صاحب زنج

ویکی شیعہ سے
صاحب زنج
کوائف
نامعلی بن محمد
لقبصاحب الزنج
والدمحمد بن عبدالرحیم
والدہقرۃ
وفات270ھ
حکومت
سمتزنگی قیام کے پیشوا
محدودہجنوب عراق و
خوزستان ایران
اہم اقداماتبنی‌ عباس کے خلاف قیام


صاحِب زَنْج (وفات 270 ھ) بنی عباس کے خلاف زنگیوں کے قیام کے پیشوا تھے۔ ان کا نام علی بن محمد تھا لیکن زنگیوں (عربی میں زنج) کی رہبری کی وجہ سے صاحب زنج مشہور ہو گئے تھے۔ انہوں نے سنہ 255ھ میں اپنے قیام کا آغاز کیا اور سنہ 270ھ میں انہیں قتل کر دئے گئے۔

صاحب زنج اپنے آپ کو امام سجادؑ کے فرزند زید کی نسل سے قرار دیتے تھے۔ لیکن زیادہ تر مورخین اور محققین کا خیال یہ ہے کہ وہ اہل بیتؑ کی نسل سے نہیں تھے۔ اور امام حسن عسکریؑ سے منقول ایک حدیث کی رو سے صاحب زنج پیرو اہل بیتؑ بھی نہیں تھے۔

سوانح حیات

علی بن محمد بن عبدالرحیم قبیلہ عبد القیس سے تھے۔[1] علی ابن حسین مسعودی کے مطابق شہر ری کے نزدیک ایک گاؤں ورزنین میں پیدا ہوئے۔[2] اسی وجہ سے انہیں ورزنینی بھی کہا جاتا تھا۔[3] ان کی ماں کا نام «قرّۃ» تھا۔[4] بعض کے مطابق صاحب زنج ایرانی تھے اور ان کا نام «یہبود» تھا۔[5]

علی بن محمد قیام زنگیوں کے رہبر و پیشوا تھے۔[6] اسی وجہ سے انہیں «صاحب زنج» بھی کہا جاتا ہے۔ ان کے باپ نے زید بن علی کے قیام میں شرکت کی تھی۔[7] اور زید کی شہادت کے بعد عراق سے ہجرت کر کے شہر ری آ گئے تھے۔

آٹھویں صدی کے مورخ ابن‌ طَقطَقی کے مطابق صاحب کو مرد فاضل کے عنوان سے پہچنوایا گیا ہے۔[8] اس کے بر خلاف نویں صدی کے مورخ ابن عنبہ کے مطابق صاحب زنج ایک قسی القلب انسان تھا جو بیہودہ کام انجام دیا کرتا تھا۔[9]

بعض صاحب زنج کو شاعر اور ادیب بھی کہتے ہیں[10] جنہوں نے اپنی تقاریر سے بہت سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔[11] انہوں نے خلیفہ عباسی کی تعریف میں بھی اشعار لکھے ہیں۔ ان کے نام سے شاعری کا ایک دیوان بھی تھا جو نویں صدی تک موجود تھا۔ بعض مصنفین کے مطابق وہ معجزات و کرامات کا بھی دعوی کرتے تھے۔[12]

ایک معاصر مصنف، زرین کوب کا خیال ہے کہ صاحب زنج کے بارے میں اکثر خبریں جو نقل ہوئی ہیں وہ مبالغہ سے خالی نہیں ہیں۔[13] بعض مصنفین کے مطابق طبری، ابن اثیر اور مسعودی نے جو بھی ان کے بارے میں نقل کیا ہے وہ دشمنی کی بنا پر ہے۔[14] صاحب زنج کے ہم عصر مورخ، طبری نے صاحب زنج کو «خبیث»[15] اور «فاسق»[16] کے القاب سے یاد کیا ہے۔ آٹھویں صدی کے مورخ ذہبی[17] اور نویں صدی کے متفکر ابن خلدون[18] نے انہیں «خبیث» نام سے یاد کیا ہے۔ اسی طرح بعض مورخین نے انہیں «لَعَنَہ اللہ؛ خدا اس پر لعنت کرے» سے تعبیر یاد کیا ہے۔[19]

علوی نسب کا دعوی

صاحب زنج خود کو امام زین العابدینؑ کے فرزند زید بن علی کی نسل سے پہچنواتے تھے۔[20] اور اپنا نَسَب اس طرح بیان کرتے تھے: «علی بن محمد بن أحمد بن عیسی بن زید بن علی (ع) بن حسین (ع) بن علی(ع) »[21] اسی طرح ان سے نقل ہوا ہے کہ وہ یحیی بن زید کی نسل سے ہیں۔ مسکویہ نے اپنی کتاب «تجارب الأمم» میں ان کو اہلبیتؑ کی نسل میں شمار کیا ہے۔[22] اسی وجہ سے بعض ان کو علوی کہتے ہیں۔ لیکن بعض مصنفین اور زیادہ تر مورخین و محققین کا خیال ہے کہ وہ اہل بیتؑ کی نسل سے نہیں تھے۔[23] صرف اس لئے چونکہ اس زمانہ میں زیادہ تر قیام زیدیہ کے ذریعہ انجام دیا گیا لذا یہ دعوی کیا گیا کہ وہ علوی اور اہل بیتؑ کی نسل سے تھے۔[24]

مذہب

صاحب زنج کو ان کے عقیدہ و عمل کی بنیاد پر خوارج سے مشابہ جانا جاتا ہے۔[25] ان کا عورتوں، بچوں اور دیگر افراد کو قتل کرنے کا اقدام خوارج کے اقدام سے مشابہ تھا۔[26] اسی طرح وہ گناہان کبیرہ کے مرتکب کو مشرِک سمجھتے تھے جو خوارج کے اصلی اعتقادات میں سے ہے۔[26] صاحب زنج کا خارجیوں کی پیروی کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ قرامطہ جو شیعہ اسماعیلی گروہ سے تعلق رکھتے تھے، نے ان سے کوئی رابطہ نہیں رکھا جبکہ ان کا اتحاد خلافت کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ ہو سکتا تھا۔

ایک روایت کی بنا پر جو ابن شہر آشوب نے امام حسن عسکریؑ سے نقل کی ہے کہ آنحضرتؑ صاحب زنج کو پیرو اہلبیتؑ میں شمار نہیں فرماتے تھے۔[27] شیخ عباس قمی نے بھی صاحب زنج کے اقدام کو امام حسن عسکریؑ کے قول کی درستگی کا ثبوت سمجھا ہے۔[28] علامہ مجلسی بھی صاحب زنج کو نسَب، عقیدہ اور عمل کے اعتبار سے اہلبیتؑ سے دور سمجھتے ہیں۔[29] صاحب زنج کی حکومت کے زمانہ میں شیعہ اور علوی خواتین کم قیمت پر بیچی جاتی تھیں۔[30]

زنگیوں کا قیام

زنگیوں کا قیام یا قیام صاحب زنج، وہ قیام تھا جس کی رہبری صاحب زنج نے خلیفہ عباسی «المہتدی باللہ» کے خلاف کیا تھا۔[31] ان کا قیام 255 ہجری میں شروع ہوا[32] اور تقریبا 15 سال تک چلتا رہا۔[33] زنگی اسلامی دنیا جیسے بصرہ اور اہواز کے کچھ حصوں پر تسلط رکھتے تھے۔[34] خلیفہ وقت کا بھائی موفق عابسی[35] سنہ267 ھ میں زنگیوں سے جنگ کی خاطر نکلا اور سنہ 270 ہجری میں صاحب زنج نے شکست کھائی اور قتل ہو گیا۔[36] محققین نے زنگیوں کی بغاوت کو سماجی و اقتصادی بغاوت قرار دیا ہے[37] اور ان کا ماننا ہے کہ یہ قیام صرف سرمایہ دار اور غلاموں کے مابین طبقاتی اختلاف کی بنیاد پر تشکیل دی گئی تھی۔[38]

حوالہ جات

  1. ابو الفداء، المختصر فی أخبار البشر، مصر، ج۲، ص۴۶؛ ابن‌ خلدون، تاریخ ابن خلدون، ۱۴۰۸ھ، ج۳، ص۳۷۷۔
  2. مسعودی، مروج الذہب، ۱۴۰۹ھ، ج۴، ص۱۰۸۔
  3. زرکلی، الأعلام، ۱۹۸۹ھ، ج۴، ص۳۲۴۔
  4. صفدی، الوافی بالوفیات، ۱۴۰۱ھ، ج۲۱، ص۴۰۶۔
  5. مقدیش، نزہۃ الأنظار، ۱۹۸۸م، ج۱، ص۲۶۰۔
  6. روحانی،‌ «نہضت صاحب الزنج»، ص۸۳۔
  7. ابن‌ اثیر، الکامل، ۱۳۸۵ھ، ج۷، ص۲۰۶۔
  8. ابن‌الطقطقی، الفخری، ۱۴۱۸ھ، ص۲۴۶۔
  9. ابن‌ عنبہ، عمدۃ الطالب، ۱۴۱۷ھ، ص۲۶۹۔
  10. ابن‌ الطقطقی، الفخری، ۱۴۱۸ھ، ص۲۴۵-۲۴۶۔
  11. جعفریان، از طلوع طاہریان تا غروب خوارزمشاہیان، ۱۳۷۹ش، ص۵۹۔
  12. علی‌ بیگی، «صاحب الزنج؛ چالشی دیگر در برابر دستگاہ خلافت عباسی»، ص۸۵۔
  13. زرین‌ کوب، تاریخ ایران بعد از اسلام، ۱۳۶۸ش، ص۴۷۶۔
  14. علی‌ بیگی، «صاحب الزنج؛ چالشی دیگر در برابر دستگاہ خلافت عباسی»، ص۸۳۔
  15. طبری، تاریخ الطبری، ۱۳۸۷ھ، ج۹، ص۴۷۳۔
  16. طبری، تاریخ الطبری، ۱۳۸۷ھ، ج۹، ص۶۴۲۔
  17. ذہبی، تاریخ الإسلام، ۱۴۰۹ھ، ج۲۰، ص۳۴۔
  18. ابن‌ خلدون، تاریخ ابن خلدون، ۱۴۰۸ھ، ج۳، ص۴۰۸۔
  19. ابن‌ تغری،‌ النجوم الزاہرۃ، ج۳، ص۴۷۔
  20. ابن‌ اثیر، الکامل، ۱۳۸۵ھ، ج۷، ص۲۰۵۔
  21. ابن‌ خلدون، تاریخ ابن خلدون، ۱۴۰۸ھ، ج۳، ص۳۷۷۔
  22. مسکویہ، تجارب الأمم، ۱۳۷۹ش، ج۴، ص۳۹۷۔
  23. علی‌ بیگی، «صاحب الزنج؛ چالشی دیگر در برابر دستگاہ خلافت عباسی»، ص۷۸۔
  24. ابن‌ خلدون، تاریخ ابن خلدون، ۱۴۰۸ھ، ج۳، ص۳۷۷۔
  25. مسعودی، مروج الذہب، ۱۴۰۹ھ، ج۴، ص۱۰۸۔
  26. 26.0 26.1 مسعودی، مروج الذہب، ۱۴۰۹ھ،، ج۴، ص۱۰۸۔
  27. ابن‌ شہر آشوب، مناقب آل أبی طالب، ۱۳۷۹ھ، ج۴، ص۴۲۹۔
  28. قمی، الکنی و الألقاب، ۱۴۲۹ھ، ص۳۹۴۔
  29. مجلسی، بحار الأنوار، ۱۴۰۳ھ، ج۶۳، ص۱۹۷۔
  30. مقدیش، نزہۃ الأنظار، ۱۹۸۸م، ج۱، ص۲۶۰۔
  31. مسعودی، مروج الذہب، ۱۴۰۹ھ،، ج۴، ص۱۰۸۔
  32. ابوالفداء، المختصر فی أخبار البشر، مصر، ج۲، ص۴۶۔
  33. ابن‌ جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ھ، ج۱۲، ص۲۳۵۔
  34. ابن‌ العمرانی، الإنباء فی تاریخ الخلفاء، ۲۰۰۱م، ج۱، ص۱۳۸۔
  35. زرین‌ کوب، تاریخ ایران بعد از اسلام، ۱۳۶۸ش، ص۴۷۷۔
  36. جعفریان، از طلوع طاہریان تا غروب خوارزمشاہیان، ۱۳۷۹ش، ص۵۰۔
  37. جعفریان، از طلوع طاہریان تا غروب خوارزمشاہیان، ۱۳۷۹ش، ص۵۹۔
  38. جعفریان، از طلوع طاہریان تا غروب خوارزمشاہیان، ۱۳۷۹ش، ص۶۰۔

مآخذ

  • ابن‌ اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، دارصادر، بیروت، ۱۳۸۵ھ۔
  • ابن‌ الطقطقی، محمد بن علی بن طباطبا، الفخری، تحقیھ، عبدالقادر محمد مایو، بیروت، دارالقلم العربی، چاپ اول، ۱۴۱۸ھ۔
  • ابن‌ العمرانی، محمد بن علی،‌ الإنباء فی تاریخ الخلفاء، محقھ، قاسم السامرائی، القاہرۃ، دارالآفاق العربیۃ، ۲۰۰۱م۔
  • ابن‌ تغری بردی،‌ جمال الدین، النجوم الزاہرۃ فی ملوک مصر و القاہرۃ، مصر، دارالکتب، بے‌تا۔
  • ابن‌ جوزی، عبدالرحمن بن علی، المنتظم، محقھ، محمد عبدالقادر عطا، مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، چاپ اول، ۱۴۱۲ھ۔
  • ابن‌ خلدون، عبدالرحمن بن محمد، تاریخ ابن‌خلدون، تحقیق خلیل شحادۃ، بیروت، دارالفکر، چاپ دوم، ۱۴۰۸ھ۔
  • ابن‌ شہر آشوب مازندرانی، مناقب آل أبی‌ طالب، قم، انتشارات علامہ، چاپ اول، ۱۳۷۹ھ۔
  • ابن‌ عنبہ حسنی، سید احمد بن علی، عمدۃ الطالب فی أنساب آل أبی‌ طالب، قم، انتشارات انصاریان، ۱۴۱۷ھ۔
  • أبو الفداء، إسماعیل بن علی، المختصر فی أخبار البشر، مصر، المطبعۃ الحسینیۃ المصریۃ، بے‌تا۔
  • جعفریان، رسول، از طلوع طاہریان تا غروب خوارزمشاہیان، تہران، اندیشہ معاصر، ۱۳۷۹ہجری شمسی۔
  • ذہبی، محمد بن احمد، تاریخ الاسلام، تحقیھ، عمر عبدالسلام تدمری، بیروت، دارالکتاب العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۹ھ۔
  • روحانی،‌ سید کاظم، «نہضت صاحب الزنج»، کیہان اندیشہ، شمارہ ۲۲، بہار و اسفند ۱۳۶۷ہجری شمسی۔
  • زرکلی، خیرالدین، الاعلام، بیروت، دارالعلم للملایین، چاپ ہشتم، ۱۹۸۹م۔
  • زرین‌ کوب، عبدالحسین، تاریخ ایران بعد از اسلام، تہران، امیرکبیر، ۱۳۶۸ہجری شمسی۔
  • صفدی، خلیل بن ایبک، الوافی بالوفیات، محقھ، ہلموت ریتر، بیروت،‌ دار النشر، ۱۴۰۱ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، تحقیھ، محمد أبوالفضل ابراہیم، بیروت، دارالتراث، چاپ دوم، ۱۳۸۷ھ۔
  • علی‌ بیگی، حسین، «صاحب الزنج؛ چالشی دیگر در برابر دستگاہ خلافت عباسی»، نامہ تاریخ‌پژوہان، شمارہ۱۱، پاییز ۱۳۸۶ہجری شمسی۔
  • قمی، عباس، الکنی و الألقاب، محقق: موسسہ النشر الاسلامی، قم، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۲۹ھ۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، دارإحیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ھ۔
  • مسعودی، علی بن الحسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیھ، اسعد داغر، قم، دارالہجرۃ، چاپ دوم، ۱۴۰۹ھ۔
  • مسکویہ، احمد بن محمد رازی، تجارب الأمم، تحقیق ابوالقاسم امامی، تہران، سروش، ۱۳۷۹ہجری شمسی۔
  • مقدیش، محمود، نزہۃ الأنظار فی عجائب التواریخ والأخبار، تحقیھ، علی الزواری، محمد محفوظ، بیروت،‌ دار الغرب الاسلامی، ۱۹۸۸م۔