اطلس شیعہ (کتاب)

ویکی شیعہ سے
اطلس شیعہ
مشخصات
مصنفرسول جعفریان
موضوعشیعہ
زبانفارسی
طباعت اور اشاعت
ناشرسازمان جغرافیایی نیروہای مسلح
مقام اشاعتتہران


اطلس شیعہ فارسی زبان میں رسول جعفریان کی ایک تحقیقی کتاب ہے جس کا اصلی ہدف تاریخ اسلام میں مذہب شیعہ کی تاریخی اور جغرافیایی حیثیت کو اجاگر کرنا ہے۔ اس کتاب میں مذہب شیعہ کی تاریخ کو اس کے جغرافیایی نقشے کے تحت بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور تاریخ کے ہر دور میں مختلف مناطق میں مذہب شیعہ کی ترقی کا جغرافیایی جائزہ لیا گیا ہے۔ کتاب اطلس شیعہ جمہوری اسلامی ایران میں سال کی بہترین کتاب کا ایواڈ بھی حاصل کر چکی ہے اور عربی میں اس کا ترجمہ بھی ہوا ہے۔

مصنف

تفصیلی مضمون: رسول جعفریان

رسول جعفریان سنہ ۱۳۴۳ش کو ایران کے صوبہ اصفہان کے شہر خوراسگان میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم خوراسگان میں اور میڈل کلاس کی تعلیم اصفہان میں حاصل کی اس کے بعد دینی تعلیم کے حصول کے لئے دینی مدرسے میں داخلہ لیا۔ سنہ ۱۳۵۷ش کو اعلی دینی تعلیم کے لئے شہر قم چلے گئے۔ قم میں آیت اللہ جوادی آملی، آیت اللہ مصباح یزدی، حسن ممدوحی، محمدعلی گرامی اور جعفر مرتضی جبل عاملی جیسے اساتید کے دروس میں شرکت کی۔ سنہ ۱۳۵۹ش کو اصفہان اور تہران کے یونیورسٹیوں میں اسلامی معارف اور تاریخ اسلام کی تدریس شروع کی۔ رسول جعفریان کی پہلی قلمی اثر سنہ ۱۳۶۴ش کو "پیش درآمدی بر شناخت تاریخ اسلام" کے عنوان سے منظر عام پر آگئی اس وقت سے اب تک مختلف تحقیقی مؤسسات کے ساتھ مل کر قم میں کتابخانہ اسلام و ایران، نیز کتابوں کی تألیف، تصحیح، ترجمہ اور تاریخ اسلام، ایران و تشیع میں تحقیق جیسے امور کی انجام دہی میں مشغول ہیں اور اس سلسلے میں ان کی مختلف کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ آپ ایک عرصہ تک کتابخانہ، موزہ و مرکز اسناد مجلس شورای اسلامی بھی رہ چکے ہیں اور اس وقت بھی کتابخانہ تخصصی تاریخ اسلام و ایران کے مسئول ہیں۔[1][2]

تصنیف کا مقصد

کتاب کے مصنف کے مطابق اس کتاب کی تصنیف کا اصلی مقصد شیعہ مذہب کی ایک تاریخی اور جغرافیایی تصویر پیش کرنا ہے جس میں صدر اسلام سے لے کر اب تک مذہب شیعہ کی ترقی اور تاریخی نشیب و فراز پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں کتاب کے مصنف کہتے ہیں: «اگرچہ اس کتاب میں مذہب تشیع کو اس کے عام مفہوم میں مورد توجہ قرار دی گئی ہے اور زیدیہ، اسماعیلیہ اور علویان کے بارے میں بھی تحقیق درج کی گئی ہے لیکن شیعہ کا اصلی محور اور معتدل شیعہ، مذہب امامیہ ہے۔ یہ مذہب پوری تاریخ میں ہر طرف سے ہونے والے حملوں کے باوجود اسلام کے دوسرے مذاہب کے ساتھ مسالمت آمیز رویہ اپنا یا ہوا ہے۔»[3]

کتاب کے وجود میں آنے کی کیفیت

رسول جعفریان کے مطابق کتاب اطلس شیعہ کی تجویز آیت‌اللہ خامنہ‌ای کی طرف سے پیش ہوا اور اس کا عملی کام مسلح افواج کی جغرافیائی تنظیم نے شروع کیا۔[4] اس کتاب کا آغاز مذہب شیعہ کی تعریف اور پہلی صدی میں شیعہ کی تاریخ سے ہوتا ہے اس کے بعد مختلف ادوار میں جہان اسلام کی جغرافیایی تقسیم بندی کے ذریعے شیعہ تاریخ کو مورد بحث قرار دیا گیا ہے۔ کتاب اطلس شیعہ میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ ہر حصے میں درج ذیل اہداف کی رعایت کی جائے:

  1. تاریخ کے ہر دور میں مختلف مناطق میں شیعوں کی موجودگی۔
  2. ہر منطقے میں شیعہ آبادی کی تقریبی اندازے کو بیان کرنے کے لئے اس منطقے کی جغرافیایی نقشے کا بیان۔
  3. بعض معلومات جیسے خاندانوں کے سراداران وغیرہ کو مشخص کرنے کے لئے مخصوص جدول کی تیاری۔[5] [6]

نقشہ کی تیاری

کتاب کے ابتدائی نقشے کے لئے مصنف اور اس کے ساتھیوں کے ذریعے تقریبا 3 ہزار پرانے اور نئے نقشوں کی چھان بین کی جاتی اس کے بعد اسے مسلح افواج کی جغرافیایی تنظیم کے حوالے کی جاتی تاکہ ماہرین تاریخی اور مذہبی معلومات کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے مرتب کیا جا سکے۔ نقشے کی تیاری میں سب سے اہم کام مذہب تشیع کے آثار اور نشانیوں کو مرتب کرنا تھا جس میں ائمہ معصومین، امامزادگان، سادات، مشہور علمائے کرام اور معروف شیعہ خاندانوں کا اس علاقے میں حاضر ہونا نیز دینی مدارس، مساجد اور شیعہ ناموں سے معروف شہر اور محلہ جات وغیرہ کی موجودگی شامل ہیں۔[7]

کتاب کے فصول

  1. آغاز تشیع، یہ فصل شیعہ کی تعریف سے شروع ہو کر شیعہ فرق پر اختتام کو پہنجتی ہے۔
  2. شیعہ ائمہ، اس فصل میں معصومین کی حالات زندگی کو نقشے کے ساتھ بیان کیا ہے۔
  3. ایرن کے شہروں میں تشیع: اس فصل میں ہر شیعہ نشین شہر کا نقشہ اور متن پیش کیا گیا ہے اور چہ بسا بعض اہم شہروں میں بسنے والے اہم خاندانوں کا نام بھی لیا گیا ہے ان میں قم، کاشان، آوہ، نیشابور، سبزوار، جرجان، استراباد، اہواز، اصفہان، کرج، قزوین، ری اور ورامین کا نام لیا جا سکتا ہے۔
  4. ایران میں شیعہ حکومتیں، یہ فصل اس کتاب کی سب سے بڑی فصل ہے جس میں سب سے پہلے طبرستان کے علوی حکومت اور آخر میں امام خمینی کے زمانے کا تذکرہ کیا ہے۔ درمیان میں جن حکومتوں کا ذکر آیا ہے ان میں آل بویہ، اسماعیلیہ، ایلخانان، سربداران، مرعشیان، صفویان، قاجاریہ سے لے کر انقلاب اسلامی تک کے بارے میں گفتگو کی ہیں۔
  5. عراق میں تشیع، عراق کی شہروں کوفہ، واسط، بصرہ، موصل، دیالہ اور بغداد کے بارے میں گفتگو کی ہیں اور شیعہ تاریخ کے اہم واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے زمان حال تک لے آیا ہے اور بغداد میں موجودہ شیعہ حکومت کا بھی تذکرہ کیا ہے۔
  6. جزیرۃ العرب میں تشیع، مدینہ اور اسی طرح مشرقی مناطق یعنی احساء اور قطیف کے بارے میں گفتگو کی ہیں۔ اس کے بعد بحرین اور خلیج فارس کے دیگر ممالک مانند قطر، امارات، کویت اور عمان کا تذکرہ بھی کیا ہے اور یمن اور زیدیوں کے بارے میں بھی تفصیل سے گفتگو کی ہیں۔
  7. شامات میں تشیع، شام خاص کر حلب میں شیعوں کے داخلے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے شام کے دوسرے شہروں من جملہ دمشق اور شام کے علوی حکومت کا تذکرہ کیا ہے اور آخر میں شیعیان لبنان کے بارے میں عضر حاضر تک بحث کی ہیں۔
  8. افریقہ میں تشیع: اس فصل کا عمدہ حصہ آل‌ادریس اور سلسلہ فاطمی کے ساتھ مختص ہے اس کے بعد افریقی ممالک میں شیعوں کے رسوخ اور نفوذ پر گفتگو کی ہے جو عمدتا آخری 100 سال خاص کر انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد وجود میں آیا ہے۔
  9. ہندوستان، پاکستان اور افغانستان میں تشیع، حیدرآباد اور ہندوستان کے دوسرے مناطق میں شیعہ حکومتوں کے بارے میں تفصیل سے بحث کی ہیں اسی طرح کشمیر اس کے بعد پاکستان میں شیعوں کی آبادی پر بحث کی ہیں۔ ہر بحث کے لئے تاریخی شواہد، کئی تاریخی نقشے تاریخی پیش کئے ہیں۔ اس فصل کے آخر میں ملائیشیا، انڈونیشیا اور تھائی لینڈ جیسے ممالک میں شیعوں کے نفوذ سے بحث کی ہیں۔
  10. قفقاز اور ترکی میں تشیع، آذربایجان، ارمنستان، گرجستان، داغستان، استانبول اور ترکی کے دوسرے شہروں میں شیعوں کی آبادی سے بحث کرتے ہوئے ترکی کے علوی حکومت کے بارے میں بحث کی ہیں۔
  11. یورپ میں تشیع، یہ بحث موجودہ آخری صدی سے مربوط ہے اس فصل میں انگلستان، جرمنی، فرانس، اٹلی، نیدرلینڈز، سوئس اور بیلجیم کے شیعوں کے بارے میں گفتگو کی ہیں۔
  12. امریکہ اور کینیڈا میں تشیع، ان ملکوں میں تشیع کے داخل ہونے کی کیفیت ان کی تعداد اور بعض شیعہ اداروں اور تنظیموں کے بارے میں بحث کی ہیں۔[8]
کتاب اطلس شیعہ کا عربی ترجمہ

اشاعت اور ترجمہ

یہ کتاب 724 صفحات پر مشتمل نشر سازمان جغرافیایی نیروہای مسلح نے شایع کی ہے۔
"اطلس شیعہ" آیت‌اللہ سیستانی کی درخواست پر مرکز آکادمی لِلأبحاث کے توسط سے عربی زبان میں ترجمہ ہوا ہے جسے مؤسسہ فرہنگی ہنری و انتشاراتی بین‌المللی الہُدی نے نشر کی ہیں۔[9]
اسی طرح کتاب اطلس شیعہ کا سافٹ ویر بھی منتشر ہو چکی ہے۔[10]

سال کی بہترین کتاب

کتاب اطلس شیعہ جمہوری اسلامی ایران کی 27ویں سالانہ کتاب سال کے مقابلے میں سال کی بہترین کتاب کا ایوارڈ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔[11]

حوالہ جات

  1. پایگاہ دانشوران حوزہ۔
  2. ہمشہری آنلاین۔
  3. جعفریان، اطلس شیعہ، ۱۳۹۱ش، مقدمہ مؤلف، گزارشی از معرفی و نقد کتاب اطلس شیعہ، ۱۳۸۹ش۔
  4. باشگاہ خبرنگاران جوان۔
  5. جعفریان، اطلس شیعہ، ۱۳۹۱ش، مقدمہ مؤلف۔
  6. حسینی نامی، گزارشی از کتاب «اطلس شیعہ»، ۱۳۸۸ش۔
  7. حسینی نامی، گزارشی از کتاب «اطلس شیعہ»، ۱۳۸۸ش۔
  8. جعفریان، اطلس شیعہ، ۱۳۹۱ش، مقدمہ کتاب، گزارشی از معرفی و نقد کتاب اطلس شیعہ، ۱۳۸۹ش، حسینی نامی، گزارشی از کتاب «اطلس شیعہ»، ۱۳۸۸ش۔
  9. ترجمہ «اطلس شیعہ» بہ درخواست آیت اللہ سیستانی، باشگاہ خبرنگاران جوان۔
  10. نسخہ نرم‌افزاری کتاب اطلس شیعہ روانہ بازار شد، خبرگزاری فارس۔
  11. برگزیدگان بیست‌و‌ہفتمین دورہ کتاب سال معرفی شدند، خبرگزاری فارس۔

مآخذ