یوم ترویہ
یوم ترویہ اسلامی تقویم میں 8 ذوالحجۃ کا دن ہے۔ جزیرۂ عرب خاص طور پر مِنیٰ میں پانی کی شدید قلت ہے۔ چنانچہ مِنا اور عرفات میں وقوف کرنے والے حجاج کو مکہ سے پانی ساتھ لے کر جانا پڑتا ہے اس کیفیت کو "ترویہ" کہا جاتا ہے۔
لغوی معنی
عطش کا مخالف یعنی سیراب کرنا ہے۔ اسے رویتُ من الماء ریّا سے لیا گیا۔پھر اس مناسبت سے دوسرے معانی میں استعمال ہوا ہے ۔[1]
وجۂ تسمیہ
- چونکہ قدیم زمانے میں عرفات میں پانی نایاب تھا اسی لئے حجاج منٰی کے خاص اعمال انجام دینے کے ساتھ ساتھ اس روز عرفات اور اس کے بعد مشعر الحرام میں ٹہرنے کے لئے پانی فراہم کرتے تھے چنانچہ اس کو یوم الترویہ کا نام دیا گیا[2]۔ یوم الترویہ یعنی آب رسانی کا دن۔اس روز حجاج حج تمتع کی نیت سے احرام باندھ کر مکہ سے منٰی کی طرف عزیمت کرتے ہیں، رات وہیں بسر کرتے ہیں اور صبح عرفات پہنچتے ہیں۔ یہ دن یوم عرفہ کے اعمال کے لئے ابتدائیہ ہے اور یہیں عرفہ کے اعمال کی تیاری ہوتی ہے۔
- ایک اور وجہ کے مطابق نے اس رات اپنے بیٹے کے ذبح کا خواب دیکھا صبح بیدار ہونے کے بعد تردید کا شکار ہوئے کہ یہ خواب تھا یا اللہ کی جانب حکم الہی ہے اس مناسبت سے اس روز کو یوم الترویہ کہتے ہیں اور جب یہی خواب دوبارہ رات کو دیکھا تو انہیں یقین ہو گیا کہ یہ حکم الہی ہے اس روز کو روز عرفہ کا نام دیا گیا۔[3]۔
- اس روز حضرت ابراہیم کے حج کی نیت سے اعمال انجام دینے کے بعد جبرائیل نے ابراہیم کو عرفات میں پانی نہ ہونے کی وجہ سے اس روز پانی اکٹھا کرنے کا حکم دیا تھا اس مناسبت یوم ترویہ کہتے ہیں ۔
تاریخچہ اور شرعی حیثیت
- یوم الترویہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل علیہما السلام کے حج کی یادگار ہے کیونکہ جبرائیل(ع) نے انہیں بتایا کہ عرفات، مشعر اور منٰی کے لئے پانی بھی ساتھ لے جائیں۔ نیز اسی دن حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا قافلہ مکہ سے نکل کر منٰی پہنچا تھا اور وہیں سے عرفات روانہ ہوا تھا۔
- ایک روایت کے مطابق "حضرت ابراہیم(ع) کو تعمیر کعبہ کا حکم ملا تو انہیں کعبہ کا اصل مقام معلوم نہ تھا چنانچہ جبرائیل(ع) نے اللہ کے حکم سے وہ مقام انہیں بتا دیا اور خداوند متعال نے کعبہ کے ستون بہشت سے نازل کئے اور حجر الاسود بھی نازل ہوا۔ ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کے لئے دو دروازے قرار دیئے ایک مشرق کی جانب اور دوسرا مغرب کی جانب۔ جس کو مستجار کہا جاتا ہے۔ جب تعمیر کعبہ کا کام مکمل ہوا تو حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل علیہما السلام نے حج کی نیت سے طواف کیا اور آٹھ ذوالحجۃ الحرام کو جبرائیل نازل ہوئے اور ان سے کہا کہ اٹھیں اور پانی اکٹھا کریں کیونکہ سرزمین عرفات میں پانی نہيں ہے۔ اسی وجہ سے اس دن کو یوم الترویہ (پانی جمع کرنے) کا دن کہا گیا۔
ایک آیت اور اس کی تشریح
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَـَذَا بَلَداً آمِناً وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ قَالَ وَمَن كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلاً ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (ترجمہ: "اور وہ وقت جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا اے میرے پرور دگار اس کو امن والا شہر بنا اور اس میں رہنے والوں کو پھلوں سے روزی عطا کر، انہیں کہ جو ان میں سے اللہ اور آخرت پر بھی ایمان لائیں۔ ارشاد ہوا کہ اور جو کفر اختیار کرے گا میں اسے بھی کچھ دن تو مزے اٹھالینے دوں گا۔ پھر اسے بہ جبردوزخ کے عذاب کی طرف لے جاؤں گا اور وہ کیا برا ٹھکانا ہے"۔)[؟–126][4]
خدا اور اس کے خلیل کے درمیان یہ مکالمہ تعمیر کعبہ کے بعد انجام پایا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ثمرات اور پھلوں سے روزی پانے اور بہرہ مند ہونے سے مراد ثمراتِ قلوب یعنی لوگوں کی محبت اور مکہ کی جانب ان کا مائل ہونا ہے تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں اور سفر اختیار کریں۔[5]
عبداللہ بن عباس سے منقول ہے کہ حضرت ابراہیم(ع) نے خواب دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے اسمعیل(ع) کو ذبح کر رہے ہیں چنانچہ فأصبح بروی یومه أجمع۔ وہ صبح کو اٹھے اور پورا دن سوچتے رہے کہ کیا یہ خواب اللہ کا حکم ہے یا نہیں؟؛ اسی وجہ سے اس دن کو "یوم ترویہ" کہا گیا اور جب دوسری رات بھی حضرت ابراہیم(ع) نے وہی خواب دیکھا فلّما أصبح عرف أنّه من الله اور صبح ہوئی تو سمجھ گئے کہ یہ اللہ کا حکم ہے چنانچہ اس دن کو "یوم عرفہ" کا نام دیا گیا۔[6]
یوم الترویہ کی منزلت
یوم الترویہ زمانے کے قابل قدر ترین ایام میں شمار کیا گیا ہے جس کے اپنے آداب و اعمال ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: خداوند تبارک و تعالی نے ہر چیز میں سے چار چیزیں منتخب کردیں:
- فرشتوں میں سے جبرائیل، میکائیل، اسرافیل اور عزرائیل (علیہم السلام)منتخب کئے؛
- تلوار سے جہاد کرنے کے لئے ابراہیم، داؤد اور موسی (علیہم السلام) کو اور مجھے منتخب کیا؛
- آدم، حضرت ابراہیم نوح اور عمران کے خاندانوں کو چن لیا؛
- اور شہروں میں سے مدینہ،کوفہ، مکہ،شام اور بیت المقدس کو چن لیا[7]؛
- خواتین میں سے مریم بنت عمران، آسیہ بنت مزاحم، خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمد (سلام اللہ علیہن) کو منتخب کیا؛
- اعمال حج میں سے قربانی دینا، بلند آواز کے ساتھ لبیک کہنا، احرام باندھنا اور طواف بجا لانا اعمال کو منتخب کیا؛
- مہینوں میں سے محرم، رجب، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ اور کو حرام قرار دیا؛
- ایام میں سے روز جمعہ، یوم الترویہ (آٹھ ذوالحجہ)، روز عرفہ (نو ذوالحجہ) اور عید الضحی (دس ذوالحجہ) کو منتخب کیا: ۔[8]
شیخ صدوق نے کتاب امالی میں نقل کیا ہے کہ حج کے مستحب اعمال میں سے ایک یہ ہے کہ انسان یوم ترویہ کا زوال شمس سے لے کر رات تک کا پالے [اور اس سے متعلقہ اعمال بجا لائے] پس جو ایسا کرے گویا اس نے پورے حج تمتع کو پا لیا ہے۔[9]
اس روایت کے مطابق یوم ترویہ کی منزلت اس قدر ہے کہ اس کے ادراک اور اعمال کو پورے حج کا ادراک سمجھا گیا ہے کیونکہ ترویہ کا دن درحقیقت عرفہ اور عید الاضحی میں داخل ہونے کی تیاری کا دن ہے۔
یہ دن ذوالحجہ کے اہم دنوں میں سے ایک ہے اور امام جعفر صادق(ع) فرماتے ہیں: صوم يوم التروية كفارة ستين سنة۔ ترویہ کے دن کا روزہ 60 سال کا کفارہ ہے۔[10]
یوم ترویہ کے اعمال
محمد بن عمیر نے ایک واسطے سے امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ یوم ترویہ کا روزہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے اور عرفہ کا روزہ دو سالوں کے گناہوں کا کفارہ ہے۔[11]
محدث قمی مفاتیح الجنان میں اس دن کے روز کو ساٹھ برسوں کے کفارے کے برابر قرار دیا اور نقل کیا ہے کہ شیخ شہید نے اس دن کے غسل کو بھی مستحب قرار دیا ہے۔
اس دن کے واقعات
اس دن امام حسین (علیہ السلام) نے اہل کوفہ کو خط لکھا جو کچھ یوں تھا:
- بسم الله الرحمن الرحیم
- حسین بن علی کی طرف سے مؤمن اور مسلمان بھائیوں کے نام
سلام علیکم! میں منگل آٹھ ذوالحجہ الحرام روز ترویہ مکہ معظمہ سے تمہاری طرف روانہ ہوا ہوں ؛ جب میرا نمائندہ تمہارے پاس پہنچ جائے تو اپنے کام میں عجلت اور کوشش کرو کیونکہ میں ان ہی دنوں تمہارے پاس
- پہنچ جاؤں گا۔والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ"۔
شبہہ اور اس کا جواب
شبہہ مشہور ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے حج کو ناقص چھوڑا اور عراق کی طرف روانہ ہوئے جو ایک غلط بات ہے اور شیعہ فقہاء نے بھی اس کو غلط اور نادرست قرار دیا ہے کیونکہ امام علیہ السلام 8 ذوالحجہ (یوم الترویہ) کو مکہ سے عراق روانہ ہوئے ہیں جبکہ حج کا اغاز مکہ میں احرام باندھ کر عرفات میں وقوف سے ہوتا ہے۔
چنانچہ حقیقت یہ ہے کہ امام علیہ السلام اصولا حج کے اعمال میں داخل نہیں ہوئے تھے اور حج کو ناقص چھوڑنے کی بات بےجا ہے۔ امام حسین(ع) نے مکہ میں داخل ہونے کے بعد عمرہ مفردہ بجا لایا تھا۔ گوکہ شیخ مفید سمیت بعض علماء نے لکھا ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے حج کو عمرہ میں تبدیل کیا اور طواف اور سعی کے بعد احرام سے نکل آئے کیونکہ آپ(ع) حج کی تکمیل سے عاجز تھے؛ تاہم یہ رائے بعید از قیاس ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: "قَدِ اعْتَمَرَ الْحُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ (عليه السلام) فِی ذِی الْحِجَّةِ ثُمَّ رَاحَ یَوْمَ التَّرْوِیَةِ إِلَى الْعِرَاقِ وَالنَّاسُ یَرُوحُونَ إِلَى مِنًى وَلَا بَأْسَ بِالْعُمْرَةِ فِی ذِی الْحِجَّةِ لِمَنْ لَا یُرِیدُ الْحَجَّ۔(امام حسین(ع) ذوالحجہ میں عمرہ بجا لائے اور اس کے بعد یوم الترویہ (8 ذوالحجہ) کو عراق کی طرف عزیمت فرمائی جبکہ لوگ منٰی جا رہے تھے اور جو (ذوالحجہ میں) حج بجا نہیں لانا چاہتا وہ عمرہ بجا لا سکتا ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے"۔[12]
مکہ سے خروج کی دو اہم دلیلیں ہوسکتی ہیں: ایک یہ کہ آپ(ع) کو حجاج کے بھیس میں مکہ آنے والے یزیدی دہشت گردوں کی طرف سے جانی خطرہ لاحق تھا اور دوسرا یہ کہ آپ(ع) کسی صورت میں بھی حاضر نہ تھے کہ بیت اللہ الحرام کی حرمت شکنی ہو۔
امام حسین علیہ السلام نے عبداللہ بن زبیر وغیرہ کی طرف سے مکہ میں قیام جاری رکھنے کی درخواست کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:
والله لئن اقتل خارجا منها بشبر أحب الي من أن اقتل داخلا منها بشبر! و أيم الله لو كنت في جحر هامة من هذه الهوام لاستخرجوني حتي يقضوا في حاجتهم، و الله ليعتدن علي كما اعتدت اليهود في السبت۔ خدا کی قسم! اگر مجھے اس (حرم) سے ایک بالشت باہر قتل کیا جائے تو یہ میرے لئے بہت پسندیدہ ہے کہ ایک بالشت اس کے اندر مارا جاؤں؛ خدا کی قسم! میں ان حشرات میں سے کسی حشرے کے سوراخ میں بھی چھپ جاؤں وہ (یزیدی) مجھے نکال لائیں گے تا کہ حاصل کریں وہ جو وہ مجھ سے چاہتے ہیں [یعنی مجھ سے بیعت لیںے کی کوشش کریں گے ورنہ پھر مجھے قتل کریں گے] اللہ کی قسم! وہ ضرور بضرور میرے حق کو اپنے تجاوز اور جارحیت کا نشانہ بنائیں گے جس طرح کہ یہود نے سینچر (= شنبے) کے دن اپنی حدود سے تجاوز کیا۔[13]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ معجم مقاييس اللغہ لابن فارس (2/ 454)المصباح المنير- العصريہ (ص: 129).
- ↑ عاملی ،مدارك الاحكام (7/ 347)
- ↑ عاملی ،مدارك الاحكام (7/ 347)
- ↑ سوره بقره، آیه 126۔
- ↑ الجزائري، النور المبین فی قصص الانبیاء و المرسلین، ص193۔
- ↑ فیض الاسلام، ترجمہ و شرح صحیفہ سجادیہ، ص322۔
- ↑ وَالتِّینِ وَالزَّیْتُونِ وَطُورِ سِينِينَ وَهذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِقسم ہے انجیر (یا مدینہ) اور زیتون (يا قسم ہے سرزمين شام اور بیت المقدس) کی ، طور سینین (یا کوفہ) کی اور امن وامان والے شہر (مکہ) کی۔سوره تین، آیت1 تا 3۔
- ↑ صدوق، الخصال (ترجمہ فارسی مدرس گیلانی)، ج1، ص178۔
- ↑ شیخ صدوق، الامالی، ص748۔
- ↑ ابن طاؤس، الإقبال بالأعمال الحسنہ، ج2، ص49۔
- ↑ مجاهدی، پاداش نیکیها و کیفر گناهان، ص204۔
- ↑ الکلینی، الکافی، ج4، ص535۔
- ↑ ابو مخنف، وقعة الطف، ص152۔
مآخذ
- قرآن کریم۔
- ابو مخنف، لوط بن یحیی الازدی الغامدی الکوفی (المتوفی 157 ه)، وقعة الطف، تحقیق محمد هادی الیوسفی الغروی، مجمع جهانی اهل بیت(ع)، قم 1427 ه ق / 1385 ه ش
- السيد بن طاؤس، رضي الدين علي بن موسی جعفر، الإقبال بالأعمال الحسنة فيما يعمل مرة في السنة، المحقق: جواد القيومى الأصفهاني، الناشر: مكتب الإعلام الإسلامي، قم، الطبعة * الجزايري، السيد نعمت الله بن عبدالله (1050 - 1112 ه)، النور المبین فی قصص الانبیاء و المرسلین، محقق: علاء الدین اعلمی، نشر حبیب قم 1420 ه ق
- فيض الاسلام، علي نقي اصفهاني، ترجمه و شرح صحيفه كامله سجاديه۔
- مجاهدی، محمدعلی، پاداش نیکیها و کیفر گناهان [ترجمه فارسی کتاب ثواب الأعمال وعقاب الأعمال شیخ محمد علی بن بابویه (شیخ صدوق) 311-381 ه] مشخصات نشر : قم: انتشارات سرور، 1388 ه
- الكليني الرازي، ثقة الاسلام أبو جعفر محمد بن يعقوب بن اسحاق (المتوفى سنة 328- 329 ه) المحقق: على اكبر الغفاري، دار الكتب الاسلامية تهران - الطبعة الثالثة 1388 ه ق
- مدرس گیلانی، مرتضی، ترجمہ فارسی کتاب "الخصال" (شیخ محمد بن علی ابن بابویہ [صدوق]، [متوفی 381 ه)، چاپ جاویدان، تهران 1362 ه ش
- شيخ الصدوق، أبو جعفر محمد بن علي بن الحسين بن موسى بن بابويه القمي، امالی شیخ صدوق، تحقيق: قسم الدراسات الاسلامية - مركز الطباعة والنشر في مؤسسة البعثة قم الطبعة: الاولى 1417 ه
- مجاهدی، محمدعلی، پاداش نیکیها و کیفر گناهان [ترجمه فارسی کتاب ثواب الأعمال وعقاب الأعمال شیخ محمد علی بن بابویه (شیخ صدوق) 311-381 ه] مشخصات نشر : قم: انتشارات سرور، 1388 ه