خطبہ خط الموت

ویکی شیعہ سے
خطبہ خط الموت
خطبہ خُطّ المَوت
حدیث کے کوائف
موضوعامام حسینؑ کا شوقِ شہادت اور اس کی کیفیت
صادر ازامام حسینؑ
شیعہ مآخذالملہوف على قتلى الطّفوف و كشف الغمۃ في معرفۃ الأئمۃ
مشہور احادیث
حدیث سلسلۃ الذہب . حدیث ثقلین . حدیث کساء . مقبولہ عمر بن حنظلہ . حدیث قرب نوافل . حدیث معراج . حدیث ولایت . حدیث وصایت . حدیث جنود عقل و جہل


خطبہ خُطّ المَوت امام حسینؑ سے منقول خطبوں میں سے ایک ہے۔ یہ خطبہ شوقِ شہادت اور شہادت کی کیفیت کے بارے میں ہے جسے امامؑ نے مکہ سے عراق کی جانب روانہ ہوتے ہوئے بیان کیا تھا۔ اس خطبے کے بعض جملوں میں امام حسینؑ کی شہادت کی جگہ کربلا اور نواویس کے درمیان ذکر ہوئی ہے۔ اس خطبے کا متن لہوف اور کشف الغمۃ میں درج ہوا ہے۔ خطبہ خط الموت کو امام حسینؑ کے دَور کے دینی اور معاشرتی حالات کا عکاس سمجھا جاتا ہے اور امام علیہ السلام معاشرے کی اصلاح کی خاطر اپنی قربانی کا اعلان کرتے ہیں۔ بعض نے اس خطبے کی جگہ کو مکہ جبکہ بعض نے مدینہ قرار دیا ہے۔

اہمیت اور مقام

تاریخی مآخذ میں خُطّ الموت کے نام سے ایک خطبہ امام حسینؑ سے نقل ہوا ہے جسے آپؑ نے مکہ سے عراق کی جانب روانہ ہوتے ہوئے بیان کیا تھا۔ اس خطبے کے بعض جملوں میں امام حسینؑ اپنی شہادت کی جگہ کربلا اور نواویس کے درمیانی کسی جگہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔[1] نواویس، کربلا کے نزدیک ایک جگہ ہے جو مسیحیوں کا قبرستان تھا۔[2]

خطبہ خط الموت کو امام حسینؑ کے دَور کے دینی اور معاشرتی حالات کا عکاس سمجھا جاتا ہے؛ کیونکہ امام علیہ السلام معاشرے کی اصلاح کی خاطر اپنی قربانی کا اعلان کرتے ہیں تاکہ اس طرح سے اسلامی شریعت باقی رہے۔ شریف قرشی کا کہنا ہے کہ حیاۃ الامام الحسین نامی کتاب کے مطابق اسلامی معاشرے میں اتنی بگاڑ آئی تھی کہ اس کی اصلاح قربانی کے بغیر ممکن نہ تھی۔[3] بعض نے اس خطبہ سے استناد کرتے ہوئے امام حسینؑ کے قیام دیگر قیام سے اگل کیا ہے اور امام کی تحریک کا مقصد شہادت قرار دیا ہے۔[4]

خطبہ خط الموت ساتویں صدی ہجری میں تحریر شدہ دو کتابیں؛ الملہوف[5] اور کشف الغمۃ[6] میں نقل ہوا ہے اور علامہ مجلسی نے بحارالانوار میں بھی انہی دونوں کتابوں سے نقل کیا ہے۔[7] خطبہ کے بارے میں ان دونوں کے متن میں ایک دو الفاظ کے علاوہ کوئی خاص فرق بھی نہیں ہے۔[8]

مضمون

اس خطبے کا مضمون شہادت سے آشنائی اور اللہ کی راہ میں آنے والی موت سے عشق ہے۔[9] اس کے علاوہ بعض دیگر مختصر نکات کی طرف بھی اس خطبے میں اشارہ ہوا ہے:

  • موت کا انسان سے رابطہ اور جدائی ناپذیر ہونے کو جوان لڑکی کے گلے کی ہار سے تشبیہ؛[10]
  • امام علیہ السلام کا موت اور اپنے اسلاف سے ملاقات کا شوق؛[11]
  • امام حسینؑ اس خطبے میں اپنی شہادت کی خبر[12] اور اس کی کیفیت؛[13]
  • دشمنوں کو بھڑیوں سے تشبیہ؛[14]
  • اس واقعہ کا حتمی ہونا اور اللہ کی مشیت پر راضی ہونا؛[15] [یادداشت 1]
  • اللہ کا صابروں کو اجر؛[17]
  • شہادت کے بعد رسول اللہؐ کے قرب میں اپنا مقام کا بیان؛[18]
  • مسلمانوں کو امام حسینؑ کے ہمرکاب بننے کی تلقین۔[19]

خطبے کا زمان و مکان

سید ابن طاووس کا کہنا ہے کہ امام حسینؑ نے مکہ سے عراق کی جانب روانہ ہوتے ہوئے یہ خطبہ دیا ہے لیکن خطبہ کہاں دیا ہے اس حوالے سے ابن طاووس کی عبارت میں کوئی اشارہ نہیں ہوا ہے۔[20] بعض نے خطبہ دینے کی جگہ کو مدینہ[21] اور بعض نے مکہ قرار دیا ہے۔[22]

خطبہ کا متن اور ترجمہ

متن ترجمہ
اَلْحَمْدُلِلهِ ما شاءَ اللهُ، وَ لا قُوَّةَ إِلاّ بِاللهِ، وَ صَلَّی اللهُ عَلی رَسُولِهِ، خُطَّ الْمَوْتُ عَلی وُلْدِ آدَمَ مَخَطَّ الْقَلادَةِ عَلی جیدِ الْفَتاةِ، وَ ما أَوْلَهَنی إِلی أَسْلافی اِشْتِیاقُ یعْقُوبَ إِلی یوسُفَ، وَ خُیرَ لِی مَصْرَعٌ اَنَا لاقیهِ. کَأَنِّی بِاَوْصالی تَقْطَعُها عَسْلانُ الْفَلَواتِ بَینَ النَّواویسِ وَ کَرْبَلاءَ فَیمْلاََنَّ مِنِّی اَکْراشاً جَوْفاً وَ اَجْرِبَةً سَغْباً، لا مَحیصَ عَنْ یوْم خُطَّ بِالْقَلَمِ، رِضَی اللهِ رِضانا اَهْلَ الْبَیتِ، نَصْبِرُ عَلی بَلائِهِ وَ یوَفّینا اَجْرَ الصّابِرینَ. لَنْ تَشُذَّ عَنْ رَسُولِ اللهِ(صلی الله علیه وآله) لَحْمَتُهُ، وَ هِی مَجْمُوعَةٌ لَهُ فی حَظیرَةِ الْقُدْسِ، تَقَرُّ بِهِمْ عَینُهُ وَ ینْجَزُ بِهِمْ وَعْدُهُ. مَنْ کانَ باذِلا فینا مُهْجَتَهُ، وَ مُوَطِّناً عَلی لِقاءِ اللهِ نَفْسَهُ فَلْیرْحَلْ مَعَنا فَاِنَّنِی راحِلٌ مُصْبِحاً اِنْ شاءَ اللهُ تَعالی[23] خداوند کریم کی حمد و ثنا اور رسول خدا پر درود و سلام کے بعد فرمایا: موت بنی آدم کے لئے اسی طرح باعث زینت ہے جگس طرح جوان عورت کے گلے میں ہار باعث زینت ہے۔ میں اپنے آباء اجدا کی زیارت کا شدت سے مشتاق ہوں، جس طرح حضرت یعقوبؑ، حضرت یوسف کی زیارت کے مشتاق تھے۔۔۔ میرے قتل ہونے کی جگہ مشخص ہوچکی ہے اور مجھے یقینا وہاں پہنچنا ہے گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ جنگل کے بھوکے بھیڑئے نواویس اور کربلا کے درمیان میرے جسم کو پارہ پارہ کر رہے ہیں۔ تاکہ وہ بھوکے پیٹوں کو بھر لیں۔ اور اپنی خالی جھولی کو اس سے پر کرلیں۔ لکھی ہوئی تقدیر سے فرار ممکن نہیں اور خدا جس کام پر راضی ہوتا ہے ہم اہل بیتؑ بھی اس پر راضی ہوتے ہیں۔ اور جو خدا کی طرف سے بلا نازل ہوتی ہے ہم اس پر صبر و شکر کرتے ہیں۔ خداوند کریم ہمیں صبر والوں کا اجر عطا کریگا۔ ہم پیغمبر خدا کے جسم کے ٹکڑے ہیں اور ان سے جدا نہیں ہیں اور جنت میں ان کے ساتھ ہونگے اور ہمارے وسیلہ سے حضرت رسول اللہؐ سے وعدہ کیا ہے اسے پورا کرے گا۔ جو بھی ہمارے ساتھ خدا کیلئے قربان ہونے پر تیار ہے اور لقاء خداوند کا مشتقا ہے وہ ہمارے ساتھ چلے۔ کیونکہ اللہ کی مدد سے ہم کل صبح مکہ سے ورانہ ہوجائیں گے۔[24]


متعلقہ مضامین

نوٹ

  1. «رِضَی اللہِ رِضانا اَہْلَ الْبَیتِ» کا جملہ اس بات کو بیان کرتا ہے کہ ہم اہل بیت کی خوشنودی اللہ کی خشنودی ہے۔[16]«اسی طرح «رَضِی اللہُ عَنْہُمْ وَ رَضُوا عَنْہُ» کی آیت کے مطابق اس کا مضمون یہ بنتا ہے کہ اہل بیتؑ اللہ کی رضا کے درجے پر پہنچے ہیں اور اللہ کو عبودیت میں خود سے راضی کیا ہے اور خود بھی اس سے راضی ہیں۔ لہذا اللہ کی رضایت کا حصول اہل بیتؑ کی رضایت پر مبتنی ہے۔(«شرح زیارت جامعہ کبیرہ-36»، ویب سائٹ وارثون.)

حوالہ جات

  1. شریف قرشی، حیاۃ الامام الحسین‌، 1385ھ، ج2، ص295.
  2. بلاذری، فتوح البلدان، 1988م، ص179؛ حموی، معجم البلدان، 1995م، ج5، ص254.
  3. شریف قرشی، حیاۃ الامام الحسین‌، 1385ھ، ج2، ص295-296
  4. معاش، الإمام الحسین علیہ‌السلام و الوہابیۃ، 1429ھ، ج1، ص288.
  5. سید ابن طاووس، الملہوف، 1417ھ، ص126
  6. اربلی، کشف الغمہ، 1433ھ، ج2، ص239.
  7. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج44، ص366-367.
  8. سید ابن طاووس، الملہوف، 1417ھ، ص126؛ اربلی، کشف الغمۃ، 1433ھ، ج2، ص239.
  9. محدثی، فرہنگ عاشورا، نشر معروف، ص161.
  10. شعرانی، دمع السجوم: ترجمہ کتاب نفس المہموم، 1387ش، ص171-172.
  11. شعرانی، دمع السجوم: ترجمہ کتاب نفس المہموم، 1387ش، ص171-172.
  12. معاش، الإمام الحسین علیہ‌السلام و الوہابیۃ، 1429ھ، ج1، ص288.
  13. شریف قرشی، حیاۃ الامام الحسین‌، 1385ھ، ج2، ص295.
  14. حسینی طہرانی، لمعات الحسین، ص37-40.
  15. شعرانی، دمع السجوم: ترجمہ کتاب نفس المہموم، 1387ش، ص171-172.
  16. یاران مخلص در قیام امام حسین(َع)»، پایگاہ اطلاع‌رسانی آیت‌اللہ مکارم شیرازی
  17. شعرانی، دمع السجوم: ترجمہ کتاب نفس المہموم، 1387ش، ص171-172.
  18. شعرانی، دمع السجوم: ترجمہ کتاب نفس المہموم، 1387ش، ص171-172.
  19. شعرانی، دمع السجوم: ترجمہ کتاب نفس المہموم، 1387ش، ص171-172.
  20. سید ابن طاووس، الملہوف، 1417ھ، ص126.
  21. آل طعمہ، تاریخ مرقد الحسین و العباس(ع)، 1416ھ، ص23.
  22. شریف قرشی، حیاۃ الامام الحسین‌، 1385ھ، ج2، ص295.
  23. سید ابن طاووس، الملهوف، 1417ھ، ص126؛ اربلی، کشف الغمة، 1433ھ، ج2، ص239.
  24. امام حسینؑ کی سوانح حیات ترجمہ لہوف، مترجم مظہر حسین حسینی، 2002ء، عباس بک ایجنسی، رستم نگر لکھنو۔3 ص36، 37؛ اربلی، کشف الغمۃ، 1433ھ، ج2، ص239.

مآخذ

  • آل طعمہ، سلمان ہادی، تاریخ مرقد الحسین و العباس(ع)، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1416ھ۔
  • اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الأئمۃ، تہران، مجمع جہانی اہل بیت(ع)، 1433ھ۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، فتوح البلدان، بیروت،‌دار و مکتبۃ الہلال، 1988ء.
  • حسنی حلی، سیدعلی بن طاووس، الملہوف علی قتلی الطّفوف، قم، انتشارات اسوہ، 1417ھ۔
  • حسینی طہرانی، سید محمدحسین، لمعات الحسین.
  • حسینی، مظہر حسین، امام حسینؑ کی سوانح حیات، اردو ترجمہ کتاب لہوف، عباس بک ایجنسی، رستم نگر لکھنو۔3، 2002ء۔
  • حموی، یاقوت بن عبداللہ، معجم البلدان، بیروت، دارالصادر، 1995ء.
  • شریف قرشی، باقر، حیاۃ الامام الحسین‌ بن‌ علی علیہما السلام دراسۃ و تحلیل، قم، قلم مکنون، 1385ھ۔
  • شعرانی، ابوالحسن، دمع السجوم: ترجمہ کتاب نفس المہموم، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، 1387ہجری شمسی.
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، انتشارات مؤسسہ وفاء، 1403ھ۔
  • محدثی، جواد، فرہنگ عاشورا، قم، نشر معروف، 1376ش.
  • معاش، جلال، الإمام الحسین علیہ‌السلام و الوہابیۃ، قم، انتشارات یاس الزہراء، 1429ھ۔
  • یاران مخلص در قیام امام حسین(ع)، پایگاہ اطلاع رسانی دفتر حضرت آیۃ الله العظمی مکارم شیرازی، تاریخ بازدید: ۲ آبان ۱۴۰۱ھ.