روزہ

حوالہ جاتی اصول کی عدم رعایت
غیر معتبر مآخذ سے کاپی شدہ
غیر سلیس
غیر جامع
ویکی شیعہ سے
(روزه سے رجوع مکرر)

روزہ خدا کی اطاعت کی خاطر صبح کی اذان سے مغرب کی اذان تک مبطلات روزہ سے پرہیز کرنے کا نام ہے۔ روزہ اسلام کے فروعی احکام، برترین عبادات اور ارکان پنجگانہ میں سے ہے۔ روزہ اسلام سے پہلے کے ادیان میں بھی موجود تھا۔

دینی منابع میں روزہ کے متعدد اخلاقی اور معنوی آثار ذکر ہوئے ہیں جن میں کسب تقوی، آتش جہنم کے مقابلہ میں سپر، گناہوں کا کفارہ، بدن کی زکات اور شیطان سے دوری قابل ذکر ہیں۔

روزہ فقہی اعتبار سے واجب، مستحب، حرام اور مکروہ میں تقسیم ہوتا ہے۔ ماہ مبارک رمضان کے روزوں کا شمار واجب روزوں میں ہوتا ہے۔ عاقل و بالغ ہونا، بے ہوش، بیمار و مسافر نہ ہونا روزہ واجب ہونے کے شرائط میں سے ہیں۔

کھانا پینا، جماع، خدا و رسول اور ائمہ معصومین کی طرف چھوٹی نسبت دینا، غلیظ غبار کا حلق تک پہچانا، صبح کی اذان تک جنابت پر باقی رہنا، حیض و نفاس، استمناء، پانی میں سر ڈبونا اور جان بوجھ کر قے (الٹی) کرنا مبطلات روزہ میں سے ہیں۔ ماہ مبارک رمضان میں جان بوچھ کر مبطلات روزہ میں سے کسی کا ارتکاب کرنے کی صورت میں قضا کے ساتھ کفارہ بھی واجب ہوتا ہے۔

روزہ رکھنے کے بہت سے جسمانی و نفسیاتی فوائد ذکر ہوئے ہیں جن میں اضطراب اور افسرگی میں کمی، عزت نفس میں اضافہ، دل اور اس سے مربوط بیماریوں سے محفوظ رہنا شامل ہیں۔ روزہ کے فوائد و آثار نیز اس کے فقہی احکام کے بارے میں متعدد کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔

لغوی اور اصطلاحی تعریف

روزہ جسے عربی میں صوم یا صیام کہا جاتا ہے، فقہی اعتبار سے "صوم" کے معنی قصد قربت کے ساتھ صبح کی اذان سے مغرب کی اذان تک مبطلات روزہ سے پرہیز کے ہیں۔[1] علامہ حلی کی تعریف کے مطابق طلوع فجر صادق سے غروب تک بعض مخصوص چیزوں سے پرہیز کرنے کا نام روزہ ہے۔[2] بعض فقہاء کی تعریف کے مطابق روزہ نفس کو مبطلات روزہ سے پرہیز کے لئے آمادہ کرنا ہے۔[3]

لغت میں کلمہ صوم کے معنی کسی چیز کے ترک کرنے یا کسی چیز سے پرہیز کرنے کے ذکر ہوئے ہیں۔[4]

گذشتہ امتوں میں

تفصیلی مضمون: آیہ صوم

قرآن مجید کے سورہ بقرہ کی آیت 183 میں صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ روزہ اسلام سے پہلے کے ادیان میں بھی موجود تھا۔[5] توریت[6] و انجیل[7] میں سابقہ امتوں کے روزہ رکھنے کا تذکرہ موجود ہے۔ توریت کی تصریح کے مطابق، حضرت موسی نے الواح کے دریافت کرنے سے پہلے چالیس روز روزہ رکھا اور کچھ بھی کھانے پینے سے پرہیز کیا۔[8] قرآن کریم میں حضرت زکریا[9] اور حضرت مریم[10] کے روزہ رکھنے اور روایات[11] میں اسلام سے پہلے کے ادیان میں روزہ کے موجود ہونے کا ذکر ہوا ہے۔

نقل ہوا ہے کہ روزہ اسلام سے قبل دیگر اقوام جیسے قدیم مصریوں، یونانیوں، رومیوں اور ہندیوں میں بھی موجود تھا۔[12]

اسلامی منابع کے مطابق، رمضان المبارک کا روزہ تغییر قبلہ کے 13 دن بعد 2 شعبان[13] یا 28 شعبان سنہ 2 ہجری میں واجب ہوا۔[14] ماہ مبارک رمضان میں روزہ رکھنے کا حکم اور اس سے مربوط بعض احکام کا ذکر قرآن مجید میں ہوا ہے۔[15] اس حکم کے آنے کے بعد ابتداء میں روزہ داروں کے لئے افطار کے بعد فقط سونے سے پہلے تک کھانا پینا جائز تھا اور ماہ رمضان میں جماع مکمل طور پر حرام تھا۔ البتہ یہ دونوں حکم کچھ عرصہ کے بعد نسخ ہو گئے۔[16]

اہمیت اور فوائد

روزہ افضل ترین عبادات[17]رکن اسلام[18] اور جہاد کی ایک قسم ہے۔ اس کا ترک کرنا ایمان سے خارج ہونے کا سبب قرار دیا گیا ہے۔[19] روزہ کے بہت سے فوائد ہیں جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:

  1. تقوی کا حصول۔ [20]
  2. بعض گناہوں کا کفارہ۔ [21]
  3. امیر اور فقیر کے درمیان مساوات کا عامل۔[22]
  4. وسیلہ امتحان و تثبیت اخلاص۔[23]
  5. بدن کی زکات۔[24]
  6. قیامت کی بھوک اور پیاس کی یاد۔[25]
  7. قیامت کی بھوک و پیاس سے رہائی۔[26]
  8. جہنم کی آگ کے مقابلے میں ڈھال۔[27]
  9. قیامت کے دن خوشی کا سبب۔[28]
  10. دنیا و آخرت کے غم و اندوہ سے نجات کا سبب۔[29]
  11. دعا مستجات ہونے کا سبب[30] خاص طور پر افطار کے وقت۔[31]
  12. بدن کی تندرستی کا سبب۔[32]
  13. تقویت حافظہ۔[33]
  14. دنیوی آفات کے مقابلے میں ڈھال۔[34]
  15. دلوں کو آرام پہنچانے والا۔[35]
  16. شیطان سے دوری کا سبب۔[36]
  17. خدا کی خصوصی جزا کا مستحق قرار پانا[37]
  18. رمضان المبارک میں روزہ رکھنے والوں کی طرف بہشت کی رغبت۔[38]

ذرائع ابلاغ کے اعداد و شمار کے مطابق ماہ مبارک رمضان میں سماجی خلاف ورزیوں میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔[39] اسی طرح طبی تحقیقات کے مطابق روزہ جسم و روح کی صحت و سلامتی کے لئے مفید ہے۔[40] انسان کی جسمانی نظام میں مثبت کردار، اضطراب و افسردگی میں کمی، نفسیاتی سلامتی، عزت نفس میں اضافہ، قلب اور اس سے مربوط امراض سے حفاظت کو روزہ کے مادی اور روحانی فوائد میں شمار کیا جاتا ہے۔[41]

اقسام

فقہی یا شرعی اعتبار سے روزہ کی چار قسمیں ہیں:

واجب روزے
  • رمضان المبارک کا روزہ
  • قضا روزے
  • باپ کے قضا روزے (اور ماں کے قضا روزے بھی)
  • اعتکاف میں تیسرے دن کا روزہ
  • حج میں قربانی کے بدلے میں رکھنے والے روزے۔[42]
  • نذر اور قسم کا کفارہ
  • جان بوجھ کر واجب روزہ توڑنے کا کفارہ
حرام روزے
  • عید فطر اور عید قربان کا روزہ
  • یوم الشک کا روزہ (جس دن کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ شعبان کی آخری تاریخ ہے یا رمضان کی پہلی تاریخ) اور اس دن ماہ رمضان کے روزے کی نیت کرے۔
  • ایسے شخص کا روزہ جسے یقین یا گمان ہو کہ روزہ اس کے لئے مضر ہے۔
  • سکوت کا روزہ یعنی دوسرے مفطرات روزہ سے پرہیز کرنے کے ساتھ ساتھ بات کرنے سے بھی پرہیز کی نیت کرے۔
  • وصال کا روزہ یعنی عمدا دو دن کے روزوں کو بغیر افطار کے ملا دے۔
  • ایام تشریق کا روزہ ان لوگوں کیلئے جو منا میں ہوں۔
  • مسافر کا روزہ۔
  • شوہر کی اجازت کے بغیر بیوی کا مستحب روزہ۔
مکروہ روزے[یادداشت 1]
  • عاشورا کے دن کا روزہ
  • عرفہ کے دن کا روزہ، اس شخص کے لئے جسے ضعف اور کمزوری کا خوف ہو۔
  • اس دن کا روزہ جس دن انسان کو شک ہو کہ عرفہ کا دن ہے یا عید قربان کا
  • مہمان کا روزہ میزبان کی رضایت کے بغیر
  • سفر میں مستحب روزہ
  • ‌ والد کی اجازت کے بغیر اولاد کا روزہ۔
مستحب روزے

پورے سال میں روزہ رکھنا مستحب ہے سوائے مندرجہ بالا ایام کے۔ البتہ بعض ایام میں روزہ رکھنے کی زیادہ تاکید ہوئی ہے جیسے: روز عید غدیر یوم مبعث، پیغمبر اکرمؐ کی ولادت کے دن، روز دحو الارض، روز عرفہ بشرطیکہ ضعف کا باعث نہ بنے، روز مباہلہ، ہر جمعرات اور جمعہ۔[43]

  • مسلمانوں میں یہ معمول ہے کہ نوجوانوں اور نابالغ بچوں کو کامل روزہ کی تمرین کی خاطر دن کے وقت سحری سے دوپہر کے کھانے تک یا دوپہر کے کھانے سے شام کے کھانے تک انہیں کوئی چیز نہیں کھلاتے اس طرح انہیں روزہ رکھنے کی طرف مائل کیا جاتا ہے۔[44]

شرایط روزہ

شرایط روزہ کی دو قسمیں ہیں: 1۔ شرایط صحت روزہ 2۔ شرایط وجوب روزہ

شرایط صحت روزہ:

  • اسلام و ایمان (اس شرط کی بنیاد پر غیر مسلم و غیر مومن کا روزہ صحیح نہیں ہے)
  • عقل (دیوانہ کا روزہ صحیح نہیں ہے)
  • جنابت، حیض و نفاس پر صبح تک باقی رہنا۔
  • حیض و نفاس سے دن بھر پاک ہونا۔
  • مسافر نہ ہو۔
  • بیمار نہ ہو۔ (ایسا بیمار کہ روزہ اس کے لئے مضر ہو)[45]

شرایط وجوب روزہ

  • بالغ ہو۔ نابالغ پر روزہ واجب نہیں ہے۔
  • عقل۔ دیوانہ پر روزہ واجب نہیں ہے۔
  • بیہوش نہ ہو۔
  • بیمار نہ ہو۔ (ایسا بیمار جس کے کئے روزہ مضر ہو)
  • حیض و نفاس سے پاک ہو۔ حیض و نفاس والی خاتون پر روزہ واجب نہیں ہے۔
  • وطن میں ہو۔ (سفر میں نہ ہو)[46]

جن افراد پر روزہ رکھنا واجب نہیں

دہلی جامع مسجد میں روزہ افطار کا ایک منظر

ماہ مبارک رمضان کا روزہ ہر مسلمان پر جس میں شرایط وجوب روزہ پائے جاتے ہوں، واجب ہے۔ مگر مندرجہ ذیل افراد پر روزہ واجب نہیں ہے:

  1. بوڑھے افراد جو روزہ نہیں رکھ سکتے یا جن کے لئے روزہ رکھنا سخت ہو ان پر روزہ واجب نہیں ہے۔ البتہ جن کے لئے روزہ سخت ہے انہیں ہر دن کے بدلے میں ایک مد گندم یا جَو کسی فقیر کو دینا ہوگا۔
  2. ایسے مریض افراد جنہیں پیاس زیادہ لگتی ہو اور جو پیاس کو برداشت نہیں کر سکتے ہوں یا پیاس کو برداشت کرنا ان کے لئے سخت ہو، ان کے لئے روزہ واجب نہیں ہے۔ البتہ جن کے لئے سخت ہے انہیں روزانہ ایک مد طعام فقیر کو دینا ہوگا۔
  3. حاملہ عورتیں اگر روزہ خود ان کیلئے یا ان کے بچوں کیلئے مضر ہو تو روزہ رکھنا ان پر واجب نہیں ہے؛ البتہ روزانہ ایک مد طعام فقیر کو دینا ہوگا اور بعد میں روزہ قضا کرنا ضروری ہے۔
  4. دودھ پلانے والی عورتیں جن کا دودھ کم ہو، اگر روزہ خود ان کیلئے یا ان کے بچوں کیلئے مضر ہو تو واجب نہیں ہے؛ البتہ انہیں روزانہ ایک مد طعام فقیر کو دینا ہوگا اور بعد میں روزہ قضا کرنا ضروری ہے۔[47]

شیعہ امامیہ فقہاء کے فتاوی کے مطابق، جس کے لئے جسمانی کمزوری کی وجہ سے روزہ رکھنا ناقابل برداشت ہو یا اس کے لئے مضر ہو تو وہ روزہ کھول سکتا ہے۔ البتہ اس روزہ کی قضا اس پر واجب ہے اور اگر وہ اگلے رمضان تک اس کی قضا نہیں کر پاتا تو اسے ہر روزہ کے بدلے ایک مد طعام فقیر کو دینا ہوگا۔[48]

نیت روزہ

روزے کی نیت کو زبان پر جاری کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ اگر دل قصد قربت کی نیت کے ساتھ روزے کی نوعیت کو معین کرے تو کافی ہے۔ روزہ قصد قربت کی نیت سے ہونا چاہئے؛ روزہ کی نیت زبان پر جاری کرنا ضروری نہیں ہے۔ روزہ دار کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اللہ کا حکم بجا لانے کی غرض سے اذان صبح سے اذان مغرب تک مبطلات روزہ میں سے کوئی کام انجام نہ دے۔[49]

نیت کا وقت روزے کی نیت کا وقت اس طرح ہے:

  • رمضان المبارک کا روزہ:: اول شب سے صبح کی اذان سے پہلے تک یا مہینے کی پہلی تاریخ کو پورے مہینے کی نیت کرے۔[50]
  • قضا روزہ:: اگر ظہر کی اذان تک کوئی ایسا کام انجام نہ دیا ہو جو روزے کو باطل کر دیتا ہے، تو قضا روزے کی نیت کر سکتا ہے۔
  • مستحب روزہ:: اگر سورج غروب ہونے تک کوئی ایسا کام انجام نہ دیا ہو جو روزے کو باطل کر دیتا ہے، تو مستحب روزے کی نیت کر سکتا ہے۔[51]

مُبطِلات روزہ

تفصیلی مضمون: مبطلات روزہ

مندرجہ ذیل 9 چیزوں کو جان بوچھ کر انجام دینے سے روزہ باطل ہو جاتا ہے:

  1. کھانا اور پینا
  2. جماع
  3. خدا، پیغمبر(ص) اور اماموں کی طرف جھوٹ کی نسبت دینا۔
  4. غلیظ غبار (جیسے سگریٹ کا دھواں) حلق تک پہنچانا۔
  5. صبح کی اذان تک جنابت، حیض یا نفاس کی حالت میں باقی رہنا۔
  6. استمنا۔
  7. مایعات کے ساتھ امالہ کرنا۔
  8. پورا سر پانی میں ڈبونا (نوٹ 3)۔
  9. عمداً قے کرنا۔[52]

احکام

روزہ کے بہت سے احکام ہیں۔ ان میں سے یہاں بعض تذکرہ فقہ امامیہ شیعہ کے مطابق کیا جا رہا ہے:

ناقابل برداشت حالت میں پانی پینا جائز

بعض فقہاء کے فتاوی کے مطابق، اگر روزہ دار نہایت شدید و غیر قابل تحمل پیاس کا احساس کرے تو وہ بقدر ضرورت، اپنی پیاس بچھانے کے لئے پانی پی سکتا ہے۔[53] البتہ اس بارے میں کہ اس کا روزہ باطل ہوا یا نہیں، اختلاف نظر ہے۔ بعض اس کے روزہ کو صحیح کہتے ہیں اس صورت میں قضا واجب نہیں ہے۔[54] فقہاء کا ایک گروہ پانی پینے کو جائز مانتا ہے مگر اس سے روزہ باطل ہو جائے گا اور اس کی قضا ضروری ہوگی۔[55]

مکروہات روزہ

فقہاء نے بعض امور کو روزہ دار کے لئے مکروہ شمار کیا ہے: جیسے بیوی کے ساتھ لمس، بوسہ و ملاعبہ، سرمہ لگانا، ہر وہ کام جو کمزوری کا سبب بنے، پھول سونگھنا، لباس کو تر کرنا، ہر وہ کام جس سے دہن خون آلود ہو جائے جیسے دانت نکلوانا، بغیر کسی وجہ کے کلی کرنا۔[56]

افطار یا روزہ کھولنا

فائل:افطار حرم رضوی.jpg
مشہد حرم امام رضا (ع) میں افطار کا ایک منظر
تفصیلی مضمون: افطار

روزہ کھولنے یا توڑنے کو افطار کہتے ہیں۔[57] شیعہ امامیہ فقہ میں مشہور نظریات کے مطابق، روزہ دار کو مغرب کی اذان تک صبر کرنا چاہئے۔[58] روایات کے مطابق، افطار کے وقت دعا پڑھنا، سورہ قدر کی تلاوت کرنا،[59] پانی، دودھ یا خرمہ سے افطار کرنا مستحب ہے۔[60]

روایات کے مطابق، روزہ دار کو افطار کرانا فضیلت رکھتا ہے۔[61] خطبہ شعبانیہ میں پیغمبر اکرم (ص) سے نقل ہونے والے اقوال کے مطابق، ماہ مبارک رمضان میں کسی مومن کو افطار کرانے کا ثواب ایک غلام کو آزاد کرنے کے برابر ہے۔ اسی طرح سے افطار کرانا گناہوں کی بخشش کا سبب بھی بنتا ہے۔[62]

قضا و کفارہ

تفصیلی مضمون: کفارہ

جس مسلمان میں وجوب روزہ کے شرایط پائے جاتے ہوں اگر وہ روزہ واجب معین جیسے ماہ مبارک رمضان، کا روزہ نہ رکھے تو اس کے لئے اس کی قضا ضروری ہے۔[63] ماہ رمضان کے روزہ کے قضا واجب فوری نہیں ہے۔ البتہ اگلے رمضان سے پہلے اس کا بجا لانا ضروری ہے۔[64] لیکن اگر بیماری کی وجہ سے ماہ رمضان میں روزہ نہ رکھ سکے اور اگلے سال رمضان تک اس کی قضا نہ کر سکے تو اس کے لئے ان دنوں کی قضا واجب نہیں ہے۔ البتہ اسے ہر روز کے بدلے ایک مد طعام (750 گرام) کفارہ کے عنوان سے فقیر کو دینا ہوگا۔[65]

اگر کوئی شخص کسی شرعی غذر کے بغیر جان بوجھ کر روزہ ماہ رمضان یا روزہ نذر معین[66] کو ترک کرے تو قضا کے ساتھ ساتھ اس کے اوپر کفارہ بھی واجب ہے۔[67] کفارہ کے طور پر ہر دن کے بدلے میں 60 فقیر کو کھانا کھلائے یا 60 دن روزہ رکھے جس میں 31 دن روزے پے در پے رکھنا واجب ہے۔[68] اور اگر اگلے سال رمضان تک قضا کو بغیر کسی عذر کے بجا نہ لائے تو کفارہ تاخیر (ہر روزہ کے بدلے ایک مد طعام) بھی ادا کرنا پڑے گا۔[69] اور اگر ماہ رمضان کا روزہ کسی حرام کام (جیسے شراب یا زنا) کے ذریعے باطل کیا ہو تو کفارہ جمع دینا واجب ہے۔ کفارہ جمع سے مراد یہ ہے کہ 60 فقیروں کو کھانا بھی کھلائے اور 60 دن روزہ بھی رکھا جائے اسی ترتیب کے مطابق جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔[70] البتہ بعض مراجع تقلید کفارہ جمع کو احتیاط مستحب[71] اور بعض احتیاط واجب مانتے ہیں۔[72]

روزہ رکھنے کا فلسفہ

روزہ رکھنے کے فلسفہ کے بارے میں قرآن کریم، اسلامی روایات اور علماء کے فرامین میں بیانات موجود ہیں:

  • قرآن کریم روزہ کا حکم بیان کرتے ہوئے تقوا اور پرہیزگاری کو روزہ رکھنے کا فلسفہ بتاتا ہے: يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ(بقرہ، 183):
  • ارادے اور اخلاص کی تقویت اسی طرح عباتوں کے ساتھ لگاؤ پیدا ہونا بھی روزہ رکھنے کے اہم ترین فلسفوں میں سے ہے۔
  • روزہ رکھنے سے انسان بھوک اور پیاس کا احساس کرنے لگتا ہے جو باعث بنتا ہے کہ انسان آخرت اور قیامت کی جاویدانہ زندگی کو یاد کرکے اس کیلئے تیاری کرے۔ بھوک اور پیاس کی وجہ سے انسان کا تکبر اور غرور ختم ہو جاتا ہے اور وہ دوسرے عبادات کی انجام دہی کیلئے آمادہ ہو جاتا ہے۔[73]
  • حدیث قدسی میں حکمت اور خدا کے بارے میں قلبی شناخت اور معرفت حاصل ہونے کو روزہ رکھنے کے فوائد میں شمار کیا ہے جس کا نتیجہ زندگی کی سختیوں میں روحانی طور پر سکون اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔[74]
  • روزہ رکھنے سے روزہ داروں کے درمیان ایک قسم کی ایثار اور ہمدلی پیدا ہوتی ہے اور محروموں کے مدد اور ان کی خدمت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ روزہ رکھنے سے انسان کی زندگی میں نظم و ضبط آ جاتا ہے اور اسے قناعت پیشہ کرنے کا سلیقہ آتا ہے نیز انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں گناہوں اور گرفتاریوں کے مقابلے میں صبر کرنے کا مادہ بھی روزہ رکھنے کے ذریعے ہی پیدا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رمضان المبارک میں سماجی مفاسد میں قابل توجہ کمی دیکھنے میں آتی ہے۔[75]
  • روزہ رکھنے سے جو صبر اور حوصلہ انسان میں پیدا ہوتا ہے اس سے انسان اپنی زندگی کے مقاصد میں کئی گنا پایداری اور استقامت کا مظاہرہ کرتا ہے۔

مراتب روزہ

عرفاء کے نزدیک روزہ کے تین مراتب ہیں: عوامانہ روزہ، خواص کا روزہ اور خاص الخواص کا روزہ یا دل کا روزہ۔[76]

  • عوامانہ روزہ یہ ہے کہ انسان ان چیزوں سے اجتاب کرے جو روزہ کو باطل کرتی ہیں اور روزہ کے ظاہری آداب کی رعایت کرے۔[77]
  • خواص کا روزہ یہ ہے کہ وہ آنکھ، کان، زبان، ہاتھ، پاؤں اور دوسرے اعضاء و جوارح کو بھی گناہوں سے محفوظ رکھیں۔[78]
  • خاص الخواص کا روزہ یہ ہے کہ انسان دنیوی پریشانیوں اور اہداف و مقاصد سے دوری اختیار کر لے سوائے اس دنیا سے جو دین کا مقدمہ ہو۔[79]

اسی طرح سے حدیث کے مطابق، حقیقی روزہ ان تمام چیزوں کو ترک کرنا ہے، جسے خداوند عالم پسند نہیں کرتا ہے۔[80] اور حقیقی روزہ وہ ہے جس میں انسان کے آنکھ، کان، بال، جلد بھی روزہ ہوں۔[81] اور دل کا روزہ، زبان کے روزہ سے بہتر اور زبان کا روزہ شکم کے روزہ کے بہتر شمار کیا گیا ہے۔[82]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. محقق حلی، شرایع الاسلام، 1408ھ، ج1، ص168؛ طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی(محشی)، 1419ھ، ج3، ص521؛ امام خمینی، تحرير الوسيلۃ‌، دارالعلم، ج1، ص278.
  2. علامہ حلی، تذکرۃ الفقہا، 1414ھ، ج6، ص5.
  3. نگاہ کریں: سید مرتضی، جمل العلم و العمل، 1387ھ، ص89؛ شہید اول، الدروس الشرعیۃ، 1417ھ، ج1، ص266۔
  4. فراہیدی، کتاب العین، 1419ھ، ج، ص171؛ ابن فارس، معجم مقاییس اللغۃ، 1404ھ، ج3، ص323؛ راغب اصفہانی، مفردات، 1412ھ، ص500.
  5. نگاہ کریں: طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج2، ص7 و 8.
  6. نگاہ کریں: سفر خروج، فصل 34، آیہ 28؛ کتاب دوم سموئیل، فصل 12، آیہ 16؛ کتاب دوم تواریخ، فصل 20، آیہ 3.
  7. انجیل لوقا، فصل2،‌ آیہ 37، فصل 4، آیہ 2 و فصل 5، آیہ 34.
  8. سفر تثینہ، فصل 9، آیہ 9.
  9. نگاہ کریں: طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج2، ص7.
  10. سورہ مریم، آیہ 26.
  11. بہ عنوان نمونہ نگاہ کریں: مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج13، ص427 و ج17، ص292.
  12. نگاہ کریں: طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج2، ص7.
  13. قمی، وقایع الایام، 1389ہجری شمسی، ص495.
  14. مجلسی، بحار الانوار، 1403، ج18، ص194؛ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج2، ص42.
  15. سورہ بقرہ آیات 183-185و187.
  16. طبرسی، جوامع الجامع، جامعہ مدرسین، ج1، ص106؛ حرّ عاملی، وسائل الشیعۃ، 1409ھ، ج7، ص81.
  17. نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج16، ص181.
  18. نگاہ کریں: کلینی، الکافی، 1407ہجری شمسی، ج2، ص18-24 و ج4، ص62.
  19. صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج2، ص118، ح1892.
  20. سورہ بقرہ، آیہ 183.
  21. سورہ نسا، آیہ 92؛ سورہ مائدہ، آیہ 89 و 95؛ سورہ مجادلہ، آیہ 4.
  22. من لا یحضرہ الفقیہ ج2 ص73، ح 1766.
  23. نہج البلاغہ (صبحی صالح) ص512، ح 252
  24. من لا یحضرہ الفقیہ ج2، ص75، ح 1774.
  25. وسایل الشیعہ ج10، ص9، ح 12701.
  26. حر عاملی، ہدایۃ الامۃ، 1412ھ، ج4، ص268، ح9.
  27. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص62، ح1؛ ابن شعبہ، تحف العقول، 1363ھ، ص258.
  28. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص65.
  29. تفسیر قمی ج1، ص46 - تفسیر عیاشی ج1، ص44، ح 41.
  30. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص510؛ محمدی ری‌ شہری، میزان الحکمہ، 1416ھ، ج2، ص1686؛ راوندی، الدعوات، 1366ہجری شمسی، ج1، ص27.
  31. راوندی، الدعوات، 1366ہجری شمسی، ج1، ص27؛ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج93، ص255، ح33.
  32. پایندہ، نہج الفصاحہ ص547، ح 1854.
  33. طبرسی، مکارم الاخلاق ص51.
  34. جعفر بن محمد(ع)، مصباح الشریعۃ، 1400ھ، ص135.
  35. امالی (طوسی) ص296، ح 582.
  36. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص62.
  37. صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ ج2، ص75، ح 1773.
  38. نوری، مستدرک الوسائل، 1408ھ، ج7،‌ ص400.
  39. «کاہش 5 تا 33 درصدی جرایم در ماہ رمضان»، پایگاہ خبری آفتاب.
  40. رضایی،‌ «روزہ‌داری و سلامت از نگاہ پزشکی»، پایگاہ اطلاع رسانی حوزہ.
  41. رضایی،‌ «روزہ‌داری و سلامت از نگاہ پزشکی»، پایگاہ اطلاع رسانی حوزہ.
  42. سورہ بقرہ، آیہ 196.
  43. ملاحظہ کریں: علامہ حلی، تذکرۃ الفقہا، 1414ھ، ج6، ص5و6؛ نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج16، ص352 و ج17، ص89-132؛ طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی (محشی)، 1419ھ، ج3، ص521 و 657-663.
  44. «روزہ کلہ گنجشکی چگونہ گرفتہ می‌شود»، وبگاہ باشگاہ خبرنگاران جوان.
  45. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی (محشی)، 1419ھ، ج3، ص611-615.
  46. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی (محشی)، 1419ھ، ج3، ص620-.
  47. امام خمینی، توضیح المسائل (محشی)، 1424ھ، ج1، ص955-958.
  48. امام خمینی، استفتائات، ج1، ص333، س88؛ «نظر مراجع عظام تقلید پیرامون روزہ ‌داری با ضعف جسمانی»، خبرگزاری رسمی حوزہ..
  49. امام خمینی، توضیح المسائل (محشی)، 1424ھ، ج1، ص880.
  50. امام خمینی، توضیح المسائل(محشی)، 1424ھ، ج1، ص881.
  51. امام خمینی، توضیح المسائل(محشی)، 1424ھ، ج1، ص881.
  52. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی(محشی)، 1419ھ، ج3، ص541- 577؛ امام خمینی، توضیح المسائل(محشی)، 1424ھ، ج1، ص891.
  53. حکیم، مستمسک العروۃ الوثقی، 1374ہجری شمسی، ج8، ص324؛ آملی، مصباح الہدی، 1380ھ، ج8، ص140؛ امام خمینی، استفتائات، دفتر نشر اسلامی، ج1، ص321.
  54. علامہ حلی، منتہی المطلب، ‌1412ھ، ج9، ص139؛ شہید اول، الدروس الشرعیہ، 1417ھ، ج1، ص273 و 276؛ اردبیلی، مجمع الفائدہ، 1403ھ، ج5، ص325-326؛ حکیم، مصباح المنہاج، کتاب الصوم، 1425ھ، ص161.
  55. نگاہ کریں: آملی، مصباح الہدی، 1380ھ، ج8، ص140؛ حکیم، مستمسک العروۃ الوثقی،‌1374ہجری شمسی، ج8، ص324؛ سبزواری، مہذب الاحکام، ‌1413ھ، ج10، ص132.
  56. مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، 1385ہجری شمسی، ج4، ص171و172.
  57. مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، 1385ہجری شمسی، ج1، ص624.
  58. «Fasting», Encyclopedia Iranica.
  59. حر عاملی، وسائل الشیعۃ، 1409ھ، ج10، ص147-151.
  60. حرعاملی، وسائل الشیعۃ، 1409ھ، ج10، ص156-161.
  61. نگاہ کریں: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص68 و 69؛ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج2، ص134و135.
  62. صدوق، عیون أخبار الرضا(ع)، 1378ھ، ج1، ص296.
  63. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی (محشی)، 1419ھ، ج3، ص635-637؛ امام خمینی، تحرير الوسيلۃ‌، دار العلم، ج1، ص298.
  64. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی (محشی)، 1419ھ، ج3، ص639؛ امام خمینی، تحرير الوسيلۃ‌، دار العلم، ج1، ص298.
  65. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی (محشی)، 1419ھ، ج3، ص640و641؛ امام خمینی، تحرير الوسيلۃ‌، دار العلم، ج1، ص299.
  66. مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، 1385ہجری شمسی، ج4، ص169.
  67. امام خمینی، توضیح المسائل (محشی)، 1424ھ، ج1، ص926.
  68. امام خمینی، توضیح المسائل (محشی)، 1424ھ، ج1، ص928و929؛ امام خمینی، تحرير الوسيلۃ‌، دارالعلم، ج1، ص289.
  69. امام خمینی، تحرير الوسيلۃ‌، دار العلم، ج1، ص298.
  70. بہجت، جامع المسائل، 1426ھ، ج2، ص29.
  71. سیستانی، توضیح المسائل، 1393ہجری شمسی، ص298-299.‌
  72. امام خمینی، توضیح المسائل، 1426ھ، ص344.
  73. بحار الانوار، ج55، ص341؛ بحار الانوار ج93، ص370.
  74. قَالَ یا رَبِّ وَ مَا مِیرَاثُ الصَّوْمِ قَالَ الصَّوْمُ یورِثُ الحِکمَۃَ وَ الحِکمَۃُ تُورِثُ الْمَعْرِفَۃَ وَ الْمَعْرِفَۃُ تُورِثُ الْیقِینَ فَإِذَا اسْتَیقَنَ الْعَبْدُ لَا یبَالِی کیفَ أَصْبَحَ بِعُسْرٍ أَمْ بِیسْر پیغمبر اکرم (ص) نے خداوند عالم سے سوال کیا: پروردگارا روزہ کا نتیجہ کیا ہے؟ خداوند عالم نے فرمایا: روزہ کا نتیجہ حکمت ہے اور حکمت کا نتیجہ معرفت، اور معرفت کا نتیجہ یقین ہے۔ پس جب یھی بندہ یقین کی منزل پر پہنچتا ہے تو اس کے لئے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دنیا اس پر سخت گذرتی ہے یا آسان۔ بحار الانوار ج74 ص27.
  75. بقرہ:196 فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ إِلَی الْحَجِّ فَمَا اسْتَیسَرَ مِنَ الْہَدْی فَمَنْ لَمْ یجِدْ فَصِیامُ ثَلاثَۃِ أَیامٍ فِی الْحَجِّ وَ سَبْعَۃٍ إِذا رَجَعْتُمْ تِلْک عَشَرَۃٌ کامِلَۃٌ ذلِک لِمَنْ لَمْ یکنْ أَہْلُہُ حاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرام پس جس کے پاس قربانی نہ ہو وہ تین حج کے دوران تین دن اور جب حج سے واپس آئے تو سات دن روزہ رکھے یہ دس دن کامل ہے۔
  76. انصاریان، عرفان اسلامی، 1386ہجری شمسی، ج6، ص272.
  77. انصاریان، عرفان اسلامی، 1386ہجری شمسی، ج6، ص272.
  78. انصاریان، عرفان اسلامی، 1386ہجری شمسی، ج6، ص272.
  79. انصاریان، عرفان اسلامی، 1386ہجری شمسی، ج6، ص272.
  80. ابن ابی‌ الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1404ھ، ج20، ص299، ح417.
  81. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص87.
  82. تمیمی آمدی، غررالحکم و دررالکلم، 1410ھ، ص423، ح80.

نوٹ

  1. یہاں پر مکروہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ثواب کم ملے گا۔(طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی(محشی)، 1419ھ، ج3، ص521).

مآخذ

  • آملی، محمد تقی، مصباح الہدی، تہران، نشر مؤلف، 1380ھ۔
  • ابن ابی‌ الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی النجفی، چاپ اول، 1404ھ۔
  • ابن شعبہ، حسن بن علی، تحف العقول، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1363ہجری شمسی۔
  • ابن فارس، احمد بن فارس، معجم مقاییس اللغۃ، قم، مكتب الاعلام الاسلامی، چاپ اول، 1404ھ۔
  • اردبیلی، احمد بن محمد، مجمع الفائدۃ و البرہان، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1403ھ۔
  • امام خمینی، سید روح‌ اللہ، استفتائات، قم، دفتر نشر اسلامی، بی‌تا.
  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، تحرير الوسيلۃ‌، قم، دارالعلم، چاپ اول، بی‌تا.
  • امام خمینی، سید روح اللہ، توضیح المسائل(محشی)، تحقیق و تصحیح سید محمد حسین بنی‌ ہاشمی خمینى‌، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ ہشتم، 1424ھ۔
  • انصاریان، حسین، عرفان اسلامی، قم، دارالعرفان، 1386ہجری شمسی۔
  • پایندہ ابوالقاسم، نہج الفصاحہ، قم، دارالعلم، 1387ہجری شمسی۔
  • تمیمی آمدی، عبدالواحد بن محمد، غرر الحکم و درر الکلم، تصحیح سید مہدی رجائی، قم، دارالکتاب الاسلامی، چاپ دوم، 1410ھ۔
  • جعفر بن محمد، امام صادق(ع) (منسوب)، مصباح الشریعۃ، بیروت، اعلمی، چاپ اول، 1400ھ۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن‏، وسائل الشیعہ، قم، مؤسسۃ آل البیت علیہم‌السلام‏، 1409ھ۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن‏، ہدایۃ الامۃ الی احکام الائمۃ، بنیاد پژوہش‌ہای اسلامی آستان قدس رضوی، 1412ھ۔
  • حکیم، سید محسن، مستمسک العروۃ الوثقی، قم، مؤسسۃ دارالتفسیر، 1374ہجری شمسی۔
  • حکیم، سید محمد سعید، مصباح المنہاج کتاب الصوم، قم، دارالہلال، 1425ھ۔

‌* راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن، بیروت - دمشق، دارالقلم - الدار الشامیۃ، چاپ اول، 1412ھ۔

  • راوندی، قطب ‌الدین، الدعوات، مدرسۃ الامام المہدی(عج)، 1366ہجری شمسی۔
  • رضایی،‌ علی، «روزہ ‌داری و سلامت از نگاہ پزشکی»، پایگاہ اطلاع رسانی حوزہ، تاریخ بازدید:‌ 16 اردیبہشت 1399ہجری شمسی۔
  • «روزہ کلہ گنجشکی چگونہ گرفتہ می‌ شود»، وبگاہ باشگاہ خبرنگاران جوان، تاریخ درج مطلب: 6 اردیبہشت 1399ہجری شمسی، تاریخ بازدید:‌ 16اردیبہشت 1399ہجری شمسی۔
  • سبزواری، سید عبدالاعلی، مہذب الاحکام، قم، مؤسسۃ المنار، 1413ھ۔
  • سید مرتضی، علی بن حسین، جمل العلم و العمل، نجف، مطبعۃ الآداب‌، چاپ اول، 1387ھ۔
  • شہید اول، محمد بن مکی، الدروس الشرعیۃ فی فقہ الامامیۃ، قم، دفتر انتشارات اسلامی،‌ چاپ دوم، 1417ھ۔
  • صدوق، محمد بن علی، عیون أخبار الرضا(ع)، تحقیق مہدی لاجوردی، تہران، نشر جہان، چاپ اول، 1378ھ۔
  • صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، تحقیق علی‌اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1413ھ۔
  • طباطبایی یزدی، سید محمد کاظم، العروۃ الوثقی(محشی)، قم، دفتر انتشارات اسلامی،‌ چاپ اول، 1419ھ۔
  • طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر نشر اسلامی.
  • طبرسی، حسن بن فضل، جوامع الجامع، تحقیق مؤسسہ نشر اسلامی، قم، جامعہ مدرسین.
  • طبرسی، حسن بن فضل، مکارم الاخلاق، قم، انتشارات شریف رضی، چاپ چہارم، 1412ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، الامالی، قم، دار الثقافہ، چاپ اول، 1414ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف بن مطہر، تذکرۃ الفقہا، قم، مؤسسۃ آل البیت(ع)، چاپ اول، 1414ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف بن مطہر، منتہی المطلب فی تحقیق المذہب، مشہد، مجمع البحوث الاسلامیہ، چاپ اول، ‌1412ھ۔
  • عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر عیاشی، تصحیح سیدہاشم رسولی محلاتی، تہران، المکتبۃ العلمیۃ، چاپ اول، 1380ھ۔
  • فراہیدی، خلیل بن احمد، کتاب العین، قم، ہجرت،‌ چاپ دوم، 1419ھ۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر قمی، تصحیح طیب موسوى جزائرى، قم، دارالکتاب، چاپ سوم، 1404ھ۔

‌* «کاہش 5 تا 33 در صدی جرایم در ماہ رمضان»، پایگاہ خبری آفتاب،‌ تاریخ درج مطلب: 26 تیر 1392ہجری شمسی، تاریخ بازدید: 16 اردیبہشت 1399ہجری شمسی۔

  • کلینی، محمد بن یعقوب‏، الکافی، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، دار احیاء ‌التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • محقق حلی، جعفر بن حسن، شرایع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، قم، اسماعیلیان، چاپ دوم، 1408ھ۔
  • محمدی ری ‌شہری، محمد، میزان الحکمہ، دارالحدیث، 1416ھ۔
  • مؤسسۃ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ مطابق مکتب اہل بیت علیہم‌ السلام، قم، مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، چاپ دوم، 1385ہجری شمسی۔
  • نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، بیروت، دار احیاء‌التراث العربی، چاپ ہفتم، 1404ھ۔
  • «نظر مراجع عظام تقلید پیرامون روزہ‌داری با ضعف جسمانی»، خبرگزاری رسمی حوزہ، تاریخ درج مطلب: 16 تیر 1393ہجری شمسی، تاریخ بازدید: 16 اردیبہشت 1399ہجری شمسی۔
  • نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل، قم، مؤسسہ آل‌البیت(ع)، چاپ اول، 1408ھ۔
  • یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، بیروت، دار صادر، بی‌تا.
  • «Fasting», Encyclopedia Iranica، تاریخ بازدید: 16 اردیبہشت 1399ہجری شمسی۔