آیت روزہ

ویکی شیعہ سے
آیت روزہ
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامآیت روزہ
سورہبقرہ
آیت نمبر183
پارہ2
محل نزولمدینہ
موضوعفقہی
مضموناحکام شرعی


آیت روزہ، سورہ بقرہ کی آیت نمبر 183 کو کہا جاتا ہے جس میں مؤمنین پر روزہ واجب کیا گیا ہے۔ مفسرین اس بات کے معتقد ہیں کہ روزہ صرف مؤمن پر واجب نہیں بلکہ ان تمام لوگوں پر واجب ہے جنہوں نے دین اسلام کو قبول کیا ہے، اگرچہ مضبوط ایمان کے مالک نہ بھی ہوں۔ اس آیت میں اسلام سے ماقبل شریعتوں میں بھی روزے کے وجوب کی طرف اشارہ ہوا ہے اور ساتھ ہی تقوا اور پرہیز گاری کو روزے کے فوائد میں شمار کیا گیا ہے۔

آیت کا متن اور ترجمہ

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ(۱۸۳)


اے ایمان والو! روزہ اس طرح تم پر لکھ دیا گیا ہے (فرض کر دیا گیا ہے) جس طرح تم سے پہلے والوں پر لکھ دیا گیا تھا۔ تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔



سورہ بقرہ: آیت 183

مؤمنین پر روزے کا وجوب

تفصیلی مضمون: روزہ

سورہ بقرہ کی آیت نمبر 183 میں شریعت اسلام میں روزہ کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے واجب عبادات میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔ ابو حیان اندلسی (متوفی 745ھ) تفسیر بحر المحیط میں کہتے ہیں کہ سورہ بقرہ کی مذکورہ آیت سے پہلے والی آیات میں اسلام کے تین بنیادی ارکان یعنی ایمان، نماز اور زکات کی تشریع کی طرف اشارہ ہوا ہے اور اس آیت میں چوتھے رکن یعنی روزہ کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے۔[1]

شیخ طوسی روزے کی اصطلاحی تعریف یوں بیان کرتے ہیں کہ روزہ بعض مخصوص آداب و شرائط کے تحت بعض امور سے پرہیز کرنے کا نام ہے جو ایک معینہ مدت میں خدا کے حکم کی تعمیل کی نیت سے انجام پاتا ہے۔[2] علامہ طباطبائی کے مطابق مذکورہ آیت اور اس کے بعد آنے والی دو آیتیں مفہوم کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مربوط ہیں جن کا خلاصہ ماہ رمضان میں روزے کا واجب ہونا ہے۔[3]

مفسرین کے مطابق اس آیت میں روزہ صرف مؤمنین پر واجب نہیں؛ بلکہ یہ آیت ان تمام لوگوں کو بھی شامل کرتی ہے جنہوں نے اسلام کو بطور دین اپنایا ہے اگرچہ مضبوط ایمان کا حامل نہ بھی ہوں۔[4] امام صادقؑ سے منقول ایک حدیث میں آیا ہے کہ اس حکم میں تمام گمراہ، منافقین اور ہر وہ شخص جس نے اسلام قبول کیا ہوں شامل ہیں۔[5] علامہ طباطبائی کے مطابق مذکورہ آیت میں "اے ایمان والو" کی عبارت ایمان کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرنے کے لئے ہے تاکہ خدا کی طرف سے آنے والے احکام کو قبول کریں۔[6]

آیت‌ اللہ مکارم شیرازی کہتے ہیں کہ چونکہ روزہ رکھنا مشقت اور سخت ہے لہذا اس آیت میں ایسی تعبیریں استعمال کی گئی ہیں جن کی وجہ سے ان سختیوں کے باوجود انسان اس حکم پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے اسی وجہ سے امام صادقؑ فرماتے ہیں: يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُواْ[؟؟] کے خطاب کی لذت ایسی ہے کہ روزہ جیسی عبادت کی مشقت بھی سہل ہو جاتی ہے۔[7]

اسلام سے پہلے روزے کا وجوب

اس آیت میں اسلام سے پہلے والی شریعتوں کے ماننے والوں پر بھی روزہ کے وجوب کی تصریح کی گئی ہے۔ گذشتہ شرایع سے مراد کون ہیں اور ان میں روزے کی کیا کیفیت تھی؟ اس سلسلے میں مختلف اقوال ہیں۔ شیخ طوسی اس سلسلے میں تین اقوال کی طرف اشارہ کرتے ہیں: بعض کہتے ہیں کہ روزے کی کیفیت ان شریعتوں میں بھی اسلام کی طرح تھی۔ بعض کا خیال ہے کہ گذشتہ شرایع سے مراد نصارا ہیں جن پر ماہ رمضان میں روزہ واجب تھا۔ جبکہ بعض مسلمانوں اور دیگر امتوں میں روزے کی مدت اور کیفیت کے مختلف ہونے کے قائل ہیں۔[8]

سورہ بقرہ:183

علامہ طباطبائی کے مطابق مذکورہ آیت گذشتہ امتوں اور ان میں روزے کی کیفیت کی تعیین کے لئے نازل نہیں ہوئی بلکہ اس میں گذشتہ امتوں میں بھی روزہ واجب ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے تاکہ مسلمان ذہنی طور پر اس حکم کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔[9] علامہ کہتے ہیں کہ موجودہ توریت اور انجیل میں روزہ کے وجوب کی کوئی بات نہیں ہے اگرچہ ان کتابوں میں روزے کی تعریف اور مدح کی گئی ہیں اور بعض یہودی اور عیسائی روزہ بھی رکھتے ہیں جو مسلمانوں کے روزے سے مختلف ہیں۔ علامہ طباطبائی آخر میں قرآن میں حضرت زکریا اور حضرت مریم کے روزے کی داستان کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو مسلمانوں کے روزے سے مختلف ہے۔[10]

روزہ اور تقوا میں رابطہ

علامہ طباطبائی اس بات کے معتقد ہیں کہ قرآنی تعلیمات کے مطابق حکم خدا کی اطاعت اور نافرمانی کا اچھا یا برا اثر خود انسان کی طرف لوٹتا ہے۔ روزہ کے آثار کے بارے میں بھی مذکورہ آیت کے آخری حصے میں اشارہ ہوا ہے جس کے مطابق روزے کا اثر انسان کو متقی بنانا ہے۔[11]آیت اللہ مکارم شیرازی نیز وجوب روزہ کا فلسفہ مذکورہ آیت کا آخری جملہ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ روزہ تقوا اور پرہیزگاری کا بہترین عامل ہے۔[12]

حوالہ جات

  1. ابو حیان اندلسی، البحر المحیط، ۱۴۲۰ق، ج۲، ص۱۷۷۔
  2. شیخ طوسی، التبیان، دار احیاء التراث العربی، ج۲، ص۱۱۵۔
  3. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۵۔
  4. رک: شیخ طوسی، التبیان، دار احیاء التراث العربی، ج۲، ص۱۱۵، طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۲، ص۴۹۰، بحرانی، البرہان، ۱۴۱۶ق، ج۱، ص۳۸۵۔
  5. عیاشی، تفسیر العیاشی، ۱۳۸۰ق، ج۱، ص۷۸۔
  6. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۶۔
  7. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱، ص۶۲۴۔
  8. شیخ طوسی، التبیان، دار احیاء التراث العربی، ج۲، ص۱۱۵۔
  9. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۵۔
  10. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۷۔
  11. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۸۔
  12. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱، ص۶۲۳ـ۶۲۴۔

مآخذ

  • ابو حیان اندلسی، محمد بن یوسف، البحر المحیط فی التفسیر، بیروت، دار الفکر، ۱۴۲۰ھ۔
  • بحرانی، سید ہاشم، البرہان فی تفسیر القرآن، تہران، بنیاد بعثت، ۱۴۱۶ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۷ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، انتشارات ناصر خسرو، ۱۳۷۲ش۔
  • عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، تہران، المطبعہ العلمیہ، ۱۳۸۰ش۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۴ش۔