confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,901
ترامیم
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) م (-زمرہ:خلفائے راشدین، +زمرہ:ابتدائی خلفا (بذریعہ:آلہ فوری زمرہ بندی)) |
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 47: | سطر 47: | ||
|belowstyle = background:#ddf; | |belowstyle = background:#ddf; | ||
|below =}} | |below =}} | ||
'''اَبوبَکْر ابن ابی قُحافہ''' (متوفی سنہ ۱۳ ہجری قمری) [[پیغمبر | '''اَبوبَکْر ابن ابی قُحافہ''' (متوفی سنہ ۱۳ ہجری قمری) [[پیغمبر اکرمؐ]] کے بزرگ [[صحابہ]] میں سے تھے۔ ظہور [[اسلام]] کے ابتدائی ایام میں انہوں نے اسلام قبول کیا۔ مشہور مورخین کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کی [[مدینہ]] [[ہجرت]] کے موقع پر ابوبکر بھی آپؐ کے ہمراہ تھے اور مشرکین [[مکہ]] سے بچنے کیلئے آپ کے ساتھ [[غار ثور]] میں پناہ لی تھی۔ پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے فورا بعد باوجود اس کے کہ حضورؐ نے اپنی زندگی میں کئی مواقع پر [[حضرت علی(ع)]] کو اپنا جانشین اور [[خلیفہ]] معرفی کیا تھا، ابوبکر بعض دوسرے اصحاب کے ساتھ [[سقیفہ بنی ساعدہ]] میں خلیفہ انتخاب کرنے کیلئے جمع ہو گئے۔ کافی گفت و شنید کے بعد آخر کار سقیفہ میں موجود افراد نے ابوبکر کے ہاتھوں پر بعنوان خلیفہ [[بیعت]] کی۔ یوں [[اہل سنت]] کے نزدیک وہ [[اسلام|مسلمانوں]] کا پہلا خلیفہ بن گیا۔ ان کے مختصر دور خلافت میں [[تاریخ اسلام]] کے کئی متنازعہ حوادث رونما ہوئے جن میں باغ [[فدک]] کو حضرت زہرا (س) سے واپس لینا ، مرتدین کے ساتھ جنگ اور مختلف [[فتوحات]] شامل ہیں۔ | ||
== ولادت، نسب، کنیہ اور القاب == | == ولادت، نسب، کنیہ اور القاب == | ||
بعض روایات <ref>ابن اثیر، اسدالغابہ، ۳، ص۲۲۳؛ حارثی، ۹</ref> اور قرائن و شواہد (مدت عمر اور تاریخ وفات) کے مطابق ابوبکر [[عام الفیل]] کے چند ماہ بعد (احتمالا ہجرت سے 50 سال پہلے [[مکہ]] میں متولد ہوا۔ | بعض روایات <ref>ابن اثیر، اسدالغابہ، ۳، ص۲۲۳؛ حارثی، ۹</ref> اور قرائن و شواہد (مدت عمر اور تاریخ وفات) کے مطابق ابوبکر [[عام الفیل]] کے چند ماہ بعد (احتمالا ہجرت سے 50 سال پہلے [[مکہ]] میں متولد ہوا۔ | ||
[[جاہلیت]] کے دور میں انکا نام عبد الکعبہ تھا اور [[اسلام]] لانے کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عبداللہ نام دیا<ref>ابن قتیبہ، ۱۶۷؛ نیز نک: سقا، ج۱، ص۲۶۶</ref>انکا باپ ابوقحافہ عثمان(متوفی [[۱۴ہجری قمری|۱۴ہ ق]]) اور انکی ماں امّ الخیر سَلْمی، بنت صخر بن عمرو بن کعب، دونوں بنی تیم سے تھے اور پانچویں پشت میں مرہ بن کعب پر [[پیغمبر | [[جاہلیت]] کے دور میں انکا نام عبد الکعبہ تھا اور [[اسلام]] لانے کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عبداللہ نام دیا<ref>ابن قتیبہ، ۱۶۷؛ نیز نک: سقا، ج۱، ص۲۶۶</ref>انکا باپ ابوقحافہ عثمان(متوفی [[۱۴ہجری قمری|۱۴ہ ق]]) اور انکی ماں امّ الخیر سَلْمی، بنت صخر بن عمرو بن کعب، دونوں بنی تیم سے تھے اور پانچویں پشت میں مرہ بن کعب پر [[پیغمبر اکرمؐ]] کے شجرہ نسب سے ملتے ہیں۔<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۶۹؛ ابن قتیبہ، ص۱۶۷-۱۶۸</ref>بعض اہل سنت کی روایات میں انکا نام عتیق ذکر ہوا ہے۔<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۰، ابن سیرین سے نقل کیا ہے؛ ابن اثیر، أسد الغابہ، ج۳، ص۲۰۵</ref> لیکن ظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ عتیق انکا لقب تھا | ||
انکی کنیت ابوبکر تھی۔ لیکن انکا بکر نامی کوئی بیٹا بھی تھا یہ نہیں اس میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اور جتنی بھی کتابوں میں ابوبکر کے بیٹوں کا ذکر ہوا ہے «بکر» نام کے کسی بیٹے کا تذکرہ نہیں ہوا ہے۔<ref>نک: طبری، تاریخ، ۳، ص۲۴۶؛ ابن کثیر، ۶، ص۳۱۳</ref>لیکن انکے مخالفین، جیسے [[ابوسفیان]] نے ابوبکر (بکر=جوان اونٹ) کی توہین کرتے ہوئے ابوفصیل (فصیل=اونٹ کا وہ بچہ جس سے ابھی ماں کا دودھ روک دیا گیا ہو) میں بدل دیا ہے۔<ref>بلاذری، انساب، ج۱، ص۵۸۹؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۵۳، ۲۵۵؛ مفید، الارشاد، ص۱۰۲</ref>۔ | انکی کنیت ابوبکر تھی۔ لیکن انکا بکر نامی کوئی بیٹا بھی تھا یہ نہیں اس میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اور جتنی بھی کتابوں میں ابوبکر کے بیٹوں کا ذکر ہوا ہے «بکر» نام کے کسی بیٹے کا تذکرہ نہیں ہوا ہے۔<ref>نک: طبری، تاریخ، ۳، ص۲۴۶؛ ابن کثیر، ۶، ص۳۱۳</ref>لیکن انکے مخالفین، جیسے [[ابوسفیان]] نے ابوبکر (بکر=جوان اونٹ) کی توہین کرتے ہوئے ابوفصیل (فصیل=اونٹ کا وہ بچہ جس سے ابھی ماں کا دودھ روک دیا گیا ہو) میں بدل دیا ہے۔<ref>بلاذری، انساب، ج۱، ص۵۸۹؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۵۳، ۲۵۵؛ مفید، الارشاد، ص۱۰۲</ref>۔ | ||
ابوبکر چند القاب ہیں: | ابوبکر چند القاب ہیں: | ||
سطر 91: | سطر 91: | ||
ابوبکر کی مکی زندگی میں سب سے اہم حادثہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ مدینہ کیطرف ہجرت کرنا اور [[غار ثور]] میں چھپ جانا ہے۔<ref>ابن سعد، ج۱، ص۲۲۷-۲۲۸، ۲۳۲؛ قس: مقدسی، ج۴، ص۱۷۷</ref> یہ واقعہ جمعرات کی رات یکم ربیعالاول بعثت کے 14 سال بعد( ۱۳ سپتامبر ۶۲۲) کو رونما ہوا۔ مشہور قول کے مطابق جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم [[وحی]] کے ذریعے اپنے قتل کی سازش سے آگاہ ہوگئے تو ابوبکر کے ساتھ مدینہ چھوڑ کر [[مدینہ|یثرب]] کی طرف روانہ ہوگئے اور غار ثور تک پہنچے۔<ref>ابن ہشام، ج۲، ص۱۲۶-۱۲۹؛ ابن سعد، ج۱، ص۲۲۷-۲۲۹</ref> | ابوبکر کی مکی زندگی میں سب سے اہم حادثہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ مدینہ کیطرف ہجرت کرنا اور [[غار ثور]] میں چھپ جانا ہے۔<ref>ابن سعد، ج۱، ص۲۲۷-۲۲۸، ۲۳۲؛ قس: مقدسی، ج۴، ص۱۷۷</ref> یہ واقعہ جمعرات کی رات یکم ربیعالاول بعثت کے 14 سال بعد( ۱۳ سپتامبر ۶۲۲) کو رونما ہوا۔ مشہور قول کے مطابق جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم [[وحی]] کے ذریعے اپنے قتل کی سازش سے آگاہ ہوگئے تو ابوبکر کے ساتھ مدینہ چھوڑ کر [[مدینہ|یثرب]] کی طرف روانہ ہوگئے اور غار ثور تک پہنچے۔<ref>ابن ہشام، ج۲، ص۱۲۶-۱۲۹؛ ابن سعد، ج۱، ص۲۲۷-۲۲۹</ref> | ||
[[آیت غار]] پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اور ابوبکر کی غار میں سکونت کے ماجرا کی طرف اشارہ ہے اور اہل سنت کے علماء اس آیت کو ابوبکر کی فضیلت پر دلیل سمجھتے ہیں لیکن پیغمبر | [[آیت غار]] پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اور ابوبکر کی غار میں سکونت کے ماجرا کی طرف اشارہ ہے اور اہل سنت کے علماء اس آیت کو ابوبکر کی فضیلت پر دلیل سمجھتے ہیں لیکن پیغمبر اکرمؐ کا ابو بکر کے ساتھ [[غار ثور]] میں ہمراہی کی کیفت کے بارے میں آیت کی تفسیر میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ ۔<ref> مدخل [[آیت لا تحزن]]</ref> | ||
ابوبکر، پیغمبر | ابوبکر، پیغمبر اکرمؐ کے ہمراہ کیسے آیا؟ یہ مشخص نہیں ہے اور بعض نے کہا ہے کہ پیغمبر اکرم ؐ نے ابوبکر کو اچانک راستے میں دیکھا اور اپنے ساتھ لے گیے۔<ref>طبری، تاریخ، ج۲، ص ۳۷۴</ref>اسیطرح سے ایک اور نقل کے مطابق مشرکوں کے حملے کی رات پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ابوبکر کے گھر گئے اور وہیں سے ابوبکر کے ساتھ غار ثور چلے گئے۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص ۲۶۰</ref>تیسرے قول کے مطابق ابوبکر پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی تلاش میں آیا اور علی علیہ السلام نے پیغمبر اکرم کے چھپنے کی جگہ دکھائی۔۔<ref>ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج۳، ص ۱۷۹</ref> | ||
مدینہ ہجرت کرنے کے بعد ابوبکر مدینہ کے مضافات میں مدینہ سے ایک میل کے فاصلے پر سُنْخ محلے میں خبیب بن اِساف (حبیب ابن یساف) یا خارجہ ابن زید ابن ابی زہیر (قبیلہ بنی الحارث بن الخزرج) کے گھر ساکن ہوا<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۳-۱۷۴؛ ابن ہشام، ج۲، ص۱۳۶-۱۳۸؛ یاقوت، ج۳، ص۱۶۳</ref>۔بعض منابع کے مطابق ابوبکر مدینہ میں ہمیشہ [[پیغمبر | مدینہ ہجرت کرنے کے بعد ابوبکر مدینہ کے مضافات میں مدینہ سے ایک میل کے فاصلے پر سُنْخ محلے میں خبیب بن اِساف (حبیب ابن یساف) یا خارجہ ابن زید ابن ابی زہیر (قبیلہ بنی الحارث بن الخزرج) کے گھر ساکن ہوا<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۳-۱۷۴؛ ابن ہشام، ج۲، ص۱۳۶-۱۳۸؛ یاقوت، ج۳، ص۱۶۳</ref>۔بعض منابع کے مطابق ابوبکر مدینہ میں ہمیشہ [[پیغمبر ؐ]] کے ساتھ ساتھ رہا اور 8 مہینے کے بعد جب آنحضرت نے مہاجر اور انصار کے درمیان برادری کا پیمان باندھا تو انکو عمر کا بھائی بنادیا<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۴</ref>لیکن سیرہ ابن اسحاق کا فارسی ترجمہ رفیع الدین ہمدانی میں لکھا ہے کہ « ابوبکر۔۔۔۔ خارجہ بن (زید بن ابی) زہیر (جو کہ انصار تھے) سے برادری کا عقد باندھا»۔<ref>ابن اثیر، سیرت رسول اللہ، ص۴۸۵</ref> | ||
ابوبکر مدینہ میں ہر دوسرے دن آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے ملتا تھا<ref>EI۱</ref> اور بعض روایات کے مطابق تمام [[غزوہ|غزوات]] میں آپ کے ساتھ تھا۔<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۵؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج۳، ص۲۱۲</ref> | ابوبکر مدینہ میں ہر دوسرے دن آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے ملتا تھا<ref>EI۱</ref> اور بعض روایات کے مطابق تمام [[غزوہ|غزوات]] میں آپ کے ساتھ تھا۔<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۵؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج۳، ص۲۱۲</ref> | ||
سطر 102: | سطر 102: | ||
[[ابن ابی الحدید]] کی اپنے استاد ابوجعفر اسکافی کے نقل کے مطابق «ابوبکر نے نہ تو تیر چلایا ہے اور نہ تلوار کھینچا ہے اور نہ ہی خونریزی کی ہے۔»<ref>إبن أبی الحدید المدائنی المعتزلی، أبو حامد عز الدین بن ہبة اللہ بن محمد بن محمد (متوفای۶۵۵ ق) ، شرح نہج البلاغة، ج۱۳، ص۱۷۰، تحقیق محمد عبد الکریم النمری، ناشر: دار الکتب العلمیة - بیروت / لبنان، الطبعة الأولی، ۱۴۱۸ہـ - ۱۹۹۸م۔/الجاحظ، أبی عثمان عمرو بن بحر (متوفای۲۵۵ہـ)، العثمانیة، ص۲۳۰، ناشر:دار الکتب العربی ـ مصر</ref> | [[ابن ابی الحدید]] کی اپنے استاد ابوجعفر اسکافی کے نقل کے مطابق «ابوبکر نے نہ تو تیر چلایا ہے اور نہ تلوار کھینچا ہے اور نہ ہی خونریزی کی ہے۔»<ref>إبن أبی الحدید المدائنی المعتزلی، أبو حامد عز الدین بن ہبة اللہ بن محمد بن محمد (متوفای۶۵۵ ق) ، شرح نہج البلاغة، ج۱۳، ص۱۷۰، تحقیق محمد عبد الکریم النمری، ناشر: دار الکتب العلمیة - بیروت / لبنان، الطبعة الأولی، ۱۴۱۸ہـ - ۱۹۹۸م۔/الجاحظ، أبی عثمان عمرو بن بحر (متوفای۲۵۵ہـ)، العثمانیة، ص۲۳۰، ناشر:دار الکتب العربی ـ مصر</ref> | ||
پیغمبر | پیغمبر ؐ نے [[جنگ خیبر]] میں ابوبکر و اسی طرح [[عمر بن خطاب]] کو خیبر فتح کرنے کے لیے بھیجا لیکن قلعہ خیبر فتح کرنے میں ناکام رہے پھر رسول خدا نے فرمایا: کل میں پرچم کو ایسے شخص کے ہاتھ دوں گا جو اللہ اور اسکے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اسکے رسول ان سے محبت کرتے ہیں اور اس کے ہاتھوں خیبر فتح ہوگا۔ پھر امام علی علیہ السلام کو بلایا اور عَلم آپ کے ہاتھوں تھما دیا اور امام علی علیہ السلام نے خیبر کا قلعہ فتح کیا۔<ref>الذہبی، شمس الدین محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفای۷۴۸ہـ)، تاریخ الإسلام ووفیات المشاہیر والأعلام، ج۲، ص۴۱۲، تحقیق د۔ عمر عبد السلام تدمری، بیروت،دار الکتاب العربی، الطبعہ الأولی، ۱۴۰۷ہـ - ۱۹۸۷م اور اسی طرح إبن أبی شیبہ الکوفی، أبو بکر عبد اللہ بن محمد (متوفای۲۳۵ ہـ)، الکتاب المصنف فی الأحادیث والآثار، ج۶، ص۳۶۷، ح ۳۲۰۸۰، تحقیق کمال یوسف الحوت، ریاض، مکتبہ الرشد، الطبعہ الأولی، ۱۴۰۹ہ؛ و النیسابوری، محمد بن عبداللہ أبو عبداللہ الحاکم (متوفای۴۰۵ ہـ)، المستدرک علی الصحیحین، ج۳، ص۳۹، تحقیق مصطفی عبد القادر عطا، بیروت،دار الکتب العلمیہ، الطبعہ الأولی، ۱۴۱۱ہ - ۱۹۹۰م؛ الإیجی، عضد الدین (متوفای۷۵۶ہـ)، کتاب المواقف، ج۳، ص۶۳۴، تحقیق عبد الرحمن عمیرہ، بیروت،دار الجیل، الطبعہ الأولی، ۱۴۱۷ہـ، ۱۹۹۷م۔</ref> | ||
پیغمبر اکرم نے اپنی عمر کے آخری ایام میں [[روم|رومیوں]] کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے ایک فوج تیار کی جس میں ابوبکر کی طرح جانی پہچانی شخصیات موجود ہونے کے باوجود فوج کی کمانڈ [[اسامہ بن زید]] کے حوالے کیا۔<ref>تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۱۳</ref> | پیغمبر اکرم نے اپنی عمر کے آخری ایام میں [[روم|رومیوں]] کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے ایک فوج تیار کی جس میں ابوبکر کی طرح جانی پہچانی شخصیات موجود ہونے کے باوجود فوج کی کمانڈ [[اسامہ بن زید]] کے حوالے کیا۔<ref>تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۱۳</ref> | ||
سطر 127: | سطر 127: | ||
==سقیفہ== | ==سقیفہ== | ||
{{اصلی|واقعہ سقیفہ بنی ساعدہ}} | {{اصلی|واقعہ سقیفہ بنی ساعدہ}} | ||
[[شیعہ]] [[حدیث|محدثین]] کے مطابق [[پیغمبر | [[شیعہ]] [[حدیث|محدثین]] کے مطابق [[پیغمبر اکرمؐ]] 28 صفر سنہ گیارہ ہجری قمری بروز پیر رحلت فرما گئے اور یہ خبر اس وقت کے محدود مدینے میں ایک دم سے پھیل گئی اور شاید بعض لوگوں نے تو جب بیماری میں شدت آگئی تھی، اور اسی بیماری کی وجہ سے رحلت کا احتمال دیتے ہوئے انہی دنوں سے حکومت اپنے ہاتھ لینے کیلیے دل میں کچھ نیتیں کی تھیں، تقریبا اس خبر کے سننے کے فورا بعد جس وقت امام [[علی(ع)]]، فضل بن عباس اور دیگر چند لوگ آپ کو [[غسل]] دینے میں مصروف تھے تو اقدامات شروع کئے [[سعد بن عبادہ]]، [[خزرج|خزرجیوں]] کے سربراہ بیماری اور بخار کی حالت میں ([[اوس]] و [[خزرج]]) کے [[انصار]] کے ایک گروہ کے درمیان [[سقیفہ بنی ساعدہ]] میں بیٹھا تھا اور ایک شخص اس کی ترجمانی کرتا ہوا انصار کی فضیلت اور مہاجروں پر انکی برتری کے گن گاتا تھا۔ | ||
سقیفہ میں کیا ہوا اور کونسی باتیں رد و بدل ہوگئیں اس بارے میں روایات مشہور ہیں۔ منابع میں تصریح ہوئی ہے کہ ابوبکر کا انتخاب بڑی بحث و جدل کے بعد ہوا ہے یہاں تک کہ انصار میں سے [[حباب بن منذر]] نے مہاجروں پر تلوار کھینچی اور [[سعد بن عبادہ]] جو تقریبا خود پیروں تلے دبا جارہا تھا اور عمر کی داڑھی پکڑ کر کھینچ رہا تھا۔<ref>طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۲۰-۲۲۳؛ حلبی، ج۳، ص۳۵۹</ref>اس کے بعد [[مہاجروں]] سے وابستہ [[قبیلہ بنی اسلم]] مکہ میں داخل ہوا اور ابوبکر کی بیعت کی اور اسی قبیلے نے مدینہ کے لوگوں کی بیعت کو آسان کردیا۔<ref>طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۰۵؛ فیاض، ص۱۳۱</ref> عمر <ref>بلاذری، انساب، ج۱، ص۵۹۰-۵۹۱: ابوبکرسے</ref>سے روایت ہوئی ہے کہ ابوبکر کی بیعت ایک جلدپنی اور بے سابقہ کام تھا کہ اللہ تعالی نے اس کے شر سے لوگوں کو بچایا۔<ref>طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۰۴-۲۰۶، بلاذری، انساب ج۱، ص۵۸۳، ۵۸۴؛ ابن اثیر، الکامل، ج۲، ص۳۲۶-۳۲۷؛ قس: نہجالبلاغہ، خطبہ ۱۳۶</ref> | سقیفہ میں کیا ہوا اور کونسی باتیں رد و بدل ہوگئیں اس بارے میں روایات مشہور ہیں۔ منابع میں تصریح ہوئی ہے کہ ابوبکر کا انتخاب بڑی بحث و جدل کے بعد ہوا ہے یہاں تک کہ انصار میں سے [[حباب بن منذر]] نے مہاجروں پر تلوار کھینچی اور [[سعد بن عبادہ]] جو تقریبا خود پیروں تلے دبا جارہا تھا اور عمر کی داڑھی پکڑ کر کھینچ رہا تھا۔<ref>طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۲۰-۲۲۳؛ حلبی، ج۳، ص۳۵۹</ref>اس کے بعد [[مہاجروں]] سے وابستہ [[قبیلہ بنی اسلم]] مکہ میں داخل ہوا اور ابوبکر کی بیعت کی اور اسی قبیلے نے مدینہ کے لوگوں کی بیعت کو آسان کردیا۔<ref>طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۰۵؛ فیاض، ص۱۳۱</ref> عمر <ref>بلاذری، انساب، ج۱، ص۵۹۰-۵۹۱: ابوبکرسے</ref>سے روایت ہوئی ہے کہ ابوبکر کی بیعت ایک جلدپنی اور بے سابقہ کام تھا کہ اللہ تعالی نے اس کے شر سے لوگوں کو بچایا۔<ref>طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۰۴-۲۰۶، بلاذری، انساب ج۱، ص۵۸۳، ۵۸۴؛ ابن اثیر، الکامل، ج۲، ص۳۲۶-۳۲۷؛ قس: نہجالبلاغہ، خطبہ ۱۳۶</ref> | ||
سطر 140: | سطر 140: | ||
یہ خطبے اہل سنت کے محققین اور علما کی نظر میں ابوبکر کی انکساری، ادب اور سنت نبوی پر عمل پیرا ہونے کی علامت اور آیندہ آنے والوں کو حکومت کرنے کے لیے بہترین راہنما اصول ہیں <ref>عظم، ص۹۰-۹۱؛ دروزہ، ص۳۰</ref>، جبکہ شیعہ علما ان خطبوں کے بعض حصوں کو مطاعن ابوبکر اور اس کے خلافت کے لیے نا لایق ہونے کی دلیل سمجھتے ہیں اور ان کے اپنے عقیدے کے مطابق اصل امامت کی بحث کی ہے۔<ref>کنتوری، ج۱، ص۱۹۷-۲۲۴؛ فیروزآبادی، ص۹-۱۱</ref> | یہ خطبے اہل سنت کے محققین اور علما کی نظر میں ابوبکر کی انکساری، ادب اور سنت نبوی پر عمل پیرا ہونے کی علامت اور آیندہ آنے والوں کو حکومت کرنے کے لیے بہترین راہنما اصول ہیں <ref>عظم، ص۹۰-۹۱؛ دروزہ، ص۳۰</ref>، جبکہ شیعہ علما ان خطبوں کے بعض حصوں کو مطاعن ابوبکر اور اس کے خلافت کے لیے نا لایق ہونے کی دلیل سمجھتے ہیں اور ان کے اپنے عقیدے کے مطابق اصل امامت کی بحث کی ہے۔<ref>کنتوری، ج۱، ص۱۹۷-۲۲۴؛ فیروزآبادی، ص۹-۱۱</ref> | ||
اس میٹینگ میں اگرچہ ابوبکر کی خلاقت یقینی ہوگئی لیکن مہاجر اور انصار کے ایک گروہ نے اس کی بیعت سے انکار کردیا ان میں سے بعض کے نام جو منابع میں ذکر ہوئے ہیں یہ ہیں۔: [[علی(ع)]]، [[سعد بن عبادہ]]، [[عباس بن عبدالمطلب]]، [[فضل بن عباس]]، [[زبیر بن عوام]]، [[خالد بن سعید]]، [[مقداد بن عمرو]]، [[سلمان فارسی]]، [[ابوذر غفاری]]، [[عمار بن یاسر]]، [[براء بن عازب]]، [[ابی بن کعب]]، [[حذیفہ بن یمان]]، [[خزیمہ بن ثابت]]، [[ابو ایوب انصاری]]، [[سہل بن حنیف]]، [[عثمان بن حنیف]]، [[ابوالہیثم بن التیہان]]، [[سعد بن ابی وقاص]] اور [[ابوسفیان بن حرب]]۔<ref>یعقوبی، ج۲، ص۱۲۳-۱۲۶؛ بلاذری، انساب، ج۱، ص۵۸۸؛ ابن عبدربہ، ج۴، ص۲۵۹-۲۶۰؛ طبرسی، احمد، ج۱، ص۹۷؛ ابن ابی الحدید، ج۲، ص۴۴-۶۱</ref> ان میں سے سعد ابن عبادہ خود خلافت کا مدعی تھا اور ابوسفیان اور اس کے حامی دنیوی مقاصد رکھتے تھے<ref>بلاذری، ج۱، ص۵۸۸؛ حسین، علی و فرزندانش، ص۳۳-۳۴</ref> جن ادلہ کی وجہ سے سقیفہ میں ابوبکر کو خلافت کے لیے ترجیح دیا تھا؛ یعنی اسلام میں پہل کرنا، اسلام کے لیے خدمات اور رسول سے قرابت، انہی کی وجہ سے ایک گروہ علی علیہ السلام کی خلافت کو مستند کرتے تھے۔ اور علی علیہ السلام اور بنی ہاشم صرف مخالفوں کو ان کے اپنے دلائل پر عمل پیرا کرنے کے لیے احتجاج کرتے تھے۔ <ref>الامامہ، ج۱، ص۱۱-۱۲؛ بلاذری، انساب، ج۱، ص۵۸۲؛ یعقوبی، ج۲، ص۱۲۵-۱۲۶؛ نہجالبلاغہ، خطبہ ۶۷؛ آیتی، حواشی، ص۱۰۸-۱۰۹</ref> اور خلافت کو علی (ع) کا حق سمجھتے تھے اور شیعیان علی کا ایک اور گروہ اسلامی معاشرے کی رہبری اور پیغمبر کی جانشینی کا مسئلہ مذہبی عالیترین مقام سمجھتے تھے آیہ «اِنَّ اللّہ اصْطَفی آدَمَ وَ نوحاً وَ آلَ اِبْراہیمَ وَ آلَ عِمْرانَ عَلَی الْعالَمینَ، ذُرّیہ بَعْضُہا مِنْ بَعْضٍ…»<ref>آل عمران، آیہ ۳۳-۳۴</ref> سے تمسک کرتے ہوئے قائل تھے کہ حضرت محمد | اس میٹینگ میں اگرچہ ابوبکر کی خلاقت یقینی ہوگئی لیکن مہاجر اور انصار کے ایک گروہ نے اس کی بیعت سے انکار کردیا ان میں سے بعض کے نام جو منابع میں ذکر ہوئے ہیں یہ ہیں۔: [[علی(ع)]]، [[سعد بن عبادہ]]، [[عباس بن عبدالمطلب]]، [[فضل بن عباس]]، [[زبیر بن عوام]]، [[خالد بن سعید]]، [[مقداد بن عمرو]]، [[سلمان فارسی]]، [[ابوذر غفاری]]، [[عمار بن یاسر]]، [[براء بن عازب]]، [[ابی بن کعب]]، [[حذیفہ بن یمان]]، [[خزیمہ بن ثابت]]، [[ابو ایوب انصاری]]، [[سہل بن حنیف]]، [[عثمان بن حنیف]]، [[ابوالہیثم بن التیہان]]، [[سعد بن ابی وقاص]] اور [[ابوسفیان بن حرب]]۔<ref>یعقوبی، ج۲، ص۱۲۳-۱۲۶؛ بلاذری، انساب، ج۱، ص۵۸۸؛ ابن عبدربہ، ج۴، ص۲۵۹-۲۶۰؛ طبرسی، احمد، ج۱، ص۹۷؛ ابن ابی الحدید، ج۲، ص۴۴-۶۱</ref> ان میں سے سعد ابن عبادہ خود خلافت کا مدعی تھا اور ابوسفیان اور اس کے حامی دنیوی مقاصد رکھتے تھے<ref>بلاذری، ج۱، ص۵۸۸؛ حسین، علی و فرزندانش، ص۳۳-۳۴</ref> جن ادلہ کی وجہ سے سقیفہ میں ابوبکر کو خلافت کے لیے ترجیح دیا تھا؛ یعنی اسلام میں پہل کرنا، اسلام کے لیے خدمات اور رسول سے قرابت، انہی کی وجہ سے ایک گروہ علی علیہ السلام کی خلافت کو مستند کرتے تھے۔ اور علی علیہ السلام اور بنی ہاشم صرف مخالفوں کو ان کے اپنے دلائل پر عمل پیرا کرنے کے لیے احتجاج کرتے تھے۔ <ref>الامامہ، ج۱، ص۱۱-۱۲؛ بلاذری، انساب، ج۱، ص۵۸۲؛ یعقوبی، ج۲، ص۱۲۵-۱۲۶؛ نہجالبلاغہ، خطبہ ۶۷؛ آیتی، حواشی، ص۱۰۸-۱۰۹</ref> اور خلافت کو علی (ع) کا حق سمجھتے تھے اور شیعیان علی کا ایک اور گروہ اسلامی معاشرے کی رہبری اور پیغمبر کی جانشینی کا مسئلہ مذہبی عالیترین مقام سمجھتے تھے آیہ «اِنَّ اللّہ اصْطَفی آدَمَ وَ نوحاً وَ آلَ اِبْراہیمَ وَ آلَ عِمْرانَ عَلَی الْعالَمینَ، ذُرّیہ بَعْضُہا مِنْ بَعْضٍ…»<ref>آل عمران، آیہ ۳۳-۳۴</ref> سے تمسک کرتے ہوئے قائل تھے کہ حضرت محمد ؐ اور اسکی خاندان حضرت ابراہیم کی ذریت میں سے ہیں اور انہی فضایل کے مالک ہیں <ref>جعفری، ص۱۴</ref> اور اسی طرح آیہ «اِنَّما وَلیکُمُ اللّہ وَ رَسولُہ وَ الَّذینَ آمَنوا الّذینَ یقیمونَ الصّلوہ وَ یؤتونَ الزّکوہ وَہمْ راکِعونَ»<ref>مائدہ، آیہ ۵۵</ref> اور دوسری چند آیتیں<ref>نک: مفید، الجمل، ص۳۲-۳۳؛ نیز طباطبائی، شیعہ، ص۱۱۳؛ ابومجتبی، ص۴۸۸</ref>، اسیطرح متواتر روایتوں [[حدیث یوم الدار|حدیثدار]]<ref>طبری، تاریخ، ج۲، ص۳۱۹-۳۲۱؛ احمدبن حنبل، ج۱، ص۱۱۱؛ ابن اثیر، الکامل، ج۲، ص۶۲-۶۳؛ ابن ابی الحدید، ج۱۳، ص۲۱۲؛ ہندی، ج۱۳، ص۱۳۱-۱۳۳</ref>، [[حدیث منزلت]]<ref>گنجی، ص۲۸۱؛ ہندی، ج۱۳، ص۱۵۰-۱۵۱؛ ابن سعد، ج۳، ص۲۳-۲۴؛ مفید، الجمل، ص۳۳-۳۴؛ ترمذی، ج۶، ص۶۴۰-۶۴۱؛ ابن صباغ، ص۳۹</ref> و [[حدیث غدیر]]<ref>محب طبری، ذخائر، ص۶۷-۶۸؛ ابن کثیر، ج۵، ص۲۰۸-۲۱۴، ج۷، ص۳۴۶-۳۵۱</ref>، سے استناد کرتے ہوئے، خلافت میں «نص اور تعیین» کے قائل تھے۔<ref>طباطبائی، شیعہ، ص۱۱۳-۱۱۴</ref> | ||
سعد بن عبادہ نے اپنی عمر کے آخری لمحے تک ابوبکر اور عمر کی بیعت نہیں کی اور عمر کی خلافت کے دوران [[شام]] کی طرف سفر کیا اور حوران کے مقام پر رات کی تاریکی میں مقتول پایا گیا۔<ref>الامامہ، ج۱، ص۱۰؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۲۲-۲۲۳؛ ابن سعد، ج۳، ص۶۱۶-۶۱۷</ref> لیکن بلاذری نے مدائنی، ابومخنف اور کلبی سے ایک روایت میں ذکر کیا ہے کہ عمر نے ایک مرد کو حوران بھیجا اور اسے حکم دیا کہ سعد بن عبادہ کو لالچ دیکر بیعت لیں اور اگر قبول نہیں کیا تو اس کے خلاف اللہ سے مدد مانگو۔ یہ مرد سعد سے ملا اور اس سے بیعت نہ لے سکا تو اسے ایک تیر مار کر قتل کردیا۔ بلاذری اس کے بعد ایک مشہور روایت کو ذکر کرتا ہے جس کے مطابق سعد [[جنّوں]] کے ہاتھوں مارا گیا۔<ref>بلاذری، ج۱، ص۵۸۹؛ قس: ابن عبدربہ، ج۴، ص۲۶۰؛ لامنس، ۱۴۲</ref> | سعد بن عبادہ نے اپنی عمر کے آخری لمحے تک ابوبکر اور عمر کی بیعت نہیں کی اور عمر کی خلافت کے دوران [[شام]] کی طرف سفر کیا اور حوران کے مقام پر رات کی تاریکی میں مقتول پایا گیا۔<ref>الامامہ، ج۱، ص۱۰؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۲۲-۲۲۳؛ ابن سعد، ج۳، ص۶۱۶-۶۱۷</ref> لیکن بلاذری نے مدائنی، ابومخنف اور کلبی سے ایک روایت میں ذکر کیا ہے کہ عمر نے ایک مرد کو حوران بھیجا اور اسے حکم دیا کہ سعد بن عبادہ کو لالچ دیکر بیعت لیں اور اگر قبول نہیں کیا تو اس کے خلاف اللہ سے مدد مانگو۔ یہ مرد سعد سے ملا اور اس سے بیعت نہ لے سکا تو اسے ایک تیر مار کر قتل کردیا۔ بلاذری اس کے بعد ایک مشہور روایت کو ذکر کرتا ہے جس کے مطابق سعد [[جنّوں]] کے ہاتھوں مارا گیا۔<ref>بلاذری، ج۱، ص۵۸۹؛ قس: ابن عبدربہ، ج۴، ص۲۶۰؛ لامنس، ۱۴۲</ref> | ||
سطر 207: | سطر 207: | ||
==حکومت کرنے کا طریقہ== | ==حکومت کرنے کا طریقہ== | ||
ابوبکر نے اپنے اس مختصر دور خلافت میں کوئی اہم کام نہیں کیا اور کسی نظام کی بنیاد نہیں رکھ سکا بلکہ خلافت کا بیشتر وقت جنگوں میں گزرا۔<ref>نک: EI۱</ref>وہ اپنی حکومت کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی ظاہر کرنے کی کوشش کرتا تھآ کہ وہ قرآن اور پیغمبر اکرم کی سنت کی پیروی کرتا ہے۔ بعض اقدامات جیسے جیش [[اسامہ بن زید|اسامہ]] کو اکثر صحابیوں کی مخالفت کے باوجود بھیج دینا اس بات پر گواہ ہے۔ لیکن حکومت کی مصلحت اقتضا کرتی تو اجتہاد بالرای سے مشکلات کو حل کرتا تھا۔ ابن سعد ابن سیرین سے نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے۔ پیغمبر اکرم کے بعد اجتہاد بالرای کرنے میں ابوبکر سب سے زیادہ دلیر تھے۔ ابوبکر کہتا تھا کہ میں اپنی رای میں اجتہاد کرتا ہوں اگر یہ رای حق کے مطابق ہو تو خدا کی طرف سے ہے اور خطا ہو تو میری طرف سے ہے اور اس سے معافی مانگتا ہوں۔<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۷-۱۷۸</ref> | ابوبکر نے اپنے اس مختصر دور خلافت میں کوئی اہم کام نہیں کیا اور کسی نظام کی بنیاد نہیں رکھ سکا بلکہ خلافت کا بیشتر وقت جنگوں میں گزرا۔<ref>نک: EI۱</ref>وہ اپنی حکومت کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی ظاہر کرنے کی کوشش کرتا تھآ کہ وہ قرآن اور پیغمبر اکرم کی سنت کی پیروی کرتا ہے۔ بعض اقدامات جیسے جیش [[اسامہ بن زید|اسامہ]] کو اکثر صحابیوں کی مخالفت کے باوجود بھیج دینا اس بات پر گواہ ہے۔ لیکن حکومت کی مصلحت اقتضا کرتی تو اجتہاد بالرای سے مشکلات کو حل کرتا تھا۔ ابن سعد ابن سیرین سے نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے۔ پیغمبر اکرم کے بعد اجتہاد بالرای کرنے میں ابوبکر سب سے زیادہ دلیر تھے۔ ابوبکر کہتا تھا کہ میں اپنی رای میں اجتہاد کرتا ہوں اگر یہ رای حق کے مطابق ہو تو خدا کی طرف سے ہے اور خطا ہو تو میری طرف سے ہے اور اس سے معافی مانگتا ہوں۔<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۷-۱۷۸</ref> | ||
اگر چہ مشہور ہے کہ دیوان عطا پہلی بار عمر کی خلافت میں تاسیس ہوا<ref>ابوعبید، ۲۳۱-۲۳۱؛ ماوردی، ۲۴۹</ref>لیکن منابع میں جو آیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوبکر کے دور میں ایک طرح کا دیوان عطا موجود تھا۔ اور ابن سعد <ref>ابن سعد، ج۳، ص۲۱۳</ref> اور ابن اثیر<ref>ابن اثیر، الکامل، ۲، ص۴۲۲</ref> کے کہنے کے مطابق ابوبکر مدینہ منتقل ہونے تک بیت المال سنح میں تھا اور اس پر کوئی چوکیدار بھی نہیں تھا چونکہ جو کچھ بیت المال پہنچتا تھا اسی وقت مسلمانوں کے درمیان تقسیم ہوتا تھا اور کچھ باقی نہیں رہتا تھا۔ اور مدینہ منتقل ہونے کے بعد بیت المال اپنے گھر پر بنادیا۔ ابویوسف کے بیان کے مطابق ابوبکر کی خلافت کے پہلے سال [[بحرین]] سے کچھ رقم بیت المال پہنچی تو اس سے کچھ مقدار ان لوگوں میں تقسیم کیا جن کو پیغمبر اکرم نے کچھ دینے کا وعدہ دیا تھا۔ اور باقی رقم کو چھوٹے، بڑے، آزاد اور غلام اور مرد، عورت میں برابر تقسیم کردیا جو ہر شخص کو سات درہم اور ایک درہم کا ایک تہائی حصہ ملا۔ اگلے سال زیادہ مال پہنچا تو ہر ایک کو 20 درہم مل گئے۔ اس کام میں بھی ابوبکر نے [[پیغمبر | اگر چہ مشہور ہے کہ دیوان عطا پہلی بار عمر کی خلافت میں تاسیس ہوا<ref>ابوعبید، ۲۳۱-۲۳۱؛ ماوردی، ۲۴۹</ref>لیکن منابع میں جو آیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوبکر کے دور میں ایک طرح کا دیوان عطا موجود تھا۔ اور ابن سعد <ref>ابن سعد، ج۳، ص۲۱۳</ref> اور ابن اثیر<ref>ابن اثیر، الکامل، ۲، ص۴۲۲</ref> کے کہنے کے مطابق ابوبکر مدینہ منتقل ہونے تک بیت المال سنح میں تھا اور اس پر کوئی چوکیدار بھی نہیں تھا چونکہ جو کچھ بیت المال پہنچتا تھا اسی وقت مسلمانوں کے درمیان تقسیم ہوتا تھا اور کچھ باقی نہیں رہتا تھا۔ اور مدینہ منتقل ہونے کے بعد بیت المال اپنے گھر پر بنادیا۔ ابویوسف کے بیان کے مطابق ابوبکر کی خلافت کے پہلے سال [[بحرین]] سے کچھ رقم بیت المال پہنچی تو اس سے کچھ مقدار ان لوگوں میں تقسیم کیا جن کو پیغمبر اکرم نے کچھ دینے کا وعدہ دیا تھا۔ اور باقی رقم کو چھوٹے، بڑے، آزاد اور غلام اور مرد، عورت میں برابر تقسیم کردیا جو ہر شخص کو سات درہم اور ایک درہم کا ایک تہائی حصہ ملا۔ اگلے سال زیادہ مال پہنچا تو ہر ایک کو 20 درہم مل گئے۔ اس کام میں بھی ابوبکر نے [[پیغمبر ؐ]] کی سنت پر عمل کیا تھا۔ اور شرافت اور ماضی کو مدنظر رکھ کر تقسیم کرنے کی تجاویز کو قبول نہیں کیا۔ ابن سعد کہتا ہے۔<ref>ص ۴۲</ref> ابوبکر مرنے کے بعد عمر نے بزرگوں اور معتمد شخصیات کی موجودگی میں بیت المال کو کھولا تو ایک تھیلی سے گری ہوئی ایک دینار کے سوا کچھ نہیں پایا۔ <ref>ابن سعد، ج۳، ۲ ۲۱۳؛ ابن اثیر، الکامل، ج۲، ص۴۲۲؛ یعقوبی، ۲، ص۱۳۴، ۱۵۴</ref> | ||
==حکومتی عہدے دار== | ==حکومتی عہدے دار== |