مرتد فطری

ویکی شیعہ سے
(ارتداد فطری سے رجوع مکرر)

مُرْتَد فِطْری اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کے ماں باپ یا ان میں سے ایک مسلمان ہو اور خود بالغ ہونے کے بعد دین اسلام سے خارج ہو جائے۔ مرتد فطری اگر مرد ہو تو اس کی سزا قتل ہے، لیکن اگر عورت ہو تو قید کی جائے گی یہاں تک کہ یا توبہ کرے یا مر جائے۔

اکثر شیعہ فقہاء کے مطابق مرد اگر مرتد فطری ہو جائے تو اس کی توبہ قبول نہیں ہو گی لیکن چودہویں صدی ہجری کے شیعہ مرجع تقلید آیت‌اللہ خویی اس بات کے معتقد ہیں کہ مرتد فطری کا توبہ اس کے قتل، فسخ نکاح اور ورثہ میں اموال کی تقسیم کے حکم کے خاتمے کا سبب نہیں بنتا لیکن اس کے مسلمان ہونے نیز گناہوں کی بخشش کا سبب بنتا ہے۔

تعریف

مرتد فطری اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کے ماں باپ یا ان میں سے ایک مسلمان ہو اور وہ خود بالغ ہونے کے بعد اسلام سے خارج خارج ہو جائے۔[1] مشہور کے مطابق والدین کا مسلمان ہونے کا معیار نطفہ ٹہرنے کا وقت ہے۔[2] لیکن صاحب جواہر نے "رسائل الجزائری" سے عجیب نظریے کے عنوان سے نقل کیا ہے کہ والدین کے مسلمان ہونے کے معیار کو اس کی پیدائش کا وقت قرار دیا ہے۔[3]

مرتد فطری کے مقابلے میں مرتد ملی ہے جس مراد مراد ایسا شخص ہے جس کا نطفہ ٹہرنے کے دوران والدین یا ان میں سے کوئی ایک بھی مسلمان نہ ہو لیکن خود بالغ ہونے کے بعد اسلام قبول کرے پھر دوبارہ کافر ہو جائے۔[4]

سزائیں

شیعہ مشہور فقہاء کے مطابق مرتد فطری اگر مرد ہو تو اس کی سزا قتل ہے۔[5] اسی طرح اس کے تمام اموال اس کے ورثہ میں تقسیم ہونگے، اس کا نکاح فسخ ہو گا[6] اور اسے مسلمان سے ارث بھی نہیں ملے گا۔[7]

اگر کوئی عورت مرتد فطری ہو جائے تو شیعہ فقہاء کے مطابق اسے قتل نہیں کی جائے گی؛[8] البتہ اسے قید کی جائے گی یہانتک کہ یا توبہ کرے یا مر جائے۔[9] اسی طرح اس کا نکاح بھی فسخ ہو گا۔[10]

بعض فقہا کے مطابق اگر عورت چار بار مرتد فطری ہوجائے تو اس کے بعد اسے بھی قتل کی جائے گی۔[11] لیکن آیت‌اللہ خویی اس بات کے معتقد ہیں کہ عورت کو ارتداد کے تکرار کی صورت میں بھی قتل نہیں کی جائے گی۔[12]

توبہ

آیت‌اللہ خویی کے مطابق مشہور شیعہ فقہا اس بات کے معتقد ہیں کہ مرتد فطری اگر مرد ہو تو اس کی توبہ قبول نہیں ہو گی۔[13] لیکن چوتھی صدی ہجری کے شیعہ فقیہ ابن جنید اسکافی کہتے ہیں کہ اگر مرتد فطری توبہ کرے تو اس کے قتل کا حکم اٹھایا جائے گا، اس کے اموال دوبارہ اسے واپس کئے جائیں گے اور صیغہ پڑھے بغیر اپنی بیوی کی طرف رجوع کر سکتا ہے۔[14] لیکن آیت‌اللہ خویی کے مطابق مرتد فطری‌ اگر توبہ کرے تو مسلمان کا حکم اس پر لاگو ہو گا اگرچہ اس کے قتل، نکاح کے فسخ ہونے اور اموال کی تقسیم کا حکم اٹھایا نہیں جائے گا[15] لیکن توبہ اخروی عذاب، جنہم میں ہمیشہ رہنے، نجاست، مسلمان سے شادی کرنے کی ممانعت اور مسلمان سے ارث نہ لینے کا حکم ختم ہو جائے گا۔[16]

آیت‌اللہ خویی توبہ کفر پر اظہار ندامت ہے اور اظہار ندامت ارتداد کے عملی سزائوں جیسے قتل وغیرہ کو ختم نہیں کر سکتا۔[17] اسی طرح آپ معتقد ہیں کہ توبہ کے بعد گناہ کا تکوینی اثر ختم ہو جاتا ہے لیکن ہمارے پاس کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جو یہ ثابت کرے کہ توبہ سے اس کے شرعی آثار بھی ختم ہو جاتا ہے۔[18] آیت‌اللہ خویی آگے کہتے ہیں کہ اس کے قتل کے حکم اور مسلمان ہونے میں کوئی تضاد نہیں ہے؛ کیونکہ اس طرح کے بعض دوسرے احکام بھی ہیں جیسے لواط جس میں مسلمان کو قتل کرنے کا حکم دیا جاتا ہے اور توبہ کی صورت میں بھی اس کا یہ حکم باقی رہے گا۔[19]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. نجفی، جواہرالکلام، ۱۳۶۲ق، ج۴۱، ص۶۰۲۔
  2. شہید ثانی، مسالک الافہام، ۱۴۱۳ق، ج۱۵، ص۲۳؛ خویی، التنقیح، الطہارہ۳، ۱۴۱۳ق، ص۲۲۴۔
  3. نجفی، جواہرالکلام، ۱۳۶۲ق، ج۴۱، ص۶۰۵۔
  4. شہید ثانی، الروضۃ البہیہ، ۱۴۱۰ق، ج۸، ص۳۰؛ خویی، التنقیح، الطہارہ۳، ۱۴۱۳ق، ص۲۲۴۔
  5. نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ق، ج۴۱، ص۶۰۵۔
  6. نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ق، ج۴۱، ص۶۰۵۔
  7. موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعزیرات، ج۴، ۱۴۲۹ق، ص۱۰۲۔
  8. خویی، مبانی تکملہ المنہاج، ۱۴۲۸ق، ج۱، ص۳۹۹۔
  9. خویی، مبانی تکملہ المنہاج، ۱۴۲۸ق، ج۱، ص۳۹۹۔
  10. خویی، مبانی تکملہ المنہاج، ۱۴۲۸ق، ج۱، ص۳۹۹۔
  11. نگاہ کنید بہ: خویی، مبانی تکملہ المنہاج، ۱۴۲۸ق، ج۱، ص۴۰۱۔
  12. خویی، مبانی تکملہ المنہاج، ۱۴۲۸ق، ج۱، ص۴۰۱۔
  13. خویی، التنقیح، الطہارہ۳، ۱۴۱۳ق، ص۲۲۴۔
  14. خویی، التنقیج، الطہارہ۳، ۱۴۱۳ق، ص۲۲۴۔
  15. خویی، التنقیح، الطہارہ۳، ۱۴۱۳ق، ص۲۲۴۔
  16. خویی، التنقیح، الطہارہ۳، ۱۴۱۳ق، ص۲۲۷۔
  17. خویی، التنقیح، الطہارہ۳، ۱۴۱۳ق، ص۲۲۵۔
  18. خویی، التنقیح، الطہارہ۳، ۱۴۱۳ق، ص۲۲۶۔
  19. خویی، التنقیح، الطہارہ۳، ۱۴۱۳ق، ص۲۲۸۔

مآخذ

  • خویی، ابوالقاسم، التنقیح فی شرح العروۃ الوثقی، تقریر میرزاعلی غروی، قم، دارالہادی،‌ ۱۴۱۳ق۔
  • خویی،‌ ابوالقاسم، مبانی تکملہ المنہاج، قم، مؤسسہ احیاء آثار الامام الخویی، ۱۴۲۸ق۔
  • شہید اول، محمد بن مکی، الدروس الشریعۃ فی فقہ الامامیۃ، قم، جامعۃ المدرسین، ۱۴۰۴ق۔
  • شہید ثانی، زین‌الدین بن علی، مسالک الافہام الی تنقیح شرائع الاسلام، قم، مؤسسۃ المعارف الاسلامیہ، ۱۴۱۳ق۔
  • موسوی اردبیلی، سید عبدالکریم، فقہ الحدود و التعزیرات، قم، جامعہ المفید، ۱۴۲۹ق۔
  • نجفی، محمدحسن، جواہرالکلام، تحقیق ابراہیم سلطانی، بیروت، داراحیاء التراث العربی، ۱۳۶۲ق۔