تقلید (فقہ)

حوالہ جاتی اصول کی عدم رعایت
غیر مستند
علاقائی تقاضوں سے غیر مماثل
غیر جامع
ویکی شیعہ سے
شیعہ عقائد
‌خداشناسی
توحیدتوحید ذاتیتوحید صفاتیتوحید افعالیتوحید عبادیصفات ذات و صفات فعل
فروعتوسلشفاعتتبرک
عدل (افعال الہی)
حُسن و قُبحبداءامر بین الامرین
نبوت
خاتمیتپیامبر اسلام اعجازعدم تحریف قرآن
امامت
اعتقاداتعصمت ولایت تكوینیعلم غیبخلیفۃ اللہ غیبتمہدویتانتظار فرجظہور رجعت
ائمہ معصومینؑ
معاد
برزخمعاد جسمانی حشرصراطتطایر کتبمیزان
اہم موضوعات
اہل بیت چودہ معصومینتقیہ مرجعیت


تقلید اسلامی فقہ کی ایک اصطلاح کا نام ہے ۔ دین کے فروعی مسائل میں کسی دوسرے شخص کے بتائے ہوئے احکامات پر عمل کرنے کو تقلید کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔اسلام کے اکثر مکاتب فروع دین میں اس شرط کے ساتھ جواز کے قائل ہیں کہ اگر انسان اس قدر صلاحیت کا مالک نہ ہو کہ وہ قران و سنت سے اسلامی احکام اخذ کر سکے اور نہ وہ احتیاط پر عمل کر سکے تو ایسے شخص کیلئے جائز ہے کہ وہ تقلید پر عمل کرے ۔اس مسئلے کے اثبات کیلئے انہوں نے مختلف دلائل ذکر کئے ہیں ۔ لیکن اس کے ساتھ یہ یاد دہانی بھی ضروری ہے کہ مذہب تشیع میں اسلام کے دو حصے بیان کئے جاتے ہیں جن میں سے ایک کو اصول دین جس میں توحید ،عدل، نبوت، امامت اور قیامت ذکر کئے جاتے ہیں، ان میں تقلید کرنا جائز نہیں ہے اور دوسرا حصہ فروع دین کہلاتا ہے اس میں تقلید کرنا ممکن ہوتا ہے ۔

لغوی معنی

لفظ تقلید لغوی اعتبار سے قلد سے باب تفعیل پر ڈھالا گیا ہے اس کا معنی کسی چیز کو کسی چیز کے ساتھ لٹکانا ہے پہلی چیز کو تقلید کہا جاتا ہے جیسے حج کے موقع پر قربانی کے جانور کو "تقلید البدنہ" کہا جاتا ہے چونکہ اس جانور کے گلے میں کسی چیز کو لٹکایا جاتا ہے تا کہ اس کے قربانی کے جانور ہونے کا پتہ چل جائے ۔ قلد حقیقت میں بٹنے کو کہتے ہیں جیسا کہا جاتا ہے "اقلدت الحبل" میں نے رسی کو بٹا . اسی طرح کہتے ہیں "قلدت السیفَ" میں نے تلوار کو کندھے پر لٹکایا ۔ [1] راغب اصفہانی نے بھی یہی معنی بیان کیا اور مزید کہا کہ دھاگے ،چاندی یا کسی اور بٹی ہوئی چیز کو گلے میں لٹکانا ہے ۔[2]

اس لفظ کے استعمال کی بعض نے یہ وضاحت دی ہے :

اگر یہ لفظ کسی چیز کو لٹکانے کے معنی میں ہو تو یہ لفظ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کہتے ہیں "قلدت الہدی نعلہ"۔

اگر یہ تبعیت پیروی کے معنی میں ہو تو بھی دو مفعول اس کیلئے مذکور ہوتے ہیں لیکن دوسرا مفعول "فی" کے ساتھ استعمال ہوتا ہے جیسے "قلدتہ فی مشیہ"( میں نے چلنے میں اسکی پیروی کی)کہتے ہیں ۔[3]

اصطلاحی معنی

اہل سنت اور شیعہ علماء نے تقلید کی مختلف تعریفیں کی ہیں :مثلا

  • کسی کے قول کو دلیل کے بغیر قبول کرنا [4]
  • غیر کے قول کو حجت ملزمہ کے بغیر قبول کرنا [5]
  • معین مجتہد کے قول پر عمل کا ملتزم (یعنی ارادہ) ہونا اگرچہ اس کے بعد عمل نہ کرے [6]
  • غیر کی رائے پر اعتماد کرتے ہوئے عمل کرنا۔[7]

فقہی کتابوں میں یہ لفظ دو معنی کیلئے استعمال ہوتا ہے :

  1. حج کی اقسام میں سے "حج قران " کے موقع پر قربانی کے جانور کو علامت لگانے کو "تقلید ہدی" سے تعبیر کرتے ہیں ۔[8]
  2. مجتہد کے فتوے پر عمل کرتے ہوئے کسی چیز کو بجا لانا یا کسی اعتقاد کا اپنے آپ کو پابند ٹھہرانا ہے ۔[9]۔

وضاحت: احکامات شرعیہ بجا لانے میں موضعات کی تشخیص ٌمقلِدْ کے ذمے ہوتی ہے جیسے نماز کی ادائیگی میں قبلے کو معین کرنا ، اوقات نماز ، روزے میں افطار و سحر کے وقت کو معین کرناوغیرہ جبکہ احکامات میں مقلِدْ اپنے مقلَد کے فتوی پر عمل کرتا ہے ۔ پس تقلید میں مقلِد احکامات میں اپنے مقلَد کی طرف رجوع کرتا ہے ۔ ہاں اگر کوئی شخص نابینا ہو تو وہ موضوعات میں بھی کسی دوسرے کے کہنے پہ عمل کرتا ہے۔

[تقلید] تقلیدی مسئلہ نہیں

ہر بالغ اور عاقل شخص کو اجمالی طور پر یقین ہے کہ اس کی نسبت کچھ احکام کو بجا لانا یا کچھ کو ترک کرنا ضروری ہے ۔ اس وجہ سے عقل مستقل طور پر کہتی ہے کہ وہ ان احکام کو بجا لا کر اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے ۔پس ہر بالغ اور عاقل شخص کو چاہئے کہ وہ ان احکام کو واقع کے مطابق انجام دے یا ان سے دوری اختیار کرے یا ایسی چیز پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں بجا لائیں کہ جس کی حجیت کا اسے علم ہو تا کہ اگر وہ خطا کرے تو قیامت کے روز اس کا عذر قابل قبول ہو۔ جس چیز کی حجیت قطعی اور یقینی نہ ہو ایسی چیز پر اعتماد کرتے ہوئے احکامات کو انجام دینا جائز نہیں ہے کیونکہ غیر یقینی حالت میں ان احکامات کو بجا لانے کے باوجود عقاب کا احتمال موجود رہتا ہے ۔پس اس بنا پر ایک عام شخص کو چاہئے کہ وہ اپنے احکامات کی بجا آوری میں ایسے مجتہد کے فتوے پر عمل کرے جس کی حجیت کا اسے یقین ہو ۔ پس ممکن نہیں ہے کہ تقلید کا مسئلہ تقلیدی ہو بلکہ ضروری ہے کہ وہ اجتہاد کے ذریعے ثابت ہو۔لہذا اصل تقلید برہانی اور دلیل کے ساتھ ہونی چاہئے۔[10]

دلائل تقلید

شیعہ فقہاء کے درمیان مشہور ہے کہ ہر مکلف کیلئے اجتہاد،احتیاط یا تقلید میں کسی ایک راہ کا انتخاب کرنا واجب ہے ۔پھر اس وجوب میں اختلاف ہے کہ یہ وجوب شرعی ،وجوب مقدماتی یا وجوب عقلی ہے ۔[11]۔

دلیل فطرت

جب کوئی جاہل اس بات کی جانب متوجہ ہو جاتا ہے کہ خدا کی جانب سے اس پر کچھ احکامات کا بجا لانا ضروری ہے ۔اس کا ان احکامات کو بجا لانا علم پر موقوف ہے جبکہ وہ اس علم کو حاصل کرنے سے عاجز ہے اور احتیاط پر بھی عمل کرنا اس کیلئے نا ممکن ہے تو اب اس حال میں اس کے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے کہ وہ عالم کی طرف رجوع کرے اور اس کا عالم کی طرف رجوع کرنا ایک وجدانی امر ہے۔ ۔اگر وہ عالم کی طرف بھی رجوع نہ کرے تو لازم آتا ہے اس کی نسبت باب علم بند ہو جائے۔شرعی احکام کو انجام دینے کیلئے جاہل کا عالم کی طرف رجوع کرنا ایک وجدانی اقدام ہے یعنی اس کا وجدان عالم کی طرف رجوع کرنے کو جائز قرار دیتا ہے ۔پس جب یہ ثابت ہو گیا جاہل کا عالم کی طرف رجوع کرنا ایک وجدانی امر ہے تو اب اسکے لئے دلیل قائم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ وجدانی امور اولیات میں سے ہیں اور اولیات دلیل کے محتاج نہیں ہوتے ہیں کیونکہ ہر دلیل کی غایت اور انتہا اولیات پر ہی ہوتی ہے ۔[12]

سیرت متشرعہ

سیرت کی دو اقسام :عرف اور عقلاء کی سیرت اور متشرعین(دیندار لوگوں)کی سیرت، ہیں ۔اگر عرف اور عقلاء کی سیرت پائی جاتی ہو تو اس میں شارع کے امضاء(حکم جواز) کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اگر سیرت کی دوسری قسم دیندارلوگوں کی سیرت(سیرت متشرعہ ) کسی چیز پر موجود ہو تو یہ سیرت امام معصوم کی رائے کی بیان بیان گر ہوتی ہے اور یہ اجماع عملی ہے ۔ اس میں شارع کی جانب سے امضاء(یعنی حکم جواز) کی ضرورت نہں ہوتی ہے۔جاہل کے عالم کی طرف رجوع کرنے میں ہم دیکھتے ہیں کہ جہلاء کو جب اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ خدا کی جانب سے کچھ احکام کا بجا لانا ضروری ہے اور وہ نہ تو ان احکام کی معرفت حاصل کر سکتے ہیں اور نہ وہ احتیاط پر عمل کر سکتے ہیں لہذا ایسے جہلاء اپنے احکام دینی کو انجام دینے میں ہمیشہ علماء کی طرف رجوع کرتے ہیں۔[13] سیرت متشرعین کے معاملے میں اس سیرت متشرعہ پر آئمہ معصومین کی تائید کا ادعا بھی کیا گیا ہے ۔ پس اس بات کے پیش نظر تقلید کے جواز پر یہ قوی ترین دلیل قرار پائے گی۔[14]

آیات

  • و‌ما‌کانَ المُؤمِنونَ لِینفِروا کافَّةً فَلَولا نَفَرَ مِن کلِّ فِرقَة مِنهُم طَائِفَةٌ لِیتَفَقَّهوا فِی الدّینِ ولِینذِروا قَومَهُم اِذا رَجَعوا اِلَیهِم لَعَلَّهُم یحذَرون[15]

ترجمہ : اور یہ نہیں ہو سکتا کہ سب کے سب مؤمنین نکل کھڑے ہوں، پھر کیوں نہ ہر گروہ میں ایک جماعت نکلے تا کہ وہ دین کی سمجھ پیدا کریں اور جب وہ واپس آئیں تو اپنی قوم کو ڈرائیں تا کہ وہ ہلاکت سے بچے رہیں۔

یہ آیت احکام شرعی میں تقلید کے وجوب کو بیان کرتی ہے کیونکہ فقیہ جس چیز سے انذار(ڈرائے) کرے اس سے بچنا ضروری ہے اور یہ صرف اس کے انذار اور فتوے پر عمل کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔

اعتراض :اس مقام پر بعض صاحبان علم نے یہ اعتراض کیا ہے:یہ آیت فتوے کے ذریعے فقیہ کے ڈرانے پر دلالت نہیں کرتی ہے بلکہ یہ آیت اُس زمانے میں تفقہ کے رائج معنی پر دلالت کرتی ہے اور وہ یہ معنی ہے کہ احکام کے متعلق معصومینؑ سے سوالات کئے جاتے اور جوآئمہ معصومین سے ان کے جواب دیتے اسے ہی لوگوں کے سامنے بیان کیا جاتا تھا(یعنی اس آیت میں انذار کرنے سے مراد یہ ہے کہ ایک جماعت دین کی سوجھ بوجھ حاصل کرنے کے بعد لوگوں کے سامنے آیات اور احادیث بیان کرے اور لوگ جو کچھ اس سے سنیں اس پر عمل کریں ) کیونکہ صدر اسلام کے دور میں موجودہ زمانے کا معنی (یعنی آیات اور احادیث سے کسی حکم کو اخذ کرنا اور اسے اپنے مقلدین کیلئے بیان کرنا اور اس کے ذریعے اپنے مقلدین کو انذار کرنا)رائج نہیں تھا۔پس یہ آیت فتوے کے ذریعے انذار پر دلالت نہیں کرتی ہے ۔

جواب:احکام کو دلیل کے ساتھ جاننے کے لحاظ سے اُس زمانے اور موجودہ زمانے کی فقاہت اور اجتہاد میں کوئی فرق نہیں ہے . ہان صرف آسانی اور مشکل کے لحاظ سے ان کے درمیان فرق ہے مثلا اہل زبان کی جہت سے اُن لوگوں کو علم لغت سیکھنے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی یا انہیں اگر کسی لفظ کا معنی معلوم نہیں ہوتا تھا تو ان کے پاس راہ موجود تھا وہ مستقیم طور پر امام سے سوال کر سکتے تھے ۔آجکل کے دور میں صرف تعارض روایات ایک ایسا مسئلہ ہے جو مشکل مسائل میں سے ہے لیکن تعارض روایات کا مسئلہ بھی اُس زمانے میں موجود تھا جیسا کہ مختف روایات سے ظاہر ہوتا ہے ۔پس اس بنا پر آیت کی دلالت کو کسی ایک زمانے کے ساتھ مخصوص کرنا درست نہیں ہے ۔

  • فَسـئَلوا اَهلَ الذِّكرِ اِن كُنتُم لاتَعلَمون[16]

ترجمہ :پس اگر تم نہیں جانتے ہو تو تم اہل ذکر سے سوال کرو۔

یہ آیت جاہل کے عالم کی طرف رجوع کے جواز پر دلالت کرتی ہے اور اسے ہی تقلید کہا جاتا ہے نیز جاہل کی نسبت فتوائے عالم کی حجیت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اگر عالم کا فتوی جاہل پر حجت نہ ہو تو عالم سے سوال کرنا لغو لازم آئے گا۔ اعتراض :اس آیت سے یہ مراد ہے کہ جاہل عالم سے رجوع کرے تا کہ اسے علم حاصل ہو جائے اور پھر وہ سائل اس علم کے مطابق عمل کرے ۔پس یہ آیت فتوے کی حجیت کو بیان نہیں کر رہی ہے ۔ جواب: کسی چیز کے علم یا معرفت نہ ہونے کی صورت میں جب سوال کا جواب دیا جاتا ہے تو عام طور پر ایسے مقامات پر سائل کے عمل اور ذمہ داری کو بیان کرنا مقصود ہوتا ہے ۔جیسا کہ ایک مریض علاج کیلئے جب ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے تو اس مریض کا قصد یہ ہوتا ہے کہ وہ ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق عمل کرے گا اس مریض کا یہ مقصود نہیں ہوتا ہے کہ وہ ڈاکٹر اور اس بیماری کے علاج کا عالم ہو جائے او پھر اس ڈاکٹر کے کہے پر عمل کرے گا۔ معترض کا بیان کردہ معنی فہم عرفی کے خلاف ہے ۔ پس اس بیان کی روشنی میں آیت کا یہ معنی ہے "اگر تم عالم نہیں تو ان سے سوال کرو تا کہ ان کے کہے کے مطابق عمل کرسکو"۔

اعتراض:روایات میں اہل ذکر سے اہل کتاب یا آئمہ معصومین سے مراد ہیں پس یہ آیت تقلید کے جواز،جاہل کے عالم کی طرف رجوع اور احکام میں فقیہ کی طرف رجوع کرنے سے مربوط نہیں ہے ۔

جواب:یہ آیت کسی ایک مخصوص مقام سے مربوط نہیں ہے بلکہ وہ ایک قاعدہ کلیہ بیان کر رہی ہے جو مقام کی مناسبت سے کبھی اہل کتاب پر صادق آتا، کبھی آئمہ معصومینؑ پر منطبق ہوتا ہے اور کبھی فقیہ پر صادق آتا ہے۔ جب مقام سوال اعتقادات مثلا نبوت یا نبیؑ کی صفات کے متعلق ہو گا تو علمائے اہل کتاب مراد ہونگے ،اگر مقام سوال احکام فرعیہ سے ہو تو نبی اکرمؐ اور آئمہ معصومین ؑ سے سوال کرنا مقصود ہوگا اور جب معصومینؑ سے ارتباط ممکن نہ ہو تو فقہاء کی طرف رجوع کرنا مراد ہو گا۔

لیکن اگر اس آیت کو اس سے پہلی والی آیات کے تناظر میں دیکھیں تو یہ فقیہ کے فتوے سے متعلق حکم کی بیان گر نہیں ہے۔[17]

روایات

وہ روایات کہ جن سے علماء نے گاہے بگاہے تقلید کے جواز کیلئے استناد کیا ہے۔ ان روایات کو چند حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے : مثلا

  1. احادیث جن میں آئمہؑ نے اپنے شیعوں کو اپنے اصحاب کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے جیسے امام زمانہ کی توقیع[18]
  2. وہ احادیث جن میں آئمہ نے اپنے مخصوص اصحاب کا نام لے کر ان کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے۔ [19]
  3. وہ احادیث جن میں آئمہؑ نے اپنے اصحاب کی فتوی دینے پر حوصلہ افزائی فرمائی ہے ۔[20]
  4. وہ احادیث جن میں علم کے بغیر قیاس اور اور شخصی رائے کی بنا پر فتوی دینے سے منع فرمایا ہے ۔[21]
  5. وہ احادیث جن میں آئمہ ؑ نے قواعد شرعیہ کی اساس پر فتوی دینے کی تائید فرمائی ہے جیسے [22]

تقلید کے ممنوعہ مقامات

اصول دین میں تقلید

جیسا کہ پہلے بیان ہوا کہ تقلید میں مقلد غیر کے قول پر عمل کرتے ہوئے احکام شرعیہ کو انجام دیتا ہے جبکہ اصول دین میں ایک مسلمان کو اصول دین کے متعلق یقین اور اعتقاد پیدا کرنا ہوتا ہے اور یہ یقین اور اعتقاد کسی کے کہنے پر پیدا نہیں ہوتا بلکہ قرآن کی رو سے قدرے متیقن یہ ہے کہ اصول دین میں غیر کی تقلید یعنی پیروی کرنے سے منع کیا گیا ہے جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے : ...إِنَّا وَجَدْنا آباءَنا عَلى‏ أُمَّةٍ وَ إِنَّا عَلى‏ آثارِهِمْ مُقْتَدُون [23] ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک رسم پر پایا اور ہم انہی کے نقش قدم کی پیروی کر رہے ہیں ۔ وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَى مَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ قَالُوا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ[24] ترجمہ : جب انہیں کہا جاتا ہے کہ جو اللہ کی طرف سے اور اسکے رسول کی طرف سے نازل ہوا ہے اس کی طرف آؤ تو وہ کہتے ہیں :ہمارے لئے وہی کافی ہے جس پر ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو پایا ہے ،کیا وہ نہیں جانتے ہیں کہ ان کےآباؤ اجداد نہ کسی چیز کو جانتے ہیں اور نہ ہی وہ ہدایت یافتہ ہیں ۔ ہاں ! اگراصول دین میں کسی کے کہنے پر یقین حاصل ہو جائے تویہ کافی ہے کیونکہ اعتقادات میں یقین اور جزم مقصود ہے وہ کسی بھی راستے سے حاصل ہو جائے ۔ حقیقت میں یہ بھی دلیل کے ساتھ اعتقاد رکھنا کہلاتا ہے ۔اس استدلال کی کیفیت یوں ہے :اصول دین میں سے فلان چیز کے بارے میں مجھے ایک جماعت نے خبر دی یا ایک جماعت اس کی معتقد ہے ۔وہ جماعت جس چیز کی معتقد ہے پس حق ہے ۔اصول دین میں دلیل کے ساتھ یقین حاصل ہوجائے یا کسی کے کہنے پر یقین حاصل ہوجائے یہی یقین مطلوب ہے ۔[25]

موضوعات میں تقلید

موضوعات خارجیہ میں تقلید جائز نہیں ہے کیونکہ قواعد اور کلیات کی جزئیات پر تطبیق کرنا مجتہد کے فرائض میں سے نہیں ہے کہ اس کی پیروی کی جائے چونکہ کلیات کو جزئیات پر تطبیق کرنا امور محسوسہ میں سے ہے اس میں مجتہد اور مقلد برابر ہیں بلکہ ہو سکتا ہے گاہی مقلد مجتہد کی نسبت زیادہ پہچان رکھتا ہو ۔[26] اگرچہ آیت اللہ وحید بہبہانی نے موضوعات کی دو اقسام توقیفی اور غیر توقیفی بیان کرنے کے بعد کہا کہ موضوعات غیر توقیفی میں تقلید جائز نہیں ہے ۔ [27]

ضروریات دین اور یقینیات میں تقلید

اسلام میں نماز ،روزے اور حج جیسی چیزوں کے وجوب کو ضروریات دین کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ان میں بھی تقلید کرنا جائز نہیں ہے ۔

احکام تقلید

  • ایک شخص اگر مجتہد بھی نہ ہو اور احتیاط پر عمل بھی نہ کرے اور وہ تقلید کے بغیر اعمال انجام دے تو ایسے شخص کے اعمال باطل ہیں کیونکہ عقلی اعتبار سے قاعدۂ اشتغال(جس چیز کی انجام دہی واجب یا مستحب تھی اس کے ادا ہو جانے کا یقین حاصل نہیں ہوا ) اس عمل کو کافی نہیں سمجھتا ہے ۔لیکن اس باطل ہونے سے یہ مراد نہیں کہ اس عمل کی کوئی ارزش اور قیمت نہیں ہے بلکہ یہ مراد ہے کہ اگر اسے بعد میں علم ہو جاتا ہے کہ اس کا یہ عمل واقع کے مطابق تھا یا تقلید کرنے کی صورت میں اس کے مجتہد کے فتوی کے مطابق تھا اس کا وہی عمل کافی سمجھا جائے گا۔[28]
  • ابتدائی طور زندہ مجتہد کی تقلید کرنی چاہئے۔موجودہ فقہاء کی رائے کے مطابق ابتدائی طور پر مردہ مجتہد کی تقلید نہیں ہو سکتی ہے۔[29] کیونکہ فتوے کی حجیت پر دلالت کرنے والی آیات اور روایات کا ظہور زندہ مجتہد میں ہیں۔[30]

اخباری علماء اور اصولی علماء میں سے مرزائے قمی ابتدائی طور پر مردہ مجتہد کی تقلید کو صحیح سمجھتے تھے ۔ [31]۔

  • شیعہ علماء کے درمیان اعلم کی تقلید کرنا ضروری ہے شہید ثانی نے اس وجوب پر اجماعِ علماء کا ادعا کیا ہے اس کے بعد کے علماء میں سے بعض نے کہا ہے کہ غیر اعلم کی تقلید بھی کی جاسکتی ہے ۔اس کے دلائل میں سے ایک دلیل یہ ہے کہ اختلاف فتوی کی صورت میں ایک عام شخص اعلم اور غیر اعلم مین سے اعلم کو ترجیح دیتا ہے اور یہ ترجیح وہ حکم عقل کی وجہ سے دیتا ہے۔ کیونکہ وہ اس مسئلے کو دو حال سے خالی نہیں پاتا ہے:

پہلی حالت:عالم اور اعلم کے فتوی کے درمیان مجھے کسی ایک کے فتوے کو اختیار کرنے کا حق حاصل ہے ۔ دوسری حالت:اعلم کا فتوی ہر حال میں سیرت عقلاء کی وجہ سے (یعنی عقلاء اعلم کی طرف ہی رجوع کرتے ہیں)یا دلیل انسداد کی وجہ سے حجت ہے۔ پس ایک شخص کو اعلم اور عالم کے فتوے کے درمیان اختیار کرنے کا حق حاصل ہے یا اعلم کا فتوی حجیت کے لحاظ سے یقینی ہونے کی وجہ سے عالم کے فتوے کی نسبت فوقیت رکھتا ہے اور عالم کا فتوی اعلم کے فتوے کی نسبت مشکوک الاعتبار ہے ۔اس وجہ سے ایک عام شخص کی عقل مستقل طور پر حکم لگاتی ہے ک اعلم کی تقلید واجب اور ضروری ہے جبکہ عالم کے فتوے کی حجیت مشکوک ہونے کی وجہ سے اسکی طرف رجوع کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ عالم کے فتوے کی حجیت قطعی نہ ہونے وجہ سے اس میں احتمال ضرر ہمیشہ موجود رہتا ہے اور عقل مستقل طور پر حکم لگاتی ہے کہ احتمال ضرر سے بچا جائے ۔ پس اس کے نتیجے میں اعلم مجتہد کی تقلید کرنا ضروری ہے ۔ [32]۔

مجتہد عالم یا اعلم کی شناخت: تین ذریعوں سے مجتہد یا مجتہد اعلم کی شناخت ممکن ہے ۔(ا) جب انسان اہل خبرہ میں سے ہو تو اور خود شخصی طور پر کسی کے اجتہاد کو جانتا ہو ۔(ب)اہل خبرہ میں سے دو عادل شخص کسی کے اجتہاد کے متعلق گواہی دے دیں جبکہ اہل خبرہ میں دوسرے دو افراد اسکے اجتہاد کی نفی نہ کریں ۔(ج):کسی کے بارے میں اس قدر شیوع[33] حاصل ہو جائے کہ جو علم کو موجب بنے ۔

اسی طرح کسی مجتہد کی اعلمیت بھی شخصی علم ،اہل خبرہ میں سے دو عادل شخصوں کی گواہی سے ثابت ہو جائے گی جبکہ اہل خبرہ میں دو عادل شخص اس کی مخالفت نہ کریں یا شیوع کی وجہ سے کسی کی اعلمیت کا علم حاصل ہو جائے ۔[34]

حوالہ جات

  1. مقاییس اللغہ ابن فارس ج 5 ص 19 ۔
  2. المفردات في غريب القرآن، راغب اصفہانی ص: 682
  3. اصطلاحات الاصول، مشکینی،18۔
  4. المستصفی ،غزالی،ج2 ص123۔
  5. احکام الاحکام ،آمدی،ج3 ص 166۔
  6. مستمسک العروۃ الوثقی ج1 ص8۔
  7. مستمسک العروۃ الوثقی ج1 ص8۔
  8. معجم الفاظ فقہ الجعفری ، ڈاکٹر احمد فتح اللہ ص122۔
  9. معجم الفاظ فقہ الجعفری ، ڈاکٹر احمد فتح اللہ ص122۔
  10. کتاب الاجتہاد و التقلید ، خوئی ،شرح ص 82/83۔
  11. دانش نامہ جہان اسلام غلام علی حداد عادل،ج7 ص790و 791
  12. بدایہ الوصول فی شرح کفایہ الاصول شیخ محمد طاہر ج9 ص312۔
  13. بدایہ الاصول فی شرح کفایہ الاصول، شیخ محمد طاہر ج9 ص318۔
  14. منتہی الدرایۃ، سید محمد جعفر شوستری،ج8 ص509۔
  15. سورہ توبہ 122
  16. سورہ نحل 43 ؛ سورہ انبیاء 7۔
  17. کتاب الاجتہاد و التقلید ،خوئی،89/90۔
  18. وسائل الشیعہ ج 27 ص 140
  19. وسائل الشیعہ ج 27 ص 142،144،146،،148
  20. وسائل الشیعہ ج 27 ص 148،149
  21. وسائل الشیعہ ج 27 ص 20،31، 35، 62۔
  22. وسائل الشیعہ ج 2 ص 384،386
  23. زخرف 23۔
  24. مائدہ،104۔
  25. کتاب الاجتہاد و التقلیدص411/412۔
  26. کتاب الاجتہاد و التقلید خوئی ص418۔
  27. الفوائد الحائریہ،وحید بہبہانی ص 455 فائدہ 25۔
  28. کتاب الاجتہاد و التقلید ، خوئی،ص 77 ۔تعالیق مبسوطہ ، فیاض حسین ج1 ص10 ۔ منہاج الصالحین ، سید تقی حکیم، ص 16۔العروۃ الوثقی ، سید صادق روحانی،ج1 ص 5 ۔تعلیقہ علی العروۃ الوثقی ، سید علی سیستانی ص 10 ۔
  29. کتاب الاجتہاد و التقلید، خوئی،ص 96۔ منہاج الصالحین ، سید تقی حکیم، ص 39 ۔العروۃ الوثقی ، سید صادق روحانی،ج1 ص 5 ۔
  30. کتاب الاجتہاد و التقلید، خوئی،ص 96 تا 107۔
  31. دانشنامہ جہان اسلام ،غلام علی حداد عادل،ج 7 ص 794
  32. کتاب الاجتہاد والتقلید، خوئی ، ص 134 و 135
  33. کسی اعلمیت کی شہرت لوگوں کے درمیان اس حد تک ہو جائے کہ جو وثوق اور اطمینان کا باعث ہو۔معجم الفاظ الفقہ الجعفری،ڈاکٹر احمد فتح اللہ ،ص249
  34. العروۃ الوثقی سید یزدی، ج1 ص23