فضل بن شاذان نیشاپوری
فضل بن شاذان بن خلیل اَزْدی نیشابوری، (متوفی 260 ھ) شیعہ امامیہ متکلم و فقیہ تھے۔ شیخ طوسی نے ان کا شمار امام علی نقی (ع) کے اصحاب میں کیا ہے۔ انہوں نے بغداد میں محمد بن ابی عمیر (متوفی 217 ھ) جیسے شیوخ سے استفادہ کیا اور حسن بن علی بن فضال سے متعارف ہوئے۔ اس کے بعد ابن شاذان کوفہ گئے اور وہاں حسن بن محبوب، احمد بن ابی نصر بزنطی، صفوان بن یحیی و نصر بن مزاحم منقری جیسے مشایخ سے کسب فیض کیا۔ ان کی علمی شخصیت کا بارز ترین پہلو علم کلام ہے۔
نسب
ان کی زندگی کے بارے میں صحیح معلومات میسر نہیں ہیں۔ ظاہرا اصالتا ان کا تعلق نیشاپور سے تھا لیکن ان کا سلسلہ نسب عرب قبیلہ ازد تک منتہی ہوتا ہے۔ ان کے والد شاذان بن خلیل کا شمار شیعہ امامیہ محدثین میں ہوتا ہے۔[1]
تحصیل علم
کشی کی روایت کے مطابق، فضل اپنے والد کے ہمراہ ہارون الرشید (193 ھ) کی وفات کے بعد بغداد آئے۔ اس وقت وہ حد بلوغ تک نہیں پہچے تھے۔ بغداد کے علاقہ قطیعۃ الربیع میں انہوں نے اسماعیل بن عباد کے پاس قرآن کی تعلیم کا آغاز کیا۔[2]
ابن شاذان نے بغداد میں ابن ابی عمیر (متوفی 217 ھ) جیسے مشایخ سے کسب فیض کیا اور حسن بن علی بن فضال سے متعارف ہوئے۔[3] اس کے بعد وہ کوفہ گئے اور وہاں انہوں نے حسن بن محبوب، احمد بن ابی نصر بزنطی، صفوان بن یحیی و نصر بن مزاحم منقری جیسے مشایخ سے استفادہ کیا۔[4]
نیشاپور سے جلا وطن
فضل بن شاذان کچھ عرصہ کے بعد عراق سے واپس آ گئے اور نیشاپور میں رہایش اختیار کی اور خراسان میں (214۔230 ھ) عبد اللہ بن طاہر کے دور میں شیعہ ہونے کی وجہ سے عقاید کی تفتیش کا شکار ہوئے اور انہیں نیشاپور سے جلاوطن کر دیا گیا۔[5] ایک روایت سے پتہ چلتا ہے کہ وہ آخر عمر میں بیہق میں بھی رہے ہیں۔[6] ابن شاذان آخرکار سنہ 259 ھ کے اواخر میں بستر بیماری پر پڑ گئے اور 260 ھ کے اوایل میں وفات پائی۔[7] ان کا مقبرہ نیشاپور میں ہے۔
ائمہ (ع) سے ارتباط
امام علی نقی (ع)
شیخ طوسی نے فضل بن شاذان کا شمار امام علی نقی (ع) کے اصحاب میں کیا ہے۔[8] اس بات کے پیش نظر کہ ابن شاذان تیسری صدی ہجری کی پہلی چوتھائی میں عراق میں موجود تھے، احتمال پایا جاتا ہے کہ انہوں نے امام علی نقی (ع) اور امام حسن عسکری (ع) سے بلا واسطہ روایات نقل کی ہوں۔ البتہ ہم جو ابن بابویہ کی تالیفات میں ان احادیث کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ جو اس بات کو بیان کرتی ہیں کہ ابن شاذان نے امام علی رضا (ع) سے بلا واسطہ حدیث سماع کی ہے، یہ بعید ہے۔[9]
امام حسن عسکری (ع)
فضل بن شاذان کا شمار امام حسن عسکری (ع) کے زمانہ میں خراسان کے معتبر ترین شیعہ امامیہ علماء میں ہوتا تھا۔ کشی نے ان کے امام (ع) سے دور سے رابطہ میں ہونے کی خبر دی ہے۔[10] ان کے امام حسن عسکری (ع) سے رابطے کے سلسلے دو قسم کی روایات ذکر ہوئی ہیں؛ پہلی قسم میں وہ روایات ہیں جن میں امام کی طرف سے وہ مورد غضب و ملامت واقع ہوئے ہیں[11] اور دوسری قسم میں وہ مورد ترحم اور مدح قرار پائے ہیں۔[12]
مقام علمی
ان کی علمی شخصیت کا برجستہ ترین پہلو علم کلام ہے۔ شیخ طوسی نے ان کا تذکرہ جلیل القدر متکلم کے طور پر کیا ہے۔[13]
فقہ
فضل بن شاذان فقیہ کے عنوان سے بھی پہچانے جاتے تھے۔[14] محقق حلی نے ان کا شمار صف اول کے امامیہ فقہاء میں کیا ہے۔[15] البتہ فقہ کے موضوع پر ان کی طرف باقی ماندہ اطلاعات کم ہیں۔ ابن شاذان کے فقہی نظریات کا ایک حصہ جس میں مشہور امامیہ فقہاء کے آراء کی مخالفت نطر نہیں آتی ہے، ان کی کتاب العلل میں قابل مطالعہ ہیں۔ البتہ اس کتاب میں فقط عبادات سے متعلق مباحث ذکر ہوئے ہیں۔
ابن بابویہ[16] کی تلویح اور سید مرتضی[17] کی تصریح سے جو چیز پتہ چلتی ہے وہ یہ کہ ابن شاذان قیاس مستنبط العلۃ کی حجیت کے قائل تھے۔[18] ان کی کتاب العلل میں احکام شرعی کے سلسلہ میں ان کی علت کے رجحان کا نظریہ اس امر کی تائید کرتا ہے۔
حدیث
فضل بن شاذان کا نام امامیہ احادیث کے بہت سے سلسلہ سند میں ذکر ہوا ہے۔ نجاشی نے ان کے ثقہ ہونے کی تصریح کی ہے۔[19] کشی نے بہت سے موارد میں محدثین کے بارے میں ان کے نظریات اور جرح و تعدیل سے استناد کیا ہے۔[20]
عقاید
جو مختصر اطلاعات میسر ہیں ان کے مطابق، ابن شاذان کے علم کلام کا بنیادی نظریہ شہادتین کے بعد حجت خداوند کے اقرار اور جو کچھ اللہ نے نازل ہوا ہے، پر مشتمل ہے۔[21] وہ بنیادی طور پر عقیدہ رجعت کے قائل تھے[22] اور عمر کی ام کلثوم بنت امام علی (ع) سے شادی کے مسئلہ پر ان کا ماننا تھا کہ وہ ام کلثوم کوئی اور تھیں۔[23]
امامت پر عقیدہ
امامت کے باب میں ان کے مجموعی عقاید، امامیہ کے عقاید سے مطابقت رکھتے ہیں۔ کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ امامت کے استحقاق کا تعلق نص سے ہے اور وہ امام کو واجب الاطاعت مانتے ہیں[24] اور روئے زمین پر ایک وقت میں ایک امام سے زیادہ ہونے کو نا ممکن سمجھتے ہیں۔[25]
البتہ نقل ہوا ہے کہ وہ امامت کے بعض مسائل میں خاص نظریات کے حامل تھے۔ وہ ان عقاید کہ ائمہ (ع) امور کے باطن سے ہیں ار علم الہی غیر منقطع تک ان کی رسائی ہے، کو قبول نہیں کرتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ پیغمبر اکرم (ص) نے دین کو بطور کامل ابلاغ کر دیا ہے اور ان کے بعد ائمہ نے اپنے علم آنحضرت کے سر چشمہ سے حاصل کیا ہے۔[26] نقل ہوا ہے کہ فضل بن شاذان حضرت ابراہیم کے وصی کو پیغمبر اکرم (ص) کے وصی سے افضل سمجھتے تھے اور اس کے یہ معنی ہوئے کہ وہ انبیاء کو ائمہ سے برتر مانتے ہیں۔[27] حالانکہ ان کے ایک معاصر پیرو کا کہنا ہے کہ یہ قول ان پر تہمت ہے۔[28]
اثبات امامت حضرت علی
ابن شاذان نے اپنی کتاب العلل[29] اور ان مناظرات میں جو ان سے نقل ہوئے ہیں،[30] میں حضرت علی (ع) کی امامت کے اثبات اور شیخین کی خلافت کے انکار اور امامت سے متعلق دوسرے مسائل کے سلسلہ میں اپنے دلائل ذکر کئے ہیں۔
ما جاء من عند اللہ کا اقرار
ما جاء من عند اللہ، اللہ کی طرف سے نازل ہونے والی تمام چیزوں کے اقرار کا عقیدہ فضل بن شاذان کے کلام میں ایک خاص اعتبار کا حامل ہے۔ مثال کے طور پر کشی کی روایت کے مطابق انہوں نے خدا کے عرش کی بلندی پر ہونے سے مربوط آیات کو ان کے ظاہری معنی کے ساتھ اخذ کیا ہے اور ایک لحاظ سے اللہ کی تجسیم کو قبول کر لیا ہے۔ جبکہ وہ صفات خداوند کو اس کے عام مفہوم کے ہٹ کر اسے انسانوں سے مربوط سمجھتے ہیں اور اس بات پر تاکید کرتے ہیں کہ کوئی بھی مخلوق اللہ سے شباہت نہیں رکھتی ہے۔[31]
البتہ ممکن ہے کہ راویوں سے ان کے سلسلہ میں نقل شدہ اقوال کی جزئیات کے صحیح درک میں تردید کی جائے لیکن ان باتوں کے ان کی طرف منسوب ہونے کے امکان کا انکار بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب وہ خود کو ہشام بن حکم، یونس بن عبد الرحمن اور سکاکی کے جانشین کے طور پر پیش کرتے ہیں۔[32] بلکہ ضروری ہے کہ ان کے اور ان کے اسلاف کے عقاید کے سلسلہ میں تجسیم کے معنی کے درک کی طرف توجہ مبذول کی جائے۔[33] بطور کلی صفات الہی کے باب میں ان کے عقاید، نقل کے مطابق، اہل سنت سلفیوں کے عقاید سے زیادہ شباہت رکھتے ہیں۔
امامیہ کے دیگر مذاہب سے رابطہ
وہ عراق میں فتحی و واقفی مذاہب کے مشایخ سے نزدیکی رابطہ رکھتے تھے اور وہ فتحی مسلک کے بزرگ ابن فضال کے مناظروں کی بزم میں شرکت کرتے تھے اور ان کے مورد پسند افراد میں سے تھے۔[34]
ان کے مشایخ کی فہرست میں بعض دیگر مشایخ جیسے علی بن اسباط کا نام بھی مشاہدہ میں آتا ہے۔[35] ان کے واقفی مذہب مشایخ میں سیف بن عمیرہ، عثمان بن عیسی، عبد اللہ قاسم حضرمی اور عبد اللہ بن جبلہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔[36]
ان کے آثار و تالیفات
ان کے آثار اور تصنیفات کی تعداد 180 سے زیادہ بتائی گئی ہے کہ جن میں سے بعض علم کلام اور فقہ کے سلسلہ میں ہیں۔ نجاشی نے رجال[37] میں اور شیخ طوسی نے الفہرست[38] میں ان کی بعض تالیفات کا ذکر کیا ہے جن مں کچھ درج ذیل ہیں:
۱۔ اثبات الرجعہ؛ اس کتاب کے بعض حصے باسم موسوی کی کوشش سے مجلہ تراثنا[39] میں شائع ہو چکے ہیں۔
۲۔ الطلاق: شیخ کلینی[40] نے بعض حصے نقل کئے ہیں جو ظاہرا اسی کتاب سے ماخوذ ہیں۔
۳۔ علل الشرایع؛ عبادات سے مربوط علل کے بارے میں ہے جسے نجاشی و طوسی[41] نے نقل کیا ہے۔
۴۔ الفرایض الکبیر؛[42]
۵۔ الفرایض المتوسط؛[43]
۶۔ الفرایض الصغیر؛[44]
۷۔ مسائل البلدان؛ نجاشی[45] نے اس کتاب کی طرف اشارہ کیا ہے اور شیخ طوسی نے اپنی بعض تالیفات میں اس کے کچھ حصوں کو نقل کیا ہے۔[46]
۸۔ یوم و لیلہ؛ اس کتاب کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ امام حسن عسکری (ع) کی نظر سے گذری ہے اور مورد تائید واقع ہوئی ہے۔[47]
ایک اور کتاب الایضاح کے عنوان سے محدث ارموی کی کوشش سے، تہران سے 1351 ش میں فضل بن شاذان کے نام سے شائع ہوئی ہے اور اس کے بعد بیروت سے 1402 ھ 1982 ء میں دوبارہ شائع ہوئی ہے۔ متقدمین علماء میں سے کسی نے بھی اس کتاب کو فضل بن شاذان سے منسوب نہیں کیا ہے۔ یہ نسبت پہلی بار گیارہویں صدی ہجری میں ملا محسن فیض کاشانی کی تالیفات میں ان کی طرف سے دی گئی ہے۔[48] مولف نے الایضاح میں امامیہ مخالفین اور خاص طور پر معتزلہ، جہمیہ، مرجئہ، خوارج اور اصحاب حدیث کے بطلان کا تذکرہ کیا ہے۔ محدث ارموی نے کتاب الایضاح کے مقدمہ میں سعی کی ہے کہ بعض شواہد کے ذکر کے ساتھ اس کتاب کے فضل بن شاذان کی طرف انتساب کو صحیح ثابت کر سکیں۔
جوابات
فضل بن شاذان کی تالیفات کے سلسلہ میں جو فہرست نجاشی[49] اور شیخ طوسی[50] نے پیش کی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مختلف فکری گروہوں سے متصادم تھے اور ان کے مذہب کے رد پر کتابیں لکھی ہیں۔ منجملہ ان میں سے معتزلہ، معطلہ، مرجئہ، خوارج اور شیعہ غالیوں کا نام لیا جا سکتا ہے۔ اسی سلسلہ می کرامیہ مذہب کے رد پر تالیف کی گئی ان کی کتاب، جس کے موسس کی 255 ھ میں وفات ہوئی اور خاص طور پر قرامطہ کے رد میں لکھی گئی کتاب جو 264 ھ میں اس مسلک کی تاسیس کے کجھ عرصہ بعد تحریر کی گئی، قابل تامل ہے۔
حوالہ جات
- ↑ نک: نجاشی،الرجال، ۱۴۰۷ق، ص۳۰۶
- ↑ نک: نجاشی،الرجال، ۱۴۰۷ق، ص۳۴؛ طوسی، اختیار معرفت الرجال، ۱۳۴۸ش، ص۵۱۵، ۵۹۱ -۵۹۲
- ↑ نک: نجاشی،الرجال، ۱۴۰۷ق، ص۳۴؛ طوسی، اختیار معرفت الرجال، ۱۳۴۸ش، ص۵۱۵، ۵۹۱ -۵۹۲
- ↑ نک: نجاشی، الرجال، ۱۴۰۷ق، ص۳۴؛ طوسی، اختیار معرفت الرجال، ۱۳۴۸ش، ص۵۱۵، ۵۹۱ -۵۹۲؛ ابن شاذان، مختصر اثبات الرجعہ، ص۲۰۸، ۲۰۹، ۲۱۳؛ طوسی، الغیبہ، ۱۳۹۸ق، ۲۷۱
- ↑ طوسی، اختیار معرفت الرجال، ۱۳۴۸ش، ص۵۳۹ -۵۴۰
- ↑ طوسی، اختیار معرفت الرجال، ۱۳۴۸ش، ص۵۴۳
- ↑ نک: طوسی، اختیار معرفت الرجال، ۱۳۴۸ش، ص۵۳۸، ۵۴۳
- ↑ طوسی، الرجال، ۱۳۸۰ق، ص۴۲۰
- ↑ نک: ابن بابویہ، التوحید، ۱۳۸۷ق، ص۱۳۷، ۲۷۰؛ ابن بابویہ، الخصال، ۱۳۸۹ق، ج۱، ص۵۸؛ ابن بابویہ، عیون الاخبار، ۱۳۹۰ق، ج۲، ص۱۱۹
- ↑ طوسی، اختیار معرفت الرجال، ۱۳۴۸ش، ص۵۴۲ -۵۴۳؛ قس: طوسی، الرجال، ۱۳۸۰ق، ص۴۳۴، ابن شاذان کو امام علی نقی کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔
- ↑ طوسی، اختیار معرفت الرجال، ۱۳۴۸ش، ص۵۴۱، ۵۴۳
- ↑ طوسی، اختیار معرفت الرجال، ۱۳۴۸ش، ص۵۳۸، ۵۴۲، ۵۴۳
- ↑ طوسی، الفہرست، ص۱۲۴
- ↑ طوسی، الفہرست، ص۱۲۴
- ↑ محقق حلی، المعتبر، ۱۳۱۸ق، ص۷، سطر ۱۱
- ↑ ابن بابویہ، من لایحضره الفقیه، ۱۳۷۶ق، ج۴، ص۱۹۷
- ↑ بحر العلوم، الرجال، ۱۳۶۳ق، ج۳، ص۲۱۵
- ↑ قس: علامہ حلّی، مختلف الشیعہ، ۱۳۲۴ق، ج۵، ص۱۷۹
- ↑ نجاشی،الرجال، ۱۴۰۷ق، ص۳۰۷
- ↑ نک: طوسی، اختیار معرفت الرجال، ۱۳۴۸ش، ص۴۴۶
- ↑ العلل، ص۱؛ قس: طوسی، اختیار معرفت الرجال، ۱۳۴۸ش، ص۵۳۹، سطر ۲ و ۳، ۵۴۰، سطر ۱۲ و بعد
- ↑ نک: ابن شاذان، مختصر اثبات الرجعہ، مختلف مقام پر
- ↑ نک: قمی، تاریخ قم، ۱۳۶۱ش، ص۱۹۳
- ↑ ابن شاذان، مختصر اثبات الرجعہ، ص۳
- ↑ ابن شاذان، مختصر اثبات الرجعہ، ص۴
- ↑ طوسی، اختیار معرفت الرجال، ۱۳۴۸ش، ص۵۴۰ -۵۴۱
- ↑ طوسی، اختیار معرفت الرجال، ۱۳۴۸ش، ص۵۳۸
- ↑ طوسی، اختیار معرفت الرجال، ۱۳۴۸ش، ص۵۳۸
- ↑ ابن شاذان، علل الشریعہ، ص۱-۴
- ↑ سید مرتضی، الفصول المختاره، ج۱، ص۸۳ - ۸۵؛ طوسی، اختیار معرفہ الرجال، ۱۳۴۸ش، ص۵۳۹
- ↑ نک: طوسی، اختیار معرفہ الرجال، ۱۳۴۸ش، ص۵۴۰، ۵۴۲؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۳۷۹ق، ج۳، ص۲۲۸
- ↑ طوسی، اختیار معرفہ الرجال، ۱۳۴۸ش، ص۵۳۹
- ↑ برای تفصیل، نک: ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۳۷۹ق، ج۳، ص۲۲۸
- ↑ طوسی، اختیار معرفت الرجال، ۱۳۴۸ش، ص۵۱۶
- ↑ طوسی، الغیبہ، ۱۳۹۸ق، ۲۸۴
- ↑ نک: طوسی، الغیبہ، ۱۳۹۸ق، ۲۸، ۱۰۲، ۲۷۱، ۲۸۳
- ↑ نجاشی، الرجال، ۱۴۰۷ق، ص۳۰۷
- ↑ طوسی، الفہرست، ص۱۲۴- ۱۲۵
- ↑ شم ۱۵، قم، ۱۴۰۹ق
- ↑ کلینی، الکافی، ۱۳۷۷ق، ج۶، ص۹۳-۹۶
- ↑ نجاشی، الرجال، ۱۴۰۷ق، ص۳۰۷؛ طوسی، الفہرست، ص۱۲۴- ۱۲۵
- ↑ نجاشی، الرجال، ۱۴۰۷ق، ص۳۰۷
- ↑ نجاشی، الرجال، ۱۴۰۷ق، ص۳۰۷
- ↑ نجاشی، الرجال، ۱۴۰۷ق، ص۳۰۷
- ↑ نجاشی، الرجال، ۱۴۰۷ق، ص۳۰۷
- ↑ نک: استرابادی، تأویل الآیات، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۳۶
- ↑ نک: طوسی، اختیار معرفت الرجال، ۱۳۴۸ش، ص۵۳۸، ۵۴۲
- ↑ مثلاً نک: فیض کاشانی، الاصول الاصلیہ، ۱۳۴۹ش، ص۵
- ↑ نجاشی،الرجال، ۱۴۰۷ق، ص۳۰۷
- ↑ طوسی، الفہرست، ص۱۲۴
مآخذ
- ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، بہ کوشش محمد ابوالفضل ابراہیم، قاہره، ۱۳۷۹ق /۱۹۵۹ء
- ابن بابویہ، محمد، التوحید، بہ کوشش ہاشم حسینی، تہران، ۱۳۸۷ق
- ابن بابویہ، محمد، الخصال، بہ کوشش علی اکبر غفاری، تهران، ۱۳۸۹ق
- ابن بابویہ، محمد، عیون الاخبار، نجف، ۱۳۹۰ق
- ابن بابویہ، محمد، من لا یحضره الفقیہ، نجف، ۱۳۷۶ق
- ابن شاذان، فضل، مختصر اثبات الرّجعہ، بہ کوشش باسم موسوی، تراثنا، قم، ۱۴۰۹ق، شم ۱۵
- ابن شاذان، فضل، العلل، بہ کوشش احمد پاکتچی، غیر مطبوعہ
- ابن شہر آشوب، محمد، المناقب، قم، چاپخانه علمیہ
- استر ابادی، شرف الدین، تأویل الایات، قم، ۱۴۰۷ق
- الایضاح، منسوب بہ ابن شاذان، بہ کوشش جلال الدین محدث، تہران، ۱۳۵۱ش
- بحر العلوم، محمد مہدی، الرجال، تہران، ۱۳۶۳ق
- برقی، احمد، الرجال، تہران، ۱۳۴۲ش
- سید مرتضی، علی، الشافی، ایران، ۱۳۰۱ق
- سید مرتضی، علی، الفصول المختاره، نجف، کتابخانہ حیدریہ
- طوسی، محمد، اختیار معرفت الرجال، بہ کوشش حسن مصطفوی، مشہد، ۱۳۴۸ش
- طوسی، محمد، الرجال، بہ کوشش محمد صادق بحر العلوم، نجف، ۱۳۸۰ق /۱۹۶۰ء
- طوسی، محمد، الغیبہ، تہران، ۱۳۹۸ق
- طوسی، محمد، الفہرست، بہ کوشش محمد صادق بحر العلوم، نجف، کتابخانہ مرتضویہ
- علامہ حلّی، حسن، مختلف الشیعہ، ایران، ۱۳۲۴ق
- فیض کاشانی، محمد محسن، الاصول الاصلیہ، بہ کوشش جلال الدین محدّث، تهران، ۱۳۴۹ش
- قمی، حسن، تاریخ قم، ترجمہ حسن بن علی قمی، بہ کوشش جلال الدین تہرانی، تہران، ۱۳۶۱ش
- کلینی، محمد، الکافی، تہران، ۱۳۷۷ق
- محقق حلّی، جعفر، المعتبر، ایران، ۱۳۱۸ق
- نجاشی، احمد، الرجال، بہ کوشش موسی زنجانی، قم، ۱۴۰۷ق