عزاداری طویریج

ویکی شیعہ سے
عزاداری طویریج
عاشورا کے دن عزاداری طویریج
معلومات
زمان‌10 محرم
مکاناز شہر طویریج تا حرم امام حسینؑ
منشاء تاریخیسنہ61ھ کو تدفین امام حسینؑ کے موقع پر بنی اسد کی پیروی
اشعارلبیک یاحسین، واحسینا و وا ویل علی العباس
اہم مذہبی تہواریں
سینہ‌زنی، زنجیرزنی، اعتکاف، شب بیداری، تشییع جنازہ،
متفرق رسومات


عزاداری طُوَیریج عاشورا کے دن اہالیان طویریج کا اپنے شہر سے حرم امام حسینؑ تک عزاداری کے جلوس کا نام ہے۔ عزاداری کے جلوس میں شامل لوگ "ہرولہ" کرتے ہوئے یعنی ایک خاص قسم کے رفتار کے ساتھ راستہ طے کرتے ہیں۔ جلوس میں شامل لوگ طویریج سے کربلا تک کے 20 کلومیٹر کا فاصلہ «واحسینا»، «لبیک یا حسین» اور «وا ویل علی العباس» کے نعروں کے ساتھ طے کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سید محمد مہدی بحر العلوم (متوفی:1212ھ) عزاداری کے جلوس میں شامل ہوتے تھے اور اس کی دلیل یہ بیان کی گئی ہے کہ امام زمان (عج) کو اس عزاداری میں مشاہدہ کیا گیا ہے؛ البتہ بعض لوگوں نے اس ماجرا کو تردید کیا ہے۔

سب سے پہلے سید صالح قزوینی(متوفی: 1304ھ) نے ہرولہ کی شکل میں اس قسم کے رسم عزاداری کو منعقد کیا ہے۔ بعض محققین کے مطابق قبیلہ طویریج کی جانب سے ہرولہ کے انداز میں عزاداری کرنے کی تاریخ کا دورانیہ 300 سال سے زیادہ بتایا گیا ہے۔ سنہ 61ھ میں بنی اسد کے مرد حضرات نے ہرولہ کی صورت میں جاکر امام حسین علیہ السلام کا رسم تدفین انجام دیا تھا، طویریج قبیلہ آج بھی اسی کی علامت کے طور پر ہرولہ کرتے ہوئے جلوس عزا نکالتے ہیں۔

طُوَیریج کا جلوس عزا پوری دنیا میں عاشورا کے دن عزاداری کے سلسلے میں نکالے جانے والے جلوسوں میں سب سے بڑا جلوس عزا شمار ہوتا ہے۔

طویریج کا جلوس عزا

عاشورا کے دن منعقدہ عزاداری امام حسینؑ میں قبیلہ طویریج کا جلوس عزا، دنیا کا سب سے بڑا جلوس عزا شمار ہوتا ہے۔[1] اسی طرح کہا جاتا ہے کہ طویریج کا یہ رسم عزاداری دنیا کے سب سے بڑے انسانی اجتماعات میں شمار ہوتا ہے.[2] صدام حکومت کے سقوط کے بعد لاکھوں کی تعداد میں عراقی اور غیر عراقی طویریج کے جلوس عزا میں شریک ہوتے ہیں۔ اس جلوس عزا میں ایرانیوں کی ایک بڑی تعداد بھی شرکت کرتی ہے۔[3]

طویریج کا یہ جلوس عزا عاشورا کے دن علی الصبح کربلائے معلیٰ سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شہر طویریج سے بر آمد ہوکر حرم امام حسین ؑ کی جانب روانہ ہوتا ہے۔ یہ جلوس عزا ظہر سے پہلے "قنطرۃ السلام" نامی علاقے میں پہنچتا ہے جو کہ کربلا سے 2 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، جلوس عزا کو یہاں نماز ظہرین کے لیے روک لیا جاتا ہے۔ جو لوگ کربلا کی طرف رواں دواں ہوتے ہیں وہ راستے میں اس جلوس عزا میں شریک ہوتے جاتے ہیں۔ جلوس عزا کربلا کے احاطے میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے خیمہ گاہ حسینی میں داخل ہوتا ہے اس کے بعد حرم امام حسینؑ اور حرم حضرت عباس علمدارؑ میں داخل ہوتا ہے۔[4]

عزاداری کا یہ سلسلہ ہر سال دن کے آخری پہر تک جاری رہتا ہے۔ راستہ چلنے کے دوران اس جلوس عزا کے ساتھ ملحق ہونے والے آخری گروہ عراقی سکیورٹی فورس کے جوان اور عورتیں ہیں۔[5]

رکضہ کی رسم

«رَکضَة الطُوَیریج» سے مراد ایک خاص نوعیت کی ماتم داری ہے؛ جس میں عزادار ننگے سر اور پاؤں (ہرولہ کرتے ہوئے) ایک خاص انداز میں چلتے ہوئے حرم امام حسین ؑ کی جانب روانہ ہوتے ہیں.[6] «رکضہ نامی» یہ رسم تقریبا 150سال سے چلتا آرہا ہے۔[7]

جلوس کے نعرے

عزاداران، جلوس عزا کےدوران، اسی طرح حرم امام حسین ؑ میں داخل ہوتے ہوئے اونچی آواز میں درج ذیل مضامین پر مشتمل نعرے لگاتے ہیں: «واحسین»، «لبیک یاحسین»، «یا لَثاراتِ الحسین»، «لبیک یا داعی الله»، «أبد والله ما نَنسی حسینا» (اللہ کی قسم ہم قیامت تک امام حسینؑ کو بھول نہیں پائیں گے)، «یا عباس جی بالمای لسکینه» (اے عباس علمدارؑ حضرت سکینہ کے لیے پانی لائیے)، «الیوم الیوم نعزّی فاطمه» (آج ہم حضرت فاطمہ الزہراؑ کو تسلیت عرض کرتے ہیں)، «واویل علی العباس»۔[8]

طویریج کے رسم کا تاریخی پس منظر

بعض تاریخی نقل کے مطابق دستہ عزاداری کی تشکیل اور ہرولہ کرتے ہوئے راستہ چلنے کا آغاز سید صالح قزوینی نے کیا ہے۔ انہوں نے شہر طویریج میں ماہ محرم کا پہلا عشرہ دو سال عزاداری امام حسین ؑ کے انعقاد کے غرض سے اپنے گھر کو عزا خانہ قرار دیا۔ سید صالح عاشورا کی صبح ہزاروں لوگوں کے اجتماع میں مقتل سید ابن طاؤوس سے مصائب امام حسین پڑھتے تھے، ناشتہ کرنے کے بعد تمام لوگ جلوس کی شکل میں کربلائے معلی کی جانب روانہ ہوتے تھے۔[9] جب ظہر کے وقت باب الطویریج (شہر کربلا میں داخل ہونے کا ایک مرکزی دروازہ) پر پہنچتے تو نماز ظہرین ادا کرتے تھے اس کے بعد "رسومات رکضہ" ادا کرتے ہوئے حضرت امام حسینؑ اور حضرت عباس علمدارؑ کے حرم کی طرف روانہ ہوتے تھے۔[10] وقت ظہر کے کچھ ہی دیر بعد (وہ وقت جس میں امام حسین کی شہادت واقع ہوئی) زائرین پیدل کربلا میں داخل ہوتے تھے، لیکن سید صالح ہزاروں زائرین کے درمیان گھوڑے پر سوار ہوکر راہ چلتے تھے۔ یہ رسم، سید صالح قزوینی کی وفات کے بعد بھی سنہ1304ھ میں ان کی اولادوں کے ذریعے انجام پایا۔ اس کے بعد چودہویں صدی کے آخر تک سید صالح کے لواحقین دستہ عزاداری طویریج کا انتظام کرتے آرہے ہیں۔[11]

یہ رسومات سنہ1990ء تک جاری رہے۔ سنہ1991ء میں جب عراق کی بعثی حکومت نے جلوس عزا پر پابندی لگائی تو لوگوں نے ان رسومات کی ادائیگی میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جلوس نکالا۔ حکومت وقت کےکارندوں نے جلوس نکالنے کے جرم میں بہت سے عزاداروں کو گرفتار کیا یہاں تک کہ بعض عزاداروں کو پھانسی بھی دی گئی۔ سنہ2003ء میں صدام حکومت کے سقوط کے بعد عزاداری امام حسینؑ کا یہ سلسلہ دوبارہ آغاز ہوا۔[12]

300 سال قدیمی ہونے کا دعوا

سید صالح شہرستانی (متوفی: 1395ھ) نے اپنی کتاب «تاریخ النیاحہ» میں اس بات کا اظہار کیا ہے کہ قبیلہ طویریج میں ہرولہ کی شکل میں رسم عزاداری کی ادائیگی 300 سال پہلے سے جاری ہے۔ اس رسم میں شرکت کرنے والوں کا عقیدہ یہ ہے کہ اس طرح کا جلوس عزا نکالنا سنہ61ھ میں بنی اسد کا کربلا کی طرف روانہ ہونے کی علامت کے طور ہے۔[13]

طویریج جلوس میں امام مہدی (عج) کی شرکت کی داستان

معروف ہے کہ حضرت امام مہدیؑ کو طویریج کے ماتمی جلوس میں مشاہدہ کیا گیا ہے۔ اس داستان کا ماخذ سید مہدی بحر العلوم(متوفی: 1212ھ) کا کلام ہے۔ «امام زمان اور سید بحر العلوم» نامی کتاب میں منقول داستان کے مطابق سنہ1333ہجری میں نجف کے ایک شیعہ عالم دین نے طویریج کے دستہ عزاداری میں اپنی شرکت کی دلیل یہ پیش کی کہ علامہ بحر العلوم اس جلوس عزا میں شرکت کرتے تھے اور دوسرے عام لوگوں کی طرح پابرہنہ سینہ زنی کرتے تھے۔ جلوس کے اختتام پر علامہ بحر العلوم سے اس سلسلے میں استفسار کیا گیا تو جواب ملا کہ انہوں نے اس جلوس عزا میں شیعوں کے بارہویں امام کو مشاہدہ کیا ہے۔[14] یہ داستان کئی مآخذ میں نقل کی گئی ہے۔[15]

کتاب «تاریخ النیاحہ» (یہ کتاب چودہویں صدی ہجری میں تالیف کی گئی ہے) کے مؤلف کے مطابق طویریج کے دستہ عزاداری میں امام مہدی(عج) کو علامہ بحر العلوم نے خواب میں دیکھا ہے۔[16]

طویریج میں امام مہدیؑ کی عزاداری سے متعلق شکوک و شبہات

کہا جاتا ہے کہ امام مہدیؑ اور بحر العلوم سے متعلق لکھی ہوئی کسی کتاب میں طویریج کے جلوس عزا میں امام زمانؑ کی شرکت سے متعلق کوئی ذکر نہیں آیا ہے۔[17] اسی طرح کہا گیا ہے کہ طویریج کےجلوس عزا کا آغاز سنہ 1303ہجری میں ہوا ہے جبکہ علامہ بحر العلوم کی وفات سنہ1212ہجری میں ہوئی ہے؛ لہذا اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ ماجرا حقیقت سے دور لگتا ہے اور اگر اصل ماجرا کو مان بھی لیا جائے تو بھی داستان میں موجود شخصیت خود علامہ بحر العلوم نہیں بلکہ احتمالا ان کا کوئی پوتا ہے۔[18]

علامہ بحر العلوم کے شاگرد محمد کاظم ہزار جریبی(متوفی: 1259ھ) جنہوں نے بحر العلوم کے فضائل و کرامات پر مشتمل کتاب تالیف کی ہے، کا کہنا ہے: یہ جو کہا جاتا ہے کہ سید بحرالعلوم نےطویریج کے جلوس عزا میں امام زمانؑ کو مشاہدہ کیا ہے میرے نزدیک ثابت شدہ نہیں ہے۔[19]

حوالہ جات

  1. «نگاهی به عزای طویریج بزرگترین عزای حسینی»، العتبة الحسینیة المقدسة.
  2. «برگزاری بزرگترین مراسم عزاداری جهان در روز شهادت حضرت سید الشهدا(ع) در کربلای معلی»، العتبة الحسینیة المقدسة.
  3. «آیین طویریج در کربلا برگزار شد»، خبرگزاری جمهوری اسلامی.
  4. «نگاهی به عزای طویریج بزرگترین عزای حسینی»، العتبة الحسینیة المقدسة.
  5. «عزاداری هروله طویریج در بین الحرمین کربلا آغاز شد»، خبرگزاری صداوسیما.
  6. «داستان دسته طویریج چیست؟»، سایت مشرق.
  7. «آیین طویریج در کربلا برگزار شد»، خبرگزاری جمہوری اسلامی.
  8. انصاری، «دسته طویریج دسته‌ای به بلندای چهاده قرن»، خبر آنلاین.
  9. قزوینی و رضایی، «موکب عزاداری طویریج و نقش سیدصالح حسینی قزوینی در احیا و تداوم آن»، ص2-3.
  10. «آیین طویریج در کربلا برگزار شد»، سایت خبرگزاری جمهوری اسلامی.
  11. قزوینی و رضایی، «موکب عزاداری طویریج و نقش سیدصالح حسینی قزوینی در احیا و تداوم آن»، ص۲-۳.
  12. «برگزاری بزرگترین مراسم عزاداری جهان در روز شهادت حضرت سید الشهدا(ع) در کربلای معلی»، سایت العتبة الحسینیة المقدسة.
  13. شهرستانی، تاریخ النیاحة، بی‌تا، ج2، ص45.
  14. رفیعی، امام زمان(عج) و سید بحر العلوم، 1386شمسی، ص194-197.
  15. «نگاهی به عزای طویریج بزرگترین عزای حسینی»، سایت العتبة الحسینیة المقدسة.
  16. شهرستانی، تاریخ النیاحة، بی‌تا، ج2، ص45.
  17. «در کتابي خوانده ام امام زمان(عج) همراه عده اي بر سر زنان به...»، پایگاه اندیشه قم.
  18. «سید بحرالعلوم و عزادارى امام زمان علیه السلام ـ بررسی یک داستان ساختگی»، سایت خادم الموالی.
  19. هزارجریبی، فضایل و کرامت علامه سید محمدمهدی بحرالعلوم، 1397شمسی، ص50.

مآخذ

  • «آیین طویریج در کربلا برگزار شد»، خبرگزاری جمہوری اسلامی، تاریخ مشاہدہ: 9 شهریور 1399شمسی، تاریخ اخذ: 6شہریور 1401شمسی.
  • انصاری، ہادی، «دسته طویریج دسته‌ای به بلندای چہارده قرن»، خبر آنلاین، تاریخ مشاہدہ: 7 شہریور 1399شمسی، تاریخ اخذ: 6 شہریور 1401شمسی.
  • داستان دسته طویریج چیست؟، مشرق‌نیوز، تاریخ مشاہدہ: 27 آبان 1392شمسی، تاریخ اخذ: 6 شہریور 1401شمسی.
  • رفیعی، سید جعفر، امام زمان و سید بحرالعلوم، انتشارات یاران قائم، قم، 1386شمسی.
  • شہرستانی، سید صالح، تاریخ النیاحة علی الامام الشہید الحسین بن علی علیہما السلام، بیروت، دارالزہراء، بی‌تا.
  • «عزاداری ہروله طویریج در بین الحرمین کربلا آغاز شد»، سایت خبرگزاری صدا و سیما، تاریخ مشاہدہ: 18مرداد 1401شمسی، تاریخ اخذ: 6 شہریور 1401شمسی.
  • قزوینی، جودت، رضایی، محمدمہدی، «موکب عزاداری طویریج و نقش سید صالح حسینی قزوینی در احیا و تداوم آن»، در مجله فرہنگ زیارت، شماره 43، تابستان 1399شمسی.
  • «نگاہی به عزای طویریج بزرگترین عزای حسینی»، سایت العتبة الحسینیة المقدسة، تاریخ اخذ: 31 مرداد 1401شمسی.