کفارہ جمع

ویکی شیعہ سے

کَفّارہ جمع، یعنی ایک غلام آزاد کرنا، ساٹھ روزے رکھنا اور ساٹھ فقیروں کا اطعام یعنی کھانا کھلانا۔ یہ تینوں امور ایک ساتھ انجام دینے کو کفارہ جمع کہا جاتا ہے۔ اور یہ حرام کے ذریعہ روزہ توڑنے یا قتل عمد کی وجہ سے واجب ہوتا ہے۔ البتہ کچھ فقہاء نے کہا ہے کہ حرام سے روزہ افطار کرنے کی صورت میں احتیاط کی بنیاد پر کفارہ جمع واجب ہوتا ہے۔ کفارہ جمع میں 31 روزوں کا لگاتار ہونا ضروری ہے۔ اور اطعام میں ضروری ہے کہ ہر فقیر کو کم سے کم ایک مُد طعام (یعنی 750 گرام گیہوں یا جو وغیرہ) دیا جائے۔ فقہاء کے فتاوا کے مطابق اگر تینوں کفاروں کا ایک ساتھ انجام دینا ممکن نہ ہو تو جو ممکن ہو اسے انجام دے اور اگر ان میں سے کسی کو بھی کسی بھی مقدار میں انجام نہ دے سکتا ہو تو استغفار کرے۔

معنی اور تعریف

کئی کفارے ایک ساتھ انجام دینے کو کفارہ جمع کہا جاتا ہے جو کہ کچھ حرام کام انجام دینے کی وجہ سے واجب ہو جاتا ہے۔ اور یہ ایک غلام آزاد کرنے، ساٹھ روزے رکھنے اور ساٹھ فقیروں کو کھانا کھلانے کے مجموعہ سے مرکب ہے۔[1] کفارہ اس مالی اور بدنی جرمانہ کو کہتے ہیں جو کچھ گناہ انجام دینے کی وجہ سے واجب ہوتا ہے۔[2]

وجوب کے موارد

کفارہ جمع کچھ موارد میں واجب ہوتا ہے۔ جیسے حرام سے روزه افطار کرنے اور قتل عمد پر واجب ہوتا ہے:

حرام سے روزہ توڑنا

کچھ فقہاء کے یہاں کسی حرام کام جیسے نجاست کھانے، زنا یا استمنا کے ذریعہ روزہ توڑنے سے کفارہ جمع واجب ہو جاتا ہے؛[3] چاہے وہ چیز اصل میں حرام ہو یا کسی وجہ سے حرام ہو گئی ہو جیسے غصب کردہ، نجس یا نقصان دہ چیز کھانا۔[4] امام رضا علیہ السلام سے نقل شده ایک روایت کے مطابق کسی حرام کے ذریعہ روزہ توڑنا کفارہ جمع کا سبب ہوتا ہے۔[5] کچھ فقہاء نے قواعد فقہی اور کچھ دیگر روایات سے استناد کرتے ہوئے حرام سے روزہ توڑنے کی صورت میں صرف ایک کفارہ کو واجب قرار دیا ہے۔[6] آیت‌ اللہ خامنہ ای[7] اور آیت‌ اللہ سیستانی[8] نے کفارہ جمع کو احتیاط مستحب قرار دیا ہے۔ اور کچھ دیگر فقہاء نے احتیاط واجب کا حکم کیا ہے۔[9]

کچھ مراجع تقلید کا فتویٰ یہ ہے کہ حرام سے افطار کرنے کے سبب کفارہ جمع کا واجب ہونا ماه رمضان کے روزوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ دوسرے واجب روزوں کو بھی شامل ہوتا ہے۔[10] مزید کچھ دوسرے فقہاء نے سر و سینہ کا بلغم نگلنے کو بھی اسی حکم سے جوڑا ہے۔[11] بعض کے فتوا کے مطابق اسی طرح خونی تھوک کو نگلنا بھی کفاره جمع کا سبب بنتا ہے،[12] یا احتیاط واجب کی بنا پر کفارہ جمع انجام دینا ہوگا۔[13]

کچھ مراجع کے فتوے کے مطابق، حالت روزہ میں خدا و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ پر جھوٹ باندھنا بھی کسی جمع کا سبب بنتا ہے؛ اگرچہ اس سلسلہ میں کچھ اختلافات پائے جاتے ہیں۔[14]

قتل عمد

کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنے سے کفارہ جمع واجب ہو جاتا ہے۔[15] یہ حکم حدیث میں آیا ہے۔[16] اسی طرح کچھ روایات کہتی ہیں کہ قاتل کی توبہ قبول ہونے کے شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ وہ کفارہ جمع ادا کرے۔[17]

کچھ کا نظریہ ہے کہ کفارہ جمع اس صورت میں واجب ہوتا ہے جب انسان نے خود قتل انجام دیا ہو اور اگر بالواسطہ قتل کا سبب بنا ہو یا قتل کا حکم دیا ہو تو اس پر کفارہ واجب نہیں ہوگا۔[18]

مسلمان عورت، مرد، آزاد، غلام، عاقل، دیوانہ، بالغ اور نابالغ ہر ایک کے قتل میں کفارہ قتل واجب ہوتا ہے۔[19] یہ حکم شکم مادر میں موجود اس جنین کو بھی شامل ہوگا جس میں ابھی روح و جان بھی نہ پڑی ہو۔[20]

قتل کے مرتکب ہونے والے دیوانے یا بچے پر کفارہ جمع، واجب ہونے کے سلسلہ میں اختلاف ہے۔ کچھ نے لکھا ہے کہ بعض فقہاء کا نظریہ یہ ہے کہ فقراء کے اطعام اور غلام کے آزاد کرنے کا خرچ ان کے مال میں سے لیا جائے گا اور دیوانہ کے افاقہ اور بچہ کے بلوغ کے بعد خود انھیں روزہ رکھنا ہوگا۔[21]

اکثر فقہاء کا نظریہ ہے کہ قصاص کے بعد، فقراء کے اطعام اور روزہ رکھنے کے خرچ کو قاتل کے مال سے لیا جائے گا؛[22] اسی طرح اگر قاتل کفارہ دینے سے پہلے مر جائے تو کفارہ کے خرچ کو اس کے مال سے نکالا جائے گا؛[23] اگر قاتل پر قصاص کا حکم نہ لگتا ہو جیسے باپ کے ذریعہ اولاد کا قتل تو اس پر کفارہ جمع واجب ہوگا۔[24]

اگر کئی لوگ مل کر کسی کو مار ڈالیں تو سب کے اوپر کفارہ جمع واجب ہوگا۔[25] کچھ روایات میں آیا ہے کہ اگر کوئی شخص حرام مہینوں، میں قتل کا مرتکب ہو تو کفارہ کے روزوں کو بھی انہی مہینوں رکھنا چاہئے۔[26]

احکام

کفارہ جمع کے کچھ احکام اس طرح ہیں:

  • ساٹھ روزوں میں سے اکتیس روزے لگاتار اور وقفے کے بغیر رکھنا ضروری ہے۔[27]
  • اطعام یعنی کھانا کھلانے میں ضروری ہے کہ ہر فقیر کو کم سے کم ایک مُد طعام (750 گرام گیہوں یا جو وغیرہ) دیا جائے۔[28] البتہ علامہ مجلسی کے مطابق، ایک یا دو مد طعام کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔[29]
  • اگر تینوں کفاروں کو ایک ساتھ انجام دینا ممکن نہ ہو تو جو بھی ممکن ہے اسے انجام دے اور اگر ان میں سے کسی کو بھی اور کسی بھی مقدار میں انجام دینا ممکن نہ ہو تو استغفار کرے۔[30]

حوالہ جات

  1. شہید اول، غایۃ المراد، ۱۴۱۴ھ، ج‌۳، ص۴۵۹؛ آبی، کشف الرموز، ۱۴۱۷ھ، ج‌۲، ص۲۵۹؛ شہید اول، اللمعۃ الدمشقیۃ، ۱۴۱۰ق، ص۸۵.‌
  2. مشکینی، مصطلحات‌ الفقہ، ۱۴۱۹ق، ص۴۳۸.
  3. شیخ بہائی، جامع عباسی، ۱۴۲۹ھ، ص۴۶۲؛ بحرانی، سداد العباد، ۱۴۲۱ھ، ص۲۲۹؛ علامہ حلی، إرشاد الأذہان، ۱۴۱۰ھ، ج‌۲، ص۹۷؛ امام خمینی، توضیح المسائل (محشی)، ۱۴۲۴ھ، ج‌۱، ص۹۳۱۔
  4. فقعانی، مسائل ابن طی، بےتا، ص۱۷۸؛ شہید ثانی، حاشیۃ المختصر النافع، ۱۴۲۲ھ، ص۶۱؛ امام خمینی، توضیح المسائل (محشی)، ۱۴۲۴ھ، ج‌۱، ص۹۳۰–۹۳۱۔
  5. شیخ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ھ، ج۳، ص۳۷۸۔
  6. صیمری، غایۃ المرام، ۱۴۲۰ھ، ج‌۱، ص۳۱۹۔
  7. خامنہ ای، اجوبۃ الاستفتائات، ۱۴۲۰ھ، ج‌۱، ص۱۳۵.۔
  8. سیستانی، توضیح المسائل، ۱۳۹۳ش، ص۲۹۸-۲۹۹۔
  9. امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، ۱۴۰۹ھ، ج‌۲، ص۱۲۶؛ امام خمینی، توضیح المسائل، ۱۴۲۶ھ، ص۳۴۴۔
  10. فقعانی، مسائل ابن طی، بےتا، ص۱۷۸۔
  11. مجلسی، لوامع صاحبقرانی، ۱۴۱۴ھ، ج‌۳، ص۲۴۸؛ شہید ثانی، حاشیۃ الإرشاد، ۱۴۱۴ھ، ج‌۱، ص۳۰۹.۔
  12. کرمانشاہی، مقامع الفضل، ۱۴۲۱ھ، ج‌۲، ص۲۴۹۔
  13. امام خمینی، توضیح المسائل، ۱۴۲۶ھ، ص۳۴۹۔
  14. امام خمینی، توضیح المسائل (محشی)، ۱۴۲۴ھ، ج‌۱، ص۹۳۱۔
  15. بحرانی، عیون الحقائق الناظرۃ، ۱۴۱۰ھ، ج‌۲، ص۳۱۰۔
  16. نمونہ کے طور پر دیکھئے: کلینی، الکافی، ج۷، ص۲۷۶؛ طوسی، تہذیب الأحکام، ۱۴۰۷ھ، ج۱۰، ص۱۶۲-۱۶۵؛ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ھ، ج۴، ص۹۵-۹۶؛ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ۱۴۰۹ھ، ج۲۹، ص۳۴۔
  17. نمونہ کے لئے دیکھئے:‌ فاضل مقداد، کنز العرفان، ۱۴۲۵ھ، ج‌۲، ص۳۶۷‌؛ ابن ادریس حلی، السرائرالحاوی، ۱۴۱۰ھ، ج‌۳، ص۳۳؛ حر عاملی، ہدایۃ الامۃ، ۱۴۱۲ھ، ج۸، ص۴۶۷۔
  18. فخر المحققین، إیضاح الفوائد، ۱۳۸۷ھ، ج‌۴، ص۷۵۱؛ مجلسی، حدود و قصاص و دیات، تہران، ص۱۶۰۔
  19. آبی، کشف الرموز، ۱۴۱۷ھ، ج‌۲، ص۶۸۱؛ مجلسی، حدود و قصاص و دیات، تہران، ص۱۶۰۔
  20. حائری، الشرح الصغیر، ۱۴۰۹ھ، ج‌۳، ص۵۲۰۔
  21. مجلسی، حدود و قصاص و دیات، ص۱۶۱.۔
  22. مجلسی، حدود و قصاص و دیات، تہران، ص۱۶۰۔
  23. فقعانی، الدر المنضود، ۱۴۱۸ھ، ص۳۳۳۔
  24. علامہ حلی، تحریر الأحکام الشرعیۃ، ۱۴۲۰ھ، ج‌۵، ص۴۶۰۔
  25. حلی، إرشاد الأذہان، ۱۴۱۰ھ، ج‌۲، ص۹۷؛ فخر المحققین، إیضاح الفوائد، ۱۳۸۷ھ، ج‌۴، ص۷۵۱؛ مجلسی، حدود و قصاص و دیات، تہران، ص۱۶۱۔
  26. حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ۱۴۰۹ھ، ج‌۱۰، ص۳۸۰-۳۸۱۔
  27. امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، ۱۴۰۹ھ، ج‌۱، ص۳۰۲.۔
  28. مکارم شیرازی، توضیح المسائل، ۱۴۲۹ھ، ص۲۶۳۔
  29. مجلسی، حدود و قصاص و دیات، تہران، ص۱۶۰۔
  30. امام خمینی، توضیح المسائل (محشی)، ۱۴۲۴ھ، ج‌۱، ص۹۳۰–۹۳۱۔

مآخذ

  • آبی، حسن بن ابی‌طالب، کشف الرموز فی شرح مختصر النافع، تحقیق علی‌ پناه اشتہاردی و حسن یزدی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۱۷ھ۔
  • ابن ادریس حلی، محمد بن منصور، السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۱۰ھ۔
  • امام خمینی، سید روح‌الله، تحریر الوسیلۃ، قم، موسسہ مطبوعات دارالعلم، ۱۴۰۹ھ۔
  • امام خمینی، سید روح‌ اللہ، توضیح المسائل (محشی)، تحقیق سید محمد حسین بنی‌ ہاشمی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۲۴ھ۔
  • امام خمینی، سید روح‌ الله، توضیح المسائل، تحقیق مسلم قلی‌ پور گیلانی، بےجا، ۱۴۲۶ھ۔
  • بحرانی، حسین بن محمد، سداد العباد و رشاد العباد، تحقیق محسن آل‌ عصفور، قم، کتابفروشی محلاتی، ۱۴۲۱ھ۔
  • بحرانی، حسین بن محمد، عیون الحقائق الناظرة فی تتمیم الحدائق، قم، دفتر انتشارات اسلامی، قم، ۱۴۱۰ھ۔
  • حائری، سید علی، الشرح الصغیر فی شرح مختصر النافع - حدیقۃ المؤمنین، تحقیق سید مہدی رجائی، قم، انتشارات کتابخانہ آیت‌اللہ مرعشی نجفی، ۱۴۰۹ھ.
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعۃ، قم، مؤسسہ آل‌ البیت(ع)، ۱۴۰۹ھ۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، ہدایۃ الأمۃ إلی احکام الأئمۃ - منتخب المسائل، مشہد، مجمع البحوث الاسلامیہ، ۱۴۱۲ھ۔
  • خامنه‌ ای، سید علی، اجوبۃ الاستفتائات، بیروت، الدار الاسلامیۃ، ۱۴۲۰ھ، چاپ سوم۔
  • سیستانی، سید علی، توضیح المسائل، مشہد، دفتر حضرت آیت‌ اللہ العظمی سیستانی، ۱۳۹۳ش۔
  • شہید اول، محمد بن مکی، اللمعۃ الدمشقیۃ فی فقہ الإمامیۃ، تحقیق محمد تقی مروارید و علی‌ اصغر مروارید، بیروت، دارالتراث، ۱۴۱۰ھ۔
  • شہید اول، محمد بن مکی، غایۃ المراد فی شرح نکت الإرشاد، تحقیق رضا مختاری، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، ۱۴۱۴ھ۔
  • شہید ثانی، زین‌ الدین بن علی، حاشیۃ الإرشاد، تحقیق رضا مختاری، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، ۱۴۱۴ھ۔
  • شہید ثانی، زین‌ الدین بن علی، حاشیۃ المختصر النافع، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، ۱۴۲۲ھ۔
  • شیخ بہایی، بہاء‌الدین، جامع عباسی و تکمیل آن محشی، چاپ جدید، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۲۹ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، من لایحضره الفقیہ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۱۳ھ۔
  • صیمری، مفلح بن حسن، غایۃ المرام فی شرح شرائع الإسلام، تحقیق جعفر کوثرانی، بیروت، دارالہادی، ۱۴۲۰ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الأحکام، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، إرشاد الأذہان إلی أحکام الإیمان، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۱۰ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، تحریر الأحکام الشرعیۃ علی مذہب الإمامیۃ، تحقیق ابراهہیم بہادری، قم، موسسہ امام صادق، ۱۴۲۰ق۔
  • علامہ مجلسی، محمد باقر، حدود و قصاص و دیات، تحقیق علی فاضل، تہران، موسسہ نشر آثار اسلامی، بےتا.
  • فاضل مقداد، مقداد بن عبد اللہ، کنز العرفان فی فقہ القرآن، قم، انتشارات مرتضوی، ۱۴۲۵ھ۔
  • فخر المحققین، محمد بن حسن، إیضاح الفوائد فی شرح مشکلات القواعد، تحقیق سید حسین موسوی کرمانی، قم، مؤسسہ اسماعیلیان، ۱۳۸۷ھ۔
  • فقعانی، علی بن علی، الدر المنضود فی معرفۃ صیغ النیات و الإیقاعات و العقود، تحقیق محمد برکت، قم، مکتبۃ امام العصر(عج) العلمیۃ، ۱۴۱۸ھ۔
  • فقعانی، علی بن علی، مسائل ابن طی - المسائل الفقہیۃ، استنساخ از سلسلہ ینابیع المودہ، بےتا۔
  • کرمانشاهی، محمدعلی، مقامع الفضل، قم، موسسہ علامہ مجدد وحید بہبہانی، ۱۴۲۱ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق علی‌اکبر غفاری، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ چہارم، ۱۴۰۷ھ۔
  • مجلسی، محمد تقی، لوامع صاحبقرانی، قم، موسسہ اسماعیلیان، ۱۴۱۴ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، توضیح المسائل، قم، انتشارات مدرسہ امام علی بن ابی‌طالب(ع)، چاپ پنجاه و دوم، ۱۴۲۹ھ۔