امام رضا کی ولی عہدی

حوالہ جاتی اصول کی عدم رعایت
علاقائی تقاضوں سے غیر مماثل
غیر جامع
ویکی شیعہ سے
(ولایتعہدی امام رضا سے رجوع مکرر)

امام رضا کی ولی عہدی سے مراد مامون رشید کا امام علی رضا علیہ السلام کو اپنا ولی عہد بنانا ہے۔ شیعوں کے ہاں یہ واقعہ امام رضاؑ کی زندگی کے اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ مأمون کی ولایت عہدی قبول کرنا تاریخ اسلام کے موردِ بحث مباحث میں سے ایک ہے ساتھ ہی علم کلام میں بھی اہمیت کا حامل ہے۔ سید جعفر مرتضی عاملی کا کہنا ہے کہ ولی عہد بننے کے لئے امام رضاؑ راضی نہ ہونے پر متواتر روایات موجود ہیں۔

مامون نے امام رضا علیہ السلام کو مدینے سے "مرو" بلا کر پہلے خلافت کی پیشکش کی، کہا گیا ہے کہ اس کا مقصد اپنی خلافت کو مضبوط کرنا تھا۔ امام نے نہ صرف مأمون کی پیشکش کو ٹھکرایا بلکہ اس کی خلافت کو بھی غیر مشروع قرار دیا۔ جب خلافت ماننے سے انکار کیا تو مأمون نے ولایت عہدی نہ ماننے کی صورت میں قتل کی دھمکی دی جس کی وجہ سے امام نے مان تو لیا لیکن ساتھ یہ شرط بھی لگائی کہ حکومت میں کوئی مداخلت نہیں کریں گے۔

اس کام میں مأمون کے مختلف اہداف بیان ہوئے ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں: امام کے خطرے سے محفوظ ہونا اور امام کو اپنی نظر میں رکھنا، علویوں کی طرف سے اٹھنے والی تحریکوں کو خاموش کرنا، اپنی خلافت کی مشروعیت کے لئے امامؑ کو استعمال کرنا اور اہل خراسان کو اپنے سے راضی رکھنا۔ جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ فضل بن سہل نے امام رضاؑ کی ولایت عہدی کی تجویز دی تھی تاکہ اس طرح سے امام کے بعد وہ خود ایران کا بادشاہ بن جائے۔ کہا جاتا ہے کہ امامؑ نے اپنی سیاست اور فعالیت کے ذریعے ان کو ان مقاصد میں ناکام بنایا۔

مامون کے حکم سے امام رضا نے سنہ 200 ہجری کو مدینہ سے خراسان کی طرف سفر شروع کیا۔ مأمون نے امام کے لئے راستہ ایسا انتخاب کیا تھا کہ کہیں بھی شیعہ نشین شہروں سے گزر نہ ہو۔ امام نے سفر کے دوران نیشاپور میں حدیث سِلْسِلَۃُ الذَّہَب بیان کیا۔ مأمون نے رمضان سنہ 201ھ میں ولایت عہدی کا اعلان کیا۔ یوں حکومتی افراد اور لوگوں نے امام کی بیعت کی۔ اس کے بعد مأمون کے حکم سے خطبوں میں امام کا نام لیا گیا اور آپ کے نام سے سکہ رائج ہوا۔

امام کی ولایت عہدی کی علی بن عمران، ابو یونس اور بصرہ کے حاکم نے مخالفت کی۔ بغداد کے لوگوں کا حکومت میں اثر رسوخ کم ہونے پر انھوں نے بغاوت کی اور ابراہیم بن مہدی کی بیعت کی۔ شیعہ مآخذ کے مطابق امام رضاؑ نے اس موقعے کو غنیمت جان کر شیعوں کے مفاد میں استعمال کیا اور اہل بیتؑ کے بہت سارے معارف کو لوگوں تک پہنچایا اور مختلف مذاہب کے علما کے ساتھ مناظرے کئے۔ محققین کا کہنا ہے کہ امام رضاؑ کے مناظروں سے ایران میں شیعیت کے لئے زمین ہموار ہوگئی۔

اسلام میں امام رضا کی ولایتعہدی کی اہمیت

امام رضاؑ کی ولایت عہدی کا مسئلہ تاریخ اسلام کا زیادہ بحث ہونے والے مسائل میں سے ایک ہے۔[1] سیاسی نکتہ نظر سے بھی اور کلامی نکتہ نظر سے بھی (ولیعہدی کا ماننا امام کی عصمت کے ساتھ سازگار نہ ہونا)[2] اہمیت کا حامل ہے۔[3] امام رضاؑ کی ولایت عہدی کے دور کو امام رضاؑ کی زندگی کا سیاسی دور سمجھا گیا ہے۔[4]

بعض محققین کے مطابق، امام رضاؑ، مامون کی خلافت کے حساس دور میں ولایت عہدی کے عہدے پر فائز ہوکر اس دور میں غیر مستقیم طریقے سے اس معاشرے کی ہدایت کرنے میں اپنا کردار ادا کیا؛ کیونکہ اس وقت عباسی خلافت کے حالات ٹھیک نہیں تھے ان کے خلاف مختلف علویوں کی مختلف تحریکیں اور بعض گمراہ فرقوں کے وجود نے معاشرے کے زوال کے لئے میدان ہموار کیا تھا۔[5]

ولی عہدی کی پیشکش

ابوالفَرَج اصفہانی اپنی کتاب مقاتل الطالبیین میں اور شیخ صدوق اپنی کتاب کتاب عیون اخبار الرضاؑ میں امام رضاؑ کی ولایت عہدی کے بارے میں کہتے ہیں یہ مامون کی خواہش پر ہوگیا؛ کیونکہ اس نے اپنے بھائی امین پر غالب آنے کی صورت میں خلافت امام رضاؑ کو دینے کی قسم کھائی تھی۔[6] امین قتل ہونے کے بعد فضل بن سہل نے مأمون کو اس کا اللہ سے کیا ہوا وعدہ یاد دلایا اور مأمون نے اس کے لئے لازم کام انجام دئے۔[7]

اس کے برخلاف بعض کا یہ کہنا ہے کہ امام رضا کی ولایت عہدی فضل بن سہل کی تجویز تھی۔[8] کہا گیا ہے کہ اس میں فضل یہ چاہتا تھا کہ امامؑ کے بعد وہ خود ایران کا بادشاہ بنے۔[9] امام رضاؑ کو مدینہ سے مرو لانے کے لئے فضل بن سہل کا رشتہ دار رجاء بن ابی ضحّاک کا منتخب ہونا، بعض سیاسی شخصیات کا مأمون کو سہل کی سازش کی طرف توجہ دلانا اور بعض تاریخی تائیدات اس کی شاہد سمجھی گئی ہیں۔[10]

اہداف

بعض مستشرقین اور لبنان کے شیعہ مورخ سید حسن امین جیسے بعض شیعہ مؤلفین کا کہنا ہے کہ مأمون امام کو ولیعہدی دینے میں مخلص تھے اور صدقِ دل سے دیا تھا۔[11] لیکن بہت سارے محققین کا کہنا ہے کہ امام کو ولی عہد کا عہدہ دینے کے درج ذیل مقاصد تھے:

  • امامؑ کو زیرِ نظر رکھنا اور ان سے ہر طرح کے خطرے سے امان میں رہنا: مأمون کو امام کی مدینہ میں سرگرمیوں پر تشویش تھی، اسی وجہ سے آپ کو مرو لاکر ولیعہدی کی پیشکش کی تاکہ اس کی حکومت کے لئے کسی بھی قسم کا خطرہ درپیش نہ ہو۔[12]
  • علویوں کی تحریک کو دبانا: مأمون نے امام کو ولیعہد بنا کر علوی تحریکوں کو خاموش کرایا؛ اور امام کے ولیعہد بننے کے بعد علویوں کی کوئی تحریک (سوائے یمن کی تحریک کے جو بہت جلد ختم ہوئی) نہیں اٹھی۔[13]
  • شیعوں کو امام سے بدظن کرنا: اباصلت سے منقول ایک روایت کے مطابق مامون امام کو ولیعہد بنا کر یہ بتانا چاہتا تھا کہ امام ایک دنیادار شخص ہے اس سے امام اپنے شیعوں کی نظروں سے گر جائے۔[14]
  • مأموم کی خلافت کو مشروعیت بخشنا: مأمون کو یہ معلوم تھا کہ امام رضاؑ مدینہ میں لوگوں کو اپنی جانب بلاتے تھے اور اب ولیعہد بناکر یہ چاہتے تھے کہ امام کی دعوت کو اپنی خلافت کی مشروعیت کے لئے ایک سبب قرار دے تاکہ امام کی حقانیت کے ساتھ اس کی اپنی خلافت بھی قانونی کہلائی جاسکے۔[15]
  • اہلِ خراسان کو خوش کرنا: خراسان کے لوگ بنی عباس کی خلافت کے ظلم و ستم سے تنگ آکر امام رضاؑ کی جانب آرہے تھے۔[16] اسی وجہ سے مأمون نے امام کو ولیعہد بناکر لوگوں کو کسی حد تک راضی چاہتا تھا۔[17]
  • حقیقی شیعوں کی شناسائی: شیعہ ہمیشہ مخفی زندگی گزارنے پر مجبور تھے اور امام ولیعہد بننے کے بعد اب وہ مخفی زندگی گزارنا چھوڑتے تھے جس کے نتیجے میں عباسی حکومت کو بآسانی ان کی پہچان ہوسکتی تھی۔[18]
  • مأمون کے اقتدار میں اضافہ کرنا: مأمون کی ماں کنیز تھی اور سارے کام فضل بن سہل (ایک ایرانی) انجام دیتا تھا اور اسی سبب بنی عباس مأمون کو طعنے دیتے تھے۔ اسی لئے یہ طے کیا کہ امام رضاؑ جیسی بزرگ شخصیت کو ولیعہد بناکر اپنا اقتدار کچھ مضبوط کرے۔[19]

بعض مؤلفین نے بعض دیگر اہداف اور مقاصد بھی بیان کئے ہیں۔[20] تاریخ اسلام کے شیعہ محقق سید جعفر مرتضی عاملی کا کہنا ہے کہ مأمون کو جن مشکلات کا سامنا تھا ان کے پیش نظر امام رضاؑ کو ولیعہدی پر انتخاب کرنا یہ مأمون کی سیاسی زیرکی اور حکومتی مشکلات پر گرفت کی دلیل ہے۔[21] لیکن امام رضاؑ نے اپنی سیاست اور موقف کے ذریعے ان کو ان مقاصد میں ناکام بنایا۔[22]

واقعہ عاشورا سے امام رضاؑ کی ولایت عہدی کے درمیان کے 140 سالوں میں شیعوں کو خلافت کے سب سے بڑے اور خطرناک مخالف سمجھتے تھے اس دوران شیعوں کو مقابلہ کرنے کو کئی مواقع ملے جنھیں علوی تحریک نام دیا جاسکتا ہے اور کئی کامیابیوں کے قریب بھی ہوئے لیکن ہر دفعہ نتیجے کے حصول میں کوئی رکاوٹ پیش آتی رہی۔۔۔ امام رضاؑ کی ولایت عہدی کے سال تاریخِ تشیع کا سنہرا اور بابرکت دور سمجھا جاتا ہے جس میں علویوں کی تحریک میں دوبارہ سے جان آگئی اور یہ سب امام رضاؑ کی الہی تدبیر اور ان کی حکیمانہ پالیسی کے بدولت ممکن ہوا جو امام معصوم نے اس دوران دکھایا۔

ویب سائٹ، https://farsi.khamenei.ir/message-content?id=8311

امام رضا ؑ کا نقطہ نظر

سید جعفر مرتضی عاملی کا کہنا ہے کہ امام رضاؑ کا ولایتعہدی پر راضی نہ ہونے کی بھی کچھ اطلاعات ہیں جو متواتر ہیں۔[23] جو کچھ کتاب مناقب میں ذکر ہوا ہے اس کے مطابق امام رضاؑ نے اپنی ولایتعہدی کا کوئی فائدہ نہ ہونے کی خبر دی ہے۔[24] اس اطلاع کے مطابق، ولایتعہدی کے بعد امامؑ نے مامون اور فضل بن سہل کی موجودگی میں ولایت عہدی پر ایک سند درج کیا اس میں یہ لکھا کہ جَفْر اور جامعہ ان کی ولایت عہدی کے برخلاف دلالت کرتی ہیں۔[25]

مأمون نے ولایت عہدی سے پہلے امام کو خلافت کی پیشکش کی؛ لیکن امام رضا نے یہ کہہ کر انکار کیا: «اگر اللہ تعالی نے خلافت تجھے دیا تو تم کسی اور کو شائستہ نہیں ہے اور اگر اس نے تمہیں نہیں دیا ہے تو تم پھر کیسے ایسی چیز دوسرے کو دے سکتے ہو جو تمہاری نہیں ہے!؟»[26] محققین کا کہنا ہے کہ امامؑ کے اس جواب نے مأمون کے خلافت کی مشروعیت کو مورد سوال ٹھہرایا۔[27] سید جعفر مرتضی کا کہنا ہے کہ مأمون خلافت کی تجویز دینے میں سیریس نہیں تھے اور یہ ان کی طرف سے اپنی حکومت مضبوط کرنے کی ایک کوشش تھی۔[28] فضل بن سہل بھی اس بات پر تعجب کر رہے تھے کہ خلافت کس قدر حقیر ہوگئی ہے کہ مأمون خلافت کو دے رہے ہیں اور امامؑ خلافت نہیں لے رہے ہیں۔[29]

ولیعہدی کی پیشکش بھی امام رضاؑ کی طرف سے رد ہوگئی۔[30] مأمون کو جب امام کے انکار کا پتہ چلا تو عمر بن خطاب کی طرف سے چھ رکنی شوریٰ کو دی جانے والی دھمکی طرف اشارہ کیا جس میں یہ طے ہوا تھا کہ جو مخالفت کرے گا اسے قتل کیا جائے گا۔ یوں مأمون نے امام کو دھمکی دی اور ولایت عہدی قبول کرنے پر مجبور کردیا۔[31] اسی وجہ سے امام نے ولایت عہدی کو اس شرط پر قبول کیا کہ وہ مأمون کی حکومت میں کوئی مداخلت نہیں کریں گے۔[32] مأمون نے بھی یہ شرط مان لیا۔[33]

رَیّان بن صَلْت کی امام رضاؑ سے منقول ایک روایت کے مطابق اگر امام رضاؑ ولایت عہدی کو قبول نہ کرتے تو آپ کو قتل کیا جاتا۔[34]

امام رضاؑ نے مختلف موقعوں پر مأمون کی ولایتعہدی کی سازش کو ناکام بنانے کے لئے مقابلہ کیا۔[35] ان میں سے درج ذیل بعض کاموں کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے: مدینہ سے نکلتے ہوئے امام کا گھر والوں کو رونے کا حکم،[36] روضہ رسول سے وداع،[37] حکومت کے کسی کام میں مداخلت نہ کرنا، مرکزی حکومت کو شیعہ تبلیغی مرکز بنانا اور مختلف مذاہب کے سربراہوں سے مناظرہ کرنا۔[38]

مدینہ سے مرو کی جانب سفر

سرخس
قریتین
ہوسجہ
نباج
حفر ابوموسی
بہبہان
ابرکوہ
اصطخر
دہ شیر
خرانق
رباط پشت بادام
دہ سرخ
دامغان
آہوان
سمنان
نایین
شوشتر
دزفول
کرمانشاہ
راستے کا مشہور نقشہ
راستے کا غیر مشہور نقشہ
غلط اطلاعات
قدمگاہ
امام رضاؑ کا
مدینہ سے مروتک کے سفر کا نقشہ

تاریخ یعقوبی کے مطابق مأمون کے حکم سے رجاء بن ابی ضَحّاک (فضل بن سہل کا رشتہ دار) امام رضاؑ کو مدینہ سے خراسان لانے پر مامور ہوا۔[39] لیکن شیخ مفید کا کہنا ہے کہ اس کام کے لئے مأمون نے عیسی جَلودی کو بھیجا تھا۔[40] مأمون نے امام رضا کے سفر کا راستہ ایسا انتخاب کیا کہ کہیں بھی شیعہ نشین علاقوں سے امام کا گزر نہ ہو؛ کیونکہ شیعوں کے امام کے پاس اجتماع کرنے سے مأمون ڈرتا تھا۔[41] اس نے یہ حکم دیا تھا کہ امام کو کوفہ کے راستے سے نہ لے جایا جائے اور آپ کو بصرہ، خوزستان اور فارس کے راستے ہوکر نیشاپور تک پہنچایا جائے۔[42] کتاب اطلس شیعہ کے مطابق امام کے سفر کا راستہ کچھ یوں تھا: مدینہ، نقرہ، ہوسجہ، نباج، حفر ابوموسی، بصرہ، اہواز، بِہبہان، اصطخر، ابرقوہ، دہ شیر (فراشاہ)، یزد، خرانق، رباط پشت بام، نیشابور، قدمگاہ، دہ سرخ، طوس، سرخس، مَرْو.[43] کہا گیا ہے کہ امام نے سفر سنہ 200 ہجری میں شروع کیا تھا۔[44] کہا گیا ہے کہ اس سفر کے دوران سب سے اہم اور مستند ترین واقعہ نیشاپور میں پیش آیا جہاں امام رضاؑ نے مشہور حدیث سِلسِلَۃُ الذَّہَب کو بیان کیا۔[45]

ولایت عہدی کی تقریب

حضرت امام رضاؑ کی ولی عہدی کے سکے کا پچھلا رخ

مأمون نے بروز پیر 7[46] یا 5 رمضان،[47] یا 2 رمضانِ[48] سنہ 201 ہجری کو لوگوں سے امام رضا کی ولیعہدی کی بیعت لی اور لوگوں کو کالے کپڑے (جو بنی عباس کی نشانی تھے)[49] اتار کر سبز کپڑے پہنایا۔ (سبز رنگ علویوں کی نشانی تھی)[50] اور مختلف علاقوں کو بھی یہ حکم دیا۔[51]

اس کے بعد منبروں سے امامؑ کے نام پر خطبے جاری ہوئے اور آپؑ کے نام پر دینار و درہم کے سکے جاری ہوئے۔[52] مأمون نے اپنی بیٹی ام حبیب کا امام رضاؑ سے عقد کروایا۔[53] اور بعض تاریخی اطلاعات کے مطابق مأمون نے امام رضاؑ کو رضا کا لقب (الرِضا مِن آل محمد یعنی آل محمد میں سے رضایت والا شخص) دیا۔[54] لیکن امام جوادؑ کی ایک روایت کے مطابق «رضا» کا لقب اللہ کی طرف سے ان کے والد گرامی کو دیا گیا ہے۔[55]

مأمون نے ایک تقریب میں اپنے حکومتی نمائندے، فوجی سپہ سالار، قاضی اور لوگوں کو جمع کیا تاکہ وہ امام رضاؑ کی بیعت کریں۔[56] امام نے جس طرح سے رسول اللہؐ نے لوگوں سے بیعت لی تھی اسی طرح بیعت لیا؛ یعنی اپنے ہاتھوں کو چہرے کے سامنے رکھا ہتھیلیاں لوگوں کے چہرے پر اور ہاتھ کی پشت اپنے چھرے پر پھیرا۔[57]خطبا اور شعرا نے تقریب میں خطبے اور اشعار پڑھے۔ شعرا میں سے ایک دِعبِل خُزاعی تھے جنہوں نے شعر پڑھ کر امامؑ سے اس کا صلہ لیا۔[58] مأمون نے امامؑ سے خطبہ دینے کی درخواست کی جس پر امام نے ایک مختصر خطبہ دیا۔[59]

مأمون نے امام کی ولایت عہدی کا حکم نامہ (نوٹفیکیشن) جاری کیا جس کی پشت پر امام نے بھی کچھ درج کیا۔[60] کتاب کَشْفُ الغُمّہ کے مؤلف علی بن عیسی اِربِلی نے اس عہدنامے کو سنہ 670ھ میں دیکھا ہے اور اسے اپنی کتاب کشف الغمہ میں درج کیا ہے۔[61]

امام رضاؑ کی ولایتعہدی کے مخالفین

یعقوبی کی رپورٹ کے مطابق مأمون کی طرف سے بصرہ میں منتخب حاکم اسماعیل بن جعفر بن سلیمان نے امام رضاؑ کی بیعت کی مخالفت کی اور مأمون نے عیسی بن یزید جَلودی کو اس کی جانب بھیجا اور وہ بصرہ سے فرار کر گیا۔[62] وہ لکھتے ہیں کہ عیسی بن یزید جلودی مأمون کی طرف سے بیعت کا حکم مکہ پہنچانے پر مامور تھا۔[63] وہ ایک سبز کپڑوں کے ساتھ مکہ پہنچا اور لوگوں سے بیعت لی۔[64] شیخ صدوق کا کہنا ہے کہ بعد میں عیسی جلودی امامؑ کی ولایتعہدی کے سخت مخالف بنے اور امام کی بیعت نہ کرنے پر مأمون نے اسے زندان بھیج دیا۔[65] علی بن ابی عمران اور ابو یونس بھی ولایتعہدی کے مخالفین میں شمار ہوتے ہیں۔[66]

نتائج

امام رضاؑ کی ولایت عہدی کے بعض نتائج درج ذیل ہیں:

  • بغداد کے لوگوں کی بغاوت: بغداد والوں کو یہ خوف تھا کہ اب حکومت میں ان کا اثر و رسوخ کم ہوگا اسی بنا پر امامؑ کی ولیعہدی کو نہیں مانا اور مامون کے نمائندے کو بغداد سے نکال دیا اور ابراہیم بن مہدی کی بیعت کیا۔[67]
  • بعض علویوں کا مأمون کی بیعت کرنا: اگرچہ امام رضاؑ کی ولایتعہدی نے سارے شیعوں کو مأمون کے قریب نہیں کیا، بعض شیعہ مامون سے راضی ہوئے اور اس کی بیعت کی۔[68]
  • ولایتعہدی سے امام کا استفادہ: اگرچہ امام نے مجبوری میں ولایت عہدی کو قبول کیا تھا لیکن اس سے استفادہ کیا۔ جن تعلیمات کو صرف شیعوں تک کہنا ممکن تھا ان کو اب علنی طور پر سب کو بیان کیا اور مختلف مذاہب کے علما سے مناظرہ کیا۔[69]
  • ایران میں شیعیت کی زمینہ سازی: تفسیر اَحسنُ الْحدیث کے مؤلف سید علی اکبر قرشی کا کہنا ہے کہ امام رضاؑ کی ولایتعہدی کی وجہ سے ایران میں شیعیت پھیلنے کی راہ ہموار ہوگئی؛ کیونکہ امام رضاؑ کا ایران میں ہونے کی وجہ سے علوی سادات ایران آئے اور شیعیت کی ترویج کی۔[70]

مونوگراف

کتاب «امام رضاؑ، مأمون و موضوع ولایتعہدی» بہ قلم سید غنی افتخاری

امام رضاؑ کی ولایتعہدی کے بارے میں فارسی زبان میں مختلف کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • امام رضاؑ، مأمون و موضوع ولایتعہدی، تألیف سید غنی افتخاری: مؤلف اس کتاب میں ولایت عہدی کے عصر کی تحقیق کرنے کے بعد خلافت عباسی کے دور (مامون سے پہلا دور) میں سیاسی و سماجی حالات پر بھی تبصرہ کرتے ہیں۔[71]
  • ولایتعہدی امام رضاؑ، تألیف، محمد مرتضوی: اس کتاب میں مؤلف نے ولایت عہدی امام کو سونپنے میں مأمون کے خفیہ مقاصد اور کا اس واقعے میں عکس العمل کو تاریخی حوالہ جات کے ساتھ بیان کیا ہے۔[72]
  • نگاہی بہ زندگی و ولایتعہدی امام رضا(ع)، بقلم محمدعلی امینی: یہ کتاب تین فصلوں پر مشتمل ہے۔[73]

حوالہ جات

  1. الدوری، العصر العباسی الاول، 1997م، ص161.
  2. سیدمرتضی، تنزیہ الانبیا(ع)، 1377شمسی، ص179؛ شیخ طوسی، تلخیص الشافی، 1382شمسی، ج4، ص206.
  3. باغستانی، «الرضا، امام (ولایتعہدی)»، ص83.
  4. جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ(ع)، 1381شمسی، ص430؛ افتخاری، امام رضا(ع)، مأمون و موضوع ولایتعہدی، 1398شمسی، ص104.
  5. اکبری، و براتی، «نقش امام رضا(ع) در وحدت دینی و انسجام اسلامی در عصر عباسی»، ص45.
  6. ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، دار المعرفہ، ص454؛ شیخ صدوق، عيون أخبار الرضا(ع)، 1378ھ، ج2، ص166.
  7. بیہقی، تاریخ بیہقی، 1374شمسی، ج3، ص190.
  8. شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، 1378ھ، ج2، ص165؛ الدوری، العصر العباسی الاول، 1997م، ص162.
  9. جہشیاری، الوزراء و الکتاب، 1408ھ، ص203.
  10. الدوری، العصر العباسی الاول، 1997م، ص162.
  11. فوزی، بحوث فی التاریخ العباسی، 1977م، ص135؛ امین، الرضا و المأمون و ولایۃ العہد، 1995م، ص123-126.
  12. شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، 1378ھ، ج2، ص170.
  13. عاملی، الحیاۃ السیاسیۃ للامام الرضا(ع)، 1403ھ، ص226.
  14. شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، 1378ھ، ج2، ص239.
  15. شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، 1378ھ، ج2، ص170.
  16. الدوری، العصر العباسی الاول، 1997م، ص162.
  17. الدوری، العصر العباسی الاول، 1997م، ص163.
  18. قرشی، حیاۃ الامام الرضا(ع)، 1372شمسی، ج2، ص283.
  19. قرشی، حیاۃ الامام الرضا(ع)، 1372شمسی، ج2، ص282.
  20. عاملی، الحیاۃ السیاسیۃ للامام الرضا(ع)، 1403ھ، ص254-260.
  21. عاملی، الحیاۃ السیاسیۃ للامام الرضا(ع)، 1403ھ، ص207.
  22. افتخاری، امام رضا(ع)، مأمون و موضوع ولایتعہدی، 1398شمسی، ص104.
  23. عاملی، الحیاۃ السیاسیۃ للامام الرضا(ع)، 1416ھ، ص286.
  24. ابن شہر آشوب، المناقب، 1379ھ، ج4، ص365.
  25. ابن شہر آشوب، المناقب، 1379ھ، ج4، ص365.
  26. شیخ صدوق، امالی، 1376شمسی، ص69.
  27. درخشہ، حسینی فائق، «سیرہ سیاسی امام رضا(ع) در برخورد با حکومت جور»، ص21.
  28. عاملی، الحیاۃ السیاسیۃ للامام الرضا(ع)، 1416ھ، ص286.
  29. شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص260؛ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، 1378ھ، ج2، ص141.
  30. شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص259.
  31. شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص259.
  32. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص489.
  33. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص489.
  34. شیخ صدوق، علل الشرایع، 1385شمسی، ج1، ص239.
  35. امینی، نگاہی بہ زندگی و ولایتعہدی امام رضا، 1395شمسی، ص102-103.
  36. مسعودی، اثبات الوصیہ، 1426ھ، ص211.
  37. شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، 1378ھ، ج2، ص217.
  38. امینی، نگاہی بہ زندگی و ولایتعہدی امام رضا، 1395شمسی، ص103-106.
  39. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص448.
  40. شیخ مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص259.
  41. مطہری، مجموعہ آثار، 1381شمسی، ج18، ص124.
  42. مطہری، مجموعہ آثار، 1381شمسی، ج18، ص124.
  43. جعفریان، اطلس الشیعہ، 2015م، ص102.
  44. نوبختی، فرق الشیعہ، 1404ھ، ص87؛ اشعری قمی، المقالات و الفرق، 1360شمسی، ص95.
  45. فضل اللہ، تحلیلی از زندگانی امام رضا، 1377شمسی، ص133.
  46. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص448.
  47. شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، 1378ھ، ج2، ص245.
  48. طبری، تاریخ طبری، 1387ھ، ج8، ص554.
  49. عرفان منش، جغرافیای تاریخی ہجرت امام رضا، 1374شمسی، ص168.
  50. عرفان منش، جغرافیای تاریخی ہجرت امام رضا، 1374شمسی، ص168.
  51. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص448.
  52. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص448.
  53. شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، 1378ھ، ج2، ص147.
  54. شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص261؛ ابن شہرآشوب، المناقب، 1379ھ، ج4، ص363.
  55. شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، 1378ھ، ج1، ص13.
  56. شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص261.
  57. ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، دار المعرفہ، ص455؛ شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص261.
  58. شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص263.
  59. شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص263.
  60. اربلی، کشف الغمہ، 1381ھ، ج2، ص333.
  61. اربلی، کشف الغمہ، 1381ھ، ج2، ص333.
  62. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص448-449.
  63. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص449.
  64. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص449.
  65. شیخ صدوق، عیون أخبار الرضا(ع)، 1378ھ، ج2، ص150.
  66. شیخ صدوق، عیون أخبار الرضا(ع)، 1378ھ، ج2، ص150.
  67. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص450.
  68. الدوری، العصر العباسی الاول، 1997م، ص163-164.
  69. رفیعی، زندگانی امام رضا(ع)، پژوہشکدہ تحقیقات اسلامی، ص198-199.
  70. قرشی، خاندان وحی، 1386شمسی، ص585-586.
  71. افتخاری، امام رضا(ع)، مأمون و موضوع ولایتعہدی، 1398ہجری شمسی۔
  72. مرتضوی، ولایتعہدی امام رضا(ع)، 1386شمسی، ص9.
  73. امینی، نگاہی بہ زندگی و ولایتعہدی امام رضا، 1395ہجری شمسی۔

مآخذ

  • اشعری قمی، سعد بن عبداللہ، المقالات و الفرق، تہران، شرکت انتشارات علمی و فرہنگی، 1360ہجری شمسی۔
  • ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب(ع)، قم، علامہ، 1379ھ۔
  • ابوالفرج اصفہانی، علی بن الحسین، مقاتل الطالبیین، بیروت، دار المعرفہ، بی تا.
  • اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمہ، تبریز، بنی ہاشمی، 1381ھ۔
  • افتخاری، سید غنی، امام رضا(ع)، مأمون و موضوع ولایتعہدی، مشہد، بہ نشر، 1398ہجری شمسی۔
  • اکبری، امیر، و بہمن براتی دشت بیاض، «نقش امام رضا(ع) در وحدت دینی و انسجام اسلامی در عصر عباسی»، در مجلہ مشکاۃ، شمارہ 96 و 97، پاییز و زمستان 1386ہجری شمسی۔
  • الدوری، عبدالعزیز، العصر العباسی الاول، بیروت، دار الطلیعہ، 1997ء۔
  • امین، حسن، الرضا و المأمون و ولایۃ العہد و صفحات من التاریخ العباسی، بیروت، دار الجدید، 1995م.
  • امینی، محمدعلی، نگاہی بہ زندگی و ولایتعہدی امام رضا، مشہد، بہ نشر، 1395ہجری شمسی۔
  • باغستانی، اسماعیل، «الرضا، امام (ولایتعہدی)»، در دانشنامہ جہان اسلام، ج20، تہران، بنیاد دایرۃ المعارف اسلامی، 1394ہجری شمسی۔
  • بیہقی، محمد بن حسین، تاریخ بیہقی، بہ کوشش خلیل خطیب رہبر، تہران، مہتاب، 1374ہجری شمسی۔
  • جعفریان، رسول، اطلس الشیعہ، ترجمہ نصیر الکعبی و سیف علی، قم، نشر مورخ، 2015ء۔
  • جعفریان، رسول، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، قم، انصاریان، 1381ہجری شمسی۔
  • جہشیاری، محمد بن عبدوس، الوزراء و الکتاب، بیروت، دار الفکر الحدیث، 1408ھ۔
  • درخشہ، جلال و سید محمدمہدی حسینی فائق، «سیرہ سیاسی امام رضا(ع) در برخورد با حکومت جور»، در مجلہ فرہنگ رضوی، شمارہ1، بہار 1392ہجری شمسی۔
  • رفیعی، علی، زندگانی امام رضا(ع)، تہران، پژوہشکدہ تحقیقات اسلامی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی، بی تا.
  • سیدمرتضی، علی بن حسین، تنزیہ الانبیا(ع)، قم، دار الشریف الرضی، 1377ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الامالی، تہران، کتابچی، 1376ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، علل الشرایع، قم، کتاب فروشی داوری، 1385ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا(ع)، تہران، نشر جہان، 1378ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، تلخیص الشافی، قم، محبین، 1382ہجری شمسی۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، سعید بن جبیر، 1413ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، بیروت، دار التراث، 1387ھ۔
  • عاملی، سید جعفر مرتضی، الحیاۃ السیاسیۃ للامام الرضا(ع)، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، 1403ھ۔
  • عرفان منش، جلیل، جغرافیای تاریخی ہجرت امام رضا(ع) از مدینہ تا مرو، مشہد، آستان قدس رضوی، 1374ہجری شمسی۔
  • فضل اللہ، محمدجواد، تحلیلی از زندگانی امام رضا(ع)، ترجمہ محمدصادق عارف، مشہد، آستان قدس رضوی، 1377ہجری شمسی۔
  • فوزی، فاروق عمر، بحوث فی التاریخ العباسی، بیروت، دار القلم، 1977ء۔
  • قرشی، باقر شریف، حیاۃ الامام الرضا(ع)، قم، سعید بن جبیر، 1372ہجری شمسی۔
  • قرشی، علی اکبر، خاندان وحی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1386ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، اسلامیہ، 1407ھ۔
  • مرتضوی، ولایتعہدی امام رضا(ع)، مشہد، بنیاد پژوہش ہای اسلامی، 1386ہجری شمسی۔
  • مسعودی، علی بن حسین، اثبات الوصیہ، قم، انصاریان، 1426ھ۔
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، تہران، انتشارات صدرا، 1381ہجری شمسی۔
  • نوبختی، حسن بن موسی، فرق الشیعہ، بیروت، دار الاضواء، 1404ھ۔
  • یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار صادر، بی تا.