اسماء الحسنی

ویکی شیعہ سے
(اسما ء الحسنی سے رجوع مکرر)

اسماء حسنی ایک قرآنی اصطلاح ہے جس کے معنی ہیں: خداوندعالم کے بہترین نام۔ یہ اصطلاح قرآن کے چار سوروں میں استعمال ہوئ ہے۔ ان میں سے ایک جگہ پر آیا ہے کہ خدا کو انہیں ناموں سے پکارو۔ علماءاسلام کے نظریہ کے مطابق خدا کے بہترین نام سے مراد، خدا کے اسماء و صفات ہیں کہ جو سب کے سب نیک اور بہترین ہیں۔

اس سلسلے میں کہا گیا ہے کہ قرآنی آیات کی بنیاد پر اسماء حسنی، خدا سے مخصوص ہیں۔ بعض روایات میں اہل بیت کو اسماء حسنی کا مصداق بتایا گیا ہے کہ جن کے وسیلہ سے خدا کا تقرب حاصل کرنا چاہیے۔

اسماء حسنی، خدا کے بہترین نام

اسماءحسنیٰ وہ اصطلاح ہے جس کو قرآن سے لیا گیا ہے کہ جس کے معنی، خدا کے بہترین نام ہیں۔ [1] یہ اصطلاح، قرآن کے چار سوروں میں استعمال ہوئ ہے: سورہ طہ آیه ۸، سورہ حشر آیه ۲۴، سوره اَعراف آیه ۱۸۰ اور سوره اِسراء آیه ۱۱۰۔ ان آیات میں آیا ہےکہ: «خدا کےبہترین نام ہیں»۔[2] سورہ اعراف میں اس جملہ کے بعد آیا ہے کہ خدا کو انہیں ناموں سے پکارو۔[3]

اسماء حسنی کے بارے میں نظریات

اسلامی مفسرین نے اسماء حسنی سے متعلق مختلف نظریات بیان کئے ہیں۔ طَبرسی نے اپنی کتاب تفسیر مجمع البیان میں بیان کیا ہے کہ خدا کے اسماء اس لحاظ سے نیک اور بہترین ہیں کہ ان کے معنی ہی نیک اور بہترین کے ہیں جیسے: جواد، رحیم، رزّاق اور کریم۔[4] شیخ طوسی نے تفسیر التبیان، میں کہا ہے کہ خدا کے اسماء سے مراد اس کے صفات ہیں کہ جو سب نیک اور بہترین ہیں۔[5] تفسیر نمونہ کے مولفین نے بھی اسی نظریہ کو انتخاب کیا ہے۔[6]

علامہ طباطبایی کے نظریہ کے مطابق اسماء حسنی سے مراد خدا کے ناموں میں سے وہ نام ہیں کہ جو وصفی معنی رکھتے ہیں یعنی اس کی بعض خصوصیات پر دلالت کرتے ہوں؛ جیسے: جواد، عادل اور رحیم؛ نہ کہ وہ نام کہ جو صرف اس کی ذات پر دلالت کرتے ہیں (اگر فرض کیا جائے کہ اس کے ایسے نام ہیں)؛ مثلا: زید و عمرو وغیرہ جیسے نام کہ جو اس شخص میں پائی جانے والی کسی بھی خصوصیت کو بیان نہیں کرتے صرف اس کی ذات پر دلالت کرتے ہیں۔[7]

نیک اور بہترین نام، خدا سے مخصوص ہیں

بعض شیعہ اور سنی مفسرین کا کہنا ہے کہ آیہ کریمہ: «لِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنی»[؟؟][8]اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نیک اور بہترین نام خداوندعالم سے مخصوص ہیں؛ کیونکہ جملہ کے شروع میں لفظ «لله» آیا ہے اور عربی زبان کے قواعد کے مطابق، مفھوم کے حصر اور محدود ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ اس کے علاوہ آیت میں، «اَسماء» کا لفظ ، «الف» اور«لام» کے ساتھ آیا ہے کہ جو اسماء کی عمومیت کو بیان کر رہا ہے۔[9] علامه طباطبایی کی نظر میں آیت کے معنی یہ ہیں کہ ہر بہترین اور نیک نام کہ جو عالم وجود میں ہو وہ خدا سے مخصوص ہے اور کوئی بھی اس میں خدا کا شریک نہیں ہے۔ البتہ یہ نظریہ اس نظریہ سے منافات نہین رکھتا ہے کہ خدا نے اپنے بعض صفات جیسے: علم و رحمت کو غیر کی طرف نسبت دی ہے؛ کیونکہ مقصد یہ ہے کہ ان ناموں کی حقیقت، خدا سے مخصوص ہے۔[10]

اہل بیت، اسماء حسنیٰ کےمصداق

بعض احادیث میں اہل بیت کو اسماء حسنی کا مصداق قرار دیا گیا ہے۔ نمونہ کے طور پر دیکھیں: مرحوم کلینی اس آیت: «خدا کے بہترین نام ہیں انہیں ناموں سے اسے پکارو»، کے ذیل میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: خدا کی قسم، ہم(اہل بیت رسول ص) اسماء حسنی ہیں کہ خداوندعالم ہماری معرفت کے بغیر، بندے کے کسی عمل کو قبول نہیں کرتا۔»[11] عیاشی (متوفی ۳۲۰ق) بھی کہ جو شیعہ مفسرین قرآن میں سےہیں اسی آیت کے ذیل میں، امام رضا علیہ السلام کی روایت نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: پریشانی کے وقت ہم سے مدد مانگو اور یہ وہی خدا کا فرمان ہے: وَ لِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى‏ فَادْعُوهُ بِها[؟؟]۔»[12] بعض مفسرین اس روایت سے استدلال کرتے ہوئے،قرآن کے سوره اَعراف کی آیت نمبر۱۸۰ کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ «خدا کو اس کے ناموں سے پکارو» سے مراد، اہل بیت سے توسل کرنا ہے۔[13]

حوالہ جات

  1. مکارم شیرازی، پیام قرآن، ۱۳۶۹ش، ج۴، ص۴۰۔
  2. فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۱۵، ص۴۱۲۔
  3. اعراف، آیه ۱۸۰۔
  4. طبرسی، مجمع‌البیان، ۱۳۷۲ش، ج۴، ص۷۷۳۔
  5. شیخ طوسی، التبیان، چاپ بیروت، ج۵، ص۳۹-۴۰۔
  6. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۴ش، ج۷، ص۲۳۔
  7. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۸، ص۳۴۲-۳۴۳۔
  8. سوره اعراف، آیه۱۸۰۔
  9. دیکھئے فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۱۵، ص۴۱۴؛ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۸، ص۳۴۳؛ زحیلی، التفسیر المنیر، ۱۴۱۸ق، ج۹، ص۱۷۵۔
  10. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۸، ص۴۴۹۔
  11. کلینی، کافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۱۴۳-۱۴۴۔
  12. عیاشی، کتاب‌التفسیر، ۱۳۸۰ق، ج۲، ص۴۲۔
  13. دیکھئے دهکردی اصفهانی، لمعات در شرح دعای سمات، ۱۳۸۵ش، ص۲۸-۳۵۔

مآخذ

  • دہکردی اصفهانی، سید ابوالقاسم، و مجید جلالی دہکردی، لمعات در شرح دعای سمات، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۵ش۔
  • زحیلی، وهبه، التفسیر المنیر فی العقیدة و الشریعة و المنہج، دمشق/بیروت، ‌دار الفکر/دار الفکر المعاصر، ۱۴۱۸ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، تحقیق احمد قصیر عاملی، بیروت، دار احیاء التراث العربی،
  • عیاشی، محمد بن مسعود، کتاب‌التفسیر، تحقیق سیدہاشم رسولی محلاتی، كتاب التفسير، تهران، چاپخانه علمیه، ۱۳۸۰ھ۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، ۱۴۱۷ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع‌ البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصرخسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲ش۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت، ‌دار إحیاء التراث العربی، ۱۴۲۰ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دارالکتب الاسلامیه، ۱۴۰۷ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، پیام قرآن، قم، مدرسه امیرالمؤمنین، ۱۳۶۹ش۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، تهران، ‌دار الکتب الاسلامیه، ۱۳۷۴ش۔