لقطہ

ویکی شیعہ سے

لُقَطہ یعنی وہ چیز جو راستے وغیرہ میں پڑی مِل جائے اور اس کا مالک نامعلوم ہو۔ فقہا ایسی چیز کو اٹھانے سے منع فرماتے ہیں لیکن اگر کسی نے کوئی قیمتی چیز کو پا لیا تو ضروری ہے کہ عمومی جگہوں پر اس کے ملنے کا اعلان کرے تاکہ اس کا مالک مل جائے اور اگر مالک نہ ملے تو اس شخص کو چاہئے کہ مالک کی طرف سے اس مال کا صدقہ دے۔

مفہوم‌شناسی

لقطہ ایسی چیز کو کہتے ہیں جو راستے وغیرہ میں پڑی مِل جائے اور اس کا مالک نامعلوم ہو۔[1] اہل لغت نے اس کا یہ معنی کیا ہے کہ ہر وہ چیز جو زمین سے اٹھائی جائے وہ لقطہ ہے۔[2]

علم فقہ میں لقطہ کے عنوان سے باقاعدہ ایک بخش موجود ہے۔[3]

لقطہ کو اٹھانے سے ممانعت

فقہا نے لقطہ کو اٹھانے کو مکروہ شمار کیا ہے[4] اور اس حکم کو حدیث سے اخذ شدہ سمجھتے ہیں۔[5] امام صادقؑ نے فرمایا: جو بھی چیز تمہیں پڑی مل جائے اسے نہ اٹھاؤ اس لئے کہ اگر لوگوں نے اسے نہیں اٹھایا تو اس کا مالک آکر اسے لے لیگا۔[6] دوسری روایت میں امامؑ سے ملے ہوئے سامان کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا: «اسے مت اٹھاؤ»[7]

لقطہ کا حکم شرعی

مراجع تقلید روایات کی بنیاد پر[8] اس بات کے معتقد ہیں کہ اگر کسی کو کوئی چیز مل جائے اور اسے کسی علامت کے ذریعہ مالک تک نہ پہنچا سکے تو اسے چاہئے کہ اس کے مالک کی طرف سے صدقہ دیدے۔[9] لیکن اس چیز میں کوئی ایسی علامت مل جائے جس سے اس کے مالک تک پہنچایا جا سکے تو اگر:

  1. اس کی قیمت ایک درہم شرعی(تقریبا ۲۔۵ گرام چاندی) سے کم ہو تو اٹھانے والا اسے اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔[10]
  2. اس کی قیمت ایک درہم شرعی سے زیادہ ہو تو اس کے مالک تک پہنچانے کے لئے اسے عمومی جگہوں پر اعلان کرنا چاہئے۔

اگر مالک نہ مل پائے تو اسے تین چیزوں میں اختیار ہے:

  • اسے اپنے لئے رکھ لے۔
  • اس چیز کو اس کے مالک کے لئے اپنے پاس رکھ لے کہ جب بھی وہ مل جائے اسے دیدے۔
  • اس چیز کو مالک کی طرف سے صدقہ دیدے۔[11]

لقطہ کے اعلان کا طریقہ

فقہا فرماتے ہیں کہ اگر کسی کو کوئی چیز مل جائے اور وہ اس کے مالک کی تلاش میں ہو تو اگر وہ اسی دن سے ایک ہفتہ تک روزانہ ایک مرتبہ اور اس کے بعد سے ایک سال تک ہر ہفتہ ایک مرتبہ عمومی جگہوں پر اعلان کرے تو یہ کافی ہے۔[12] البتہ اگر سال کے درمیان اس بات سے مایوس ہو جائے کہ اس کا مالک اب نہ ملے گا تو اسے چاہئے کہ اس مال کا صدقہ دیدے۔[13]

خراب ہو جانے والا لقطہ

رسالہ مراجع تقلید میں اس طرح بیان ہوا ہے کہ اگر لقطہ ایسی چیز ہو جو جلدی خراب ہو جائے جیسے کھانا اور پھل وغیرہ، ایسی صورت میں اگر اس کی قیمت بہت کم ہو اور انسان یہ سمجھے کہ اس کا مالک اس چیز کے لئے بہت پریشان نہ ہوگا اور اسے خاص دلچسپی نہ ہوگی تو وہ اسے استفادہ کر سکتا ہے؛[14] لیکن اگر ایسا نہ ہو تو اسے چاہئے کہ جب تک وہ چیز خراب نہ ہو اس کی حفاظت کرے اور اگر مالک نہ مل پائے تو وہ اسے بیچ دے یا خود استعمال کر لے۔ پھر اس کے مالک کو قیمت ادا کرے اور اگر مالک نہ ملے تو اس کی طرف سے صدقہ دیدے۔[15]

لقطہ حیوان

لقطہ اگر حیوان ہو تو اسے «ضالّہ» کہا جاتا ہے۔[16] اگر کسی کو گمشدہ جانور مل جائے تو اسے رکھنا جائز نہیں ہے اور اگر اسے رکھ لیا اور مالک کو بھی تلاش نہیں کیا تو ضروری ہے کہ خود حیوان یا اس کی قیمت کو صدقہ دے۔[17] البتہ، اگر جانور غیر آباد علاقے میں پایا جائے اور جانور - جیسے بھیڑ - اپنی حفاظت کرنے کے قابل نہیں ہے، اسے پکڑنا اور اس کی حفاظت کرنا جائز ہے چنانچہ اگر جسے جانور ملا ہے وہ مالک کو تلاش کرے اور وہ نہ ملے تو وہ اس کا مالک ہو سکتا ہے۔[18]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. طوسی، الوسیلۃ إلی نیل الفضیلۃ، ۱۴۰۸ھ، ص۲۷۷؛ امام خمینی، تحریر الوسیلۃ،‌ دار العلم، ج۲، ص۲۲۱۔
  2. فراہیدی، کتاب العین، ۱۴۱۰ھ، ج۵، ص۱۰۰؛ صاحب بن عباد، المحیط فی اللغۃ، ۱۴۱۴ھ، ج۵، ص۳۲۴۔
  3. مشکینی، مصطلحات الفقہ، ص۴۵۵۔
  4. علامہ حلّی، تذکرۃ الفقہاء، ۱۴۱۴ھ، ج۱۷، ص۱۶۷؛ امام خمینی، تحریر الوسیلۃ،‌ دار العلم، ج‌۲، ص۲۲۵، م۵۔
  5. بحرانی، الحدائق الناضرۃ، ۱۴۰۵ھ، ج۱۷، ص۳۵۴؛ حرّ عاملی، وسائل الشیعۃ، ۱۴۰۹ھ، ج۲۵، ص۴۳۹۔
  6. طوسی، تہذیب الأحکام، ۱۴۰۷ھ، ج۶، ص۳۹۰، ح۱۱۶۶؛ حرّ عاملی، وسائل الشیعۃ، ۱۴۰۹ھ، ج۲۵، ص۴۳۹، ح۳۲۲۹۷۔
  7. طوسی، الاستبصار، ۱۳۹۰ھ، ج۳، ص۶۹، ح۲۲۹۔ حرّ عاملی، وسائل الشیعۃ، ۱۴۰۹ھ، ج۲۵، ص۴۴۲، ح۳۲۳۰۸۔
  8. حرّ عاملی، وسائل الشیعۃ، ۱۴۰۹ھ، ج۲۵، ص۴۴۱۔
  9. امام خمینی، توضیح المسائل (محشی)، ۱۴۲۴ھ، ج‌۲، ص۵۵۴، م۲۵۶۴۔
  10. امام خمینی، تحریر الوسیلۃ،‌ دار العلم، ج‌۲، ص۲۲۵، م۶۔
  11. امام خمینی، توضیح المسائل (محشی)، ۱۴۲۴ھ، ج‌۲، ص۵۵۴، م۲۵۶۶؛ تحریر الوسیلۃ،‌ دار العلم، ج‌۲، ص۲۲۵، م۶۔
  12. امام خمینی، توضیح المسائل (محشی)، ۱۴۲۴ھ، ج‌۲، ص۵۵۴، م۲۵۶۶۔
  13. امام خمینی، توضیح المسائل (محشی)، ۱۴۲۴ھ، ج۲، ص۵۶۰، م۲۵۷۲۔
  14. امامی، حقوق مدنی، انتشارات اسلامیۃ٬ ج ۱، ص۱۴۳۔
  15. امام خمینی، توضیح المسائل (محشی)، ۱۴۲۴ھ، ج۲، ص۵۶۳، م۲۵۷۹۔
  16. امام خمینی، تحریر الوسیلۃ،‌ دار العلم، ج‌۲، ص۲۲۱۔
  17. امام خمینی، تحریر الوسیلۃ،‌ دار العلم، ج‌۲، ص۲۲۱-۲۲۲۔
  18. امام خمینی، تحریر الوسیلۃ،‌ دار العلم، ج‌۲، ص۲۲۲، م۴۔

مآخذ

  • امام خمینی، سید روح‌اللّٰہ، تحریر الوسیلۃ،‌ قم، دار العلم، اول، بے تا۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، توضیح المسائل (محشی)، (ہمراہ با فتاوای فقہای بزرگ)، قم، جامعہ مدرسین، ۱۴۲۴ھ۔
  • امامی، سید حسن، حقوق مدنی، تہران، انتشارات اسلامیۃ، بے تا۔
  • بحرانی، یوسف بن احمد، الحدائق الناضرۃ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، اول، ۱۴۰۵ھ۔
  • حرّ عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعۃ، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، اول، ۱۴۰۹ھ۔
  • حلّی، علامہ، حسن بن یوسف بن مطہر اسدی، تذکرۃ الفقہاء، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)،اول، ۱۴۱۴ھ۔
  • سعدی ابوجیب، القاموس الفقہی لغۃ و اصطلاحا،‌ دمشھ، دار الفکر، دوم، ۱۴۰۸ھ۔
  • صاحب بن عباد،اسماعیل بن عباد، المحیط فی اللغۃ، بیروت، عالم الکتاب، اول، ۱۴۱۴ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، الاستبصار،‌ تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، اول، ۱۳۹۰ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام،‌ تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چہارم، ۱۴۰۷ھ۔
  • طوسی، محمد بن علی، الوسیلۃ إلی نیل الفضیلۃ، قم، انتشارات کتابخانہ آیۃ اللہ مرعشی نجفی، اول، ۱۴۰۸ھ۔
  • فراہیدی، خلیل بن احمد، کتاب العین، قم، نشر ہجرت، چاپ دوم، ۱۴۱۰ھ۔
  • مشکینی، میرزا علی، مصطلحات الفقہ، بے‌جا، بے‌نا، بے تا۔