ارث

ویکی شیعہ سے

اِرث اس مال یا حق کو کہا جاتا ہے جو میت کے ترکے میں سے اس کے ورثاء کو ملتا ہے۔ متوفی کے ذمہ واجب الادا مالی حقوق اور قرضوں کی ادئیگی کے بعد طبقات ارث کے مراتب کو مد نظر رکھتے ہوئے ورثاء میں سے ہر ایک اپنے اپنے حصے کا مالک بن جاتا ہے۔ اسلامی فقہ میں ارث کے دو عامل ہیں؛ نسب (نسبی رشتے) اور سبب (نکاح کے ذریعے وجود میں آنے والے رشتے)۔ کفر، قتل، غلامی، لِعان اور زِنا کو مختلف شرائط کے ساتھ ارث کے موانع میں شمار کئے جاتے ہیں۔

ارث کے احکام اور ورثاء میں سے ہر ایک کا حصہ قرآن اور احادیث میں بیان ہوا ہے۔ فقہی کتابوں میں بھی ان کے بارے میں مفصل بحث کی گئی ہے۔ اسلام میں ارث کے خصوصی احکام میں سے ایک اولاد ذکور کو اولاد اناث کے دو برابر ارث ملنا ہے۔ بعض اسلامی ممالک من جملہ ایران، افغانستان اور پاکستان میں ارث کے قوانین کو اسلامی احکام کے تحت مرتب کئے گئے ہیں۔

فقہی تعریف اور اہمیت

ارث کو ایک اہم فقہی مسئلہ شمار کیا جاتا ہے۔[1] فقہی منابع میں ارث کے مسائل اور احکام کے بار میں مستقل بحث کی جاتی ہے۔[2] قرآن میں ارث کے احکام اور تمام ورثاء کے حصے کا ذکر آیا ہے۔[3] حدیثی منابع میں بھی ارث کے مسائل اور احکام کے بارے میں بہت سی احادیث نقل ہوئی‌ ہیں۔ مثال کے طور پر کتاب وسایل‌ الشیعہ میں «فرائض و مواریث» کے نام سے ایک مستقل باب ہے جو بارہ فصول پر مشتمل ہے جس میں ارث کے مختلف مسائل من جملہ موانع ارث، موجبات ارث، ماں باپ اور اولاد کے ارث کے بارے میں مختلف احادیث ذکر ہوئی‌ ہیں۔[4]

مفہوم‌ شناسی

«ارث» فقہی اعتبار سے متوفی کے ترکے کہا جاتا ہے جو اس کے پسماندگان میں سے بعض کے حصے‌ میں چلا جاتا ہے۔[5] ارث مال و اموال کے علاوہ حق خیار اور حق شفعہ کو بھی شامل کرتا ہے۔[6] ارث کے حقدار کو «وارث» اور جس سے ارث ملتا ہے اسے «مُوَرِّث» جبکہ وہ چیز جو ارث میں وارثین کی طرف منتقل ہوتی ہے اسے «تَرَکِہ» یا «میراث» کہا۔[7] فقہ میں قرآن کی پیروی کرتے ہوئے ارث کو «فرض» یا «فریضہ» سے بھی تعبیر کی گئی ہے۔[8]

متوفی کے ترکے کی نسبت وارثین کی مالکیت متوفی کے ذمے واجب الادا حقوق اور قرضوں کی ادئیگی کے بعد ثابت ہوتی ہے؛ یعنی ابتدا میں متوفی کی تجہیز و تکفین، قرضے، واجب الادا مالی حقوق، ترکہ کے تیسرے حصے میں وارثی کی اجازت کے بغیر اور اس سے زیادہ میں وارثین کی اجازت سے کی گئی وصیت پر عمل کرنے نیز سب سے بڑے بیٹے کو ملنے والی خصوصی چیزیں جنہیں حَبْوہ کہا جاتا ہے، کو متوفی کے ترکے میں سے کم کرنے کے بعد باقی ماندہ ترکے کو وارثین میں تقسیم کی جائے گی۔[9]

اسباب ارث

دو عامل ارث‌ ملنے کا سبب بنتا ہے:

  • نَسَب (نسبی رشتے): وارث اور مورث کے درمیان خونی رشتہ داری جیسے والدین اور اولاد یا بہن بھائی؛[10]
  • سبب (غیر نسبی رشتے): وارث اور مورث کے درمیان غیر نسبی رشتے دو طرح کے ہوتے ہیں:
الف۔ نکاح: دائمی نکاح یا انقطاعی نکاح ارث پانے کی شرط پر (مشہور فقہاء کے مطابق)؛
ب۔ وِلاء: نسب اور نکاح کے علاوہ انسانوں کے درمیان تین طرح کی رشتہ داری قائم ہو سکتی ہے جو خاص شرائط کے تحت ایک دوسرے سے ارث پاتے ہیں :
  1. ولاء عتق (غلام اور کنیز سے مربوط ہے)،
  2. ولاء ضمان جریرہ (ارث پانے کی شرط پر ضمانت کی قرارداد)،
  3. ولاء امامت (وارث نہ ہونے کی بنا پر امام معصوم کا ارث‌ ہونا)۔[11]
مزید معلومات کے لئے دیکھئے: محارم


طبقات ارث

نَسَبی رشتے تین طبقے میں تقسیم ہوتے ہیں اور جب تک پہلے طبقے میں سے ایک شخص موجود ہو بعد والے طبقے کو ارث نہیں ملتا۔ ان میں سے ہر طبقے کے خاص احکام اور درجہ بندی ہوتی ہوتی ہے:

  • پہلا طبقہ: ماں باپ اور اولاد (اولاد نہ ہونے کی صورت میں پوتے پوتیاں)؛
  • دوسرا طبقہ: دادا دادی اور نانا نانی جتنا اوپر چلا جائے، بہن بھائی (ان کی غیر موجودگی میں ان کی اولاد)؛
  • تیسرا طبقہ: چچا، پھوپھی، مامو اور خالہ اور ان کی غیر موجودگی میں ان کی اولاد۔ ان میں سے کوئی ایک بھی نہ ہو تو میت کے باپ کا چچا،‌ پھوپھی، ماموں اور خالہ کو ارث ملے گا۔[12]

ورثاء میں سے ہر ایک کا حصہ

کہا جاتا ہے کہ ارث کا مستحق ہونا کبھی «فرض» اور «تسمیہ» کی بنا پر ہے؛ یعنی ایسے رشتے جن کا حصہ قرآن میں صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور کبھی ایسی رشتہ داری کی بنا پر ہے جن کے لئے قرآن میں کوئی مشخص حصہ بیان نہیں کیا گیا بلکہ قرآن میں انہیں «اولو الارحام» کے نام سے ذکر کیا گیا ہے جیسے چچا اور پھوپھی کا حصہ۔[13] قرآن میں جن جن وارثیں کے حصے کا تذکرہ کیا گیا ہے ان کی تفصیل کچھ یوں ہے:

  • نصف: وارثین میں صرف ایک عورت ہو اور اس کا کوئی بھائی نہ ہو تو اسے ترکے کا نصف ارث کے طور پر ملے گا۔ اسی طرح ماں باپ یا صرف باپ کی طرف سے میت کی ایک بہن کے ساتھ میت کا شوہر وارث بنے اور شوہر کے ساتھ میت کی کوئی اولاد نہ ہو تو اس صورت میں میت کی بہن کو بھی اس کے ترکے کا نصف حصہ ارث کے طور پر ملے گا۔
  • دو تہائی: دو یا دو سے زیادہ لڑکیاں وارث بنیں اور ان کا کوئی بھائی نہ ہو ان کو ترکے کا دو تہائی حصہ بطور ارث ملے گا۔ اسی طرح ماں باپ یا صرف باپ کی طرف سے دو یا دو سے زیادہ بہنیں ہوں اور ان کا کوئی بھائی نہ ہو تو ان کو بھی دو تہائی حصہ بطور ارث ملے گا۔
  • ایک تہائی: ماں کو ایک تہائی حصہ ملے گا اگر میت کی کوئی اولاد اور بھائی نہ ہو اسی طرح صرف ماں کی طرف سے بہن بھائیوں کو ایک سے زیادہ ہونے کی صورت میں ایک تہائی حصہ ملے گا۔
  • ایک چوتھائی: اگر میت کی کوئی اولاد نہ ہو تو اس کی بیوی کو ترکے کا چوتھا حصہ ملے گا اسی طرح شوہر کو بھی ترکے کا چوتھا حصہ ملے گا اگر بیوی کی اسی شوہر یا کسی اور شوہر سے کوئی اولاد نہ ہو۔
  • چھٹا حصہ: میت کی اولاد کے‌ ساتھ اس کے ماں باپ کو ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا اسی طرح میت کی والدہ‌ کو بھائی کے ساتھ بھی چھٹا حصہ ملے‌ گا۔ والدہ کی طرف سے بہن بھائیوں کا حصہ بھی چھٹا حصہ ہے اگر وہ تنہا ہوں۔
  • آٹھواں حصہ: اگر میت کی اولاد ہو تو بیوی کو آٹھواں حصہ ملے گا۔[14]

میاں بیوی کا حصہ

میاں بیوی کو ایک دوسرے سے ارث ملے گا اور دوسرے تمام وارثوں کے ساتھ ارث میں شریک ہیں؛ میاں بیوی میں سے کسی ایک کو بھی دوسرے کا پورا ترکہ ارث میں نہیں ملے گا؛ مگر یہ کہ بیوی کا وارث فقط شوہر ہو تو اس صورت میں مرحومہ بیوی کا سارا ترکہ اس کے شوہر کو ملے گا۔[15]

میراث میں مرد اور عورت کا حصہ

ارث میں دو جگہوں پر عورت کا حصہ مرد کے حصے کا نصف ہوتا ہے:

  1. بہن کو بھائی کے حصے کا نصف بطور ارث ملے گا: اس حکم کا مآخذ آیہ «لِلذَّکَرِ‌ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَیَیْنِ؛ (ترجمہ: لڑکے کا حصہ برابر ہے دو لڑکیوں کے»)[16] ہے۔ اس بنا پر ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے۔[17]
  2. اگر میت کی سگی بہن اور سگا بھائی اس کا وارث ہو تو میت کی بہن کو میت کے بھائی کے حصے کا نصف بطور ارث ملے گا۔ سورہ نساء کی آیت نمبر 176 اس حکم پر دلالت کرتی ہے۔[18]

موانع ارث

فقہی کتابوں میں بعض موارد کا ذکر ملتا ہے جو ارث ملنے میں مانع بنتے ہیں۔ موانع ارث درج ذیل ہیں:

  • کفر: تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ کافر کو مسلمان سے ارث نہیں ملے گا؛ اسی طرح شیعہ فقہاء کا اس بات پر بھی اجماع ہے کہ مسلمان کو کافر سے ارث ملے گا۔[19]کہا گیا ہے کہ مُرتَد کی موت واقع ہونے کی صورت میں وہ مسلمان کے حکم میں ہے لھذا کافر کو اس سے ارث نہیں ملے گا۔[20]
  • قتل: اگر وارث عمدا اور بغیر کسی شرعی عذر کے مورث کو قتل کرے تو وہ مقتول کے ارث سے محروم ہوگا۔ اگر غلطی سے قتل کا مرتکب ہوا ہو تو صرف دیہ سے ارث نہیں ملے گا۔ قاتل کی اولاد اور دوسرے رشتہ دار ارث سے محروم نہیں ہونگے۔[21]
  • غلامی: غلام یا کنیز کو کسی سے ارث نہیں ملے گا، اگرچہ میت بھی غلام کی کیوں نہ ہو۔ غلام یا کنیز اگر مر جائے تو اس کا ترکہ اس کے وارثین میں سے آزاد اشخاص کو ملے گا۔[22]
  • لِعان: اگر میاں بیوی کے درمیان لعان واقع ہوئی ہو تو چونکہ لعان کی وجہ سے ان دونوں کے درمیان رشتہ ازدواج ختم ہو جاتا ہے یہ دونوں ایک دوسرے سے ارث نہیں پائیں گے؛[23] لیکن جس اولاد کی وجہ سے میاں بیوی میں لعان واقع ہوئی تھی وه اپنی ماں سے ارث لے گا لیکن باپ سے ارث نہیں ملے گا۔[24]
  • حَمل: ماں کے پیٹ میں موجود بچہ جس کا نطفہ مورث کے موت سے پہلے واقع ہوا ہو اگر زندہ دنیا میں آئے تو اسے ارث ملے گا اگرچہ دنیا میں آتے ہی اس کی موت وقع ہو جائے۔[25] بچہ جب تک ماں کے پیٹ میں ہے اسے ارث نہیں ملے گا لیکن اپنے بعد والے طبقے کو ارث ملنے میں مانع بنے گا۔[26]
  • مفقود الاثر: لاپتہ افراد جن کی کوئی نشانی نہیں مل رہی ہو، دوسروں سے ارث پائیں گے اور ان کی ملکیت میں اضافہ ہو گا اور جیسے ہی ان کی موت کے بارے میں یقین ہو جائے یا ان کو مردہ فرض کیا جائے تو ان کے اموال کو ان کے وارثین میں تقسیم کئے جائیں گے۔[27] اگر یہ معلوم ہو جائے کہ لاپتہ فرد مورث سے پہلے ہی فوت ہو چکا تھا تو جو اموال اس ضمن میں بطور ارث اس کے اموال میں جمع ہوا تھا، کو دوسرے ورثاء‌ میں تقسیم کئے جائیں گے۔[28]
  • زِنا: زنا سے ہونے والی اولاد ماں باپ سے ارث نہیں پائیں گے اسی طرح ولد الزنا کے والدین اور دوسرے رشتہ دار بھی اس سے ارث نہیں پائیں گے۔[29]
  • قرضہ: بعض فقہاء اس قرض کو موانع ارث میں شمار کرتے ہیں جو میت کے پورے ترکے کے برابر یا اس سے زیادہ‌ ہو۔[30]
  • حَجْب: ارث کے باب میں حَجْب سے مراد یہ ہے کہ بعض وارثین کی موجودگی کی بنا پر بعض وارثین یا بالکل ارث سے محروم ہوتے ہیں یا ارث کے کچھ حصوں سے محروم ہوتے ہیں پہلی صورت کو «حَجبِ حِرْمان» جبکہ دوسری صورت کو «حَجب نُقصان» سے تعبیر کی جاتی ہے۔[31] طبقات ارث میں سے پہلا طبقہ اپنے بعد والے طبقہ کو ارث ملنے میں مانع ہے۔[32]

اسلامی ممالک کے مدنی قوانین میں ارث کے احکام

اسلامی جمہوریہ ایران کے مدنی قانون میں شق نمر 861 سے شق نمبر 949 تک ارث کے بارے‌ میں ہے، ارث کے مختلف مباحث جیسے طبقات ارث، اسباب اور موانع ارث کو شیعہ فقہ کے تحث مترتب کئے گئے ہیں۔[33] افغانستان کے مدنی قوانین جو فقہ حنفیہ کے تحت مرتب کئے گئے ہیں، میں شق نمبر 1993 سے شق نمبر 2102 تک میں ارث کے مختلف احکام پر بحث کی گئی ہے۔[34]

حوالہ جات

  1. مؤسسہ دایرۃ‌المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1385ش، ج1، ص375۔
  2. مؤسسہ دایرۃ‌المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1385ش، ج1، ص375۔
  3. ملاحظہ کریں: سورۂ نساء، آیات 7، 11، 12، 19، 176۔
  4. ملاحظہ کریں:حر عاملی، وسایل‌الشیعہ، 1409ق، ج26، ص11-320۔
  5. ہاشمی شاہرودی و دیگران، موسوعۃ الفقہ الاسلامی المقارن، 1433ق/2012م۔ ج2، ص121-122۔
  6. مؤسسہ دایرۃ‌المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1385ش، ج1، ص375۔
  7. مؤسسہ دایرۃ‌المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1385ش، ج1، ص375۔
  8. مؤسسہ دایرۃ‌المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1385ش، ج1، ص375۔
  9. مؤسسہ دایرۃ‌المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1385ش، ج1، ص375۔
  10. سبحانی، نظام الإرث فی الشریعۃ الإسلامیۃ الغراء، 1415ق، ص15و16۔
  11. سبحانی، نظام الارث فی الشَّریعۃِ الاسلامیۃِ الغَرّاء، 1415ق، ص18-19؛ مؤسسۂ دایرۃ‌المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1385ش، ج1، ص376-377۔
  12. ملاحظہ کریں: نجفی، جواہر الکلام، دار احیاء‌التراث العربی، ج39، ص 8-9۔
  13. مؤسسہ دایرۃ‌المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1385ش، ج1، ص378۔
  14. مؤسسہ دایرۃ‌المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1385ش، ج1، ص378 و 379۔
  15. فاضل لنکرانی، تفصیل الشریعۃ (المواریث)، 1421ق، ص455۔
  16. سورۂ نساء، ‌آیہ 11، ترجمہ محمد حسین نجفی۔
  17. جوادی آملی، زن در آینہ جلال و جمال، 1382ش، ص346۔
  18. جوادی آملی، زن در آینہ جلال و جمال، 1382ش، ص346۔
  19. سبحانی، نظام الإرث فی الشریعۃ الإسلامیۃ الغراء، 1415ق، ص21 و 22۔
  20. سبحانی، نظام الإرث فی الشریعۃ الإسلامیۃ الغراء، 1415ق، ص31 و32۔
  21. سبحانی، نظام الإرث فی الشریعۃ الإسلامیۃ الغراء، 1415ق، ص54 و 55۔
  22. شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، 1410ق، ج8، ص38۔
  23. سبحانی، نظام الإرث فی الشریعۃ الإسلامیۃ الغراء، 1415ق، ص80۔
  24. سبحانی، نظام الإرث فی الشریعۃ الإسلامیۃ الغراء، 1415ق، ص80۔
  25. شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، 1410ق، ج8، ص47؛ سبحانی، نظام الإرث فی الشریعۃ الإسلامیۃ الغراء، 1415ق، ص92۔
  26. سبحانی، نظام الإرث فی الشریعۃ الإسلامیۃ الغراء، 1415ق، ص89۔
  27. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: شیخ طوسی، الخلاف، مؤسسۃ النشر الإسلامی، ج4، ص119؛ ابن‌ادریس، السرائر، 1410ق، ج2، ص298؛ علامہ حلی، مختلف الشیعہ، 1413ق، ج9، ص110؛ علامہ حلی، تبصرۃ المتعلمين، 1411ق، ص177؛ نجفی، جواہر الکلام، 1362ش، ج39، ص63؛ مکارم شیرازی، الفتاوی الجديدۃ، 1385ش، ج2، ص362۔
  28. کاتوزیان، دورہ مقدماتی حقوق مدنی، 1386ش، ص222۔
  29. نجفی، جواہر الکلام، 1362ش، ج39، ص274 و275۔
  30. ملاحظہ کریں: سبحانی، نظام الإرث فی الشریعۃ الإسلامیۃ الغراء، 1415ق، ص95۔
  31. نجفی، جواہر الکلام، 1362ش، ج39، ص75؛ سبحانی، نظام الإرث فی الشریعۃ الإسلامیۃ الغراء، 1415ق، ص97۔
  32. مؤسسہ دایرۃ‌المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1385ش، ج1، ص378۔
  33. «قانون مدنی»، مرکز پژوہش‌ہای مجلس شواری اسلامی۔
  34. «قانون مدنی افغانستان»، مؤسسہ فرہنگی بشارت۔۔

مآخذ

  • ابن‌ادریس، محمد بن احمد، السرائر الحاوی لتحرير الفتاوی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1410ھ۔
  • جوادی آملی، عبداللہ، زن در آینہ جلال و جمال، تنظیم و ویرایش محمود لطیفی، قم، نشر اسراء، چاپ ہفتم، 1382ہجری شمسی۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسایل‌الشیعہ، تحقیق و تصحیح گروہ پژوہش مؤسسہ آل‌البیت، قم، مؤسسہ آل‌البیت، چاپ اول، 1409ھ۔
  • سبحانی، جعفر، نظام الإرث فی الشریعۃ الإسلامیۃ الغراء، تقریر سید رضا پیغمبرپور‌ کاشانی، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، چاپ اول، 1415ھ۔
  • شہید ثانی، زین الدین بن علی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، شرح سیدمحمد کلانتر، قم، کتابفروشی داوری، چاپ اول، 1410ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، کتاب الخلاف، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، بی‌تا۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، مختلف الشيعۃ فی أحكام الشريعۃ‌، قم، دفتر انتشارات اسلامى، 1413ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، تبصرۃ المتعلمین فی أحکام الدین، تحقیق: محمدہادی یوسفی غروی، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی۔ سازمان چاپ و انتشارات، 1411ھ۔
  • فاضل لنکرانی، محمد، تفصیل الشریعۃ فی شرح تحریر الوسیلۃ الطلاق، المواریث، ‌قم، مرکز فقہی ائمہ اطہار(ع)، چاپ اول، 1421ھ۔
  • «قانون مدنی»، مرکز پژوہش‌ہای مجلس شواری اسلامی، تاریخ تصویب: 18 اردیبشہت 1307ہجری شمسی، تاریخ بازدید: 9 مہر 1399ہجری شمسی۔
  • «قانون مدنی افغانستان»، مؤسسہ فرہنگی بشارت، تاریخ اخذ: 9 مہر 1399ہجری شمسی۔
  • کاتوزیان، ناصر، دورہ مقدماتی حقوق مدنی درس‌ہایی از شفعہ، وصیت و ارث، تہران، نشر میزان، 1386ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، الفتاوی الجديدۃ، قم، مدرسہ الامام على بن ابى‌طالب(ع)، 1385ہجری شمسی۔
  • مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت(ع)، زیر نظر سید محمودہاشمی شاہرودی، قم، مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، چاپ اول، 1385ہجری شمسی۔
  • نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، تحقیق عباس قوچانی و علی آخوندی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، بی‌تا۔
  • ہاشمی شاہرودی، محمود و دیگران، موسوعۃ الفقہ الاسلامی المقارن، قم، مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل بیت(ع)، چاپ اول، 1433ھ/2012ء۔