کتابُ الغیبۃ شیعوں کے بارہویں امام حضرت امام مہدیؑ کی غیبت کے بارے میں لکھی گئی ہے۔ یہ کتاب شیخ طوسی نے تصنیف کی ہے۔ یہ کتاب امام مہدیؑ کی شناخت اور ان کی غیبت سے متعلق اہم منابع میں سے ایک ہے۔ اس کتاب کے 8 ابواب میں امام مہدیؑ سے متعلق شیعوں کے عقائد کو بیان کرتے ہوئے آپؑ کی غیبت پر وارد ہونے والے اعتراضات اور شبہات کا قرآنی، روائی اور عقلی دلائل پر مشتمل جوابات دئے گئے ہیں۔
مشخصات | |
---|---|
مصنف | شیخ الطائفہ محمد بن حسن (متوفی: سنہ 460 ھ) |
موضوع | مہدویت، آخر الزمان، امام زمان، علائم ظہور |
زبان | عربی |
تعداد جلد | 1 جلد |
طباعت اور اشاعت | |
ناشر | دار المعارف الاسلامیہ قم (ایران) |
سنہ اشاعت | سنہ 1411 ھ |
اس کتاب کے متعدد خطی نسخے موجود ہیں اور پہلی بار سنہ 1323ہجری میں ایران کے شہر تبریز سے شائع ہوئی ہے۔ عباد اللہ سرشار تہرانی اور علی احمد ناصح نے اس کتاب کی مزید تحقیق انجام دے کر اسے سنہ 1411 ہجری میں دار المعارف الاسلامیہ پبلشرز قم سے شائع کیا ہے۔ کتاب الغیبۃ کا فارسی ترجمہ مجتبیٰ عزیزی نے انجام دیا ہے اور مسجد مقدس جمکران قم پبلشرز نے اسے شائع کیا ہے۔
مصنف
محمد بن حسن بن علی بن حسن شیخ الطائفہ (بزرگ قوم/بزرگ شیعہ) و شیخ طوسی کے نام سے معروف، شیعوں کی کتب اربعہ میں سے دو کتابوں کے مولف ہیں۔ آپ سنہ 385 ہجری کو خراسان کے طوس نامی شہر میں پیدا ہوئے[1] اور 23 سال کی عمر میں عراق گئے اور بغداد میں قیام کیا۔ یہاں آپ نے شیخ مفید اور سید مرتضی جیسے شیعہ علمی شخصیات سے علم حاصل کیا۔[2]
سید مرتضی کی وفات کے بعد مذہب جعفری کی زعامت شیخ طوسی کے سپرد ہوئی۔ آپ نے اپنے زیر سایہ ہزاروں شاگردوں کی تربیت کی نیز کلام، تفسیر، حدیث، فقہ اور اصول فقہ کے موضوعات پر دسیوں آثار تصنیف کیے۔[3]
کتاب کی اہمیت
کہتے ہیں کہ کتاب الغیبۃ امام زمانہ(عج) اور آنحضرتؑ کی غیبت کے بارے میں کیے اعتراضات کے جوابات پر مشتمل ایک بہترین کتاب ہے۔[4] آقا بزرگ تہرانی کے مطابق شیخ طوسی کی کتاب غیبت وجود امام زمانہ(عج) کے متعلق مضبوط اور محکم ترین عقلی و نقلی دلائل اور علائم ظہور پر مشتمل ہے۔[5] کتاب الغیبۃ کی تحریر کے بعد سے اب تک شیعہ علماء اور محققین کی توجہ اس کی طرف مبذول رہی ہے اور بہت سی تصنیفات میں اس کتاب کا حوالہ دیا گیا ہے۔[6]
تصنیف کتاب کی تاریخ اور محرک
آقا بزرگ تہرانی کے مطابق کتاب الغیبۃ کی تصنیف سنہ 447 ہجری میں انجام پائی ہے۔[7] شیخ طوسی نے اپنی اس کتاب کی تمہید میں لکھا ہے کہ اس کتاب کی تصنیف کا محرک میرے استاد کی غیبت امام زمانہ(عج) غیبت سے متعلق ایک کتاب لکھنے کی درخواست تھا۔ شیخ طوسی کے استاد نے درخواست کی تھی اس کتاب میں امام کے سبب غیبت، امام(عج) کی موجودگی کی سخت ضرورت کے باوجود آپؑ کی طویل غیبت کا سبب، امام کے ظہور کی راہ میں حائل رکاوٹوں پر تحقیق اور اس سلسلے میں مخالفین کے شکوک و شبہات اور ان کی طعنہ بازیوں کو جواب دیا جائے۔[8]
کتاب کے مندرجات
کتاب الغیبۃ درج ذیل آٹھ فصول پر مشتمل ہے:
- الکلام فی الغیبۃ: اس فصل
- فصل اول: اس فصل میں امام کی غیبت سے متعلق گفتگو کی گئی ہے۔[9] مصنف نے اس فصل میں دو مدعا کو دلیل کے ساتھ بیان کیا ہے، پہلا مدعا یہ کہ ہر زمانے میں لوگوں کی ہدایت کے لیے ایک امام معصوم کا وجود ضروری ہے۔ دوسرا مدعا یہ کہ بارہواں امام ہی امام عصر ہیں۔ نیز مصنف نے ان فِرَق کے جنہوں نے بارہواں امام کی امامت اور عصمت کے علاوہ دوسروں کی امامت اور عصمت کو قبول کیا ہے، ان کے مدعا کو رد کیا ہے جیسے کیسانیہ، ناووسیہ، واقفیہ، فطحیہ اور دیگر شیعہ مذاہب۔[10]مصنف نے اس فصل میں غیبت کا فلسفہ و حکمت، زمان غیبت میں شرعی حدود جاری کرنے کی کیفیت، زمان غیبت میں حق کی تشخیص کا طریقہ، امام زمان کا اپنی شیعوں اور دوست داروں سے غائب رہنے کی علتیں بیان کرنے کے ساتھ ساتھ عقیدہ غیبت سے متعلق پیش آنے والے شبہات کا جواب پیش کیا ہے۔[11]
- فصل دوم: اس فصل میں بارہویں امام کی ولادت کو عقلی دلائل اور تاریخی روایات کے ذریعے ثابت کیا ہے۔[12] مصنف نے اس فصل میں ان لوگوں کی گواہی بیان کی ہے جنہوں نے امام عصر(عج) کی ولادت کا مشاہدہ کیا ہے یا کسی اور طریقے سے اس سلسلے میں آگاہی رکھنے والوں کی گواہی بیان کی ہے۔[13]
- فصل سوم: اس فصل میں ان لوگوں کو تذکرہ کیا گیا ہے جنہوں نے بارہویں امام کو دیکھا ہے؛ لیکن اسی وقت کو امام کو نہیں پہچانا ہے اور بعد میں امام کو کو پہچانا ہے۔[14]
- فصل چہارم: اس فصل میں امام مہدی(عج) کے کچھ معجزات کو بیان کیا گیا ہے جو عصر غیبت میں امام کی امامت کی صحت پر دلات کرتے ہیں۔[15]
- فصل پنجم: مصنف نے امام کے ظہو کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو اس فصل میں بیان کیا ہے[16] اور اس سلسلے میں 20 روایتیں نقل کی ہیں۔[17] شیخ طوسی نے امام کے عدم ظہور کو جانی خوف قرار دیا ہے۔[18]
- فصل ششم: اس فصل میں عصر غیبت میں امام کے سفراء کا ذکر کیا گیا ہے۔[19] مصنف نے یہاں امام کے نُوّاب خاص، نواب اربعہ کی جانب سے منصوب کیے گئے اشخاص اور ان بعض سفراء کو جن کی امام نے سرزنش کی ہے، ذکر کیا ہے۔[20]
- فصل ہفتم: اس فصل میں امام زمان (عج) کی عمر سے متعلق مطالب بیان کیے گئے ہیں۔[21] شیخ طوسی نے اس فصل میں 7 روایات کو نقل کیا ہے اور اس عقیدے کا اظہار کیا ہے جب امام زمانؑ ظہور کریں گے تو ایک خوبصورت جوان کی شکل میں لوگوں کے سامنے ظاہر ہونگے۔[22] اس فصل کے آخر میں امام کے ظہور اور قیام کی کئی نشانیاں بیان کی ہیں اور اس سلسلے میں 59 روایتیں نقل کی ہیں۔[23]
- فصل ہشتم: اس فصل میں 23 روایتوں کے ذیل میں امام زمانؑ کے بعض اوصاف اور آپؑ کے مقامات کو بیان کیا ہے۔ نیز امام کی سیرت بھی اسی فصل میں بیان کی گئی ہے۔[24]
مصادر و مآخذ
شیخ طوسی کی اس تالیف میں جن مصادر و مآخذ سے استفادہ کیا گیا ہے اس کی دو قسمیں ہیں:
- وہ مآخذ جو ابھی بھی دسترسی میں ہیں۔ ان میں سے بعض یہ ہیں:
- کتاب سلیم بن قیس ہلالی: یہ کتاب نہایت قدیمی روائی کتابوں میں سے ایک ہے جس سے شیخ طوسی نے کتاب الغیبۃ کی تالیف میں روایتیں نقل کی ہیں؛[25]
- کافی: مصنف نے امام(عج) کی ولادت کے اثبات اور شیعوں کی امام سے ملاقات کے موضوع کو ثابت کرنے کے لیے [[کلینی کی اصول کافی کی "کتابُ الحجہ" سے استفادہ کیا ہے؛[26]
- کتابالغیبہ، مولفہ محمد بن ابراہیم نُعمانی؛
- کمالالدین، شیخ صدوق کی تصنیف۔[27]
- الشّافی فی الامامہ، سیدِ مرتضی کی تصنیف: کہا جاتا ہے کہ کتاب الغیبۃ کی کلامی مباحث کو اس کتاب سے لی گئی ہے۔[28]
- کچھ مصادر ابھی دسترس میں نہیں ہیں۔[29] یہ منابع درج ذیل ہیں: "الضِّیاءُ فی الرَّدِّ عَلَی المُحمدیّۃ و الجعفریۃ" یہ سعد بن عبداللہ اَشعری قمی کی کتاب ہے، "کتابُالرَّجعہ" و "کتابُالقائم" جو کہ فضل بن شاذان کے قلمی آثار ہیں، کتاب "اخبار الوُکَلاءِ الاَربَعہ" ابن نوح سیرافی اور کتاب اَلغیبہ جو کہ محمد بن علی شَلمَغانی کی کتاب ہے۔[30]
کتاب کے نسخہ جات اور اشاعت
اس کتاب کے بعض خطی نسخے موجود ہیں۔ اس کتاب کی متعدد اشاعتیں ہوئی ہیں نیز ترجمے بھی ہوئے ہیں:
نسخہ جات
کتاب الغیبۃ کے بعض خطی نسخے یہ ہیں:
- اس کتاب کے دو خطی نسخے کتب خانہ آستان قدس رضوی میں موجود ہیں جن کی کتابت کی تاریخ 1074 ھ اور 1089 ھ ہے؛[31]
- اس کا ایک نسخہ کتب خانہ مدرسہ فیضیہ میں ہے۔ اسے خلف بن یوسف بن نجم نجفی نے سنہ 1085ھ میں تحریر کیا ہے؛[32]
- اس کا ایک نسخہ کتب خانہ آیت اللہ مرعشی میں ملا عباس قلی شمس العلماء کے خط کے ساتھ موجود ہے۔[33]
اشاعت اور ترجمے
یہ کتاب پہلی مرتبہ سنہ 1323 ھ میں ایران کے شہر تبریز سے کتاب البیان فی اخبار صاحب الزمان کے ساتھ سنگی صورت (لیتھو گرافی)میں چھپی۔.[34] اس کے دیگر مختلف اشاعتیں ہوئیں، منجملہ کچھ اشاعتیں یہ ہیں:
- 1385 ھ میں نجف اشرف عراق سے مطبعۃ النعمان نے آقا بزرگ تہرانی کے مقدمے کے ساتھ 292 صفحات پر مشتمل طبع کی اور اسی سال مکتبہ نینوی الحدیثہ تہران نے اسے آفسٹ صورت میں چھاپا۔
- 1411 ھ میں عباد اللہ سرشار طہرانی اور علی احمد ناصح کے مقدمے کے ہمراہ 570 صفحات پر مؤسسۃ المعارف الاسلامیہ قم کے ذریعے طبع ہوئی۔[35]
- سنہ 1386ہجری شمسی میں کتاب الغیبہ کا مجتبی عزیزی نے "کتاب غیبت" کے عنوان سے فارسی میں ترجمہ کیا اور مسجد مقدس جمکران پبلشرز قم نے اسے شائع کیا۔
مونو گرافی
فارسی زبان میں لکھی گئی کتاب "بررسی توصیفی و تحلیلی کتاب الغیبۂ شیخ طوسی" جس کا مصنف سیدعلی رستمی ہیں ان آثار میں سے ہے جسے کتاب الغیبہ کے بارے میں تحریر کی گئی ہے۔ یہ تحقیق "پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی" کے زیر نظر انجام دی گئی اور بوستان کتاب پبلشرز نے سنہ 1392 ہجری شمسی میں شائع کیا۔[36]
حوالہ جات
- ↑ آقابزرگ تہرانی، طبقات اعلام الشیعۃ، 1430ھ، ج2، ص161.
- ↑ آقابزرگ تہرانی، طبقات اعلام الشیعۃ، 1430ھ، ج2، ص161.
- ↑ گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، 1398ہجری شمسی، ص183.
- ↑ سرشار تہرانی، ناصح، «مقدمہ»، در کتاب الغیبۃ، تألیف شیخ طوسی، 1411ھ، ص9.
- ↑ آقابزرگ تہرانی، «مقدمہ»، در کتاب الغیبۃ، تألیف شیخ طوسی، 1411ھ، ص24.
- ↑ سلیمیان، فرہنگنامہ مہدویت، 1388ہجری شمسی، ص357.
- ↑ آقابزرگ تہرانی، الذریعۃ الی التصانیف الشیعۃ، 1403ھ، ج16، ص79.
- ↑ شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، 1411ھ، ص1.
- ↑ شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، 1411ھ، ص3.
- ↑ شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، 1411ھ، ص3-4.
- ↑ شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، 1411ھ، ص76 و ص86 و ص94-95 و ص98.
- ↑ شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، 1411ھ، ص229.
- ↑ ملاحظہ کیجیے: شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، 1411ھ، ص229-253.
- ↑ شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، 1411ھ، ص253.
- ↑ شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، 1411ھ، ص281.
- ↑ شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، 1411ھ، ص329.
- ↑ احمدی کچایی، «تحلیلی بسترشناسانہ دربارہ کتاب «الغیبۃ» شیخ طوسی»، ص73.
- ↑ شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، 1411ھ، ص329.
- ↑ شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، 1411ھ، ص345.
- ↑ ملاحظ کیجیے: شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، 1411ھ، ص351 و ص353 و ص397.
- ↑ شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، 1411ھ، ص419.
- ↑ شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، 1411ھ، ص419-422.
- ↑ شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، 1411ھ، ص433.
- ↑ شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، 1411ھ، ص467.
- ↑ احمدی کچایی، «تحلیلی بسترشناسانہ دربارہ کتاب «الغیبۃ» شیخ طوسی»، ص69.
- ↑ احمدی کچایی، «تحلیلی بسترشناسانہ دربارہ کتاب «الغیبۃ» شیخ طوسی»، ص69.
- ↑ احمدی کچایی، «تحلیلی بسترشناسانہ دربارہ کتاب «الغیبۃ» شیخ طوسی»، ص69-70
- ↑ احمدی کچایی، «تحلیلی بسترشناسانہ دربارہ کتاب «الغیبۃ» شیخ طوسی»، ص70.
- ↑ احمدی کچایی، «تحلیلی بسترشناسانہ دربارہ کتاب «الغیبۃ» شیخ طوسی»، ص69.
- ↑ احمدی کچایی، «تحلیلی بسترشناسانہ دربارہ کتاب «الغیبۃ» شیخ طوسی»، ص70.
- ↑ احمدی نورآبادی، رحمتی، تاریخ حدیث شیعہ در سدہہای چہارم تا ہفتم ہجری، 1389ہجری شمسی، ص285.
- ↑ احمدی نورآبادی، رحمتی، تاریخ حدیث شیعہ در سدہہای چہارم تا ہفتم ہجری، 1389ہجری شمسی، ص285.
- ↑ احمدی نورآبادی، رحمتی، تاریخ حدیث شیعہ در سدہہای چہارم تا ہفتم ہجری، 1389ہجری شمسی، ص285.
- ↑ سرشار تہرانی، ناصح، «مقدمہ»، در کتاب الغیبۃ، تألیف شیخ طوسی، 1411ھ، ص10.
- ↑ سرشار تہرانی، ناصح، «مقدمہ»، در کتاب الغیبۃ، تألیف شیخ طوسی، 1411ھ، ص11.
- ↑ «بررسی توصیفی و تحلیلی کتاب الغیبہ شیخ طوسی»، سایت پایگاہ اطلاعرسانی حدیث شیعہ.
مآخذ
- آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، طبقات اعلام الشیعہ، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1430ھ۔
- آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعۃ الی التصانیف الشیعہ، بیروت، دارالاَضواء، 1403ھ۔
- آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، «مقدمہ»، در کتاب الغیبۃ، تألیف شیخ طوسی، قم، دار المعارف الاسلامیہ، چاپ اول، 1411ھ۔
- احمدی کچایی، مجید، «تحلیلی بسترشناسانہ دربارہ کتاب «الغیبۃ» شیخ طوسی»، پژوہشہای مہدوی، شمارہ 10، پاییز 1393ہجری شمسی۔
- احمدی نورآبادی، مہدی و محمدکاظم رحمتی، تاریخ حدیث شیعہ در سدہہای چہارم تا ہفتم ہجری، قم، انتشارات دار الحدیث، 1389ہجری شمسی۔
- «بررسی توصیفی و تحلیلی کتاب الغیبہ شیخ طوسی»، سایت پایگاہ اطلاعرسانی حدیث شیعہ، تاریخ بازدید: 13 مرداد 1402ہجری شمسی۔
- سرشار تہرانی، عباداللہ و علیاحمد ناصح، «مقدمہ»، در کتاب الغیبۃ، تألیف شیخ طوسی، قم، دار المعارف الاسلامیہ، چاپ اول، 1411ھ۔
- سلیمیان، خدامراد، فرہنگنامہ مہدویت، تہران، بنیاد فرہنگی حضرت مہدی موعود(عج)، 1388ہجری شمسی۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، کتاب الغیبۃ، قم، دار المعارف الاسلامیۃ، چاپ اول، 1411ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، کتاب غیبت، ترجمہ مجتبی عزیزی، قم، انتشارات مسجد مقدس جمکران، 1387ہجری شمسی۔
- گرجی، ابوالقاسم، تاریخ فقہ و فقہا، تہران، انتشارات سمت، چاپ ہفدہم، 1398ہجری شمسی۔