حدیث معراج

ویکی شیعہ سے
حدیث معراج
حدیث معراج
حدیث کے کوائف
موضوعمسائل اخلاقی
صادر ازحدیث قدسی
اصلی راویرسول خدا (ص)
شیعہ مآخذارشاد القلوب، الوافی، الجواہر السنیہ، بحار الانوار
مشہور احادیث
حدیث سلسلۃ الذہب . حدیث ثقلین . حدیث کساء . مقبولہ عمر بن حنظلہ . حدیث قرب نوافل . حدیث معراج . حدیث ولایت . حدیث وصایت . حدیث جنود عقل و جہل


حدیث مِعراج من جملہ احادیث قدسی میں سے ہے جس میں خداوند متعال اور پیغمبر اکرمؐ کے درمیان معراج پر ہونے والی گفتگو کا ذکر ہے۔ پیغمبر اکرمؐ کی معراج سے متعلق بہت ساری احادیث منقول ہیں۔ لیکن یہ حدیث جو حدیث مِعراج کے نام سے مشہور ہے، ایک طولانی حدیث ہے جسے پہلی بار کتاب ارشاد القلوب میں نقل کیا گیا ہے۔ اس حدیث میں بہت سے اخلاقی مسائل جیسے رضا، توکل، دنیا کی مذمت، روزہ، سکوت، ناداروں سے محبت‌، اہل دنیا اور اہل آخرت کی خصوصیات وغیرہ پر بحث کی گئی ہے۔ "راہیان کوی دوست" اور "سِِرُّ الإسراء فی شرح حدیث المعراج" جیسی کتابوں میں حدیث مِعراج کی تشریح کی گئی ہیں۔

تعارف

اخلاق
اخلاقی آیات
آیات افکآیہ اخوتآیہ اطعامآیہ نبأآیہ نجواآیہ مشیتآیہ برآیہ اصلاح ذات بینآیہ ایثار
اخلاقی احادیث
حدیث قرب نوافلحدیث مکارم اخلاقحدیث معراجحدیث جنود عقل و جہل
اخلاقی فضائل
تواضعقناعتسخاوتکظم غیظاخلاصخشیتحلمزہدشجاعتعفتانصافاصلاح ذات البینعیب‌پوشی
اخلاقی رذائل
تکبرحرصحسددروغغیبتسخن‌چینیتہمتبخلعاق والدینحدیث نفسعجبعیب‌جوییسمعہقطع رحماشاعہ فحشاءکفران نعمت
اخلاقی اصطلاحات
جہاد نفسنفس لوامہنفس امارہنفس مطمئنہمحاسبہمراقبہمشارطہگناہدرس اخلاقاستدراج
علمائے اخلاق
ملامہدی نراقیملا احمد نراقیمیرزا جواد ملکی تبریزیسید علی قاضیسید رضا بہاءالدینیسید عبدالحسین دستغیبعبدالکریم حق‌شناسعزیزاللہ خوشوقتمحمدتقی بہجتعلی‌اکبر مشکینیحسین مظاہریمحمدرضا مہدوی کنی
اخلاقی مآخذ
قرآننہج البلاغہمصباح الشریعۃمکارم الاخلاقالمحجۃ البیضاءرسالہ لقاءاللہ (کتاب)مجموعہ وَرّامجامع السعاداتمعراج السعادۃالمراقبات


حدیث مِعراج من جملہ احادیث قدسی میں سے ہے جس میں خداوند متعال اور پیغمبر اکرمؐ کے درمیان معراج پر ہونے والی گفتگو کا ذکر ہے۔ اس گفتگو میں پیغمبر اکرمؐ اور خداوند متعال کے درمیان مختلف اخلاقی مسائل کے حوالے سے سوال و جواب کا تذکرہ ملتا ہے۔[1] پیغمبر اکرمؐ کی معراج سے متعلق بہت ساری احادیث منقول ہیں۔ لیکن یہ حدیث جو حدیث مِعراج کے نام سے مشہور ہے، ایک طولانی حدیث ہے جسے پہلی بار کتاب ارشاد القلوب میں نقل کیا گیا ہے۔ اس حدیث میں بہت سے اخلاقی مسائل پر بحث کی گئی ہے۔[2]

معراج کا واقعہ

تفصیلی مضمون: معراج

معراج، پیغمبر اسلامؐ کے مسجد الاقصی سے آسمانوں کی طرف سفر کو کہا جاتا ہے۔ اسلامی منابع کے مطابق پیغمبر اکرمؐ راتوں رات مکہ سے مسجدالاَقصی پھر وہاں سے آسمان کی طرف لے جایا گیا۔[3] معراج کا واقعہ شیعہ سنی احادیث میں تواتر کے ساتھ نقل ہوا ہے۔[4] قرآن میں بھی سورہ اسراء اور سورہ نجم میں اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔[5]

مضامین

حدیث معراج کا آغاز پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے بہترین عمل کے بارے میں خدا سے پوچھے گئے سوال سے ہوتا ہے۔ جواب میں خدا نے توکل اور رضا کو بہترین عمل قرار دیا اس کے بعد پیغمبر اکرمؐ سے مخاطب ہو کر خدا نے مختلف چیزوں کو بیان فرمایا ہے۔ اس طولانی حدیث کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جس کے ہر حصے میں پیغمبر اکرمؐ مورد خطاب قرار پاتا ہے۔ اس حدیث کے شروع میں خداوند متعال پیغمبر اکرمؐ کو محمدؐ کہہ کر مخاطب قرار دیتا ہے جبکہ بعد والے حصوں میں آپ کو احمدؐ کے نام سے پکارتا ہے۔[6]

"راہیان کوی دوست" نامی کتاب کی مطابق اس حدیث میں مورد بحث واقع ہونے والے موضوعات کچھ یوں ہیں:

  • رضا و توکل؛
  • محبت الہی اور اس تک پہنچنے کا راستہ؛
  • اولیای الہی کی خصوصیات؛
  • بہشتیوں کی خصوصیات اور بھوک اور خاموشی کی میراث؛
  • نماز کو اہمیت دینا اور خدا کو حاضر و ناظر سمجھنا؛
  • اولیای الہی؛
  • بے نواوں سے محبت کرنے کی ضرورت؛
  • خواہشات نفسانی کی پیروی نہ کرنا؛
  • دنیا اور دنیا طلبی کی مذمت؛
  • اہل دنیا کی بیس خصلتیں؛
  • اہل آخرت کی خصوصیات؛
  • زاہدوں کا مقام اور ان کی معرفت؛
  • روزہ اور خاموشی کی قدر و قیمت؛
  • یقین کی منزل تک رسائی حاصل کرنے والے مؤمنین اور خدا کے رضوان کا حصول؛
  • گوارا اور پایدار زندگی کی خصوصیات؛
  • خدا کے امتحانات میں کامیابی اور خدا کی خاص عنایت؛
  • عابدوں اور انبیاء الہی کا مقام؛
  • محبت خدا کی حقیقت۔[7]

حدیث کا منبع

حدیث معراج کو پہلی بار حسن بن محمد دیلمی نے کتاب ارشاد القلوب میں "پیغمبر خداؐ کا شب معراج کو خدا سے پوچھے گئے سوالات" کے عنوان سے ذکر کیا ہے۔[8]

اس کے بعد فیض کاشانی نے الوافی میں حُرّ عامِلی نے جواہر السَّنیہ میں اور علامہ مجلسی نے بِحار الانوار میں کتاب ارشادالقلوب سے نقل کئے ہیں۔[9]

کتاب جواہر السنیہ اور ارشاد القلوب کا فارسی میں ترجمہ ہوا ہے یوں حدیث معراج کا فارسی ترجمہ بھی ان کتابوں میں آیا ہے۔[10] اسی طرح یہ حدیث فارسی ترجمے کے ساتھ کتاب "پیغمبر کے ساتھ معراج کی طرف" جسے علی شیروانی نے تحریر کیا ہے، میں بھی آیا ہے۔ کتاب ارشاد القلوب کا اردو ترجمہ سید صفدر حسین نجفی صاحب نے کیا ہے۔

شرحیں

حدیث معراج میں بہت سارے اخلاقی مسائل بیان ہونے کی وجہ سے بہت سے اخلاقی اور عرفانی کتابوں میں اس حدیث کو زیادہ اہمیت دی گیئ ہے من جملہ یہ کہ:

  • راہیان کوی دوست، محمّد تقی مصباح یزدی، یہ کتاب آیت الله محمدتقی مصباح یزدی کے حوزہ علمیہ میں دئے گئے درس اخلاق کا مجموعہ ہے؛[11]
  • سِرُّ الإسراء فی شرح حدیث المعراج، علی پہلوانی تہرانی (سعادت ‌پرور) جسے سید محمدجواد وزیری فرد نے فارسی میں "سر الأسراء" کے نام سے کیا ہے؛
  • حدیث معراج؛ مناجاة الرحمن فی لیلة المعراج، سید محمد رضا غیاثی کرمانی یہ کتاب حدیث معراج کی مختصر شرح ہے۔

متن و ترجمہ حدیث

حدیث معراج
متن ترجمه
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ

رُوِی عَنْ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ(ع) أَنَّ النَّبِی(ص) سَأَلَ رَبَّهُ سُبْحَانَهُ لَیلَةَ الْمِعْرَاجِ فَقَالَ یا رَبِّ‌ای الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَی لَیسَ شَیءٌ أَفْضَلَ عِنْدِی مِنَ التَّوَکلِ عَلَی وَ الرِّضَا بِمَا قَسَمْتُ یا مُحَمَّدُ وَجَبَتْ مَحَبَّتِی لِلْمُتَحَابِّینَ فِی وَ وَجَبَتْ مَحَبَّتِی لِلْمُتَعَاطِفِینَ فِی وَ وَجَبَتْ مَحَبَّتِی لِلْمُتَوَاصِلِینَ فِی وَ وَجَبَتْ مَحَبَّتِی لِلْمُتَوَکلِینَ عَلَی وَ لَیسَ لِمَحَبَّتِی عِلْمٌ وَ لَا غَایةٌ وَ لَا نِهَایةٌ وَ کلَّمَا رَفَعْتُ لَهُمْ عِلْماً وَضَعْتُ لَهُمْ عِلْماً أُولَئِک الَّذِینَ نَظَرُوا إِلَی الْمَخْلُوقِینَ بِنَظَرِی إِلَیهِمْ وَ لَمْ یرْفَعُوا الْحَوَائِجَ إِلَی الْخَلْقِ بُطُونُهُمْ خَفِیفَةٌ مِنْ أَکلِ الْحَرَامِ نَعِیمُهُمْ فِی الدُّنْیا ذِکرِی وَ مَحَبَّتِی وَ رِضَائِی عَنْهُمْ یا أَحْمَدُ إِنْ أَحْبَبْتَ أَنْ تَکونَ أَوْرَعَ النَّاسِ فَازْهَدْ فِی الدُّنْیا وَ ارْغَبْ فِی الْآخِرَةِ فَقَالَ إِلَهِی کیفَ أَزْهَدُ فِی الدُّنْیا فَقَالَ خُذْ مِنَ الدُّنْیا حَفْناً مِنَ الطَّعَامِ وَ الشَّرَابِ وَ اللِّبَاسِ وَ لَا تَدَّخِرْ لِغَدٍ وَ دُمْ عَلَی ذِکرِی فَقَالَ یا رَبِّ کیفَ أَدُومُ عَلَی ذِکرِک فَقَالَ بِالْخَلْوَةِ عَنِ النَّاسِ وَ بُغْضِک الْحُلْوَ وَ الْحَامِضَ وَ فَرَاغِ بَطْنِک وَ بَیتِک مِنَ الدُّنْیا یا أَحْمَدُ احْذَرْ أَنْ تَکونَ مِثْلَ الصَّبِی إِذَا نَظَرَ إِلَی الْأَخْضَرِ وَ الْأَصْفَرِ وَ إِذَا أُعْطِی شَیئاً مِنَ الْحُلْوِ وَ الْحَامِضِ اغْتَرَّ بِهِ فَقَالَ یا رَبِّ دُلَّنِی عَلَی عَمَلٍ أَتَقَرَّبُ بِهِ إِلَیک قَالَ اجْعَلْ لَیلَک نَهَاراً وَ نَهَارَک لَیلًا قَالَ یا رَبِّ کیفَ ذَلِک قَالَ اجْعَلْ نَوْمَک صَلَاةً وَ طَعَامَک الْجُوعَ- یا أَحْمَدُ وَ عِزَّتِی وَ جَلَالِی مَا مِنْ عَبْدٍ ضَمِنَ لِی بِأَرْبَعِ خِصَالٍ إِلَّا أَدْخَلْتُهُ الْجَنَّةَ یطْوِی لِسَانَهُ فَلَا یفْتَحُهُ إِلَّا بِمَا یعْنِیهِ وَ یحْفَظُ قَلْبَهُ مِنَ الْوَسْوَاسِ وَ یحْفَظُ عِلْمِی وَ نَظَرِی إِلَیهِ وَ یکونُ قُرَّةُ عَینَیهِ الْجُوعَ یا أَحْمَدُ لَوْ ذُقْتَ حَلَاوَةَ الْجُوعِ وَ الصَّمْتِ وَ الْخَلْوَةِ وَ مَا وَرِثُوا مِنْهَا قَالَ یا رَبِّ مَا مِیرَاثُ الْجُوعِ قَالَ الحِکمَةُ وَ حِفْظُ الْقَلْبِ وَ التَّقَرُّبُ إِلَی وَ الْحُزْنُ الدَّائِمُ وَ خِفَّةُ الْمَئُونَةِ بَینَ النَّاسِ وَ قَوْلُ الْحَقِّ وَ لَا یبَالِی عَاشَ بِیسْرٍ أَمْ بِعُسْرٍ یا أَحْمَدُ هَلْ تَدْرِی بِأَی وَقْتٍ یتَقَرَّبُ الْعَبْدُ إِلَی قَالَ [لَا یا رَبِّ قَالَ] إِذَا کانَ جَائِعاً أَوْ سَاجِداً یا أَحْمَدُ عَجِبْتُ مِنْ ثَلَاثَةِ عَبِیدٍ عَبْدٍ دَخَلَ فِی الصَّلَاةِ وَ هُوَ یعْلَمُ إِلَی مَنْ یرْفَعُ یدَیهِ وَ قُدَّامَ مَنْ هُوَ وَ هُوَ ینْعُسُ وَ عَجِبْتُ مِنْ عَبْدٍ لَهُ قُوتُ یوْمٍ مِنَ الْحَشِیشِ أَوْ غَیرِهِ وَ هُوَ یهْتَمُّ لِغَدٍ وَ عَجِبْتُ مِنْ عَبْدٍ لَا یدْرِی أَنِّی رَاضٍ عَنْهُ أَوْ سَاخِطٌ عَلَیهِ وَ هُوَ یضْحَک یا أَحْمَدُ إِنَّ فِی الْجَنَّةِ قَصْراً مِنْ لُؤْلُؤٍ فَوْقَ لُؤْلُؤٍ وَ دُرَّةٍ فَوْقَ دُرَّةٍ لَیسَ فِیهَا قَصْمٌ وَ لَا وَصْلٌ فِیهَا الْخَوَاصُّ أَنْظُرُ إِلَیهِمْ کلَّ یوْمٍ سَبْعِینَ مَرَّةً فَأُکلِّمُهُمْ کلَّمَا نَظَرْتُ إِلَیهِمْ وَ أَزِیدُ فِی مِلْکهِمْ سَبْعِینَ ضِعْفاً وَ إِذَا تَلَذَّذَ أَهْلُ الْجَنَّةِ بِالطَّعَامِ وَ الشَّرَابِ تَلَذَّذُوا أُولَئِک بِذِکرِی وَ کلَامِی وَ حَدِیثِی قَالَ یا رَبِّ مَا عَلَامَةُ أُولَئِک قَالَ مَسْجُونُونَ قَدْ سَجَنُوا أَلْسِنَتَهُمْ مِنْ فُضُولِ الْکلَامِ وَ بُطُونَهُمْ مِنْ فُضُولِ الطَّعَامِ یا أَحْمَدُ إِنَّ الْمَحَبَّةَ لِلَّهِ هِی الْمَحَبَّةُ لِلْفُقَرَاءِ وَ التَّقَرُّبُ إِلَیهِمْ قَالَ وَ مَنِ الْفُقَرَاءُ قَالَ الَّذِینَ رَضُوا بِالْقَلِیلِ وَ صَبَرُوا عَلَی الْجُوعِ وَ شَکرُوا عَلَی الرَّخَاءِ وَ لَمْ یشْکوا جُوعَهُمْ وَ لَا ظَمَأَهُمْ وَ لَمْ یکذِبُوا بِأَلْسِنَتِهِمْ وَ لَمْ یغْضَبُوا عَلَی رَبِّهِمْ وَ لَمْ یغْتَمُّوا عَلَی مَا فَاتَهُمْ وَ لَمْ یفْرَحُوا بِمَا آتَاهُمْ یا أَحْمَدُ مَحَبَّتِی مَحَبَّةُ الْفُقَرَاءِ فَأَدْنِ الْفُقَرَاءَ وَ قَرِّبْ مَجْلِسَهُمْ مِنْک وَ أَبْعِدِ الْأَغْنِیاءَ وَ أَبْعِدْ مَجْلِسَهُمْ عَنْک فَإِنَّ الْفُقَرَاءَ أَحِبَّائِی یا أَحْمَدُ لَا تَزَینْ بِلَینِ اللِّبَاسِ وَ طَیبِ الطَّعَامِ وَ لَینِ الْوِطَاءِ فَإِنَّ النَّفْسَ مَأْوَی کلِّ شَرٍّ وَ رَفِیقُ کلِّ سُوءٍ تَجُرُّهَا إِلَی طَاعَةِ اللَّهِ وَ تَجُرُّک إِلَی مَعْصِیتِهِ وَ تُخَالِفُک فِی طَاعَتِهِ وَ تُطِیعُک فِیمَا تکره [یکرَهُ] وَ تَطْغَی إِذَا شَبِعَتْ وَ تَشْکو إِذَا جَاعَتْ وَ تَغْضَبُ إِذَا افْتَقَرَتْ وَ تَتَکبَّرُ إِذَا اسْتَغْنَتْ وَ تَنْسَی إِذَا کبِرَتْ وَ تَغْفُلُ إِذَا آمَنَتْ وَ هِی قَرِینَةُ الشَّیطَانِ وَ مَثَلُ النَّفْسِ کمَثَلِ النَّعَامَةِ تَأْکلُ الْکثِیرَ وَ إِذَا حُمِلَ عَلَیهَا لَا تَطِیرُ وَ کمَثَلِ الدِّفْلَی لَوْنُهُ حَسَنٌ وَ طَعْمُهُ مُرٌّ یا أَحْمَدُ أَبْغِضِ الدُّنْیا وَ أَهْلَهَا وَ أَحِبَّ الْآخِرَةَ وَ أَهْلَهَا قَالَ یا رَبِّ وَ مَنْ أَهْلُ الدُّنْیا وَ مَنْ أَهْلُ الْآخِرَةِ قَالَ أَهْلُ الدُّنْیا مَنْ کثُرَ أَکلُهُ وَ ضَحِکهُ وَ نَوْمُهُ وَ غَضَبُهُ قَلِیلُ الرِّضَا لَا یعْتَذِرُ إِلَی مَنْ أَسَاءَ إِلَیهِ وَ لَا یقْبَلُ عُذْرَ مَنِ اعْتَذَرَ إِلَیهِ کسْلَانُ عِنْدَ الطَّاعَةِ شُجَاعٌ عِنْدَ الْمَعْصِیةِ أَمَلُهُ بَعِیدٌ وَ أَجَلُهُ قَرِیبٌ لَا یحَاسِبُ نَفْسَهُ قَلِیلُ الْمَنْفَعَةِ کثِیرُ الْکلَامِ قَلِیلُ الْخَوْفِ کثِیرُ الْفَرَحِ عِنْدَ الطَّعَامِ وَ إِنَّ أَهْلَ الدُّنْیا لَا یشْکرُونَ عِنْدَ الرَّخَاءِ وَ لَا یصْبِرُونَ عِنْدَ الْبَلَاءِ کثِیرُ النَّاسِ عِنْدَهُمْ قَلِیلٌ یحْمَدُونَ أَنْفُسَهُمْ بِمَا لَا یفْعَلُونَ وَ یدَّعُونَ بِمَا لَیسَ لَهُمْ وَ یتَکلَّمُونَ بِمَا یتَمَنَّوْنَ وَ یذْکرُونَ مَسَاوِئَ النَّاسِ وَ یخْفُونَ حَسَنَاتِهِمْ فَقَالَ یا رَبِّ کلُّ هَذَا الْعَیبِ فِی أَهْلِ الدُّنْیا قَالَ یا أَحْمَدُ إِنَّ عَیبَ أَهْلِ الدُّنْیا کثِیرٌ فِیهِمُ الْجَهْلُ وَ الْحُمْقُ لَا یتَوَاضَعُونَ لِمَنْ یتَعَلَّمُونَ مِنْهُ وَ هُمْ عِنْدَ أَنْفُسِهِمْ عُقَلَاءُ وَ عِنْدَ الْعَارِفِینَ حُمَقَاءُ یا أَحْمَدُ إِنَّ أَهْلَ الْخَیرِ وَ أَهْلَ الْآخِرَةِ رَقِیقَةٌ وُجُوهُهُمْ کثِیرٌ حَیاؤُهُمْ قَلِیلٌ حُمْقُهُمْ کثِیرٌ نَفْعُهُمْ قَلِیلٌ مَکرُهُمْ النَّاسُ مِنْهُمْ فِی رَاحَةٍ أَنْفُسُهُمْ مِنْهُمْ فِی تَعَبٍ کلَامُهُمْ مَوْزُونٌ مُحَاسِبِینَ لِأَنْفُسِهِمْ مُتَعَیبِینَ لَهَا تَنَامُ أَعْینُهُمْ وَ لَا تَنَامُ قُلُوبُهُمْ أَعْینُهُمْ بَاکیةٌ وَ قُلُوبُهُمْ ذَاکرَةٌ إِذَا کتِبَ النَّاسُ مِنَ الْغَافِلِینَ کتِبُوا مِنَ الذَّاکرِینَ فِی أَوَّلِ النِّعْمَةِ یحْمَدُونَ وَ فِی آخِرِهَا یشْکرُونَ دُعَاؤُهُمْ عِنْدَ اللَّهِ مَرْفُوعٌ وَ کلَامُهُمْ مَسْمُوعٌ تَفْرَحُ بِهِمُ الْمَلَائِکةُ وَ یدُورُ دُعَاؤُهُمْ تَحْتَ الْحُجُبِ یحِبُّ الرَّبُّ أَنْ یسْمَعَ کلَامَهُمْ کمَا تُحِبُّ الْوَالِدَةُ الْوَلَدَ وَ لَا یشْغَلُونَ عَنْهُ طَرْفَةَ عَینٍ وَ لَا یرِیدُونَ کثْرَةَ الطَّعَامِ وَ لَا کثْرَةَ الْکلَامِ وَ لَا کثْرَةَ اللِّبَاسِ النَّاسُ عِنْدَهُمْ مَوْتَی وَ اللَّهُ عِنْدَهُمْ حَی کرِیمٌ یدَعُونَ الْمُدْبِرِینَ کرَماً وَ یزِیدُونَ الْمُقْبِلِینَ تَلَطُّفاً قَدْ صَارَتِ الدُّنْیا وَ الْآخِرَةُ عِنْدَهُمْ وَاحِدَةً یا أَحْمَدُ هَلْ تَعْرِفُ مَا لِلزَّاهِدِینَ عِنْدِی قَالَ لَا یا رَبِّ قَالَ یبْعَثُ الْخَلْقُ وَ ینَاقَشُونَ الْحِسَابَ وَ هُمْ مِنْ ذَلِک آمِنُونَ إِنَّ أَدْنَی مَا أُعْطِی الزَّاهِدِینَ فِی الْآخِرَةِ أَنْ أُعْطِیهُمْ مَفَاتِیحَ الْجِنَانِ کلِّهَا حَتَّی یفْتَحُوا‌ای بَابٍ شَاءُوا وَ لَا أَحْجُبَ عَنْهُمْ وَجْهِی وَ لَأُنْعِمَنَّهُمْ بِأَلْوَانِ التَّلَذُّذِ مِنْ کلَامِی وَ لَأُجْلِسَنَّهُمْ فِی مَقْعَدِ صِدْقٍ وَ أُذَکرُهُمْ مَا صَنَعُوا وَ تَعِبُوا فِی‌دار الدُّنْیا وَ أَفْتَحُ لَهُمْ أَرْبَعَةَ أَبْوَابٍ بَابٍ یدْخُلُ عَلَیهِمُ الْهَدَایا بُکرَةً وَ عَشِیا مِنْ عِنْدِی وَ بَابٍ ینْظُرُونَ مِنْهُ إِلَی کیفَ شَاءُوا بِلَا صُعُوبَةٍ وَ بَابٍ یطَّلِعُونَ مِنْهُ إِلَی النَّارِ فَینْظُرُونَ إِلَی الظَّالِمِینَ کیفَ یعَذَّبُونَ وَ بَابٍ یدْخُلُ عَلَیهِمْ مِنْهُ الْوَصَائِفُ وَ الْحُورُ الْعِینُ قَالَ یا رَبِّ مَنْ هَؤُلَاءِ الزَّاهِدُونَ الَّذِینَ وَصَفْتَهُمْ قَالَ الزَّاهِدُ هُوَ الَّذِی لَیسَ لَهُ بَیتٌ یخْرَبُ فَیغْتَمَّ لِخَرَابِهِ وَ لَا لَهُ وَلَدٌ یمُوتُ فَیحْزَنَ لِمَوْتِهِ وَ لَا لَهُ شَیءٌ یذْهَبُ فَیحْزَنَ لِذَهَابِهِ وَ لَا یعْرِفُهُ إِنْسَانٌ لِیشْغَلَهُ عَنِ اللَّهِ طَرْفَةَ عَینٍ وَ لَا لَهُ فَضْلُ طَعَامٍ یسْأَلُ عَنْهُ وَ لَا لَهُ ثَوْبٌ لَینٌ یا أَحْمَدُ وُجُوهُ الزَّاهِدِینَ مُصْفَرَّةٌ مِنْ تَعَبِ اللَّیلِ وَ صَوْمِ النَّهَارِ وَ أَلْسِنَتُهُمْ کلَالٌ إِلَّا مِنْ ذِکرِ اللَّهِ تَعَالَی قُلُوبُهُمْ فِی صُدُورِهِمْ مَطْعُونَةٌ مِنْ کثْرَةِ صَمْتِهِمْ قَدْ أَعْطَوُا الْمَجْهُودَ فِی أَنْفُسِهِمْ لَا مِنْ خَوْفِ نَارٍ وَ لَا مِنْ شَوْقِ جَنَّةٍ وَ لَکنْ ینْظُرُونَ فِی مَلَکوتِ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ فَیعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ سُبْحَانَهُ أَهْلٌ لِلْعِبَادَةِ یا أَحْمَدُ هَذِهِ دَرَجَةُ الْأَنْبِیاءِ وَ الصِّدِّیقِینَ مِنْ أُمَّتِک وَ أُمَّةِ غَیرِک وَ أَقْوَامٍ مِنَ الشُّهَدَاءِ قَالَ یا رَبِّ‌ای الزُّهَّادِ أَکثَرُ زُهَّادُ أُمَّتِی أَمْ زُهَّادُ بَنِی إِسْرَائِیلَ قَالَ إِنَّ زُهَّادَ بَنِی إِسْرَائِیلَ فِی زُهَّادِ أُمَّتِک کشَعْرَةٍ سَوْدَاءَ فِی بَقَرَةٍ بَیضَاءَ فَقَالَ یا رَبِّ وَ کیفَ ذَلِک وَ عَدَدُ بَنِی إِسْرَائِیلَ أَکثَرُ قَالَ لِأَنَّهُمْ شَکوا بَعْدَ الْیقِینِ وَ جَحَدُوا بَعْدَ الْإِقْرَارِ قَالَ النَّبِی صفَحَمِدْتُ اللَّهَ تَعَالَی وَ شَکرْتُهُ وَ دَعَوْتُ لَهُمْ بِالْحِفْظِ وَ الرَّحْمَةِ وَ سَائِرِ الْخَیرَاتِ- یا أَحْمَدُ عَلَیک بِالْوَرَعِ فَإِنَّ الْوَرَعَ رَأْسُ الدِّینِ وَ وَسَطُ الدِّینِ وَ آخِرُ الدِّینِ إِنَّ الْوَرَعَ بِهِ یتَقَرَّبُ إِلَی اللَّهِ تَعَالَی یا أَحْمَدُ إِنَّ الْوَرَعَ زَینُ الْمُؤْمِنِ وَ عِمَادُ الدِّینِ إِنَّ الْوَرَعَ مَثَلُهُ کمَثَلِ السَّفِینَةِ کمَا أَنَّ الْبَحْرَ لَا ینْجُو إِلَّا مَنْ کانَ فِیهَا کذَلِک لَا ینْجُو الزَّاهِدُونَ إِلَّا بِالْوَرَعِ یا أَحْمَدُ مَا عَرَفَنِی عَبْدٌ وَ خَشَعَ لِی إِلَّا خَشَعَ لَهُ کلُّ شَیءٍ یا أَحْمَدُ الْوَرَعُ یفْتَحُ عَلَی الْعَبْدِ أَبْوَابَ الْعِبَادَةِ فَیکرَمُ بِهِ الْعَبْدُ عِنْدَ الْخَلْقِ وَ یصِلُ بِهِ إِلَی اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ یا أَحْمَدُ عَلَیک بِالصَّمْتِ فَإِنَّ أَعْمَرَ مَجْلِسٍ قُلُوبُ الصَّالِحِینَ وَ الصَّامِتِینَ وَ إِنَّ أَخْرَبَ مَجْلِسٍ قُلُوبُ الْمُتَکلِّمِینَ بِمَا لَا یعْنِیهِمْ یا أَحْمَدُ إِنَّ الْعِبَادَةَ عَشَرَةُ أَجْزَاءٍ تِسْعَةٌ مِنْهَا طَلَبُ الْحَلَالِ فَإِنْ أُطِیبَ مَطْعَمُک وَ مَشْرَبُک فَأَنْتَ فِی حِفْظِی وَ کنَفِی قَالَ یا رَبِّ مَا أَوَّلُ الْعِبَادَةِ قَالَ أَوَّلُ الْعِبَادَةِ الصَّمْتُ وَ الصَّوْمُ قَالَ یا رَبِّ وَ مَا مِیرَاثُ الصَّوْمِ قَالَ الصَّوْمُ یورِثُ الحِکمَةَ وَ الحِکمَةُ تُورِثُ الْمَعْرِفَةَ وَ الْمَعْرِفَةُ تُورِثُ الْیقِینَ فَإِذَا اسْتَیقَنَ الْعَبْدُ لَا یبَالِی کیفَ أَصْبَحَ بِعُسْرٍ أَمْ بِیسْرٍ وَ إِذَا کانَ الْعَبْدُ فِی حَالَةِ الْمَوْتِ یقُومُ عَلَی رَأْسِهِ مَلَائِکةٌ بِیدِ کلِّ مَلَک کأْسٌ مِنْ مَاءِ الْکوْثَرِ وَ کأْسٌ مِنَ الْخَمْرِ یسْقُونَ رُوحَهُ حَتَّی تَذْهَبَ سَکرَتُهُ وَ مَرَارَتُهُ وَ یبَشِّرُونَهُ بِالْبِشَارَةِ الْعُظْمَی وَ یقُولُونَ لَهُ طِبْتَ وَ طَابَ مَثْوَاک إِنَّک تَقْدَمُ عَلَی الْعَزِیزِ الْکرِیمِ الْحَبِیبِ الْقَرِیبِ فَتَطِیرُ الرُّوحُ مِنْ أَیدِی الْمَلَائِکةِ فَتَصْعَدُ إِلَی اللَّهِ تَعَالَی فِی أَسْرَعَ مِنْ طَرْفَةِ عَینٍ وَ لَا یبْقَی حِجَابٌ وَ لَا سِتْرٌ بَینَهَا وَ بَینَ اللَّهِ تَعَالَی وَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ إِلَیهَا مُشْتَاقٌ وَ یجْلِسُ عَلَی عَینٍ عِنْدَ الْعَرْشِ ثُمَّ یقَالُ لَهَا کیفَ تَرَکتِ الدُّنْیا فَیقُولُ إِلَهِی وَ عِزَّتِک وَ جَلَالِک لَا عِلْمَ لِی بِالدُّنْیا أَنَا مُنْذُ خَلَقْتَنِی خَائِفٌ مِنْک فَیقُولُ اللَّهُ صَدَقْتَ عَبْدِی کنْتَ بِجَسَدِک فِی الدُّنْیا وَ رُوحُک مَعِی فَأَنْتَ بِعَینِی سِرُّک وَ عَلَانِیتُک سَلْ أُعْطِک وَ تَمَنَّ عَلَی فَأُکرِمَک هَذِهِ جَنَّتِی مُبَاحٌ فتبیح فَتَبَحْبَحْ فِیهَا وَ هَذَا جِوَارِی فَاسْکنْهُ فَیقُولُ الرُّوحُ إِلَهِی عَرَّفْتَنِی نَفْسَک فَاسْتَغْنَیتُ بِهَا عَنْ جَمِیعِ خَلْقِک وَ عِزَّتِک وَ جَلَالِک لَوْ کانَ رِضَاک فِی أَنْ أُقَطَّعَ إِرْباً إِرْباً وَ أُقْتَلَ سَبْعِینَ قَتْلَةً بِأَشَدِّ مَا یقْتَلُ بِهِ النَّاسُ لَکانَ رِضَاک أَحَبَّ إِلَهِی کیفَ أُعْجَبُ بِنَفْسِی وَ أَنَا ذَلِیلٌ إِنْ لَمْ تُکرِمْنِی وَ أَنَا مَغْلُوبٌ إِنْ لَمْ تَنْصُرْنِی وَ أَنَا ضَعِیفٌ إِنْ لَمْ تُقَوِّنِی وَ أَنَا مَیتٌ إِنْ لَمْ تُحْینِی بِذِکرِک وَ لَوْ لَا سَتْرُک لَافْتَضَحْتُ أَوَّلَ مَرَّةٍ عَصَیتُک إِلَهِی کیفَ لَا أَطْلُبُ رِضَاک وَ قَدْ أَکمَلْتَ عَقْلِی حَتَّی عَرَفْتُک وَ عَرَفْتُ الْحَقَّ مِنَ الْبَاطِلِ وَ الْأَمْرَ مِنَ النَّهْی وَ الْعِلْمَ مِنَ الْجَهْلِ وَ النُّورَ مِنَ الظُّلْمَةِ فَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ عِزَّتِی وَ جَلَالِی لَا أَحْجُبُ بَینِی وَ بَینَک فِی وَقْتٍ مِنَ الْأَوْقَاتِ کذَلِک أَفْعَلُ بِأَحِبَّائِی یا أَحْمَدُ هَلْ تَدْرِی‌ای عَیشٍ أَهْنَی وَ‌ای حَیاةٍ أَبْقَی قَالَ اللَّهُمَّ لَا قَالَ أَمَّا الْعَیشُ الْهَنِیءُ فَهُوَ الَّذِی لَا یفْتُرُ صَاحِبُهُ عَنْ ذِکرِی وَ لَا ینْسَی نِعْمَتِی وَ لَا یجْهَلُ حَقِّی یطْلُبُ رِضَای لَیلَهُ وَ نَهَارَهُ وَ أَمَّا الْحَیاةُ الْبَاقِیةُ فَهِی الَّتِی یعْمَلُ لِنَفْسِهِ حَتَّی تَهُونَ عَلَیهِ الدُّنْیا وَ تَصْغُرَ فِی عَینَیهِ وَ تَعْظُمَ الْآخِرَةُ عِنْدَهُ وَ یؤْثِرَ هَوَای عَلَی هَوَاهُ وَ یبْتَغِی مَرْضَاتِی وَ یعَظِّمَ حَقَّ عَظَمَتِی وَ یذْکرَ عِلْمِی بِهِ وَ یرَاقِبَنِی بِاللَّیلِ وَ النَّهَارِ عِنْدَ کلِّ سَیئَةٍ وَ مَعْصِیةٍ وَ ینْفِی قَلْبَهُ عَنْ کلِّ مَا أَکرَهُ وَ یبْغِضَ الشَّیطَانَ وَ وَسَاوِسَهُ لَا یجْعَلُ لِإِبْلِیسَ عَلَی قَلْبِهِ سُلْطَاناً وَ سَبِیلًا فَإِذَا فَعَلَ ذَلِک أَسْکنْتُ فِی قَلْبِهِ حُبّاً حَتَّی أَجْعَلَ قَلْبَهُ لِی وَ فَرَاغَهُ وَ اشْتِغَالَهُ وَ هَمَّهُ وَ حَدِیثَهُ مِنَ النِّعْمَةِ الَّتِی أَنْعَمْتُ بِهَا عَلَی أَهْلِ مَحَبَّتِی مِنْ خَلْقِی وَ أَفْتَحَ عَینَ قَلْبِهِ وَ سَمْعَهُ حَتَّی یسْمَعَ بِقَلْبِهِ وَ ینْظُرَ بِقَلْبِهِ إِلَی جَلَالِی وَ عَظَمَتِی وَ أُضَیقَ عَلَیهِ الدُّنْیا وَ أُبَغِّضَ إِلَیهِ مَا فِیهَا مِنَ اللَّذَّاتِ وَ أُحَذِّرَهُ مِنَ الدُّنْیا وَ مَا فِیهَا کمَا یحَذِّرُ الرَّاعِی غَنَمَهُ مِنْ مَرَاتِعِ الْهَلْکةِ فَإِذَا کانَ هَکذَا یفِرُّ مِنَ النَّاسِ فِرَاراً وَ ینْقَلُ مِنْ‌دار الْفَنَاءِ إِلَی‌دار الْبَقَاءِ وَ مِنْ‌دار الشَّیطَانِ إِلَی‌دار الرَّحْمَنِ یا أَحْمَدُ لَأُزَینَنَّهُ بِالْهَیبَةِ وَ الْعَظَمَةِ فَهَذَا هُوَ الْعَیشُ الْهَنِیءُ وَ الْحَیاةُ الْبَاقِیةُ وَ هَذَا مَقَامُ الرَّاضِینَ فَمَنْ عَمِلَ بِرِضَائِی أُلْزِمُهُ ثَلَاثَ خِصَالٍ أُعَرِّفُهُ شُکراً لَا یخَالِطُهُ الْجَهْلُ وَ ذِکراً لَا یخَالِطُهُ النِّسْیانُ وَ مَحَبَّةً لَا یؤْثِرُ عَلَی مَحَبَّتِی مَحَبَّةَ الْمَخْلُوقِینَ فَإِذَا أَحَبَّنِی أَحْبَبْتُهُ وَ أَفْتَحُ عَینَ قَلْبِهِ إِلَی جَلَالِی فَلَا أُخْفِی عَلَیهِ خَاصَّةَ خَلْقِی فَأُنَاجِیهِ فِی ظُلَمِ اللَّیلِ وَ نُورِ النَّهَارِ حَتَّی ینْقَطِعَ حَدِیثُهُ مِنَ الْمَخْلُوقِینَ وَ مُجَالَسَتُهُ مَعَهُمْ وَ أُسْمِعُهُ کلَامِی وَ کلَامَ مَلَائِکتِی وَ أُعَرِّفُهُ السِّرَّ الَّذِی سَتَرْتُهُ عَنْ خَلْقِی وَ أُلْبِسُهُ الْحَیاءَ حَتَّی یسْتَحِی مِنْهُ الْخَلْقُ کلُّهُمْ وَ یمْشِی عَلَی الْأَرْضِ مَغْفُوراً لَهُ وَ أَجْعَلَ قَلْبَهُ وَاعِیاً وَ بَصِیراً وَ لَا أُخْفِی عَلَیهِ شیء [شَیئَاً] مِنْ جَنَّةٍ وَ لَا نَارٍ وَ أُعَرِّفَهُ بِمَا یمُرُّ عَلَی النَّاسِ فِی یوْمِ الْقِیامَةِ مِنَ الْهَوْلِ وَ الشِدَّةِ وَ مَا أُحَاسِبُ بِهِ الْأَغْنِیاءَ وَ الْفُقَرَاءَ وَ الْجُهَّالَ وَ الْعُلَمَاءَ وَ أُنَوِّرُ لَهُ فِی قَبْرِهِ وَ أُنْزِلُ عَلَیهِ مُنْکراً یسْأَلُهُ وَ لَا یرَی غَمَّ الْمَوْتِ وَ ظُلْمَةَ الْقَبْرِ وَ اللَّحْدِ وَ هَوْلَ الْمُطَّلَعِ حَتَّی أَنْصِبَ لَهُ مِیزَانَهُ وَ أَنْشُرَ لَهُ دِیوَانَهُ ثُمَّ أَضَعُ کتَابَهُ فِی یمِینِهِ فَیقْرَأُ مَنْشُوراً ثُمَّ لَا أَجْعَلُ بَینِی وَ بَینَهُ تَرْجُمَاناً فَهَذِهِ صِفَاتُ الْمُحِبِّینَ یا أَحْمَدُ اجْعَلْ هَمَّک هَمّاً وَاحِداً فَاجْعَلْ لِسَانَک وَاحِداً وَ اجْعَلْ بَدَنَک حَیاً لَا تَغْفُلْ أَبَداً مَنْ غَفَلَ عَنِّی لَا أُبَالِی بِأَی وَادٍ هَلَک یا أَحْمَدُ اسْتَعْمِلْ عَقْلَک قَبْلَ أَنْ یذْهَبَ فَمَنِ اسْتَعْمَلَ عَقْلَهُ لَا یخْطِئُ وَ لَا یطْغَی یا أَحْمَدُ أَنْتَ لَا تَغْفُلُ أَبَداً مَنْ غَفَلَ عَنِّی لَا أُبَالِی بِأَی وَادٍ هَلَک یا أَحْمَدُ هَلْ تَدْرِی لِأَی شَیءٍ فَضَّلْتُک عَلَی سَائِرِ الْأَنْبِیاءِ قَالَ اللَّهُمَّ لَا قَالَ بِالْیقِینِ وَ حُسْنِ الْخُلُقِ وَ سَخَاوَةِ النَّفْسِ وَ رَحْمَةٍ بِالْخَلْقِ وَ کذَلِک أَوْتَادُ الْأَرْضِ لَمْ یکونُوا أَوْتَاداً إِلَّا بِهَذَا یا أَحْمَدُ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا جَاعَ بَطْنُهُ وَ حَفِظَ لِسَانَهُ عَلَّمْتُهُ الحِکمَةَ وَ إِنْ کانَ کافِراً تَکونُ حِکمَتُهُ حُجَّةً عَلَیهِ وَ وَبَالًا وَ إِنْ کانَ مُؤْمِناً تَکونُ حِکمَتُهُ لَهُ نُوراً وَ بُرْهَاناً وَ شِفَاءً وَ رَحْمَةً فَیعْلَمُ مَا لَمْ یکنْ یعْلَمُ وَ یبْصِرُ مَا لَمْ یکنْ یبْصِرُ فَأَوَّلُ مَا أُبَصِّرُهُ عُیوبُ نَفْسِهِ حَتَّی یشْغَلَ بِهَا عَنْ عُیوبِ غَیرِهِ وَ أُبَصِّرُهُ دَقَائِقَ الْعِلْمِ حَتَّی لَا یدْخُلَ عَلَیهِ الشَّیطَانُ یا أَحْمَدُ لَیسَ شَیءٌ مِنَ الْعِبَادَةِ أَحَبَّ إِلَی مِنَ الصَّمْتِ وَ الصَّوْمِ فَمَنْ صَامَ وَ لَمْ یحْفَظْ لِسَانَهُ کانَ کمَنْ قَامَ وَ لَمْ یقْرَأْ فِی صَلَاتِهِ فَأُعْطِیهِ أَجْرَ الْقِیامِ وَ لَمْ أُعْطِهِ أَجْرَ الْعَابِدِینَ یا أَحْمَدُ هَلْ تَدْرِی مَتَی یکونُ لِی الْعَبْدُ عَابِداً قَالَ لَا یا رَبِّ قَالَ إِذَا اجْتَمَعَ فِیهِ سَبْعُ خِصَالٍ وَرَعٌ یحْجُزُهُ عَنِ الْمَحَارِمِ وَ صَمْتٌ یکفُّهُ عَمَّا لَا یعْنِیهِ وَ خَوْفٌ یزْدَادُ کلَّ یوْمٍ مِنْ بُکائِهِ وَ حَیاءٌ یسْتَحِی مِنِّی فِی الْخَلَاءِ وَ أَکلُ مَا لَا بُدَّ مِنْهُ وَ یبْغِضُ الدُّنْیا لِبُغْضِی لَهَا وَ یحِبُّ الْأَخْیارَ لِحُبِّی إِیاهُمْ یا أَحْمَدُ لَیسَ کلُّ مَنْ قَالَ أُحِبُّ اللَّهَ أَحَبَّنِی حَتَّی یأْخُذَ قُوتاً وَ یلْبَسَ دُوناً وَ ینَامَ سُجُوداً وَ یطِیلَ قِیاماً وَ یلْزَمَ صَمْتاً وَ یتَوَکلَ عَلَی وَ یبْکی کثِیراً وَ یقِلَّ ضَحِکاً وَ یخَالِفَ هَوَاهُ وَ یتَّخِذَ الْمَسْجِدَ بَیتاً وَ الْعِلْمَ صَاحِباً وَ الزُّهْدَ جَلِیساً وَ الْعُلَمَاءَ أَحِبَّاءَ وَ الْفُقَرَاءَ رُفَقَاءَ وَ یطْلُبَ رِضَای وَ یفِرَّ مِنَ الْعَاصِینَ فِرَاراً وَ یشْغَلَ بِذِکرِی اشْتِغَالًا وَ یکثِرَ التَّسْبِیحَ دَائِماً وَ یکونَ بِالْعَهْدِ صَادِقاً وَ بِالْوَعْدِ وَافِیاً وَ یکونَ قَلْبُهُ طَاهِراً وَ فِی الصَّلَاةِ ذَاکیاً وَ فِی الْفَرَائِضِ مُجْتَهِداً وَ قَیماً عِنْدِی مِنَ الثَّوَابِ رَاغِباً وَ مِنْ عَذَابِی رَاهِباً وَ لِأَحِبَّائِی قَرِیباً وَ جَلِیساً یا أَحْمَدُ لَوْ صَلَّی الْعَبْدُ صَلَاةَ أَهْلِ السَّمَاءِ وَ الْأَرْضِ وَ صَامَ صِیامَ أَهْلِ السَّمَاءِ وَ الْأَرْضِ وَ طَوَی مِنَ الطَّعَامِ مِثْلَ الْمَلَائِکةِ وَ لَبِسَ لِبَاسَ الْعَارِی ثُمَّ أَرَی فِی قَلْبِهِ مِنْ حُبِّ الدُّنْیا ذَرَّةً أَوْ سُمْعَتِهَا أَوْ رِئَاسَتِهَا أَوْ حُلْیتِهَا أَوْ زِینَتِهَا لَا یجَاوِرُنِی فِی دَارِی وَ لَأَنْزِعَنَّ مِنْ قَلْبِهِ مَحَبَّتِی وَ عَلَیک سَلَامِی وَ مَحَبَّتِی۔

اللہ کے نام سے جو بہت رحم والا نہایت مہربان ہے

حضرت امیر علیہ‌السلام روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ نے شب معراج کو خداوند متعال سے سوال کیا: اے پروردگا کونسا عمل سب سے زیادہ فضیلت کا حامل ہے؟ خداوند متعال نے جواب دیا: میرے نزدیک میرے اوپر توکل کرنا اور میری تقسیم پر راضی ہونے سے زیادہ کوئی چیز با فضیلت نہیں ہے۔ اے محمّد! مجھ سے محبت کرنے والوں سے محبت کرنے کو اپنے اوپر لازم سمجھتا ہوں، اور میری راہ میں مہربانی کرنے والوں سے محبت کرنے کو اپنے اوپر واجب سمجھتا ہوں، نیز میرے ساتھ رابطہ برقرار کرنے والوں اور مجھ پر توکل کرنے والوں سے محبت کرنے کو بھی اپنے اوپر لازم سجھتا ہوں۔ یاد رکھو کہ میری دوستی کی کوئی انتہا نہیں ہے اور جب بھی ان پر اپنی محبت اور دوستی کو اضافہ کرتا ہوں کوئی نہ کوئی نشانی قرار دیتا ہوں۔ یہ لوگ میری طرح میری مخلوقات کی طرف دیکھتے ہیں اور اپنی احتیاجات کو لوگوں کے سامنے بیان نہیں کرتے اور اپنے پیٹ کو حرام سے بچا کر رکھتے ہیں۔ یہ لوگ دنیا میں میری ذکر اور محبت کی وجہ سے نعمتوں میں غرق رکھتے ہیں اور میں ان سے مکمل طور پر راضی ہوں۔ اے احمد! اگر سب سے زیادہ پر ہیز گار بننا چاہتے ہو تو دنیا میں زہد اختیار کرو اور آخرت کی طرف لو لگائے رہو۔ پوچھا گیا: خدایا کس طرح سب سے زیادہ زہد اختیار کرنے والا ہو جاؤں؟ فرمایا: دنیا میں مختصر خوردنوش اور مختصر لباس پر اکتفا کرو اور آخرت کیلئے ذخیرہ کرو اور ہمیشہ میری یاد سے غافل نہ رہو۔ پوچھا: کس طرح آپ کے ذکر پر مداومت کروں؟ فرمایا: لوگوں سے دوری، خلوت نشینی اختیار کرنے اور دنیا کی تلخ و شیرین چیزوں کی طرف توجہ نہ کرنے نیز اپنے پیٹ اور گھر کو دنیا کی نعمتوں سے خالی رکھ کر۔اے احمد! خبردار بچوں جیسا مت بنو، جو ہر نظر آنے والے رنگ اور تلخ و شیرین میں سے جس چیز کو بھی پا لیتا ہے مغرور ہو جاتا ہے۔ عرض کیا: خدایا مجھے ایک ایسے کام کی ترغیب دیں جس کی انجام دھی سے مجھے تیرا قرب میسر ہو۔؟ فرمایا: اپنی راتوں کو دن اور دنوں کو رات قرار دو۔ پوچھا: کیسے؟ فرمایا: رات کو اپنی نیندھ کو نماز میں اور دن کے وقت اپنی خوراک کو بھوک میں تبدیل کروں(یعنی روزہ رکھو)۔ اے احمد! میری عزت و جلالت کی قسم، اگر وہ مجھے اپنے کردار کے چار بندھنوں کی ضمانت دے دے تو میں اسے جنت میں داخل کردوں گا: وہ اپنی زبان نہ کھولے سوائے ضرورت کے، اور اپنے دل کو شیطان کے وسوسے سے بچائے، اور یہ جان لے کہ میں اس کی تمام حالتوں سے واقف ہوں اور اسے دیکھ رہا ہوں اور اپنی آنکھوں کی روشنی کو بھوک میں تلاش کرے (یعنی روزہ رکھے)ـ اے احمد! اگر بھوک (اور روزے) کی مٹھاس اور خاموشی اور تنہائی اور لوگوں سے دوری اور اس کے بعد آنے والے نتائج کو جان لیتا تو کیا آپ (ہمیشہ ان کے درپے ہوتا)؟ پوچھا گیا: خدایا بھوک کا کیا فائدہ ہے؟ فرمایا: حکمت اور علم کا حصول، دل کی حفاظت، اور میرے قرب کا حصول، اور دائمی حزن، لوگوں کی نسبت زندگی کے اخراجات کا ہلکا ہونا، اور سچ بولنا، اور اس بات سے نہ ڈرنا کہ زندگی آسان ہے یا مشکلـ اے احمد! پتہ ہے بندہ کب میرے قریب ہوتا ہے؟ کہا گیا: نہیں اے میرے رب۔ فرمایا: جب وہ بھوکا (روزے سے ہو) یا سجدے کی حالت میں ہوـ اے احمد! میں حیران ہوں اس شخص پر جو نماز پڑھ رہا ہے اور جانتا ہے کہ وہ کس کے آگے ہاتھ اٹھا رہا ہے اور کس کے سامنے جھپکی لے رہا ہےـ اور میری حیرت ہے جس شخص کے پاس ایک دن کا کھانا ہے اس کے باوجود کل کے روزی کی فکر میں ہے اور میری حیرت ہے کہ وہ نہیں جانتا کہ میں اس سے خوش ہوں یا ناراض لیکن پھر بھی وہ ہنستا ہےـ اے احمد! جنت میں موتیوں اور سونے کا ایک محل ہے کہ میں وہاں اپنے خاص بندوں کو لے جاؤں گا اور ہر روز ستر مرتبہ ان کی طرف دیکھوں گا اور ان سے بات کروں گا اور جتنی بار دیکھوں گا ان کے محل کو ستر گنا وسیع کروں گا۔ اور جب اہل جنت جنتی غذاؤں سے لطف اندوز ہونگے، وہ مجھ سے باتیں کرنے اور گفتگو کرنے میں لطف اندوز ہوں گے۔ پوچھا گیا: خدایا ان کی کیا نشانی ہے؟ آپ نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی زبان کو لغو باتوں سے اور اپنے پیٹ کو کثرت سے کھانے سے بچاتے ہیں۔ اے احمد! میری محبت اور دوستی فقیروں کے ساتھ دوستی اور ان کے ساتھ میل جول رکھنے میں ہےـ پوچھا گیا: فقیر کون ہیں؟ فرمایا: وہ لوگ ہیں جو دنیا کی تھوڑی سی دولت پر راضی ہوتے ہیں، بھوک برداشت کرتے ہیں اور نعمتوں اور راحتوں کے شکر گزار ہوتے ہیں، اور اپنی بھوک اور پیاس پر کسی سے شکایت نہیں کرتے، جھوٹ نہیں بولتے اور نہ ہی مجھ سے ناراض ہوتے ہیں۔ اور دنیا کے اموال میں سے جو کچھ ان کے ہاتھ سے چلا جائے اس پر وہ غمگین اور پریشان نہیں ہوتے اور جو کچھ ان تک پہنچتے ہیں اس سے وہ خوش نہیں ہوتے، اے احمد! مجھ سے دوستی فقیروں سے دوستی ہے۔ پس تم ان سے قربت حاصل کرو اور انہیں اپنے قریب کرو اور ان کی محفلوں میں شرکت کرو تاکہ تجھے میرا قرب حاصل ہو اور مالداروں اور ان کی محفلوں سے دور رہوں۔ کیونکہ فقیر لوگ میرے دوست ہیں اے احمد! پرتعیش اور ملائم کپڑے نہ پہنیں اور رنگ برنگی چیزیں نہ کھائیں اور اپنے بستر کو نرم نہ بنائیں۔ کیونکہ نفس ہر شر کی جگہ اور ہر برائی کا دوست ہے۔ تم اسے خدا کی فرمانبرداری پر مجبور کرتے ہو، اور نفس تمہیں خدا کی نافرمانی کی طرف دعوت دیتا ہےـ اور وہ خدا کی اطاعت میں تمہاری مخالفت کرتا ہے، اور وہ تمہاری ایسی باتوں میں اطاعت کرتا ہے جو تم پسند نہیں کرتے، اور جب تمہیں اسے سیر کروگے تو وہ بغاوت کرتا ہے، اور جب بھوکا رہتا ہے تو شکایت کرتا ہے اور جب محتاج ہو جاتا ہے تو غصہ آتا ہے اور جب مالدار ہو جاتا ہے تو تکبر کرتا ہے اور جب کسی عہدے پر پہنچ جاتا ہے تو مجھے بھول جاتا ہے اور جب اسے امان ملتا ہے تو مجھ سے غافل ہو جاتا ہے۔ وہ شیطان کے قریب ہے اور اس کی مثال شتر مرغ جیسی ہے۔ یہ بہت کھاتا ہے اور وزن نہیں اٹھاتا اور یہ خرزہرہ کی طرح ہے جس کا رنگ خوبصورت اور ذائقہ کڑوا ہے، اے احمد! دنیا اور اس کے لوگوں کو اپنا دوست مت بنا لو اور آخرت اور اس کے لوگوں کو دوست بنا لو۔ پوچھا گیا خدا یا دنیا اور اہل دنیا کون ہے؟ فرمایا: اہل دنیا وہ ہے جو زیادہ کھاتا اور زیادہ ہنستا ہے، زیادہ غصہ کرتا ہے اور جتنا بھی مال ملے راضی نہیں ہوتاـ جس کے ساتھ بدی کی ہے اس سے مغذرت خواہی نہیں کرتا اور جب اس سے معذرت خواہی کرتے ہیں تو اسے قبول نہیں کرتاـ اطاعت اور بندگی کے وقت سست اور معصیت و نافرمانی کے وقت شجاع ہوتا ہےـ اس کی آرزو لمبی اور موت بہت نزدیک ہوتا ہے اور اپنے آپ کا محاسبہ نہیں کرتاـ دوسروں کو اس سے بہت کم فائدہ ہوتا ہے اور اس کی باتیں بہت زیاد ہوتی ہیں ـ خدا سے خوف کم اور کھانے کھاتے وقت بہت خوش ہوتا ہےـ جب خدا کی طرف سے کوئی نعمت ملتی ہے تو اس کا شکر ادا نہیں کرتا اور بلا کے وقت صبر نہیں کرتاـ لوگوں کو حقارت کی نگاه سے دیکھتا ہے اور اپنے آپ کو ستائش کرتا ہے کہ اس نے ایسا ویسا کیا ہے حالانکہ کوئی کام اس سے ہوتا نہیں ہے اور جو چیز اس کی اپنی نہیں ہوتی اس کی طرف لوگوں کو دعوت دیتا ہے اور اگر دوسروں کے لئے کوئی چھوٹا سا کام بھی انجام دیا هو تو ان پر منت چڑھاتا ہے اور ہر وقت لوگوں کی برائی میں مصروف رہتا ہےـ اے احمد! دنیا پرستوں کی بہت ساری برائیاں ہوتی ہیں من جملہ یہ کہ وہ احمق اور ناداں ہوتے ہیں جن سے علم حاصل کرتے ہیں ان کے سامنے تواضع نہیں کرتے۔ وہ اپنے آپ کو عقلمند سمجھتے ہیں حالانکہ صاحبان معرفت کے نزدیک وه احمق ہیں۔ اے حمد بیشک اہل خیر اور اہل آخرت کے چہرے کمزور ہوتے ہیں ان میں حیا اور شرم زیادہ ہوتی ہے ان میں حماقت کم ہوتی ہے۔ ان کا فائدہ زیادہ ہوتا ہے۔ وہ مکر و فریب کم کرتے ہیں۔ لوگ ان سے آرام و راحت میں ہیں اور ان کے نفس ان سے سختی و تنگی میں ہوتے ہیں ان کی گفتگو مناسب ہوتی ہے۔ وہ اپنے نفوس کا محاسبہ‌کرتے ہیں انہیں تھکائے رکھتے ہیں۔ ان کی آنکھیں سوتی ہیں لیکن دل نہیں سوتے ان کی آنکھیں گریہ‌کناں اور دل ذکر کرنے والے ہوتے ہیں۔ جب لوگ غافلین میں لکھے جاتے هیں تو ان کا نام ذکر کرنے والوں کی فہرست میں لکھا جاتا ہے۔ وہ نعمت کی ابتداء میں حمد الہی بجا لاتے ہیں اور آخر میں شکر کرتے ہیں۔ ان کی دعا بارگاہ الهی میں جاتی ہے۔ ان کی بت سنی جاتی ہے ان سے ملائکہ خوش ہوتے ہیں۔ ان کی دعا حجابوں کے نیچے ہوتی ہے۔ پروردگار ان کے کلام کو سننا پسند کرتا ہے۔ جس طرح ماں بیٹے سے محبت کرتی ہے وہ‌ خدا سے پلک جھپکنے کی دیر مشغول نہیں رہتے۔ وہ زیادہ کھانا زیادہ باتیں کرنااور زیادہ لباس نہیں چاہتے۔ لوگ ان کے نزدیک مردہ ہیں اور خدا ان کے نزدیک حی (زندہ) و کریم ہے۔ پیشت پھیرنے والوں کو اپنے کرم کی وجہ سے بلاتے ہیں اور آگے بڑھنے والوں کے لئے لطف و مہربانی زیادہ کرتے هیں۔ ان کے لئے دنیا و آخرت اکی ہوگئی ہے۔ اے احمد تمہیں معلوم ہے کہ میرے پاس زهد و تقوی رکھنے والوں کے لئے کیا کچھ ہے؟ عرض کیا نہیں اے پالنے والے۔ فرمایا لوگ مبعوث ہوں گے اور ان کے حساب و کتاب کی جانچ پڑتال ہو رہی ہوگی اور زاہد اس سے مامون ہونی اور کم از کم جو کچھ میں نے زہد اختیار کرنے والوں کو آخریت میں دونگا وہ یہ‌ہے‌ کہ میں انہیں سب جنتوں کی جابیاں دے دوں گا تاکہ‌وہ جونسا دروازہ چاهیں کھول لیں اور میں اپنی عزت سے انهیں محجوب نہیں قرار دوں گا اور انہیں اپنی گفتگو میں قسم قسم کی لذت انعام دونگا او رانهیں سچائی کی محفل میں بٹھاؤں گا اور انہیں یاد دلاؤں گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا اور کس طرح دنیا میں مشقت کے ساتھ رہے اور میں ان کے‌لئے چار دروازے کھول دوں گا۔ ایک دروازے سے صبح شام میری طرف سے ان کے پاس ہدیے لائیں گے اور ایک دروازے سے وہ میری رحمت کی طرف جس طرح چاهیں دیکھیں گے بغیر کسی تکلف کے اور ایک دروازے سے وہ جہنم کی طرف جھانکیں گے۔ پس وہ ظالموں کو دیکھیں گے کہ‌وہ‌ کس طرح عذاب میں رہے ہوں گے۔ اور ایک دروازے سے ان کے پاس کنیزیں اور حورالعین آئیں گی۔ آپ نے عرض کیا اے پروردگار یہ‌زاہد اور پرہیزگار کون لوگ ہیں کہ جن کی اوصاف تو نی بیان کی ہیں۔ فرمایا زاہد وہ ہے جس کا کوئی گھر نہ ہو کہ جس کے خراب ہونے پر وہ مغموم هو اور نہ اس کی کوئی اولاد ہو کہ‌جس کے مرنے پر وہ مجنون ہو اور انہ اس کے پاس کوئی چیز ہو جو اس سے چلی جائے تو اس کے جانے کا اسے دکھ ہو۔ کوئی انسان اسے نہ پہچانتا ہو تاکہ وہ اسے پلک جھپکنے کی مقدار الله کے ذکر سے مشغول رکھےنہ اس کے پاس بچا ہوا کھانال ہو کہ جس کا اس سے سوال کیا جائے ا ور نہ هی اس کے چاس نرم لباس ہو۔ اے احمد زاہدوں‌ کے چہرے زدر ہوتے ہیں رات کی تھکان اور دن کے روزے کی وجہ سے ان کی زبانیں ذکر خدا کر کرکے تھکی ہوتی ہیں۔ ان کے دل ان کے سینوں‌میں زیادہ خاموشی کی وجہ سے لگام دئے گئے ہوں گے۔ انہیں خود بخود کوشش کرنا عطا کیا گیا ہے نہ جہنم کے خوب سے اور نہ جنت کے شوق میں بلکہ وہ ملکوت آسمان و زمین کو دیکھتے هیں۔ لھذا انہیں علم و یقین ہے :ہ خدا وند عالم هی عبدت کے لائق ہے۔ اے احمد یہ انبیاء اور تیری اور دوسروں کی امت کے صدیقوں اور شہداء کے ایک گروہ‌ کا درجہ ہے۔ عرض کیا اے پالنے والے کون سے زاہد زیادہ ہیں میری امت کے یا بنی اسرائیل کے؟ فرمایا: بنی اسرائیل کے زہاد تیری امت کے زاہدوں میں اس طرح ہیں جیسے سیاہ بال میں سفید گائے میں ہوتا ہے۔ آپ نے عرض کیا اے پالنے والے یہ‌کس طرح ہوتے ہیں، حالانکہ بنی اسرائیل کی تعداد تو زیادہ‌ ہے۔ ارشاد ہوا یہ‌اسلئے ہے چونکہ انہوں نے یقین کے بعد شک کیا اور اقرار کے بعد انکار کیا تھا۔ پیغمبر اکرمؐ فرماتے ہیں کہ پس میں نے الله کی حمد اور اس کا شکر ادا کیا اور اپنی امت کے لئے حفظ و ایمان اور رحمت اور باقی بھلائیوں کی دعاکی۔ اے احمد تجھ پر ورع(محرمات سے بچنا) لازم ہے۔ کیونکہ ورع دین کا سر ، دین کا وسط اور دین کا آخر ہے۔ اور ورع ہی کے ذریعے خدا کا قرب حاصل ہوتا ہے ۔ اے حمد ورع مومن کی زینت اور دین کا ستون ہے اور ورع کی مثال کشتی جیسی ہے۔ جس طرح سمندر سے کوئی نجات نہیں حاصل کر سکتا جب تک کشتی میں نہ ہو۔ اسی طرح پرہیزگار اور زاہد ورع کے بغیر نجات حاصل نہیں کر سکتے۔ اے احمد جو بنده مجھے پہنچانے اور میرے سامنے خشوع و حضوع کرے تو ہر چیز اس کے‌سامنے جھکتی ہے۔ اے احمد ورع بندے پر عبادت کے دروازے کھول دیتی ہے۔ پس اس کی وجہ سے بندہ‌ مخلوق کی نگاہ میں مکرم ہو جاتا هے اور اس کے ذریعے اللہ تک پہنچتا ہے۔ اے احمد خاموشی اختیار کرو۔ کیونکہ زیادہ‌ آباد محفل .... اور خاموش لوگوں کے دل هیں اور خراب ترین مجلس ان لوگوں کے دل هیں جو فضول باتیں کرتے ہیں۔ اے احمد عبادت کے‌ دس جز ہیں ان میں سے نو جز طلب و حصول رزق میں ہیں۔ کیونکہ اگر تیرا کھانا پینا پاک ہو تو تو میری حفظ اور امان میں رہے گا۔ عرض کیا اے پالنے والے عبادت کی ابتداء کہاں سے ہے؟ ارشاد هوا خاموشی اور روزه۔ عرض کیا اے پالنے والے روزے کی میراث کیا ہے؟ فرمایا روزے کی میراث حکمت۔ حکمت کی میراث معرفت اور معرفت کی میراث یقین ہے۔ پس بندہ یقین حاصل کر لیتا ہے تو پھر پرواہ نہیں کرتا کہ‌وہ کس حالت میں ہے۔ تنگی میں یا فراخی میں اور جب بندہ موت کی حالت میں ہوتا ہے‌تو اس کے سر پر کچھ ملائکه کھڑے ہو جاتے ہیں ہر فرشتہ کے ہاتھ میں کوثر کے پانی اور جنت کے شراب کا ایک پیالہ ہوتا ہے وہ اس کی روح کو یہ‌دونوں پلاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس کا نشہ اور کڑاہت دور جاتی ہے۔ اور اسے بہت بڑی بشارت کی خوشخبری دیتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں تو پاک ہوا اور تیری رہنے کی جگہ پاک ہے تو عزیز کریم حبیب اور قریب کی بارگاہ میں جار رہا ہے۔ پس اس کی روح ملائکہ کے ہاتھ سے اڑتی ہے اور اس روح اور خدا کے درمیان کوئی پردہ اور حجاب باقی نہیں رہتا اور خدا اس کا مشتاق ہوتا ہے اور وہ جا کر عرش کے پاس ایک چشمہ کے قریب بیٹھ جاتی ہے۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے تو نے دینا کو کس حالت میں چھوڑا ہے تو وہ کہتی ہے خدایا تیری عزت و جلال کی قسم مجھے دنیا کی کوئی خبر نہیں؟ مجھے تو نے جب سے پیدا کیا ہَے میں تو تجھ سے ڈرتی رہی ہوں۔ ا پنے جسم اور روح سمیت میرے ساتھ تھا اور تیری خلوت و جلوت میری نگاہ‌میں تھی تو سوال کر میں تجھے عطا کروں گا تو مجھ سے کوئی خواہش کر میں تیری عزت افزائی کروں گا۔ پس یہ میری جنت تیرے لئے مباح اور حلال ہے تو اس کو مباح قرار دے اور اس کے وسط میں رہ اور یہ‌ میرا پڑوسی ہے۔ اس میں سکونت اختیار کر لے۔ پھر روح کہے گی خدایا چونکہ تو نے مجھے اپنی ذات کی معرفت دی ہے لھذا میں اس کی وجہ سے تیری تمام مخلوق سے بے نیاز ہوگئی ہوں۔ تیری عزت و جلال کی قسم اگر تیری خوشی اسی میں‌ہے کہ میں ٹکڑے ٹکڑے کر دی جاوں اورمجھے سخت ترین طریقہ پر ستر مرتبہ قتل کیا جائے تو تیری رضا اور خوشی مجھے پسند هوگی۔ خدایا میں کس طرح اپنے اوپر اتر آوں حالانکہ میں ذلیل ہوں۔ اگر تو میری عزت و تکریم نہ‌کرے اور میں مغلوب ہوں اگر تو میری مدد نہ کرے اور میں کمزور ہوں۔ اگر تو مجھے قوت نہ بخشے اور میں مردہ ہوں۔ اگر تو اپنی یاد سے مجھے زندہ نہ رکھے اور اگر تیری پردہ پوشی نہ ہوتی تو میں رسوا ہو جاتی۔ جبکہ میں نے پہلی مرتبہ‌تیری نافرمانی کی تھی۔ خدایا میں تیری رضا و خوشی کو کیسے نہ چاہوں۔ حالانکہ تو نے میری عقل کو کامل کیا ہے۔ یہاں تک کہ میں نے تجھے اور حق کو باطل سے اور امر کو نہی سے اور علم کو جہالت سے اور نور کو ظلمت سے پہچانا ۔ پس ارشاد قدرت ہوتا ہے مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم میں تیرے اور اپنے درمیان کسی وقت حجاب نہیں قرار دوں گا اور میں اپنے دوستوں سے ایسا ہی کرتاہوں۔ اے احمد کیا تجھے معلوم ہے کہ کونسی زندگی زیادہ خوش گوار اور کونسی حیات زیادہ باقی رہنے والی ہے۔ آپؐ نے عرض کیا پالنے والے نہیں۔ ارشاد ہوا کہ خوشگوار زندگی وه ہے جو اپنے ساتھی کو میرے ذکر سے سست نہ بنائی اور وہ میری نعمت کو نہ بھولے اور میرے حق سے جاہل نہ ہو۔ رات دن میری رضا اور خوشی کا طالب ہو اور باقی رہی باقی رہنے والی حیات تو ایسی زندگی ہے کہ انسان اپنے نفس کے لئے عمل کرے یہاں تک کہ دنیا اس کے سامنے ذلیل هو جائے اور اس کی آنکھوں میں حقیر معلوم ہو اور آخرت اس کے‌نزدیک ذی عظمت ہو اور میری خواہش کو اپنی خواہش پر ترجیح دے اور میری رضا کو چاہے اور میری عظمت کے حق کو بزرگ سمجھے اور یہ یاد رکھے که مجھے اس کا علم ہے اور ہر برائی و گناہ کے وقت ادن رات مجھ پر اس کی نگاہ رہے اور اپنے دل کو ہر اس چیز سے دور رکھے کہ جسے میں ناپسند کرتا ہوں شیطان اور اس کے وسوسوں کو مبغوض رکھے اور اپنے دل پر شیطان کے تسلط اور اسے راستہ نہ دے۔ جب وہ ایسا کرے تو اس کے دل میں محبت قرار دونگا۔ یہاں تک کہ میں اس کے دل کو اپنے لئے مخصوص کر لوں گا اور اس کی فراغت اس کا شغل اس کا ہم و غم اور گفتگو اس کی نعمت کے متعلق هوگی جو میں نے اپنی مخلوق میں سے اپنی ذات با برکت سے مجبت کرنے والوں کو عطا کی ہے ا ور اس کے دل کی آنکھ اور کان کو کھول دوں گا۔ یهاں تک که وه دل سے سنے گا اور میرے جلال و عظمت کو دل سے دیکھے گا۔ اور دنیا اس کے لئے تنگ ہو جائے گی اور میں اس کے نزدیک میں دنیا کو اس کے نزدیک مبغوض قرار دوں گا دینا کی لذات کو اور اسے دنیا سے اور جو کچھ دنیا میں ہے اس سے ڈراؤنگا جس طرح نگہبان اپنی بھیڑوں پر ہلاکت کی چراگاہ سے ڈرتا هے۔ جب وہ ایسا ہو جاتا ہے تو وہ لوگوں سے بہت بھاگتا ہے اور فنا کے گھر کا سامان بقا کے گھر کی طرف اور شیطان کے گھر کا رحمان کے گھر کی طرف منتقل کرتا ہے۔ اے احمد میں اسے ہیبت اور عظمت سے مزین کرتا ہوں تو یہ ہے خوشگوار زندگی اور باقی رہنے والی حیات اور راضی رہنے والوں کا مقام۔ پس جو شخص میری مرضی کے مطابق عمل کرے میں اس کے لئے تین چیزیں لازم قرار دیتا ہوں۔ اسے ایسے شکر کی پہچان کراتا ہوں کہ جس میں جہالت کی ملاوٹ نہیں ہوتی اور ایسا ذکر جس میں نسیان نہیں اور ایسی محبت کہ وه میری محبت پر مخلوق کی محبت کو ترجیح نہیں دیتا۔ پس جب وہ مجھ سے محبت کرتا ہے تو میں اس سے محبت کرتا ہوں اور اپنے جلال کی طرف اس کے دل کی آنکھ کو کھول دیتا ہوں اور اس سے اپنی مخصوص مخلوق کو مخفی نہیں رکھتا۔ اور میں اس سے رات کی تاریکی اور دن کی روشنی میں مناجات کرتا ہوں۔ یهاں تک کہ مخلوق سے اس کی بات چیت ختم ہوجاتی ہے۔ اور ان سے اس کا اٹھنا بیٹھنا منعطع ہو جاتا ہے اور میں اسے اپنی اور اپنے ملائکہ کی گفتگو سناتا ہوں اور میں‌اسے اس راز سے آگاہ کرتا ہوں جس کو میری اپنی مخلوق سے چھپا رکھا ہے اور میں اسے شرم و حیا کا لیاس پہناتا ہوں۔ یہاں تک کہ تمام مخلوق اس سے شرم کھاتی‌ ہے اور زمین پر بخشنا ہوا ہو کر چلتا پھرتا ہے اور اس کے دل کو یاد رکھنے والا اور دیکھنے والا قرار دیتا ہوں۔ اور جنت و جہنم کی کوئی چیز میں اس سے چھپا نہیں رکھتا اور خو شدت اور ہولناکی قیامت میں لوگوں پر گزرے گی اور جو اغنیاء فقراء، جھال اور علماء سے میں حساب لوں گا، اس سے اسے آگاہ کرتا ہوں اور اس کو اس کی قبر میں میں سلادیتا ہوں اور اس پر منکر و نکیر کو نازل کرتا ہوں تاکہ وہ اس قبر اور لحد کی تاریکی صبح قیامت کے طلوع ہونے تک کا ہولناک منظر اسی دکھاتا ہوں۔ پھر میں اس کے لئے اس کا میزان عمل نصب کروں گا اور اس کے اعمال کا دفتر پھیلا دونگا۔ پھر اس کی کتاب اس کے دائیں ہاتھ میں تھما دوں گا۔ پس وہ اس کو کھلا ہوا پڑھے گا۔ اس کے بعد اس کے اور اپنے درمیان کوئی ترجمان نہیں قرار دوں گا۔ تو یہ ہیں محبت کرنے والوں کے صفات۔ اے احمد اپنا ہم و غم اکی اور اپنی ایک ہی زبان قرار دے اپنے بدن کو زندہ بنا، وہ‌ کبھی بھی غافل نہ رهے اور جو مجھ سے غافل رہے تو مجھے کوئی پرواہ‌نہیں کہ وہ‌ کونسی وادی میں ہلاک ہو رہا ہے۔ اے احمد تزائل ہونے سے پہلے اپنی عقل کا ا ستعمال کرے کیونکہ جو اپنی عقل کو عمل میں لائے نہ وہ خطا کرتا ہے اور نہ طغیانی و سرکشی۔ اے احمد کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں نے تجھے تمام انبیاء پر کیوں فضیلت دی ہے؟ حضورؐ نے عرض کیا خدایا نہیں۔ ارشاد ہوا یقین، خوش خلقی، سخاوت نفس اور لوگوں پر رحم کھانے کی وجہ‌سے ۔ اسی طرح زمین میں‌اوتاد (نیک لوگ جو بمنزلہ میخ کے هیں) اوتاد نہیں بنتے مگر انہیں چیزوں کی بنا پر۔ اے احمد جب بندہ کا شکم بھوکا ہو اور وہ اپنی زبان کو روکے رکھے تو میں اسے حکمت کی تعلیم دیتا ہوں۔ اب اگر وہ کافر ہے تو وہ حکمت اس کے خلاف حجت و دلیل اور وبال جان ہو جائے گی اور اگر مومن ہے تو حکمت اس کے لئے نور، برہان، شفا اور رحمت بنے گی پھر وہ ان چیزوں کو جاننے لگ جاتا ہے جنہیں پہلے نہیں جانتا ہوتا اور وہ کچھ دیکھتا ہے جسے وہ پہلے نہیں دیکھتا تھا۔ سب سے پہلے جس چیز کو دیکھتا ہے وہ اس کے اپنے عیوب ہیں۔ یہاں تک کہ یہ چیز اسے دوسروں کے عیوب سے مشغول رکھتی ہے اور میں اسے علم کے دقائق دکھاتا هوں یہاں تک کہ‌شیطان اس کے‌ ہاں نهیں آسکتا۔ اے احمد میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عبادت خاموشی اور روزہ ہے۔ تو جو شخص روزه رکھے لیکن اپنی زبان کو نہ روکے وہ اس کی مانند ہے جو نماز کے لئے کھڑا ہو اور نماز میں قرأت نہ کرے تو میں اس کو قیام کا اجر تو دوں گا لیکن عبادت کرنے والا اجر نہیں دوں گا۔ اے احمد کیا تمہیں معلوم ہے کہ بندہ عبادت گزار کب ہوتا ہے؟ عرض کیا نہیں اے مالک۔ ارشاد ہوا جب اس میں ساتھ چیزیں جمع ہوں جائیں:

  1. ورع و پرہیزگاری جو اسے حرام چیزوں سے روک دے۔
  2. خاموشی جو لایعنی باتوں سے منع کرے۔
  3. خوف کہ جس سے اس کا گریہ‌ ہر دن زیادہ ہو۔
  4. شرم و حیا کہ جس کی وجہ سے و خلوت میں بھی شرمائے۔
  5. اتنا کھانا کہ جو ضروری ہو۔
  6. دنیا سے بغض رکھے، چونکہ میں اس سے بغض رکھتا ہوں۔
  7. اور اچھے لوگوں سے محبت کرے چونکہ میں ان سے محبت کرتا ہوں۔

اے احمد ہر وہ شخص جو دعوی کرے کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے، میرا محب نہیں جب تک قدر ضرورت روزی نہ کھائے پیست لباس نہ پہنے، سجدہ میں گر نہ جائے، طویل قیام نہ‌کرے، خاموشی اختیار نہ کرے، مجھ پر توکل نہ کرے، زیادہ گریہ نہ کرے، کم نہ ہنسے، اپنی خواہش کی مخالفت نہ کرے، اور مسجد کو اپنا گھر نہ بنائے، علم کو اپنا ساتھی اور زہد کو اپنا ہمنشین، علماء کو اپنا محبوب اور فقیروں کو اپنا ساتھی نہ بنائے اور میری رضا کو طلب کرے اور نافرمان لوگوں سے بھاگ جائے اور میری ذکر میں مشغول رہے اور ہمیشہ زیادہ تسبیح کرے اور وعدہ کا سچا ہو اور معاہدہ کو پورا کرے، اس کا دل پاک ہو اور نماز میں زکات دے اور فرائض میں کوشش کرے، اور میرے پاس جو ثواب ہے اس میں رغبت کرے اور میرے عذاب سے ڈرے اور میرے دوستوں کا قرین اور ہمنشین بنے۔ اے احمد اگر کوئی بندہ اہل آسمان و زمین جیسی عبادت کرے اور اہل آسمان و زمین جیسے روزے رکھے اور ملائکہ کی طرح کھانا نہ کھائے اور ننگے شخص جیسا لباس نہ پہنے باوجود اس کے دل میں دنیا اس کی وسعت، اس کی ریاست، اور اس کی زینت کی محبت ذرہ برابر دیکھوں تو وہ میرے گھر میں میرے جوار میں نہیں رہ سکتا اور میں اس کے دل سے اپنی محبت کو نکال دوں گا اور تجھ پر سلام اور میری رحمت ہو اور حمد ہے اللہ کے لئے جو عالمین کو پالنے والا ہے۔

حوالہ جات

  1. دیلمی، ارشاد القلوب، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۱۹۹تا۲۰۶.
  2. دیلمی، ارشاد القلوب، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۱۹۹تا۲۰۶.
  3. علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷، ج۱۳، ص۸تا۳۴؛ قمی، تفسیر القمی، ۱۳۶۷ش، ج۲، ص۳تا۱۲.
  4. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۶، ص۶۰۹.
  5. قرآن، اسراء، آیہ۱، نجم، آیات۸تا۱۸.
  6. دیلمی، ارشاد القلوب، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۱۹۹تا۲۰۶.
  7. مصباح یزدی، راہیان کوہ دوست، ۱۳۷۹ش.
  8. دیلمی، ارشاد القلوب، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۱۹۹.
  9. فیض کاشانی، الوافی، ۱۴۰۶ق، ج۲۶، ص۱۴۲؛ حر عاملی، الجواہر السنیہ، ۱۳۸۰ش، ص۳۸۲؛ علامہ مجلسی، بحار الأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۷۴، ص۲۲.
  10. حر عاملی، الجواہر السنیہ، ۱۳۸۰ش، ص۳۹۰؛ دیلمی، ارشاد القلوب، ترجمہ علی سلگی، ۱۳۷۶ش، ج۱، ص۵۱۰تا۵۲۳.
  11. مصباح یزدی، راہیان کوی دوست، ۱۳۷۹ش، ص۱۰.

مآخذ

  • حر عاملی، محمد بن حسن، الجواهر السنیة فی الأحادیث القدسیة (کلیات حدیث قدسی)، ترجمہ زین العابدین کاظمی خلخالی، تهران، انتشارات دهقان، چاپ سوم، ۱۳۸۰ش.
  • دیلمی، حسن بن محمد،ارشاد القلوب، قم، الشریف الرضی، چاپ اول، ۱۴۱۲ق.
  • دیلمی، حسن بن محمد، ارشاد القلوب، ترجمہ علی سلگی، قم، ناصر، چاپ اول، ۱۳۷۶ش.
  • طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، انتشارات اسلامی، ۱۴۱۷ق.
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تهران، انتشارات ناصر خسرو، ۱۳۷۲ش.
  • فیض کاشانی، محمد حسن، الوافی، اصفهان، کتابخانه امام أمیر المؤمنین علی، چاپ اول، ۱۴۰۶ق.
  • قمی، علی بن ابراهیم، تفسیر القمی، تحقیق سید طیب موسوی جزایری، قم، دار الکتاب، چاپ چهارم، ۱۳۶۷ش.
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، بیروت،‌ دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ق.
  • مصباح یزدی، محمد تقی، راهیان کوی دوست؛ شرح حدیث معراج، قم، انتشارات مؤسسہ آموزشی و پژوهشی امام خمینی، ۱۳۷۹ش.