طہارت

ویکی شیعہ سے

طہارت ایک فقہی اصطلاح ہے جس کے معنی نجاسات اور حدث اکبر اور حدث اصغر سے پاک ہونا ہے۔ حدث اصغر بول و غائط اور معدہ سے ہوا کے خارج ہونے کو کہا جاتا ہے جس سے وضو باطل ہوجاتا ہے۔ حدث اکبر جنابت اور ہمبستری جیسی چیزوں کو کہا جاتا ہے جس سے مکلف پر غسل واجب ہوتا ہے۔

نجاست سے طہارت اور پاکیزگی وضو اور نماز جیسی بعض عبادات کے لئے ضروری ہے۔ وضو کا پانی، نمازی کا بدن اور کپڑے کا نجاست سے پاک ہونا ضروری ہے۔ پانی اور وہ چیزیں جن سے نجاست دور کی جا سکتی ہے انہیں مُطَہِّرات یا پاک‌ کرنے والی چیزیں کہا جاتا ہے۔

طہارت بذات خود واجب نہیں بلکہ نماز اور طواف جیسے واجب اعمال کی انجام دہی کے لئے واجب ہوتی ہے نیز قرآنی آیات کو چھونے کے لئے بھی طہارت واجب ہے۔ حدث اصغر کی صورت میں وضو جبکہ حدث اکبر کے بعد غسل کرنے سے طہارت حاصل ہوتی ہے۔ اگر وضو اور غسل کرنا ممکن نہ ہو تو ان کے بدلے میں تیمم کیا جاسکتا ہے۔

فقہی تعریف

فقہ میں طہارت سے مراد اکثر اوقات نجس چیزوں اور حدث اکبر اور حدث اصغر سے پاک ہونا ہے۔[1] حدث اصغر سے مراد بول، غائط، معدے کی ہوا خارج ہونا اور نیند وغیرہ ہیں۔ یہ چیزیں وضو کو باطل کرتی ہیں۔[2] حدث اکبر سے مراد جنابت، ہمبستری اور حیض جیسی چیزیں ہیں جو غسل کا باعث بنتی ہیں۔[3]

فقہی کتابوں میں طہارت کے نام سے ایک باب ہے جس میں نجاسات، مُطَہِّرات، وضو، غسل اور تیمم کے بارے میں بحث ہوتی ہے۔[4]

نجاست سے طہارت

مزید معلومات کے لئے دیکھئے: نجاسات اور مطہرات

اسلامی احکام کے مطابق ہر چیز پاک ہے سوائے ان دس چیزوں کے جنہیں نجاسات کہا جاتا ہے جیسے: انسان اور حرام گوشت جانور کا بول اور غائط، انسان اور خون جہندہ رکھے والے حیوانات کا خون، کتا اور خنزیر وغیرہ۔[5] کوئی بھی چیز جب نجس چیز سے لگ جاتی ہے تو وہ بھی نجس ہوجاتی ہے اور اس کو فقہی اصطلاح میں مُتَنَجِّس کہا جاتا ہے۔[6] نجس چیزوں کو پانی جیسی چیزوں سے پاک کیا جاتا ہے اور پاک کرنے والی چیزوں کو مُطَہِّرات کہا جاتا ہے۔[7]

نجاسات سے پاکیزگی کا حکم

فقہا کے مطابق درج ذیل موارد میں نجاست سے پاکیزہ ہونا واجب ہے:

  1. وضو کے دوران اعضائے وضو،
  2. وضو اور غسل کا پانی،
  3. اگر ممکن ہو تو تیمم کے اعضا،
  4. مٹی یا وہ چیز جس پر تیمم کی جاتا ہے،
  5. سجدہ میں پیشانی کی جگہ(سجدہ گاہ)
  6. نماز پڑھنے والے اور طواف کرنے والے کے کپڑے۔[8]

حَدَث سے طہارت

حَدَث یعنی وہ چیز جس کی وجہ سے طہارت ختم ہوجاتی ہے۔[9] فقہا نے حدث کو حدث اکبر اور حدث اصغر میں تقسیم کیا ہے۔[10] حدث اصغر کے موارد میں پیشاب، پاخانہ اور معدہ سے ہوا خارج ہونا، نیند، وہ چیزیں جو عقل کو زائل کر دیتی ہیں (جیسے مستی، بے ہوشی، پاگل پن) اور استحاضہ قلیلہ شامل ہیں۔[11]

حدث اکبر کے موارد درج ذیل ہیں: جنابت، ہمبستری، حیض، نِفاس، استحاضۂ متوسطہ، کثیرہ اور میت کے بدن کو چھونا۔[12]

حدث اصغر سے وضو کے ذریعے طہارت اور پاکیزگی حاصل ہوتی ہے اور حدث اکبر سے غسل کے ذریعے طہارت آجاتی ہے۔[13] ضرورت کے وقت غسل اور وضو کے بدلے میں تیمم بھی کیا جاسکتا ہے۔[14]

حدث سے طہارت کا حکم

حدث سے طہارت خود سے واجب نہیں ہوتی ہے؛ لیکن درج ذیل عبادتوں کو انجام دینے کے لئے واجب ہوتی ہے:

  1. نماز میت کے علاوہ تمام واجب نمازیں،
  2. واجب طواف،
  3. قرآنی آیات کو چھونا،
  4. اللہ، پیغمبر اکرمؐ اور مشہور فتوا کے مطابق اہل بیتؑ کے ناموں کو چھونا،
  5. فتوائے مشہور کے مطابق روزہ کے لئے،
  6. واجب سجدہ والی سورتوں کو پڑھنے کےلئے
  7. مسجد میں ٹھہرنے کیلئے،
  8. مسجد الحرام اور مسجد النبی میں داخل ہونے کے لئے اگرچہ نہ ٹھہرے۔[15]

پہلے چار موارد میں حدث اصغر اور حدث اکبر دونوں سے طہارت لازمی ہے لیکن آخری چار موارد میں صرف حدث اکبر سے طہارت اور پاگیزگی واجب ہے۔[16]

حدث سے طہارت یعنی وضو، تیمم اور غسل کو قصد قربت کے ساتھ انجام دینا ضروری ہے۔[17]

بہت سارے موارد میں طہارت مستحب ہے جن میں سے بعض درج ذیل ہیں: اللہ سے حاجات طلب کرنے کے لئے، قرآن کو اپنے ساتھ رکھنے کی صورت میں، نماز میت، اہل قبور کی زیارت، تلاوت قرآن اور مسجد میں داخل ہونے کے لئے۔[18]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. مشکینی، مصطلحات‌الفقہ، 1392ہجری شمسی، ص379.
  2. فیض کاشانی، رسائل، 1429ھ، ج2، ص22.
  3. فیض کاشانی، رسائل، 1429ھ، ج2، ص22.
  4. ملاحظہ کریں: خمینی، تحریرالوسیلہ، 1392ہجری شمسی، ج1، ص11، 21،38، 106، 119، 132؛ نجفی، جواہرالکلام، ج1، ص3، 8، 29، 55،
  5. محقق حلی، شرایع‌الاسلام، 1408ھ، ج1، ص43-45؛ نجفی، جواہرالکلام، ج5، ص273، 290، 294،354،366، ج6، ص2،38، 41.
  6. سرور، المعجم الشامل للمصلحات العلمیہ و الدینیہ، 1429ھ، ج1، ص229.
  7. خمینی، تحریرالوسیلہ، 1392ہجری شمسی، ج1، ص132.
  8. مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1387ہجری شمسی، ج5، ص239.
  9. مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1387ہجری شمسی، ج3، ص246-248.
  10. مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1387ہجری شمسی، ج3، ص246-248.
  11. فیض کاشانی، رسائل، 1429ھ، ج2، رسالہ4، ص22.
  12. محقق حلی، شرایع‌الاسلام، 1408ھ، ج1، ص9؛ فیض کاشانی، رسائل، 1429ق، ص22.
  13. محقق حلی، شرایع‌الاسلام، 1408ھ، ج1، ص9، 17.
  14. محقق حلی، شرایع‌الاسلام، 1408ھ، ج1، ص38-39.
  15. مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1387ہجری شمسی، ج5، ص237-238.
  16. مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1387ہجری شمسی، ج5، ص238.
  17. محقق حلی، شرایع‌الاسلام، 1408ھ، ج1، ص12، 19، 40.
  18. مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1387ہجری شمسی، ج5، ص238.

مآخذ

  • خمینی، سیدروح‌اللہ، تحریرالوسیلہ، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1392ہجری شمسی۔
  • سرور، ابراہیم حسین، المعجم الشامل للمصطلحات العلمیہ و الدینیہ، بیروت، دارالہادی، 1429ھ۔
  • فیض کاشانی، محمدمحسن، رسائل فیض کاشانی، تحقیق بہزاد جعفری، تہران، مدرسہ عالی شہید مطہری، 1429ھ۔
  • مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ مطابق با مذہب اہل‌بیت علیہم‌السلام، قم، مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل‌بیت 1387ہجری شمسی۔
  • محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، تحقیق و تصحیح عبدالحسین محمدعلی بقال، قم، اسماعیلیان، چاپ دوم، 1408ھ۔
  • مشکینی اردبیلی، علی، مصطلحات‌الفقہ، قم، دارالحدیث، 1392ہجری شمسی۔
  • نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، تصحیح عباس قوچانی و علی آخوندی، بیروت، دار اِحیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، 1404ھ۔