیدِی.تمہیں ان عذابوں اور بد کرداریوں کی وجہ سے نازل ہو ئے اور (اپنے)اچھے اور برے حالا ت میں ان کے احوال و وار دات کو پیش نظر رکھو اور اس امر سے خائف و ترساں رہو کہ کہیں تمہیں بھی انہی کے جیسے نہ ہو جاؤ۔اگر تم نے ان کی دونوں (اچھی بری ) حالتوں پر غور کرلیا ہے تو پھر ہراس چیز کی پابندی کرو کہ جس کی وجہ سے عزت و برتری نے ہر حال میں ان کاساتھ دیا اور دشمن ان سے دور دور رہے اور عیش و سکون کے دامن ان پرپھیل گئے۔اور نعمتیں سرنگوں ہو کر ان کے ساتھ ہو لیں اور عزت و سرفرازی نے اپنے بندھن ان سے جوڑ ليے۔(وہ کیاچیز یں تھیں )یہ کہ وہ افتراق سے بچے اور اتفاق و یکجہتی پر قائم رہے۔اسی پرایک دوسرے کو ابھارتے تھے او راسی کی باہم سفارش کرتے تھے اور تم ہر اس امر سے بچ کر رہو کہ جس نے ان کی ریڑھ کی ہڈی کو توڑ ڈالا اور قوت و توانائی کو ضعف سے بدل دیا۔(اور وہ یہ تھا )کہ انہوں نے دلوں میں کینہ اور سینوں میں بغض رکھا ایک دوسرے کی مدد سے پیٹھ پھرا لی۔
تَدَبَّرُوا أَحْوَالَ الْمَاضِینَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ قَبْلَكُمْ، كَیفَ كَانُوا فِی حَالِ التَّمْحِیصِ وَ الْبَلاَءِ. أَلَمْ یكُونُوا أَثْقَلَ الْخَلاَئِقِ أَعْبَاءً، وَ أَجْهَدَ العِبَادِ بَلاَءً، وَ أَضْیقَ أَهْلِ الدُّنْیا حَالاً. اتَّخَذَتْهُمُ الْفَرَاعِنَةُ عَبِیداً فَسَامُوهُمْ سُوءَ الْعَذَابِ، وَجَرَّ عُوهُمُ الْمُرَارَ، فَلَمْ تَبْرَحِ الْحَالُ بِهِمْ فِی ذُلِّ الْهَلَكَةِ وَ قَهْرِ الْغَلَبَةِ، لایجِدُونَ حِیلَةً فِی امْتِنَاع، وَ لاسَبِیلاً إِلَی دِفَاع. حَتَّی إِذَا رَأَی ال‍لّهُ سُبْحَانَهُ جِدَّ الصَّبْرِ مِنْهُمْ عَلَی الْاَذَی فِی مَحَبَّتِهِ، وَ الْاِحْتِمَالَ لِلْمَکْرُوهِ مِنْ خَوْفِهِ، جَعَلَ لَهُمْ مِنْ مَضَایقِ الْبَلاَءِ فَرَجاً، فَأَبْدَلَهُمُ الْعِزَّ مَكَانَ الذُّلِّ، وَ الْاَمْنَ مَکانَ الْخَوْفِ، فَصَارُوا مُلُوکاً حُكَّاماً، وَ أئِمَّةً أَعْلاَماً، وَ قَدْ بَلَغَتِ الْكَرَامَةُ مِنَ ال‍لّهِ لَهُمْ مَا لَمْ تَذْهَبِ الْامَالُ إِلَیهِ بِهِمْ.اور باہمی تعاون سے ہاتھ اٹھا لیا۔اور تم کو لازم ہے کہ گزشتہ زمانہ کے اہل ایمان کے وقائع و حالات پر غور و فکرکرو،کہ (صبر آزما) ابتلاؤں اور (جانکاہ )مصیبتوں میں ان کی کیا حالت تھی کیا وہ ساری کائنات سے زیادہ گرانبار تمام لوگوں سے زائد مبتلائے تعب و مشقت اور دنیاجہان سے زیادہ تنگی و ضیق کے عالم میں نہ تھے ؟کہ جنہیں دنیا کے فرعون نے اپنا غلام بنارکھاتھا اور انہیں سخت سے سخت اذیتیں پہنچاتے اور تلخیوں کے گھونٹ پلاتے تھے ا ور ان کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ وہ تباہی و ہلاکت کی ذلتوں اورغلبہ و تسلّط کی قہر سامانیوں میں گھرتے چلے جارہے تھے۔نہ انہیں بچاؤ کی کو ئی تدبیر اور نہ روک تھام کا کوئی ذریعہ سو جھتا تھا۔ یہاں تک کہ جب اللہ سبحانہ، نے دیکھا کہ یہ میری محبت میں اذیتوں پر پوری کدو کاوش سے صبر کئے جارہے ہیں اور میرے خیال سے مصیبتوں کو جھیل رہے ہیں تو ان کے ليےمصیبت و ابتلاء کی تنگنائے سے وسعت کی راہیں نکالیں اور ان کی ذلت کو عز ت و سرفرازی حاصل ہوئی۔
اُنْظُرُوا كَیفَ كَانُوا حَیثُ كَانَتِ الْاَمْلاَءُ مُجْتَمِعَةً، وَ الْاَهْوَاءُ مُؤْتَلِفَةً، وَ الْقُلُوبُ مُعْتَدِلَةً، وَ الْاَیدِی مُتَرَادِفَةً، وَ السُّیوفُ مُتَنَاصِرَةً، وَ الْبَصَائِرُ نَافِذَةً، وَ الْعَزَائِمُ وَاحِدَةً. أَلَمْ یكُونُوا أَرْبَاباً فِی أَقْطَارِ الْاَرَضِینَ، وَ مُلُوکاً عَلَی رِقَابِ الْعَالَمِینَ! فَانْظُرُوا إِلَی مَا صَارُوا إِلَیهِ فِی آخِرِ أُمُورِهِمْ، حِینَ وَقَعَتِ الْفُرْقَةُ، وَ تَشَتَّتَتِ الْاُلْفَةُ، وَ اخْتَلَفَتِ الْكَلِمَةُ وَالْاَفْئِدَةُ، وَ تَشَعَّبُوا مُخْتَلِفِینَ، وَ تَفَرَّقُوا مُتَحَارِبِینَ، قَدْ خَلَعَ ال‍لّهُ عَنْهُمْ لِبَاسَ كَرَامَتِهِ، وَ سَلَبَهُمْ غَضَارَةَ نِعْمَتِهِ، وَ بَقِی قَصَصُ أَخْبَارِهِمْ فِیكُمْ عِبَراً لِلْمُعْتَبِرِینَ.غور کرو ! کہ جب ان کی جمعیتیں یک جا،خیالات یکسو اور دل یکساں تھے او ران کے ہاتھ ایک دوسرے کو سہارا دیتے اور تلواریں ایک دوسرے کی معین و مددگار تھیں اور ان کی بصیرتیں تیز اور ارادے متحد تھے،تو اس وقت ان کا کیا عالم تھا،کیا وہ اطراف زمین میں فرمانروا اور دنیا والوں کی گردنوں پر حکمرا ن نہ تھے؟اور تصویر کا یہ رخ بھی دیکھو !جب ان میں پھوٹ پڑگئی۔یکجہتی درہم برہم ہو گئی۔ان کی باتوں اور دلوں ميں اختلافات کے شاخسانے پھوٹ نکلے،اور وہ مختلف ٹولیوں میں بٹ گئے اور الگ جتھے بن کر ایک دوسرے سے لڑنے بھڑنے لگے تو ان کی نوبت یہ ہوگئی کہ اللہ نے ان سے عزت و بزرگی کا پیراہن اتار لیا اور نعمتوں کی آسائش ان سے چھین لیں اور تمہارے درمیان ان کے واقعات کی حکایتیں عبر ت بن کر رہ گئیں۔
اِعْتَبِرُوا بِحَالِ وَلَدِ إِسْمَاعِیلَ وَ بَنی إِسْحَاقَ وَ بَنِی إِسْرَائِیلَ(علیهم السلام). فَمَا أَشَدَّ اعْتِدَالَ الْاَحْوَالِ، وَ أَقْرَبَ اشْتِبَاهَ الْاَمْثَالِ! تَأَمَّلُوا أَمْرَهُمْ فِی حَالِ تَشَتُّتِهِمْ وَ تَفَرُّقِهِمْ، لَیالِی كَانَتِ الْاَكَاسِرَةُ وَ الْقَیاصِرَةُ أَرْبَاباً لَهُمْ، یحْتَازُونَهُمْ عَنْ رِیفِ الْافَاقِ، وَ بَحْرِ الْعِرَاقِ، وَ خُضْرَةِ الدُّنْیا، إِلَی مَنابِتِ الشِّیحِ، وَ مَهَافِی الرِّیحِ، وَ نَكَدِ الْمَعَاشِ، فَتَرَكُوهُمْ عَالَةً مَسَاكِینَ إِخْوَانَ دَبَر وَ وَبَر، أَذَلَّ الْاُمَمِ دَاراً، وَ أَجْدَبَهُمْ قَرَاراً، لایأْوُونَ إِلَی جَنَاحِ دَعْوَة یعْتَصِمُونَ بِها، وَ لاإِلَی ظِلِّ أُلْفَة یعْتَمِدُونَ عَلَی عِزِّهَا. فَالْاَحْوَالُ مُضْطَرِبَةٌ، وَ الْاَیدِی مُخْتَلِفَةٌ، وَ الْكَثْرَةُ مُتَفَرِّقَةٌ; فِی بِلاَءِ أَزْل، وَ أَطْبَاقِ جَهْل! مِنْ بَنَات مَوْؤُودَة، وَ أَصْنَام مَعْبُودَة، وَ أَرْحَام مَقْطُوعَة، وَ غَارَات مَشْنُونَة. (اب ذرا ) اسماعیل کی اولاد اسحاق کے فرزندوں اور یعقوب کے بیٹوں کے حالات سے عبرت حاصل کرو۔حالات کتنے ملتے ہوئے ہیں اور طور طریقے کتنے یکساں ہیں۔ان کے منتشر و پراگند ہ ہو جانے کی صورت میں جو واقعات رو نما ہو ئے،ان میں فکر و تعامل کرو کہ جب شاہا ن عجم اور سلاطین روم پر حکمران تھے وہ انہیں اطراف عالم کے سبزہ زاروں عراق کے دریاؤں اور دنیا کی شادابیوں سے خار دار جھاڑیوں ہواؤں کے بے روگ گزر گاہوں اور معیشت کی دشواریوں کی طرف دھکیل دیتے تھے اور آخر کار انہیں فقیرو نادار اور زخمی پیٹھ والے اونٹوں کا چرواہا اور بالوں کی جھونپڑیوں کا با شند ہ بنا چھوڑتے تھے۔ان کے گھر بار دنیا جہاں سے بڑھ کر خستہ و خراب اور ان کے ٹھکانے خشک سالیو ں سے تباہ حال تھے،نہ ان کی کوئی آواز تھی جس کے پرو بال کا سہارا لیں،نہ انس و محبت کی چھاؤں تھی جس کے بل بوتے پر بھروسا کریں۔ان کے حالات پراگندہ ہاتھ الگ الگ تھے کثرت و جمعیت بٹی ہوئی، جانگدار مصیبتوں اورجہالت کی تہ بہ تہ تہوں میں پڑے ہو ئے تھے یوں کہ لڑکیا ں زندہ درگور تھیں (گھر گھر مورتی پوجا ہوتی تھی)رشتے ناتے توڑے جا چکے تھے اورلوٹ کھسوٹ کی گر م با زاری تھی۔
اُنْظُرُوا إِلَی مَوَاقِعِ نِعَمِ ال‍لّهِ عَلَیهِمْ حِینَ بَعَثَ إِلَیهِمْ رَسُولاً، فَعَقَدَ بِمِلَّتِهِ طَاعَتَهُمْ، وَ جَمَعَ عَلَی دَعْوَتِهِ أُلْفَتَهُمْ: كَیفَ نَشَرَتِ النِّعْمَةُ عَلَیهِمْ جَنَاحَ كَرَامَتِهَا، وَ أَسَالَتْ لَهُمْ جَدَاوِلَ نَعِیمِهَا، وَ الْتَفَّتِ الْمِلَّةُ بِهِمْ فِی عَوَائِدِ بَرَكَتِهَا، فَأَصْبَحُوا فِی نِعْمَتِهَا غَرِقِینَ، وَ فِی خُضْرَةِ عَیشِهَا فَكِهِینَ. قَدْ تَرَبَّعَتِ الْاُمُورُ بِهِمْ، فِی ظِلِّ سُلْطَان قَاهِر، وَ آوَتْهُمُ الْحَالُ إِلَی كَنَفِ عِزٍّ غَالِب، وَ تَعَطَّفَتِ الْاُمُورُ عَلَیهِمْ فِی ذُرَی مُلْک ثَابت. فَهُمْ حُكَّامٌ عَلَی الْعَالَمِینَ، وَ مُلُوکٌ فِی أَطْرَافِ الْاَرَضِینَ. یمْلِكُونَ الْاُمُورَ عَلَی مَنْ كَانَ یمْلِكُهَا عَلَیهِمْ، وَ یمْضُونَ الْاَحْکامَ فِیمَنْ كَانَ یمْضِیهَا فِیهِمْ! لاتُغْمَزُ لَهُمْ قَنَاةٌ، وَ لاتُقْرَعُ لَهُمْ صَفَاةٌ.دیکھو ! کہ اللہ نے ا ن پر کتنے احسانات کئے ہیں کہ ان میں اپنا رسول بھیجا کہ جس نے اپنی اطاعت کا انہیں پابند بنایا اور انہیں ایک مرکز وحدت پر جمع کر دیا اور کیونکہ خوش حالی نے اپنے پروبال ان پر پھیلا دیئے اور ان کے ليے بخشش و فیضان کی نہریں بہا دیں او ر شریعت نے انہیں اپنی برکت کے بے بہا فائدوں میں لپیٹ لیا چنانچہ وہ اس کی نعمتوں میں شرابور اور اس کی زندگی کی ترو تازگیوں میں خوشحال اور ایک مسلّط فرمانروا (اسلا م کے) زیر سایہ ان کی زند گی کے تمام شعبے (نظم و ترتیب سے) قائم ہو گئے اور ان کے حالات (کی درستگی) نے انہیں غلبہ و بزرگی کے پہلو میں جگہ دی او رایک مضبوط سلطنت کی سر بلند چوٹیوں میں (دین و دنیا کی ) سعادتیں ان پر جھک پڑیں۔وہ تما م جہان پر حکمران اور زمین کی پہنائیوں میں تخت و تاج کے مالک بن گئے اور جن پابندیوں کی بنا پر دوسروں کے زیر دست تھے۔اب یہ انہیں پابند بنا کر ان پر مسلّط ہوگئے۔نہ ان کا دم خم ہی نکالا جاسکتا ہے اور نہ ہی ان کا کس بل توڑا جاسکتا ہے۔
لاَ وَ إِنَّكُمْ قَدْ نَفَضْتُمْ أَیدِیكُمْ مِنْ حَبْلِ الطَّاعَةِ، وَ ثَلَمْتُمْ حِصْنَ ال‍لّهِ الْمَضْرُوبَ عَلَیكُمْ، بِأَحْکامِ الْجَاهِلِیةِ. فَإِنَّ ال‍لّهَ سُبْحَانَهُ قَدِ امْتَنَّ عَلَی جَمَاعَةِ هذِهِ الْاُمَّةِ فِیمَا عَقَدَ بَینَهُمْ مِنْ حَبْلِ هذِهِ الْاُلْفَةِ الَّتِی ینْتَقِلُونَ فِی ظِلِّهَا، وَ یأْوُونَ إِلَی كَنَفِهَا، بِنِعْمَة لایعْرِفُ أَحَدٌ مِنَ الْمَخْلُوقِینَ لَهَا قِیمَةً، لِاَنَّها أَرْجَحُ مِنْ كُلِّ ثَمَن، وَ أَجَلُّ مِنْ كُلِّ خَطَر.

وَ اعْلَمُوا أَنَّكُمْ صِرْتُمْ بَعْدَ الْهِجْرَةِ أَعْرَاباً، وَ بَعْدَ الْمُوَالاَةِ أَحْزَاباً. مَا تَتَعَلَّقُونَ مِنَ الْاِسْلاَمِ إِلاَّ بِاسْمِهِ، وَ لاتَعْرِفُونَ مِنَ الْاِیمَانِ إلاَّ رَسْمَهُ.

تَقُولُونَ: النَّارَ وَ لاالْعَارَ! كَأَنَّكُمْ تُرِیدُونَ أَنْ تُکْفِئُوا الْاِسلاَمَ عَلَی وَجْهِهِ انْتِهَاکاً لِحَرِیمِهِ، وَ نَقْضاً لِمِیثَاقِهِ الَّذِی وَضَعَهُ ال‍لّهُ لَكُمْ حَرَماً فِی أَرْضِهِ، وَ أَمْناً بَینَ خَلْقِهِ. وَ إِنَّكُمْ إِنْ لَجَأْتُمْ إِلَی غَیرِهِ حَارَبَكُمْ أَهْلُ الْكُفْرِ، ثُمَّ لاجَبْرَائِیلُ وَلاَ مِیکائِیلُ وَ لامُهَاجِرُونَ وَ لاأَنْصَارٌ ینْصُرُونَكُمْ إِلاَّ الْمُقَارَعَةَ بِالسَّیفِ حَتَّی یحْكُمَ ال‍لّهُ بَینَكُمْ.

وَ إِنَّ عِنْدَكُمُ الْاَمْثَالَ مِنْ بَأْسِ ال‍لّهِ وَ قَوَارِعِهِ، وَ أَیامِهِ وَ وَقَائِعِهِ، فَلاَ تَسْتَبْطِئُوا وَعِیدَهُ جَهْلاً بِأَخْذِهِ، وَ تَهَاوُناً بِبَطْشِهِ، وَ یأْساً مِنْ بَأْسِهِ. فَإِنَّ ال‍لّهَ سُبْحَانَهُ لَمْ یلْعَنِ الْقَرْنَ الْمَاضِی بَینَ أَیدِیكُمْ إِلاَّ لِتَرْكِهِمُ الْاَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْی عَنِ الْمُنْكَرِ. فَلَعَنَ ال‍لّهُ السُّفَهَاءَ لِرُكُوبِ الْمَعَاصِی، وَ الْحُلَمَاءَ لِتَرْكِ التَّنَاهِی.

أَلاَ وَ قَدْ قَطَعْتُمْ قَیدَ الْاِسْلاَمِ، وَ عَطَّلْتُمْ حُدُودَهُ، وَ أَمَتُّمْ أَحْكَامَهُ.
دیکھو ! تم نے اطاعت کے بندھنوں سے اپنے ہاتھوں کو چھڑا لیا اور زمانہ جاہلیت کے طور طریقوں سے اپنے گرد کھچے ہوئے حصار میں رخنہ ڈال دیا خدا وند عالم نے اس امت کے لوگوں پر اس نعمت بے بہا کے ذریعہ سے لطف و احسان فرمایا ہے جس کی قدر وقیمت کو مخلوقات میں سے کوئی نہیں پہچانتا کیونکہ وہ ہر (ٹھہرائی ہو ئی ) سے گراں تر اور ہر شرف بلندی سے بالاتر ہے۔اور وہ یہ کہ ا ن کے درمیان انس ویکجہتی کا رابطہ (اسلام) قائم کیا کہ جس کے سایہ میں وہ منزل کرتے ہیں،اور جس کے کنا ر (عاطفت ) میں پناہ لیتے ہیں۔ یہ جانے رہو کہ تم (جہالت و نادانی ) کو خیر باد کہہ دینے کے بعد صحرائی بد و باہمی دوستی کی بعد پھر مختلف گروہوں میں بٹ گئے ہو اسلام سے تمہارا واسطہ نام کو رہ گیا ہے اور ایمان سے چند ظاہری لکیروں کے علاوہ تمہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا تمہارا قول یہ ہے کہ آگ میں کود پڑیں گے۔مگر عار قبو ل نہیں نہ کریں گے گو یا تم یہ چاہتے ہو کہ اسلام کی ہتک حرمت اور اس کا عہد توڑ کر اسے منہ کے بل اوندھا کر دو،وہ عہد کہ جسے اللہ نے زمین میں پناہ اور مخلوقات میں امن قرار دیا ہے۔(یاد رکھو ! ) کہ اگر تم نے اسلام کے علاوہ کہیں اور کا ر خ کیا تو کفار تم سے جنگ کے ليےاٹھ کھڑے ہوں گے پھر نہ جبرئیل و میکا ئیل ہیں اور نہ انصار و مہاجر ہیں کہ تمہاری مدد کریں،سوا اس کے کہ تلواروں کو کھٹکھٹاؤ یہاں تک کہ اللہ تمہارے درمیان فیصلہ کردے خدا کا سخت عذاب،جھنجھوڑنے والا عقاب ابتلاؤں کے دن اور تعزیر و ہلاکت کے حادثے تمہارے سامنے ہیں۔اس کی گرفت سے انجان بن کر اور اس کی پکڑ کو آسان سمجھ کر اور اس کی سختی سے غافل ہو کر اس کے قہر و عذاب کو دور نہ سمجھو۔خدا وند عالم نے گزشتہ امتوں کو محض اس ليے اپنی رحمت سے دور رکھا کہ وہ اچھائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے سے منہ موڑ چکے تھے۔چنانچہ اللہ نے بے وقوفوں پر ارتکاب گناہ کی وجہ سے اور دانشمندوں پر خطاؤں سے باز نہ آنے کے سبب سے لعنت کی ہے۔ دیکھو! تم نے اسلام کی پابندیاں توڑ دیں اور اس کی حدیں بیکار کر دیں اور اس کے احکام سرے سے ختم کردیئے۔
لاَ وَ قَدْ أَمَرَنِی ال‍لّهُ بِقِتَالِ أَهْلِ الْبَغْی وَ النَّکْثِ وَالْفَسَادِ فِی الْاَرْضِ، فَأَمَّا النَّاكِثُونَ فَقَدْ قَاتَلْتُ، وَ أَمَّا الْقَاسِطُونَ فَقَدْ جَاهَدْتُ، وَ أَمَّا الْمَارِقَةُ فَقَدْ دَوَّخْتُ، وَ أَمَّا شَیطَانُ الرَّدْهَةِ فَقَدْ كُفِیتُهُ بِصَعْقَة سُمِعَتْ لَهَا وَجْبَةُ قَلْبِهِ وَ رَجَّةُ صَدْرِهِ، وَ بَقِیتْ بَقِیةٌ مِنْ أَهْلِ الْبَغْی. وَ لَئِنْ أَذِنَ ال‍لّهُ فِی الْكَرَّةِ عَلَیهِمْ لاَُدِیلَنَّ مِنْهُمْ إِلاَّ مَا یتَشَذَّرُ فِی أَطْرَافِ الْبِلاَدِ تَشَذُّراً.معلوم ہوناچاہیئے کہ اللہ نے مجھے باغیوں عہد شکنوں اور زمین میں فساد پھیلا نے والوں سے جہاد کرنے کاحکم دیا۔چنانچہ میں نے عہد شکنوں (اصحاب جمل)سے جنگ کی نافرمانو ں (اہل صفین ) سے جہاد کیا او ر بے دینوں (خوارج نہروان ) کو بھی پوری طرح ذلیل کرکے چھوڑا۔مگر گڑھے (میں گر کر مرنے) والا شیطان۔ میرے ليےاس کی مہم سر ہو گئی۔ایک ایسی چنگھاڑ کے ساتھ کہ جس میں اس کے دل کی دھڑکن اور سینے کی تھرتھر ی کی آواز میرے کانوں میں پہنچ رہی تھی۔اب باغیوں میں سے کچھ رہے سہے باقی رہ گئے ہیں اگر اللہ نے پھر مجھے ان پر دھاوا بولنے کی اجازت دی تو میں انہیں تہس نہس کر کے دولت و سلطنت کا رخ دوسری طرف موڑ دوں گا (پھر ) وہی لوگ بچ سکیں گے جو مختلف شہروں کی دور دراز حدوں میں تتر بتر ہوچکے ہوں گے۔
أنَا وَضَعْتُ فِی الصِّغَرِ بِكَلاَكِلِ الْعَرَبِ، وَ كَسَرْتُ نَوَاجِمَ قُرُونِ رَبِیعَةَ وَ مُضَرَ. وَ قَدْ عَلِمْتُمْ مَوْضِعِی مِنْ رَسُولِ ال‍لّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ بِالْقَرَابَةِ الْقَرِیبَةِ، وَ الْمَنْزِلَةِ الْخَصیصَةِ. وَضَعَنِی فِی حِجْرِهِ وَ أَنَا وَلَدٌ یضُمُّنِی إِلَی صَدْرِهِ، وَ یکْنُفُنِی فِی فِرَاشِهِ، وَ یمِسُّنِی جَسَدَهُ، وَ یشِمُّنِی عَرْفَهُ. وَ كَانَ یمْضَغُ الشَّیءَ ثُمَّ یلْقِمُنِیهِ، وَ مَا وَجَدَ لِی كَذْبَةً فِی قَوْل، وَ لاخَطْلَةً فِی فِعْل. وَ لَقَدْ قَرَنَ ال‍لّهُ بِهِ صَلَّی اللهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ مِنْ لَدُنْ أَنْ كَانَ فَطِیماً أَعْظَمَ مَلَک مِنْ مَلاَئِكَتِهِ یسْلُكُ بِهِ طَرِیقَ الْمَكَارِمِ، وَ مَحَاسِنَ أَخْلاَقِ الْعَالَمِ، لَیلَهُ وَ نَهَارَهُ. وَ لَقَدْ كُنْتُ أَتَّبِعُهُ اتِّبَاعَ الْفَصِیلِ أَثَرَ أُمِّهِ، یرْفَعُ لِی فِی كُلِّ یوْم مِنْ أَخْلاَقِهِ عَلَماً، وَ یأْمُرُنِی بِالْاِقْتِدَاءِ بِهِ. وَ لَقَدْ كَانَ یجَاوِرُ فِی كُلِّ سَنَة بِحِرَاءَ فَأَرَاهُ، وَ لایرَاهُ غَیرِی. وَ لَمْ یجْمَعْ بَیتٌ وَاحِدٌ یوْمَئِذ فِی الْاِسْلاَمِ غَیرَ رَسُولِ ال‍لّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ وَ خَدِیجَةَ وَ أَنَا ثَالِثُهُمَا. أَرَی نُورَ الْوَحْی وَ الرِّسَالَةِ، وَ أَشُمُّ رِیحَ النُّبُوَّةِ. وَ لَقَدْ سَمِعْتُ رَنَّةَ الشَّیطَانِ حِینَ نَزَلَ الْوَحْی عَلَیهِ صَلَّی اللهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ فَقُلْتُ: یا رَسُولَ ال‍لّهِ مَا هذِهِ الرَّنَّةُ؟ فَقَالَ: «هذَا الشَّیطَانُ قَدْ أَیسَ مِنْ عِبَادَتِهِ. إِنَّكَ تَسْمَعُ مَا أَسْمَعُ، وَ تَرَی مَا أَرَی، إِلاَّ أَنَّكَ لَسْتَ بِنَبِی، وَ لكِنَّكَ لَوَزِیرٌ وَ إِنَّكَ لَعَلَی خَیر».میں نے تو بچپن ہی میں عرب کا سینہ پیوند زمین کر دیا تھا اور قبیلہ ربیعہ و مضر کے ابھرے ہوئے سینگو ں کو توڑ دیا تھا۔تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہ سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدرومنزلت کی وجہ سے میرا مقام ان کے نزدیک کیا تھا میں بچہ ہی تھا کہ رسول نے مجھے گود میں لے لیا تھا۔اپنے سینے سے چمٹائے رکھتے تھے۔بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے اورتھے اور اپنی خوشبو مجھے سنگھاتے تھے۔پہلے آپ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منہ میں دیتے تھے انہوں نے نہ تو میری کسی بات جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی اللہ نے آپ کی دودھ بڑھائی کے وقت ہی سے فرشتوں میں سے ایک عظیم المرتبت ملک (روح القدس) کو آپ کے ساتھ لگا دیا تھا جو انہیں شب و روز بزرگ خصلتوں او ر پاکیزہ سیرتوں کی راہ پر لے چلتا تھا،اور میں ان کے پیچھے یوں لگا رہتا تھا اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے۔آپ ہر روز میرے ليےاخلاق حسنہ کے پرچم بلند کرتے تھے او رمجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے اور ہر سال (کوہ)حرا میں کچھ عرصہ قیام فرماتے تھے اور وہاں میرے علاوہ کوئی انہیں نہیں دیکھتا تھا۔اس وقت رسول اللہ اور (ام المومنین)خدیجہ کے گھر کے علاوہ کسی گھر کی چار دیواری میں اسلام نہ تھا البتہ تیسرا ان میں میں تھا میں وحی و رسالت کا نور دیکھتا تھا اور نبوت کی خوشبو سو نگھتا تھا۔ جب آپ پر (پہلے پہل )وحی نازل ہوئی تو میں نے شیطان کی ایک چیخ سنی جس پر میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ یہ کیسی آواز ہے۔آپ نے فرمایا کہ یہ شیطان ہے کہ جو اپنے پوجے جانے سے مایوس ہوگیا ہے (اے علی)جو میں سنتا ہو ں تم بھی سنتے ہو اور جو میں دیکھتا ہو ں تم بھی دیکھتے ہو،فرق اتنا ہے کہ تم نبی نہیں ہو بلکہ (میرے) وزیر و جانشین ہو اور یقینا بھلائی کی راہ پر ہو۔
لَقَدْ كُنْتُ مَعَهُ صَلَّی اللهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ لَمَّا أَتَاهُ الْمَلاَُ مِنْ قُرَیش، فَقَالُوا لَهُ: یا مُحَمَّدُ، إِنَّكَ قَدِ ادَّعَیتَ عَظِیماً لَمْ یدَّعِهِ آبَاؤُكَ وَ لاأَحَدٌ مِنْ بَیتِكَ، وَ نَحْنُ نَسْأَلُكَ أَمْراً إِنْ أَنْتَ أَجَبْتَنَا إِلَیهِ وَ أَرَیتَنَاهُ، عَلِمْنَا أَنَّكَ نَبِی وَ رَسُولٌ، وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ عَلِمْنَا أَنَّكَ سَاحِرٌ كَذَّابٌ. فَقَالَ صَلَّی اللهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ: «وَ مَا تَسْأَلُونَ؟» قَالُوا: تَدْعُو لَنَا هذِهِ الشَّجَرَةَ حَتَّی تَنْقَلِعَ بِعُرُوقِهَا وَ تَقِفَ بَینَ یدَیكَ، فَقَالَ صَلَّی اللهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ: «إِنَّ ال‍لّهَ عَلَی كُلِّ شَیء قَدِیرٌ، فَإِنْ فَعَلَ ال‍لّهُ لَكُمْ ذلِكَ، أَتُؤْمِنُونَ وَ تَشْهَدُونَ بِالْحَقِّ؟» قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: «فَإنِّی سَأُرِیكُمْ مَا تَطْلُبُونَ، وَ إِنِّی لاََعْلَمُ أَنَّكُمْ لاتَفِیئُونَ إِلَی خَیر، وَ إِنَّ فِیكُمْ مَنْ یطْرَحُ فِی الْقَلِیبِ، وَ مَنْ یحَزِّبُ الْاَحْزَابَ». ثُمَّ قَالَ صَلَّی اللهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ: «یاأیتُهَا الشَّجَرَةُ إِنْ كُنْتِ تُؤْمِنِینَ بِال‍لّهِ وَ الْیوْمِ الْاخِرِ، وَ تَعْلَمِینَ أَنِّی رَسُولُ ال‍لّهِ، فَانْقَلِعِی بِعُرُوقِكِ حَتَّی تَقِفِی بَینَ یدَی بِإِذْنِ ال‍لّهِ». فَوَالَّذِی بَعَثَهُ بِالْحَقِّ لاَنْقَلَعَتْ بِعُرُوقِهَا، وَ جَاءَتْ وَ لَهَا دَوِی شَدِیدٌ، وَ قَصْفٌ كَقَصْفِ أَجْنِحَةِ الطَّیرِ; حَتَّی وَقَفَتْ بَینَ یدَی رَسُولِ ال‍لّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ مُرَفْرِفَةً، وَ أَلْقَتْ بِغُصْنِهَا الْاَعْلَی عَلَی رَسُولِ ال‍لّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ، وَ بِبَعْضِ أَغْصَانِهَا عَلَی مَنْكِبِی، وَ كُنْتُ عَنْ یمِینِهِ صَلَّی اللهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ، فَلَمَّا نَظَرَ الْقَوْمُ إِلَی ذلِكَ قَالُوا عُلُوًّا وَاسْتِکْبَاراً: فَمُرْهَا فَلْیأْتِكَ نِصْفُهَا وَ یبْقَی نِصْفُهَا، فَأَمَرَهَا بِذلِكَ، فَأَقْبَلَ إِلَیهِ نِصْفُهَا كَأَعْجَبِ إِقْبَال وَ أَشَدِّهِ دَوِیاً، فَكَادَتْ تَلْتَفُّ بِرَسُولِ ال‍لّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ، فَقَالُوا كُفْراً وَ عُتُوّاً: فَمُرْ هذَا النِّصْفَ فَلْیرْجِعْ إِلَی نِصْفِهِ كَمَا كَانَ، فَأَمَرَهُ صَلَّی اللهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ فَرَجَعَ; فقُلْتُ أَنَا: لاإِلهَ إِلاَّ ال‍لّهُ ; إِنِّی أَوَّلُ مُؤْمِن بِكَ یا رَسُولَ ال‍لّهِ، وَ أَوَّلُ مَنْ أَقَرَّ بِأَنَّ الشَّجَرَةَ فَعَلَتْ مَا فَعَلَتْ بِأَمْرِ ال‍لّهِ تَعَالَی تَصْدِیقاً بِنُبُوَّتِكَ، وَ إِجْلاَلاً لِكَلِمَتِكَ. فَقَالَ الْقَوْمُ كُلُّهُمْ: بَلْ سَاحِرٌ كَذَّابٌ، عَجِیبُ السِّحْرِ خفِیفٌ فِیهِ، وَ هَلْ یصَدِّقُكَ فِی أَمْرِكَ إِلاَّ مِثْلُ هذَا! (یعْنُونَنِی).میں رسول اللہ کے ساتھ تھا کہ قریش کی ایک جماعت آپ کے پاس آئی اور انہو ں نے آپ سے کہا کہ اے محمد آپ نے ایک بہت بڑا دعویٰ کیا ہے۔ایسا دعویٰ نہ تو آپ کے باپ داد ا نے کیا نہ آپ کے خاندان والو ں میں سے کسی اور نے کیا ہم آپ سے ایک امر کا مطالبہ کرتے ہیں اگر آپ نے اسے پورا کر کے ہمیں دکھلا دیا تو پھر ہم بھی یقین کر لیں گے کہ آپ نبی و رسول ہیں اور اگر نہ کر سکے تو ہم جان لیں گے کہ (معاذاللہ) آپ جادوگر اور جھوٹے ہیں حضرت نے فرمایا کہ وہ تمہارا مطالبہ کیا ؟انہوں نے کہا کہ آپ ہمارے ليےاس درخت کو پکاریں کہ یہ جڑ سمیت اکھڑ آئے اور آپ کے سامنے آکر ٹھہر جائے آپنے فرمایا بلاشبہ اللہ ہر چیز پرقادر ہے۔اگر اس نے تمہارے ليےایسا کر دکھایا تو کیا ایمان لے آؤ گے۔اور حق کی گواہی دو گے ؟انہوں نے کہا ہاں آپنے فرمایا کہ اچھا جو تم چاہتے ہو تمہیں دکھائے دیتا ہوں اور میں یہ اچھی طرح جانتا ہوں کہ تم بھلائی کی طرف پلٹنے والے نہیں ہو۔یقینا تم میں سے کچھ لوگ تو وہ ہیں جنہیں چاہ (بدر) میں جھونک دیا جائے گا اور کچھ وہ ہیں جو (جنگ )احزاب میں جتھا بندی کریں گے۔پھر آپ نے فرمایا اے درخت اگر تو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔تو اپنی جڑ سمیت اکھڑ آ یہاں تک کے تو بحکم خد ا میرے سامنے آکر ٹھہر جائے۔(رسو ل کا یہ فرمانا تھا کہ) اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا وہ درخت جڑ سمیت اکھڑ آیا اور ا س طرح آیا کہ اس سے سخت کھڑکھڑاہٹ اور پرندوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ کی سی آوازآتی تھی یہاں تک کہ وہ لچکتا جھومتا ہو ا رسول اللہ کے رو برو آکر ٹھہر گیا اور بلند شاخیں ان پر اور کچھ شاخیں میرے کندھوں پر ڈال دیں اور میں آپ کی دائیں جانب کھڑا تھا۔جب قریش نے یہ دیکھا نخوت و غرور سے کہنے لگے کہ اسے کہیں کہ آدھا آپ کے پاس آئے اور آدھا اپنی جگہ پر رہے۔چنانچہ آپ نے اسے حکم دیا تو اسکا ادھا حصہ آپ کی طرف بڑھ آیا اس طرح کہ اس کا آنا پہلے آنے سے زیادہ عجیب صورت سے زیسدہ تیز آواز کے ساتھ تھا اور اب کہ وہ قریب تھا کہ وہ رسول اللہ سے لپٹ جائے انہوں نے کفر او شرکشی سے کہا کہ اب اس ادھے کو حکم دیجیے کہ یہ اپنے دوسرے حصے کے پاس پلٹ جائے جس طرح پہلے تھا چنانچہ آپ نے اسے یہی حکم دیا تو اس کا آدھا حصہ آپ کی طرف بڑھ آیا اس طرح کہ اس کا آنا (پہلے آنے سے بھی) ذیادہ عجیب صورت سے اور ذیادہ آواز کے ساتھ تھا اور اب وہ اس کے قریب تھا کہ وہ رسول اللہ سے لپٹ جائے اب انہوں نے کفر و سر کشی سے کہا کہ اب اس آدھے کو حکم دیجیے کہ یہ اپنے دوسرے حصے کی طرف پلٹ جائے جس طرح پہلے تھا چنانچہ آپ نے حکم دیا اور وہ پلٹ گیا میں نے (یہ دیکھ کر )کہا کہ لاالہ الااللہ اے اللہ کے رسو ل میں آپ پر سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں، اور سب سے پہلے اس کا اقرار کرنے والا ہوں کہ اس کے درخت نے بحکم خدا آپ کی نبوت کی تصدیق اورآپ کے کلام کی عظمت و برتری دکھانے کے ليےجو کچھ کیا ہے و ہ امر واقعی ہے۔(کوئی آنکھ کا پھیر نہیں )یہ سن کر وہ ساری قو م کہنے لگی کہ یہ (پناہ بخدا ) پرلے درجے کے جھوٹے اور جادوگر ہیں۔ان کا سحر عجیب و غریب ہے اور ہیں بھی اس میں چابکد ست اس امر پر آپ کی تصدیق ان جیسے ہی کر سکتے ہیں اور اس سے مجھے مراد لیا۔
إِنِّی لَمِنْ قَوْم لاتَأْخُذُهُمْ فِی ال‍لّهِ لَوْمَةُ لاَئِم، سِیمَاهُمْ سِیمَا الصِّدِّیقِینَ، وَ كَلاَمُهُمْ كَلاَمُ الْاَبْرَارِ، عُمَّارُ ال‍لّیلِ وَ مَنَارُ النَّهَارِ. مُتَمَسِّكُونَ بِحَبْلِ الْقُرْآنِ، یحْیونَ سُنَنَ ال‍لّهِ وَ سُنَنَ رَسُولِهِ; لایسْتَکْبِرُونَ وَ لایعْلُونَ، وَ لایغُلُّونَ وَ لایفْسِدُونَ. قُلُوبُهُمْ فِی الْجِنَانِ، وَ أَجْسَادُهُمْ فِی الْعَمَلِ.(جو چاہیں کہیں )میں تو اس جماعت میں سے ہوں کہ جن پر اللہ کے بارے میں کوئی ملامت اثر انداز نہیں ہوتی وہ جماعت ایسی ہے جن کے چہرے سچوں کی تصویر اور جن کے کلام نیکوں کے کلام کا آئینہ وارہے،وہ شب زندہ وار دن کے روشن مینار اور خدا کی رسی سے وابستہ ہیں یہ لوگ اللہ کے فرمانوں اور پیغمبر کی سنتوں کو زندگی بخشتے ہیں،نہ سربلندی دکھاتے ہیں نہ خیانت کرتے ہیں اور نہ فساد پھیلاتے ہیں۔ان کے دل جنت میں اٹکے ہوئے اور جسم اعمال میں لگے ہوئے ہیں۔

حوالہ جات

  1. محمدی، المعجم المفہرس لالفاظ نہج البلاغہ سے منقول، نسخوں کے اختلاف کا جدول کتاب کے آخر میں، ص۲۳۵ پر۔
  2. راوندی، منہاج البراعۃ فی شرح نہج البلاغۃ، ج۲، ص۲۲۷۔
  3. ابن میثم، شرح نہج البلاغة، ج۴، صص۲۳۴-۲۳۳؛ ترجمہ شرح نہج البلاغہ (ابن میثم)، ج۴، صص۴۰۲-۴۰۱۔
  4. شہیدی، نہج البلاغہ، ص۲۱۲۔
  5. شہیدی، نہج البلاغہ، ص۲۱۶۔
  6. ترجمہ و شرح نہج البلاغہ، سیدعلی نقی فیض الاسلام، خطبہ ۲۳۴، ج۴، ص۸۰۱۔
  7. شہیدی، نہج البلاغہ، صص۲۲۰-۲۲۱۔
  8. شہیدی، نہج البلاغہ، ص۲۱۸۔
  9. شہیدی، نہج البلاغہ، ص۲۱۹۔
  10. شہیدی، نہج البلاغہ، ص۲۱۱۔
  11. شہیدی، نہج البلاغہ، ص۲۱۵۔
  12. شہیدی، نہج البلاغہ، ص۲۱۴۔
  13. شہیدی، نہج البلاغہ، ص۲۱۶۔
  14. شہیدی، نہج البلاغہ، ص۲۱۷۔
  15. شہیدی، نہج البلاغہ، ص۲۱۸۔
  16. شہیدی، نہج البلاغہ، ص۲۲۲۔
  17. شہیدی، نہج البلاغہ، ص۲۲۲۔
  18. شہیدی، نہج البلاغہ، صص۲۲۲-۲۲۳۔
  19. جنگ «بدر» کے بارے میں پیشگویی ہے اور جس کنویں میں عتبہ، شیبہ، ربیعہ اور امیہ کے بیٹے، عبدالشمس کا بیٹا، ابو جہل اور بعض دوسرے لوگ ڈالے گئے۔ [شہیدی، نہج البلاغہ، ص۵۰۳، پانویس شمارہ ۵۸۔]
  20. ابوسفیان در جنگ خندق۔ [شہیدی، نہج البلاغہ، ص۵۰۳، پانویس شمارہ ۵۹۔]
  21. شہیدی، نہج البلاغہ، صص۲۲۴-۲۲۳۔
  22. مصادر نہج البلاغہ، جلد ۳، صفحہ ۵۶ بہ نقل از پیام امام امیرالمؤمنین، ج۷،خطبہ ۱۹۲ (قاصعہ)کے آغاز میں

مآخذ

  • نہج البلاغہ، ترجمہ سیدجعفر شہیدی، تہران: علمی و فرہنگی، ۱۳۷۷۔
  • ترجمہ و شرح نہج البلاغہ، سیدعلی نقی فیض الاسلام، تہران: مؤسسہ چاپ و نشر تألیفات فیض الاسلام، انتشارات فقیہ، ۱۳۷۹۔
  • استادی، رضا، کتابنامہ نہج البلاغہ، تہران: بنیاد نہج البلاغہ، ۱۳۵۹ش۔
  • الراوندی، قطب الدین، منہاج البراعۃ فی شرح نہج البلاغۃ، تحقیق: السید عبد اللطیف الکوہکمری، قم: مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی العامۃ، ۱۴۰۶۔ (کتابخانہ اہل بیت(ع)کے ساوفٹ وئیر میں موجود نسخہ، نسخہ دوم)۔
  • محمدی، سیدکاظم، دشتی، محمد، المعجم المفہرس لالفاظ نہج البلاغہ، قم: نشر امام علی(ع)، ۱۳۶۹۔

بیرونی روابط