قیام یمانی

ویکی شیعہ سے
(سید یمانی سے رجوع مکرر)

قیام یمانی یا قیام قحطانی امام زمانہ کے ظہور کی نشانیوں میں سے ایک ہے جو امام حسینؑ کی نسل سے ایک یمنی شخص کے قیام کی طرف اشارہ ہے جو امامؑ کے ظہور سے پہلے واقع ہوگا۔ بعض روایات کے مطابق یہ قیام خروج سفیانی اور سید خراسانی کے قیام کے دور میں ہوگا۔

لوگوں کو امام مہدیؑ کی طرف دعوت، سفیانی سے نبرد آزما اور روم اور قسطنطنیہ کو فتح کرنا من جملہ یمانی کے اقدامات میں شمار کیا گیا ہے اور احادیث کے مطابق اس کا قیام یمن سے شروع ہو گا۔

پہلی صدی ہجری سے ہی بعض لوگوں یمانی ہونے کا ادعا کرتے آئے ہیں؛ عبدالرحمان بن محمد بن اشعث جس نے حجاج بن یوسف ثقفی کے خلاف تحریک چلائی اور احمد بن اسماعیل بصری جو احمد الحسن کے نام سے مشہور ہیں، یمانی ہونے کے مدعی ہیں۔

یمانی کی شخصیت

یمانی وہ شخص ہے جو امام زمانہ کے ظہور سے پہلے قیام کریں گے[1] اور لوگوں کو امام مہدی کی طرف دعوت دیں گے۔[2]

یمانی کا نام شیعہ احادیث میں نہیں آیا ہے لیکن انہیں امام حسینؑ[3]یا زید بن علی کی نسل[4]سے قرار دیا گیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ بعض اہل سنت کتابوں میں ان کا نام جہجاہ، حسن یا حسین ذکر ہوا ہے۔[5]«رایات الہدی و الضّلال فی عصر الظّہور» کے مصنف کا کہنا ہے کہ اگرچہ یمانی کا شجرہ نسب روایات میں ذکر نہیں ہے لیکن قطعی دلیل سے ثابت ہوتا ہے وہ اہل بیت اور امام حسینؑ کی نسل سے ہیں۔[6]

پیغمبر اکرمؐ سے ایک روایت میں انہیں منصور کے نام سے یاد کیا ہے جو امام مہدی کی مدد کرتا ہے۔[7]اسی طرح اہل سنت مآخذ میں انہیں قحطانی[8] اور منصور یمانی[9] کے نام سے بھی ذکر کیا ہے۔ قحطانی، قحطان نامی ایک شخص سے منسوب ہے[10] جس سے یمن کے عربوں کا نسب ملتا ہے۔[11]

یمانی کا قیام؛ ظہور کی علامت

احادیث میں یمانی کے قیام کو ظہور کی علامتوں میں سے شمار کیا ہے۔ کمال الدین شیخ صدوق میں امام صادقؑ سے منقول ایک روایت میں یمانی کے قیام کو صیحہ آسمانی، خروج سفیانی، قتل نفس زکیہ اور خسف بیداء کے ساتھ اسے بھی ظہور کی یقینی علامتوں میں سے قرار دیا ہے۔[12]بعض مصنفین کے مطابق یمانی کے قیام کے بارے میں 36 احادیث شیعہ اور سنی مآخذ میں ملتی ہیں۔[13]اور ان میں سے اکثر روایات میں یمانی کا قیام، ظہور کی قطعی علامتوں سے ہونے کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں کیا ہے۔[14]اور شیعہ روایات میں سے صرف دو روایتوں میں[یادداشت 1] قطعی علامتوں سے قرار دیا گیا ہے۔[15]اسی لئے بعض مصنفین نے یمانی کے قیام کو ظہور کی علامت ہونے میں تردید کیا ہے۔[16] اور اس بات سے استناد کیا ہے کہ بعض کتابوں میں اس حدیث کے ساتھ قطعی ہونے کی قید ذکر نہیں ہوئی ہے۔[17]اور احتمال دیا جاتا ہے کہ یہ قید شاید راویوں کی طرف سے روایت میں اضافہ کی گئی ہوگی۔[18]

قیام کا زمان و مکان

احادیث کے مطابق یمانی کا قیام خروج سفیانی کے ساتھ ساتھ ہوگا۔[19]امام باقرؑ کی ایک روایت کے مطابق خروج سفیانی، یمانی کا قیام اور خراسانی کا قیام سب ایک ہی سال، ایک ہی مہینہ اور ایک ہی دن میں ہوگا۔[20] امام صادقؑ کی ایک روایت میں سفیانی کا خروج رجب کے مہینے میں قرار دیا ہے۔[21]بعض نے ان دونوں روایت کے تناظر میں یمانی کے قیام کو بھی رجب کے مہینے میں قرار دیا ہے۔[22]بعض مؤلفین نے ان دونوں واقعات کا ایک ہی دن میں ہونے کو کنایہ سمجھا ہے کیونکہ ان دونوں میں بہت زیادہ باہمی رابطہ پایا جاتا ہے اس لئے اگر ان دونوں میں معمولی فاصلہ ہو تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔[23]

اسی طرح اہل سنت کے بعض مآخذ میں حضرت عیسی کا آسمان سے اترنا اور اسی وقت دجال کا خروج کرنا[24] اور مہدیؑ کے بعد دجال کا خروج کرنا ذکر ہوا ہے۔[25] شیعہ مؤلفین کے مطابق چونکہ یہ روایات معصوم سے صادر نہیں ہوئی ہیں اس لئے ان پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے۔ [26]اور جو روایت دجال کا خروج امام مہدی کے قیام کے ذکر کیا ہے یہ روایت اور جس روایت میں یمانی کے قیام کو حضرت مہدی کے قیام کی علامت قرار دیا ہے ان دونوں میں باہمی سازگاری نہیں ہے۔[27] احادیث کے مطابق یمانی کا قیام یمن سے شروع ہوگا[28] یمانی کے قیام کے بارے میں موجود روایات میں صَنعا، عَدَن، کِندہ اور اَبین کے علاقے کی طرف اشارہ ہوا ہے۔[29]بعض کا کہنا ہے کہ صنعا کے بارے میں موجود روایات مستفیض ہیں جو شیعہ اور اہل سنت دونوں سے نقل ہوئی ہے اور قیام کے مرکز کی طرف اشارہ ہے۔[30]

یمانی کے اقدامات

احادیث میں یمانی کے قیام کی تفصیل ذکر نہیں ہوئی ہے لیکن ان کے بعض اقدامات کا ذکر موجود ہے:

  • حق کی دعوت؛ امام باقرؑ کی ایک روایت کے مطابق یمانی کا قیام برحق، اس کا علم ہدایت دینے والا اور ان کی دعوت صراط مستقیم کی طرف ہوگی اور ان کے قیام سے منسلک ہونے کی بہت تاکید ہوئی ہے۔[31]بعض مؤلفین نے حق کی دعوت کو امامت کی طرف دعوت سے تعبیر کیا ہے۔[32]ایک روایت میں ان کو منصور (یعنی حضرت مہدی کے مددگار) کے نا م سے ذکر ہوا ہے جن کی 70 ہزار لوگ حمایت کر رہے ہونگے۔[33] احادیث کے مطابق جب یمانی قیام کرے گا تو اس وقت اسلحہ بیچنا حرام ہوگا۔[34]
  • سفیانی سے جنگ؛ بعض روایات میں یمانی اور سفیانی کی لڑائی کا ذکر ہوا ہے مثال کے طور پر کسی روایت میں آیا ہے کہ جو شخص سفیانی کی آنکھ نکالتا ہے وہ صنعا سے قیام کرے گا۔[35] یا کسی اور روایت میں سفیانی سے لڑنے والا پہلا شخص قحطانی ذکر ہوا ہے۔[36]یمانی اور سفیانی کی جنگ کے بارے میں موجود روایات میں اختلاف پایا جاتا ہے؛ بعض میں یمانی کی کامیابی [37] اور بعض دوسری روایات میں یمانی کی شکست[38] کی خبر دی گئی ہے۔ بعض مؤلفین نے ان دو قسم کی روایات کے اختلاف کو یوں حل کیا ہے کہ ہر روایت الگ الگ زمان اور مکان کی جنگ کی خبر دے رہی ہیں۔[39] لیکن ان روایات کی سند صحیح ہونے کے بارے میں تردید کیا ہے۔[40] الفتن میں سنی عالم دین ابن حماد نے یوں نقل کیا ہے کہ یمانی، مدینہ میں امام مہدیؑ سے ملحق ہونگے، سفیانی اپنی لشکر مدینہ بھیج دے گا لیکن وہ دونوں مدینہ سے مکہ کی سمت نکلیں گے۔[41] سفیانی لشکر ان کے تعاقب میں مکہ کی جانب نکلے گا اور بیداء نامی جگہ زمین دھنس کر وہ سب نابود ہونگے۔[42]
  • فتوحات؛ اہل سنت کے بعض مآخذ میں ذکر ہوا ہے کہ یمانی قسطنطنیہ اور روم کو فتح کرے گا[43] اور ان کے پرچم کا رنگ سفید ہوگا۔[44] لیکن شیعہ منابع میں ان علاقوں کی فتح امام زمانہؑ سے منسوب کیا گیا ہے۔[45]

یمانی ہونے کے دعویدار

بعض روایات کے مطابق امام صادقؑ کے دور سے شیعہ، یمانی کا انتظار کر رہے تھے؛ آپؑ نے طالب حق کو یمانی ہونے[یادداشت 2] کو اس لئے رد کیا کہ یمانی علیؑ کا محب ہے اور طالب حق، علی سے بغض رکھتا ہے۔[46] پہلی صدی ہجری سے ہی بعض لوگوں نے خود کو یمانی سے معرفی کیا ہے ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:

  • عبدالرحمن بن محمد بن اشعث85ھ)؛ اس نے عبدالملک بن مروان کے دور میں عراق کے حاکم حجاج بن یوسف ثقفی، کے خلاف بغاوت کیا اور خود کو قحطانی کا نام دیا جس کا یمن والوں کو انتظار تھا۔[47] ابن اشعث امویوں کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد سیستان چلا گیا اور وہیں پر وفات پاگیا۔[48]
  • ابن فرس؛ ابن خلدون عبدالرحیم بن عبدالرحمان بن فرس اندلس کے علما میں سے تھا اور ایک دن منصور کے دربار میں سخت لہجے میں بات کی اور اس کے بعد کچھ عرصہ مخفی زندگی کرنے پر مجبور ہوا اور جب منصور مرگیا تو وہ ظاہر ہوا اور وہی قحطانی ہونے کا دعوی کیا جس کے آنے کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ نے خبر دی تھی، ناصر بن منصور نے اس کی طرف ایک لشکر بھیجا اور اسی جنگ میں وہ مارا گیا۔[49]
  • احمد بن اسماعیل بصری المعروف احمد الحسن جو خود کو یمانی کہلاتا ہے۔ اور اس کا دعوی ہے کہ وہ یمانی ہیں اور امام زمانہؑ کے ظہور کے لیے موقع فراہم کر رہا ہے اور امام مہدیؑ کے بعد حکومت اسے ملے گی۔[50] دعوۃ احمد الحسن بین الحق و الباطل نامی کتاب اس کے دعوں کے رد میں لکھی گئی ہے۔[51]

اسی طرح یزید بن ملہب[52] اور عبدالرحمن بن منصور (ہشام بن حکم الموید باللہ کے دور میں)[53] بھی یمانی ہونے کے دعویداروں میں سے شمار ہوتے ہیں۔

اس بارے میں کتابیں

الیمانی رأیۃ ہدی، نامی کتاب عربی زبان میں یمانی کے قیام کے بارے میں لکھی گئی ہے۔ اس کے مؤلف عراق کے شیعہ عالم دین سید محمدعلی حلو(متولد 1376ھ) ہیں۔ اس کتاب میں یمانی کا حسب و نسب، قیام کا زمان و مکان کے بارے میں بحث ہوئی ہے۔ مصنف نے یمانی کے قیام کو ظہور کی حتمی نشانیوں میں سے قرار دیا ہے۔[54]

متعلقہ صفحات

نوٹ

  1. قَبْلَ قِيَامِ الْقَائِمِ خَمْسُ عَلَامَاتٍ مَحْتُومَاتٍ الْيَمَانِيُّ وَ السُّفْيَانِيُّ وَ الصَّيْحَۃُ وَ قَتْلُ النَّفْسِ الزَّكِيَّۃِ وَ الْخَسْفُ بِالْبَيْدَاءِ۔(صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۲، ص۶۵۰، ح۷) النِّدَاءُ مِنَ الْمَحْتُومِ وَ السُّفْيَانِيُّ مِنَ الْمَحْتُومِ وَ الْيَمَانِيُّ مِنَ الْمَحْتُومِ وَ قَتْلُ النَّفْسِ الزَّكِيَّۃِ مِنَ الْمَحْتُومِ وَ كَفٌّ يَطْلُعُ مِنَ السَّمَاءِ مِنَ الْمَحْتُومِ(نعمانی، الغیبہ، ۱۳۹۷ق، ص۲۵۲.)
  2. طالب حق، عبداللہ بن یحیی کندی کے نام سے خوارج کے سربراہوں میں سے تھا جس نے 129ھ کو یمن میں امویوں کے خلاف خروج کیا۔(خلیفۃ بن خیاط، تاریخ خلیفہ، ۱۴۱۵ق، ص۲۵۰.)

حوالہ جات

  1. نعمانی، الغیبہ، ۱۳۹۷ق، ص۲۵۳، ۲۵۲.
  2. نعمانی، الغیبہ، ۱۳۹۷ق، ص۲۵۵-۲۵۶؛ فتلاوی، رایات الہدی و الضّلال فی عصر الظّہور، ۱۴۲۰ق، ص۱۰۱.
  3. صدوق، کمال الدین، ج۱، ۱۳۹۵ق، ص۲۵۱.
  4. ابن طاووس، فلاح السائل،۱۴۰۶ق، ص۱۷۱.
  5. آیتی، «یمانی درفش ہدایت»، ص۲۰.
  6. فتلاوی، رایات الہدی و الضّلال فی عصر الظّہور، ۱۴۲۰ق، ص۱۰۰.
  7. نعمانی، الغیبہ، ۱۳۹۷ق، ص۳۹.
  8. ابن حماد، الفتن، دار الکتب العلمیہ منشورات محمدعلی بیضون، ص۷۵؛ مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، ج۲، ص۱۸۳.
  9. ابن حماد، الفتن، دار الکتب العلمیہ منشورات محمدعلی بیضون، ص۱۹۹.
  10. ابن منظور، لسان العرب، ۱۴۱۴ق، ج۷، ص۳۷۴.
  11. ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۱۵۶.
  12. صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۲، ص۶۵۰، ح۷.
  13. مہدوی‌راد، «بررسی تطبیقی روایات یمانی از منظر فریقین»، ص۲۶.
  14. رجوع کریں؛ صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۱، ص۳۲۸، ج۲، ص۶۴۹، ح۱؛ نعمانی، الغیبہ، ۱۳۹۷ق، ص۲۵۳، ۲۵۲؛ لیثی، عیون الحکم و المواعظ، ۱۳۷۶ش، ص۲۴۴؛ ابن طاووس، فلاح السائل، ۱۴۰۶ق، ص۱۷۱.
  15. آیتی، «یمانی درفش ہدایت»، ص۱۷.
  16. آیتی، «یمانی درفش ہدایت»، ص۱۷-۱۹؛ مہدوی‌راد، «بررسی تطبیقی روایات یمانی از منظر فریقین»، ص۲۶.
  17. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۸، ص۳۱۰، ح۴۸۳؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۵۲، ص۲۳۳.
  18. آیتی، «یمانی درفش ہدایت»، ص۱۹.
  19. نعمانی، الغیبہ، ۱۳۹۷ق، ص۳۰۵؛ طوسی، الغیبہ، ۱۴۱۱ق، ص۴۴۷.
  20. نعمانی، الغیبہ، ۱۳۹۷ق، ص۲۵۵-۲۵۶.
  21. صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۲، ص۶۵۰.
  22. آیتی، «یمانی درفش ہدایت»، ص۲۶.
  23. آیتی، «یمانی درفش ہدایت»، ص۲۶-۲۷.
  24. ابن حماد، الفتن، دار الکتب العلمیہ منشورات محمدعلی بیضون، ص۲۹۱.
  25. ابن حماد، الفتن، دار الکتب العلمیہ منشورات محمدعلی بیضون، ص۲۸۵؛ مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، ج۲، ص۱۸۴.
  26. آیتی، «یمانی درفش ہدایت»، ص۳۶.
  27. رجوع کریں؛ صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۱، ص۳۲۸، ج۲، ص۶۴۹، ح۱؛ نعمانی، الغیبہ، ۱۳۹۷ق، ص۲۵۳، ۲۵۲؛ لیثی، عیون الحکم و المواعظ، ۱۳۷۶ش، ص۲۴۴؛ ابن طاووس، فلاح السائل، ۱۴۰۶ق، ص۱۷۱.
  28. صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۱، ص۳۳۱؛ لیثی، عیون الحکم و المواعظ، ۱۳۷۶ش، ص۲۴۴
  29. فتلاوی، رایات الہدی و الضّلال فی عصر الظّہور، ۱۴۲۰ق، ص۱۰۱.
  30. فتلاوی، رایات الہدی و الضّلال فی عصر الظّہور، ۱۴۲۰ق، ص۱۰۱.
  31. نعمانی، الغیبہ، ۱۳۹۷ق، ص۲۵۵-۲۵۶.
  32. مہدوی‌راد، «بررسی تطبیقی روایات یمانی از منظر فریقین»، ص۵۲.
  33. نعمانی، الغیبہ، ۱۳۹۷ق، ص۳۹.
  34. نعمانی، الغیبہ، ۱۳۹۷ق، ص۲۵۶.
  35. نعمانی، الغیبہ، ۱۳۹۷ق، ص۲۲۷.
  36. ازدی نیشابوری، مختصر اثبات الرجعہ، ۱۴۱۳ق، ح۹، ص۲۶۱، بہ نقل از مہدوی‌راد، «بررسی تطبیقی روایات یمانی از منظر فریقین»، ص۵۳؛ نعمانی، الغیبہ، ۱۳۹۷ق، ص۲۲۷.
  37. ازدی نیشابوری، مختصر اثبات الرجعہ، ۱۴۱۳ق، ح۹، ص۲۶۱، بہ نقل از مہدوی‌راد، «بررسی تطبیقی روایات یمانی از منظر فریقین»، ص۵۳.
  38. ابن حماد، الفتن، دار الکتب العلمیہ منشورات محمدعلی بیضون، ص۱۹۹.
  39. آیتی، «یمانی درفش ہدایت»، ص۳۵.
  40. آیتی، «یمانی درفش ہدایت»، ص۳۵؛ مہدوی‌راد، «بررسی تطبیقی روایات یمانی از منظر فریقین»، ص۵۴.
  41. ابن حماد، الفتن، دار الکتب العلمیہ منشورات محمدعلی بیضون، ص۲۲۳.
  42. ابن حماد، الفتن، دار الکتب العلمیہ منشورات محمدعلی بیضون، ص۲۱۲.
  43. ابن حماد، الفتن، دار الکتب العلمیہ منشورات محمدعلی بیضون، ص۲۹۱.
  44. ابن حماد، الفتن، دار الکتب العلمیہ منشورات محمدعلی بیضون، ص۱۹۹.
  45. رجوع کریں: نعمانی، الغیبہ، ۱۳۹۷ق، ص۳۱۹.
  46. طوسی، الامالی، ۱۴۱۴ق، ص۶۶۱.
  47. مسعودی، التنبیہ و الاشراف، دار الصاوی، ص۲۷۲؛ مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، ج۲، ص۱۸۴.
  48. مسعودی، التنبیہ و الاشراف، دار الصاوی، ص۲۷۳.
  49. ابن خلدون، دیوان المبتدأ و الخبر، ۱۴۰۸ق، ج۶، ص۳۳۶.
  50. یوسفیان، «بررسی برخی ادلہ روایی احمد بصری یمانی دروغین»، ص۶۳.
  51. یوسفیان، «بررسی برخی ادلہ روایی احمد بصری یمانی دروغین»، ص۶۳.
  52. فخر رازی، المحصول، ۱۴۱۸ق، ج۴، ۳۴۷-۳۴۸.
  53. ابن خلدون، دیوان المبتدأ و الخبر، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۱۹۱.
  54. حلو، الیمانی رأیۃ ہدی، ۱۴۱۲۵ق، ص۳۸.

مآخذ

  • آیتی، نصرت‌اللہ، یمانی درفش ہدایت، مجلہ مشرق موعود، شمارہ ۱، سال ۱۳۸۵ش.
  • ابن حماد، نعیم بن حماد، الفتن، تصحیح: مجدی بن منصور شوری، بیروت، دار الکتب العلمیہ منشورات محمدعلی بیضون، بی‌تا.
  • ابن خلدون، عبد الرحمان بن محمد، دیوان المبتدأ و الخبر فی تاریخ العرب و البربر و من عاصرہم من ذوی الشأن الاکبر، تحقیق: خلیل شحادۃ، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۸ق/۱۹۸۸م.
  • ابن طاووس، علی بن موسی، فلاح السائل و نجاح المسائل، قم، بوستان کتاب، ۱۴۰۶ق.
  • ابن کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایہ و النہایہ، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۶م.
  • ابن منظور، محمد مکرم، لسان العرب، تصحیح: احمد فارس، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۴ق.
  • ازدی نیشابوری، فضل بن شاذان، مختصر اثبات الرجعہ، ترجمہ: میرلوحی، تحقیق: باسم الہاشمی، بیروت، دار الکرم، ۱۴۱۳ق.
  • حلو، سید محمدعلی، الیمانی رأیۃ ہدی، نجف، مرکز الدراسات التخصصیہ فی الامام المہدی، ۱۴۱۲۵ق.
  • خلیفۃ بن خیاط، تاریخ خلیفہ، تحقیق: فواز، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، ۱۹۹۵م/۱۴۱۵ق.
  • صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، تصحبح: علی‌اکبر غفاری، تہران، اسلامیہ، ۱۳۹۵ق.
  • طوسی، محمد بن حسن، الامالی، تصحیح: مؤسسہ البعثۃ، قم، دار الثقافۃ، ۱۴۱۴ق.
  • طوسی، محمد بن حسن، کتاب الغیبۃ للحجۃ، تصحیح: عباداللہ تہرانی و علی احمد ناصح، قم، دار المعارف الاسلامیہ، ۱۴۱۱ق.
  • فتلاوی، مہدی، رایات الہدی و الضّلال فی عصر الظّہور، بیروت، دار المحجہ البیضاء، ۱۴۲۰ق/۱۹۹۹م.
  • فخر رازی، محمد بن عمر، المحصول، تحقیق: طہ جابر فیضا العلوانی، مؤسسہ الرسالہ، ۱۴۱۸ق/۱۹۹۷م.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح: علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ق.
  • لیثی واسطی، علی بن محمد، عیون الحکم و المواعظ، تصحیح: حسین حسنی بیرجندی، قم، دار الحدیث، ۱۳۷۶ش.
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ق.
  • مسعودی، علی بن حسین، التنبیہ و الاشراف، تصحیح: عبداللہ اسماعیل الصاوی، قاہرہ، دار الصاوی، بی‌تا.
  • مقدسی، مطہر بن طاہر، البدء و التاریخ، بور سعید، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، بی‌تا.
  • نعمانی، محمد بن ابراہیم، الغیبہ، تصحیح: علی اکبر غفاری، نشر صدوق، تہران، ۱۳۹۷ق.
  • مہدوی‌راد، محمدعلی و دیگران، بررسی تطبیقی روایات یمانی از منظر فریقین، حدیث‌پژوہی، پاییز و زمستان ۱۳۹۳ش.
  • یوسفیان، مہدی؛ شہبازیان، محمد، «بررسی برخی ادلہ روایی احمد بصری یمانی دروغین»، مشرق موعود، شمارہ۲۷، پاییز ۱۳۹۲ش.