مندرجات کا رخ کریں

"حدیث مدینۃ العلم" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
imported>Mabbassi
imported>Jaravi
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 38: سطر 38:
{{ستون آ|4}}
{{ستون آ|4}}
*حافظ یحیی بن معین بغدادی؛<ref>حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ج3، ص138۔</ref>
*حافظ یحیی بن معین بغدادی؛<ref>حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ج3، ص138۔</ref>
*شیبانی؛<ref>فضائل الصحابة، ص138۔</ref>
*شیبانی؛<ref>فضائل الصحابۃ، ص138۔</ref>
*ترمذی؛<ref> الجامع الصحيح، ج7، ص437۔</ref>
*ترمذی؛<ref> الجامع الصحيح، ج7، ص437۔</ref>
*طبری؛<ref>تهذيب الآثار وتفصيل الثابت، ص105۔</ref>
*طبری؛<ref>تہذيب الآثار وتفصيل الثابت، ص105۔</ref>
*حاکم نیشابوری؛<ref> المستدرک علی الصحیحین، ج3، ص137۔</ref>
*حاکم نیشابوری؛<ref> المستدرک علی الصحیحین، ج3، ص137۔</ref>
*بغدادی؛<ref>تاریخ بغداد، ج4، ص348۔</ref>
*بغدادی؛<ref>تاریخ بغداد، ج4، ص348۔</ref>
سطر 47: سطر 47:
*سمعانی؛<ref>الأنساب، ج3، ص475۔</ref>
*سمعانی؛<ref>الأنساب، ج3، ص475۔</ref>
*ابن اثیر؛<ref>معجم جامع الأصول فی أحادیث الرسول، ج9، ص473۔</ref>
*ابن اثیر؛<ref>معجم جامع الأصول فی أحادیث الرسول، ج9، ص473۔</ref>
*ذهبی؛<ref>تذکرة الحفاظ، ج4، ص1231۔</ref>
*ذہبی؛<ref>تذکرة الحفاظ، ج4، ص1231۔</ref>
*ابن صباغ مالکی؛<ref>الفصول المهمه، ص36۔</ref>
*ابن صباغ مالکی؛<ref>الفصول المہمہ، ص36۔</ref>
*سیوطی؛<ref>جامع الصغیر، ج1، ص415، ح2705۔</ref>
*سیوطی؛<ref>جامع الصغیر، ج1، ص415، ح2705۔</ref>
* آلوسی۔<ref>روح المعاني، ذیل سوره ذاریات، آیه 1۔</ref>
* آلوسی۔<ref>روح المعاني، ذیل سوره ذاریات، آیہ 1۔</ref>
{{ستون خ}}
{{ستون خ}}


سطر 56: سطر 56:
{{ستون آ|4}}
{{ستون آ|4}}
*حافظ یحیی بن معین بغدادی؛<ref>حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ج3، ص138۔</ref>
*حافظ یحیی بن معین بغدادی؛<ref>حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ج3، ص138۔</ref>
*شیبانی؛<ref>فضائل الصحابة، ص138۔</ref>
*شیبانی؛<ref>فضائل الصحابۃ، ص138۔</ref>
*ترمذی؛<ref> الجامع الصحيح، ج7، ص437۔</ref>
*ترمذی؛<ref> الجامع الصحيح، ج7، ص437۔</ref>
*طبری؛<ref>تهذيب الآثار وتفصيل الثابت، ص105۔</ref>
*طبری؛<ref>تہذيب الآثار وتفصيل الثابت، ص105۔</ref>
*حاکم نیشابوری؛<ref> المستدرک علی الصحیحین، ج3، ص137۔</ref>
*حاکم نیشابوری؛<ref> المستدرک علی الصحیحین، ج3، ص137۔</ref>
*بغدادی؛<ref>تاریخ بغداد، ج4، ص348۔</ref>
*بغدادی؛<ref>تاریخ بغداد، ج4، ص348۔</ref>
سطر 65: سطر 65:
*سمعانی؛<ref>الأنساب، ج3، ص475۔</ref>
*سمعانی؛<ref>الأنساب، ج3، ص475۔</ref>
*ابن اثیر؛<ref>معجم جامع الأصول فی أحادیث الرسول، ج9، ص473۔</ref>
*ابن اثیر؛<ref>معجم جامع الأصول فی أحادیث الرسول، ج9، ص473۔</ref>
*ذهبی؛<ref>تذکرة الحفاظ، ج4، ص1231۔</ref>
*ذہبی؛<ref>تذکرة الحفاظ، ج4، ص1231۔</ref>
*ابن صباغ مالکی؛<ref>الفصول المهمه، ص36۔</ref>
*ابن صباغ مالکی؛<ref>الفصول المہمہ، ص36۔</ref>
*سیوطی؛<ref>جامع الصغیر، ج1، ص415، ح2705۔</ref>
*سیوطی؛<ref>جامع الصغیر، ج1، ص415، ح2705۔</ref>
* آلوسی۔<ref>روح المعاني، ذیل سوره ذاریات، آیه 1۔</ref>
* آلوسی۔<ref>روح المعاني، ذیل سوره ذاریات، آیہ 1۔</ref>
{{ستون خ}}
{{ستون خ}}


سطر 74: سطر 74:


===گنجی شافعی===
===گنجی شافعی===
تمام [[اہل بیت(ع)]]، [[صحابہ]] اور [[تابعین]] منجملہ [[ابوبکر بن ابی قحافہ|ابوبکر]]، [[عمر بن خطاب|عمر]] اور [[عثمان بن عفان|عثمان]] نے اللہ کے احکام کے سلسلے میں [[علی(ع)]] کے ساتھ صلاح مشورے کئے ہیں اور آپ(ع) کی مرتبت، فضیلت، عظمت اور علمی برتری کا اعتراف کیا ہے۔ [[علی(ع)]] کے علمی مقام کے سامنے یہ [[حدیث]] کچھ بہت بڑی خبر نہیں ہے کیونکہ آپ(ع) کی منزلت خداوند متعال اور [[رسول اکرم]](ص) اور مؤمنین کے نزدیک اس سے کہیں زیادہ ہے۔<ref>گنجی، ''کفایة الطالب، ص220، 222 و223۔</ref>
تمام [[اہل بیت(ع)]]، [[صحابہ]] اور [[تابعین]] منجملہ [[ابوبکر بن ابی قحافہ|ابوبکر]]، [[عمر بن خطاب|عمر]] اور [[عثمان بن عفان|عثمان]] نے اللہ کے احکام کے سلسلے میں [[علی(ع)]] کے ساتھ صلاح مشورے کئے ہیں اور آپ(ع) کی مرتبت، فضیلت، عظمت اور علمی برتری کا اعتراف کیا ہے۔ [[علی(ع)]] کے علمی مقام کے سامنے یہ [[حدیث]] کچھ بہت بڑی خبر نہیں ہے کیونکہ آپ(ع) کی منزلت خداوند متعال اور [[رسول اکرم]](ص) اور مؤمنین کے نزدیک اس سے کہیں زیادہ ہے۔<ref>گنجی، ''کفایۃ الطالب، ص220، 222 و223۔</ref>


===ابوسعید خلیل علائی===
===ابوسعید خلیل علائی===


اس [[حدیث]] کی نفی کے سلسلے دلیل کیا ہے؟! جن لوگوں نے اس کو ضعیف قرار دینے کی کوشش کی ہے، وہ اس کی صحیح سندوں اور قطعی و یقینی شواہد کے مقابلے میں کوئی دلیل پیش کرنے سے عاجز ہیں۔<ref>سیوطی، اللئالى المصنوعة، ج1، ص155 و 333۔</ref>
اس [[حدیث]] کی نفی کے سلسلے دلیل کیا ہے؟! جن لوگوں نے اس کو ضعیف قرار دینے کی کوشش کی ہے، وہ اس کی صحیح سندوں اور قطعی و یقینی شواہد کے مقابلے میں کوئی دلیل پیش کرنے سے عاجز ہیں۔<ref>سیوطی، اللئالى المصنوعۃ، ج1، ص155 و 333۔</ref>


===ابن حجر عسقلانی===
===ابن حجر عسقلانی===
سطر 103: سطر 103:


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات|3}}
{{طومار}}
{{حوالہ جات|2}}
{{خاتمہ}}


== مآخذ ==
== مآخذ ==
{{ستون آ|2}}
{{طومار}}
*آلوسی، ''روح المعاني''، دار إحیاء التراث العربی، بیروت.
*آلوسی، ''روح المعاني''، دار إحیاء التراث العربی، بیروت.
*ابن أثیر الجزری، ''معجم جامع الأصول فی أحادیث الرسول''، تحقیق محمد الفقی ، دار احیاء التراث العربی ، بیروت.
*ابن أثیر الجزری، ''معجم جامع الأصول فی أحادیث الرسول''، تحقیق محمد الفقی ، دار احیاء التراث العربی ، بیروت.
*ابن حجر عسقلانی، ''لسان الميزان''، مؤسسة الأعلمی للمطبوعات - بیروت.
*ابن حجر عسقلانی، ''لسان الميزان''، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات - بیروت.
*ابن صباغ مالکی، ''الفصول المهمه''، تحقیق سامی الغریری، درالحدیث، قم.
*ابن صباغ مالکی، ''الفصول المہمہ''، تحقیق سامی الغریری، درالحدیث، قم.
*ابن عبدالبر، ''الاستیعاب''، تحقیق علی محمد بجاوی، دارالجیل، بیروت.
*ابن عبدالبر، ''الاستیعاب''، تحقیق علی محمد بجاوی، دارالجیل، بیروت.
*ابن مغازلی، ''مناقب علی بن ابی طالب''، مکتبه اسلامیه، تهران.
*ابن مغازلی، ''مناقب علی بن ابی طالب''، مکتبہ اسلامیہ، تہران.
*ابونعیم اصفهانی، ''حلیة الأولیاء و طبقات الأصفیاء''، دار الکتاب العربی، بیروت.
*ابونعیم اصفہانی، ''حلیۃ الأولیاء و طبقات الأصفیاء''، دار الکتاب العربی، بیروت.
*امینی، ''الغدیر''، دارالکتاب العربی، بیروت.
*امینی، ''الغدیر''، دارالکتاب العربی، بیروت.
*بغدادی، ''تاريخ بغداد''، دارالکتب العلمیه، بیروت.
*بغدادی، ''تاريخ بغداد''، دارالکتب العلمیہ، بیروت.
*ترمذی، ''الجامع الصحيح''، تحقیق احمد محمد شاکر، مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی.
*ترمذی، ''الجامع الصحيح''، تحقیق احمد محمد شاکر، مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی.
*حاکم نیشابوری، ''المستدرک علی الصحیحین''، تحقیق مصطفی عبدالقادر عطا، دارالکتب العلمیه، بیروت.
*حاکم نیشابوری، ''المستدرک علی الصحیحین''، تحقیق مصطفی عبدالقادر عطا، دارالکتب العلمیہ، بیروت.
*ذهبی، ''تذکرة الحفاظ''، دار الکتب العلمیة، بیروت.
*ذہبی، ''تذکرة الحفاظ''، دار الکتب العلمیۃ، بیروت.
*زرندی، ''نظم درر السمطين''، حسن بیرجندی، مجمع جهانی اهل بیت، تهران.
*زرندی، ''نظم درر السمطين''، حسن بیرجندی، مجمع جہانی اہل بیت، تہران.
*سمعانی، ''الأنساب''، تحقیق عبد الله عمر البارودی، ناشر دار الفکر، بیروت.
*سمعانی، ''الأنساب''، تحقیق عبد الله عمر البارودی، ناشر دار الفکر، بیروت.
*سیوطی، ''جامع الصغير''، دارالفکر، بیروت.
*سیوطی، ''جامع الصغير''، دارالفکر، بیروت.
*سیوطی، ''اللئالی المصنوعة فی الأحادیث الموضوعة''، تحقیق أبو عبدالرحمان صلاح بن محمد بن عویضة، دارالکتب العلمیة، بیروت.
*سیوطی، ''اللئالی المصنوعۃ فی الأحادیث الموضوعۃ''، تحقیق أبو عبدالرحمان صلاح بن محمد بن عویضۃ، دارالکتب العلمیۃ، بیروت.
*شیبانی، ''فضائل الصحابة''، تحقیق وصی الله محمد عباس، مؤسسة الرسالة، بیروت.
*شیبانی، ''فضائل الصحابۃ''، تحقیق وصی الله محمد عباس، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت.
*ابن جریر طبری، ''تهذيب الآثار وتفصيل الثابت''، تحقیق محمود محمد شاکر، مطبعة المدنی، قاهرة.
*ابن جریر طبری، ''تہذيب الآثار وتفصيل الثابت''، تحقیق محمود محمد شاکر، مطبعۃ المدنی، قاہرة.
*گنجی شافعی، ''کفایة الطالب''، داراحیاء التراث، بیروت.
*گنجی شافعی، ''کفایۃ الطالب''، داراحیاء التراث، بیروت.
{{ستون خ}}
{{خاتمہ}}


{{شیعہ-افقی}}
{{شیعہ-افقی}}

نسخہ بمطابق 19:49، 17 مارچ 2018ء

حدیث مدینۃ العلم؛ علی علیہ السلام کی شان میں پیغمبر اسلام(ص) کی حدیث ہے ہے جو دوسرے صحابہ پر علی(ع) کی برتری اور ان کے نسبت آپ(ع) کی اعلمیت کو واضح طور پر بیان کرتی ہے اور اس حقیقت کو ثابت کرنے کے دلائل میں سے ایک ہے کہ رسول اللہ(ص) کے بعد امت کی دینی مرجعیت علی(ع) کے حصے میں آئی ہے۔

متن حدیث

حدیث مدینه العلم به الفاظ مختلفی از راویان نقل شده است، از جمله:

"أنا مدينة العلم وعليّ بابها فمن اراد العلم فليأت الباب"۔
میں علم کا شہر ہوں اور علی(ع) اس کا دروازہ ہیں پس جو بھی اس شہر میں داخل ہونا چاہتا ہے، دروازے سے آکر داخل ہوجائے۔[1]
"أنا مدينة العلم وعليّ بابها فمن اراد العلم فليأته من بابه""۔
میں علم کا شہر ہوں اور علی(ع) اس کا دروازہ ہیں، پس جو علم حاصل کرنا چاہے اس کو دروازے سے اس شہر میں داخل ہونا پڑے گا۔[2]
"انا دار الحكمة وعليّ بابها"۔
میں حکمت کا گھر ہوں اور علی(ع) اس گھر کا دروازہ ہیں۔[3]

تواتر اور صحت حدیث

حدیث مدینۃ العلم، اہل تشیع متواتر اور محمد بن جریر طبری، حاکم نیشابوری، خطیب بغدادی اور جلال الدین سیوطی جیسے اکابر اہل سنت کے ہاں حسن اور صحیح ہے۔ عبدالحسین امینی نے اہل سنت کے 21 محدثین کے نام ذکر کئے ہیں جو اس حدیث کو حسن اور صحیح سمجھتے ہیں۔[4]

حدیث کے راوی

صحابہ اور تابعین

دوسرے افراد

  • حافظ یحیی بن معین بغدادی؛[6]
  • شیبانی؛[7]
  • ترمذی؛[8]
  • طبری؛[9]
  • حاکم نیشابوری؛[10]
  • بغدادی؛[11]
  • ابن عبدالبر؛[12]
  • ابن مغازلی؛[13]
  • سمعانی؛[14]
  • ابن اثیر؛[15]
  • ذہبی؛[16]
  • ابن صباغ مالکی؛[17]
  • سیوطی؛[18]
  • آلوسی۔[19]

عام راوی

  • حافظ یحیی بن معین بغدادی؛[20]
  • شیبانی؛[21]
  • ترمذی؛[22]
  • طبری؛[23]
  • حاکم نیشابوری؛[24]
  • بغدادی؛[25]
  • ابن عبدالبر؛[26]
  • ابن مغازلی؛[27]
  • سمعانی؛[28]
  • ابن اثیر؛[29]
  • ذہبی؛[30]
  • ابن صباغ مالکی؛[31]
  • سیوطی؛[32]
  • آلوسی۔[33]

مشاہیر اہل سنت کے اقوال

گنجی شافعی

تمام اہل بیت(ع)، صحابہ اور تابعین منجملہ ابوبکر، عمر اور عثمان نے اللہ کے احکام کے سلسلے میں علی(ع) کے ساتھ صلاح مشورے کئے ہیں اور آپ(ع) کی مرتبت، فضیلت، عظمت اور علمی برتری کا اعتراف کیا ہے۔ علی(ع) کے علمی مقام کے سامنے یہ حدیث کچھ بہت بڑی خبر نہیں ہے کیونکہ آپ(ع) کی منزلت خداوند متعال اور رسول اکرم(ص) اور مؤمنین کے نزدیک اس سے کہیں زیادہ ہے۔[34]

ابوسعید خلیل علائی

اس حدیث کی نفی کے سلسلے دلیل کیا ہے؟! جن لوگوں نے اس کو ضعیف قرار دینے کی کوشش کی ہے، وہ اس کی صحیح سندوں اور قطعی و یقینی شواہد کے مقابلے میں کوئی دلیل پیش کرنے سے عاجز ہیں۔[35]

ابن حجر عسقلانی

یہ حدیث متعدد اسناد سے نقل ہوئی ہے اور یہ درست نہیں ہے کہ ہم اس کو ضعیف قرار دیں۔این حدیث سندهای متعددی دارد و سزاوار نیست آن را تضعیف کنیم.[36]

علی(ع) کی اعلمیت پر صحابہ کا اقرار

عمر بن خطاب

عمر ہمیشہ خدا کی پناہ مانگتے تھے کہ کوئی علمی مشکل پیش آئے اور علی(ع) اس وقت موجود نہ ہوں؛ اور کہا کرتے تھے کہ اگر علی(ع) نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا۔[37]

عائشہ

عائشہ کا کہنا ہے: "آگاہ رہو اور جان لو کہ علی بن ابیطالب سنت کے سب سے بڑے عالم ہیں"۔[38]

ابن عباس

ابن عباس کہتے ہیں: "خدا کی قسم! علی بن ابی طالب کو علم کے دس درجات میں سے نو درجات پر فائز کیا گیا اور باقیماندہ ایک حصے میں بھی شریک ہیں۔[39]

عبداللہ بن مسعود

بےشک قرآن سات حروف پر نازل ہوا، ان حروف میں سے کوئی بھی حرف نہیں ہے مگر یہ کہ اس کا ایک ظاہر ہو اور ایک باطن، اور علی(ع) کے پاس ظاہر و باطن کا علم ہے۔[40] فرائض کے لحاظ سے اہل مدینہ کے عالم ترین فرد علی بن ابی طالب ہیں۔[41]

معاويہ

جب بھی معاویہ اپنے سامنے پیش آنے والے مسائل کو لکھا کرتا تھا تا کہ علی بن ابی طالب سے پوچھ لے۔ معاویہ کو جب امیرالمؤمنین(ع) کے قتل کی خبر ملی تو اس نے کہا: ابوطالب کے فرزند کی موت کے ساتھ ہی علم و فقہ نے رخت سفر باندھ لیا۔[42]

حوالہ جات

  1. المستدرک علی الصحیحین، حاکم نیشابوری ج3، ص126۔
  2. الاستیعاب، ابن عبد البر، ج3، ص1102۔
  3. ترمذی، السنن ج5، ص637۔
  4. امینی، ج 6، ص 78 ـ 79۔
  5. نظم درر السمطين، زرندی، ص 113۔
  6. حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ج3، ص138۔
  7. فضائل الصحابۃ، ص138۔
  8. الجامع الصحيح، ج7، ص437۔
  9. تہذيب الآثار وتفصيل الثابت، ص105۔
  10. المستدرک علی الصحیحین، ج3، ص137۔
  11. تاریخ بغداد، ج4، ص348۔
  12. الاستیعاب، قسم سوم، ص1102۔
  13. مناقب علی بن ابی طالب، ص 80۔
  14. الأنساب، ج3، ص475۔
  15. معجم جامع الأصول فی أحادیث الرسول، ج9، ص473۔
  16. تذکرة الحفاظ، ج4، ص1231۔
  17. الفصول المہمہ، ص36۔
  18. جامع الصغیر، ج1، ص415، ح2705۔
  19. روح المعاني، ذیل سوره ذاریات، آیہ 1۔
  20. حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ج3، ص138۔
  21. فضائل الصحابۃ، ص138۔
  22. الجامع الصحيح، ج7، ص437۔
  23. تہذيب الآثار وتفصيل الثابت، ص105۔
  24. المستدرک علی الصحیحین، ج3، ص137۔
  25. تاریخ بغداد، ج4، ص348۔
  26. الاستیعاب، قسم سوم، ص1102۔
  27. مناقب علی بن ابی طالب، ص 80۔
  28. الأنساب، ج3، ص475۔
  29. معجم جامع الأصول فی أحادیث الرسول، ج9، ص473۔
  30. تذکرة الحفاظ، ج4، ص1231۔
  31. الفصول المہمہ، ص36۔
  32. جامع الصغیر، ج1، ص415، ح2705۔
  33. روح المعاني، ذیل سوره ذاریات، آیہ 1۔
  34. گنجی، کفایۃ الطالب، ص220، 222 و223۔
  35. سیوطی، اللئالى المصنوعۃ، ج1، ص155 و 333۔
  36. ابن حجر عسقلانی، ج 2، ص 155۔
  37. الاستیعاب، ابن عبدالبر، ج 3، ص 39۔
  38. ابن عبدالبر، ج 3، ص 462۔
  39. ابن عبدالبر، ج 3، ص 40۔
  40. ابونعیم اصفهانی، ج 1، ص 65۔
  41. امینی، ج3، ص91۔
  42. ابن عبدالبر، ج 2، ص 463۔

مآخذ

  • آلوسی، روح المعاني، دار إحیاء التراث العربی، بیروت.
  • ابن أثیر الجزری، معجم جامع الأصول فی أحادیث الرسول، تحقیق محمد الفقی ، دار احیاء التراث العربی ، بیروت.
  • ابن حجر عسقلانی، لسان الميزان، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات - بیروت.
  • ابن صباغ مالکی، الفصول المہمہ، تحقیق سامی الغریری، درالحدیث، قم.
  • ابن عبدالبر، الاستیعاب، تحقیق علی محمد بجاوی، دارالجیل، بیروت.
  • ابن مغازلی، مناقب علی بن ابی طالب، مکتبہ اسلامیہ، تہران.
  • ابونعیم اصفہانی، حلیۃ الأولیاء و طبقات الأصفیاء، دار الکتاب العربی، بیروت.
  • امینی، الغدیر، دارالکتاب العربی، بیروت.
  • بغدادی، تاريخ بغداد، دارالکتب العلمیہ، بیروت.
  • ترمذی، الجامع الصحيح، تحقیق احمد محمد شاکر، مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی.
  • حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، تحقیق مصطفی عبدالقادر عطا، دارالکتب العلمیہ، بیروت.
  • ذہبی، تذکرة الحفاظ، دار الکتب العلمیۃ، بیروت.
  • زرندی، نظم درر السمطين، حسن بیرجندی، مجمع جہانی اہل بیت، تہران.
  • سمعانی، الأنساب، تحقیق عبد الله عمر البارودی، ناشر دار الفکر، بیروت.
  • سیوطی، جامع الصغير، دارالفکر، بیروت.
  • سیوطی، اللئالی المصنوعۃ فی الأحادیث الموضوعۃ، تحقیق أبو عبدالرحمان صلاح بن محمد بن عویضۃ، دارالکتب العلمیۃ، بیروت.
  • شیبانی، فضائل الصحابۃ، تحقیق وصی الله محمد عباس، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت.
  • ابن جریر طبری، تہذيب الآثار وتفصيل الثابت، تحقیق محمود محمد شاکر، مطبعۃ المدنی، قاہرة.
  • گنجی شافعی، کفایۃ الطالب، داراحیاء التراث، بیروت.