امام مہدی کی غیبت

ویکی شیعہ سے
(غیبت امام زمانہ(ع) سے رجوع مکرر)
شیعہ عقائد
‌خداشناسی
توحیدتوحید ذاتیتوحید صفاتیتوحید افعالیتوحید عبادیصفات ذات و صفات فعل
فروعتوسلشفاعتتبرک
عدل (افعال الہی)
حُسن و قُبحبداءامر بین الامرین
نبوت
خاتمیتپیامبر اسلام اعجازعدم تحریف قرآن
امامت
اعتقاداتعصمت ولایت تكوینیعلم غیبخلیفۃ اللہ غیبتمہدویتانتظار فرجظہور رجعت
ائمہ معصومینؑ
معاد
برزخمعاد جسمانی حشرصراطتطایر کتبمیزان
اہم موضوعات
اہل بیت چودہ معصومینتقیہ مرجعیت


امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی غیبت کا عقیدہ، شیعہ اثنا عشری سے مخصوص عقیدہ ہے۔ جو شیعوں کے بارہویں امام، حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی غائبانہ زندگی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

شیعہ تعلیمات کے مطابق، امام مہدی عج کی دو غیبتیں ہیں: ایک غیبت صغری جو69 سال تک جاری رہی اور دوسری غیبت کبری جو امام زمانہ عج کے ظہور تک جاری رہے گی۔ شیعہ عقیدے کے مطابق، غیبت صغری کے دوران امام مہدی عج کچھ افراد کے ذریعہ اپنے شیعوں سے رابطہ میں تھے جن کو نواب اربعہ کہتے ہیں۔ لیکن دوران غیبت کبری میں لوگوں سے آپ کا ظاہری رابطہ ٹوٹ گیا اور شیعوں کو چاہئے کہ دینی امور میں راویان حدیث اور علمائے شیعہ کی طرف رجوع کریں۔ البتہ شیعہ روایات میں امام کو بادل کے پیچھے چھپے سورج سے تشبیہ دی گئی ہے جس سے لوگ مسلسل استفادہ کرتے رہتے ہیں۔ ائمہ شیعہ کی روایات میں غیبت کے اسباب کے طور پر کچھ نکات بیان ہوئے ہیں ان میں سے ایک سبب، شیعوں کا امتحان ہے۔

مسئلہ غیبت کی تشریح و توضیح کے لئے علمائے شیعہ نے متعدد کتابیں لکھی ہیں جن میں سب سے زیادہ مشہور، کتاب غیبت نعمانی اور کتاب غیبت شیخ طوسی ہے۔

معنی و مفہوم

بارہویں امام کی غیبت کا عقیدہ، اہل‌ سنت کی بنسبت شیعوں کا ایک مخصوص عقیدہ ہے۔ شیعوں کے عقیدے میں بارہویں امام حضرت مہدی(عج)، کی غائبانہ زندگی کو غیبت کہتے ہیں۔[1] شیعوں کے عقیدے کے مطابق امام مہدی(عج)، اللہ کے حکم سے وقت ظہور تک غیبت میں رہیں گے اور ظہور کا وقت معین نہیں ہے۔[2]

غیبت کی کیفیت

بارہویں امام کی غیبت کے طریقے کے بارے میں کئی احتمالات بیان ہوئے ہیں:

  1. جسم کا پنہاں ہونا (پوشیدہ ہونا): حضرت مہدی(عج) کا جسم لوگوں کی ظاہری نگاہوں سے پوشیدہ ہے اور یہ پوشیدگی بذریعہ معجزہ انجام پاتی ہے۔[3] اس نظریہ کی بنیاد پر شیعوں کے بارہویں امام تو لوگوں کو دیکھتے ہیں لیکن لوگ ان کو نہیں دیکھ پاتے۔ سید محمد صدر کے کہنے کے مطابق یہ نظریہ ان کو پنہان رکھنے اور ظالموں سے بچنے کے بارے میں سب سے سادہ اور قابل قبول نظریہ ہے۔[4] صدر صاحب نے اس نظریہ کو غیبت کے لغوی معنی سے ہم آہنگ اور ان روایات کے مطابق مانا ہے[5] جو دوران غیبت میں امام زمانہ عج کو بادلوں کے پیچھے موجود سورج کی طرح بیان کرتی ہیں۔[6]
  2. منصب کا پنہاں ہونا (ناشناختہ): سید رضا صدر کی نظر میں غیبت سے مراد یہ نہیں ہے کہ امام کسی پہاڑ میں یا غار میں یا کسی اور جگہ پر چھپے ہوئے ہیں بلکہ مقصود یہ ہے کہ وہ لوگوں کے لئے ناشناختہ ہیں۔[7]
  3. جسم اور منصب دونوں کا پنہاں ہونا: کبھی امام کا جسم چھپا ہوتا ہے اور کبھی لوگوں کو دکھائی دیتے ہیں لیکن لوگ پہچان نہیں پاتے ہیں۔ ایک شیعہ مرجع تقلید، آیت اللہ لطف‌ اللہ صافی گلپایگانی کا نظریہ یہ ہے کہ احادیث کی بنیاد پر اور اسی طرح امام سے ملاقات کی حکایات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ دونوں طرح کی غیبتیں (پوشیدہ ہونا اور ناشناختہ ہونا) واقع ہوتی ہیں اور کبھی کبھی ایک ہی وقت میں دونوں شکلیں وقوع پذیر ہوتی ہیں۔[8]

غیبت صغری اور غیبت کبری

غیبت امام مہدی(عج) دو دور میں تقسیم کی گئی ہے؛ قلیل مدت دور جسے غیبت صغری کہا جاتا ہے اور طویل مدت والی غیبت کو غیبت کبری کہتے ہیں۔ شیخ مفید نے ان دو غیبتوں کو غیبتِ قُصریٰ (چھوٹی یا صغریٰ) اور غیبتِ طُولیٰ (طولانی یا کبریٰ) کہا ہے۔[9] امام زمانہ(ع) نے جو آخری خط اپنے آخری نائب علی بن محمد سمری کے انتقال سے 6 روز پہلے انھیں لکھا تھا اس میں غیبت کبری کو «الغیبۃ التامہ»[یادداشت 1] کے عنوان سے یاد کیا ہے اور اس کو ایسی غیبت بتایا ہے جس کے درمیان ظہور نہیں ہے یہاں تک کہ اذن الہی صادر ہو۔[10]

غیبت صغری

تفصیلی مضمون: غیبت صغری

غیبت صغری، بارہویں امام کی مخفی زندگی کا سب سے پہلا مرحلہ تھا جو سنہ 329ھ میں ختم ہو چکا ہے۔ اس مرحلہ کے آغاز کے سلسلہ میں اختلاف کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ 69 یا 74 سال کا دور تھا۔ شیخ مفید (وفات: 413ھ) نے کتاب الارشاد[11] میں اور طبرسی (وفات: 548ھ) نے کتاب اعلام الوری میں غیبت صغری کے دور کو 74 سال بیان کیا ہے اور اس کے آغاز کو سنہ 255ھ (ولادت باسعادت امام مہدی(ع)) مانا ہے۔[12] لیکن کچھ دوسرے علماء نے آغاز غیبت صغری کو سنہ 260 (سال شہادت امام حسن عسکری و سال آغاز امامت امام مہدی(ع)) مانا ہے جو 69 سال تک جاری رہا۔[13]

غیبت صغری کے دوران امام مہدی اپنے نواب اربعہ کے ذریعے اپنے شیعوں سے رابطہ میں رہے ہیں۔[14] شیعہ اپنے خطوط اور درخواستوں کو نواب کے ذریعہ امام مہدی(عج) تک پہنچاتے تھے اور اسی راستے سے جواب بھی حاصل کرتے تھے۔[15] خلافت عباسی میں بزرگان شیعہ کا اثر و رسوخ قائم کرنا، غلات اور نیابت کے جھوٹے مدعیوں سے مقابلہ کرنا اور نظام وکالت کا انتظام و انصرام جیسے امور، نواب کی سرگرمیوں میں شمار کئے گئے ہیں۔[16]

غیبت کبری

تفصیلی مضمون: غیبت کبری اور نیابت عامّہ

غیبت کبری امام مہدی(عج) کی غائبانہ زندگی کا دوسرا مرحلہ ہے جو سنہ 329ھ اور آپ کے چوتھے نائب علی بن محمد سمری کے انتقال سے شروع ہوا ہے اور آپ کے ظہور تک جاری رہے گا۔ اس مرحلہ میں امام مہدی(عج) اپنے شیعوں سے ظاہری رابطہ میں نہیں ہیں اور کسی خاص شخص کو اپنے نمائندے کے طور پر معین بھی نہیں کیا ہے۔ اس کے باوجود شیعوں کے مطابق، راویان حدیث اور علمائے شیعہ اس دور میں امام کے عام نائب ہیں۔ اسحاق بن یعقوب کے نام امام مہدی(ع) کی توقیع کے مطابق، شیعوں کو چاہئے کہ نئے مشکلات و مسائل میں راویان حدیث (فقہائے شیعہ) کی طرف رجوع کریں۔[17] اس کے باوجود، غیبت کبری میں اختیارات فقیہ کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔[18] امام خمینی نے اس توقیع کی بنیاد پر کہا ہے کہ غیبت کے زمانے میں تمام امور کو فقہاء کے سپرد کیا جانا چاہئے۔[19]

زمانہ غیبت صغری و غیبت کبری کے درمیان یہ فرق ہے کہ غیبت صغری میں امام کے چار نائب اور رابطہ برقرار کرنے کے لئے ذرائع موجود تھے جو غیبت صغری میں آپ کا پیغام پہنچانے کی ذمہ داری نبھاتے تھے اور ان کے بعد بارہویں امام سے لوگوں کا ظاہری رابطہ مکمل طور سے ٹوٹ گیا۔[20]

غیبت کی ابتدا میں شیعہ سماج کے حالات

امام حسن عسکری(ع) کے زمانے میں مشہور تھا کہ شیعہ آپ کے فرزند کے قیام کے منتظر ہیں۔[21] اسی وجہ سے خلافت عباسی آپ کے فرزند کی تلاش میں تھی۔ امام حسن عسکری نے اپنے فرزند کا تعارف صرف اپنے چند قریبی رشتے داروں اور اصحاب سے کرایا تھا۔[22] اسی وجہ سے امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے وقت اکثر شیعوں کو آپ کے فرزند کی ولادت کے بارے میں خبر نہیں تھی۔[23] دوسری طرف امام حسن عسکری علیہ السلام نے سیاسی حالات کی وجہ سے اپنے وصیت نامہ میں صرف اپنی والدہ کا نام لیا تھا اس کی وجہ سے آپ کی شہادت کے بعد ایک دو سال تک بعض شیعہ یہ سمجھنے لگے کہ غیبت کے دوران امام حسن عسکری علیہ السّلام کے والدہ گرامی ہی مقام امامت پر فائز ہیں۔[24]

امام حسن عسکری علیہ السّلام کی شہادت کے بعد عثمان بن سعید عمری (وفات: 260 ھ اور 267ھ کے درمیان) کی سربراہی میں آپ کے کچھ اصحاب نے اعلان کیا کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کے ایک فرزند موجود ہیں اور وہی آپ کے جانشین اور مقام امامت پر فائز ہیں،[25] اس کے باوجود امام حسن عسکری کے بھائی جعفر نے امام حسن عسکری علیہ السلام کی والدہ کے ہوتے ہوئے آپ کی میراث کا دعویٰ کیا۔[26] امام حسن عسکری کی والدہ اور آپ کی پھوپھی حکیمہ دونوں فرزند امام عسکری کی امانت کی حامی تھیں لیکن امام عسکری کی بہن اپنے بھائی جعفر کی طرف داری کرتی تھیں۔[27] اسی طرح خاندان نوبخت، عثمان بن سعید اور آپ کے بیٹے کو نائب امام مہدی(ع) کے طور پر مانتا تھا۔[28] یہ حالات کچھ شیعوں کی بے نظمی کا سبب بنے۔[29] کچھ لوگ شیعوں کے دوسرے فرقوں سے منسلک ہو گئے،[30] کچھ لوگوں نے امام حسن عسکری کے دنیا سے چلے جانے کو نہیں مانا اور آپ کو ہی مہدی سمجھنے لگے، کچھ اور لوگوں نے امام علی نقی علیہ السلام کے بیٹے سید محمد کی امامت کو مان لیا اور امام حسن عسکری کی امامت کا سرے سے انکار کردیا۔[31] ایک اور گروہ نے جعفر کذاب کو امام کے عنوان سے مان لیا[32] لیکن بالآخر شیعوں کی اکثریت امامت امام مہدی عج کی گرویدہ ہو گئی اور بعد میں اسی نظریہ نے شیعہ امامیہ کی قیادت و رہبری سنبھالی۔[33]

سبب و فلسفہ غیبت

شیعہ محققین کے عقیدے کے مطابق غیبت کے تمام اسباب و اسرار ہمارے اوپر واضح نہیں ہیں۔ جیساکہ بعض روایات میں غیبت کی اصلی حکمت کو اسرار الہی میں سے ایک بیان کیا گیا ہے جو ظہور کے بعد آشکار ہوگا۔[34] اس کے باوجود روایات میں کچھ نکات کے اوپر تاکید کی گئی ہے:

  1. حضرت مہدی(عج) کی جان حفاظت۔[35]
  2. لوگوں کی آزمائش اور ان کا امتحان۔[36] امام موسی کاظم علیہ السلام سے منقول ایک روایت میں آیا ہے کہ خدا اپنے بندوں کو غیبت کے ذریعے آزمائے گا۔[37] کچھ احادیث کی رو سے دوران غیبت والی آزمائش اللہ کی سب سے سخت آزمائشوں میں سے ہے[38] اور یہ سختی دو رخ سے ہے:
    1. غیبت کا طولانی ہونا لوگوں کے شک و شبہہ کا باعث ہوگا یہاں تک کہ کچھ لوگ امام کی ولادت ہونے اور کچھ لوگ امام مہدی عج کی طویل زندگی کے بارے میں شک کرنے لگیں گے اور صرف آزمودہ، با اخلاص اور عمیق شناخت رکھنے والے ہی آپ کی امامت کے عقیدے پر باقی رہیں گے۔[39]
    2. دوران غیبت ہونے والی سختیاں اور ناگوار حوادث لوگوں کو بدل کے رکھ دیں گے، اس طرح کہ ایمان کی حفاظت اور دین پر ثابت قدمی دشوار ہو جائے گی اور لوگوں کا ایمان بڑے خطرے سے دوچار ہو جائے گا۔[40]
  3. ظہور کے وقت تک امام کے ذمہ کسی بھی ظالم کی بیعت نہیں ہوگی۔[41] بعض روایات کے مطابق بارہویں امام کسی بھی ظالم حکومت کو حتی تقیہ کے عنوان سے بھی قبول نہیں کریں گے۔ آپ کسی بھی حاکم اور سلطان سے تقیہ کرنے کے لئے مامور نہیں ہوں گے اور کسی بھی ستمگر کی سلطنت کے ماتحت نہیں آئیں گے اور احکام الہٰی کو ہر طرح کے ڈر، پردہ پوشی اور ہر طرح کی رعایت کے بغیر مکمل طور سے نافذ کریں گے۔[42]
  4. انسانوں کی تادیب۔[43]
  5. اسلام کے عالمی ہونے کے لئے سیاسی اور سماجی مقدمات کا فراہم نہ ہونا۔

قدیم زمانے میں بھی بعض انبیاء علیہم السلام کے ساتھ غیبت کا مسئلہ پیش آیا ہے۔[44] آیات قرآنی کی رو سے کچھ انبیاء جیسے حضرت صالح علیہ السلام، حضرت یونس علیہ السلام،[45] حضرت موسیٰ علیہ السلام،[46] حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کچھ وجوہات جیسے اپنی امت کی آزمائش کی بنا پر لوگوں کی نظروں سے پنہان رہے۔ کچھ روایات میں غیبت انبیاء کو سنت الٰہی کہا گیا ہے جو امتوں کے درمیان رائج تھا۔[47]

سنت الہی کے عنوان سے غیبت کے اندر حکمتیں ہونے کے باوجود اس سلسلہ میں لوگوں کے رویہ اور برتاؤ کا بھی کردار رہا ہے۔ شیخ طوسی نے صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ لوگوں (مکلفین) نے امام کے ساتھ اپنے برتاؤ، امام کے لئے خطرہ بننے، آپ کے لئے ناامنی پیدا کرنے اور آپ کے سامنے تسلیم نہ ہونے کے سبب خود غیبت کے اسباب فراہم کئے ہیں اور اپنے آپ کو امام سے اور ان سے ظاہری اور حضوری رابطہ کے فیض سے محروم کردیا[48][یادداشت 2]

شیعوں کے ممتاز حکیم اور متکلم محقق طوسی نے بھی کتاب تجرید الاعتقاد میں امام کے وجود کو اور ان کے تصرفات کو لطف سے تعبیر کیا ہے اور امام کی غیبت کی نسبت لوگوں کی طرف دی ہے۔[49][یادداشت 3]

غیبت کے بارے میں مکتوب آثار

غیبت امام مہدی عج کے سلسلہ میں بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ الغیبۃ، تالیف: نعمانی (تاریخ تحریر: سنہ 342ھ)؛ کمال‌ الدین، تالیف: شیخ صدوق(وفات: 381ھ): الغیبۃ، تالیف: شیخ طوسی جیسی کتابیں اس سلسلہ کی قدیمی ترین کتابیں ہیں۔[50] اس سلسلہ میں لکھے جانے والے دیگر آثار اس طرح ہیں:

  • کتاب The Occultation of the Twelfth Imam, A Historical Background جاسم حسین کی تالیف ہے۔ مولف نے اس کتاب میں مہدویت کے اوپر تاریخی نظر ڈالی ہے اسی طرح نظام وکالت اور غیبت صغری میں اس کی تاثیر کا جائزہ لیا ہے۔ محمد تقی آیت‌ اللہی نے تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم کے عنوان سے اس کو فارسی میں ترجمہ کیا ہے۔
  • اربع رسالات فی الغیبۃ: تالیف: شیخ مفید اور یہ امام مہدی عج کے موضوع پر سوال جواب کے انداز میں چار رسالوں پر مشتمل ہے۔ چوتھے رسالہ میں امام مہدی عج کی غیبت کے علل و اسباب پر روشنی ڈالی ہے۔
  • الفُصولُ العَشَرۃ فی الغَیبَۃ یا اَلْمَسائلُ الْعَشْر فِی الْغَیْبَۃ۔ یہ شیخ مفید کی تالیف ہے جس میں غیبت امام مہدی(عج) کے بارے میں دس شبہات کا جواب دیا گیا ہے۔
  • مَوسوعۃ الامام المہدی۔ مہدویت کے سلسلہ میں چار جلدی مجموعہ‌ ہے جو عراقی شیعہ عالم سید محمد صدر (وفات: 1377ش) نے لکھا ہے۔ اس کی پہلی جلد کا نام تاریخ الغیبۃ الصغری اور جلد دوم کا نام تاریخ الغیبۃ الکبری ہے۔ باقی دو جلدیں غیبت کے بعد کے زمانہ کے بارے میں ہیں۔

متعلقہ مقالات

نوٹ

  1. بعض روائی کتب کے نسخوں میں «الغیبۃ الثانیہ» آیا ہے۔
  2. إنما فات المكلفين لما يرجع إليہم لأنہم أحوجوہ إلى الاستتار بأن أخافوہ و لم يمكنوہ فأتوا من قبل نفوسہم۔
  3. و وجودہ لطف، و تصرّفہ لطف‌ آخر، و غيبتہ منّا۔

حوالہ جات

  1. نعمانی، الغیبہ، 1397ھ، ص61؛ شیخ طوسی، الغیبہ، 1411ھ، ص164۔
  2. شیخ مفید، الإرشاد، 1426ھ، ج2، ص340۔
  3. صافی گلپائیگانی، پاسخ دہ پرسشمسی، 1375شمسی، ص71؛ صدر، تاریخ الغیبۃ الکبری، 1412ھ، ص32-31۔
  4. صدر، تاریخ الغیبۃ الکبری، 1412ھ، ص32-31۔
  5. صدر، تاریخ الغیبۃ الکبری، 1412ھ، ص32-31۔
  6. سلیمیان، درسنامہ مہدویت، 1388شمسی، ص39۔
  7. صدر، راہ مہدی(عج)، 1378شمسی، ص78۔
  8. صافی گلپایگانی، پاسخ دہ پرسش، 1375شمسی، ص70۔
  9. شیخ مفید، الإرشاد، 1426ھ، ج2، ص340۔
  10. شیخ طوسی، الغیبہ، ج1، ص395۔
  11. شیخ مفید، الإرشاد، 1426ھ، ج2، ص340۔
  12. طبرسی، إعلام الوری بإعلام الہدی، 1417ھ، ج2، ص259-260۔
  13. صدر، تاریخ الغیبۃ الصغری، 1412ھ، ص339-342۔
  14. شیخ طوسی، الغیبہ، 1411ھ، ص173-174۔
  15. غفار زادہ، زندگانی نواب خاص امام زمان، 1379شمسی، ص86و87۔
  16. جباری، «بررسی تطبیقی سازمان دعوت عباسیان و سازمان وكالت اماميہ (مراحل شكل‌گیری و عوامل پیدایش)»، ص75ـ104؛ شیخ طوسی، الغیبہ، قم، 1411ھ، ص109، 225 و 226۔
  17. شیخ صدوق، کمال‌الدین، 1395ھ، ج2، ص484۔
  18. فاضل لنکرانی، مشروعیت و ضرورت اجرای حدود اسلامی در زمان غیبت، 1430ھ، ص10۔
  19. دیکھئے: امام خمینی، کتاب البیع، 1421ھ، ج2، ص635۔
  20. صدر، تاریخ الغیبۃ الصغری، 1412ھ، ص341-345۔
  21. شیخ مفید، الارشاد، 1426ھ، ج2، ص336۔
  22. حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم، 1377شمسی، ص102۔
  23. نوبختی، فرق الشیعہ، 1355شمسی، ص105؛ شیخ مفید، الارشاد، 1426ھ، ج2، ص336۔
  24. شیخ صدوق، کمال‌الدین، 1395ھ، ج2، ص507۔
  25. شیخ صدوق، کمال‌الدین، 1395ھ، ص92-93۔
  26. شیخ مفید، الارشاد، 1426ھ، ص345۔
  27. مدرسی طباطبایی، مکتب در فرایند تکامل، 1388شمسی، ص161-162۔
  28. مدرسی طباطبایی، مکتب در فرایند تکامل، 1388شمسی، ص162۔
  29. شیخ صدوق، کمال‌الدین، 1395ھ، ج2، ص426، 429، 487۔
  30. شیخ صدوق، کمال‌الدین، 1395ھ، ج2، ص408۔
  31. صابری، تاریخ فرق اسلامی، 1390شمسی، ج2، ص197، پاورقی2۔
  32. نوبختی، فرق الشیعہ، 1355شمسی، ص107-109؛ اشعری قمی، المقالات و الفرق، ص110114؛ شیخ صدوق، کمال‌الدین، 1395ھ، ج2، ص408۔
  33. سید مرتضی، الفصول المختارہ، 1413ھ، ص321۔
  34. شیخ صدوق، کمال‌الدین، 1395ھ، ج2، ص282۔
  35. نعمانی، الغیبہ، 1397ھ، ص177؛ شیخ طوسی، الغیبہ، 1411ھ، ص334۔
  36. نعمانی، الغیبہ، 1397ھ، ص205؛ شیخ طوسی، الغیبہ، 1411ھ، ص339۔
  37. شیخ طوسی، الغیبہ، 1411ھ، ص204۔
  38. شیخ طوسى، الغیبہ، 1411ھ، ص203-207۔
  39. فیض کاشانی، فصل1، باب8، ص101۔
  40. شیخ طوسی، الغیبہ، 1411ھ، ص202۔
  41. نعمانی، الغیبہ، 1397ھ، ص171، 191؛ شیخ طوسی، الغیبہ، 1411ھ، ص292۔
  42. شیخ صدوق، کمال‌الدین، 1395ھ، ج2، ص480۔
  43. نعمانی، الغیبہ، 1397ھ، ص141۔
  44. سلیمیان، درسنامہ مہدویت، 1388شمسی، ص41۔
  45. انبیا، آیہ 87۔
  46. بقرہ، آیہ 51۔
  47. شیخ صدوق، کمال‌الدین، 1395ھ، ج1، ص323۔
  48. شیخ طوسی، الغیبہ، ج1، ص7۔
  49. طوسی، نصیرالدین، تجرید الاعتقاد، ج1، ص221۔
  50. طباطبائی، تاریخ حدیث شیعہ، 1395شمسی، ص38-39۔

مآخذ

  • ابن‌شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌ طالب علیہم‌ السلام، قم، علامہ، 1379ھ۔
  • اربلی‌، علی بن عیسی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ، تحقیق سید ہاشم رسولی محلاتی‌، بیروت، 1401ھ/1981ء۔
  • امام خمینی، سید روح‌ اللہ، کتاب البیع، قم، انتشارات اسماعیلیان، 1363ہجری شمسی۔
  • اشعری قمی، سعد بن عبداللہ، المقالات و الفرق، تحقیق محمد جواد مشکور، تہران، انتشارات علمی و فرہنگی، 1361ہجری شمسی۔
  • حسن زادہ آملی، حسن، نہج الولايہ : برسی مستند در شناخت امام زمان عليہ السلام، قم، نشر قیام، بے تا۔
  • حسین، جاسم، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم، ترجمہ سید محمد تقی آیت‌ اللہی، تہران، امیر کبیر، 1377ہجری شمسی۔
  • ‌ سلیمیان، خدا مراد، درسنامہ مہدویت(2): حضرت مہدی و دوران غیبت، قم، بنیاد فرہنگی حضرت مہدی موعود، 1388ہجری شمسی۔
  • سید مرتضی، علی بن حسین، الفصول المختارہ من العیون و المحاسن، قم، المؤتمر العالمی لالفیۃ الشیخ المفید، 1413ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، کمال‌ الدین وتمام النعمہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1395ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الغیبۃ، تصحیح عباد اللہ تہرانی و علی‌ احمد ناصح، قم، دار المعارف الإسلامیۃ، 1411ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، محبین، 1426ھ/1384ہجری شمسی۔
  • صابری، حسین، تاریخ فرق اسلامی، تہران، سازمان مطالعہ و تدوین کتب علوم انسانی دانشگاہ‌ہا، 1390ہجری شمسی۔
  • صافی گلپایگانی، لطف‌ اللہ، پاسخ دہ پرسش، قم، مؤسسہ انتشارات حضرت معصومہ، 1375ش/1417ھ۔
  • صدر، سید رضا، راہ مہدی(عج)، بہ‌اہتمام سید باقر خسروشاہی، قم، بوستان کتاب، 1378ہجری شمسی۔
  • صدر، سید محمد، تاریخ الغیبۃ الصغری، بیروت،‌ دار التعارف، 1412ھ۔
  • صدر، سید محمد، تاریخ الغیبۃ الکبری، از مجموعہ موسوعۃ الامام المہدی (ج2)، بیروت، دار التعارف، 1412ھ/1992ء۔
  • طباطبائی، سید محمد کاظم، تاریخ حدیث شیعہ: عصر غیبت، قم، دار الحدیث، 1395ہجری شمسی۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، إعلام الوری بأعلام الہدی، قم، مؤسسۃ آل‌البیت لإحیاء التراث، 1417ھ۔
  • فاضل لنکرانی، محمد جواد، مشروعیت و ضرورت اجرای حدود اسلامی در زمان غیبت، قم، مرکز فقہی ائمہ اطہار، 1430ھ۔
  • مدرسی طباطبایی، سید حسین، مکتب در فرایند تکامل: نظری بر تطور مبانی فکری تشیع در سہ قرن نخستین، ترجمہ ہاشم ایزدپناہ، تہران، کویر، 1388ہجری شمسی۔
  • نعمانی، محمد بن ابراہیم، الغیبۃ، تہران، نشر صدوق، 1397ھ۔
  • نوبختی، حسن بن موسی، فرق الشیعۃ، تصحیح محمد صادق آل‌ بحر العلوم، نجف، المکتبۃ المرتضویۃ، 1355ھ۔
  • یاقوت حموی، معجم الادباء، بیروت، دار الفکر، 1400ھ۔