ایلاء

ویکی شیعہ سے

ایلاء، زمانہ جاہلیت کی ایک رسم جس میں مرد اپنی بیوی سے ہمبستری نہ کرنے کی قسم کھاتا ہے۔ اسلام میں ایلاء حرام ہے اور متعلقہ شخص پر کفارہ واجب ہوتا ہے۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے اگر کوئی شخص ایلاء کا مرتکب ہو تو اس کی بیوی حاکم شرع یا عدالت کی طرف رجوع کر کے شکایت کر سکتی ہے۔ اس صورت میں حاکم شرع شوہر کو چار مہینہ مہلت دے گا جس میں وہ اپنی بیوی کی طرف رجوع کریں بصورت دیگر حاکم شرع اسے اپنی بیوی کو طلاق دینے پر مجبور کر سکتا ہے۔ ایلاء کے احکام میں فقہاء جس دلیل سے استناد کرتے ہیں وہ آیات ایلاء یعنی سورہ بقرہ کی آیت نمبر 226 اور 227 ہے۔ نکاح کا دائمی‌ ہونا اور کم از کم چار مہینے تک مباشرت نہ کرنے کی قسم کھانا ایلاء کے متحقق ہونے کی شرائط میں سے ہے۔

تعریف اور اہمیت

ایلاء مرد کا اپنی بیوی سے مباشرت نہ کرنے کی قسم کھانے کو کہا جاتا ہے۔[1] ایلاء اسلام میں حرام ہے اور اس کے متحقق ہونے کے لئے مسلمان فقہاء خاص شرائط اور احکام بیان کرتے ہیں۔[2] ان میں سے بعض احکام کی دلیل سورہ بقرہ کی آیت نمیر 226 اور 227 ہے۔[3] فقہی مآخذ میں ایلاء سے مستقل اور جداگانہ باب میں بحث کی جاتی ہے۔[4]

تاریخ

تفصیلی مضمون: آیت ایلاء

ایلاء زمانہ جاہلیت میں طلاق کی ایک قسم سمجھی جاتی تھی۔[5] زمانہ جاہلیت میں اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے متنفر ہوتا تو وہ اس سے مباشرت نہ کرنے کی قسم کھاتا[6] اور کئی سال[7] یا آخر عمر تک نہ بیوی سے ہمبستری کرتا اور نہ اسے طلاق دے دیتا۔[8] اس کام کا مقصد بیوی کو ازیت دینا،[9] اسے پیرشانی میں مبتلاء کرنا[10] اور دوسری شادی سے روکنا [11] بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ تفسیر نمونہ میں آیا ہے کہ خدا نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 226 میں اس غلط رسم کو ختم کرنے کے لئے قسم ٹوڑنے کے مختلف طریقوں کو بیان کیا ہے[12] اور خواتین کے حقوق کی احیاء کا حکم دیا ہے۔[13]

فقہی احکام

اسلام میں ایلاء ایک حرام فعل ہے کیونکہ چار ماہ سے زیادہ بیوی سے ترک مباشرت حرام ہے۔[14] بعض اس حکم کو سورہ بقرہ کی آیت نمبر 226 "فَإِنَّ اللّہَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ" سے استنباط کرتے ہیں۔[15]

ایلاء کے ارکان اور شرائط

ایلاء کے تین رکن ہیں: ایلاءکرنے والا (شوہر)، جس کی ایلاء کی گئی ہو (بیوی) اور صیغہ ایلاء، جو ہر زبان میں ایسے لفظ کے ذریعے متحقق ہوتا ہے جس سے مذکورہ مفہوم کی تصریح ہو جاتی ہو۔[16] ایلاء متحقق ہونے کی بعض شرائط بھی ہیں، چنانچہ ان میں سے کسی ایک کے فقدان سے ایلاء متحقق نہیں ہو گا۔ وہ شرائط یہ ہیں:

  • ایلاءکرنے والا عاقل، بالغ اور مختار ہو۔
  • قَسم خدا کے ناموں میں سے کسی ایک کے ساتھ کھائی گئی ہو۔
  • ٰقسم شرم گاہ میں ہمبستری نہ کرنے کی کھائی ہو۔
  • ترک مباشرت کی مدت چار ماه سے کم نہ ہو۔
  • ایلاء سے پہلے میاں بیوی کے درمیان ہمبستری انجام پا چکی ہو۔
  • ایلاءکرنے والے کا مقصد بیوی کو ازیت پہنچانا ہو۔
  • بیوی دائمی منکوحہ ہو۔[17]

ایلاء کے بعد کے احکام

فقہاء اس بات کے معتقد ہیں کہ اگر کوئی شخص ایلاء کا مرتکب ہو تو اس کی بیوی حاکم شرع کے پاس شکایت کر سکتی ہے۔ جس پر حاکم شرع شوہر کو چار ماہ کی مہلت دے گا جس میں یا وه اپنی بیوی کی طرف رجوع کرے اور مباشرت کے بعد قسم توڑنے کا کفارہ ادا کرے۔[18] اگر مرد اس مقررہ مدت میں کوئی قدم نہ اٹھائے تو حاکم شرع اسے رجوع اور طلاق میں سے کسی ایک کو انتخاب کرنے پر مجبور کرے گا۔[19] بعض فقہاء اس بات کے معتقد ہیں کہ دوسری صورت میں حاکم شرع اس کی بیوی کو اس کی طرف سے طلاق دے سکتا ہے۔[20]

حوالہ جات

  1. سعدی، القاموس الفقہی، 1408ھ، ص23۔
  2. جزیری، و دیگران، الفقہ علی المذاہب الاربعۃ، 1419ھ، ج4، ص548-574۔
  3. علی‌پور، «ایلاء»، ص184۔
  4. مثلا رجوع کریں: طوسی، الخلاف، 1407ھ، ج4، ص507؛ قطب‌الدین راوندی، فقہ‌القرآن، 1405ھ، ج2، ص200؛ ابن‌زہرہ، غنیۃالنزوع، 1417ھ، ص363۔
  5. فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج6، ص429؛ ابن‌عربی، احکام‌القرآن، 1408ھ، ج1، 177؛ ثعلبی، الکشف و البیان، 1422ھ، ج2، ص168؛ ابوالفتوح رازی، روض‌الجنان، 1408ھ، ج3، ص254۔
  6. فیض کاشانی، تفسیرالصافی، 1415ھ، ج1، ص255؛ جعفری، تفسیر کوثر، 1376ہجری شمسی، ج1، ص531؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج6، ص429؛ بیضاوی، انوار التنزیل و اسرار التأویل، 1418ھ، ج1، ص140؛ طوسی، التبیان، بیروت، ج2، ص232؛ مغنیہ، التفسیر الکاشف، 1424ھ، ج1، ص339۔
  7. ابن‌عربی، احکام‌القرآن، 1408ھ، ج1، ص177۔
  8. زمخشری، الکشاف، 1407ھ، ج1، ص269۔
  9. زمخشری، الکشاف، 1407ھ، ج1، ص269۔
  10. طوسی، التبیان، بیروت، ص108۔
  11. ابوحیان، البحر المحیط، 1420ھ، ج2، ص445؛ طوسی، التبیان، بیروت، ص108؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج2، ص149۔
  12. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج2، ص149۔
  13. طبرانی، التفسیر الکبیر، 2008م، ج1، ص398؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج6، ص429؛ جعفری، تفسیر کوثر، 1376ہجری شمسی، ج1، ص532۔
  14. شہید ثانی، مسالک‌الافہام، 1413ھ، ج10، ص138؛ نجفی، جواہرالکلام، 1404ھ، ج29، ص115۔
  15. علی‌پور، «ایلاء»، ص184۔
  16. مؤسسہ دایرۃالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، 1387ہجری شمسی، ج1، ص748-749۔
  17. مشکینی، مصطلحات‌الفقہ، 1392ہجری شمسی، ص98۔
  18. فاضل مقداد، کنزالعرفان، 1425ھ، ج2، ص292۔
  19. فاضل مقداد، کنزالعرفان، 1425ھ، ج2، ص292؛ امام خمینی، تحریرالوسیلہ، مؤسسہ دارالعلم، ج2، ص357۔
  20. طوسی، الخلاف، 1407ھ، ج4، ص515۔

مآخذ

  • ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، مشہد، آستان قدس رضوی، 1408ھ۔
  • ابوحیان، محمد بن یوسف، البحر المحیط فی التفسیر، بیروت، دارالفکر، 1420ھ۔
  • ابن‌زہرہ حلبی، حمزۃ بن علی، غنیۃ النزوع الی علمی الاصول و الفروع، مؤسسہ امام صادق علیہ‌السلام، قم، چاپ اول، 1417ھ۔
  • ابن‌عربی، محمد بن عبداللہ، احکام‌القرآن، بیروت، دارالجیل، 1408ھ۔
  • ابن‌منظور، محمد بن مکرم، لسان‌العرب، بیروت، دار الفکر للطباعۃ و النشر و التوزیع، چاپ سوم، 1414ھ۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، تحریرالوسیلہ، قم، دارالعلم، چاپ اول، بی‌تا۔
  • بیضاوی، عبداللہ بن عمر، انوار التنزیل و اسرار التأویل، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1418ھ۔
  • ثعلبی، احمد بن محمد، الکشف و البیان المعروف تفسیر الثعلبی، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1422ھ۔
  • جرجانی، عبدالقاہر بن عبدالرحمن، درج الدرر فی تفسیر القرآن العظیم، عمان اردن، دارالفکر، 1430ھ۔
  • جزیری، عبدالرحمن و دیگران، الفقہ علی المذاہب الاربعۃ و مذہب اہل البیت(ع)، بیروت، دارالثقلین، چاپ اول، 1419ھ۔
  • جعفری، یعقوب، جعفری، تفسیر کوثر، 1376ش، قم، مؤسسہ انتشارات ہجرت، 1376ہجری شمسی۔
  • زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل و عیون الاَقاویل فی وجوہ التأویل، بیروت، دار الکتاب العربی، چاپ سوم، 1407ھ۔
  • سعدی، ابوجیب، القاموس الفقہی لغۃً و اصطلاحاً، دمشق، دارالفکر، چاپ دوم، 1408ھ۔
  • شہید ثانی، زین‌الدین بن علی، مسالک الاَفہام الی تنقیح شرایع الاسلام، قم، مؤسسۃ المعارف الاسلامیۃ، چاپ اول، 1413ھ۔
  • طبرانی، سلیمان بن احمد، التفسیر الکبیر؛ تفسیر القرآن العظیم، اربد اردن، دار الکتاب الثقافی، 2008ء۔
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • طوسی، محمد بن حسن، الخلاف، تصحیح علی خراسانی و سید جواد شہرستانی و مہدی طہ نجف و مجتبی عراقی، دفتر انتشارات اسلامی، قم، چاپ اول، 1407ھ۔
  • علی‌پور، حسین، «ایلاء»، در دایرۃالمعارف قرآن کریم، مرکز فرہنگ و معارف قرآن، قم، بوستان کتاب، چاپ سوم، 1383ہجری شمسی۔
  • فاضل مقداد، مقداد بن عبد اللّٰہ، کنز العرفان فی فقہ القرآن، قم، انتشارات مرتضوی، چاپ اول، 1425ھ۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر (مفاتیح‌الغیب)، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ سوم، 1420ھ۔
  • فیض کاشانی، محمد بن شاہ‌مرتضی، تفسیرالصافی، تہران، مکتبۃالصدر، چاپ دوم، 1415ھ۔
  • قطب‌الدین راوندی، سعید بن عبداللّٰہ، فقہ‌القرآن، تصحیح سید احمد حسینی، کتابخانہ آیت‌اللہ مرعشی نجفی، قم، چاپ دوم، 1405ھ۔
  • مؤسسہ دایرۃالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، قم، مؤسسہ دایرۃالمعارف فقہ اسلامی، 1387ہجری شمسی۔
  • مشکینی اردبیلی، علی، مصطلحات‌الفقہ، قم، دارالحدیث، 1392ہجری شمسی۔
  • مغنیہ، محمدجواد، التفسیر الکاشف، قم، دار الکتاب الاسلامی، 1424ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ دہم، 1371ہجری شمسی۔
  • نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، تصحیح عباس قوچانی و علی آخوندی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، 1404ھ۔