مبطلات روزہ

ویکی شیعہ سے

مُبطِلات روزہ یا مُفْطِرات ان امور کو کہا جاتا ہے جن کی انجام دہی روزے کو باطل کرتی ہے۔ مبطلات روزہ میں درج ذیل امور شامل ہیں: کھانا، پینا، ہمبستری، استمنا، قے کرنا، پورے سر کو پانی میں ڈبونا، غلیظ غبار کا حلق تک پہنچانا،مایع چیزوں کے ساتھ امالہ کرنا، جنابت اور حیض و نفاس کی حالت میں اذان فجر تک باقی رہنا، خدا، پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومینؑ کی طرف جھوٹی نسبت دینا۔

جان بوجھ کر مبطلات روزہ کا مرتکب ہونے کو فقہاء حرام سمجھتے ہیں اور اس سے کفارہ واجب ہوتا ہے۔

تعریف اور اقسام

مُبطِلات روزہ ان امور کو کہا جاتا ہے جن کی انجام دہی روزے کو باطل کرتی ہے۔ فقہی کتابوں میں انہیں "مُفطِرات" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔[1] فقہا مبطلات روزہ میں جان بوجھ کر مرتکب ہونے کو حرام سمجھتے ہیں،[2] اور اگر بھولے سے یا زبردستی ان مبطلات کا مرتکب ہوجائے تو روزہ باطل نہیں ہوتا ہے۔[3]

درج ذیل امور کو فقہا نے مبطلات روزہ میں سے شمار کیا ہے:

  1. کھانا اور پینا
  2. مباشرت
  3. استمناء
  4. خدا، پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومینؑ کی طرف جھوٹی نسبت دینا
  5. غلیظ غبار کا حلق تک پہنچانا
  6. پورے سر کو پانی میں ڈبونا۔ بعض فقہاء اسے مبطلات روزہ میں سے قرار نہیں دیتے۔[4]
  7. اذان صبح تک جنابت اور حیض و نفاس کی حالت میں باقی رہنا۔ مجنب اور حیض و نفاس سے پاک ہونے والے پر ضروری ہے کہ اذان صبح سے پہلے غسل کرے اگر اذان صبح تک غسل نہ کرے تو اس کا روزہ باطل ہے۔
  8. مایع چیزوں کے ساتھ امالہ کرنا
  9. قے کرنا[5]
  10. روزہ باطل کرنے کی نیت کرنا۔[6]

روزے کی حالت میں سفر کرنا حرام نہیں ہے،[7] لیکن اگر ظہر سے پہلے وطن یا اس جگہ نہ پہنچے جہاں دس دن ٹھہرنے کا قصد ہے تو اس دن کا روزہ باطل ہوگا۔[8]

کھانا اور پینا

فقہاء کے فتوے کے مطابق اگر جان بوجھ کر کوئی چیز کھائے یا پئے تو روزہ باطل ہو جاتا ہے لیکن اگر کوئی شخص بھول کر کوئی چیز کھائے یا پئے تو روزہ باطل نہیں ہوگا۔[9] بعض مراجع تقلید جیسے امام خمینی، آیت اللہ مکارم شیرازی، آیت اللہ بہجت اور آیت اللہ شبیری زنجانی تقویتی انجکشن لگانے کو روزے کی حالت میں بطور احتیاط جائز نہیں سمجھتے؛ لیکن دوسرے مجتہدین جیسے آیت اللہ خویی، آیت اللہ سیستانی، آیت اللہ تبریزی اور آیت اللہ صافی گلپایگانی کہتے ہیں کہ انجکشن چاہے تقویتی ہو یا غیر تقویتی روزے کو باطل نہیں کرتا ہے۔[10]

پیاس کی شدت

اکثر شیعہ فقہاء کے مطابق اگر روزہ ‌دار کو بہت زیادہ پیاس لگے جو قابل برداشت نہ ہو تو پیاس کی شدت کو ختم کرنے کی حد تک پانی پی سکتا ہے۔[11] پیاس کی شدت کے باعث پانی پینے والے شخص کے بارے میں مجتہدین دو قسم کے فتوے دیتے ہیں: بعض مجتہدین جو اس حالت میں پانی پینے کو جائز سمجھتے ہیں وہ کہتے ہیں اس شخص کا روزہ باطل ہو جاتا ہے اس کے باوجود اس کو اذان مغرب تک مبطلات روزہ سے پرہیز کرنا چاہئے اور بعد میں قضا بھی رکھنا ضروری ہے۔[12] ان کے مقابلے میں بعض کہتے ہیں کہ اس حالت میں ضرورت کی حد تک پانی پینے کے باوجود اس کا روزہ صحیح ہے لہذا بعد میں قضا رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔[13]

جنسی خواہشات

درج ذیل جنسی خواہشات روزے کو باطل کرتی ہیں:

جماع

جِماع یا مباشرت اگرچہ منی خارج نہ بھی ہو روزے کو باطل کرتی ہے۔ اس سلسلے میں قُبُل یا دُبُر (آگے اور پیچھے) میں کوئی فرق نہیں ہے اسی طرح اس حکم میں مرد اور عورت میں بھی کوئی فرق نہیں ہے۔[14]

استمناء

فقہاء استمناء (ایسا کام کرنا جس سے منی خارج ہو) کو بھی مبطلات روزہ میں سے قرار دیتے ہیں؛[15] البتہ فقہاء فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص منی خارج کرنے کی نیت کے بغیر ایسا کام کرے لیکن بغیر اختیار کے منی خارج ہو جائے تو اس کا روزہ‌ صحیح ہے۔[16]

اگر اپنی بیوی کے ساتھ ملاعبہ (چھیڑ چھاڑ) کی وجہ سے اچانک منی خارج ہو جائے تو روزہ باطل نہیں ہوتا؛ لیکن اگر کوئی شخص منی نکالنے کی قصد سے یا اس طرح اپنی بیوی کے ساتھ ملاعبہ کرے جس سے عموما منی خارج ہوتی ہے، اور منی بھی خارج ہو جائے تو اس کا روزہ باطل ہو جاتا ہے۔[17]

احتلام

احتلام (نیند میں منی خارج ہونا) روزے کے مبطلات میں سے نہیں ہے؛ لیکن اگر کسی شخص کو صبح کی اذان سے پہلے احتلام ہو جائے تو صبح کی اذان سے پہلے اس پر غسل جنابت کرنا واجب ہے۔[18] دن میں کسی وقت بھی احتلام ہونے کی صورت میں روزے کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔[19]

گرد و غبار اور دھواں

اکثر فقہاء کے مطابق اگر غلیظ گرد و غبار حلق تک پہچنے تو روزہ باطل ہو جاتا ہے۔[20] اس بنا پر سگریٹ اور حقہ پینے کو روزے کے مبطلات میں شمار کرتے ہیں۔[21] البتہ بعض فقہاء گرد و غبار کے حلق تک پہنچنے کو مبطلات روزہ میں شمار نہیں کرتے،[22] اس کے باوجود مذکورہ فقہاء بھی اس بات کے معتقد ہیں کہ احتیاط مستحب کے طور پر گرد و غبار اور سگریٹ نوشی وغیرہ سے روزہ باطل ہو جاتا ہے۔[23]

جھوٹ بولنا

جھوٹ بولنا اور اس طرح کے دوسرے گناہ جیسے غنا، نامحرم کی طرف نگاہ کرنا اور حسد وغیرہ اگرچہ حرام‌ ہیں اور روزے کی حالت میں ان کے کی گناہ میں مزید اضافہ ہوتا ہے،[24] لیکن ان کا اتکاب روزے کو باطل نہیں کرتی ہے۔[25] فقہاء کے مطابق صرف خدا، پیغمبر اسلامؐ اور ائمہ معصومینؑ کی طرف جھوٹی نسبت دینا روزے کی بطلان کا سبب بنتا ہے۔[26] فقہاء حضرت زہرا(س) اور دوسرے انبیاء اور ان کے جانشینوں کی طرف بھی جھوٹی نسبت دینے کو مبطلات روزہ میں شمار کرتے ہیں۔[27] محمد حسین کاشف‌ الغطاء خدا، پیغمبر اسلام اور ائمہ معصومین کی طرف جھوٹی نسبت دینے کو مبطلات روزہ میں شمار نہیں کرتے۔ آپ اس بات کے معتقد ہیں کہ یہ کام گناہان کبیرہ میں سے ہے اور دوسرے گناہوں کی طرح ماہ رمضان میں ان کے گناہوں میں اضافہ ہوتا ہے اس سے روزہ باطل نہیں ہوتا۔[28]

پورے سر کو پانی میں ڈبونا

بعض فقہاء پورے سر کو پانی میں ڈبونے کو روزے کے مبطلات میں سے قرار دیتے ہیں۔[29] اس بنا پر روزے کی حالت میں غسل ارتماسی صحیح نہیں ہے اور روزہ باطل ہونے کا موجب ہے۔[30] ان فقہاء کے مطابق اگر سر کا کچھ حصہ پانی سے باہر ہو تو روزہ صحیح ہے۔[31]

بعض دوسرے فقہاء روزے کی حالت میں سر کو پانی میں ڈبونے کو حرام قرار دیتے ہیں؛ لیکن اسے مبطلات روزہ میں شمار نہیں کرتے۔[32]

حوالہ جات

  1. ملاحظہ کریں: حلی، الجامع للشرایع، 1405ھ، ص155؛ کاشف ‌الغطا، انوار الفقاہہ، 1422ھ، ص12۔
  2. نجفی، جواهر الکلام، 1404ھ، ج16، ص226؛ خویی، موسوعة الإمام الخوئی، 1418ھ، ج21، ص305.
  3. یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج3، ص541-576.
  4. ملاحظہ کریں: یزدی، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج3، ص555، تعلیقات کاشف الغطاء، اصفہانی، آل ‌یاسین و جواہری؛ نیز شبیری زنجانی، رسالہ توضیح السمائل، ص305، مسئلہ 1617۔
  5. یزدی، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج3، ص541-576۔
  6. یزدی، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج3، ص539۔
  7. یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج3، ص624.
  8. بنی‌هاشمی خمینی، توضیح‌ المسائل سیزده‌مرجع، 1424ھ، ج1، ص954، م1722و1723.
  9. یزدی، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج3، ص541-543۔
  10. بنی ‌ہاشمی خمینی، توضیح ‌المسائل سیزدہ ‌مرجع، 1424ھ، ص892، 893۔
  11. حکیم، مستمسک العروۃ الوثقی، 1374ہجری شمسی، ج8، ص324؛ آملی، مصباح‌الہدی، 1380ھ، ج8، ص140، خمینی، استفتائات، دفتر نشر اسلامی، ج1، ص321۔
  12. ملاحظہ کریں: آملی، مصباح‌الہدی، 1380ھ، ج8، ص140؛ حکیم، مستمسک العروۃ الوثقی، 1374ہجری شمسی، ج8، ص324؛ سبزواری، مہذب الاحکام، 1413ھ، ج10، ص132۔
  13. ملاحظہ کریں: شہید اول، الدروس الشرعیہ، 1417ھ، ج1، ص276؛ حلی، منتہی‌ المطلب، 1412ھ، ج9، ص139؛ شیخ بہایی، التعلیقۃ علی الرسالۃ الصومیہ، 1427ھ، ص49-50؛ اردبیلی، مجمع ‌الفائدہ، 1403ھ، ج5، ص325-326؛ حکیم، مصباح‌المنہاج، 1425ھ، ص161؛ سبحانی، رسالہ توضیح‌ المسائل، مؤسسہ امام صادھ، مسئلہ 1256۔
  14. یزدی، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج3، ص543۔
  15. یزدی، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج3، ص546۔
  16. یزدی، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج3، ص548۔
  17. بہجت، استفتائات، 1428ھ، ج2، ص350؛ خمینی، استفتائات، 1422ھ، ج1، ص307۔
  18. یزدی، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج3، ص547۔
  19. یزدی،العروۃ الوثقی (مع تعلیقات الفاضل اللنکرانی)، مرکز فقہ الائمۃ الاطہار، ج2، ص23۔
  20. یزدی، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج3، ص553-554۔
  21. یزدی، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج3، ص554۔
  22. ملاحظہ کریں:‌ شبیری، رسالہ توضیح المسائل، 1430ھ، ص329، مسئلہ 1581۔
  23. ملاحظہ کریں:‌ شبیری، رسالہ توضیح المسائل، 1430ھ، ص334، مسئلہ 1612 و 1614۔
  24. کاشف‌ الغطاء، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج3، ص549۔
  25. ابن‌ ادریس، سرائر، 1410ھ، ج1، ص373-374۔
  26. یزدی، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج3، ص549۔
  27. ملاحظہ کریں: یزدی، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج3، ص550۔
  28. کاشف‌ الغطاء، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج3، ص549۔
  29. یزدی، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج3، ص555؛ بنی‌هاشمی خمینی، توضیح‌المسائل سیزده‌مرجع، 1424ھ، ج1، ص904.
  30. یزدی، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج3، ص559، مسئلہ 43۔
  31. یزدی، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج3، ص556، مسئلہ 33۔
  32. ملاحظہ کریں: یزدی، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج3، ص555، تعلیقات کاشف الغطاء، اصفہانی، آل‌ یاسین و جواہری؛ شبیری زنجانی، رسالہ توضیح‌ المسائل، ص305، مسئلہ 1617۔

مآخذ

  • ابن ‌ادریس، محمد بن منصور، السرائر الحاوی لتحریر لفتاوی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1410ھ۔
  • آملی، محمد تقی، م‍ص‍ب‍اح‌ ال‍ہ‍دی‌ ف‍ی‌ ش‍رح‌ ال‍ع‍روہ‌ ال‍وث‍ق‍ی‌، تہران، نشر مؤلف، 1380ھ۔
  • اردبیلی، احمد بن محمد، مجمع الفائدۃ و البرہان، قم، موسسۃ النشر الاسلامی، 1403ھ۔
  • بہجت، محمد تقی، استفتائات، قم، دفتر حضرت آیت‌اللہ بہجت، چاپ اول، 1428ھ۔
  • حکیم، سید محسن، مستمسک العروۃ الوثقی، قم، موسسۃ دار التفسیر، 1374ہجری شمسی۔
  • حکیم، سید محمد سعید، مصباح المنہاج کتاب الصوم، قم، دار الہلال، 1425ھ۔
  • حلی، حسن بن یوسف، منتہی المطلب فی تحقیق المذہب، مشہد، مجمع البحوث الاسلامیہ، ‌1412ھ۔
  • حلی، یحیی بن سعید، الجامع للشرائع، تصحیح جمعی از محققین تحت اشراف شیخ جعفر سبحانی، قم، موسسۃ سید الشہداء العلمیہ، 1405ھ۔
  • خمینی، سید روح ‌اللہ، استفتائات، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، 1422ھ۔
  • خوئی، سید ابو القاسم، العروۃ الوثقی مع التعلیقات، قم، موسسہ النشر الاسلامی، 1419ھ۔
  • سبحانی، جعفر، توضیح المسائل، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، بی‌تا۔
  • سبزواری، سید عبد الاعلی، مہذب الاحکام، قم، موسسۃ المنار، 1413ھ۔
  • سیستانی، سید علی، توضیح المسائل، مشہد، نشر ارسلان، 1386ہجری شمسی۔
  • شبیری زنجانی، سید موسی، رسالہ توضیح السمائل، قم۔
  • شہید اول، محمد بن مکی، الدروس الشرعیہ فی فقہ الامامیہ، قم، موسسہ النشر الاسلامی، 1417ھ۔
  • شیخ بہایی، محمد بن حسین، التعلیقہ علی الرسالۃ الصومیۃ، قم، موسسہ عاشورا، 1427ھ۔
  • فاضل لنکرانی، محمد،‌ توضیح المسائل، قم، چاپ 114، 1426ھ۔
  • کاشف‌ الغطا، حسن، انوارالفقاہہ، نجف، مؤسسہ کاشف‌الغطا، چاپ اول، 1422ھ۔
  • کاشف‌ الغطاء، محمد حسین، العروۃ الوثقی مع التعلیقات، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1419ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، توضیح المسائل، قم، مدرسۃ الامام علی بن ابی ‌طالب، 1378ہجری شمسی۔
  • یزدی، سید محمد کاظم، العروۃ الوثقی مع التعلیقات، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1419ھ۔
  • یزدی، سید محمد کاظم، العروۃ الوثقی، تعلیقات محمد فاضل موحدی لنکرانی، قم، مرکز فقہ الائمۃ الاطہار (علیہم‌السلام)، بی‌تا۔