کثیر السفر

ویکی شیعہ سے

کثیر السفر یعنی وہ افراد جن کا حرفہ یا زندگی ایسے ہو کہ زیادہ سفر کرتے ہوں اور سفر کے درمیان کا فاصلہ دس دن سے کم ہو. اکثر شیعہ فقہاء کی نگاہ میں کثیر السفر اور دائم السفر مسافر کا حکم نہیں رکھتے اور ایسے افراد کو سفر کے دوران روزہ رکھنا ہو گا اور نماز بھی پوری پڑھنی ہو گی. حرفہ اور پڑھائی کی وجہ سے یا ویسے زیادہ سفر کرنے کی وجہ سے، کثیر السفر کے احکام کی بھی زیادہ ضرورت ہے اور یہ سوال رائج ہو گیا ہے.

کثیر السفر کا معنی

کثیر السفر یا دائم السفر مثال کے طور پر مَن شُغلُهُ السَّفَر (جس کا حرفہ سفر ہو) و مَن شُغلُهُ فی السَّفَر (جس کا حرفہ سفر میں ہو) ایسی تعبیر ہیں جو نماز مسافر کی بحث میں فقہی کتابوں میں بیان ہوئی ہیں. ان اصطلاحات کی اصل امام باقر(ع) اور امام صادق(ع) کی چند احادیث ہیں. ان احادیث میں، اونٹ چرانے والے، دریا میں کام کرنے والے، خط پہنچانے والے اور تاجر جن کا کام ہمیشہ سفر میں ہے ان کی نمازوں اور روزے کا حکم بیان ہوا ہے.[1]

حُکمُ مَن عَمَلُهُ السَّفَر کثیر السفر کی یہ اصطلاح اس سے پہلے احادیث اور فقہی متون میں شیخ مفید سے پہلے بیان نہیں ہوئی ہے اور شیخ مفید نے اسں اصطلاح کو احادیث کے مضامین کی طرح بیان کیا ہے.[2]بعض فقہاء نے اس تعبیر کو ایسے افراد کے لئے استعمال کیا ہے جن کا کام سفر ہے اور بعض اور نے اس تعبیر کو جس کا سفر وطن سے زیادہ ہو کے لئے استعمال کیا ہے. [3]

سفر کام ہو یا کام کے علاوہ

بعض شیعہ فقہاء کی نگاہ میں جو زیادہ سفر کرتے ہیں ان کا حکم انکی سفر کی تعداد کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس کا اصلی معیار، یہ ہے کہ سفر کام سے ہو یا کام کے علاوہ ہو. کام کے علاوہ دوسرے سفر جتنے زیادہ بھی ہوں مسافر کا حکم تبدیل نہیں ہوتا.[4] جن کا کام سفر سے جڑا ہوا ہو، کبھی سفر کام کا مقدمہ ہے جیسے کہ کسی کے گھر اور کام والی جگہ کے درمیان مسافت شرعی سے زیادہ فاصلہ ہو اور کبھی ان کا کام ہی سفر ہے اور سفر کے بغیر کام محقق ہی نہیں ہوتا جیسے ڈرائیور. اکثر شیعہ فقہاء کی نگاہ میں ان دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے اور دونوں میں کوئی ایک بھی مسافر کا حکم نہیں رکھتے اور انکو پوری نماز پڑھنی ہو گی.[5] بعض فقہاء جن کا کام سفر ہو، یا جن کا کام سفر میں ہو ان دونوں کے درمیان فرق قائل ہیں اور دوسرے گروہ کو مسافر کہتے ہیں.[6]

کام کے علاوہ سفر

بعض شیعہ فقہاء کی نظر میں کام کے علاوہ دوسرا سفر جیسے زیارت، تفریح وغیرہ بھی کام والے سفر کی طرح ہی ہے اور اگر یہ سفر ایسے ہو کہ اس شخص کو کثیر السفر کہیں پھر یہ مسافر کا حکم نہیں رکھتا ایسے شخص کی نماز اور روزہ پورا ہو گا.[7]

کثرت کا معیار

اکثر شیعہ فقہاء کثیر السفر کی تشخیص کا کام عرف (عوامی نگاہ) پر چھوڑتے ہیں اور بعض اوقات کثیر السفر کے بارے میں کچھ جواب بیان کرتے ہیں. اور یہ کہ کتنی مقدار تک سفر کرنے سے ایک شخص کثیر السفر ہو گا اس بارے میں فقہاء کے فتوے مختلف ہیں. بعض فقہاء کی نظر درج ذیل ہے.

  • جس کا کام سفر ہو جیسے ریل گاڑی، جہاز میں کام کرنے والے یا ڈرائیور.[8]
  • ہفتے میں تین دن سفر پر جائے اور یہی حالت کم از کم ایک سال میں دو مہینے تک جاری رہے.[9]
  • دس دن سے کم ایک بار شرعی مسافت تک سفر کرے اور یہی حالت کم از کم دو ماہ استمرار پیدا کرے.[10]
  • دس دن سے کم ایک بار شرعی مسفات تک سفر کرے اور ارادہ رکھتا ہو کہ یہی کام کم از کم چار ماہ تک جاری رہے گا.[11]
  • سفر ایسے ہوں کہ عرف (عوامی نگاہ) میں اسے کثیر السفر کہا جائے.[12]
  • ایک مہینے میں چار سفر ہوں اور ان کے درمیان دس دن سے کم فاصلہ ہو.[13]
  • ہفتے میں ایک بار سفر کرے اور یہی حالت کم از کم دو مہینے تک جاری رہے.[14]

حوالہ جات

  1. حر عاملی، وسائل الشیعه، ج۹، ص۴۸۳-۴۹۱
  2. مسعودی، حکم من عمله السفر، ص۹۸
  3. مسعودی، حکم من عمله السفر، ص۹۸-۱۰۵
  4. احکام مسافر، ص۱۵ و ص۲۵ و ص۱۰۱
  5. یزدی، العروة الوثقی، ج۳، ص۴۵۳
  6. خمینی، تحریر الوسیله، ج۱، ص۲۵۵
  7. احکام مسافر، ص۴۱-۴۱ و ص۵۵ و ص۸۳
  8. احکام مسافر، ص۱۶
  9. احکام مسافر، ص۲۷
  10. احکام مسافر، ص۴۲
  11. احکام مسافر، ص۳۴
  12. احکام مسافر، ص۹۴
  13. احکام مسافر، ص۵۸
  14. احکام مسافر، ص۵۰

مآخذ

  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعه، موسسة آل البیت (ع)، قم، ۱۴۰۹ق.
  • خمینی (امام)، سید روح‌الله، تحریر الوسیله، موسسه مطبوعاتی دار العلم، قم.
  • مرکز ملی پاسخگویی به سؤالات دینی، احکام مسافر، ویرایش دوم، نشر فراکاما، قم، ۱۳۹۱ش.
  • مسعودی، عبدالهادی، حکم من عمله السفر در مجله فقه اهل البیت، ش۴۹،قم، ۱۴۲۹ق.
  • یزدی، سید محمدکاظم، العروة الوثقی مع التعلیقات، موسسة النشر الاسلامی، قم، ۱۴۲۰ق.