یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
کَفّارۂ روزہ یعنی ماہ مبارک رمضان کا روزہ، نذر کا روزہ اور کسی وقت معین میں ماہ رمضان کے قضا روزہ کو ظہر کے بعد باطل کرنے کے عوض میں جو جرمانہ مکلف کے ذمہ آتا ہے۔ جان بوجھ کر روزہ کو باطل کرنے کا کفارہ، دو مہینے روزہ رکھنا ہے جن میں سے 31 روزہ مسلسل رکھنا ہے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔
روزہ کا کفارہ اس صورت میں واجب ہوتا ہے جب روزہ دار یہ جانتا ہو کہ وہ جو کام انجام دے رہا ہے وہ روزہ کو باطل کرتا ہے یعنی ان امور کا تعلق مبطلات روزہ سے ہو۔ بعض فقہا کے فتوے کے مطابق جان بوجھ کر مبطلات روزہ میں سے اگر کسی کا مرتکب ہوجائے تو کفارہ واجب ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف بعض فقہا کا نظریہ یہ ہے کہ روزہ کو جان بوجھ کر باطل کرنا مطلق طور پر کفارے کا سبب نہیں بنتا ہے۔
فقہائے شیعہ کے نظریہ کے مطابق، اگر کوئی شخص حرام کام جیسے شراب پینے یا زنا کے ذریعہ اپنا روزہ باطل کرے تو اس پر دونوں کفارہ (دو ماہ کا روزہ اور ساٹھ فقیروں کو کھانا کھلانا) واجب ہو جاتا ہے۔ اس کے با وجود بعض فقہا ایسی صورت میں دونوں کفارے ایک ساتھ دینے کو احتیاط مستحب اور بعض دیگر نے اسے احتیاط واجب سمجھا ہے۔
تعریف و معنی
کفارہ وہ مالی یا جسمانی جرمانہ ہوتا ہے جو بعض گناہوں کے انجام دینے کے عوض مکلف کے ذمہ رکھا جاتا ہے۔[1] کفارہ زیادہ تر آخرت کی سزا کے معاف یا کم ہونے کا سبب ہوتا ہے۔[2]
فقہا کا نظریہ یہ ہے کہ کفارہ کچھ روزوں کے باطل کرنے پر دیا جاتا ہے:
- ماہ مبارک رمضان کا روزہ۔
- ماہ مبارک رمضان کا وہ قضا روزہ جو ظہر کے بعد باطل ہوتا ہے۔
- وہ روزہ جس کا نذر کیا جائے کہ مثلا فلاں خاص وقت میں روزہ رکھا جائے گا اور بعد میں اس کی مخالفت کی جائے۔[3]
روزہ کے کفارے کی اقسام
مشہور شیعہ فقہا روزے کے کفارے کو مندرجہ ذیل تین چیزوں میں سے کسی ایک کو سمجھتے ہیں:
کفارہ روزہ میں علم و جہل کا اثر
فقہا کی نظر کے مطابق، اگر ایک شخص علم و ارادہ اور شرعی دلیل کے بغیر اپنے روزہ کو توڑ دے تو قضا کے علاوہ اس پر کفارہ بھی واجب ہے۔[7] اس کے علاوہ وجوب کفارہ کے لئے شرط ہے کہ وہ شخص جانتا ہو کہ جس کام کو اس نے انجام دیا ہے وہ مبطلات روزہ میں سے ہے۔[8] اسی لئے کفارہ کا حکم جاہل قاصر کو شامل نہیں ہے۔[9] لیکن جاہل مقصر کے بارے میں اختلاف ہے اور بعض فقہا جیسے سید ابوالقاسم خوئی [9] اور سید علی سیستانی [10] کا نظریہ ہے کہ جاہل مقصر پر بھی کفارہ واجب ہوتا ہے، اس کے مقابلہ میں بعض کا خیال یہ ہے کہ جاہل مقصر بھی ایسا ہی ہے جیسے کہ اسے مبطلات کا علم ہو لہذا ضروری ہے کہ قضا کے علاوہ کفارہ بھی ادا کرے۔[8]
کون سے مبطلات کفارہ کا سبب ہیں؟
صاحب جواہر کا نظریہ ہے کہ روایات کی بنا پر مبطلات روزہ میں سے کسی کو بھی انجام دینے کی وجہ سے قضا کے ساتھ ساتھ کفارہ بھی واجب ہوتا ہے۔[11] سید ابوالقاسم خوئی کے مطابق اگر کسی بھی چیز سے روزہ باطل ہو جائے یہاں تک کہ خدا و پیغمبر پر جھوٹ ہو یا قے کرنا، یہ سب بھی کفارہ کا سبب ہوتا ہے۔[12]
دوسری طرف، کچھ فقہا کا خیال ہے کہ روزہ باطل کرنے کا لازمی مطلب یہ نہیں ہے کہ کفارہ واجب ہے۔[13] امام خمینی کے مطابق اگر ایک شخص جان بوجھ کر رات میں مُجنِب ہو جائے اور تین مرتبہ بیدار ہو اور غسل کئے بغیر پھر سو جائے یہاں تک کہ اذان صبح تک بیدار ہو جائے؛ تو اس کے اوپر صرف اس دن کی قضا واجب ہوگی اور کوئی کفارہ واجب نہیں ہوگا۔ جس نے جان بوجھ کر روزے کی حالت میں قے کیا ہے اس کا بھی یہی حکم ہے۔[14]
حلال کے ذریعے روزہ باطل کرنے کا کفارہ
- مزید معلومات کے لئے دیکھئے: کفارہ جمع
بعض فقہا کا خیال ہے کہ اگر کوئی شخص حلال مبطلات کے ذریعہ جیسے کھانے اور پانی سے روزہ باطل کرتا ہے تو اسے روزے کے علاوہ کفارہ میں سے بھی ایک ادا کرنا ہوگا۔[15] لیکن اگر حرام جیسے زنا یا شراب کے ذریعہ اپنے روزہ کو باطل کرتا ہے تو تینوں کفارے ادا کرنے ہونگے جسے کفارہ جمع کہتے ہیں۔[16] البتہ بعض مراجع کفارہ جمع کے انجام دینے کو احتیاط مستحب[17] اور بعض دوسرے مراجع احتیاط واجب سمجھتے ہیں۔[18]
روزہ کا کفارہ اور فدیہ میں فرق
کفارہ کو عرف عام کی زبان میں کبھی فدیہ کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک مُد طعام (750 گرام گیہوں یا اس کے مثل) کو روزہ کا کفارہ کہا جاتا ہے۔[19] جب کہ فدیہ روزہ کا بدل ہوتا ہے جو روزہ نہ رکھ سکنے کی صورت میں دیا جاتا ہے جیسے بیماری کی بنا پر کمزوری آ جائے یا اس کے جیسی دوسری مشکل پیش آ جائے اور اگلے ماہ مبارک رمضان تک گزشتہ روزے کی قضا بجا نہ لانے کی صورت میں کفارہ تأخیر دیا جاتا ہے۔[20]
حوالہ جات
- ↑ مشکینی، مصطلحات الفقہ، 1419ھ، ص465۔
- ↑ مشکینی، مصطلحات الفقہ، 1419ھ، ص465۔
- ↑ خوئی، منہاج الصالحین، 1410ھ، ج1، ص269۔
- ↑ امام خمینی، توضیح المسائل، 1426ھ، ص347۔
- ↑ ابن بابویہ، مجموعۃ فتاوی ابن بابویہ، قم، ص73۔
- ↑ مکارم، رسالۃ توضیح المسائل، 1429ھ، ص253۔
- ↑ امام خمینی، استفتائات، 1422ھ، ج1، ص330۔
- ↑ 8.0 8.1 روحانی، منہاج الصالحین، ج1، ص355۔
- ↑ 9.0 9.1 خوئی، منہاج الصالحین، 1410ھ، ج1، ص270۔
- ↑ سیستانی، منہاج الصالحین، 1417ھ، ج1، ص327۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج16، ص226۔
- ↑ خویی، موسوعۃ الإمام الخوئی، 1418ھ، ج21، ص305۔
- ↑ ملاحظہ کریں: طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی مع التعلیقات، 1428ھ، ج2، ص38۔
- ↑ امام خمینی، توضیح المسائل، 1426ھ، ص346۔
- ↑ بہجت، جامع المسائل، 1426ھ، ج2، ص29۔
- ↑ بہجت، جامع المسائل، 1426ھ، ج2، ص29۔
- ↑ سیستانی، توضیح المسائل، 1393ش، ص298-299۔
- ↑ امام خمینی، توضیح المسائل، 1426ھ، ص344۔
- ↑ نمونہ کے طور پر دیکھئے: خامنہای، اجوبۃ الاستفتائات، 1420ھ، ج1، ص138، س802۔
- ↑ صدر، ماوراءالفقہ، 1420ھ، ج9، ص120۔
مآخذ
- ابن بابویہ، علی بن حسین، مجموعۃ فتاوی ابن بابویہ، جامع: عبدالرحیم بروجردی، محقق: علی پناہ اشتہاردی، قم، بینا، چاپ اول، بےتا۔
- امام خمینی، سید روحاللّہ، استفتائات، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، 1422ھ۔
- امام خمینی، سید روحاللّہ، توضیح المسائل، محقق و مصحح: مسلم قلیپور گیلانی، قم، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، چاپ اول، 1426ھ۔
- بہجت، محمد تقی، جامع المسائل، قم، دفتر آیتاللہ بہجت، چاپ دوم، 1426ھ۔
- خویی، سید ابوالقاسم، موسوعۃ الإمام الخوئی، قم، مؤسسۃ إحیاء آثار الإمام الخوئی، چاپ اول، 1418ھ۔
- روحانی، سید صادھ، منہاج الصالحین، بیجا، بےنا، بےتا۔
- سیستانی، سید علی، توضیح المسائل، مشہد، دفتر حضرت آیتاللہ العظمی سیستانی، 1393ہجری شمسی۔
- سیستانی، سید علی، منہاج الصالحین، انتشارات دفتر آیۃ اللہ سیستانی، قم، چاپ پنجم، 1417ھ۔
- طباطبایی یزدی، سید محمد کاظم، العروۃ الوثقی مع التعلیقات، تعلیقات: امام خمینی، خویی، سید ابوالقاسم، گلپایگانی، سید محمدرضا، مکارم شیرازی، ناصر، قم، انتشارات مدرسہ امام علی بن ابیطالب(ع)، چاپ اول، 1428ھ۔
- مشکینی، میرزا علی، مصطلحات الفقہ، بےجا، بےنا، 1419ھ۔
- مکارم شیرازی، ناصر، رسالہ توضیح المسائل، قم، انتشارات مدرسہ امام علی بن ابیطالب(ع)، چاپ پنجاہ ودوم، 1429ھ۔
- موسوی خویی، سید ابوالقاسم، منہاج الصالحین، قم، نشر مدینۃ العلم، چاپ بیست و ہشتم، 1410ھ۔
- نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الإسلام، تصحیح عباس قوچانی، علی آخوندی، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، 1404ھ۔