نرجس خاتون

ویکی شیعہ سے
نرجس خاتون
امام زمانہ کی والدہ ماجدہ
روضہ عسکریین میں نرجس خاتون کی قبر
کوائف
نام:نرجس، صَقیل یا صِیقَل، حدیثہ، ملیکہ و ریحانہ
مشہور اقاربامام مہدی علیہ السلام (بیٹا)، امام حسن عسکری (شوہر)
مقام سکونتسامرا
وفات260ھ
مقام دفنحرم امامین عسکریین


نرجس خاتون، مشہور قول کی بنا پر شیعوں کے بارہویں پیشوا امام زمانہ علیہ السلام کی والدہ اور گیارہویں امام امام حسن عسکری کی کنیز ہیں۔ آپ کے بعض دیگر نام سوسن، صَقیل یا صِیقَل، حدیثہ، ملیکہ اور ریحانہ بھی ذکر ہوئے ہیں۔ نرجس خاتون کے متعلق کوئی زیادہ اطلاعات موجود نہیں ہیں۔ زیادہ تر منابع میں ان کی قوم اور ذاتی شخصیت کے متعلق لکھا گیا ہے اس میں بھی بہت زیادہ اختلاف مذکور ہے۔ بعض منابع میں مذکور ہے کہ وہ امام حسن عسکری کی پھوپھی حکیمہ خاتون کی تربیت یافتہ تھیں جبکہ بعض میں آیا ہے کہ وہ حبشی نسل سے یا اہل نوبہ تھیں۔

یہ حدیث بھی موجود ہے کہ امام زمانہ کی والدہ روم کے بادشاہ کی نواسی ملیکہ (ملیکا) ہیں کہ جو مسلمانوں کی اسارت میں آئیں۔ اس روایت کے راویوں میں ضعیف اور مجہول راویوں کی بنا پر بعض علما اسے قابل اعتبار نہیں سمجھتے ہیں۔

امام زمانہ کی والدہ کی شخصیت اور قومیت کے واضح نہ ہونے کے دلائل میں سے ایک دلیل امام زمانہ کی ولادت کے مخفی ہونے کو قرار دیتے ہیں۔

کہا گیا ہے کہ امام زمانہ کی والدہ امام حسن عسکری کی شہادت سے پہلے فوت ہو گئیں جبکہ بعض کتب میں امام حسن کی شہادت کے وقت ان کے پاس موجود تھیں۔ نرجس خاتون کی قبر سامرا، عسکریین میں امام علی نقی اور امام حسن عسکری کے پہلو میں ہے۔

نام

امام زمانہ (ع) کی والدہ کے درج ذیل اسما ذکر ہوئے ہیں: نرجس،[1] سوسن،[2] صَقِیل یا صیقل،[3] ریحانہ،[4] حدیثہ، حکیمہ، ملیکہ و خَمط.[5] اسی طرح شہید ثانی مریم بنت زید العلویہ کو ضعیف سمجھتے ہیں۔[6] ان اسما میں سے معروف ترین نام نرجس ہے کہ جسے قدیمی‌ ترین کتاب اثبات الوصیہ[7] میں مسعودی نے امام زمانہ کی والدہ کے نام کے طور پر بیان کیا ہے۔[8] اسی طرح امام زمانہ کی والدہ کے نام کے بارے میں مشہور ترین[9] روایت حکمیہ خاتون کی ہے کہ جس میں ان کا نام نرجس ذکر ہوا ہے۔[10]

کہا گیا ہے کہ ناموں کے متعدد ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس عربی معاشرے میں کنیزوں کے لئے زیادہ نام ذکر رائج تھے اور ان میں سے اکثر ناموں میں پھولوں کے ناموں کو استعمال کیا گیا ہے۔[11] بعض نے یہ احتمال دیا ہے کہ یہ نام القاب ہیں کہ جو انہیں بطن سے امام زمانہ کی ولادت کی مناسبت سے دیئے گئے ہیں؛ مثلا صیقل یا صقیل ایسا وصف ہے جو امام مہدی (ع) کے نور کی وجہ سے یا والدہ کے چہرے کی درخشندگی کی وجہ سے انہیں دیا گیا۔[12]

بہرحال نقل ہوا ہے کہ ان کا نام امام زمانہ (ع) کی ولادت سے پہلے بھی صیقل تھا۔[13]

ناموں کے مختلف ہونے کا سبب

امام زمانہ کی والدہ کے ناموں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ امام زمانہ کی ولادت کے مخفی رکھنے کی وجہ سے ان کی والدہ کی شخصیت اور اور ذات بھی مخفی ہو گئی۔[14] نیز یہ بھی احتمال ہے کے امام حسن عسکری کی کنیزوں کے تعداد کی وجہ سے ایسا ہوا ہو۔[15]

شخصیت اور قومیت

روایات اور اکثر متون جنہوں نے امام زمانہ کی والدہ کا ذکر کیا ہے وہ تقریبا متفق ہیں کہ ان کی والدہ کنیز تھیں۔[16] حضرت امام مہدی کے متعلق صفاتی جملےابن خیرة الإماء بہترین کنیز کا بیٹا[17] یا ابن سیدة الإماء یعنی سیدہ کنیز کا بیٹا[18] بھی ان کی والدہ کے کنیز ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔[19] اسی طرح روایات میں آیا ہے کہ امام صادق(ع) نے محمد بن عبدالله حسن کے قائم کے دعوی کو جھٹلاتے ہوئے یوں استدلال کیا کہ قائم کنیز کا بیٹا ہے جبکہ یہ جھوٹا مدعی محمد بن عبدالله حسن آزاد خاتون کا فرزند ہے[20] کنیز کی مخالف صرف شہید ثانی کی وہ روایت ہے جسے انہوں ضعیف قول کہہ کر ذکر کیا ہے۔ اس کے مطابق امام زمانہ کی والدہ مریم بنت زید علوی ہیں[21] محدث بحرانی کے بقول علامہ مجلسی بھی اسے ضعیف روایت ہی مانتے ہیں۔[22]

جو روایات امام زمانہ کی والدہ کو کنیز کہتی ہیں ان میں سے بعض انہیں امام حسن عسکری کی پھوپھی کی کنیز سمجھتی ہیں[23] اور بعض کے مطابق وہ کنیز تو ہیں لیکن ان کی تربیت حکیمہ خاتون کے ذمے تھی۔[24] بعض روایات کے مطابق وہ حبشی نسل سے تھیں۔ امام زمانہ میں حضرت یوسف کی سنت ہے۔ جس طرح حضرت یوسف ایک سیاہ پوست کنیز کے بیٹے تھے۔[25] اسی طرح منقول ہوا ہے کہ وہ شمال سوڈان کے علاقے نوبہ سے تھیں۔[26]

رومی شہزادہ

قدیم شیعہ مآخذ میں ایک مفصل داستان موجود ہے کہ جس کے مطابق قیصر روم کی نواسی ملیکہ بنت یشوع امام زمان کی والدہ ہیں اور ان کا نسب ماں کی جانب سے حضرت عیسی کے حواریوں میں سے ایک حواری شمعون تک پہنچتا ہے۔ اس داستان میں آیا ہے کہ ملیکہ اپنے جد کے محل میں تھی، حضرت مریم(ع) اور حضرت فاطمہ(س) کو عالم خواب میں دیکھتی ہے کہ وہ اسے قائل کرتی ہیں کہ وہ اپنے آپ کو مسلمانوں کی اسارت میں لے آئے۔ پھر ملیکہ مسلمانوں کی رومیوں سے جنگ کے دوران مسلمانوں کی اسیر ہو جاتی ہے۔ ادھر امام ہادی(ع) کسی شخص کو معین کرتے ہیں کہ ملیکہ کو غلاموں کے خرید و فروخت کے بازار انہیں خرید لائے اور امام حسن عسکری سے ان کا عقد کر دیں۔[27]

اس داستان کو شیخ صدوق نے پہلی مرتبہ اپنی کتاب کمال الدین میں ذکر کیا اور محمد بن جریر طبری نے دلائل الإمامہ[28] میں ایک مختلف سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔[29] اسی طرح شیخ طوسی نے کتاب الغیبہ میں اسی طبری کی سند ہی کو ایک واسطے کے اضافے کے ساتھ ذکر کیا ہے۔[30]

اس روایت میں ہونے والے بعض اعتراض درج ذیل ہیں:

  • پہلے راوی محمد بن بحر (راوی اول) کے علاوہ اس حدیث کی سند سند کے تمام راوی مجہول یا مہمل ہونے کی وجہ سے یہ روایت ضعیف شمار ہوگی۔
  • پہلا راوی محمد بن بحر غلو سے متہم ہے۔
  • بشر بن سلیمان کہ جو مستقیم داستان کا راوی ہے وہ مجہول اور غیر معلوم ہے۔
  • حدیث کے بیان کا طریقہ اور اس کے بیان میں دوسرے حدیثی متون کے ساتھ ہماہنگی نہ ہونا اس حدیث کے متن پر اعتماد کو کم کرتا ہے۔[31]

وفات اور مزار

حرم امامین عسکریین و مقام دفن نرجس خاتون

منقول ہے کہ امام زمان (ع) کی والدہ امام عسکری(ع) (260 ھ) کی شہادت سے قبل فوت ہو گئی تھیں۔[32] لیکن دوسری منقول روایات کے مطابق وہ امام حسن عسکری کی شہادت کے بعد زندہ تھیں۔ جیسا کہ آیا ہے کہ وہ امام کی شہادت کے موقع پر انکے سرہانے موجود تھیں۔[33]

اسی طرح نجّاشی لکھتا ہے کہ امام عسکری کی شہادت کے بعد ان کی والدہ با قید حیات اور محمد بن علی بن حمزه کے گھر تھیں۔[34]

نرجس خاتون کی قبر سامرا میں حرم عسکریین میں امام ہادی اور امام حسن عسکری (ع) کی قبر پاس ہے۔[35] ابن مشہدی نے ان کے لئے زیارت نامہ نقل کیا ہے البتہ یہ زیارت نامہ امام کی طرف سے نہیں ہے۔[36]

حوالہ جات

  1. ر.ک: شیخ صدوق، کمال الدین، ۱۳۵۹ق، ج۲، ص۴۳۲؛ خصیبی، الہدایۃ الکبری، ۱۴۱۱ق، ص۲۴۸؛ شیخ طوسی، الغیبہ، ۱۴۱۱ق، ص۲۱۳،
  2. شیخ صدوق، کمال الدین، ۱۳۵۹ق، ج۲، ص۴۳۲؛ ابن ابی الثلج، «تاریخ الائمہ»، ۱۳۹۶ق، ص۲۶؛ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ۱۴۰۵ق، ج۱۳، ص۱۲۱.
  3. شیخ صدوق، کمال الدین، ۱۳۵۹ق، ج۲، ص۴۳۲؛ ابن حزم، جمہره انساب العرب، ۱۹۸۲م، ص۶۱؛ شیخ طوسی، الغیبت، ۱۴۱۱ق، ص۲۷۲؛ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ۱۴۰۵ق، ج۱۳، ص۱۲۱.
  4. شیخ صدوق، کمال الدین، ۱۳۵۹ق، ج۲، ص۴۳۲
  5. خدا مراد سلیمیان، فرہنگ‌ نامہ مہدویت، ص۳۷۱.
  6. مجلسی، بحار الانوار، ۱۳۶۳ش، ج۵۱، ص۲۸
  7. ر.ک: مسعودی، إثبات الوصیہ، ۱۴۲۶ق‏، ص۲۵۸.
  8. جاسم، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم، ۱۳۸۵ش، ص۱۱۴.
  9. سلیمیان، درسنامہ مہدویت (۱)، ص۱۸۲.
  10. ر.ک: مجلسی، بحار الانوار، ۱۳۶۳ش، ج۵۱، ص۲
  11. صدر، موسوعۃ الامام المہدی، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۲۴۲.
  12. ر.ک: محمدی ری‌ شہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۲، ص۱۹۶؛ شیخ صدوق، کمال الدین، ۱۳۵۹ق، ج۲،
  13. علوی، المجدی فی انساب الطالبین، ۱۴۰۹ق، ص۱۳۱.
  14. پاکتچی، «حسن عسکری،‌امام»، ص۶۱۸؛ محمدی ری ‌شہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۲، ص۱۹۴.
  15. پاکتچی، «حسن عسکری،‌امام»، ص۶۱۸.
  16. محمدی ری‌ شہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۲، ص۱۹۷.
  17. کلینی، الکافی، ۱۳۸۹ق، ج۱، ص۳۲۲، ح۱۴. شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۷۵؛ طبرسی، إعلام الوری، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۹۲.
  18. صدوق، کمال الدین، ۱۳۵۹ق، ص۳۴۵، ۳۶۹ و ۳۷۲؛ اربلی، کشف الغمہ، ۱۴۰۱ق، ج۳، ص۳۱۴.
  19. محمدی ری‌ شہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۲، ص۱۹۷.
  20. ر.ک: نعمانی، الغیبہ، ص۲۳۰.
  21. محمدی ری ‌شہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۲، ص۱۹۷.
  22. بحرانی، الحدائق الناضره، ۱۳۷۷ق، ج۱۷، ص۴۴۰.
  23. صدوق، کمال الدین، ۱۳۵۹ق، ص۴۲۶، ح۲؛ فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، ص۲۸۲.
  24. طبری امامی، دلائل الامامہ، ۱۴۱۳ق، ص۴۹۹، ح۴۹۰. طوسی، الغیبت، ۱۴۱۱ق، ص۲۳۹، ح۲۰۷.
  25. خدامراد سلیمیان، فرہنگ‌ نامہ مہدویت، ص ۳۷۴. نعمانی، الغیبت، ۱۳۹۷ق، ص ۱۶۳؛ شیخ صدوق، کمال الدین، ۱۳۵۹ق، ج ۱، ص ۳۲۹.
  26. کلینی، اصول کافی، ج۲، ص۱۰۷، ح۱۴.
  27. رک: شیخ صدوق، کمال الدین، ۱۳۵۹ق، ج۲، ص۴۱۷، باب ۴۱. اسی طرح امام مہدی کے دانشنامہ میں بھی مذکور ہے: محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امام مهدی (عج)، ج۲، ص۱۷۹.
  28. طبری، دلائل الإمامہ، ص ۲۶۲.
  29. سلیمیان، فرہنگ ‌نامہ مہدویت، ۱۳۸۸ش، ص۳۷۲.
  30. شیخ طوسی، الغیبہ، ۱۴۱۱ق، ص۴۱۷، ح۱۷۸.
  31. محمدی ری‌ شہری، دانشنامہ امام مہدی (ع)، ۱۳۹۳ش، ج۲، ص۱۹۹-۲۰۱.
  32. شیخ صدوق، كمال الدین، ۱۳۵۹، ص۴۳۱.
  33. شیخ صدوق، كمال الدین، ۱۳۵۹، ص۴۷۴.
  34. نجاشی، رجال نجاشی، مؤسسة النشر الاسلامی، ص۲۶۸.
  35. مقدس، راہنمای اماکن زیارتی و سیاحتی در عراق، ص۳۰۹.
  36. ر.ک: ابن مشہدی، المزار الکبیر، ص۶۶۰.

مآخذ

  • ابن ابی‌ الثلج، «تاریخ الائمہ»، در مجموعہ نفیسہ، قم، ۱۳۹۶ق.
  • ابن مشهدی، محمد بن جعفر، المزار الکبیر، به تحقیق جواد قیومی، قم، نشر اسلامی، چاپ اول، ۱۴۱۹ق.
  • اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمة فی معرفة الائمه، بہ تصحیح سید هاشم رسولی محلاتی، بیروت، نشر الکتاب، ۱۴۰۱ق.
  • بحرانی، یوسف بن احمد، الحدائق الناضرة فی احکام العترة الطاهرة، بہ تحقیق محمدتقی ایروانی، نجف، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۷ق.
  • پاکتچی، احمد، «حسن عسکری(ع)، امام»، در دائرة المعارف بزرگ اسلامی، ج۲۰، تهران: مرکز دائرة المعارف بزرگ اسلامی، ۱۳۹۱ش.
  • جاسم، حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدهم، ترجمہ محمد تقی آیت ‌اللهی، تهران، امیر کبیر، ۱۳۸۵ش.
  • خصیبی، حسین، الهدایة الکبری، بیروت: ۱۴۱۱ق-۱۹۹۱م.
  • ذهبی، محمد، سیر اعلام النبلاء، بہ کوشش شعیب النؤوط و دیگران، بیروت، ۱۴۰۵ق.
  • سلیمیان، خدا مراد، درسنامہ مهدویت، تهران، بنیاد فرهنگی حضرت مهدی موعود، چاپ پنجم، ۱۳۸۸ش.
  • سلیمیان، خدا مراد، فرهنگ‌ نامہ مهدویت، تهران، بنیاد فرهنگی حضرت مهدی موعود، ۱۳۸۸ش.
  • شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمہ، بہ تحقیق علی اکبر غفاری، تهران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ دوم، ۱۳۹۵ق.
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الغیبہ، بہ کوشش عباد الله طهرانی و علی احمد ناصح، قم، ۱۴۱۱ق.
  • شیخ مفید، الارشاد، بہ تحقیق مؤسسہ آل البیت، قم، مؤسسہ آل البیت، ۱۴۱۳ق.
  • صدر، سید محمد، موسوعة الامام المهدی، بیروت، دار التعارف، چاپ اول، ۱۴۱۲ق.
  • طبرسی، فضل بن حسن، إعلام الوری بأعلام الهدی، بہ تحقیق مؤسسہ آل البیت، قم، مؤسسہ آل البیت، ۱۴۱۷ق.
  • طبری امامی، محمد بن جریر بن رستم، دلائل الامامة، بہ تحقیق مؤسسة البعثة، قم، ۱۴۱۳ق.
  • علوی، علی بن محمد، المجدی فی انساب الطالبین، قم، کتابخانہ آیت ‌الله مرعشی، چ۱، ۱۴۰۹ق.
  • فتال نیشابوری، محمد بن حسن، بہ تحقیق حسین اعلمی، بیروت، مؤسسہ الاعلمی، ۱۴۰۶ق.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تهران،‌ دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۸۹ق.
  • مجلسی، بحار الأنوار الجامعہ لدرر أخبار الأئمہ الأطهار، تهران، اسلامیہ، ۱۳۶۳ش.
  • محمدی ری‌ شهری، محمد، دانشنامہ امام مهدی (عج)، ترجمہ عبد الهادی مسعودی، سازمان چاپ و نشر دار الحدیث، ۱۳۹۳ش.
  • مسعودی، علی بن حسین، إثبات الوصیہ للإمام علی بن أبی طالب، قم، انصاریان، ۱۴۲۶ق.
  • مقدس، احسان، راهنمای اماکن زیارتی و سیاحتی در عراق، تهران، مشعر، ۱۳۸۸ش.
  • نجاشی، احمد بن علی، رجال نجاشی، بہ تحقیق سید موسی شبیری زنجانی، [بی‌جا]، مؤسسة النشر الاسلامی، [بی‌تا].

نعمانی، محمد بن ابراهیم، الغیبہ، بہ تحقیق علی‌ اکبر غفاری، تهران، مکتبة الصدوق، ۱۳۹۷ق.