حضرت فاطمہ کا مدینے کی خواتین سے خطاب

ویکی شیعہ سے
حضرت فاطمہ کا مدینے کی خواتین سے خطاب
حدیث کے کوائف
دوسرے اسامیخطبہ عیادت
موضوعغصب خلافت، مہاجرین اور انصار کی سرزنش، حکومت علوی کی خصوصیات، اسلام کے مستقبل کی پیشن گوئی
صادر ازحضرت فاطمہؑ
دوسرے رواتامام علیؑ، فاطمہ بنت امام حسنؑ، سوید بن غفلہ
اعتبارِ سندمتواتر
شیعہ مآخذمعانی الاخبار، الاحتجاج، دلائل الامامہ
اہل سنت مآخذبلاغات النساء، شرح نہج البلاغہ ابن‌ ابی‌ الحدید
مشہور احادیث
حدیث سلسلۃ الذہب . حدیث ثقلین . حدیث کساء . مقبولہ عمر بن حنظلہ . حدیث قرب نوافل . حدیث معراج . حدیث ولایت . حدیث وصایت . حدیث جنود عقل و جہل


حضرت فاطمہؑ کا مدینے کی خواتین سے خطاب یا خطبہ عیادت سے مراد حضرت فاطمہ زہراؑ کا وہ خطبہ جسے آپؑ نے غصب خلافت کے بعد حالت مریضی میں مدینے کی خواتین کے سامنے پیش کیا۔ اسی علالت میں آپؑ کی شہادت واقع ہوئی۔ اس خطبے کو پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد کے حالات کی منظر کشی، اسلامی حکومت کے مستقبل کے بارے میں پیشنگوئی اور فصاحت و بلاغت کی وجہ سے انتہائی اہمیت کا حامل خطبہ قرار دیا جاتا ہے۔

حضرت فاطمہؑ نے اس خطبے میں عہد و پیمان توڑنے والوں اور اندھی تقلید کرنے والوں سے بےزاری کا اعلان کرتے ہوئے ان کی بے وفائی کی منظر کشی کی ہے۔ اس کے بعد مختلف زاویوں سے حالات حاضرہ کا تجزیہ و تحلیل کرتے ہوئے مستقبل میں مسلمانوں کو درپیش خطرات سے آگاہ کیا ہے۔ اسی طرح علوی حکومت کی خصوصیات، مدینہ کے لوگوں کے فکری انحطاط اور نظریاتی اختلافات، حاکمیت کے غلط کرتوتوں کے مقابلے میں لوگوں کی ذمہ داری اور سقیفہ کے واقعے کی حقیقی منظر کشی اس خطبے کے دیگر مضامین میں سے ہیں۔ آپ نے اس خطبہ میں قرآن کی کئی آیات سے استناد کیا ہے جن میں نفسانی خواہشات کی پیروی کے انجام سے متعلق سورہ مائدہ کی آیت نمبر 80، حق کی پیروی نہ کرنے والوں کی ملامت کے سلسلے میں سورہ اعراف آیت نمبر 96 اور سورہ زمر آیت نمبر 51 اور رہبری اور حکومت کے لئے لائق اور شائستہ افراد کی نشاندہی کے سلسلے میں سورہ یونس آیت نمبر 35 شامل ہیں۔

حضرت زہراؑ کا یہ خطبہ مختلف طریقوں سے شیعہ اور اہل سنت حدیثی کتابوں میں آیا ہے۔ اسی طرح حضرت زہراؑ کی حالات زندگی کے بارے میں تحریر کردہ کتابوں میں محققین نے اس خطبہ کی بھی تشریح کی ہے۔

اجمالی تعارف اور اہمیت

حضرت فاطمہؑ کا مدینہ کی خواتین سے خطاب یا خطبہ عیادت حضرت فاطمہؑ کی اس تقریر کو کہا جاتا ہے جسے آپ نے بیماری کی حالت میں عیادت کے لئے آنے والی خواتین کے سامنے ارشاد فرمایا۔[1] آپ کی عیادت‌ کے لئے آنے والی خواتین کی تعداد اور باقی تفصیلات کے بارے میں دقیق معلومات میسر نہیں[2] البتہ کتاب بلاغات النساء[3] اور شرح ابن‌ابی‌الحدید بر نہج‌البلاغہ[4] میں آیا ہے کہ مہاجر و انصار میں سے کئی خواتین حضرت فاطمہؑ کے پاس آئی تھیں۔ اسی طرح تاریخ یعقوبی میں ذکر ہوا ہے کہ ازواج پیغمبر اکرمؐ اور قریش کی بعض خواتین آپ کی عیادت کے لئے آئی تھیں۔[5]

بعض محققن اس خطبے کو فصاحت، بلاغت اور مضمون کے حوالے سے متحیر العقول قرار دیتے ہیں۔[6] ان کے مطابق حضرت فاطمہؑ نے نوزائیدہ اسلامی معاشرے کی سیاسی صورتحال سے مکمل آگاهی کی بنیاد پر سامعین پر زیادہ سے زیادہ اثر گزار ہونے کے لئے اس خطبے میں اظہار خیال، احساسات اور ترغیبی تکنیکی طریقوں کے ذریعے سامعین کو قائل کرنے کی کوشش کی ہے۔[7] اسی طرح اس خطبے کا مضمون مدینے پر حاکم سیاسی پالیسی سے حضرت زہراءؑ کی مکمل آگاہی کی نشاندہی قرار دیتے ہیں۔[8]

شیعہ مرجع تقلید آیت اللہ مکارم شیرازی اس خطبے کو خطبہ فدکیہ کی طرح واضح اور دلیرانہ انداز لب و لہجہ اور غم‌ انگیز انداز بیان کا حامل قرار دیتے ہیں۔[9] ان کے مطابق اگرچہ حضرت فاطمہؑ بہت ظلم و ستم کا شکار ہوئی تھیں اور آپ کے گھر پر ہجوم کے واقعے میں زخم کھانے کی وجہ سے بستر بیماری پر تشریف فرما تھیں؛ لیکن اس خطبے میں اپنے بارے میں آپ نے ایک لفظ بھی نہیں بولا اور آپ کی پوری توجہ غصب خلافت، حضرت علیؑ کی مظلومیت اور اس خطرناک انحراف کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خطرات پر مرکوز تھی جو آپ کے ایثار اور مشیّت الہی پر تسلیم و رضا کی نشانی سمجھی جاتی ہے۔[10]

خطبے کا پس منظر

حضرت فاطمہؑ اپنی عمر کے آخری ایام میں (آپ کے گھر پر ہونے والے حملہ کی وجہ سے) بستر بیماری پر تھیں جس کی بنا پر مہاجر و انصار خواتین آپ کی عیادت کے لئے آئی تھیں۔[11] عیادت‌ کے لئے آنے والی خواتین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مہاجر و انصار حضرت زہراؑ کے ساتھ پیش آنے والے واقعات میں خود کو مقصر جانتے تھے اس بنا پر خواتین کو حضرت زہراؑ کی عیادت کے لئے بھیج کر اس کی تلافی کرنا چاہتے تھے۔[12] اس طرح بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ اس کے پیچھے سیاسی مقاصد بھی کار فرما تھے مثلا یہ کہ خاندان پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ حاکم وقت کے روابط کو بہبود بخشنا اور مدینہ کے غبار آلود فضا کو خوشگوار بنانا اس عیادت کے سیاسی مقاصد میں شمار کیا جا سکتا ہے۔[13]

مضمون

"تمہاری اس دنیا سے میں بہت بے زار ہوں اور تمہارے مَردوں کو میں اپنا دشمن سمجھتی ہوں! ان کے رفتار و کردار کو آزما چکی ہوں، ان سے بہت ناراض ہوں اور ان سے کنارہ کشی اختیار کر چکی ہوں

زندگانى حضرت زہرا عليہا السلام، 1377ہجری شمسی، ص580-583۔

حضرت زہراؑ خطبہ عیادت میں عہد و پیمان توڑنے والوں[14] اور اندھی تقلید کرنے والوں سے اظہار بےزاری کرتے ہوئے ان کی بے وفائی کی منظر کشی کرتی ہیں۔[15] مختلف حوالے سے اس وقت کے سیاسی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے مسلمانوں کے مستقبل کی پیشن گوئی، حکومت علوی کی خصوصیات، مسلمانوں کے فکری انحطاط اور نظریاتی اختلافات، حاکم وقت کے غلط کرتوتوں کےمقابلے میں لوگوں کی ذمہ داری اور سقیفہ بنی ساعدہ کے واقعے کے پس پردہ حقائق کو بے نقاب کرتی ہیں۔[16] آپ اس خطبہ میں قرآن کی کئی آیات من جملہ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 80 جوکہ نفسانی خواہشات کی پیروی کے انجام، سورہ اعراف آیت نمبر 96 اور سورہ زمر آیت نمبر 51 حق کی پیروی نہ کرنے والوں کی ملامت اور سورہ یونس آیت نمبر 35 رہبری اور حکومت کے لئے لایق اور شائستہ افراد کی نشاندہی کرنے والی آیات سے اسنتاد کرتی ہیں۔[17]

لوگوں کی سرزنش

حضرت فاطمہ زہراؑ اس خطبے کی ابتداء میں مہاجرین و انصار کو حاکم وقت کی چاپلوسی[18] اور حکومت کے انحرافی سیاسی پالیسی پر خاموشی اختیار کرنے کی وجہ سے ان کی سرزنش کرتی ہیں اور پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں ان کی فولادی ارادے کے سست پڑ جانے پر ان کی شکایت کرتی ہیں۔[19] اور ان کو ٹوٹی ہوئی تلواروں اور نیزوں کے ساتھ تشبیہ دیتی ہیں۔[20] حسین علی منتظری کے مطابق ان تشبیہات میں پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد کے واقعات میں اس وقت کے مسلمانوں کے فکری انحطاط اور تظریاتی اختلافات کی نشاندہی ہوتی ہے۔[21] حضرت زہراؑ غصب خلافت میں مہاجر و انصار کو ذمہ دار ٹھراتی ہیں کیونکہ یہ لوگ حاکم وقت کے غلط سیاسی پالیسی کے سامنے تسلیم ہوئے[22] اور یہ بدنما داغ تاریخ میں ہمیشہ کے لئے ان کی پیشانی پر کلنگ کے ٹیکے کی طرح باقی رہیں گے۔[23]

امام علیؑ کو خلافت سے دور رکھنے کی علت

اس خطبے کے دوسرے حصے میں حضرت فاطمہؑ نے امام علیؑ کو خلافت سے دور رکھنے کے اصل مقاصد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دشمن کے مقابلے میں آپ کی شجاعت اور تسلیم‌ ناپذیری، آپ کی نسبت کینہ اور دشمنی، موت کی نسبت آپ کی بے اعتنائی، خدا کی راہ میں آپ کا غضبناک ہونا اور دشمن کی کسی سازش کا شکار نہ ہونے کو اس کے اصلی دلائل میں شمار کرتی ہیں۔[24]

حکومت علوی کی خصوصیات

حضرت فاطمہؑ نے اس خطبے کے ایک اور حصے میں فرماتی ہیں کہ اگر حضرت علیؑ پیغمبر اکرمؐ کے بعد اسلامی حکومت کا حاکم ہوتا تو لوگوں کو کیسی حکومت نصیب ہوتی۔ حق اور باطل کا تصفیہ اور مشرکین کے باقیات کے ہاتھوں حکومت کو کھیلونا بننے سے محفوظ رہنا، مسلمانوں کی نسبت حاکم کی مہربانی اور خیر خواہی اور ہدایت کی راہ میں لوگوں کے ساتھ نرمی سے پیش آنا اور تشدد کا اظہار نہ کرنا، تشنگان عدالت کا منبع عدل سے سیراب ہونا، حاکم کا دنیوی امور میں مشغول نہ ہونا، جھوٹے کو سچوں سے جدا کرنا اور تقوای الہی کی رعایت کی وجہ سے اسلامی معاشرے میں برکت اور رحمت کی فراوانی کو حکومت علوی کی برجستہ خصوصیات میں شمار کرتی ہیں۔[25]

غاصب حکام کی توصیف

حضرت زہراؑ اس خطبے کے ایک اور حصے میں مسلمانوں کے اس رویے پر اپنی حیرانگی کا اظہار کرتی ہیں، کہ یہ لوگ کن دلائل کی بنیاد پر ان جھوٹے حکام کی پیروی کی ہیں اور ان جیسے نا اہلوں کو اپنا سرپرست اور ہادی انتخاب کئے ہیں اور کس امیدپر اس قدر ظلم و ستم کے مرتکب ہوئے ہیں۔[26] بعض کہتے ہیں کہ شاید اس حصے میں آپ کی مراد یہ ہے کہ لوگوں کن دلائل کی بنیاد پر حضرت علیؑ اور اہل بیتؑ جیسے طاقتور اور محکم تکیہ گاہ کو چھوڑ کر ان کی جگہ دوسروں کو انتخاب کئے ہیں۔[27] آپ کی تعبیر میں لوگوں نے سر کو چھوڑ کر دم کے ساتھ لپٹ گئے ہیں اور عالم کو چھوڑ کر عوام کے پیچھے چلے گئے ہیں اور اپنی گمرہی اور ہلاکت کو خوشبختی سمجھ بیٹھے ہیں۔ حضرت فاطمہؑ ان غاصب حکمرانوں کو ایسے بد کردار قرار دیتے ہیں جو اپنی بد کرداری کو صلاح تصور کرتے ہیں۔[28]

بے ثبات مستقبل کی پیشنگوئی

غلط انتخاب کے نتیجے سے خبردار کرانا اس خطبے کا آخری حصہ ہے جس میں حضرت فاطمہؑ نے اس ملاقات میں ارشاد فرمایا۔ آپ لوگوں کو تیز اور کاٹنے والی تلواروں، ستمگر اور خونخوار ستمکاروں کا مسلط ہونا، وسیع افراتفری اور مستبد حکومت کی پیشن گوئی کرتی ہیں جو مسلمانوں کی دولت و ثروت بر باد کرے گی اور ان کے اتحاد اور بھائی چارگی کو پراکندہ اور اختلاف کی آگ میں پھینک دے گی۔[29] آیت اللہ مکارم شیرازی کے مطابق ان جملوں سے حضرت زہراؑ کی مراد بنی‌ امیہ اور بنی‌ عباس نیز حجاج بن یوسف جیسوں کی حکومتیں اور واقعہ حرہ جیسے واقعات ہیں۔[30]

حضرت فاطمہؑ کی باتوں پر مہاجر و انصار کے مردوں کا رد عمل

سوید بن غفلہ کے مطابق جب مدینہ کی خواتین نے حضرت فاطمہؑ کی باتوں کو اپنے مردوں تک پہنچائیں، تو ان مردوں میں سے بعض آپ سے معذرت خواہی کے لئے آپ کے پاس چلے گئے اور ابوبکر کی بیعت کرنے اور شرعی اعتبار سے اس بیعت کو توڑنا جائز نہ ہونے کا بہانہ بنا کر اہل‌ بیتؑ کی مدد سے معذرت خواہی کئے۔ حضرت زہراؑ نے ان کی باتوں کو سننے کے بعد فرمایا چلے جاؤ یہاں سے اور مجھ سے بات مت کرو تمہاری اس عذرخواہی میں کوئی صداقت نہیں ہے[31] اور حق کا دفاع نہ کرنے کے لئے تمہارا کوئی بہانہ قابل قبول نہیں ہے اور آئندہ رونما ہونے والے المیے کے ذمہ دار تم لوگ ہو۔[32]

خطبے کے منابع

مدینہ کے خواتین کے سامنے حضرت زہراؑ کا خطبہ معصوم اور غیرمعصوم راویں کے توسط سے شیعہ اور اہل سنت دونوں فریقین کی کتابوں میں نقل ہوا ہے۔[33] یہ خطبہ متعدد اسناد کے ساتھ نقل ہوا ہے[34] من جملہ وہ اسناد درج ذیل ہیں:

میرزا خلیل کمرہ ای کی کتاب ملکہ اسلام کی تصویر

شرحیں

مدینہ کے خواتین کے سامنے حضرت زہراء کا یہ خطبہ مستقل طور پر بھی اور دوسری کتابوں کے ضمن میں بھی اس کی تشریح کی گئی ہے۔

  • ملکہ اسلام، خطبہ فدکیہ اور خطبہ عیادت کی شرح، مصنف: میرزا خلیل کمرہ‌ای۔[43]
  • رنج‌نامہ کوثر آفرینش- حضرت زہراء کے دوسرے خطبہ عیادت کی تشریح، مصنف سید مجتبی برہانی۔
  • حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے خطبے کی شرخ اور واقعہ فدک، مصنف: حسین علی منتظری۔[44]
  • زہرا برترین بانوی جہان، مصنف: آیت اللہ مکارم شیرازی۔[45]
  • سیرہ و سیمای ریحانہ پیامبر(ص)، مصنف: علی کرمی فریدنی۔[46]

متن اور ترجمہ

متن ترجمه
وَ قَالَ سُوَیْدُ بْنُ غَفَلَۃَ لَمَّا مَرِضَتْ فَاطِمَۃُ س الْمَرْضَۃَ الَّتِی تُوُفِّیَتْ فِیہَا دَخَلَتْ عَلَیْہَا نِسَاءُ الْمُہَاجِرِینَ وَ الْأَنْصَارِ یَعُدْنَہَا فَقُلْنَ لَہَا کَیْفَ أَصْبَحْتِ مِنْ عِلَّتِکِ یَا ابْنَۃَ رَسُولِ اللہِ فَحَمِدَتِ اللہَ وَ صَلَّتْ عَلَی أَبِیہَا

کتاب احتجاج میں سوید بن غفلہ سے منقول ہے: جب حضرت فاطمہ علیہا السّلام بیمار ہوئیں، وہ بیماری جس میں آپ کی شہادت واقع ہوئی، آپ کی بیماری جب شدت اختیار کر گئی تو مہاجر و انصار کی بعض خواتین آپ کی عیادت کے لئے آئیں، سلام کے بعد انہوں نے کہا: اے رسول خدا کی بیٹی! آپ کی بیماری کی حالت کیسی ہے اور اس بیماری کی علاج معالجے کے لئے کیا کر رہی ہو؟ آپ نے خدا کی حمد و ستائش اور اپنے والد ماجد رسول خدا پر درود و صلوات بھیجی۔

ثُمَّ قَالَتْ أَصْبَحْتُ وَ اللہِ عَائِفَۃً لِدُنْیَاکُنَّ قَالِیَۃً لِرِجَالِکُنَّ لَفَظْتُہُمْ بَعْدَ أَنْ عَجَمْتُہُمْ وَ سَئِمْتُہُمْ بَعْدَ أَنْ سَبَرْتُہُمْ فَقُبْحاً لِفُلُولِ الْحَدِّ وَ اللَّعِبِ بَعْدَ الْجِدِّ وَ قَرْعِ الصَّفَاۃِ وَ صَدْعِ الْقَنَاۃِ وَ خَتْلِ الْآرَاءِ وَ زَلَلِ الْأَہْوَاءِ وَ بِئْسَ ما قَدَّمَتْ لَہُمْ أَنْفُسُہُمْ أَنْ سَخِطَ اللہُ عَلَیْہِمْ وَ فِی الْعَذابِ ہُمْ خالِدُونَ

اس کے بعد آپ نے کہا: میری حالت ایسی ہے کہ میں تمہاری دنیا سے بیزار ہو چکی ہوں اور تمہارے مردوں کو میں اپنا دشمن سمجھتی ہوں! جن کے گفتار اور کردار کو آزما چکی ہوں اور جو کچھ انھوں نے انجام دئے ہیں میں اس بر بہت ناراض ہوں اور انہیں اپنے سے دور کر دیا ہوں کیونکہ زنگ لگی ہوئی تلوار کی طرح کاٹنے کے قابل نہیں رہے اور ٹوٹے ہوئے نیزے کی طرح دو حصوں میں تقسیم ہو چکے ہیں اور کوتاہ فکر انساوں کی طرح بن گئے ہیں۔ قیامت کے لئے انہوں نے کتنا برا زاد راہ بھیجا ہے۔ اپنے آپ کو خدا کے عذاب اور جہنم کی آگ کے مستحق قرار دئیے ہیں۔

لَا جَرَمَ لَقَدْ قَلَّدْتُہْم رِبْقَتَہَا وَ حَمَّلْتُہُمْ أَوْقَتَہَا وَ شَنَنْتُ عَلَیْہِمْ غَارَاتِہَا فَجَدْعاً وَ عَقْراً وَ بُعْداً لِلْقَوْمِ الظَّالِمِینَ وَیْحَہُمْ أَنَّی زَعْزَعُوہَا عَنْ رَوَاسِی الرِّسَالَۃِ وَ قَوَاعِدِ النُّبُوَّۃِ وَ الدَّلَالَۃِ وَ مَہْبِطِ الرُّوحِ الْأَمِینِ وَ الطَّبِینِ بِأُمُورِ الدُّنْیَا وَ الدِّینِ أَلا ذلِکَ ہُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِینُ

مجبوری کی بنا پر زندگی کے امور کی بھاگ دوڑ ان کے گردن پر ڈال دئے ہیں، ذمہ داری کی سنگینی ان کے سپرد کر دیا ہوں عدالت واگذاردم و ننگ عدالت‌کشی را بر آنہا بار کردء۔ تا قیامت نفرین ہو ان مکّاروں پر، یہ ستم کار لوگ خدا کی رحمت سے دور ہوں، ہلاکت ہو ان پر! کس بنا پر انہوں نے حق و حقیقت کو اپنے محور پر تلاش کرنے کی زحمت نہیں اٹھائی؟ اس طرح خلافت کو نبوّت کے بنیادوں سے دور کر دیا اور ملائکہ کے نازل ہونے کی جگہ سے دوسری جگہ لے گیا اور دین و دنیا کے کاردانوں کی ید قدرت سے اسے خارج کر دیا ہے! خبردار یہ بہت خسارت والا معاملہ ہے!

وَ مَا الَّذِی نَقَمُوا مِنْ أَبِی الْحَسَنِ ع نَقَمُوا وَ اللہُ مِنْہُ نَکِیرَ سَیْفِہِ وَ قِلَّۃَ مُبَالاتِہِ لِحَتْفِہِ وَ شِدَّۃَ وَطْأَتِہِ وَ نَکَالَ وَقْعَتِہِ وَ تَنَمُّرَہُ فِی ذَاتِ اللہِ وَ تَاللہِ لَوْ مَالُوا عَنِ الْمَحَجَّۃِ اللَّائِحَۃِ وَ زَالُوا عَنْ قَبُولِ الْحُجَّۃِ الْوَاضِحَۃِ لَرَدَّہُم إِلَیْہَا وَ حَمَلَہُمْ عَلَیْہَا وَ لَسَارَ بِہِمْ سَیْراً سُجُحاً لَا یَکْلُمُ حشاشہ [خِشَاشُہُ‏] وَ لَا یَکِلُّ سَائِرُہُ وَ لَا یَمَلُّ رَاکِبُہُ وَ لَأَوْرَدَہُمْ مَنْہَلًا نَمِیراً صَافِیاً رَوِیّاً تَطْفَحُ ضَفَّتَاہُ وَ لَا یَتَرَنَّقُ جَانِبَاہُ وَ لَأَصْدَرَہُمْ بِطَاناً

کیا چیز سبب بنی علی علیہ‌ السلام کی عیب‌جویی کرنے کی؟ ان کی عیب بیان کی؛ کیونکہ ان کی تلوار کے سامنے اپنوں اور بیگانوں، شجاع اور ڈرپوک کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ ان کو پتہ چلا تھا کہ علی کو موت کی کوئی فکر نہیں ہے۔ انہوں نے دیکھا تھا کہ وہ ان پر کیسے ٹوٹ پڑتا ہے اور ان کو کیسے فنا کی وادی میں پھینک دیتا ہے اور ان میں سے بعض کو دوسروں کی عبرت کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔ خدا کی کتاب پر اسے عبور حاصل ہے، ان کا غصہ خدا کی خشنودی کے لئے تھا۔ خدا کی قسم اگر آشکار اور نمایان طور پر حق منحرف نہ ہوا ہوتا اور حق و حقیقت کی واضح اور آشکار حجتوں دلائل کو قبول کرنے سے انکار نہ کئے ہوتے تو سیدھی راہ پر ہدایت یافتہ ہوتے اور ان کو گمرہی اور ضلالت سے نجات دے دیتا۔ خدا کی قسم اگر تمہارے مرد خلافت کی بھاگ دوڑ علیؑ ہاتھوں سے منحرف نہ ہونے کے لئے کوشش کرتے اور مسلمانوں کے امور کو جس طرح پیغمبر اکرمؐ نے ان کے سپرد کیا تھا، ان کے حوالے کر چکے ہوتے تو علی اسے آسانی سے آگے لے چلتے اور اس اونٹ کو حفاظت کے ساتھ اس کے منزل مقصود تک پہنچا دیتا کہ اس اونٹ کی حرکت تکلیف دہ نہ ہوتی۔ علی ان کو ایک صاف و شفاف پانی کی گھات تک رہنمائی کرتا جس کے اطرف سے پانی بہہ رہا ہوتا اور کبھی بھی کدورت اور دشمنی کا رنگ اس پر غالب نہ آتا اور وہ ان کو اس پانی کے گھات سے سیراب کرتا۔

وَ نَصَحَ لَہُمْ سِرّاً وَ إِعْلَاناً وَ لَمْ یَکُنْ یَتَحَلَّی مِنَ الدُّنْیَا بِطَائِلٍ وَ لَا یَحْظَی مِنْہَا بِنَائِلٍ غَیْرَ رَیِّ النَّاہِلِ وَ شُبْعَۃِ الْکَافِلِ وَ لَبَانَ لَہُمُ الزَّاہِدُ مِنَ الرَّاغِبِ وَ الصَّادِقُ مِنَ الْکَاذِبِ وَ لَوْ أَنَّ أَہْلَ الْقُری آمَنُوا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنا عَلَیْہِمْ بَرَکاتٍ مِنَ السَّماءِ وَ الْأَرْضِ وَ لکِنْ کَذَّبُوا فَأَخَذْناہُمْ بِما کانُوا یَکْسِبُونَ وَ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْ ہؤُلاءِ سَیُصِیبُہُمْ سَیِّئاتُ ما کَسَبُوا وَ ما ہُمْ بِمُعْجِزِینَ

علی ان کے لئے خلوت اور جلوت میں خیر اور نیکی کا تحفہ دے دیتا۔ اگر علی مسند خلافت پر بیٹھتا تو کبھی بھی بیت المال سے اپنے لئے اس میں سے کچھ اکھٹا نہ کرتا اور دنیا کے مال و دولت سے اپنے لئے سوائے ضرورت کے کچھ جمع نہ کرتا، اتنی مقدار پانی کہ جس سے تشنگی کو رفع کیا جاتا اور اتنی خوارک جس سے بھوک کو ختم کیا جا سکتا۔ ایسے میں ایک پارسا مرد پارسا دنیا کے حطام کی پاس سے دوبارہ پہچانا جاتا اور سچے اور جھوٹے ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے، ایسے میں زمین اور آسمان کی برکتیں ان پر نازل ہوتی اور خدا بہت جلد ان کو ان کے اعمال کے انجام تک پہنچا دے گا۔ کیونکہ اگر کسی ایمان لانے والی بستی کے مکین اگر خدا سے خوف کرے تو خدا زمین اور آسمان کی برکتیں ان پر نازل کر دیتا ہے۔ لیکن انہوں نے جھوٹ کا سہارا لیا اور ہم نے ان کو جو چیز انہوں نے کسب کیا ہے اس میں گرفتار چھوڑ دیا اور ان میں سے جس نے بھی ظلم و ستم کا مرتکب ہوا اپنے برے کردار کے انجام تک عنقریب پہنچ جائے گا اور وہ ہم پر کبھی غالب نہیں آئیں گے۔

أَلَا ہَلُمَّ فَاسْمَعْ وَ مَا عِشْتَ أَرَاکَ الدَّہْرَ عَجَباً- وَ إِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُہُمْ لَیْتَ شِعْرِی إِلَی أَیِّ سِنَادٍ اسْتَنَدُوا وَ إِلَی أَیِّ عِمَادٍ اعْتَمَدُوا وَ بِأَیَّۃِ عُرْوَۃٍ تَمَسَّکُوا وَ عَلَی أَیَّۃِ ذُرِّیَّۃٍ أَقْدَمُوا وَ احْتَنَکُوا لَبِئْسَ الْمَوْلی وَ لَبِئْسَ الْعَشِیرُ وَ بِئْسَ لِلظَّالِمِینَ بَدَلًا اسْتَبْدَلُوا وَ اللہِ الذَّنَابَی بِالْقَوَادِمِ وَ الْعَجُزَ بِالْکَاہِلِ فَرَغْماً لِمَعَاطِسِ قَوْمٍ یَحْسَبُونَ أَنَّہُمْ یُحْسِنُونَ صُنْعاً ۔۔۔ أَلا إِنَّہُمْ ہُمُ الْمُفْسِدُونَ وَ لکِنْ لا یَشْعُرُونَ- وَیْحَہُمْ أَ فَمَنْ یَہْدِی إِلَی الْحَقِّ أَحَقُّ أَنْ یُتَّبَعَ أَمَّنْ لا یَہِدِّی إِلَّا أَنْ یُہْدی فَما لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُونَ

آؤ! اور سنو! زمانہ کس قسم کے دوائیاں چھپاتا ہے اور کون سے کھیل یکے بعد دیگرے ظاہر کرتا ہے؟۔ کاش مجھے معلوم ہوتا کہ وہ کس پناہ گاہ پر بھروسہ کرتے ہیں؟ اور انہوں نے کس ستون کی پناہی لی ہیں؟ اور کس رسی سے چمٹے ہوئے ہیں؟ اور وہ کونسے خاندان پر انہوں نے سبقت لئے ہیں؟ حیرت ہے! کہ برے سرپرست اور برے دوستوں کا انتخاب کیا ہے اور بدکار [جو خدا کی بجائے شیطان کی اطاعت کرتے ہیں] نے کیا برا تبادلہ کیا ہے۔ انہوں نے بڑے پروں کے بجائے دم کو پر قرار دئے ہیں اور انہوں نے سر کو چھوڑ کر دم کا انتخاب کیا ہے۔ اس قوم کا ناک زلت کی خاک پر مل دیا جائے گا جس نے یہ سوچا ہو کہ ان کرتوتوں کے ذریعے انہوں نے کوئی اچھا کام کیا ہے۔ جان لو کہ یہ لوگ فاسد لوگ ہیں لیکن خود ان کو معلوم نہیں۔ ان پر ہلاکت ہو ایا وہ جو لوگوں کو راہ راست کی طرف دعوت دیتا ہے وه پیروی کے لئے سزاوار ہے یا وہ جسے راستے کا علم ہی نہیں ہے؟ تم پر ہلاکت ہو کتنا برا فیصلہ کرتے ہو۔

أَمَا لَعَمْرِی لَقَدْ لَقِحَتْ فَنَظِرَۃٌ رَیْثَمَا تُنْتَجُ ثُمَّ احْتَلَبُوا مِلْءَ الْقَعْبِ دَماً عَبِیطاً وَ ذُعَافاً مُبِیداً ہُنَالِکَ یَخْسَرُ الْمُبْطِلُونَ وَ یُعْرَفُ الْبَاطِلُونَ غِبَّ مَا أُسِّسَ الْأَوَّلُونَ ثُمَّ طِیبُوا عَنْ دُنْیَاکُمْ أَنْفُساً وَ اطْمَأَنُّوا لِلْفِتْنَۃِ جَاشاً وَ أَبْشِرُوا بِسَیْفٍ صَارِمٍ وَ سَطْوَۃِ مُعْتَدٍ غَاشِمٍ وَ بِہَرْجٍ شَامِلٍ وَ اسْتِبْدَادٍ مِنَ الظَّالِمِینَ یَدَعُ فَیْئَکُمْ زَہِیداً وَ جَمْعَکُمْ حَصِیداً فَیَا حَسْرَتَی لَکُمْ وَ أَنَّی بِکُمْ وَ قَدْ عَمِیَتْ عَلَیْکُمْ أَ نُلْزِمُکُمُوہا وَ أَنْتُمْ لَہا کارِہُونَ

لیکن میری جان کی قسم کہ اس کام کا نطفہ منعقد ہو چکا تھا۔ [اور اس فتنے کی اونٹنی حاملہ ہو چکی ہے اور عنقریب بچہ جننے والی ہے] انتظار کیا گیا تاکہ یہ فتنہ پورے اسلامی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔ اس اونٹنی کے پستان سے اس کے بعد خون اور زہر دھو لو جو بہت جلد ہلاک کرنے والا ہے۔ "یہاں باطل کی تلاش کرنے والوں کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے" اور بعد میں آنے والے مسلمانوں کو معلوم ہو جائے گا کہ صدر اسلام میں مسلمانوں کی کیا حالت تھی۔ تہمارے دلوں کو فتنوں سے سکون ملے گا۔ تمہیں ننگی اور تیز تلواروں کی بشارت ہو، اور ظالم و جابر و ستمکار کے حملے کی بشارت ہو، و درہم شدن امور ہمگان و خودرأیی ستمگران! تمہارے لئے غنایم اور حقوق میں سے تھوڑے دئے جائیں گے۔ اور تمہاری جمعیت کو اپنی تلواروں کے ذریعے دور کریں گے۔ اور تمہیں سوائے حسرت کے پھل کوئی اور چیز نصیب نہیں ہوگی۔ تمہارے امور کہاں تک جا پہنچنیں گے؟ حالانکہ "امور کی حقیقت تم سے پوشیدہ ہیں۔ آیا میں تمہیں کسی ایسے امر کا حکم دوں جسے تم انجام دینا نہیں چاہتے؟»۔

قَالَ سُوَیْدُ بْنُ غَفَلَۃَ فَأَعَادَتِ النِّسَاءُ قَوْلَہَا ع عَلَی رِجَالِہِنَّ فَجَاءَ إِلَیْہَا قَوْمٌ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ وَ الْأَنْصَارِ مُعْتَذِرِینَ وَ قَالُوا یَا سَیِّدَۃَ النِّسَاءِ لَوْ کَانَ أَبُو الْحَسَنِ ذَکَرَ لَنَا ہَذَا الْأَمْرَ قَبْلَ أَنْ یُبْرَمَ الْعَہْدُ وَ یُحْکَمَ الْعَقْدُ لَمَا عَدَلْنَا عَنْہُ إِلَی غَیْرِہِ فَقَالَتْ ع إِلَیْکُمْ عَنِّی فَلَا عُذْرَ بَعْدَ تَعْذِیرِکُمْ وَ لَا أَمْرَ بَعْدَ تَقْصِیرِکُمْ۔[47]

سوید بن غفلہ کہتے ہیں: مجلس میں موجود خواتین نے حضرت فاطمہ علیہا السلام کی باتوں کو اپنے مردوں تک پہنچا دی۔ اس کے بعد بزرگان اور مہاجرین و انصار کے سرکردگان پشیمانی کی حالت میں عذرخواہی کے لئے حضرت زہرا علیہا السلام کے پاس آئے اور آپ سے کہا: اے جنت کی خواتین کی سردار! اگر ابو الحسن (علی علیہ السّلام) ہمارے لئے حقایق بیان کرتے اس سے پہلے کہ ہم کسی اور (ابو بکر) کے ساتھ عہد و پیمان اور بیعت کرتے، تو ہم ہرگز علیؑ سے منہ نہ پھیر لیتے اور دوسروں کی طرف مائل نہیں ہوتے۔ حضرت فاطمہ علیہا السّلام نے فرمایا: میری ذمہ درای حقائق بیان کرنا تھا (میری طرف سے تم لوگوں کو ایک نصیحت تھی) تم پر حجّت ہو گئی ہے۔ تمہاری عذر خواہی مقبول اور پسندیدہ نہیں ہے اور تمہاری کوتاہی اور قصور بہت ہی آشکار اور مسلم ہے جس کے بعد کسی توجیہ کا تصور بھی نہیں ممکن نہیں ہے۔[48]

حوالہ جات

  1. طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج1، ص108۔
  2. خشاوی، زندگانی سیاسی حضرت فاطمہ زہراؑ، 1378ہجری شمسی، ص۔۔۔
  3. ابن‌طیفور، بلاغات النساء، ص19۔
  4. ابن‌ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، ج16، ص233۔
  5. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، بیروت، ج2، ص115۔
  6. کرمی، سیرہ و سیمای ریحانہ پیامبر، 1380ہجری شمسی، ص734۔
  7. خزاعی و ہمکاران، «تحلیل خطبہ عیادت بر پایہ نظریہ کنش گفتاری»، ص7-8۔
  8. فتاحی‌زادہ و رسولی، «اسناد و شروح خطبہ‌ہای حضرت زہرا سلام اللہ علیہا»، ص17-18۔
  9. مکارم شیرازی، زہرا برترین بانوی جہان، 1379ہجری شمسی، ص211۔
  10. مکارم شیرازی، زہرا برترین بانوی جہان، 1379ہجری شمسی، ص212-215۔
  11. خزاعی و ہمکاران، «تحلیل خطبہ عیادت بر پایہ نظریہ کنش گفتاری»، ص16۔
  12. کرمی، سیرہ و سیمای ریحانہ پیامبر، 1380ہجری شمسی، ص734۔
  13. خزاعی و ہمکاران، «تحلیل خطبہ عیادت بر پایہ نظریہ کنش گفتاری»، ص16۔
  14. پورسید آقایی، «خطبہ‌ہای فاطمہؑ»، ص60۔
  15. منتظری، خطبہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا و ماجرای فدک، 1374ہجری شمسی، ص379۔
  16. منتظری، خطبہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا و ماجرای فدک، 1374ہجری شمسی، ص371؛ دشتی، فرہنگ سخنان حضرت فاطمہؑ، 1381ہجری شمسی، ص90-96؛ کرمی، سیرہ و سیمای ریحانہ پیامبر، 1380ہجری شمسی، ص737-745۔
  17. پورسید آقایی، «خطبہ‌ہای فاطمہؑ»، ص60۔
  18. کرمی، سیرہ و سیمای ریحانہ پیامبر، 1380ہجری شمسی، ص737۔
  19. مکارم شیرازی، زہرا برترین بانوی جہان، 1379ہجری شمسی، ص221۔
  20. کرمی، سیرہ و سیمای ریحانہ پیامبر، 1380ہجری شمسی، ص738۔
  21. منتظری، خطبہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا، 1374ہجری شمسی، ص383-384۔
  22. منتظری، خطبہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا، 1374ہجری شمسی، ص385۔
  23. مکارم شیرازی، زہرا برترین بانوی جہان، 1379ہجری شمسی، ص222۔
  24. دشتی، فرہنگ سخنان حضرت فاطمہؑ، 1381ہجری شمسی، ص92؛ منتظری، شرح خطبہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا، 1374ہجری شمسی، ص393-395۔
  25. مکارم شیرازی، زہرا برترین بانوی جہان، 1379ہجری شمسی، ص227-228؛ منتظری، شرح خطبہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا، 1374ہجری شمسی، ص402-410؛ کرمی، سیرہ و سیمای ریحانہ پیامبر، 1380ہجری شمسی، ص741۔
  26. کرمی، سیرہ و سیمای ریحانہ پیامبر، 1380ہجری شمسی، ص742-743؛
  27. منتظری، شرح خطبہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا، 1374ہجری شمسی، ص414۔
  28. دشتی، فرہنگ سخنان حضرت فاطمہؑ، 1381ہجری شمسی، ص94-95۔
  29. کرمی، سیرہ و سیمای ریحانہ پیامبر، 1380ہجری شمسی، ص744-745؛ دشتی، فرہنگ سخنان حضرت فاطمہؑ، 1381ہجری شمسی، ص95۔
  30. مکارم شیرازی، زہرا برترین بانوی جہان، 1379ہجری شمسی، ص238-241۔
  31. منتظری، خطبہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا و ماجرای فدک، 1374ہجری شمسی، ص424-426۔
  32. کرمی، سیرہ و سیمای ریحانہ پیامبر، 1380ہجری شمسی، ص748-749۔
  33. فتاحی‌زادہ و رسولی، «اسناد و شروح خطبہ‌ہای حضرت زہرا سلام اللہ علیہا»، ص18۔
  34. مکارم شیرازی، زہرا برترین بانوی جہان، 1379ہجری شمسی، ص215۔
  35. شیخ صدوھ، معانی الاخبار، 1403ھ، ص354-356۔
  36. طبری، دلائل الامامۃ، 1413ھ، ص125۔
  37. ابن‌طیفور، بلاغات النساء، ص19۔
  38. ابن‌ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، ج16، ص233۔
  39. طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج1، ص108۔
  40. علامہ حلی، خلاصہ الاقوال، 1417ھ، ص163۔
  41. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج43، ص159۔
  42. منتظری، خطبہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا و ماجرای فدک، 1374ہجری شمسی، ص 376-377۔
  43. نگاہی بہ کتاب «ملکہ اسلام»، کتابی در شرح خطبہ ہای حضرت زہراؑ، مندرج در سایت دارالعرفان۔
  44. منتظری، شرح خطبہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا و ماجرای فدک، 1374ہجری شمسی، ص371-428۔
  45. مکارم شیرازی، زہرا برترین بانوی جہان، 1379ہجری شمسی، ص211-247۔
  46. کرمی، سیرہ و سیمای ریحانہ پیامبر (ص)، 1380ہجری شمسی، ص733-749۔
  47. طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج1، ص108-109۔
  48. روحانی، زندگانى حضرت زہرا عليہا السلام( ترجمہ جلد 43 بحار الأنوار)، 1377ہجری شمسی، ص580-583۔

مآخذ

  • ابن‌ابی‌الحدید، عبدالحمید بن ہبۃاللہ، شرح نہج البلاغہ، قم، کتابخانہ آیت اللہ مرعشی نجفی، 1404ھ۔
  • ابن‌طیفور، ابی‌الفضل احمد بن ابی‌طاہر، بلاغات النساء، مکتبۃ بصیرتی، بی‌تا۔
  • برہانی، سید مجتبی، رنج‌نامہ کوثر شرح خطبہ دوم عیادت زنان مہاجر و انصار از حضرت زہرا سلام اللہ علیہا، قم، حماسہ قلم، 1399ہجری شمسی۔
  • پورسیدآقایی، سید مسعود، «خطبہ‌ہای فاطمہؑ، در دانشنامہ فاطمی، زیر نظر علی‌اکبر رشاد، جلد سوم، تہران، سازمان انتشارات پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، 1393ہجری شمسی۔
  • خزاعی، محبوبہ؛ خاکپور، حسین؛ حسومی، ولی‌اللہ، «تحلیل خطبہ عیادت حضرت زہراؑ بر پایہ نظریہ کنش گفتاری»، در فصلنامہ تاریخ اسلام، شمارہ 80، 1398ہجری شمسی۔
  • خشاوی، شہین، زندگانی سیاسی حضرت فاطمہ زہرا سلام‌اللہ‌علیہا، تہران، نشر عابد، 1378ہجری شمسی۔
  • دشتی، محمد، فرہنگ سخنان فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، قم، موسسہ تحقیقاتی امیرالمؤمنین، 1381ہجری شمسی۔
  • روحانی، محمد، زندگانی حضرت زہرا علیہا السلام، ترجمہ جلد 43 بحارالانوار، تہران، نشر مہام، 1377ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوھ، محمد بن علی، معانی الاخبار، قم، دفتر انتشارات اسلامى وابستہ بہ جامعہ مدرسين حوزہ علميہ قم‏، 1403ھ۔
  • طبرسی، احمد بن علی، الإحتجاج على أہل اللجاج‏، مشہد، نشر مرتضی، 1403ھ۔
  • طبرى آملى صغير، محمد بن جرير بن رستم‏، دلائل الامامۃ، قم، نشر بعثت، 1413ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، خلاصۃ الاقوال فی معرفہ الرجال، قم، موسسہ نشر الفقاہہ، 1417ھ۔
  • فتاحی‌زادہ، فتحیہ، رسولی راوندی، محمدرضا، «اسناد و شروح خطبہ‌ہای حضرت زہرا سلام اللہ علیہا»، در فصلنامہ تخصصی مطالعات قرآن و حدیث سفینہ، شمارہ 45، 1395ہجری شمسی۔
  • کرمی فریدنی، علی، سیرہ و سیمای ریحانہ پیامبر(ص)، قم، نشر دلیل ما، 1380ہجری شمسی۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، دار احیا‌ء التراث العربی، 1403ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، زہراؑ برترین بانوی جہان، قم، نشر سرور، 1379ہجری شمسی۔
  • منتظری، حسینعلی، شرح خطبہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا و ماجرای فدک، قم، دفتر حضرت آیت اللہ العظمی منتظری، 1374ہجری شمسی۔
  • یعقوبی، احمد بن اسحاھ، تاریخ یعقوبی، بیروت، دار صادر، بی تا۔