تحریک انصار اللہ یمن

ویکی شیعہ سے
(انصاراللہ یمن سے رجوع مکرر)
تحریک انصار اللہ یمن
تحریک
نامانصار اللہ یمن
قائدینحسین الحوثی، عبد الملک الحوثی
موجودہ قیادتعبد الملک الحوثی
بانیحسین الحوثی
برجستہ شخصیاتمحمد علی الحوثی • محمد عبد السلام • عبد اللہ یحیی الحاکم • محمد البخیتی • مہدی المشاط
اہدافاسلامی حکومت کی تشکیل
بنیاد1990ء
مذہبشیعہ جارودی زیدی
ویب سائٹانصار اللہ کی آفیشل ویب سائٹ
ملک یمن


تحریک انصار اللہ یمن یا حوثی یمن کے زیدیوں کی ایک سیاسی اور مذہبی جماعت ہے جس کی بنیاد سنہ 1990ء میں رکھی گئی اور اس ملک کے بعض حصے ان کے کنٹرول میں ہیں۔ انصار اللہ کو ایران کے اسلامی انقلاب اور امام خمینی کے افکار سے متاثر سمجھا جاتا ہے۔ حوثی حکومت کی تشکیل یمن میں امامیہ زیدیہ کی حکومت کی توسیع تصور کی جاتی ہے جو کہ تیسری صدی ہجری میں قائم ہوئی اور گیارہ سو سال سے زائد عرصے تک جاری رہی۔

امریکہ کے ساتھ اس تحریک کی محاذ آرائی اور یمنی حکومت کی امریکہ کے ساتھ اتحاد کی وجہ سے یمنی حکومت اور انصار اللہ کے درمیان محاذ آرائی شروع ہوئی۔ یمنی حکومت کے ساتھ انصار اللہ کی پہلی تصادم میں اس تحریک کے بانی حسین حوثی مارے گئے، لیکن بعد کی جنگوں میں انہیں کامیابی ملی۔ عرب ممالک میں اسلامی بیداری کے آغاز کے ساتھ یمن کے دارالحکومت صنعا پر حوثیوں کا قبضہ ہوا۔ سعودی عرب نے عرب اتحاد کی آڑ میں انصار اللہ کے زیر قبضہ علاقوں پر دوبارہ قبضہ کرنے کے لیے ان پر حملہ کیا لیکن اس تحریک کی مزاحمت کی وجہ سے وہ ناکام رہے۔

غزہ پر اسرائیل کے حملوں اور فلسطینی شہریوں کی ہلاکت کے جواب میں انصار اللہ نے مقبوضہ فلسطین کے ساتھ ساتھ بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں اسرائیل سے تعلق رکھنے والے بحری جہازوں کو نشانہ بنایا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، بعض عرب ممالک اور امریکہ نے اس تحریک کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا ہوا ہے۔

اہمیت

یمن کی انصاراللہ ایک مذہبی تحریک ہے جس کا اپنا سیاسی اور مذہبی نظام ہے۔[1] اس تحریک کے ارکان کا مذہب جارودیہ مذہب ہے، جسے زیدیہ فرقوں میں سے ایک اور شیعہ اثناعشریہ سے قریب ترین فرقہ سمجھا جاتا ہے۔[2] اس تحریک کو یمن میں امامیہ حکومت کا تسلسل سمجھا جاتا ہے جس کی بنیاد یحییٰ بن حسین المعروف الہادی الی الحق (وفات: 298ھ) نے رکھی اور گیارہ سو سال سے زیادہ قائم رہی۔[3]

اس تحریک کا ابتدائی ڈھانچہ تنظیم شباب المومن کے نام سے ایک ثقافتی گروپ تھا جو 1990ء میں قائم کیا گیا۔[4] حسین بدر الدین حوثی کے اس گروپ کے سربراہ بننے کے بعد، اس نے اپنی سیاسی سرگرمی کا آغاز کرتے ہوئے اس کا نام بدل کر شباب المومن گروپ رکھ دیا۔[5] اس گروہ کی سماجی سرگرمیاں سنہ 1992ء سے 2004ء تک کے درمیانی عرصے میں تیز ہوئیں اور اس کی عسکری سرگرمیاں شروع ہوئیں۔[6] حوثی آباد علاقوں میں اس وقت کی یمن کی حکومت کی عدم توجہی، سلفی اور وہابی گروہوں کا اثر و رسوخ اور ان علاقوں میں ان کے افکار کا پھیلاؤ اس تنظیم کی تاسیس کی وجوہات ہیں جو حوثیوں کے لیے ایک سنگین خطرہ تصور کیا جاتا تھا۔[7] حوثی آبادی یمن کی آبادی کا تقریباً 40% ہے۔[8]حوثی نام، جو اس تحریک اور اس کے رہنماؤں کے لیے استعمال ہوتا ہے، صَعْدہ کے جنوب میں حوث کے نام سے ایک شہر کے نام سے ماخوذ ہے۔[9]

تنظیمی ڈھانچہ

یمن میں انصار اللہ زیدیہ روایتی انداز، خاندانی حکمرانی اور بعض ادارے ایران کے اسلامی نظام کے طرز پر جمہوری نظام کے تحت حکمرانی کرتا ہے۔[10] انصاراللہ کے تین انتظامی ادارے ہیں جو اس تحریک کے سربراہ کی براہ راست نگرانی میں ہیں:

  • سیاسی کونسل: یہ ایک عملیاتی ادارہ ہے جو دیگر سیاسی گروہوں اور پارٹیوں، سفارتی وفود اور علاقائی تنظیموں کے ساتھ تحریک کے تعلقات کی مدیریت کرتی ہے اور سیاسی رپورٹیں، سیاسی مطالعہ اور تجزیے تیار اور انہیں پیش کرتی ہے۔
  • ایگزیکٹیو کونسل: یہ لوگوں سے مربوط اداروں پر مشتمل ہے جیسے محکمہ تربیت اور ثقافت، سماجی محکمہ، ادارہ ذرائع ابلاغ، خواتین کے امور اور گورنر شپ۔
  • ادارہ حکومتی امور: انصار اللہ کے انتظامی اور قانون ساز اداروں پر نظارت اور انصار اللہ بورڈ کی نگرانی اس ادارے کی ذمہ داریوں میں سے ہے۔[11]

ایران سے رابطہ

فائل:بدرالدین حوثی در نشست وحدت اسلامی در ایران سال 1374.jpg
بدر الدین حوثی ایران میں منعقدہ وحدت اسلامی کانفرنس میں

یمن میں انصار اللہ تحریک کو امام خمینی اور ان کے انقلاب سے متاثر سمجھا جاتا ہے، جسے حسین حوثی نے یمن کے لوگوں کے لیے ایک نمونہ کے طور پر متعارف کرایا تھا۔[12] امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ اس تحریک کا تصادم انقلاب اسلامی ایران کے افکار سے متاثر سمجھا جاتا ہے۔[13] ایران کو تحریک انصار اللہ یمن کے مالی اور عسکری حامی کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔[14] کہا جاتا ہے کہ بدرالدین حوثی کے ایران میں قیام کے دوران، یمنی نوجوانوں نے ایران میں فوجی، سیکورٹی اور عقیدتی تربیت حاصل کی ہے۔[15] انصار اللہ کے مخالفین اس تحریک کو یمن میں ایران کا حامی سمجھتے ہیں۔[16]

بین الاقوامی اور خطے کی پابندیاں

تحریک انصار اللہ کے بعض اراکین بشمول عبد الملک حوثی پر سنہ 2014ء اور اس کے بعد اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی طرف سے پابندیاں لگیں۔ اور اس کونسل نے سنہ 2022ء میں انصار اللہ پر تسلیحاتی پابندی لگادی۔[17] اسی سال عرب ممالک کے وزرائے داخلہ کی کونسل نے اس تحریک کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا۔ امریکہ جیسے بعض ممالک نے اس تحریک کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔[18]

تحریک کے سربراہان

حسین حوثی، انصار اللہ کا پہلا سربراہ

تحریک انصار اللہ یمن کے آغاز سے حکومت کی تشکیل تک متعدد سربراہ گزرے جو درج ذیل ہیں:

حسین حوثی

حسین الحوثی، بدرالدین حوثی کے بیٹے[19] اور انصار اللہ کا بانی اور پہلا رہنما سمجھا جاتا ہے۔[20] حسین حوثی 2004ء میں حوثیوں اور یمنی حکومت کے درمیان لڑی جانے والی پہلی جنگ میں شہید ہوئے۔[21] ان کے افکار نے یمن کی تحریک انصاراللہ کا عقیدتی منشور تشکیل دیا ہے۔[22]

بدرالدین الحوثی

بدر الدین حوثی زیدیہ مذہب کے مراجع میں سے ایک تھے؛ انہیں تحریک انصاراللہ کا روحانی باپ سمجھا جاتا ہے۔[23] انہوں نے یمن کے کچھ زیدی علماء کے ساتھ مل کر یہاں وہابی افکار کی ترویج کے خلاف جدوجہد کی۔[24] بدرالدین کو ایران کے اسلامی انقلاب کا حامی اور امام خمینی کے افکار سے متاثر سمجھا جاتا ہے۔ وہابیت کے دباؤ اور دھمکیوں کی وجہ سے وہ یمن سے ایران گئے اور کچھ عرصہ قم میں رہے۔ ان کی قم میں موجودگی ان کی شیعہ اور اسلامی انقلاب سے زیادہ واقفیت کا باعث بنی۔[25]

عبد الملک حوثی

عبدالملک حوثی، انصار اللہ کے تیسرے سربراہ

تحریک انصار اللہ کے تیسرے سربراہ عبد الملک حوثی اپنے بھائی حسین اور والد بدرالدین کے بعد اس منصب پر فائز ہوئے۔[26] اطلاعات کے مطابق، انہیں اس عہدے کے لیے ان کے والد بدرالدین نے چنا تھا۔[27] بعض کا کہنا ہے کہ عبد الملک کی سربراہی کا آغاز سنہ 2010ء میں ان کے والد کی وفات کے بعد ہوا تھا۔[28] جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ ان کی سربراہی کا آغاز سنہ 2004ء میں ان کے بھائی حسن الحوثی کی وفات کے بعد ہوگیا تھا۔[29] جبکہ بعض نے سنہ 2006ء ذکر کیا ہے۔[30]

عبدالمالک حوثی کی قیادت کے دوران ہونے والے اہم واقعات میں یمن کی حکومت پر کامیابی،[31] سعودی عرب کی قیادت میں یمن پر عرب اتحاد کے حملے کی شکست،[32] بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں اسرائیل اور اس کے جہازوں پر انصار اللہ کا میزائل اور ڈرون حملہ[33] اور ان دو سمندروں میں امریکہ اور انگلینڈ کے ساتھ تنازعہ شامل ہیں۔[34]

حوثیوں اور یمنی حکومت کے درمیان جھڑپ

حوثی گروپ یمن کی حکومت کو امریکہ کی کٹھ پتلی سمجھتا تھا اور ملک میں رائج امتیازی سلوک، غربت، حکومت کی دوسروں پر انحصار اور یمنی معاملات میں غیر ملکی مداخلت پر اعتراض تھا۔[35]11 ستمبر کے واقعے اور افغانستان اور عراق پر امریکی حملے اور خطے اور خلیج عدن میں امریکی فوجیوں کی آمد کے بعد، اس تحریک نے امریکہ مخالف موقف اختیار کیا[36] اور ان کا مشہور نعرہ صَرخہ[یادداشت 1]امریکہ اور اسرائیل کے خلاف بلند ہوا۔[37] بعض محققین کا کہنا ہے کہ انصار اللہ کا امریکہ کے خلاف لگائے جانے سرخا کے نعرے کو یمن کے صدر اپنے خلاف سمجھتا تھا نیز تحریک کی عسکری سرگرمیوں میں شدت اور اس تحریک کی سرگرمیوں کے بارے میں حسین حوثی کی جانب سے جواب دینے سے انکار، یمنی حکومت اور اس تحریک کے مابین تنازعہ اور جنگ کے شروع ہونے کی وجہ تھی۔[38] انصار اللہ کی اس ملک کی حکومت کے ساتھ فوجی محاذ آرائی کئی جنگوں کا سبب بنی:

  • پہلی جنگ: حوثیوں کے خلاف یمنی حکومت کی پہلی جنگ حسین حوثی کی موت پر منتج ہوئی۔ تین سرکاری فوجیوں کی ہلاکت اور حسین حوثی کی گرفتاری کی کوشش کو اس جنگ کی وجہ قرار دی گئی ہے۔ یہ جنگ سنہ 2004ء میں مَرّان کے علاقے میں ہوئی تھی۔[39]
  • دوسری جنگ: کشیدگی ختم کرنے سے انکار، سنہ 2005ء میں دوسری جنگ کا سبب بنا، جو دو ماہ تک جاری رہی۔ آخر کار یمنی حکومت نے فتح کا اعلان کیا اور جنگ ختم ہو گئی۔ اس جنگ کا دائرہ پہلی جنگ سے زیادہ وسیع ہے۔[40]
  • تیسری جنگ: دوسری جنگ سے پیدا ہونے والی کشیدگی تیسری جنگ کا باعث بنی۔ اس جنگ کا دائرہ، جو سنہ 2005ء کے آخر میں شروع ہوا اور 2006ء کے شروع میں ختم ہوا، یہ جنگ صعدہ شہر تک پہنچ گئی۔[41]
  • چوتھی جنگ: صعدہ صوبے کے یہودیوں کو بھگانے اور حوثیوں کی طرف سے اس صوبے میں شیعہ حکومت قائم کرنے کی کوشش چوتھی جنگ کا باعث بنی۔ سنہ 2007ء میں ہونے والی اس جنگ کا دائرہ صوبہ صعدہ سے باہر تک پھیل گیا۔ قطری حکومت کی ثالثی سے یہ جنگ ختم ہوئی۔[42]
  • پانچویں جنگ: یہ جنگ 2008ء میں شروع ہوئی اور صَنْعا اور عَمْران کے صوبوں کو اپنے لپیٹ میں لے لیا۔ حکومت کی طرف سے یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان اس جنگ کا خاتمہ تھا۔[43]
  • چھٹی جنگ: حوثیوں پر غیر ملکی شہریوں کو اغوا کرنے کا الزام، چھٹی جنگ اگست 2009ء میں شروع ہوئی۔ حکومت کی جانب سے وسیع فضائی حملے اور حوثیوں کا سعودی عرب میں داخلہ اور دو فوجیوں کی ہلاکت اس جنگ کی خصوصیات میں شامل تھیں۔ سنہ 2010ء میں سعودی عرب سے حوثیوں کا انخلاء اس جنگ کا خاتمہ تھا۔[44]
انصار اللہ کے کنٹرول میں موجود علاقے (سبز رنگ)

اسلامی بیداری اور 2011ء کا انقلاب

کچھ اسلامی ممالک میں اسلامی بیداری کے انقلاب کے آغاز کے ساتھ ہی یمن کے لوگ حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور حوثیوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا۔[45] ان تبدیلیوں کے نتیجے میں، حوثی مارچ 2011ء میں صوبہ صعدہ پر غلبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور اس صوبے کا انتظام سنبھال لیا۔[46]

حوثیوں نے سیاسی معاہدے کے عمل کی مخالفت کی اور قبل از وقت صدارتی انتخابات کو قبول نہیں کیا اور نئے صدر کو تسلیم نہیں کیا۔[47] علی عبداللہ صالح کے ساتھ اتحاد کے بعد حوثیوں نے 2014ء میں یمن کے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا۔ 2017ء میں، علی عبداللہ صالح پر حوثیوں نے سعودی اتحاد کے ساتھ مذاکرات کرنے پر غداری کا الزام لگایا اور وہ حوثی فورسز کے ساتھ ایک جھڑپ میں مارا گیا۔[48]

بیرونی ممالک کے ساتھ فوجی تنازعہ

انصار اللہ کے کئی بیرونی ممالک کے ساتھ فوجی تنازعات رہے ہیں جن میں سے کچھ کا ذکر ذیل میں کیا جا رہا ہے:

انصار اللہ پر سعودی اور ان کے اتحادیوں کا حملہ

یمن کے صدر منصور ہادی اور وزیر اعظم خالد بحاح نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا۔[49] اس کے بعد وہ عدن گئے اور ایک عبوری حکومت تشکیل دیا۔ سعودی عرب کی قیادت میں علاقائی ممالک کے اتحاد نے منصور ہادی کی حمایت میں 26 مارچ 2015ء کو یمن پر شدید فضائی اور سمندری حملے کیے، جس سے یمن کے انفراسٹرکچر، فوجی اور شہری مراکز تنصیبات تباہ ہو گئے۔[50] ان حملوں کا مقصد یمنی صوبوں کو انصار اللہ کے کنٹرول سے نکالنا اور اس تحریک سے سرکاری ہتھیاروں کی بازیابی کرنا تھا۔[51]

سعودی اتحاد کے فضائی حملوں کے بعد، انصار اللہ نے سب سے پہلے یمن کے مختلف علاقوں کا کنٹرول سنبھال لیا تاکہ القاعدہ اور اس اتحادیوں کے ساتھ منسلک افواج کا مقابلہ کیا جا سکے۔ سعودی اتحاد کی جارحیت کے تقریباً دو ماہ بعد اس نے سعودی عرب کے خلاف کئی کارروائیاں کیں۔ اتحادی حملوں میں توسیع کے ساتھ، انصار اللہ نے حملوں کو روکنے کے لئے سعودی عرب کے خلاف بیلسٹک میزائلوں کا استعمال کیا۔[52] حوثیوں نے بار بار بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز سے سعودی فوجی علاقوں اور تیل کی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔[53]

غزہ پر بمباری کے جواب میں اسرائیل اور اس کے جہازوں پر حملہ

اسرائیل کے حملوں کے خلاف غزہ کے عوام کی حمایت میں یمن کی انصار اللہ تحریک نے اسرائیل کے مختلف علاقوں کو میزائلوں اور ڈرونز سے نشانہ بنایا۔[54] حوثیوں نے بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں اسرائیلی بندرگاہوں کی طرف جانے والے اسرائیلی جہازوں اور بحری بیڑوں کو بھی نشانہ بنایا۔[55] امریکہ اور انگلینڈ نے یمن کی انصار اللہ کے خلاف کئی فضائی حملے کیے اور کچھ مغربی میڈیا کے مطابق حوثیوں کو ان حملوں سے باز نہیں رکھ سکے۔[56] انصاراللہ کی یہ کاروائی غزہ میں عام شہریوں، رہائشی علاقوں اور طبی مراکز پر اسرائیل کے حملے اور اس شہر کے محاصرے کے جواب میں ہوئی ہے۔[57] غزہ کے خلاف اسرائیل کے حملے حماس کے طوفان الاقصی آپریشن (اکتوبر 2023ء) کے بعد کیے گئے۔[58]

حوالہ جات

  1. سید کامل، «الوجود الحوثی فی الیمن: دراسۃ فی الجغرافیا السیاسیہ»، ص19۔
  2. سید کامل، «الوجود الحوثی فی الیمن: دراسۃ فی الجغرافیا السیاسیہ»، ص19۔
  3. القاضی، «الحوثیین من الداخل.. ما لاتعرفہ عنہم»، ویب سائٹ شبکہ خبری الجزیرہ۔
  4. «محمد یحیی عزان.. تنظیم شباب المؤمن بالیمن»، ویب سائٹ شبکہ خبری الجزیرہ۔
  5. احمدی، الزہر و الحجر: التمرد الشیعی فی الیمن، 2007ء، ص130۔
  6. احمدی، الزہر و الحجر: التمرد الشیعی فی الیمن، 2007ء، ص137۔
  7. «الحوثیون من ہم و کیف نشأت حرکتہم»، ویب سائٹ شبکہ خبری BBC۔
  8. محمد، «الظاہرۃ الحوثیہ و التحول الفکری من الزیدیہ الی الشیعہ»، ویب سائٹ القناطیر۔
  9. محمد، «الظاہرۃ الحوثیہ و التحول الفکری من الزیدیہ الی الشیعہ»، ویب سائٹ القناطیر۔
  10. «جماعۃ الحوثیین.. حرکۃ یمنیہ جمعت بین الزیدیہ و النہج الایرانی و الحکم العائلی» ویب سائٹ شبکہ خبری الجزیرہ۔
  11. «جماعۃ الحوثیین.. حرکۃ یمنیہ جمعت بین الزیدیہ و النہج الایرانی و الحکم العائلی» ویب سائٹ شبکہ خبری الجزیرہ۔
  12. «دواقع مساندۃ ایران للحوثیین فی الیمن»، ویب سائٹ المنتدی العربی لتحلیل السیاسات الایرانیہ۔
  13. «الحوثییون من ہم و کیف نشأت حرکتہم»، ویب سائٹ شکبہ خبری BBC۔
  14. «کیف و متی بدأت علاقۃ ایران بمیلیشیات الحوثی فی الیمن»، ویب سائٹ شبکہ خبری العربیہ۔
  15. «دوافع مساندۃ ایران للحوثیین فی الیمن»، ویب سائٹ منتدی العربی لتحلیل السیاسات الایرانیہ۔
  16. «کیف و متی بدأت علاقۃ ایران بمیلیشیات الحوثی فی الیمن»، ویب سائٹ شبکہ خبری العربیہ۔
  17. «جماعۃ الحوثیین.. حرکۃ یمنیہ جمعت بین الزیدیہ و النہج الایرانی و الحکم العائلی» ویب سائٹ شبکہ خبری الجزیرہ۔
  18. «جماعۃ الحوثیین.. حرکۃ یمنیہ جمعت بین الزیدیہ و النہج الایرانی و الحکم العائلی» ویب سائٹ شبکہ خبری الجزیرہ۔
  19. «حسین الحوثی... من الدعوہ الی التمرد»، ویب سائٹ شبکہ خبری الجزیرہ»۔
  20. شیخ‌حسینی، جنبش انصاراللہ یمن، 1393شمسی، ص45۔
  21. «السید حسین بدرالدین الحوثی من الولادہ.. الی معراج الشہادہ»، ویب سائٹ انصاراللہ۔
  22. شیخ‌حسینی، جنبش انصاراللہ یمن، 1393شمسی، ص245۔
  23. احمدی، الزہر و الحجر: التمرد الشیعی فی الیمن، 2007ء، ص129۔
  24. «العلامۃ الربانی بدرالدین الحوثی.. حائط صد امام التکفیریین»،‌ ویب سائٹ انصاراللہ۔
  25. جنبش انصاراللہ، ص76 ـ 79۔
  26. «عبدالملک الحوثی..من متمرد من الاقالیم الی زعیم وطنی»، ویب سائٹ خبرگزاری رویترز۔
  27. «عبدالملک الحوثی»، ویب سائٹ شبکہ خبری الجزیرہ۔
  28. «عبدالملک الحوثی»، ویب سائٹ النشرہ۔
  29. «عبدالملک الحوثی.. المرشد الاعلی فی الیمن»، ویب سائٹ بوابۃ الحرکات الاسلامیہ۔
  30. «حقائق لا تعرفہا عن عبدالملک الحوثی»، ویب سائٹ مجلہ واسع صدرک۔
  31. «عبدالملک الحوثی من زعیم المتمردین الی صانع الملوک»، ویب سائٹ خبری نون پست۔
  32. «حقائق لا تعرفها عن عبدالملک الحوثی»، ویب سائٹ مجلہ واسع صدرک۔
  33. «السید الحوثی: نرصد السفن الاسرائیلیہ فی البحر الاحمر.. سنظفربہا و سنستہدفہا»، ویب سائٹ شبکہ خبری المیادین؛ «راز مقاومت و شکست‌ناپذیری رہبر انصاراللہ یمن چیست؟»، ویب سائٹ خبرگزاری فارس۔
  34. «الضربات الامریکیہ و البریطانیہ تفشل فی الحد من ہجمات الحوثیین»، ویب سائٹ شبکہ خبری BBC۔
  35. شیخ‌حسینی، جنبش انصاراللہ یمن، 1393شمسی، ص153-154۔
  36. شیخ‌حسینی، جنبش انصاراللہ یمن، ص243۔
  37. شیخ‌حسینی، جنبش انصاراللہ یمن، 1393شمسی، ص153۔
  38. احمدی، الزہر و الحجر: التمرد الشیعی فی الیمن، 2007م، ص140-142۔
  39. سید کامل، «الوجود الحوثی فی الیمن: دراسۃ فی الجغرافیا السیاسیہ»، ص22۔
  40. سید کامل، «الوجود الحوثی فی الیمن: دراسہ فی الجغرافیا السیاسیہ»، ص23۔
  41. سید کامل، «الوجود الحوثی فی الیمن: دراسہ فی الجغرافیا السیاسیہ»، ص23۔
  42. سید کامل، «الوجود الحوثی فی الیمن: دراسہ فی الجغرافیا السیاسیہ»، ص23-24۔
  43. سید کامل، «الوجود الحوثی فی الیمن: دراسہ فی الجغرافیا السیاسیہ»، ص24۔
  44. سید کامل، «الوجود الحوثی فی الیمن: دراسہ فی الجغرافیا السیاسیہ»، ص24-25۔
  45. سید کامل، «الوجود الحوثی فی الیمن: دراسۃ فی الجغرافیا السیاسیہ»، ص27؛ محمد، «الظاہرۃ الحوثیہ و التحول الفکری من الزیدیہ الی التشیع»، ص75۔
  46. محمد، «الظاہرۃ الحوثیہ و التحول الفکری من الزیدیہ الی التشیع»، ص75۔
  47. سید کامل، «الوجود الحوثی فی الیمن: دراسه فی الجغرافیا السیاسیہ»، ص27۔
  48. «جماعۃ الحوثیین.. حرکۃ یمنیہ جمعت بین الزیدیہ و النہج الایرانی و الحکم العائلی» ویب سائٹ شبکہ خبری الجزیرہ۔
  49. «رئیس جمہور یمن استعفای خود را اعلام کرد»، ویب سائٹ خبرگزاری تسنیم۔
  50. خبرگزاری فارس
  51. سید کامل، «الوجود الحوثی فی الیمن: دراسہ فی الجغرافیا السیاسیہ»، ص31۔
  52. «انصاراللہ برای اولین بار با موشک بالستیک قاہر بہ عربستان حملہ کرد.»، ویب سائٹ روزنامہ کیہان۔
  53. «ابرز ہجمات الحوثیین علی السعودیہ»، ویب سائٹ شبکہ خبری الجزیرہ۔
  54. «الحوثییون من ہم و کیف نشأت حرکتہم»، ویب سائٹ شکبہ خبری BBC۔
  55. «الضربات الامریکیہ و البریطانیہ تفشل فی الحد من ہجمات الحوثیین»، ویب سائٹ شبکہ خبری BBC۔
  56. «الضربات الامریکیہ و البریطانیہ تفشل فی الحد من ہجمات الحوثیین»، ویب سائٹ شبکہ خبری BBC۔
  57. «دہمین روز از عملیات طوفان الاقصیٰ»، ویب سائٹ شبکہ خبری العالم۔
  58. «دہمین روز از عملیات طوفان الاقصیٰ»، ویب سائٹ شبکہ خبری العالم۔

نوٹ

  1. اللہ اکبر، الموت لامریکا، الموت لاسرائیل، اللعنۃ علی الیہود، النصر للاسلام

مآخذ