ابو طلحہ انصاری

ویکی شیعہ سے
ابو طلحہ انصاری
کوائف
مکمل نامزید بن سہل بن اسود بن حرام خزرجی
محل زندگیمدینہ،
مہاجر/انصارانصار
وفات۵۰ یا ۵۱ ہجری، مدینہ
دینی معلومات
اسلام لانابیعت عقبی
جنگوں میں شرکتبدر، احد، خںدق، خیبر
وجہ شہرتصحابی رسول خدا ؐ


زید بن سہل بن اسود بن حرام خزرجی، ابو طلحہ انصاری کے نام سے معروف، انصار، رسول خدا ؐ کے مشہور صحابی اور صدر اسلام کے دلاور و برجستہ تیر انداز ہیں کہ جنہوں نے جنگ بدر، جنگ احد اور جنگ خندق میں شرکت کی ہے اور انہوں نے پیغمبر اکرمؐ سے روایات بھی نقل کی ہیں۔

پیغمبرؐ کی ہمراہی

پیغمبر اکرم ؐ کی ہجرت سے پہلے ابو طلحہ مدینہ والوں کے ساتھ بیعت عقبی میں حاضر ہوئے اور آپ کے ہاتھوں پر بیعت کی[1] اور ان کا انتخاب اہل مدینہ کے نقباء کے عنوان سے ہو گیا۔[2] نقل ہوا ہے کہ آنحضرت ؐ نے مدینہ ہجرت کے بعد ان کے اور ارقم بن ابی ارقم کے درمیان رشتہ اخوت قائم فرمایا۔[3] ابو طلحہ جنگ بدر، جنگ احد، جنگ خندق اور جنگ حنین میں شریک رہے۔[4] مصادر میں ذکر ہوا ہے کہ وہ جنگ احد میں پیغمبر اکرم ؐ کے سینہ سپر ہو کر تیر اندازی کر رہے تھے اور ان کی آواز اتنی مہیب اور بھاری بھرکم تھی کہ رسول خدا ؐ انہیں دشمن پر رعب ڈالنے کے معاملہ میں جنگی سپاہیوں کے گروہ سے برتر سمجھتے تھے۔[5]

اسی طرح سے ان کے سلسلہ میں نقل ہوا ہے کہ ایک روز ابو طلحہ نے مشاہدہ کیا کہ آنحضرت ؐ کے چہرے پر بھوک کے آثار ظاہر ہیں تو انہیں کھانے کے لئے اپنے گھر دعوت دی۔ پیغمبر اکرم ؐ اپنے اصحاب کے ہمراہ ان کے گھر گئے اور جو تھوڑا بہت کھانے کا انتظام ہوا تھا اس پر دعا پڑھی اور اس کے بعد اصحاب میں سے تھوڑے تھوڑے افراد کو اندر بلایا اور ان سب نے سیر ہو کر کھانا کھایا۔[6]

  • نقل حدیث

ابو طلحہ نے پیغمبر اکرم ؐ سے روایات نقل کی ہیں۔ ان کے بیٹے عبداللہ، ان کے پوتے اسحاق بن عبد اللہ اور انس بن مالک اور بعض دوسرے افراد نے ان سے روایات نقل کی ہیں۔[7]

  • خصوصیات

ابو طلحہ کثرت سے روزہ رکھتے تھے۔ نقل ہوا ہے کہ وہ رسول خدا ؐ کی رحلت کے بعد ۴۰ برس زندہ رہے اور تمام اس مدت میں بیماری، سفر، عید الفطر و عید الاضحی کے علاوہ ہمیشہ روزہ رکھتے تھے۔[8]

نقل ہوا ہے کہ رسول خداؐ کی وفات کے بعد آپ کے جسم مبارک کو اس قبر میں دفن کیا گیا جسے ابو طلحہ نے اہل مدینہ کی روش پر آمادہ کیا تھا۔[9]

خلیفہ دوم کی عطا کردہ ذمہ داری

جس وقت اپنے آخری لمحات میں خلیفہ دوم نے خلافت کے سلسلہ میں ۶ افراد پر مشتمل شورا تشکیل دی تو ابو طلحہ کو حکم دیا کہ وہ ۵۰ لوگوں کے ساتھ اس گھر کے دروازہ پر بیٹھ جائیں جس میں اہل شوری جمع ہیں اور تین دن تک ان میں سے کسی کو باہر نکلنے اور اندر جانے کی اجازت نہ دیں۔ یہاں تک کہ وہ ۶ افراد آپس میں کسی ایک کو خلیفہ منتخب کر لیں۔[10]

وفات

منابع میں ابو طلحہ کی وفات اور محل وفات کے سلسلہ میں بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض نے ان کی وفات ۳۱، ۳۲ یا ۳۵ ہجری میں مدینہ میں ذکر کی ہے۔[11] ایک دوسری روایت کے مطابق، انہوں نے ۷۰ برس کی عمر میں ۳۴ ہجری مطابق ۶۵۵ ء میں وفات پائی اور عثمان بن عفان نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔[12]

اسی طرح سے نقل ہوا ہے کہ انہوں نے سن ۵۱ یا ۵۲ ہجری میں بحری جنگ میں حصہ لینے کے لئے جاتے ہوئے کشتی میں وفات پائی اور ۶ دن کے بعد بغیر اس کے کہ ان کے جنازہ میں کوئی بھی تبدیلی ہوئی ہو انہیں ایک جزیرہ میں دفن کیا گیا۔[13]

حوالہ جات

  1. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۳، ص۵۰۴
  2. ذہبي، تاريخ الإسلام، ج‏۳، ص۴۲۵
  3. ابن سعد، الطبقات الكبرى، ج‏۳، ص۳۸۳
  4. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۳، ص۵۰۴-۵۰۵
  5. واقدی، المغاری، ج۱، ص۲۴۳؛ احمد بن حنبل، مسند، ج۳، ص۲۰۳
  6. ابن كثير، البدايہ و النهايہ، ج‏۶، ص۱۰۵
  7. ابن عساکر، تاریخ مدینـہ دمشق، ج۶، ص۶۰۸؛ ابن قیسرانی، ج۱،ص۱۴۲؛ نیز نک: احمد بن حنبل، مسند، ج۴، ص۲۸ـ ۳۰
  8. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۳، ص۵۰۶؛ ابن عساکر، تاریخ مدینـہ دمشق، ج۴، ص۶۲۴
  9. طبری، تاریخ، ج۳،ص۲۱۳؛ طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ص۱۴۴
  10. ذہبي، تاريخ الإسلام، ج‏۳، ص۳۰۴
  11. نک : ابن عبد البر، الاستیعاب فی معرفـه الاصحاب، ج۲، ص۵۵۴؛ طبری تاریخ، ج۴، ص۳۸۰؛ خلیفـہ بن خیاط، الطبقات، ج۱، ص۲۰۱؛ ابن عماد، شذرات الذہب، ج۱، ص۴۰
  12. ابن حبّان، مشاہیر علماء الامصار، ۱۵
  13. بخاری، التاریخ الصغیر، ج۱، ص۸۷؛ فسوی، المعرفـه و التاریخ، ج۳، ص۳۱۹؛ ابن عبد البر، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج۲، ص۵۵۴؛ نیز: ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۳، ص۵۰۷

مآخذ

  • ابن اثیر، الکامل
  • ابن حبّان، محمد، مشاہیر علماء الامصار، بہ کوشش م. فلایش ہامر، قاہرہ، ۱۳۷۹ ق/۱۹۵۹ء
  • ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، دارصادر، بی تا و دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۸ق
  • ابن عبد البر، یوسف بن عبداللہ، الاستیعاب فی معرفـہ الاصحاب، بہ کوشش علی محمد بجاوی، قاہرہ، مکتبـہ نہضـہ مصر
  • ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینـہ دمشق، بہ کوشش محمد بن رزی بن طرہونی، عمان، دار البشیر
  • ابن عماد، عبد الحی بن احمد، شذرات الذہب، قاہرہ، ۱۳۵۰ق
  • ابن قسیرانی شیبانی، محمد بن طاہر، الجمع بین کتابی ابی نصر الکلاباذی و ابی بکر الاصبہانی فی رجال بخاری و مسلم، بیروت، ۱۴۰۵ق
  • ابن كثير، البداية و النہايہ، بیروت، دار الفكر، بى تا
  • احمد بن حنبل، مسند، بیروت، دارصادر
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، التاریخ الصغیر، بہ کوشش محمود ابراہیم زاید، بیروت، ۱۴۰۶ ق/۱۹۸۶ء
  • فسوی، یعقوب بن سفیان، المعرفـہ و التاریخ، بہ کوشش اکرم ضیاء عمری، بغداد، ۱۴۹۴ ق/۱۹۷۴ء
  • خلیفـہ ابن خیاط، الطبقات، بہ کوشش سہیل زکار، دمشق، ۱۹۶۶ء
  • ذہبی، تاريخ الإسلام و وفيات المشاہير و الأعلام‏، دوم، بیروت، دار الكتاب العربى‏، ۱۴۰۹ق
  • طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری باعلام الہدی، بہ کوشش علی اکبر غفاری، بیروت، ۱۳۹۹ ق/۱۹۷۹ء
  • طبری، تاریخ
  • واقدی، محمد بن عمر، المغاری، بہ کوشش مارسدن جونز، لندن، ۱۹۶۶ء