ابو درداء

ویکی شیعہ سے
ابودرداء
کوائف
مکمل نامعُوَیمر بن زبد بن قیس بن عائشۃ بن امیۃ بن مالک خزرجی انصاری
کنیتابو درداء
لقبعُوَیمر
مہاجر/انصارانصار
نسب/قبیلہخزرج
وفاتدمشق
مدفنباب الصغیر(دمشق)
دینی معلومات
اسلام لاناکہا گیا ہے، جنگ بدر کے موقع پر
جنگوں میں شرکتفتح شام و جزیرہ قبرس، جنگ احد اور جنگ یرموک
نمایاں کارنامےجمع قرآن
دیگر فعالیتیںقاضی دمشق اور پیغمبر خداؐ سے نقل روایت


عُوَیمر بن زید خزرجی انصاری المعروف اَبو دَرْداء انصاری صحابی پیغمبر اسلامؐ تھے۔ وہ جمع قرآن کے عمل میں بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ فتح شام و جزیرہ قبرس اور جنگ یرموک میں بھی شرکت کی اور کچھ عرصہ دمشق میں قضاوت کے منصب پر فائز رہے۔

نسب نامہ

ابو درداء کے والد کے نام اور سلسلہ نسب کے بارے اختلاف پایا جاتا ہے۔ چنانچہ ان کے والد کا نام بعض نے ثعلبہ، بعض نے عامر بتایا ہے اور مالک بھی تاریخ میں آیا ہے۔[1] اسی طرح بعض نے ان کا لقب "عویمر" اور نام عامر ذکر کیا ہے۔[2] ابودرداء بعثت پیغمبرؐ سے پہلے تجارت کا کام کرتا تھا اور اپنے خاندان میں پہلا شخص ہے جس نے اسلام قبول کیا۔

خصوصیات

ابو درداء قدیمی منابع میں ایک حکیم و عابد شخص [یادداشت 1] کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا[3] اور ابو نعیم اصفہانی نے ان کو عارف، مفکر، حکیم اور عابد جیسے اوصاف سے متصف کرنے کے بعد ان سے کچھ حکمت آمیز باتیں نقل کی ہیں۔[4] ابو درداء سے منسوب نصیحت آمیز باتیں بہت سی اخلاقی کتب میں مورد توجہ قرار پائی ہیں۔[5]

ابو درداء کے اسلام لانے کا ماجرا

ابو درداء کے گھر میں ایک بت تھا جسے زمان جاہلیت اور عصر اسلام میں اس کے قریبی دوست عبد اللہ بن رواحہ نے توڑ ڈالا۔ اس کے بعد وہ ابن رواحہ کے ساتھ رسول خداؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اسلام قبول کیا۔[6] نبی کریمؐ نے ان کے اور سلمان فارسی کے درمیان غالباً جنگ بدر[7] سے پہلے؛ یا ان کے اور عوف بن مالک[8] کے درمیان عقد اخوت باندھا[9] سیوطی کے مطابق اس نے بدر کے دن اسلام قبول کیا اور جنگ احد میں شرکت کی۔[10]

جمع و تعلیم قرآن

ابو درداء ان چند افراد میں سے تھے جنہوں نے کتابت اور قرآن کی جمع آوری میں حصہ لیا تھا۔[11] وہ عمر کے حکم پر قرآن کی تعلیم دینے کے لیے شام گئے اور دمشق میں قیام پذیر ہوئے[12] یہاں اس کے درسِ تعلیم قرآن میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ شرکت کرتے تھے۔[13] شام سے مدینہ کے سفر میں انہوں نے شامیوں اور اہل مدینہ کے دونوں مصحفوں کا آپس میں موازنہ کیا۔[14]

احادیث پیغمبرؐ کے راوی

ابو درداء نے رسول خداؐ سے بکثرت احادیث نقل کی ہیں۔[15]ان احادیث کا ایک قابل ذکر مجموعہ مسند احمد بن حنبل میں نقل ہوا ہے۔[16]

امام علیؑ کی مناجات اور خصوصی راز و نیاز کو روایت کرنا

بعض روایتوں کے مطابق ایک دن ابو درداء نے اصحاب رسول کے ایک گروہ کے پاس قسم کھا کر کہا: امام علیؑ بکثرت عبادت کرنے والا اور سب سے زیادہ متقی شخص ہیں۔ اس مدعا کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا: ایک رات میں نے بنی نجار کے باغات میں علی بن ابی طالب کو دیکھا کہ وہ اپنے اردگرد رہنے والوں سے الگ ہوگئے اور ان سے چھپ کر کھجور کے درختوں میں چھپ گئے، میں نے خیال کیا کہ وہ اپنے گھر چلے گئے ہونگے۔ اچانک! میں نے غم انگیز اور درد بھرے لہجے میں یہ الفاظ سنے: "خداوندا! کتنی مصیبتوں کو تو نے میرے کندھوں سے اتار کر اپنی عنایات سے بدل دیا! اور میری کتنی خطاؤں کو ظاہر کرنے سے گریز کیا ہے! اے میرے رب! اگر تیری نافرمانی میں میری عمر دراز ہو جائے اور میرے گناہ میں اضافہ ہو جائے تو میں تیری بخشش کے سوا کچھ نہیں چاہتا اور تیری رضا کے سوا کوئی امید نہیں رکھتا۔[یادداشت 2] اس وقت علیؑ نے بہت گریہ کیا۔ اب کی بار ان کی طرف سے کوئی آواز نہیں آئی اور کوئی حرکت بھی نظر نہیں آئی۔ میں نے بخود کہا: رات کو بیداری کے سبب تھکاوٹ کی وجہ سے انہیں نیند آئی ہوگی۔ میں نے ارادہ کیا کہ جا کر انہیں نماز صبح کے لیے جگا دوں۔ میں نے دیکھا کہ وہ ایک خشک چھڑی کی طرح گرا ہوا ہے۔ میں نے انہیں ہلایا، مگر نہیں ہلا۔۔۔ میں نے کہا: "انا اللہ و انا الیہ راجعون! خدا کی قسم علی بن ابی طالب وفات پاچکے ہیں۔ میں نے جلدی سے اپنے آپ کو ان کے گھر پہنچا دیا تاکہ ان کے گھر والوں کو ان کی موت کی خبر دوں۔ حضرت فاطمہؑ نے مجھ سے ماجرا پوچھا: ابو درداء! کیا ماجرا ہے؟ جب میں نے انہیں سارا واقعہ سنایا تو کہا: اے ابو درداء! خدا کی قسم! علیؑ کی یہ حالت خدا کے خوف سے ہوئی ہے۔ [17]

ابو درداء کا عسکری اور سیاسی کردار

شام کی فتح کے واقعے میں ابو درداء اسلامی لشکر کے ساتھ وہاں گئے اور اس علاقے میں مسلمانوں کے دو لشکر گاہ میں سے ایک کے سربراہ تھے بنے۔[18]وہ جنگ یرموک (13ھ) میں اسلامی لشکر کے منصب قضاوت پر فائز تھے۔[19] کہتے ہیں کہ ابو درداء نے سنہ 27 ہجری میں فتح جزیرہ قبرص میں بھی حصہ لیا۔ [20] ابن کثیر نے ان کا اور ابو امامہ باہلی کا نام ان لوگوں میں شامل کیا ہے جنہوں نے قتل عثمان کے معاملے میں لوگوں کو انتقام لینے کی ترغیب کی۔[21] لیکن یہ روایتیں صرف ابو درداء کی تاریخ وفات (38 یا 39 ہجری، جنگ صفین کے بعد) کے بارے میں غیر مشہور قول سے مطابقت رکھتی ہیں۔[22] حضرت علیؑ کے دور خلافت میں نصر بن مزاحم نے بیان کیا ہے کہ ابودرداء ابو امامہ باہلی کے ساتھ جنگ صفین میں معاویہ پر اعتراض کیا اور حضرت علیؑ سے بات چیت کرنے کے بعد جنگ سے دستبردار ہو گئے تھے۔[23] شام کے قاضی کی تقرری کے بارے میں کہا گیا ہے کہ عمر نے ذاتی طور پر دمشق کی قضاوت ابودرداء کے سپرد کی۔ امیر اور گورنر کی غیر موجودگی میں قاضی کو ان کا نائب اور متبادل سمجھا جاتا تھا۔[24] یا یہ کہ معاویہ نے عمر کے حکم سے انہیں دمشق کا قاضی بنایا تھا۔[25] ایک اور تاریخی نقل کے مطابق ابودرداء عثمان کے دور خلافت میں دمشق کا قاضی بنا، [26] لیکن معلوم ہوتا ہے کہ وہ خلافت عثمان کے دوران سے ہی قضاوت کے عہدے پر باقی تھے۔

وفات

اہل سنت مورخین ابن‌ عبد البر اور ابن‌ اثیر کا کہنا ہے کہ مشہور اور صحیح قول کی بنیاد پر ابو درداء عثمان کے دور خلافت (32ھ یا 33ھ) کو دمشق میں وفات پائے ہیں۔[27] بعض تاریخی منابع کے مطابق ان کا مقبرہ قبرستان باب الصغیر میں ہے۔[28] البتہ اردن کے صوبہ إربِد میں بھی ان سے منسوب ایک مقبرہ موجود ہے[29] اسی طرح استنبول میں بھی ابو درداء سے منسوب دو مقبرے موجود ہیں۔[30]

حوالہ جات

  1. ملاحظہ کیجیے: ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج2، ص152؛ ابن قتیبہ، المعارف، ص268؛ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج3، ص1227۔
  2. ابن ابی حاتم، الجرح و التعدیل، ج3(2)،ص26؛ حاکم، المستدرک علی الصحیحین، ج3، ص336۔
  3. رجوع کیجیے: ابن سعد، الطبقات الکبری، ج7، ص392؛ بخاری، التاریخ الکبیر، ج4(1)، ص77۔
  4. ابونعیم، حلیۃ الاولیاء، ج1، ص208227۔
  5. ملاحظہ کیجیے: ابوعلی مسکویہ، الحکمۃ الخالدۃ، ص126، 176؛ ماوردی، ادب الدنیا و الدین، ص102، جاہای مختلف۔
  6. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج7، ص391۔
  7. ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج2، ص152؛ ابن حبیب، المحبّر، ص75۔
  8. ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج2، ص152؛ ابن حبیب، المحبّر، ص75۔
  9. عسقلانی، تہذیب التہذیب، ج8، ص176۔
  10. سیوطی، حسن المحاضرۃ فی تاریخ مصر و القاہرۃ، ج1، ص244۔
  11. بخاری، التاریخ الکبیر، ج4(1)، ص76۔
  12. ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ھ، ج13، ص731۔
  13. ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج2، ص346۔
  14. ابن ابی داود، المصاحف، ص155۔
  15. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج7، ص392؛ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج2، ص337۔
  16. مسند احمد، ج6، ص440-452۔
  17. صدوق، امالی، 1417ھ، صص137-138۔
  18. بسوی، المعرفۃ و التاریخ، ج3،ص298۔
  19. طبری، تاریخ، ج3، ص397
  20. ملاحظہ کیجیے: بلاذری، فتوح البلدان، ص154؛ طبری، تاریخ، ج4، ص258
  21. ابن کثیر، البدایة، دار إحياء التراث العربي - بيروت - لبنان :الناشر، ج7، ص228
  22. ابن‌عبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج3، ص1229؛ ابن‌اثیر، اُسد الغابه، 1409ھ، ج4، ص20۔
  23. نصر بن مزاحم، وقعة صفین، 1404ھ، ص 190۔
  24. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج3، ص1230۔
  25. ابن حجر، تهذیب التهذیب، ج8، ص176۔
  26. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج4، ص1646 و 1647۔
  27. ابن‌عبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج3، ص1229؛ ابن‌اثیر، اُسُد الغابہ، 1409ھ، ج4، ص20۔
  28. ابن حبان، مشاہیر علماء الامصار، ص50۔
  29. «ضریح الصحابی الجلیل ابی‌الدرداء»، در سایت المقامات۔
  30. ملاحظہ کیجیے: ایشلی، ص33-34، ص102-105

نوٹ

  1. علامہ مجلسی نے بحارالانوار میں "تنبیہ الخاطر" سے نقل کیا ہے کہ ایک دن سلمان ابو درداء کے گھر گیا، جب مشاہدہ کیا کہ اس کی بیوی لباس و خوراک وغیرہ کے لحاظ سے انتہائی کسمپرسی کی حالت میں ہے۔ یہ حالت دیکھ کر سلمان وہیں رہے اور ابو درداء کو کھانا کھانے پر مجبور کیا۔ جب رات کا آخری پہر ہوا تو ابودرداء عبادت کے لیے اٹھا تو سلمان نے ابودرداء سے مخاطب ہو کر کہا: اے ابو درداء! تم پر ایک طرف سے اللہ کا حق ہے تو دوسری طرف سے تمہارے بدن کا تم پر ایک حق ہے اور تمہارے گھروالوں کا کچھ حق بھی ہے۔ تمہیں چاہیے کہ ان سارے حقوق کو ادا کرو۔ روزہ بھی رکھو، کھانا بھی کھاؤ، نماز بھی پڑھو اور درمیان میں آرام بھی کرو، پس ہر قسم کے حق کو ادا کیا کرو۔[وأعطِ كلَّ ذي حقٍ حقَّہ]۔ اس ماجرا کے بعد ابودرداء پیغمبر خداؐ کے پاس گیا اور سلمان کی باتیں آپؐ کے ہاس دہرا دیں۔ پیغمبر خداؐ نے بھی ہو بہو سلمان والی باتیں ان کو بتادیا۔ مجلسی، بحارالانوار،1403ھ، ج70، ص128۔
  2. إلهي، كَمْ مِنْ موبقةٍ حملتَ عني فقابلتُها بنعمتك، وكم من جريرةٍ تكرَّمتَ عن كشفها بكرمك، إلهي إن طال في عصيانك عُمري، وعَظُم في الصّحِف ذنبي، فما أنا مؤمِّلٌ غير غفرانك، ولا أنا براجٍ غير رضوانك۔

مآخذ

  • ابن ابی حاتم، عبدالرحمن، الجرح و التعدیل، حیدرآباد دکن، 1372 ھ/1952ء۔
  • ابن ابی داوود، عبداللہ بن سلیمان، المصاحف، قاہرہ، 1355ھ۔
  • ابن اثیر، علی بن محمد، اسد الغابۃ، بیروت، دار الفکر، 1409ھ۔
  • ابن حبان، محمد، مشاہیر علماء الامصار، بہ کوشش فلایشہامر، قاہرہ، 1379ھ/ 1959ء۔
  • ابن حبیب، محمد، المحبّر، حیدرآباد دکن،‌1361ھ/ 1942ء۔
  • ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، تہذیب التہذیب، حیدرآباد دکن، 1326ھ۔
  • ابن حنبل، احمد، مسند الامام احمد بن حنبل، قاہرہ، 1313 ھ۔
  • ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، دارصادر۔
  • ابن عبدالبر، یوسف بن عبداللہ، الاستیعاب، بہ کوشش علی محمد بجاوی، قاہرہ، کتبۃ نہضۃ مصر۔
  • ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینۃ دمشق، عمان، دارالبشیر۔
  • ابن قتیبہ، عبداللہ بن مسلم، المعارف، بہ کوشش ثروت عکاشہ، قاہرہ، 1960ء۔
  • ابن کثیر، البدایۃ۔
  • ابن ہشام، عبدالملک، السیرۃ النبویۃ، بہ کوشش مصطفی سقا، قاہرہ، 1355 ھ/1936ء۔
  • ابو علی مسکویہ، احمد بن محمد، الحکمۃ الخالدۃ، بہ کوشش عبدالرحمن بدوی۔ تہران، 1358ہجری شمسی۔
  • ابو نعیم اصفہانی، احمد بن عبداللہ، حلیۃ الاولیاء، بیروت، 1387 ھ/1967ء۔
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، التاریخ الکبیر، حیدرآباد دکن، 1397ھ/ 1977۔
  • بسوی، یعقوب بن سفیان، المعرفۃ و التاریخ، بہ کوشش اکرم ضیا عمری، بغداد، 1394 ھ/1974ء۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، فتوح البلدان، بہ کوشش دخویہ، لیدن، 1865ء۔
  • حاکم نیشابوری، محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، حیدرآباد دکن، 1324 ھ۔
  • ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، بہ کوشش شعیب ارنؤوط، 1405ھ/1985ء۔
  • سایت المقامات، صفحہ «ضریح الصحابی الجلیل ابی‌الدرداء»، تاریخ بازدید: 21 آبان 1401ہجری شمسی۔
  • سیوطی، حسن المحاضرۃ فی تاریخ مصر و القاہرۃ، بہ کوشش محمد ابوالفضل ابراہیم، قاہرہ، 1387ھ/ 1967ء۔
  • صدوق، محمد بن علی، امالی، تحقيق: قسم الدراسات الاسلاميۃ - مؤسسۃ البعثۃ - قم الطبعۃ: الاولى 1417ھ۔
  • طبری، تاریخ۔
  • ماوردی، علی ابن محمد، ادب الدنیا و الدین، بیروت، 1407ھ/ 1987ء۔
  • نصر بن مزاحم منقری، وقعۃ صفین، بہ کوشش عبدالسلام محمد ہارون، قاہرہ، 1382ھ/ 1962ء۔
  • واقدی، محمد بن عمر، المغازی، بہ کوشش مارسدن جونز، لندن، 1966ء۔
  • Necdet, Istanbul da sahabe Kabir ue makamalan, Ankara, Renkofset matbaacilik۔