حضرت زکریا

ویکی شیعہ سے
(حضرت زکریا نبی سے رجوع مکرر)
حضرت زکریا
بیت المقدس کوہ زیتوں کے دامن میں حضرت زکریا سے منسوب مقبرہ
بیت المقدس کوہ زیتوں کے دامن میں حضرت زکریا سے منسوب مقبرہ
قرآنی نام:زکریا
رہائش:فلسطین
مدفن:حلب (شامبیت المقدس
قبل از:حضرت یحی
مشہوراقارب:الیزابت یا الیصابات (حضرت مریم کی خالہ) (زوجہ) اور حضرت یحیی (فرزند)
پیروکار:بنی اسرائیل
عمر:99 سال
قرآن میں نام کا تکرار:7 دفعہ
اہم واقعات:عیسی بن مریم کی ولادت، حضرت یحیی کی شہادت
اولوالعزم انبیاء
حضرت محمدؐحضرت نوححضرت ابراہیمحضرت موسیحضرت عیسی


حضرت زَکَریا، بنی اسرائیل کے پیغمبر، حضرت یحیی کے والد اور حضرت مریم(س) کے کفیل تھے۔ بڑھاپے میں صاحب اولاد ہونا اور حضرت مریم(س) کی کفالت کی ذمہ داری اٹھانا منجملہ ان کی زندگی کے اہم واقعات میں سے ہیں جن کی طرف قرآن کریم میں اشارہ ہوا ہے۔ حضرت زہرا(س) نے ابوبکر سے اپنا ارث یعنی فدک واپس لینے کے لئے حضرت زکریا کی دعا سے مربوط قرآنی آیات سے استناد کیا جس میں انہوں نے اپنے لئے وارث کی درخواست کی تھی۔ حضرت زکریا کو 99 سال کی عمر میں شہید کیا گیا۔

سوانح حیات

حضرت زکریا برخیا کے فرزند اور حضرت یعقوب[1] کے بیٹے لاوی کی نسل سے حضرت داود کے نواسے ہیں۔[2] آپ کے والد ماجد ان بارہ احبار میں سے تھے جو بابِل کے قید خانے میں قید تھے اور وہاں سے آزاد ہو کر فلسطین آگئے تھے۔[3] زکریا کے نام سے بنی اسرائیل کے دیگر انبیا بھی موجود تھے اس بنا پر آپ کو زکریائے سوم یا حضرت یحیی کے والد کے عنوان سے پکارا جاتا تھا۔[4]

آپ کی زوجہ کا نام ایشاع[5]، الیصابات[6] اور الیزابت ذکر کیا گیا ہے جو کہ حضرت مریم(س) کی خالہ تھیں۔[7] الیزابت خدا کے معجزے سے حضرت مریم کے حاملہ ہونے کے ساتھ حاملہ ہو گئی[8] اور خدا نے ان کے بیٹے کا نام یحی رکھا۔[یادداشت 1] حضرت زکریا کی بیٹیاں بھی تھیں جو الیزابت کے علاوہ کسی دوسری زوجہ سے تھیں۔[9]

حضرت زکریا نجار تھے اور معبد سلیمان میں خادم کے عنوان سے وہاں آنے والے تحفے تحائف اور نذورات کی سرپرستی کرتا تھا۔[10] بنی‌ اسرائل کے بعض افراد نے ان پر حضرت مریم کے ساتھ ناجائز تعلقات کا الزام لگایا۔ بنی‌ اسرائیل کے اندر ان تہمتوں کے پھیلنے کے بعد آپ شہر چھوڑ کر چلے گئے۔ ایک گروہ نے آپ کا پیچھا کیا۔ آپ ایک درخت کے تنے میں چھپ گئے۔ لیکن جب پیچھا کرنے والوں کو پتہ چلا تو انہوں اس درخت کو دو حصوں میں کاٹ ڈالا جس کی بنا پر آپ 99 سال کی عمر میں شہادت کے درجے پر فائز ہو گئے۔[11]

شام اور فلسطین میں دو مقبرے حضرت زکریا سے منسوب ہے۔ ایک مقبرہ شام کے شمال میں مسجد جامعُ الکبیر حَلَب میں موجود ہے۔[12] محدث قمی نے انبیاء کی زیارت کی فضیلت کے باب میں نقل کیا ہے کہ: «جناب زکریا کی قبر حَلَب میں ہونا معروف ہے»۔[13] ایک اور مقبرہ بیت المقدس کے مشرق میں آپ سے منسوب ہے۔ اس مقبرے میں چوتھی صدی عیسوی سے متعلق پتھر کا ایک کتیبہ‌ موجود ہے جس پر یہ تحریر ہے: (یہ قبر شہید زکریا کی ہے؛ جو حضرت یحیی کے والد اور ایک متقی و معنوی شخصیت تھے)[14]

اولاد کے لئے حضرت زکریا کی دعا

ہُنَالِک دَعَا زَکرِ‌یا رَ‌بَّہُ ۖ قَالَ رَ‌بِّ ہَبْ لِی مِن لَّدُنک ذُرِّ‌یۃً طَیبَۃً ۖ إِنَّک سَمِیعُ الدُّعَاءِ


اس موقع پر زکریا نے اپنے پروردگار سے دعا کی اور عرض کیا اے میرے پروردگار! مجھے اپنی طرف سے پاک و پاکیزہ اولاد عطا فرما۔ بے شک تو (ہر ایک کی) دعا کا سننے والا ہے۔



سورہ آل عمران، آیت 38

حضرت زکریا نے بڑھاپے میں خدا سے اولاد کی دعا کی جسے خدا نے قبول کر کے حضرت یحی کی صورت میں انہیں اولاد سے نوازا۔ پڑھاپے کی عمر تک انہوں نے خدا سے اولاد کی دعا نہیں کی تھی یہاں تک کہ جب حضرت مریم کی والدہ حنہ (جو حضرت زکریا کی زوجہ کی طرح بانجھ تھی) نے نذر کی کہ اگر خدا نے اسے اولاد سے نوازا تو اسے معبد کا خادم قرار دے گی۔ حضرت مریم(س) کی ولادت ہوئی اور حضرت زکریا نے ان کی کفالت کی ذمہ داری قبول کی۔ حضرت زکریا ہر روز خدا کی طرف سے حضرت مریم کے لئے ہونے والی عنایتوں جیسے بہشتی کھانوں کا نزول وغیرہ کا مشاہده کیا کرتے تھے۔ اس وقت حضرت زکریا نے بھی دعا کے لئے ہاتھ بلند کی اور کہا:

«اے میرے پروردگار! مجھے اپنی طرف سے پاک و پاکیزہ اولاد عطا فرما۔ بے شک تو (ہر ایک کی) دعا سننے والا ہے۔۔»۔ [15]

حضرت زکریا کا دوسرا انگیزہ یہ تھا کہ چونکہ ان کا کوئی امین وارث نہیں تھا لھذا انہوں نے خدا سے اولاد کی درخواست کی تاکہ وہ ان کا وارث بن سکے۔ حضرت زکریا کے رشتہ دار اور دیگر وارثین جو ان سے ارث لے سکتے تھے وہ حضرت زکریا کا مورد تائید اور مورد اطمینان نہیں تھے۔ حضرت زکریا کی دعا جو سورہ مریم کی آیات میں آئی ہے اس طرح ہے: اور میں اپنے بعد بھائی بندوں سے ڈرتا ہوں۔ اور میری بیوی بانجھ ہے سو تو ہی مجھے (خاص) اپنے پاس سے ایک وارث عطا کر۔ جو میرا بھی وارث بنے اور آل یعقوب کا بھی اور اے میرے پروردگار! تو اسے پسندیدہ بنا۔»[یادداشت 2]

حضرت زکریا کی دعا میں ارث اور وارث سے مراد

کہا جاتا ہے کہ حضرت زکریا کی طرف سے وارث کی دعا کا مطلب خدا سے اپنی ذریت میں کوئی اولاد مانگنا نہیں تھا۔ بلکہ اپنی زوجہ کے بانجھ ہونے کو مد نظر رکھتے ہوئے دوسری زوجات سے ہونے والی بیٹیوں سے کوئی نواسا عطا کرنے کی درخواست کی تھی جو ان کا وارث بن سکے۔[16] حضرت زکریا کا اپنے وارثین کے بارے میں جو پریشانی تھی وہ مالی امور سے مربوط تھی۔ وہ اور ان کی زوجہ جو کہ حضرت سلیمان بن داود کی نسل سے تھیں دولتمند تھی اور حضرت زکریا کے لئے یہ خوف تھا کہ یہ دولت ان کے رشتہ داروں میں سے نا اہلوں کے ہاتھ لگ جائے گی۔ اسی بنیاد پر حضرت زہرا(س) بھی اپنے ارث یعنی فدک کے لئے انہی آیات سے استناد کیا کرتی تھیں۔ بعض شیعہ مفسرین نے ارث سے عام معنا مراد لیا ہے جس میں مالی اور معنوی دونوں ارث شامل ہوتے ہیں۔[17]

خدا سے نشانی کی درخواست

حضرت زکریا نے خدا سے نشانی اور علامت کی درخواست کی۔ وہ نشانی یہ تھی کہ کسی سے کوئی بات نہیں کر سکتا اور صرف خدا سے مناجات کے وقت ان کی زبان کھل جاتی تھی۔[یادداشت 3] اس نشانی اور دلیل کی تفسیر میں مفسرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ حضرت زکریا نے خدا کی شکر گزاری کے لئے روزہ سکوت رکھا تھا، البتہ روزہ سکوت اس زمانے میں مشروع سمجھا جاتا تھا۔[18] لیکن جو افراد درج ذیل تین نظریات میں سے کسی ایک کے قائل ہیں وہ اس بات کے معتقد ہیں کہ لوگوں سے بات چیت نہ کرنا ایک غیر اختیاری عمل تھا چونکہ حضرت زکریا لوگوں سے بالکل بات چیت نہیں کر سکتا تھا اور صرف خدا سے مناجات کے وقت ان کی زبان کھلتی تھی۔

  • علامہ طباطبایی اس بات کے معتقد ہیں کہ؛ حضرت زکریا نے اس بات کی تشخیص کے لئے کہ یہ نداء جو انہوں نے سنی ہے خدا کی طرف سے ہے یا شیطان کا القاء، خدا سے نشانی طلب کی تھی۔[19]
  • شیخ طبرسی اس بات کے معتقد ہیں کہ یہ نشانی ان کی زوجہ کے حمل کا وقت معلوم کرنے کے لئے تھی۔[20]
  • نشانی کی درخواست یقین اور ایمان میں اضافے کے لئے تھی۔ جس طرح حضرت ابراہیم نے یقین اور ایمان میں اضافے کے لئے خدا سے نشانی طلب کی تھی۔[21]

زکریا اور حضرت مریم(س)

حضرت زکریا اور حضرت مریم آپس میں سببی رشتہ دار تھے؛ حضرت زکریا حضرت مریم کے خالو تھے۔[22]

حضرت زکریا نے معبد میں حضرت مریم کی کفالت کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ حضرت مریم کی کفالت کی ذمہ داری لینے کے طریقہ کار کے بارے میں احادیث نقل ہوئی ہیں۔ ان احادیث کے مطابق حضرت مریم کا معبد میں آنے اور ان کے والد عمران کی وفات کے بعد ان کے کفیل کی تعیین میں ان کی قوم کے بزرگان کے درمیان اختلاف پیدا ہوا۔ اس پر حضرت مریم کے کفیل کو قرعہ اندازی کے ذریعے معین کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ مختلف احادیث کے مطابق تیروں یا قلموں کو پانی میں ڈال دیا گیا اور جس کی تیر یا قلم پانی کے اوپر تیرے گا وہ قرعہ اندازی میں کامیاب قرار پائے گا اور حضرت زکریا کی تیر یا قلم پانی کے اوپر تیرتا رہا یوں حضرت مریم کی کفالت کی ذمہ داری آپ کے نصیب میں آئی۔[23]

حضرت مریم کی کفالت اور ان کی کرامات کے مشاہدے کے باعث حضرت زکریا نے خدا سے اولاد کی درخواست کی۔[24] امام باقرؑ سے مروی ایک حدیث میں آیا ہے کہ حضرت زکریا جب حضرت مریم کے پاس جاتے تو ان کے یہاں سردیوں میں گرمیوں کے میوہ‌ جات اور گرمیوں میں سردیوں کے میوہ جات پاتے جو خدا کی طرف سے حضرت مریم کے لئے نازل ہوتے تھے۔[25]

قرآن میں زکریا کا تذکرہ

قرآن میں 7 مرتبہ حضرت زکریا کا نام آیا ہے جن میں حضرت مریم کی کفالت اور خدا سے صاحب اولاد ہونے کی دعا وغیرہ کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ قرآن میں آپ کو صاحب حکمت اور مقام قضاوت کے حامل انبیا کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے۔[26]

احادیث میں حضرت زکریا کا تذکرہ

  • حضرت زکریا امام حسینؑ کی داستان سے باخبر ہونے کے بعد 3 دن تک اپنی عبادت گاہ میں گریہ و زاری میں مشغول رہے۔ حضرت زکریا نے خدا سے درخواست کی کہ خدا ان کے لئے ایک بیٹا عطا کرے جو بڑھاپے میں آنکھوں کی ٹھنڈک اور ان کا وارث بنے اور ان کا مقام امام حسینؑ کے مقام کی طرح قرار دے۔ اس کے بعد انہوں نے یوں دعا کی:
«خدایا جب آپ نے مجھے ایسی اولاد عطا کی، تو اس کی محبت کے ذریعے میرا امتحان لے، اس کے بعد جس طرح آپ نے اپنے حبیب حضرت محمدؐ کو ان کے بیٹے حسینؑ کی مصیبت کے ذریعے آزمایا ہے مجھے بھی ایسی ہی عظیم مصیبت سے دوچار فرما۔»[27]

حضرت زکریا کے فرزند حضرت یحیی اور امام حسینؑ میں کچھ شباہتیں موجود ہیں۔ مثلا یہ کہ دونوں چھ مہنے میں دنیا میں آئے ہیں اور جس طرح امام حسینؑ کا سر بدن سے جدا کیا گیا حضرت یحیی کا سر بھی جدا کر کے تشت میں رکھ کر اس وقت کے ظالم و جابر بادشاہ کے سامنے رکھ دیا گیا تھا۔[28] اسی طرح حضرت یحیی اور امام حسینؑ کی شہادت کے بعد لوگوں پر ظالم و جابر حکمرانوں کا مسلط ہونا بھی ان دونوں کے تشابہات میں سے ہے۔[29]

  • حضرت زہرا(س) خطبہ فدکیہ میں سورہ مریم کی آیت نمبر 6 سے استناد کرتی ہیں، اس آیت میں حضرت زکریا خدا سے اولاد کی درخواست کرتے ہیں تاکہ یہ ان سے ارث لے لے۔ حضرت زہرا(س) اس آیت سے استناد کے ذریعے ابوبکر کی باتوں کے برخلاف جو کہتے تھے انبیاء ارث نہیں چھوڑتے؛ یہ ثابت کرنا چاہتی تھیں کہ ارث چھوڑنے میں نبی اور دوسرے افراد میں کوئی فرق نہیں ہے پس فدک بھی رسول خوا کا چھوڑا ہوا ارث اور حضرت زہرا(س) کا حق ہے۔[30]
  • امام صادقؑ والد کی وفات کے بعد عبادت میں مشغول فرزند کو میراث خدا کا نام دیتے ہیں اور اس آیت کی تلاوت کرتے ہیں: «فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا ‎﴿٥﴾‏ يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُو۔» یعنی سورہ مریم کی آیت نمبر 5 اور 6 جس میں حضرت زکریا خدا سے یحیی کی شکل میں اولاد کی درخواست کرتے ہیں۔[31]

کتاب مقدس اور قرآن میں حضرت زکریا کا مقایسہ

  • انجیل لوقا میں حضرت زکریا کو ایک یہودی متقی کاہن اور احکام الہی کے مجری کے طور پر معرفی کی گئی ہے[32] جبکہ قرآن کریم انہیں خدا پیغمبر، مورد لطف خدا اور ہدایت یافتہ و منتخب شدہ افراد میں سے قرار دیتے ہوئے عبودیت کی صفت سے انہیں یاد کرتے ہیں۔[33]
  • حضرت یحیی کی معجزانہ ولادت اور حضرت زکریا کی زوجہ کا بانجھ ہونا جن کا نام انجیل لوقا میں الیصابات ذکر کیا گیا ہے، قرآن کریم میں بھی اسی طرح نقل ہوا ہے۔[34] اسی طرح یحیی کا نام خدا کی طرف منتخب ہونا اور نشانی کے طور پر حضرت زکریا سے تکلم کی قدرت کو سلب کرنا دونوں کتابوں میں یکساں ذکر ہوا ہے۔ سوائے یہ کہ حضرت زکریا سے تکلم کی قدرت کو سلب کرنے کو انجیل میں بشارت الہی پر یقین نہ کرنے کی تنبیہ جبکہ قرآن میں خدا کی طرف سے نشانی اور آیت سے تعبیر کی گئی ہے۔[35]
  • اناجیل اربعہ میں حضرت زکریا کی طرف سے حضرت مریم کی کفالت کی ذمہ داری قبول کرنے کے بارے میں کوئی بات نہیں آئی ہے۔[36]
  • انجیل لوقا و متی میں احبار و یہودی فریسی اقوام کے ہاتھوں حضرت زکریا کی شہادت واقع ہونے کا تذکرہ ملتا ہے۔[37] قرآن کریم میں حضرت زکریا کے انجام کے بارے میں کوئی تذکرہ نہیں ہوا ہے اگرچہ متعدد احادیث میں حضرت زکریا کی شہادت کی طرف اشارہ ہوا ہے۔[38]

حوالہ جات

  1. شبستری، اعلام القرآن، 1379ہجری شمسی، ص397
  2. ابواسحاق نیشابوی، قصص الانبیاء،1386ہجری شمسی، ص310
  3. شبستری، اعلام القرآن، 1379ہجری شمسی، ص397
  4. رامین نژاد، مزار پیامبران، 1387ہجری شمسی، ص193
  5. ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، 1408ھ، ج2، ص168۔
  6. علامہ طباطبائی،‌ المیزان، 1382ہجری شمسی، ج14، ص29
  7. مسعودی،‌ مروج الذہب، 1379ہجری شمسی، ج1، ص75
  8. شبستری، اعلام القرآن، 1379ہجری شمسی، ص397
  9. بہبودی، بازنگری تاریخ انبیاء در قرآن، در مجلہ فصلنامہ پژوہش‌ہای قرآنی
  10. شبستری، اعلام القرآن، 1379ہجری شمسی، ص397
  11. الحسنی العاملی، الانبیاء حیاتہم و قصصہم، 1391ھ،‌ ص465؛ شبستری، اعلام القرآن، 1379ہجری شمسی، ص397
  12. کوپلند، سرزمین و مردم سوریہ، 1370ہجری شمسی، ص156۔
  13. قمی، مفاتیح الجنان، باب فضیلت زیارت انبیا، ص929۔
  14. رامین نژاد، مزار پیامبران، 1387ہجری شمسی، ص195
  15. سورہ آل عمران، آیہ 38
  16. بہبودی، بازنگری تاریخ انبیاء در قرآن، در مجلہ فصلنامہ پژوہش‌ہای قرآنی
  17. طبرسی، مجمع‌البیان، 1379ھ، ج5، ص777ِ؛ مکارم شیرازی،‌ تفسیر نمونہ، 1387ہجری شمسی،‌ ج13، ص10
  18. طیب،‌ أطیب البیان فی تفسیر القرآن، 1378ہجری شمسی، ج3،‌ ص193
  19. علامہ طباطبائی،‌ المیزان، 1382ہجری شمسی، ج3، ص180۔
  20. طبرسی،‌ مجمع‌البیان، 1379ھ، ج2، ص745
  21. درزی، حضرت زکریا(ع) و درخواست آیہ با تأکید بر دیدگاہ علامہ طباطبایی، در مجلہ بینات،‌ شمارہ 85،‌ تابستان 95ہجری شمسی،‌ ص61
  22. علامہ طباطبائی،‌ المیزان، 1382ہجری شمسی، ج3، ص297۔
  23. علامہ طباطبائی،‌ المیزان، 1382ہجری شمسی، ج3، ص297۔
  24. علامہ طباطبائی،‌ المیزان، 1382ہجری شمسی، ج3، ص297۔
  25. عروسی حویزی، نورالثقلین، 1383ھ، ج1، ص332۔
  26. سورہ انعام، آیات 85-89
  27. شیخ صدوق، کمال‌ الدین و تمام النعمہ، 1422ھ،‌ ص488۔
  28. قائدان، اماکن سیاحتی زیارتی دمشق، موسسہ تحقیقات و نشر معارف اہل البیتؑ، ص24
  29. موسوی، تاریخ انبیاء، 1385ہجری شمسی،‌ ص305
  30. ابن طیفور، بلاغات النساء، مکتبہ بصیرتی، ص29۔
  31. ری شہری،‌ میزان الحکمہ، 1377ہجری شمسی، ص7084
  32. ہاکس، جیمز، قاموس کتاب مقدس، 1377ہجری شمسی، ص13
  33. سورہ انعام، آیات 85-89؛ ری شہری، میزان الحکمہ، 1377ہجری شمسی، ص6042
  34. اکبری دستک،‌ «مقایسہ تطبیقی داستان حضرت زکریا و حضرت یحیی در قرآن و اناجیل اربعہ»،‌ ص155
  35. لوقا،‌ باب اول، ص20 بہ نقل از اکبری دستک،‌ «مقایسہ تطبیقی داستان حضرت زکریا و حضرت یحیی در قرآن و اناجیل اربعہ»،‌ ص155
  36. اکبری دستک،‌ «مقایسہ تطبیقی داستان حضرت زکریا و حضرت یحیی در قرآن و اناجیل اربعہ»،‌ ص172
  37. لوقا،‌ باب یازدہم، ص50،‌ بہ نقل اکبری دستک،‌ «مقایسہ تطبیقی داستان حضرت زکریا و حضرت یحیی در قرآن و اناجیل اربعہ»،‌ ص159
  38. مجلسی، حیوۃ القلوب، 1384ہجری شمسی، ج2، ص1045۔

یادداشت

  1. یا زَکرِیا إِنَّا نُبَشِّرُک بِغُلامٍ اسْمُہُ یحْیی‌ لَمْ نَجْعَلْ لَہُ مِنْ قَبْلُ سَمِیا۔ سورہ مریم، آیہ 7
  2. وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِن وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا۔ سورہ مریم، آیت 5 اور 6
  3. قَالَ رَ‌بِّ اجْعَل لِّی آیۃً ۖ قَالَ آیتُک أَلَّا تُکلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَۃَ أَیامٍ إِلَّا رَ‌مْزًا وَاذْکر‌ رَّ‌بَّک کثِیرً‌ا وَسَبِّحْ بِالْعَشِی وَالْإِبْکارِ‌ سورہ آل عمران، آیہ 41

مآخذ

  • ابن طیفور، ابوالفضل احمد بن ابی طاہر، بلاغات النساء، چاپ افست، قم: مکتبہ بصیرتی، بی‌تا۔
  • اکبری دستک،‌ فیض اللہ،‌ مقایسہ تطبیقی داستان حضرت زکریا و حضرت یحیی در قرآن و اناجیلی اربعہ،‌ در مجلہ صحیفہ مبین، شمارہ 43،‌ پاییز 1387ہجری شمسی۔
  • بہبودی، محمد باقر، بازنگری تاریخ انبیاء در قرآن، در مجلہ فصلنامہ پژوہش‌ہای قرآنی۔
  • الحسنی العاملی، عبدالحسن، الانبیاء حیاتہم و قصصہم، بیروت، اعلمی، 1391ھ۔
  • حویزی، علی بن جمعہ، تفسیر نور الثقلین،‌ ترجمہ عبدالرحیم عقیقی بخشایشی و ہمکاران، قم، نوید اسلام، 1383ھ۔
  • درزی، قاسم، حضرت زکریا(ع) و درخواست آیہ با تأکید بر دیدگاہ علامہ طباطبایی، در مجلہ بینات،‌ شمارہ 85،‌ تابستان 95ہجری شمسی۔
  • رامین نژاد، رامین، مزار پیامبران، مشہد، بنیاد پژوہش‌ہای اسلامی، 1387ہجری شمسی۔
  • شبستری، عبدالحسین، اعلام القرآن، قم، بوستان کتاب، 1379ہجری شمسی۔
  • صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمۃ، تحقیھ، تصحیح و تعلیق: علی أکبر الغفاری، قم، جامعہ مدرسین، 1405ھ۔
  • طبرسی،‌ فضل بن حسن، مجمع البیان، بیروت،‌دار احیاء التراث العربی، 1379ھ۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ترجمۂ سید محمدباقر موسوی ہمدانی، قم: دفتر انتشارات اسلامی، 1382ہجری شمسی۔
  • طیب، سید عبدالحسین، اطیب البیان فی تفسیر القرآن، تہران، انتشارات اسلام، 1378ہجری شمسی۔
  • قائدان، اصغر، اماکن سیاحتی زیارتی دمشق، اصفہان، موسسہ تحقیقات و نشر معارف اہل البیت(ع)، بی‌تا۔
  • قمی، عباس، مفاتیح الجنان۔
  • کوپلند، پل، سرزمین و مردم سوریہ، ترجمہ فریبرز مجیدی، تہران، علمی و فرہنگی، 1370ہجری شمسی۔
  • مجلسی، محمدباقر، حیاۃ القلوب، قم، سرور، 1384ہجری شمسی۔
  • محمدی ری‌شہری، محمد،‌ میزان الحکمہ، ترجمہ حمیدرضا شیخی، دارالحدیث، قم، 1379ہجری شمسی۔
  • مسعودی، علی بن الحسین، مروج الذہب، تحقیق اسعد داغر، قم،‌ دار الہجرۃ، 1409ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، باہمکاری جمعی از نویسندگان، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، 1378ہجری شمسی۔
  • موسوی، سیدمرتضی، تاریخ انبیاء، تہران، پرتو خورشید، 1385ہجری شمسی۔
  • نیشابوری، ابواسحاق، قصص الانبیاء، تصحیح حبیب یغمایی، نشر علمی و فرہنگی، 1382ہجری شمسی۔
  • ہاکس، جیمز، قاموس کتاب مقدس، تہران‌، کتابخانہ طہوری، 1377ہجری شمسی۔