بلوغ

ویکی شیعہ سے

بلوغ(بلوغت)، شریعت اسلام کی روشنی میں بچہ کا عمر کے اس حد تک پہنچنا جس میں دین کے واجب احکام پر عمل کرنا اور محرمات سے پرہیز کرنا اس پر واجب ہو جاتا ہے۔ بلوغت کی پہچان کا طریقہ یہ ہے کہ جب بھی لڑکے میں درج ذیل علامتوں میں سے کوئی ایک علامت ظاہر ہو جائے تو وہ بالغ شمار ہوتا ہے: احتلام، شرمگاہ کی اطراف میں سخت بالوں کا اگ آنا اور پندرہ سال مکمل کر کے سولہویں سال میں داخل ہو جانا۔

روایات میں تاکید ہوئی ہے کہ اولاد کو بالغ ہونے سے پہلے ہی واجبات شرعیہ کا پابند بنا دیا جائے اور انہیں شرعی ذمہ داریوں کو انجام دینے کی ترغیب دی جائے۔ بلوغت سے پہلے صرف لوگوں کے مالی حقوق کی ادائیگی کا فریضہ عائد ہوتا ہے کہ بچہ کا ولی اس کی بلوغت سے پہلے اس حق کو ادا کرے ورنہ بلوغت کے بعد خود لڑکے پر اس حق کی ادائیگی واجب ہے۔

بلوغت کے دوران نوجوان کے جسم اور روح دونوں میں ہی غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں مثلا جنسی شہوت کا پیدا ہونا، خاندان کے دیگر افراد سے ہماہنگ نہ ہو پانا اور جدید نظریات کا پیدا ہونا وغیرہ۔

مفہوم شناسی

عربی لغت میں بلوغ کے معنی ہیں کسی چیز تک پہنچنا، کسی مقصد تک پہونچنا، کامل ہونا، پھلوں کا درخت پر پک جانا اور بچہ کا منزل کمال تک پہنچ جانا؛[1] اور فقہی اصطلاح میں بلوغت کا مفہوم یہ ہے کہ بچہ طبیعی طور پر عمر کے اس مرحلہ تک پہنچ جائے کہ اس میں جنسی شہوت بیدار ہوجائے، جسم و روح میں مختلف تبدیلیاں پیدا ہوجائیں اور بچہ عقل و شعور کی منزل پر فائز ہو جائے جس طرح دیگر مرد اور عورتیں معاشرے میں عقل و شعور سے بہرہ مند ہیں۔ شریعت میں بلوغت کا مفہوم یہ ہے کہ بچہ عمر کے اس مرحلہ تک پہنچ جائے جب اس پر دین کے احکام اور واجبات کی پابندی عائد ہوتی ہے۔

شریعت میں بلوغت کی اہمیت اسی بنا پر ہے کہ بچہ شرعی ذمہ داریوں کا پابند ہو جاتا ہے۔ دین کے احکام کا تعلق اس کی ذات سے شروع ہو جاتا ہے۔ اسی لئے بلوغت کو سن تکلیف بھی کہا جاتا ہے۔

قرآن میں بلوغت کی قسمیں

قرآن مجید میں بلوغت کے لئے تین الفاظ استعمال ہوئے ہیں بلوِغِ نکاح،[2] بلوغِ حٔلٔم[3] اور بلوغِ اشٔد۔[4]

اکثر مفسرین کے نزدیک بلوغِ نکاح سے مراد انسان کا جسمانی اعتبار سے شادی کی توانائیوں تک پہنچ جانا ہے۔ لیکن بعض مفسرین کے نزدیک اس سے مراد احتلام ہے۔[5] بلوغِ حٔلٔم سے مراد تمام مفسرین کے نزدیک جنسی اعتبار سے بالغ ہونا ہے۔[6] بلوغِ اشٔد سے مراد اکثر مفسرین کی نگاہ میں جسم اور عقل کی توانائیوں کا کامل ہو جانا ہے۔[7]

بعض روایات میں مذکورہ تیںوں الفاظ سے احتلام ہی مراد لیا گیا ہے۔[8]

بلوغت کی علامات

فقہ میں بنیادی طور پر بلوغت کی پانچ علامتیں بیان کی گئی ہیں جن میں سے تین علامتیں علماء کے نزدیک لڑکے اور لڑکی کے درمیان مشترک ہیں اور وہ یہ ہیں: احتلام، شرمگاہ کی اطراف میں سخت بالوں کا اگ آنا اور عمر کا مخصوص مرحلہ طے کرنا۔ ان تینوں علامتوں میں سے جو بھی پہلے ظاہر ہو جائے وہی بلوغت کے لئے کافی ہے اور اسی کی بنا پر بچہ بالغ کہلائے گا۔

  1. احتلام: یعنی منی کا خارج ہونا۔ آیات[9] اور روایات[10] کی روشنی میں تمام علماء کی نظر میں منی کا خارج ہونا بلوغت کی علامت ہے۔[11] چاہے نیند میں خارج ہو یا بیداری میں؛ منی کے نکلنے کے بعد انسان پر غسل جنابت واجب ہو جاتا ہے۔
  2. شرمگاہ کی اطراف میں سخت بالوں کا اگ آنا: شیعہ اور اہل سنت دونوں کی فقہ میں متعدد روایات کی بنا پر یہ بھی بلوغت کی علامت ہے۔ اگرچہ فقہ حنفی میں اسے بلوغت کی علامت نہیں مانا گیا ہے۔[12]
  3. سنِ بلوغت تک پہنچنا: لڑکے کا ایک مخصوص عمر تک پہنچنا روایات کی روشنی میں بلوغ کی علامت ہے چاہے ابھی اس کی منی خارج نہ ہوتی ہو، پھر بھی تمام شرعی واجبات کا انجام دینا اس پر واجب ہے۔[13]

لڑکیوں کی بلوغت کی مخصوص علامت

شریعت اسلام میں لڑکیوں کے بالغ ہونے کی مخصوص علامت بیان ہوئی ہے، پہلی بار حیض کا آنا اور پہلی بار حاملہ ہونا۔ مشہور شیعہ مجتہدین کی نظر اور بعض مکاتب اہل سنت مثلا مکتب حنبلی میں پہلا حیض اور پہلا حمل اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ لڑکی پہلے ہی بالغ ہو چکی ہے۔ شاید اسی بنا پر بعض مجتہدین نے حمل کو علامات بلوغت میں شمار نہیں کیا ہے۔[14]

سن تکلیف یا بلوغت

لڑکوں کی بلوغت کی حد

مشہور شیعہ مجتہدین کی نظر میں، لڑکوں کی بلوغت کا زمانہ قمری اعتبار سے عمر کے پندرہ سال (عیسوی سال کے لحاظ سے 14 سال 6 مہینے پورے ہونے کے بعد لڑکا بالغ ہوجاتا ہے) کا مکمل ہونا ہے۔[15] لیکن بعض مجتہدین نے پندرہ سال کے آغاز کو ہی زمانہ بلوغت قرار دیا ہے اور بعض نے چودہ سال کے آغاز کو،[16] مجتہدین کے اس اختلاف کا راز خود روایات کا اختلاف ہے۔ بعض مجتہدین نے روایات کو مختلف انداز سے جمع کرنے کی کوشش کی ہے۔[17] اسی طرح چند روایات اور فتاوی میں زمانہ بلوغت، دس سال اور آٹھ سال بھی ذکر ہوا ہے۔ ان دونوں مدتوں کو اکثر مجتہدین نے بلوغت کی علامت قرار دینے کے بجائے حقوق الناس یعنی لوگوں کے حقوق کے بہ نسبت ذمہ دار بننے کی علامت قرار دیا ہے۔[18]

لڑکیوں کی بلوغت کی حد

شیعہ مجتہدین کے مشہور فتوے کی بنا پر لڑکیوں کی بلوغت کا زمانہ قمری اعتبار سے عمر کے نو سال کا مکمل ہونا ہے اور قمری نو سال کی تکمیل، عیسوی آٹھ سال، آٹھ مہینے اور بیس دن میں ہوتی ہے۔[19][20]

بعض مجتہدین نے دس سال یا تیرہ سال پورے ہونے کو زمانہ بلوغ قرار دیا ہے۔[21][22] بعض مجتہدین اور چند معاصر علماء نے لڑکی کے نو سال میں بالغ ہونے پر اشکال کیا ہے۔ ان کے اشکال کا سبب یہ ہے کہ لڑکی نو سال کی عمر میں عقلی اور جسمانی اعتبار سے شریعت کے تمام فرائض پر عمل کرنے کی قدرت نہیں رکھتی۔[23] لہذا ان کی نظر میں نو سال میں لڑکی کے بالغ ہونے کا احتمال نہایت ہی ضعیف ہے۔ اسی لئے ملا محسن فیض کاشانی[24] اور چند علماء [25] نے روایات کے تعارض اور ٹکراؤ کو دور کرنے کی غرض سے کہا ہے کہ لڑکی کی بلوغت کا زمانہ شریعت کے الگ الگ فریضہ کے لحاظ سے مختلف ہے مثلا روزہ کے واجب ہونے کے لئے ضروری ہے کہ لڑکی کی عمر کے تیرہ سال مکمل ہوجائیں۔

لیکن ان علماء کے مذکورہ اشکال کا جواب بھی دیا گیا ہے کہ اگرچہ لڑکی کے زمانہ بلوغ کے بارے میں مجتہدین میں اختلاف ہے مگر پھر بھی اس مسئلہ میں سبھی کا اتفاق ہے کہ لڑکی کے بلوغ کا زمانہ شریعت کے تمام فرائض میں یکساں ہے۔[26] اس کے علاوہ یہ کہ اگر لڑکی نو سال کی عمر میں شریعت کے کچھ فرائض کی پابندی پر قادر نہیں ہے تو ایسے حالات کا حل شریعت کے بعض قوانین میں پایا جاتا ہے جیسے قانون نفی حرج اور قانون نفی ضرر (ان قوانین کا مفہوم یہ ہے کہ اگر انسان کو بعض حالات میں بعض قوانین شریعت کی پابندی سے غیر معمولی نقصان یا تکلیف کا اندیشہ ہے تو ایسے حالات میں ان قوانین کی پابندی ضروری نہیں) عقد و معاملہ کے بارے میں بھی معاملہ کے صحیح ہونے کی شرط ہی یہ ہے کہ انسان بلوغت کے ساتھ ساتھ عقل کی نعمت سے مکمل طور پر بہرہ مند ہو۔[27]

خلاصہ یہ ہے کہ متواتر احادیث اور مشہور فتؤوں کی روشنی میں لڑکی کی بلوغت کا زمانہ، قمری اعتبار سے عمر کے نو سال کا مکمل ہونا ہے۔ اور جن احادیث میں لڑکی کے بلوغ کا زمانہ اس سے مختلف ذکر ہوا ہے وہ احادیث ضعیف ہیں۔ اس بنا پر نو سال کے قول کو ہی صحیح تسلیم کرنا ہوگا۔[28]

اہل سنت کا نظریہ

شافعی اور حنبلی مسلک میں لڑکے اور لڑکی دونوں کی بلوغت کا زمانہ پندرہ سال کا مکمل ہونا قرار دیا گیا ہے۔ مالکی مسلک میں سترہ یا اٹھارہ سال قرار دیا گیا ہے۔ اگرچہ امام مالک کے بارے میں یہ بھی نقل کیا گیا ہے کہ وہ بنیادی طور پر بعض علماء کی طرح عمر کو بلوغت کی علامت نہیں سمجھتے تھے۔[29] امام ابو حنیفہ کے نزدیک لڑکی سترہ سال میں بالغ ہوتی ہے اور لڑکا سترہ یا اٹھارہ سال میں، لیکن امام ابو حنیفہ کے پیرو تمام علماء لڑکے اور لڑکی دونوں کو پندرہ سال مکمل ہونے پر بالغ سمجھتے ہیں۔[30] اہل سنت کے کچھ مصادر کے مطابق، مذکورہ مدتیں، بلوغت کی تکمیل ہے۔ ورنہ بلوغت کا آغاز لڑکوں میں بارہ سال کی عمر سے اور لڑکیوں میں نو سال کی عمر سے ہو جاتا ہے اور اس پوری مدت میں بچے کو اصطلاحی طور پر مراھق کہتے ہیں۔[31] فقہ مالکی میں گذشتہ علامتوں کے علاوہ آواز میں بھاری پن پیدا ہو جانے کو بھی بلوغ کی علامتوں میں ذکر کیا گیا ہے۔[32]

بلوغ میں عجلت یا دیر

کبھی کبھی لڑکے اور لڑکیاں جسمانی اعتبار سے اپنے ہم عمر دیگر لڑکوں اور لڑکیوں کی بہ نسبت جلدی بالغ ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح سے کبھی کبھی وہ اپنے ہم عمر لڑکوں اور لڑکیوں کی بہ نسبت دیر سے بالغ ہوتے ہیں[33] اور زیادہ تر ایسا لڑکوں میں ہوتا ہے کہ وہ جسمانی اعتبار سے جلدی بالغ ہو جاتے ہیں اور لڑکیاں دیر سے بالغ ہوتی ہیں۔ اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر لڑکے میں سترہ سال کی عمر تک بلوغ کی علامتیں ظاہر نہ ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جسمانی اعتبار سے اس کی بلوغت میں تاخیر ہوگئی ہے۔[34]

اور بلوغت کے جلدی یا دیر سے ظاہر ہونے میں عام طور سے انسان کے خاندانی اور موروثی حالات کا دخل ہوتا ہے۔ جس طرح اس کی خوراک بھی اس کی بلوغت میں عجلت یا تاخیر کا سبب ہوتی ہے۔ یہ تمام چیزیں انسان کے بدن میں ہارمونز کے کم یا زیادہ ہونے کا سبب بنتی ہیں۔ مثال کے طور پر وٹامن ای کا بدن میں صحیح مقدار میں ہونا زیادہ تر بلوغت کے جلدی رونما ہونے کا سبب بنتا ہے۔ اسی طرح بلوغ کے جلدی رونما ہونے کا ایک سبب، جنسی تصاویر، فلموں اور معاشرہ میں شہوت کو ابھارنے والے مناظر کا دیکھنا ہے۔[35]

آب و ہوا کی تاثیر کے بارے میں بعض ماہرین کا نظریہ یہ ہے کہ بلوغت آب و ہوا کی بہ نسبت انسان کی غذا، حفظان صحت کے اصولوں اور سماجی حالات سے زیادہ تعلق ہے۔ عام طور پر معتدل آب و ہوا بلوغت کے جلدی ظاہر ہونے کا سبب بنتے ہیں۔[36]

شریعت کا حکم یہ ہے کہ لڑکا یا لڑکی کسی وجہ سے اگر پندرہ اور نو سال سے پہلے بالغ ہو جائے تو اس پر واجب ہے شرعی فرائض کو انجام دے اور اس کے لئے پندرہ اور نو سال کی تکمیل کا انتظار کرنا جائز نہیں ہے۔

نابالغوں کی شرعی ذمہ داریاں

شیعہ مجتہدین کے مشہور فتوے کی بنا پر اور اہل سنت کے بعض مکاتب میں زیادہ تر اعمال کے صحیح ہونے میں بلوغت شرط نہیں ہے۔ اسی بنا پر روایات میں بچوں کو بھی نماز، روزہ اور حج کی ترغیب دلانے کی تاکید کی گئی ہے۔ ان روایات کی روشنی میں ممیز بچے کے نیک اعمال کو شریعت کی نظر میں معتبر قرار دیتے ہوئے خود بچے اور اس کے سرپرست کے لئے باعث ثواب مانا گیا ہے۔ اگرچہ بعض مجتہدین نے بچے کے اعمال کو شرعی حیثیت دینے کے بجائے صرف اس کی تربیت اور عادت کا سبب قرار دیا ہے تاکہ بچے میں بلوغت سے پہلے ہی شرعی فرائض کو انجام دینے کی مکمل صلاحیت پیدا ہو جائے۔[37]

جو بچہ ابھی ابھی بالغ ہوا ہے وہ اگر شرعی طور پر معاملات انجام دینا چاہے تو اس کے لئے شریعت میں بلوغ کے ساتھ ساتھ ایک شرط یہ بھی ہے کہ عقل کے اعتبار سے اس میں معاملات کو انجام دینے کی مکمل صلاحیت پائی جائے۔ اس صلاحیت کو اصطلاح میں رٔشد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ شریعت کا یہ حکم قرآن مجید کے سورہ نساء کی آیت نمبر 6 اور کچھ روایات سے ماخوذ ہے۔[38]

بلوغت کے فقہی و حقوقی آثار

شرعی فرائض کے وجوب اور عقد و معاملات کی صحت و درستگی کے علاوہ بھی انسان کی زندگی کے بہت سے مسائل میں شریعت کی نظر میں بلوغت کو اہمیت حاصل ہے مثلا قضاوت میں قاضی، مدعی، گواہ اور جرائم کا اقرار کرنے والے کے لئے بالغ ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح پیش نماز کا بالغ ہونا بھی ضروری ہے اور حکومت کے کسی منصب کو سنبھالنے کے لئے بھی اسلام میں بلوغت شرط ہے۔[39] نابالغ بچوں اور ممنوع التصرف (محجور) افراد کی سرپرستی کے لئے بھی بالغ ہونا شرط ہے۔[40] اس کے علاوہ، حد اور قصاص کا حکم نافذ کرنے کے لئے بھی مجرم کا بالغ ہونا ضروری ہے لیکن تعزیر کے لئے بالغ ہونا شرط نہیں ہے۔ (لہذا اگر مجرم نابالغ ہے تو اسے تعزیر کی جا سکے گی۔)[41]

شیعہ اور اہل سنت کے فقہاء کا مشہور نظریہ یہ ہے کہ بہت سے وضعی احکام بالغوں سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ ان احکام کا تعلق نابالغوں سے بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ ارث کے قوانین، دیت، کسی چیز کو نقصان پہنچانے کی صورت میں اس کی ضمانت، چوری کی ضمانت، ضمانت خیانت، ولایت بر قصاص اور شٔفعہ جیسے بے شمار احکام نابالغوں سے بھی متعلق ہوتے ہیں۔ یعنی یہ حالات بچے میں پیدا ہوتے ہی ان احکام کی اہلیت بھی پیدا ہو جاتی ہے اور اس کی بلوغت کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔[42] اگرچہ بلوغت سے پہلے ان تمام امور کو انجام دینے کا اختیار بچہ کے ولی (سرپرست) کو حاصل ہے اور بلوغ کے بعد خود بچہ کو۔ لہذا اگر بچہ کا کوئی حق کسی کی گردن پر ہو اور بلوغ سے پہلے اس کے ولی نے اس کا حق نہ لیا ہو تو بلوغ کے بعد بچہ خود اپنا حق لے سکتا ہے۔ اسی طرح اگر خود بچہ کی گردن پر کسی کا حق ہو اور بلوغ سے پہلے اس کے ولی نے وہ حق ادا نہ کیا ہو تو بلوغت کے بعد خود بچہ پر اس حق کی ادائیگی واجب ہے۔[43]

حوالہ جات

  1. راغب اصفہانی؛ ابن فارس؛ فیروزآبادی؛ ابن منظور؛ طُرَیحی؛ فیومی، ذیل «بلغ”
  2. نساء:6
  3. نور:58ـ59
  4. یوسف :22؛ انعام :152؛ قصص :14؛ احقاف :15؛ اسراء:34 اور دیگر آیات
  5. طباطبائی؛طبرسی؛ زمخشری، ذیل نساء: 6
  6. همان منابع، ذیل نور: 58 ـ59
  7. وہی منابع، ان ہی آیات کے ذیل میں؛ ان تین اصطلاحات کے بارے میں؛ سبحانی، ص7ـ14
  8. مجلسی، ج 100، ص161ـ 165؛ حر عاملی، ج 1، ص42، ج 18، ص409، 412؛ بروجردی، ج 1، ص350ـ 355
  9. جیسے سورہ نور: 58 ـ59
  10. جیسے حدیث معروف رفع قلم: «رُفِعَ القَلَمُ عَنِ الثّلاثِ ... عَنِ الصّبی حتّی یحتَلِمَ زحیلی، ج 5، ص423؛ حر عاملی، ج 1، ص42ـ46؛ مجلسی، وہی
  11. طوسی، 1387، ج 2، ص282؛ نجفی، ج 9، ص240؛ بحرانی، ج 20، ص345؛ فقیه، وہی
  12. ابن قدامه، ج 4، ص514؛ نجفی، ج 9، ص237ـ 238؛ طوسی، 1387، ج 2، ص282ـ 283؛ بحرانی، ج 20، ص346؛ شہید ثانی، ج 2، ص144
  13. حر عاملی، ج 1، ص43؛ بروجردی، ج 1، ص350،353
  14. محقق حلی، ج 2، ص85؛ نجفی، ج 9، ص261ـ263؛طوسی، 1387، ج 2، ص283؛ امام خمینی، وہیں؛ خوئی، 1397، وہیں
  15. محقق حلّی، ج 2، ص85؛ حر عاملی، ج 1، ص42ـ46، ج 18، ص410ـ411؛ بروجردی، ج 1، ص350ـ 351؛ امام خمینی، ج 2، ص12، مسئلہ 3؛ نجفی، ج 9، ص243؛ بحرانی، ج 20، ص348؛ طوسی، 1387، وہیں؛ سبحانی، ص21ـ23؛ مہریزی، ص326
  16. بحرانی، ج 20، ص350؛ مقدس اردبیلی، ج 9، ص190ـ191؛ نجفی، ج 9، ص252
  17. سبحانی، ص33ـ36
  18. محقق حلی، ج 2، ص155، 167؛ بحرانی، ج 20، ص349؛ نجفی، ج 9، ص251ـ257؛ فقیہ، ص17؛ سبحانی، ص32؛ مہریزی، ص232ـ254، 358ـ364
  19. حر عاملی، وہیں؛ بروجردی، ج 1، ص350ـ355؛ محقق حلی، ج 2، ص85؛ نجفی، ج 9، ص258؛ بحرانی، ج 20، ص348؛ امام خمینی، وہیں؛ خوئی، 1397، ج 2، ص197؛ انصاری، 1413، ص212
  20. سبحانی، ص43ـ56
  21. جیسے طوسی، 1387، ج 1، ص266؛ بحرانی، ج 20، ص349؛ نجفی، وہیں
  22. سبحانی، ص64ـ71؛ مہریزی، ص165ـ173، 342ـ353؛ نجفی، ج 9، ص258ـ259؛ انصاری ؛ بحرانی، وہیں
  23. مهریزی، ص100، 114ـ 118، 174ـ 175
  24. ج 1، ص16
  25. سبحانی، ص79ـ80
  26. مہریزی، ص396
  27. گرامی، ص3،7؛ مہریزی، ص388، 414
  28. سبحانی، ص66ـ71، 73ـ 78، 80 ـ81
  29. طوسی، 1407ـ1411، ج 3، ص283؛ ابن قدامہ، ج 4، ص514
  30. ابن قدامہ، ج 4، ص514ـ515؛ جزیری، ج 2، ص350؛ زحیلی، ج 5، ص423ـ424
  31. جس کے آثار ہوتے ہیں۔ زحیلی، ج 5، ص423؛ زرقاء، ص779
  32. زحیلی، ج 5، ص424؛ جزیری، وہیں
  33. بلوغ تولد جدید، ص47
  34. بلوغ تولد جدید، ص49
  35. احمد صبور اردوبادی، بلوغ، ص150ـ149
  36. سید احمد احمدی، روان شناسی نوجوانان و جوانان، ص21
  37. انصاری، 1416، ص114ـ115؛ خوئی، 1371 ہجری شمسی، ج 3، ص241ـ244؛ مراغی، عنوان 84، ج 2، ص664ـ672؛ نجفی، ج 6، ص122؛ بحرانی، ج 13، ص53؛ زحیلی، ج 1، ص565، ج 2، ص612، ج 3، ص20، 23، ج 4، ص122؛ برای احادیث حر عاملی، ج 4، ص18ـ22، ج 10، ص233ـ237
  38. زحیلی، ج 4، ص125؛ جزیری، ج 2، ص353؛ نجفی، ج 9، ص267؛ حر عاملی، ج 18، ص409ـ412، ج 19، ص370ـ371؛ امام خمینی، ج 2، ص12، مسئلہ 4؛ خوئی، 1397، وہیں؛ طبرسی، ذیل سورہ نساء: 6
  39. محقق حلی، ج 4، ص59، 91، 97، 114، 138، 146، 148، 151ـ 152، 163، 201، 203؛ نجفی، ج 14، ص308ـ310؛ زحیلی، ج 6، ص88، 481، 562، 693، 743، 773، 779، ج 7، ص74
  40. زحیلی، ج 7، ص726، 747، 751؛ شہید ثانی، ج 5، ص458ـ463؛ نجفی، ج 10، ص442
  41. زحیلی، ج 6، ص23ـ24، 185، 265؛ محقق حلی، ج 4، ص137، 159، 170، 180، 200
  42. مراغی، عنوان 83، ج 2، ص660؛ انصاری، 1416، ص114
  43. اس نکتہ کے فقہی مستند کے لئے نجفی، ج 10، ص467ـ468، ج 13، ص166ـ167، ج 15، ص181؛ محقق حلّی، ج 3، ص201، ج 4، ص214ـ215؛ طباطبایی یزدی، ج 2، ص866، مسئلہ 6؛ خوئی، 1371 ش، ج 3، ص262؛ زحیلی، ج 4، ص378ـ379، ج 7، ص350

مآخذ

  • ابن فارس، معجم مقاییس اللغة، چاپ عبد السلام محمد ہارون، قم 1404ھ۔
  • ابن قدامه، المغنی، بیروت 1403/1983ھ۔
  • ابن منظور، لسان العرب، چاپ علی شیری، بیروت 1412/1992ھ۔
  • مرتضی بن محمد امین انصاری، کتاب الصّوم، قم 1413ھ۔
  • مرتضی بن محمد امین انصاری، کتاب المکاسب، چاپ افست قم 1416ھ۔
  • یوسف بن احمد بحرانی، الحدائق الناضرة فی احکام العترة الطاہرة، قم 1363ـ1367ہجری شمسی۔
  • حسین بروجردی، جامع احادیث الشیعه، قم 1399ہجری شمسی۔
  • عبد الرحمان جزیری، کتاب الفقه علی المذاہب الاربعة، استانبول 1404/1984ھ۔
  • محمد ابراهیم جنّاتی، «بلوغ از دیدگاه فقه اجتهادی”، کیهان اندیشه، ش 61 (مرداد و شهریور 1374ہجری شمسی)۔
  • محمد بن حسن حر عاملی، وسائل الشیعة الی تحصیل مسائل الشریعة، قم 1409ـ1412ھ۔
  • روح الله خمینی، رہبر انقلاب و بنیانگذار جمہوری اسلامی ایران، تحریر الوسیلة، قم 1363ہجری شمسی۔
  • ابو القاسم خوئی، مصباح الفقاہة، قم 1371ہجری شمسی۔
  • ابو القاسم خوئی، منهاج الصالحین، نجف 1397ھ۔
  • حسین بن محمد راغب اصفہانی، المفردات فی غریب القرآن، چاپ محمد سید کیلانی، بیروت ( بی‌تا.)
  • وہبه مصطفی زحیلی، الفقه الاسلامی و ادلّته، دمشق 1409/1989ھ۔
  • مصطفی احمد زرقاء، المدخل الفقهی العام، دمشق 1387/1968ھ۔
  • محمود بن عمر زمخشری، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، بیروت ( بی‌تا.)
  • جعفر سبحانی، البلوغ والتلیه رسالة فی تأثیر الزمان و المکان الی استنباط الاحکام، قم 1418ھ۔
  • زین الدین بن علی شہید ثانی، الروضة البہیة فی شرح اللمعة الدمشقیہ، چاپ محمد کلانتر، بیروت 1403/1983ھ۔
  • محمد حسین طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت 1390ـ1394/ 1971ـ1974ء۔
  • محمد کاظم بن عبد العظیم طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، بیروت 1404/1984ھ۔
  • فضل بن حسن طبرسی، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، چاپ ہاشم رسول محلاتی و فضل الله یزدی طباطبائی، بیروت 1408/1988ھ۔
  • فخر الدین بن محمد طریحی، مجمع البحرین، چاپ احمد حسینی، تهران 1362ہجری شمسی۔
  • محمد بن حسن طوسی، کتاب الخلاف، قم 1407ـ1411ھ۔
  • محمد بن حسن طوسی، المبسوط فی فقه الامامیہ، ج 2، چاپ محمد تقی کشفی، تہران 1387ھ۔
  • یوسف فقیه، الاحوال الشخصیة فی فقه اہل البیت(ع)، بیروت 1409/1989ھ۔
  • محمد بن یعقوب فیروز آبادی، القاموس المحیط، بیروت 1407/1987ھ۔
  • محمد بن شاه مرتضی فیض کاشانی، مفاتیح الشرائع، چاپ مہدی رجائی، قم 1401ھ۔
  • احمد بن محمد فیومی، المصباح المنیر فی غریب الشرح الکبیر، بیروت ( بی‌تا.)
  • محمد علی گرامی، «پژوہش در بلوغ دختران”، کیہان اندیشہ، ش 66 (خرداد و تیر 1375ہجری شمسی)۔
  • محمد باقر بن محمد تقی مجلسی، بحار الانوار، بیروت 1403/1983ھ۔
  • جعفر بن حسن محقق حلّی، شرایع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، قم 1408ھ۔
  • عبدالفتاح بن علی مراغی، العناوین (عناوین الاصول)، قم 1418ھ۔
  • احمد بن محمد مقدس اردبیلی، مجمع الفائدة و البرہان فی شرح ارشاد الاذہان، ج 9، چاپ مجتبی عراقی، قم 1414ھ۔
  • مہدی مہریزی، بلوغ دختران: مجموعہ مقالات، قم 1376ہجری شمسی۔
  • محمد حسن بن باقر نجفی، جواہرالکلام فی شرح شرائع الاسلام، بیروت 1412/1992ھ۔
  • احمد صبور اردو بادی، بلوغ۔
  • سید احمد احمدی، روان شناسی نوجوانان و جوانان۔
  • محمد تقی فلسفی، بزرگسال و جوان۔
  • جان براد شاد، من ـ کودک ـ من، ترجمه دکتر داود محب علی۔