تألیف قلوب
یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
تألیف قلوب ، پیغمبر اکرمؐ، امام یا حاکم اسلامی کی طرف سے کفار، منافقین یا ضعیف الایمان مسلمانوں کو اسلام کے دفاع اور مسلمانوں کے ساتھ ملانے کے لئے کی جانے والی مالی اور اقتصادی حمایت کو کہا جاتا ہے۔ جن افراد کی اس مقصد کے لئے مالی حمایت کی جاتی ہے انہیں "الْمُؤَلَّفَۃ قُلُوبُہُمْ" یا "مُؤَلَّفَۃُ القُلُوب" کہا جاتا ہے۔ پیغمبر اکرمؐ کی سیرت میں ایسے کفار اور مُشرکین کا سراغ لگایا جا سکتا ہے جن کی تألیف قلوب ہوئی تھی۔
قرآن میں تألیف قلوب کو زکات کے مصرف میں سے ایک شمار کیا گیا ہے۔ بعض شیعہ فقہاء اس بات کے معتقد ہیں کہ یہ حکم پیغمبر اکرمؐ یا امام معصومؑ کی حیات مبارکہ کے ساتھ مختص ہے اور غیبت امام زمانہؑ کے دوران یہ حکم لاگو نہیں ہو گا۔
مفہوم شناسی اور اہمیت
تألیف قلوب ایک فقہی موضوع ہے جس کے معنی پیغمبر اکرمؐ، امام معصوم یا اسلامی حاکم کی طرف سے کفار، منافقین یا ضعیف الایمان مسلمانوں کو[1] اسلام کی دفاع اور مسلمانوں کے ساتھ ملانے کے لئے کی جانے والی مالی اور اقتصادی حمایت کو کہا جاتا ہے۔[2] جن افراد کی اس سلسلے میں مالی حمایت کی جاتی ہے انہیں "الْمُؤَلَّفَۃُ قُلُوبُہُمْ" یا "مُؤَلَّفَۃُ القُلُوب" کہا جاتا ہے۔[3]
قطب راوندی (متوفی 573ھ) رسول خداؐ کی طرف سے مذکورہ گروہ کو زکات دینے کا مقصد انہیں اسلام کی طرف مائل کرنا اور اسلام کا دفاع قرار دیتے ہیں۔[4] ساتویں صدی ہجری کے اہل سنت مورخ اور محدث ابن اثیر کے مطابق فتح مکہ کے بعد پیغمبر اکرمؐ کی جانب سے مشرکین مکہ کی مالی اقتصادی حمایت کے نتیجے میں ان میں سے تقریبا دو ہزار افراد نے جنگ ہوازِن میں رسول اکرمؐ کی مدد کی۔[5]
فقہاء سورہ توبہ کی آیت نمبر 60 کی روشنی میں زکات کے مصرف میں سے ایک کو "تألیف قلوب" قرار دیتے ہیں۔[6] شیعہ مفسر محمد جواد مغنیہ (1322-1400ھ) کے مطابق مذکورہ گروه کی مالی حمایت کا ایک مقصد انہیں اسلام کے خلاف شرارت کرنے سے دور رکھنا ہے۔[7]
پیغمبر اکرمؐ کی سیرت
پیغمبر اسلامؐ کی حیات مبارکہ میں مُشرکین میں سے صفوان بن امیہ اور مُنافقین میں سے ابوسفیان جیسے افراد تألیف قلوب ہوئے تھے۔[8] صفوان بن امیہ نے جنگ حُنَین میں مسلمانوں کا ساتھ دیا اور جنگی غنائم سے بھی اپنا حصہ لے گیا۔[9] اہل سنت عالم دین حسن بن فرحان مالکی (پیدائش 1390ھ)، اس بات کے معتقد ہیں کہ رسول خداؐ نے فتح مکہ کے بعد ُطَلقاء (آزاد ہونے والے) کے ایک گروہ جن میں ابوسفیان، معاویہ، صفوان بن امیہ اور مطیع بن اَسود شامل تھے کی تألیف قلوب کے عنوان سے مالی امداد فرمائی۔[10]
مؤلفۃ القلوب کے مصادیق
مؤلفۃ القلوب کے مصادیق کے بارے میں فقہاء مختلف نظریات رکھتے ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
- کفار: شیخ مفید (336ھ یا 338ھ ـ 413ھ) کے مطابق تألیف قلوب کافروں کو جہاد میں مسلمانوں کے ساتھ جذب کرنے کے لئے ہے۔[11] محقق حلی (602ھ) اپنی کتاب المعتبر میں شیخ طوسی کو بھی اس نظریے کے حامی قرار دیتے ہیں۔[12] مقدس اردبیلی (متوفی 993ھ) بھی اس سلسلے میں شیخ طوسی کے ہم نظر ہیں۔[13]
- منافقین: چوتھی صدی ہجری کے شیعہ فقیہ ابنجُنَید اس بات کے متعقد ہیں کہ تألیف قلوب کا مصداق فقط منافقین ہیں[14] تاکہ اس مالی حمایت کے ذریعے ان کا دل نرم ہو اور نفاق سے دور رہے۔[15]
- ضعیف الایمان مسلمان: بعض فقہاء جیسے قطبالدین راوندی اپنی کتاب فقہالقرآن میں اور شیخ یوسف بحرانی (متوفی 1186ھ) اپنی کتاب الحدائق الناضرۃ میں تألیف قلوب کا اصل مصداق ان مسلمانوں کو قرار دیتے ہیں جو توحید پر تو ایمان رکھتے ہیں لیکن ابھی تک رسول خداؐ کی نبوت پر ان کا عقیدہ نہیں ہے۔[16]
- کفار، منافقین اور مسلمان: اس سلسلے میں ایک اور نظریہ یہ ہے کہ تألیف قلوب ایک عمومی اصل اور قانون ہے جس میں کفار، منافقین، ضعیف الایمان مسلمان، باڈروں پر رہنے والے مسلمان وغیره شامل ہیں۔[17] بہت سارے فقہا جیسے شہید اول،[18] شہید ثانی،[18] محقق کرکی،[19] صاحبْ جواہر[20] اور امام خمینی[21] اس نظریے کے قائل ہیں۔[22]
"«تألیف قلوب اور سیاست" نامی مقالے کے مصنف کے مطابق زکات میں سے مؤلفۃ القلوب کے حصے سے الہی اہداف کی خاطر بعض حریت پسند تحریکوں کی مالی حمایت کی جا سکتی ہے تاکہ اس کے ذریعے توحید اور دوسرے دینی اعتقادات کو دنیا میں پھیلایا جا سکے۔[23]
عصر غیبت میں تألیف قلوب کا حکم
عصر غیبت میں بھی تألیف قلوب کا حکم لاگو ہو گیا یا نہیں اس سلسلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے[24] بعض فقہاء جیسے محقق حلی، امام خمینی اور آیت اللہ جوادی آملی کہتے ہیں کہ عصر غیبت میں بھی یہ حکم جاری ہے۔[25] جبکہ ان کے مقابلے میں شیخ طوسی تألیف قلوب کو جہاد کے ساتھ مختص مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جہاد محقق ہونے کے لئے امام معصومؑ کا حاضر ہونا شرط ہے، اس بناپر تالیف قلوب کا حکم بھی اس زمانے میں ساقط ہو گا۔[26]
فاضل مقداد نے عصر غیبت میں زکات کے مصرف میں سے تألیف قلوب کے حصے کو ساقط ہونے کے حکم کی نسبت شیعہ علماء کی طرف دی ہے۔[27] اہل سنت فقہاء میں سے شافعی اور ابو حنیفہ بھی اس بات کے معتقد ہیں کہ تألیف قلوب رسول خداؐ کے زمانے کے بعد لاگو نہیں ہوا اور یہ حکم منسوخ ہوا ہے۔[28]
حوالہ جات
- ↑ نجفی، جواہر الکلاء، 1404ھ، ج15، ص341.
- ↑ حلّى، السرائر، 1410ھ، ج1، ص457؛ مؤسسۃ دائرۃ معارف الفقہ، المعجم الفقہی، 1424ھ، ج3، ص194.
- ↑ شکوری، فقہ سیاسی اسلاء، 1361ہجری شمسی، ج2، ص487.
- ↑ قطب راوندی، فقہ القرآن، 1405ھ، ج1، ص225.
- ↑ ابن اثیر، الكامل فی التاريخ، 1385ھ، ج2، ص262.
- ↑ شیخ مفید، المقنعۃ، 1413ھ، ص241؛ راوندی، فقہ القرآن، 1405ھ، ج1، ص225؛ علامہ حلّى، تذكرۃ الفقہاء، 1414ھ، ج5، ص249.
- ↑ مغنیہ، فقہ الإمام جعفر الصادھ، 1379ہجری شمسی، ج2، ص82.
- ↑ ابنعساکر، تاریخ مدینۃ دمشھ، 1415ھ، ج9، ص193.
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج6، ص7.
- ↑ مالکی، الصحبۃ و الصحابۃ، 1422ھ، ص192-193.
- ↑ شیخ مفید، المقنعہ، 1413ھ، ص241.
- ↑ محقق حلی، المعتبر، 1407ھ، ج2، ص573.
- ↑ اردبيلى، مجمع الفائدۃ و البرہان، 1403ھ، ج4، ص158.
- ↑ اسکافی، مجموعہ فتاوى ابن جنيد، 1416ھ، ص97.
- ↑ شکوری، فقہ سیاسی اسلاء، 1361ہجری شمسی، ص491.
- ↑ قطب راوندی، فقہ القرآن، 1405ھ، ج1، ص225؛ بحرانی، الحدائق الناضرہ، 1405ھ، ج12، ص177.
- ↑ شکوری، فقہ سیاسی اسلاء، 1361ہجری شمسی، ص493.
- ↑ 18.0 18.1 شہيد ثانى، الروضۃ البہيۃ، 1410ھ، ج2، ص45-46.
- ↑ محقق کرکی، جامع المقاصد، 1414ھ، ج3، ص31.
- ↑ نجفی، جواہر الکلاء، 1404ھ، ج15، ص341.
- ↑ امام خمینی، تحرير الوسيلہ، 1392ہجری شمسی، ج1، ص354.
- ↑ پورمولا، طاہری، «تألیف قلوب در فقہ امامیہ و چگونگی اجرای آن در عصر غیبت»، 1397ہجری شمسی، ش4، ص949-979.
- ↑ مبلغ دايميردادی، «تأليف قلوب و سياست»، 1391ہجری شمسی، ص87-106.
- ↑ فاضل مقداد، کنز العرفان، 1425ھ، ج1، ص236؛مغنیہ، فقہ الإمام جعفر الصادھ، 1379ہجری شمسی، ج2، ص82.
- ↑ محقق حلی، المعتبر، 1407ھ، ج2، ص574؛ امام خمینی، تحرير الوسيلۃ، 1392ہجری شمسی، ج1، ص354؛ جوادی آملی، تسنیء، 1393ہجری شمسی، ج34، ص319 و 320.
- ↑ شیخ طوسی، النہایہ، 1400ھ، ص185.
- ↑ فاضل مقداد، کنز العرفان، 1425ھ، ج1، ص236.
- ↑ محقق حلی، المعتبر، 1407ھ، ج2، ص574.
مآخذ
- قرآن کریء۔
- ابن اثیر، علی بن محمد، الكامل فی التاريخ، بیروت، دار صادر، 1385ھ۔
- ابن سعد، محمدبن سعد، الطبقات الکبری، بیروت، دار الکتب العلمی، 1410ھ۔
- ابنعساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینہ دمشھ، بیروت، دار الفکر، 1415ھ۔
- اردبيلى، احمد بن محمد، مجمع الفائدۃ و البرہان فی شرح إرشاد الأذہان، قم، دفتر انتشارات اسلامى، 1403ھ۔
- امام خمینی، سيد روحاللّٰہ، تحرير الوسيلہ، تہران، مؤسسۃ تنظیم و نشر آثار الإمام الخمینی، 1392ہجری شمسی۔
- بحرانی، يوسف بن احمد، الحدائق الناضرۃ فی أحكام العترۃ الطاہرۃ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1405ھ۔
- پورمولا، سید محمدہاشم و ریحانہ طاہری، «تألیف قلوب در فقہ امامیہ و چگونگی اجرای آن در عصر غیبت»، دورہ 14، ش4، 1397ہجری شمسی۔
- جوادی آملی، عبداللہ، تسنیم (تفسیر قرآن کریم)، تحقیق و تنظیم روح اللہ رزقی، قم، اسراء، 1393ہجری شمسی۔
- حلّى، ابن ادريس، السرائر الحاوی لتحرير الفتاوى، قم، دفتر انتشارات اسلامى، 1410ھ۔
- شکوری، ابوالفضل، فقہ سیاسی اسلاء، قم، انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی، 1361ہجری شمسی۔
- شہيد ثانى، زين الدين بن على، الروضۃ البہيۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقيۃ، تحقیق کلانتر، 1410ھ۔
- شیخ مفید، محمّد بن محمد بن نعمان، المقنعہ، قم، كنگرہ جہانى ہزارہ شيخ مفيد، 1413ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، النہایۃ فی مجرد الفقہ و الفتاوی، بیروت، دار الکتب العربی، 1400ھ۔
- علامہ حلّى، حسن بن يوسف، تذكرۃ الفقہاء، قم، مؤسسہ آل البيت(ع)، 1414ھ۔
- فاضل مقداد، مقداد بن عبداللہ، كنز العرفان فی فقہ القرآن، قم، انتشارات مرتضوى، 1425ھ۔
- قطبالدین راوندی، سعید بن ہبۃاللہ، فقہ القرآن، قم، کتابخانہ عمومی حضرت آيت اللہ العظمی مرعشی نجفی، 1405ھ۔
- مؤسسۃ دائرۃ معارف الفقہ الاسلامی، المعجم الفقہی لکتب الشیخ الطوسی، قم، مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل بيت(ع)، 1424ھ۔
- مالکی، حسن بن فرحان، الصحبۃ و الصحابۃ بین الاطلاق اللغوی و التخصیص الشرعی، عمان، مرکز الدراسات التاریخیہ، 1422ق/2002ء۔
- مبلغ دايميردادی، محمدامين، «تأليف قلوب و سياست»، معرفت سياسی، ش1، 1391ہجری شمسی۔
- محقق حلی، جعفر بن حسن، المعتبر فی شرح المختصر، قم، مؤسسہ سيدالشہدا(ع)، 1407ھ۔
- محقق کرکی، علی بن حسین، جامع المقاصد فی شرح القواعد، قم، مؤسسۃ آل البیت(ع) لإحیاء التراث، 1414ھ۔
- مغنیہ، محمدجواد، فقہ الإمام جعفر الصادق(ع)، قم، انصاریان، 1379ہجری شمسی۔
- نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلاء، بیروت، دار إحياء التراث العربی، 1404ھ۔