سورہ یس
سوره یس (جسے یاسین پڑھا جاتا ہے) قرآن مجید کی 36ویں اور مکی سورتوں میں سے ہے جو 22ویں اور 23ویں پارے میں واقع ہے۔اور اس کا آغاز حروف مقطعہ «یا اور سین» سے آغاز ہوا ہے اور اسی نام سے مشہور ہوئی ہے اور روایات کے مطابق افضل ترین سورتوں میں شمار ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ یہ سورت "قلب القرآن" (قرآن کا دل) کے عنوان سے ملقب ہوئی ہے۔ سورہ یس میں اصول دین میں سے توحید، نبوت اور معاد کے بارے میں تذکرہ ہوا ہے اور قیامت میں مردوں کا زندہ ہونا اور بدن کے اجزاء کے کلام کرنے کا بھی تذکرہ ہوا ہے۔ اسی طرح اصحاب قریہ کا اور مؤمن آل یس کا واقعہ بھی بیان ہوا ہے۔ روایات میں سورہ یس کی تلاوت کی بہت ساری فضیلیں ذکر ہوئی ہیں جیسا کہ امام صادقؑ سے منقول ہے کہ جو بھی سونے سے پہلے یا غروب سے پہلے اس کی تلاوت کرے تو پورا دن محفوظ رہے گا اور زیادہ رزق ملے گا، اور جو بھی رات میں سونے سے پہلے پڑھے تو اللہ تعالی کی طرف سے ہزار فرشتے اسے شیطان اور ہر آفت سے محفوظ رکھنے پر مامور ہونگے۔
فاطر | سورۂ یس | صافات | |||||||||||||||||||||||
|
معرفی
- نام
اس سورت کو "یاسین" کہا جاتا ہے کیونکہ اس کا آغاز حروف مُقَطَّعہ [=یس: یاء سین] سے ہوتا ہے۔ سورہ یس کو سورہ حبیب نجار بھی کہا گیا ہے؛ کیونکہ اس کی آیت 13 سے 30 اس کا واقعہ ذکر ہوا ہے۔ اس سورت کے دوسرے ناموں میں مدافعہ و مُعَمَّہ ذکر ہوئے ہیں کیونکہ اس کی تلاوت کرنے والوں سے برائی دور کرتی ہے اور دنیا و آخرت کی بھلائی اسے لاتی ہے۔ روایات کے مطابق سورہ یس قرآن کی بافضیلت ترین سورتوں میں سے ایک ہے، جسے «قرآن کے دل» کا لقب ملا ہے۔[1]
- ترتیب و محل نزول
سوره یس مکی سورتوں میں سے ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے پیغمبر اکرمؐ پر نازل ہونے والی 41ویں سورت جبکہ موجودہ مصحف میں 36ویں سورت ہے[2]جو 22ویں اور 23ویں پارے میں واقع ہے۔
- آیات کی تعداد اور دیگر خصوصیات
سوره یس میں 83 آیات، 733 کلمات اور 3086 حروف ہیں۔ اور حجم کے اعتبار سے یہ سورت مثانی سورتوں میں شامل ہے اور قرآن کے ایک حزب یا ایک پارے کے ایک چوتھائی حصے کے برابر ہے۔ اسی طرح ان سورتوں میں سے ایک ہے جس کی ابتدا حروف مقطعات سے ہوتی ہے اور قسم سے شروع ہونے والی پہلی سورت ہے۔[3]
مضامین
اس سورت میں اصول دین میں سے توحید، نبوت اور معاد کی طرف اشارہ ہے۔ ابتدائی آیات نبوت اور اس کا فلسفہ اور لوگوں کا پیغمبروں کی دعوت پر عکس العمل کو بیان کیا ہے۔ اس کے بعد توحید کے بارے میں بعض آیات آئی ہیں جن میں اللہ کی وحدانیت کی بعض نشانیاں بیان کی ہیں۔ اس کے بعد معاد اور قیامت میں سزا پانے نیز پرہیزگاروں کو مجرموں سے الگ کرنے کے لیے مردوں کا زندہ ہونے کو بیان کیا ہے۔اور کہا گیا ہے کہ اس دن انسان کے اعضا اور جوارح بولنے لگیں گے۔سورت کے آخر میں تینوں اصول کا خلاصہ بیان کیا ہے اور ان پر استدلال کیا ہے۔[4]
کافروں کی سزا کے بارے میں پیغمبر کے تذکر کی حقانیت | |||||||||||||||||||||||||||||||
چوتھا گفتار؛ آیہ ۶۹-۸۳ معاد کے بارے میں پیغمبر کے تذکر کی حقانیت کی دلیلیں | تیسرا گفتار؛ آیہ ۳۳-۶۸ پیغمبر کی تعلیمات سے کافروں کا انحراف | دوسرا گفتار؛ آیہ ۱۳-۳۲ پیغمبروں کے خبردار کرنے پر توجہ نہ کرنے کا انجام | پہلا گفتار؛ آیہ ۱-۱۲ پیغمبر کے انتباہ پر کافروں کا غلط رویہ | ||||||||||||||||||||||||||||
پہلی دلیل؛ آیہ ۶۹-۷۰ پیغمبر کی باتوں کا وحی ہونا | پہلا انحراف؛ آیہ ۳۳-۴۶ اللہ کی ربوبیت کی نشانیوں کا انکار | پہلا مطلب؛ آیہ ۱۳-۱۴ انطاکیہ کے لوگوں کی ہدایت کے لیے تین پیغمبروں کو بھیجنا | پہلا مطلب؛ آیہ ۱-۶ پیغمبر کی ذمہ داری لوگوں کو تذکر دینا | ||||||||||||||||||||||||||||
دوسری دلیل؛ آیہ ۷۱-۷۳ خلقت میں اللہ کی وحدانیت | دوسرا انحراف؛ آیہ ۴۷ فقیروں کی مدد نہ کرنا | دوسرا مطلب؛ آیہ ۱۵-۱۹ انطاکیہ کے لوگوں کا انبیاء کو انکار کرنا | دوسرا مطلب؛ آیہ ۷-۱۰ کافروں کا پیغمبر پر ایمان نہ لانا | ||||||||||||||||||||||||||||
تیسری دلیل؛ آیہ ۷۴-۷۵ اللہ کے شریکوں کی ناتوانی | تیسرا انحراف؛ آیہ ۴۸-۶۸ قیامت کا انکار | تیسرا مطلب؛ آیہ ۲۰-۲۷ ایک مرد کا انبیاء پر ایمان لانا | تیسرا مطلب؛ آیہ ۱۱-۱۲ خدا سے ڈرنے والوں کا ایمان لانا | ||||||||||||||||||||||||||||
چوتھی دلیل؛ آیہ ۷۷-۸۳ انسانوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر اللہ کی قدرت | چوتھا مطلب؛ آیہ ۲۸-۳۲ مومن کا قتل اور کافروں پر عذاب کا نزول | ||||||||||||||||||||||||||||||
مشہور آیات
1-وَکلَّ شَیءٍ أَحْصَینَاهُ فِی إِمَامٍ مُّبِینٍ (ترجمہ: اور ہم نے ہر چیز کو امامِ مبین میں جمع کر دیا ہے۔)[؟–12]
بہت سارے مفسروں نے «امام مُبین» کو یہاں پر لوح محفوظ یا وہ کتاب جس میں تمام موجودات اور حادثات نیز تمام اعمال درج ہوتے ہیں وہ مراد لیا ہے۔ بعض نے لفظ «لفظ امام» کو یہاں استعمال کرنے کے بارے میں یہ بتایا ہے شاید یہ کتاب قیامت میں ثواب اور عقاب کے مامور افراد کے لیے رہبر اور پیشوا اور انسانی اعمال ناپنے اور انہیں ثواب و عقاب دینے کا پیمانہ قرار دیا ہے۔[6]شیعہ حدیث کے منابع میں یہ گہا گیا ہے کہ امام مبین سے مراد امام علیؑ ہیں؛ جیسا کہ امام محمد باقرؑ سے ایک روایت نقل ہوئی ہے: جب یہ آیت نازل ہوئی تو پیغمبر اکرمؐ نے اپنا رخ امام علیؑ کی طرف کیا اور کہا: یہ مرد «امام مبین ہیں! یہ وہ امام ہیں جس کے لیے اللہ تعالی نے ہر چیز دی ہے۔».[7]اسی طرح ابن عباس سے تفسیر نور الثقلین میں نقل ہوا ہے کہ امام علیؑ یوں فرماتے تھے: خدا کی قسم میں امام مبین ہوں اور حق کو باطل سے جدا کرتا ہوں اور اس علم کو رسول اللہؐ سے ارث میں لیا ہے۔[8]
2-إِنَمَا أَمرهُ إِذا أَرادَ شَیئًا أَن یقولَ لَه کن فیکونُ (ترجمہ: اس کا معاملہ تو بس یوں ہے کہ جب وہ کوئی چیز پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو کہہ دیتا ہے کہ ہو جا تو وہ (فوراً) ہو جاتی ہے۔)[؟–82]
اس آیت میں خلقت کی حالت بیان ہوتی ہے۔ علامہ طباطبایی اپنی تفسیر میں اس آیت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ دنیا خلق کرنے میں اللہ تعالی کسی چیز کا محتاج نہیں ہے؛ اس کے بعد کہتا ہے کہ «صرف اسے کہتے ہیں ہوجاؤ» تو یہ حقیقت میں ایک تمثیل ہے نہ یہ کہ اللہ تعالی موجودات کی خلقت میں کلام کا محتاج ہو اور اللہ تعالی حکم دے۔[9]امام علیؑ سے ایک نقل میں آیا ہے کہ اللہ تعالی کا کلام (کُن-ہوجاؤ) وہی اس کا فعل ہے جو اس چیز کو ایجاد کرتی ہے۔[10]
اصحاب قریہ اور مؤمن آل یاسین کا واقعہ
سورہ یس کی 13ویں آیت سے 32ویں آیت تک میں تین رسولوں کا واقعہ بیان کیا ہے جو اللہ کی طرف دعوت دینے کسی شہر میں وارد ہوئے؛ لیکن وہاں کے لوگوں نے ان کی دعوت قبول نہیں کی۔ منابع میں ان تین رسولوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے تھے یا حضرت عیسی کی طرف سے بھیجے گئے تھے۔ ان میں ایک شخص جسے روایات میں مؤمن آل یس کہا گیا ہے، اس نے ان رسولوں پر ایمان لے آیا اور لوگوں کو ان رسولوں کی بات ماننے کی دعوت دی؛ لیکن شہر والوں نے ان کی بات نہ مانی اور اسے قتل کیا اور پھر وہ لوگ عذاب میں مبتلا ہوگئے۔ اس شخص کا نام تو قرآن میں ذکر نہیں ہوا ہے؛ لیکن احادیث اور تفسیر کی کتابوں میں اس کا نام حبیب ترکھان کہا گیا ہے اور وہ اور ان کے ایمان کی تعریف ہوئی ہے۔ ان کا مدفن ترکی میں انطاکیہ کا بازار ہے۔[11]
فضیلت اور خصوصیات
سورہ یس کی تلاوت کی فضیلت میں پیغمبر اکرمؐ سے روایت ہوئی ہے کہ جس نے بھی سورہ یس کی تلاوت کی گویا اس نے دس مرتبہ قرآن ختم کیا۔[12] اور جو بھی سورہ یس کو اللہ کی رضا کے لیے پڑھے تو اللہ تعالی اسے بخش دے گا اور 12 قرآن ختم کرنے کے برابر اسے اجر دے گا اور اگر کسی ایسے مریض پر پڑھے جو مرنے کے قریب ہوچکا ہے تو اس سورت کے ہر حرف کے عوض دس فرشتے اس کے پاس صف میں آئیں گے اور اس کے لیے استغفار کریں گے اور قبض روح کے وقت وہیں پر رہیں گے، تشییع جنازہ اور اس کی نماز میت میں شریک ہونگے اور دفن کے وقت بھی حاضر ہونگے۔[13] ابوبصیر امام صادقؑ سے روایت کرتے ہیں کہ جو بھی سونے سے پہلے یا غروب سے پہلے پڑھے تو وہ غروب ہونے تک محفوظ رہے گا اور روزی زیادہ ہوگی، اور جو بھی رات میں سونے سے پہلے تلاوت کرے تو اللہ کے درگاہ سے نکالا ہوا شیطان اور دیگر آفات سے اس کی حفاظت کرے گا۔[14] جابر جعفی امام باقرؑ سے نقل کرتے ہیں کہ جو بھی سورہ یس کو عمر میں ایک بار پڑھے تو اللہ تعالی اس دنیا اور اُس دینا کی مخلوقات نیز جو کچھ آسمانوں پر ہیں ان کے ہر عدد کے مقابلے میں دو ہزار حسنہ اس کے نامہ اعمال میں درج کرے گا۔ اور اسی مقدار میں گناہ بھی معاف کرے گا نیز تنگ دستی، نقصان، قرضہ اور خانہ خرابی سے دوچار نہیں ہوگا، بدبختی اور پاگل پن نہیں دیکھے گا، جذام، وسواس اور دوسری بیماریوں میں مبتلا نہیں ہوگا اور اللہ تعالی اسے موت کی سختی اور مشکلات آسان کرے گا اور اللہ تعالی خود ہی اس کی روح قبض کرے گا۔ اور اس کا شمار ان لوگوں میں سے ہوگا جس کی زندگی کی سہولیات خود اللہ نے اپنے ذمے لیا ہے اور موت کے وقت اس کی خوشحالی کی ضمانت دی ہے اور آخرت میں بھی اس کی خوشحالی کی تضمین کی ہے نیز زمین اور آسمان کے فرشتوں سے کہتا ہے میں اس بندے سے راضی ہوں؛ پس اس کے لیے مغفرت طلب کرو۔[15]
پیغمبر اکرمؐ سے ایک روایت میں سورہ یس کی خصوصیات کچھ یوں نقل ہوئی ہیں: 1۔ اگر کوئی بھوکا ہو تو سیر ہوگا۔ 2۔ پیاسا ہو تو سیراب ہوگا؛3۔ عریان ہو تو لباس ملے گا؛ 4۔ غیر شادی شدہ ہو تو شادی ہوگی؛ 5۔ خوفزدہ ہو تو امن ملے گا؛ 6۔ مریض ہو تو صحت ملے گی؛ 7۔ مسافر ہو تو سفر میں مدد ہوگی؛ 8ـ کسی میت کے پاس پڑھا جائے تو اس پر آسانی ہوگی؛ 9۔ کوئی چیز گم ہوگئی ہو تو وہ ملے گی۔[16] امام صادقؑ سے روایت ہے کہ اگر دل اور ذہن کو قوی اور مضبوط کرنا چاہتے ہو تو 9 شعبان کو سورہ یس کو گلاب اور زعفران سے لکھ کر پی لیں۔[17] مفاتیح الجنان میں آیا ہے کہ نماز زیارت میں بہتر ہے کہ پہلی رکعت میں سورہ حمد کے بعد سورہ رحمن اور دوسری رکعت میں سورہ یس پڑھیں۔[18]
مذہبی رسومات
عام لوگوں میں سورہ رحمن اور سورہ یس کے بارے میں مختلف رسم بھی پائے جاتے ہیں جنہیں بعض مخصوص اوقات میں پڑھتے ہیں۔ مثلا سورہ یس کو ایسے شخص کے لیے پڑھتے ہیں جس کی روح قبض ہونے کو ہے یا عقد کا خطبہ پڑھتے وقت تلاوت کرتے ہیں۔ یہ سورت مختلف فارسی ضرب المثل میں بھی استعمال ہوئی ہے مثلا »یس در گوش کسی خواندن« یعنی تکرار اور تلقین کے معنی میں ہے یا »بہ یس افتادن» یعنی موت کے قریب ہونا۔[19]
تصانیف
اگرچہ دوسری تفاسیر میں سورہ یس کی بھی تفسیر ہوئی ہے لیکن بعض مستقل کتابیں بھی اس سورت کی توضیح اور تفسیر میں لکھی گئی ہیں:
- تفسیر سورہ یاسین بقلم سید محمد رضا صفوی؛ دفتر نشر معارف، 1394شمسی۔ (مصنف کہتا ہے کہ اس کتاب کی تدوین میں تفسیر قرآن از قرآن سے استفادہ کیا ہے)۔
- قلب قرآن بقلم آیت اللہ سیدعبدالحسن دستغیب، نشر جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۳۸۷ش.
- یاسین مشگلگشای مشکلات بقلم محسن شکری، نشر الہام نور. (اس کتاب میں سورہ یاسین کی خصوصیات بیان ہوئی ہیں۔)
متن اور ترجمہ
سورہ یس
|
ترجمہ
|
---|---|
يس ﴿1﴾ وَالْقُرْآنِ الْحَكِيمِ ﴿2﴾ إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ ﴿3﴾ عَلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿4﴾ تَنزِيلَ الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ ﴿5﴾ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أُنذِرَ آبَاؤُهُمْ فَهُمْ غَافِلُونَ ﴿6﴾ لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلَى أَكْثَرِهِمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿7﴾ إِنَّا جَعَلْنَا فِي أَعْنَاقِهِمْ أَغْلاَلاً فَهِيَ إِلَى الأَذْقَانِ فَهُم مُّقْمَحُونَ ﴿8﴾ وَجَعَلْنَا مِن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَأَغْشَيْنَاهُمْ فَهُمْ لاَ يُبْصِرُونَ ﴿9﴾ وَسَوَاء عَلَيْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لاَ يُؤْمِنُونَ ﴿10﴾ إِنَّمَا تُنذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكْرَ وَخَشِيَ الرَّحْمَن بِالْغَيْبِ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ ﴿11﴾ إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي الْمَوْتَى وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ وَكُلَّ شَيْءٍ أحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُبِينٍ ﴿12﴾ وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلاً أَصْحَابَ الْقَرْيَةِ إِذْ جَاءهَا الْمُرْسَلُونَ ﴿13﴾ إِذْ أَرْسَلْنَا إِلَيْهِمُ اثْنَيْنِ فَكَذَّبُوهُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوا إِنَّا إِلَيْكُم مُّرْسَلُونَ ﴿14﴾ قَالُوا مَا أَنتُمْ إِلاَّ بَشَرٌ مِّثْلُنَا وَمَا أَنزَلَ الرَّحْمن مِن شَيْءٍ إِنْ أَنتُمْ إِلاَّ تَكْذِبُونَ ﴿15﴾ قَالُوا رَبُّنَا يَعْلَمُ إِنَّا إِلَيْكُمْ لَمُرْسَلُونَ ﴿16﴾ وَمَا عَلَيْنَا إِلاَّ الْبَلاَغُ الْمُبِينُ ﴿17﴾ قَالُوا إِنَّا تَطَيَّرْنَا بِكُمْ لَئِن لَّمْ تَنتَهُوا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَلَيَمَسَّنَّكُم مِّنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿18﴾ قَالُوا طَائِرُكُمْ مَعَكُمْ أَئِن ذُكِّرْتُم بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُونَ ﴿19﴾ وَجَاء مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعَى قَالَ يَا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ ﴿20﴾ اتَّبِعُوا مَن لاَّ يَسْأَلُكُمْ أَجْرًا وَهُم مُّهْتَدُونَ ﴿21﴾ وَمَا لِي لاَ أَعْبُدُ الَّذِي فَطَرَنِي وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ﴿22﴾ أَأَتَّخِذُ مِن دُونِهِ آلِهَةً إِن يُرِدْنِ الرَّحْمَن بِضُرٍّ لاَّ تُغْنِ عَنِّي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا وَلاَ يُنقِذُونِ ﴿23﴾ إِنِّي إِذًا لَّفِي ضَلاَلٍ مُّبِينٍ ﴿24﴾ إِنِّي آمَنتُ بِرَبِّكُمْ فَاسْمَعُونِ ﴿25﴾ قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ قَالَ يَا لَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ ﴿26﴾ بِمَا غَفَرَ لِي رَبِّي وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ ﴿27﴾ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَى قَوْمِهِ مِن بَعْدِهِ مِنْ جُندٍ مِّنَ السَّمَاء وَمَا كُنَّا مُنزِلِينَ ﴿28﴾ إِن كَانَتْ إِلاَّ صَيْحَةً وَاحِدَةً فَإِذَا هُمْ خَامِدُونَ ﴿29﴾ يَا حَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِم مِّن رَّسُولٍ إِلاَّ كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُون ﴿30﴾ أَلَمْ يَرَوْا كَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُم مِّنْ الْقُرُونِ أَنَّهُمْ إِلَيْهِمْ لاَ يَرْجِعُونَ ﴿31﴾ وَإِن كُلٌّ لَّمَّا جَمِيعٌ لَّدَيْنَا مُحْضَرُونَ ﴿32﴾ وَآيَةٌ لَّهُمُ الْأَرْضُ الْمَيْتَةُ أَحْيَيْنَاهَا وَأَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ يَأْكُلُونَ ﴿33﴾ وَجَعَلْنَا فِيهَا جَنَّاتٍ مِن نَّخِيلٍ وَأَعْنَابٍ وَفَجَّرْنَا فِيهَا مِنْ الْعُيُونِ ﴿34﴾ لِيَأْكُلُوا مِن ثَمَرِهِ وَمَا عَمِلَتْهُ أَيْدِيهِمْ أَفَلَا يَشْكُرُونَ ﴿35﴾ سُبْحَانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ وَمِنْ أَنفُسِهِمْ وَمِمَّا لَا يَعْلَمُونَ ﴿36﴾ وَآيَةٌ لَّهُمْ اللَّيْلُ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ فَإِذَا هُم مُّظْلِمُونَ ﴿37﴾ وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ﴿38﴾ وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ حَتَّى عَادَ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ ﴿39﴾ لَا الشَّمْسُ يَنبَغِي لَهَا أَن تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ ﴿40﴾ وَآيَةٌ لَّهُمْ أَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ ﴿41﴾ وَخَلَقْنَا لَهُم مِّن مِّثْلِهِ مَا يَرْكَبُونَ ﴿42﴾ وَإِن نَّشَأْ نُغْرِقْهُمْ فَلَا صَرِيخَ لَهُمْ وَلَا هُمْ يُنقَذُونَ ﴿43﴾ إِلَّا رَحْمَةً مِّنَّا وَمَتَاعًا إِلَى حِينٍ ﴿44﴾ وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّقُوا مَا بَيْنَ أَيْدِيكُمْ وَمَا خَلْفَكُمْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ﴿45﴾ وَمَا تَأْتِيهِم مِّنْ آيَةٍ مِّنْ آيَاتِ رَبِّهِمْ إِلَّا كَانُوا عَنْهَا مُعْرِضِينَ ﴿46﴾ وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ أَنفِقُوا مِمَّا رَزَقَكُمْ اللَّهُ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنُطْعِمُ مَن لَّوْ يَشَاء اللَّهُ أَطْعَمَهُ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ﴿47﴾ وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿48﴾ مَا يَنظُرُونَ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً تَأْخُذُهُمْ وَهُمْ يَخِصِّمُونَ ﴿49﴾ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ تَوْصِيَةً وَلَا إِلَى أَهْلِهِمْ يَرْجِعُونَ ﴿50﴾ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَإِذَا هُم مِّنَ الْأَجْدَاثِ إِلَى رَبِّهِمْ يَنسِلُونَ ﴿51﴾ قَالُوا يَا وَيْلَنَا مَن بَعَثَنَا مِن مَّرْقَدِنَا هَذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمَنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُونَ ﴿52﴾ إِن كَانَتْ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً فَإِذَا هُمْ جَمِيعٌ لَّدَيْنَا مُحْضَرُونَ ﴿53﴾ فَالْيَوْمَ لَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَلَا تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿54﴾ إِنَّ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ الْيَوْمَ فِي شُغُلٍ فَاكِهُونَ ﴿55﴾ هُمْ وَأَزْوَاجُهُمْ فِي ظِلَالٍ عَلَى الْأَرَائِكِ مُتَّكِؤُونَ ﴿56﴾ لَهُمْ فِيهَا فَاكِهَةٌ وَلَهُم مَّا يَدَّعُونَ ﴿57﴾ سَلَامٌ قَوْلًا مِن رَّبٍّ رَّحِيمٍ ﴿58﴾ وَامْتَازُوا الْيَوْمَ أَيُّهَا الْمُجْرِمُونَ ﴿59﴾ أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ﴿60﴾ وَأَنْ اعْبُدُونِي هَذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ ﴿61﴾ وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنكُمْ جِبِلًّا كَثِيرًا أَفَلَمْ تَكُونُوا تَعْقِلُونَ ﴿62﴾ هَذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ ﴿63﴾ اصْلَوْهَا الْيَوْمَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُونَ ﴿64﴾ الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَى أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ﴿65﴾ وَلَوْ نَشَاء لَطَمَسْنَا عَلَى أَعْيُنِهِمْ فَاسْتَبَقُوا الصِّرَاطَ فَأَنَّى يُبْصِرُونَ ﴿66﴾ وَلَوْ نَشَاء لَمَسَخْنَاهُمْ عَلَى مَكَانَتِهِمْ فَمَا اسْتَطَاعُوا مُضِيًّا وَلَا يَرْجِعُونَ ﴿67﴾ وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ أَفَلَا يَعْقِلُونَ ﴿68﴾ وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنبَغِي لَهُ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ وَقُرْآنٌ مُّبِينٌ ﴿69﴾ لِيُنذِرَ مَن كَانَ حَيًّا وَيَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْكَافِرِينَ ﴿70﴾ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ مِمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَا أَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا مَالِكُونَ ﴿71﴾ وَذَلَّلْنَاهَا لَهُمْ فَمِنْهَا رَكُوبُهُمْ وَمِنْهَا يَأْكُلُونَ ﴿72﴾ وَلَهُمْ فِيهَا مَنَافِعُ وَمَشَارِبُ أَفَلَا يَشْكُرُونَ ﴿73﴾ وَاتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ آلِهَةً لَعَلَّهُمْ يُنصَرُونَ ﴿74﴾ لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَهُمْ وَهُمْ لَهُمْ جُندٌ مُّحْضَرُونَ ﴿75﴾ فَلَا يَحْزُنكَ قَوْلُهُمْ إِنَّا نَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ ﴿76﴾ أَوَلَمْ يَرَ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ ﴿77﴾ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِيَ خَلْقَهُ قَالَ مَنْ يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ ﴿78﴾ قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ ﴿79﴾ الَّذِي جَعَلَ لَكُم مِّنَ الشَّجَرِ الْأَخْضَرِ نَارًا فَإِذَا أَنتُم مِّنْهُ تُوقِدُونَ ﴿80﴾ أَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُم بَلَى وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ ﴿81﴾ إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ ﴿82﴾ فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ﴿83﴾ |
یاسین(ص)۔ (1) قرآنِ حکیم کی قسم۔ (2) یقیناً آپ(ص) (خدا کے) رسولوں میں سے ہیں۔ (3) (اور) سیدھے راستے پر ہی ہیں۔ (4) (یہ قرآنِ) عزیز (غالب اور) بڑے مہربان کا نازل کیا ہوا ہے۔ (5) تاکہ آپ اس قوم کو ڈرائیں جس کے باپ دادا کو (براہِ راست کسی پیغمبر سے) ڈرایا نہیں گیا اس لئے وہ غافل ہیں۔ (6) ان میں سے اکثر پر (ان کے تعصب و عناد کی وجہ سے) یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ (7) ہم نے (ان کے پیہم کفر و عناد کی وجہ سے گویا) ان کی گردنوں میں (گمراہی اور شیطان کی غلامی کے) طوق ڈال دیئے ہیں جو ان کی ٹھوڑیوں تک آگئے ہیں اس لئے وہ سر اوپر اٹھائے ہوئے ہیں (لہٰذا وہ سر جھکا نہیں سکتے)۔ (8) اور ہم نے ایک دیوار ان کے آگے کھڑی کر دی ہے اور ایک دیوار ان کے پیچھے کھڑی کر دی ہے (اس طرح) ہم نے انہیں ڈھانک دیا ہے پس وہ کچھ دیکھ نہیں سکتے۔ (9) ان کیلئے (دونوں باتیں) برابر ہیں خواہ آپ انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ (10) آپ تو صرف اس شخص کو ڈرا سکتے ہیں جو نصیحت کی پیروی کرے اور بے دیکھے خدائے رحمن سے ڈرے پس ایسے شخص کو مغفرت (بخشش) اور عمدہ اجر کی خوشخبری دے دیں۔ (11) بے شک ہم ہی مُردوں کو زندہ کرتے ہیں اور ان کے وہ اعمال لکھ لیتے ہیں جو وہ آگے بھیج چکے ہیں اور ان کے وہ آثار بھی ثبت کرتے ہیں جو وہ اپنے پیچھے چھوڑ جاتے ہیں اور ہم نے ہر چیز کو امامِ مبین میں جمع کر دیا ہے۔ (12) اور (ان کو سمجھانے کیلئے) بطورِ مثال ایک خاص بستی کا قصہ سنائیں جب ان کے پاس (ہمارے) پیغام رساں آئے۔ (13) (پہلے) ہم نے ان کی طرف دو (رسول) بھیجے تو انہوں نے ان دونوں کو جھٹلایا تو ہم نے انہیں تیسرے (رسول) کے ساتھ تقویت دی۔ چنانچہ تینوں نے کہا کہ ہم تمہارے پاس بھیجے گئے ہیں۔ (14) ان لوگوں نے کہا تم بس ہمارے ہی جیسے انسان ہو اور خدائے رحمٰن نے (تم پر) کوئی چیز نازل نہیں کی ہے تم بالکل جھوٹ بول رہے ہو۔ (15) رسولوں(ع) نے کہا کہ ہمارا پروردگار خوب جانتا ہے کہ ہم تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں۔ (16) اور ہماری ذمہ داری صرف یہ ہے کہ ہم (خدا کا پیغام) صاف صاف پہنچا دیں۔ (17) تو بستی والوں نے کہا کہ ہم تو تمہیں اپنے لئے فالِ بد سمجھتے ہیں (کہ تمہارے آنے سے قحط پڑ گیا ہے) اگر تم باز نہ آئے تو ہم تمہیں سنگسار کر دیں گے اور ہماری طرف سے تمہیں دردناک سزا ملے گی۔ (18) رسولوں نے کہا کہ تمہاری فالِ بد تو تمہارے ساتھ ہے! کیا اگر تمہیں نصیحت کی جائے (تو یہ بات بدشگونی ہے)؟ حقیقت یہ ہے کہ تم حد سے بڑھ جانے والے لوگ ہو۔ (19) اور ایک شخص شہر کے پرلے سرے سے دوڑتا ہوا آیا اور کہا اے میری قوم! رسولوں(ع) کی پیروی کرو۔ (20) ان لوگوں کی پیروی کرو جو تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتے اور خود ہدایت یافتہ بھی ہیں۔ (21) مجھے کیا ہوگیا ہے کہ میں اس ہستی کی عبادت نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے حالانکہ تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے۔ (22) کیا میں اسے چھوڑ کر ایسے خداؤں کو اختیار کروں کہ اگر خدائے رحمن مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو ان کی سفارش مجھے کوئی فائدہ نہ پہنچا سکے اور نہ ہی وہ مجھے چھڑا سکیں۔ (23) (اگر میں ایسا کروں) تو میں اس وقت کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہوں گا۔ (24) میں تو تمہارے پروردگار پر ایمان لے آیا ہوں تم میری بات (کان لگا کر) سنو (اور ایمان لے آؤ)۔ (25) (انجامِ کار ان لوگوں نے اس مؤمن کو سنگسار کر دیا اور اس سے) کہا گیا کہ بہشت میں داخل ہو جا۔ وہ کہنے لگا کاش میری قوم کو معلوم ہو جاتا۔ (26) کہ میرے پروردگار نے کس وجہ سے مجھے بخش دیا ہے اور مجھے معزز لوگوں میں سے قرار دیا ہے۔ (27) اور ہم نے اس (کی شہادت) کے بعد نہ تو اس کی قوم پر آسمان سے کوئی لشکر اتارا اور نہ ہی ہم کو (اتنی سی بات کیلئے لشکر) اتارنے کی ضرورت تھی۔ (28) وہ (سزا) تو صرف ایک مہیب آواز (چنگھاڑ) تھی جس سے وہ ایک دم بجھ کر رہ گئے۔ (29) افسوس ہے (ایسے) بندوں پر کہ جب بھی ان کے پاس کوئی رسول آتا ہے تو یہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ (30) کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں (اور) وہ کبھی ان کی طرف لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ (31) (ہاں البتہ) وہ سب (ایک بار) ہماری بارگاہ میں حاضر کئے جائیں گے۔ (32) اور (ہماری نشانیوں میں سے) ان کیلئے ایک نشانی وہ مردہ زمین ہے جسے ہم نے زندہ کر دیا اور اس سے دانہ (غلہ) نکالا جس سے وہ کھاتے ہیں۔ (33) اور ہم نے اس (زمین) میں کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کئے اور اس سے چشمے جاری کر دیئے۔ (34) تاکہ وہ اس کے پھلوں سے کھائیں حالانکہ یہ ان کے ہاتھوں کی کارگزاری نہیں ہے کیا یہ لوگ (اس پر بھی) شکر ادا نہیں کرتے؟ (35) پاک ہے وہ ذات جس نے سب اقسام کے جوڑے جوڑے پیدا کئے ہیں خواہ (نباتات) ہو جسے زمین اگاتی ہے یا خود ان کے نفوس ہوں (بنی نوع انسان) یا وہ چیزیں ہوں جن کو یہ نہیں جانتے۔ (36) اور ان کیلئے ایک نشانی رات بھی ہے جس سے ہم دن کو کھینچ لیتے ہیں تو ایک دم وہ اندھیرے میں رہ جاتے ہیں۔ (37) اور (ایک نشانی) سورج ہے جو اپنے مقررہ ٹھکانے (مدار) کی طرف چل رہا ہے (گردش کر رہا ہے) یہ اندازہ اس (خدا) کا مقرر کیا ہوا ہے جو غالب ہے (اور) بڑا علم والا۔ (38) اور (ایک نشانی) چاند بھی ہے جس کی ہم نے منزلیں مقرر کر دی ہیں یہاں تک کہ وہ (آخر میں) کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ہو جاتا ہے۔ (39) نہ سورج کے بس میں ہے کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ ہی رات کیلئے ممکن ہے کہ وہ دن پر سبقت لے جائے اور سب (اپنے) ایک ایک فلک (دائرہ) میں تیر رہے ہیں۔ (40) اور ان کیلئے (قدرتِ خدا کی) ایک نشانی یہ بھی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی (نوح(ع)) میں سوار کیا۔ (41) اور ان کیلئے (خشکی اور تری) میں کشتی کی مانند اور سواریاں پیدا کی ہیں جن پر وہ سوار ہوتے ہیں۔ (42) اور اگر ہم چاہیں تو انہیں غرق کر دیں پھر نہ کوئی ان کا فریاد رس ہو اور نہ ہی وہ چھڑائے جا سکیں۔ (43) مگر یہ کہ ہماری رحمت (شاملِ حال) ہو جائے اور ایک (خاص) وقت تک بہرہ مند کرنا منظور ہو۔ (44) اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ڈرو اس (انجام و عذاب) سے جو تمہارے آگے ہے اور اس سے ڈرو جو تمہارے پیچھے ہے کہ تم پر رحم کیا جائے (تو وہ اس کی پرواہ نہیں کرتے)۔ (45) اور ان کے پروردگار کی نشانیوں میں سے کوئی نشانی بھی ان کے پاس نہیں آتی مگر یہ کہ وہ اس سے روگردانی کرتے ہیں۔ (46) اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے تمہیں جو کچھ عطا کیا ہے اس سے (کچھ) راہِ خدا میں بھی خرچ کرو تو کافر اہلِ ایمان سے کہتے ہیں کیا ہم اسے کھلائیں جسے اگر خدا چاہتا تو خود کھلا دیتا؟ تم لوگ کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہو۔ (47) اور وہ (کافر) کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو بتاؤ کہ یہ (قیامت کا) وعدہ وعید کب پورا ہوگا؟ (48) وہ صرف ایک مہیب آواز (چنگھاڑ) یعنی نَفَخ صُور کا انتظار کر رہے ہیں جو انہیں اپنی گرفت میں لے لے گی جبکہ یہ لوگ (اپنے معاملات میں) باہم لڑ جھگڑ رہے ہوں گے۔ (49) (اس وقت) وہ نہ کوئی وصیت کر سکیں گے اور نہ ہی اپنے گھر والوں کی طرف واپس جا سکیں گے۔ (50) اور جب (دوبارہ) صور پھونکا جائے گا تو وہ ایک دم اپنی قبروں سے (نکل کر) اپنے پروردگار کی طرف تیز تیز چلنے لگیں گے۔ (51) (اس وقت گھبرا کر) کہیں گے ہائے افسوس! کس نے ہمیں ہماری خوابگاہ سے اٹھایا؟ (جواب دیا جائے گا) یہ وہی (قیامت) ہے جس کا خدائے رحمن نے وعدہ (وعید) کیا تھا اور پیغمبروں(ع) نے بھی سچ کہا تھا۔ (52) بس وہ ایک مہیب آواز (چنگھاڑ) ہوگی پھر سب کے سب ہمارے حضور حاضر کر دیئے جائیں گے۔ (53) پس آج کے دن کسی پر کچھ بھی ظلم نہیں کیا جائے گا اور تمہیں بدلہ نہیں دیا جائے گا مگر انہی اعمال کا جو تم کیا کرتے تھے۔ (54) بے شک آج بہشتی لوگ اپنے مشغلہ میں خوش ہوں گے۔ (55) وہ اور ان کی بیویاں (گھنے) سایوں میں مسندوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے۔ (56) وہاں ان کے (کھانے پینے) کیلئے (ہر قسم کے) پھل ہوں گے اور وہ سب کچھ ہوگا جو وہ طلب کریں گے۔ (57) (انہیں) مہربان (پروردگار) کی طرف سے سلام کہا جائے گا۔ (58) (ارشادِ قدرت ہوگا) اے مجرمو! الگ ہو جاؤ۔ (59) اے اولادِ آدم! کیا میں نے تمہیں حکم نہیں دیا تھا کہ شیطان کی پرستش نہ کرنا؟ کہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔ (60) ہاں البتہ میری عبادت کرو کہ یہی سیدھا راستہ ہے۔ (61) (اس کے باوجود) اس نے تم میں سے ایک کثیر گروہ کو گمراہ کر دیا کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے تھے؟ (62) یہ ہے وہ جہنم جس سے تمہیں ڈرایا جاتا تھا۔ (63) آج اپنے کفر کی پاداش میں اس میں داخل ہو جاؤ (اور اس کی آگ تاپو)۔ (64) آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اور ہم سے ان کے ہاتھ کلام کریں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے اس کے بارے میں جو کچھ وہ کیا کرتے تھے؟ (65) اور اگر ہم چاہتے تو ان کی آنکھوں کو مٹا دیتے پھر وہ راستہ کی طرف دوڑتے تو ان کو کہاں نظر آتا؟ (66) اور اگر ہم چاہتے تو انہیں ان کی جگہ پر مسخ کرکے رکھ دیتے کہ نہ آگے بڑھ سکتے اور نہ پیچھے پلٹ سکتے۔ (67) اور جس کو ہم لمبی عمر دیتے ہیں اسے خلقت (ساخت) میں الٹ دیتے ہیں کیا وہ عقل سے کام نہیں لیتے؟ (68) اور ہم نے انہیں شعر و شاعری نہیں سکھائی اور نہ ہی یہ ان کے شایانِ شان ہے یہ تو بس ایک نصیحت اور واضح قرآن ہے۔ (69) تاکہ آپ(ص) (اس کی ذریعہ سے) انہیں ڈرائیں جو زندہ (دل) ہیں اور تاکہ کافروں پر حجت تمام ہو جائے۔ (70) کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے (غور نہیں کرتے) کہ ہم نے ان کیلئے اپنے دست ہائے قدرت سے بنائی ہوئی چیزوں میں سے مویشی پیدا کئے (چنانچہ اب) یہ ان کے مالک ہیں۔ (71) اور ہم نے ان (مویشیوں) کو ان کا مطیع کر دیا ہے پس ان میں سے بعض پر وہ سوار ہوتے ہیں اور بعض کا گوشت کھاتے ہیں۔ (72) اور ان کیلئے ان میں اور بھی طرح طرح کے فائدے اور پینے کی چیزیں (دودھ وغیرہ) بھی ہیں تو کیا یہ لوگ شکر ادا نہیں کرتے؟ (73) اور کیا انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اور خدا بنا لئے ہیں کہ شاید ان کی مدد کی جائے گی۔ (74) حالانکہ وہ ان کی (کچھ بھی) مدد نہیں کر سکتے (بلکہ) وہ (کفار) ان (بتوں) کی حفاظت اور ان کے (دفاع) کیلئے حاضر باش لشکر ہیں۔ (75) (اے پیغمبر(ص)) ان لوگوں کی باتیں آپ کو رنجیدہ نہ کریں بے شک ہم خوب جانتے ہیں جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں۔ (76) کیا انسان یہ نہیں دیکھتا (اس پر غور نہیں کرتا) کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا ہے سو وہ یکایک (ہمارا) کھلا ہوا مخالف بن گیا۔ (77) وہ ہمارے لئے مثالیں پیش کرتا ہے اور اپنی خلقت کو بھول گیا ہے وہ کہتا ہے کہ ان ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا جبکہ وہ بالکل بوسیدہ ہو چکی ہوں؟ (78) آپ(ص) کہہ دیجئے! انہیں وہی (خدا دوبارہ) زندہ کرے گا جس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا تھا وہ ہر مخلوق کو خوب جانتا ہے۔ (79) (خدا) جس نے تمہارے لئے سرسبز درخت سے آگ پیدا کی ہے اس سے (اور) آگ سلگاتے ہو۔ (80) کیا وہ (قادرِ مطلق) جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اس بات پر قادر نہیں ہے کہ ان (لوگوں) جیسے (دوبارہ) پیدا کرے؟ ہاں وہ بڑا پیدا کرنے والا (اور) بڑا جاننے والا ہے۔ (81) اس کا معاملہ تو بس یوں ہے کہ جب وہ کسی چیز کے پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو کہہ دیتا ہے کہ ہو جا تو وہ (فوراً) ہو جاتی ہے۔ (82) پس پاک ہے وہ ذات جس کے قبضۂ قدرت میں ہر چیز کی حکومت ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤگے۔ (83) |
پچھلی سورت: سورہ فاطر | سورہ یس | اگلی سورت:سورہ صافات |
1.فاتحہ 2.بقرہ 3.آلعمران 4.نساء 5.مائدہ 6.انعام 7.اعراف 8.انفال 9.توبہ 10.یونس 11.ہود 12.یوسف 13.رعد 14.ابراہیم 15.حجر 16.نحل 17.اسراء 18.کہف 19.مریم 20.طہ 21.انبیاء 22.حج 23.مؤمنون 24.نور 25.فرقان 26.شعراء 27.نمل 28.قصص 29.عنکبوت 30.روم 31.لقمان 32.سجدہ 33.احزاب 34.سبأ 35.فاطر 36.یس 37.صافات 38.ص 39.زمر 40.غافر 41.فصلت 42.شوری 43.زخرف 44.دخان 45.جاثیہ 46.احقاف 47.محمد 48.فتح 49.حجرات 50.ق 51.ذاریات 52.طور 53.نجم 54.قمر 55.رحمن 56.واقعہ 57.حدید 58.مجادلہ 59.حشر 60.ممتحنہ 61.صف 62.جمعہ 63.منافقون 64.تغابن 65.طلاق 66.تحریم 67.ملک 68.قلم 69.حاقہ 70.معارج 71.نوح 72.جن 73.مزمل 74.مدثر 75.قیامہ 76.انسان 77.مرسلات 78.نبأ 79.نازعات 80.عبس 81.تکویر 82.انفطار 83.مطففین 84.انشقاق 85.بروج 86.طارق 87.اعلی 88.غاشیہ 89.فجر 90.بلد 91.شمس 92.لیل 93.ضحی 94.شرح 95.تین 96.علق 97.قدر 98.بینہ 99.زلزلہ 100.عادیات 101.قارعہ 102.تکاثر 103.عصر 104.ہمزہ 105.فیل 106.قریش 107.ماعون 108.کوثر 109.کافرون 110.نصر 111.مسد 112.اخلاص 113.فلق 114.ناس |
حوالہ جات
- ↑ مجمع البیان، ج۸، ص۲۵۴.
- ↑ معرفت، آموزش علوم قرآن، ۱۳۷۱ش، ج۲، ص۱۶۶.
- ↑ دانش نامہ قرآن و قرآنپژوہی، ج۲، ص۱۲۴۷.
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۳۷۰ش، ج۱۷، ص۹۰.
- ↑ خامہگر، محمد، ساختار سورہہای قرآن کریم، تہیہ مؤسسہ فرہنگی قرآن و عترت نورالثقلین، قم، نشر نشرا، چ۱، ۱۳۹۲ش.
- ↑ بیضاوی، انوار التنزیل، ۱۴۱۸ق،دار احیاء التراث العربی، بیروت، ج۴، ص۲۶۴.
- ↑ «هُوَ هذا اِنَّهُ الاِمامُ الَّذِی اَحْصَی اللّهُ تَبارَکَ وَ تَعالی فَیهِ عِلْمَ کُلِّ شَیء»
(صدوق، معانی الاخبار، باب معنی الامام المبین، ۱۳۷۹ ق، ص۹۵). - ↑ عروسی حویزی، نور الثقلین، ۱۴۱۵ق، ج۴، ص۳۷۹.
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۷ ص۱۱۴.
- ↑ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۱۳، ص۸۲، خطبہ۲۳۲.
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش،، ج۱۸ ص۳۵۵.
- ↑ سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ق، ج۵، ص۲۵۶.
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۹۰ش، ج۸، ص۲۵۴.
- ↑ حر عاملی، وسائلالشیعہ، ۱۴۱۴ق، ج۴، ص۸۸۶.
- ↑ حر عاملی، وسائلالشیعہ، ۱۴۱۴ق، ج۴، ص۸۸۶.
- ↑ کفعمی، مصباح کفعمی، ۱۴۰۳ق، ص۱۸۲.
- ↑ نوری، مستدرک الوسائل، ۱۴۰۸ق، ج۴، ص۳۱۳.
- ↑ مفاتیح الجنان، آداب زیارت، ادب ہفدہم، چاپ مشعر، ص۴۴۷
- ↑ مراجعہ کریں: «قرآن فارسی ادب میں: سورہ یس اور الرحمن عوامی ثقافت میں»؛ سایت مرکز ملی پاسخگویی.
مآخذ
- قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی (سرگودھا)۔
- بیضاوی، عبداللہ بن عمر، انوار التنزیل، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۱۸ق.
- حرّ عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعۃ، قم، آل البیت، ۱۴۱۴ق.
- دانش نامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج۲، بہ کوشش بہاء الدین خرمشاہی، تہران: دوستان-ناہید، ۱۳۷۷.
- سیوطی، جلالالدین، الدر المنثور فی تفسیر المأثور، کتابخانہ آیت اللہ مرعشی نجفی، قم، ۱۴۰۴ق.
- صدوق، محمد بن علی، معانی الاخبار، قم، جامعہ مدرسین، ۱۳۷۹ ق.
- طباطبایی، سیدمحمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ترجمہ سیدمحمدباقر موسوى ہمدانی، قم، دفتر انتشارات اسلامى جامعہ مدرسين حوزہ علميہ قم، چ۵، ۱۳۷۴ش.
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، ترجمہ بیستونی، مشہد، آستان قدس رضوی، ۱۳۹۰ش.
- عروسی حویزی، عبدعلی بن جمعہ، تفسیر نور الثقلین، بہ تصحیح ہاشم رسولی، قم، نشر اسماعیلیان، چاپ چہارم، ۱۴۱۵ق.
- «قرآن در ادب فارسی: یس و الرحمن در فرہنگ عامیانہ»، مجلہ بشارت، شمارہ ۵۶، آذر و دی ۱۳۸۵ش.
- کفعمی، ابراہیم بن علی، مصباح، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی، ۱۴۰۳ق.
- معرفت، محمدہادی، آموزش علوم قرآن، [بیجا]، مرکز چاپ و نشر سازمان تبلیغات اسلامی، چ۱، ۱۳۷۱ش.
- مكارم شيرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتاب الاسلامیہ، ۱۳۷۴ش.
- نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل، بیروت، مؤسسۃ آل البیت لاحیاء التراث، ۱۴۰۸ق.