عمرو بن عاص (63 ھ/664 ء) رسول خدا کے سخت ترین دشمنوں میں سے تھا جس نے فتح مکہ سے کچھ عرصہ پہلے اسلام قبول کیا۔ سیرت نگاروں نے اسے صحابہ کی فہرست میں شمار کیا ہے۔ امام علی ؑ سے دشمنی اور جنگوں میں حضرت علی سے فریب کاریوں کی وجہ سے شیعوں کے نزدیک منفور شخص ہے۔ کہتے ہیں کہ معاویہ بن ابی سفیان کی طرف سے حضرت علی کے خلاف عثمان کی قمیص سمیت بہت سے حیلوں میں شامل رہا ہے۔ جنگ صفین میں معاویہ کے لشکر کے سرداروں میں سے تھا نیز اس جنگ میں نیزوں پر قرآن بلند کرنے کی سازش کی نسبت اسی کی طرف دی جاتی ہے۔ جنگ نہروان کے حکمیت کے معاملے میں معاویہ کا نمائندہ تھا۔
کوائف | |
---|---|
مکمل نام | عمرو بن العاص بن وائل بن ہاشم... قرشی سہمی |
کنیت | ابوعبدالله |
محل زندگی | مکہ، مدینہ، شام، مصر |
وفات | عید فطر سنہ 43 ہجری |
مدفن | مصر (قبرستان مقطعم) |
دینی معلومات | |
اسلام لانا | سنہ 8 ہجری فتح مکہ سے کچھ پہلے |
جنگوں میں شرکت | ذات السلاسل |
وجہ شہرت | صحابہ، مشاور معاویہ بن ابی سفیان اور دشمن اہل بیت ؑ |
نَسَب
مؤلفین نے اس کا نسب یوں ذکر کیا ہے: عمرو بن العاص بن وائل بن ہاشم بن سعید بن سہم بن عمرو بن ہصیص بن کعب بن لؤی قرشی سہمی اور کنیت ابو عبدالله تھی۔[1] عرب کی سیرت نگاری کے منابع میں عرب کا چالاک ترین شخص کہا گیا ہے۔[2] فارسی کے بہت سے مآخذ اسے عمرو عاص کہتے ہیں۔
زمانۂ پیغمبر
فتح مکہ اور اسلام کی مکمل کامیابی سے کچھ مدت ہی پہلے عمرو سال ۸ قمری میں مسلمان ہوا۔[3] بعض محققین نے اس کے اسلام قبول کرنے کے سبب میں تصریح کی ہے: فتح مکہ اور سعودی عرب پر اسلام کی مکمل کامیابی کے نزدیکی سالوں میں رسول اکرم ؐ کی تبلیغ کی کامیابی کے پیش نظر خالد بن ولید، عثمان بن طلحہ اور عمرو بن عاص جیسے اشخاص کا اسلام قبول کرنا کوئی سخت نہ تھا۔[4]منابع میں نقل ہونے والی خود اس کی زبانی داستان کے بقول اس نے جب سمجھ لیا کہ اسلام مکہ اور سعودی عرب پر غلبہ حاصل کر لے گا تو اس نے حبشہ میں پناہ حاصل کی۔ حبشہ کے حاکم نجاشی نے اس کے پاس نبی اکرمؐ کے اپنی تبلیغ کے سچے ہونے کی بات کی اور اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تو اس نے اسے قبول کیا پس وہ وہاں سے مدینے میں رسول اللہ کے پاس پہنچا اور اس نے اسلام قبول کیا۔[5]
پیغمبر نے اس کے اسلام قبول کرنے کی کچھ مدت بعد ہی اسے اس کے باپ کی قوم کے پاس اسلام کی تبلیغ کیلئے بھیجا۔ عمرو نے ذات السلاسل سمیت چند فوجی وقائع میں شرکت کی۔ پھر کچھ مدت کیلئے تبلیغ دین کے فرائض کی خاطر عمان چلا گی۔ کچھ مدت بعد وہاں کا والی بنا اور رسول خدا کی وفات تک وہیں رہا۔[6]
پیمبر کے بعد
خلافت ابوبکر کے زمانے میں فلسطین کے کچھ علاقوں کی فتح میں عمرو کا بنیادی کردار رہا۔[7] لیکن مغربی تاریخ کے منابع میں اسے دور عمر بن خطاب میں فتح مصر کی بنا پر مشہور ہے۔[8] عمر بن خطاب نے فلسطین اور نواحی علاقوں کی حکومت کیلئے مقرر کیا۔ پھر اسے لکھا کہ مصر چلا جائے۔ عمرو بن عاص نے 3500 مسلمان سپاہیوں کی معیت میں مصر فتح کر لیا۔ پس حضرت عمر نے اسے وہاں کا حاکم مقرر کیا اور وہ عمر کی موت تک وہاں کا حاکم رہا۔[9]
حضرت عمر کی وفات کے چند سال بعد حضرت عثمان نے اسے حکومت سے معزول کر دیا اور اسکی جگہ عبد الله بن سعد بن ابی سرح کو مقرر کیا۔ عمرو عاص مدینہ واپس لوٹ آیا اور عثمان پر لوگوں کی شورش کے موقع پر شام چلا گیا اور فلسطین میں اپنی زمین بنام سبع میں اقامت اختیار کی۔[10] اسکے بقول اس فتنے اور شورش سے بچنے کی خاطر اس مزرعہ میں سکونت اختیار کی۔[11]
حضرت عثمان کے قتل کے بعد عمرو عاص معاویہ کے پاس چلا گیا اور اسکے ہمراہ خون عثمان کی خوانخواہی میں شریک رہا اور اس نے اسکی معیت میں جنگ صفین میں شرکت کی۔ معاویہ نے اسے مصر کی باگ ڈور دی۔ مصر کی حکومت کے دوران عید فطر سنہ 43 ہجری کے روز فوت ہوا اور پہاڑ کے دامن میں مقطم نام کے مصری لوگوں کے قبرستان میں دفن ہوا۔[12]
حضرت امام علی کے خلاف کردار
تاریخ اسلام کے منابع کے مطابق معاویہ اور حضرت علی کے درمیان نزاع میں عمر بن عاص معاویہ کا مشاور رہا اور بہت سے حیلہ سازیوں اور جنگی نقشے تیار کرتا رہا۔ ان میں سے ایک یہ ہے: جب حضرت عثمان قتل ہوا اور اکثر مسلمانوں کے اصرار پر حضرت علی نے خلافت قبول کر لی۔ پس امام نے معاویہ کی طرف بیعت کرنے کا پیغام بھجوایا کہ جس طرح دوسروں نے انکی بیعت کی ہے وہ بھی آپ کی بیعت کرے۔ چونکہ معاویہ اپنی خلافت کے در پے تھا لہذا اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور عمرو سے مشورہ کیا۔ عمرو نے اسے کہا: تم نہ تو علی کی مانند اسلام میں سبقت رکھتے ہو اور نہ اسکے مقابلے کی توان رکھتے ہو۔ اسلئے تمہیں چاہئے کہ پہلے علی کو شامیوں کے سامنے حضرت عثمان کا قاتل بنا کر پیش کرو اور پھر خون عثمان کے قصاص کے لئے اٹھ کھڑے ہو۔ اس طرح تمہاری خلافت کا راستہ ہموار ہوگا۔ معاویہ نے اسے قبول کیا اور عمرو کے تیار کردہ نقشے کے مطابق شام میں تبلیغ شروع کی کہ علی عثمان کا قاتل ہے اور کرتۂ عثمان کے ذرہعے علی سے جنگ کی راہیں اور اپنی خلافت کیلئے راستہ ہموار کیا۔ عمرو نے معاویہ سے اس معاونت کے بدلے میں مصر کا والی بنائے جانے کا عہد لیا تھا۔[13]
حضرت علی(ع) نے معاویہ بن ابی سفیان اور عمرو بن عاص کے نقشے سے آگاہ ہونے کے بعد انہیں خط لکھا اور خط میں عمرو کو متنبہ کیا کہ معاویہ سے اسکی معاونت اسکی صلاح میں نہیں ہے لیکن عمرو بن عاص نے جواب میں لکھا کہ وہ خلافت سے علیحدگی اختیار کرے اور خلیفہ کا انتخاب شورا کے حوالے کر دے۔[14]
جنگ صفین میں مشاور اور لشکر کے بڑے سرداروں گویا سوار فوج کا جرنیل تھا۔[15] بعض منابع کے مطابق عمرو جنگ صفین میں علی کے روبرو ہوا۔ آپ نے اس پر حملے کا قصد کیا تو اس نے جان بچانے کی خاطر اپنی شرمگاہ ننگی کر دی۔ علی (ع) نے اس کا یہ قبیح عمل دیکھتے ہوئے اپنا چہرہ پھیر دیا، اس طرح عمرو نے اپنی یقینی موت سے چھٹکارا حاصل کیا۔[16]
جنگ صفین میں مالک اشتر نخعی کے تحت فرمان سپاہ نے معاویہ کی فوج کو شکست دے دی اور حضرت علی کے لشکر کی کامیابی چنداں دور نہیں رہ گئی تھی تو اس وقت عمرو نے معاویہ کو تجویز دی کہ لشکر کے درمیان قرآن تقسیم کر دے اور لشکر قرآن کو نیزوں پر بلند کرے اور جنگ روکنے کا تقاضا کرے اور قرآن انکے درمیان فیصلہ کرے۔ عمرو بن عاص کا یہ حیلہ باعث بنا کہ لشکر معاویہ شکست سے رہائی حاصل کر پایا اور ماجرای حکمیت کا معاملہ پیش آیا۔[17]
عمرو بن عاص حکمیت کے واقعے میں شامیوں کی طرف سے ابوموسی اشعری کے مقابلے میں نمائندہ تھا۔ اس نے ابو موسی کو اس بات پر راضی کیا کہ نہائی فیصلہ کے طور پر علی اور معاویہ خلافت سے معزول ہوں اور معاملہ شورا کے حوالے کیا جائے۔ فیصلے کے اعلان کے دن قرار کے مطابق پہلے ابو موسی منبر پر گیا اور اس نے علی کو خلافت سے خلع کر دیا لیکن عمرو نے طے شدہ معاملے کے برخلاف معاویہ کو خلافت کیلئے معین کر دیا اس طرح ماجرای حکمیت کا معاملہ سپاہ شام کی شکست سے نجات حاصل کرنے میں تمام ہوا۔[18]
حوالہ جات
- ↑ ابن عبد البر، الاستیعاب، ج۳، ص۱۱۸۵.
- ↑ مثلا رک:ذہبی ،سیر اعلام النبلاء ذیل عمرو بن العاص3/55/15
- ↑ نک: ابن عبد البر، الاستیعاب، ج۳، ص۱۱۸۵.
- ↑ دائرة المعارف اسلام، A. J. WENSINCK، ذیل مدخل «AMR B. AS»، ج۱، ص۴۷۳.
- ↑ واقدی، الطبقات الکبری/ترجمہ،ج۷،ص:۵۰۱.
- ↑ ابن عبد البر، الاستیعاب، ج۳، ص۱۱۸۶.
- ↑ دائرة المعارف اسلام، A. J. WENSINCK، ذیل مدخل «AMR B. AS»، ج۱، ص۴۷۳.
- ↑ دائرة المعارف اسلام، A. J. WENSINCK، ذیل مدخل «AMR B. AS»، ج۱، ص۴۷۳.
- ↑ الطبقات الکبری/ترجمہ،ج۷،ص:۵۰۱.
- ↑ الطبقات الکبری/ترجمہ،ج۷،ص:۵۰۱.
- ↑ اخبارالطوال/ترجمہ،ص:۱۹۵.
- ↑ الطبقات الکبری/ترجمہ،ج۷،ص:۵۰۲.
- ↑ نک: پیکار صفین/ترجمہ،ص:۶۰؛ دینوری، اخبارالطوال/ترجمہ،ص:۱۹۴-۱۹۸.
- ↑ اخبارالطوال/ترجمہ،ص:۲۰۴
- ↑ اخبارالطوال/ترجمہ،ص:۲۱۳.
- ↑ آفرینش و تاریخ/ترجمہ،ج۲،ص:۸۸۱؛ اخبارالطوال/ترجمہ،ص:۲۱۹.
- ↑ آفرینش و تاریخ/ترجمہ،ج۲،ص:۸۸۱.
- ↑ نک: اخبار الطوال، ترجمہ، ص۲۴۰-۲۴۶.
مآخذ
- دینوری، ابن قتیبہ(۲۷۶)، اخبار الطوال، ترجمہ محمود مہدوی دامغانی، تہران، نشر نی، چ چہارم، ۱۳۷۱ش.
- ابن عبدالبر(م. ۴۶۳)، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت،دار الجیل، ط الأولی، ۱۴۱۲/۱۹۹۲.
- ابن مزاحم، نصر (م ۲۱۲)،وقعۃ صفین، ترجمہ پرویز اتابکی، تہران، انتشارات و آموزش انقلاب اسلامی، چ دوم، ۱۳۷۰ش.
- مطہر بن طاہر مقدسی، آفرینش و تاریخ، ترجمہ محمد رضا شفیعی کدکنی، تہران، آگہ، چ اول، ۱۳۷۴
- ابن سعد، الطبقات الکبری، ترجمہ محمود مہدوی دامغانی، تہران، انتشارات فرہنگ و اندیشہ، ۱۳۷۴ش.
- Gibb, H.A.R. ,E.I. ,second ed. Leiden: E. J. Brill, 1986.