گمنام صارف
"ابو بکر بن ابی قحافہ" کے نسخوں کے درمیان فرق
←خلافت کا آغاز
imported>E.musavi |
imported>E.musavi |
||
سطر 140: | سطر 140: | ||
یہ خطبے اہل سنت کے محققین اور علما کی نظر میں ابوبکر کی انکساری، ادب اور سنت نبوی پر عمل پیرا ہونے کی علامت اور آیندہ آنے والوں کو حکومت کرنے کے لیے بہترین راہنما اصول ہیں <ref>عظم، ص۹۰-۹۱؛ دروزہ، ص۳۰</ref>، جبکہ شیعہ علما ان خطبوں کے بعض حصوں کو مطاعن ابوبکر اور اس کے خلافت کے لیے نا لایق ہونے کی دلیل سمجھتے ہیں اور ان کے اپنے عقیدے کے مطابق اصل امامت کی بحث کی ہے۔<ref>کنتوری، ج۱، ص۱۹۷-۲۲۴؛ فیروزآبادی، ص۹-۱۱</ref> | یہ خطبے اہل سنت کے محققین اور علما کی نظر میں ابوبکر کی انکساری، ادب اور سنت نبوی پر عمل پیرا ہونے کی علامت اور آیندہ آنے والوں کو حکومت کرنے کے لیے بہترین راہنما اصول ہیں <ref>عظم، ص۹۰-۹۱؛ دروزہ، ص۳۰</ref>، جبکہ شیعہ علما ان خطبوں کے بعض حصوں کو مطاعن ابوبکر اور اس کے خلافت کے لیے نا لایق ہونے کی دلیل سمجھتے ہیں اور ان کے اپنے عقیدے کے مطابق اصل امامت کی بحث کی ہے۔<ref>کنتوری، ج۱، ص۱۹۷-۲۲۴؛ فیروزآبادی، ص۹-۱۱</ref> | ||
اس میٹینگ میں اگرچہ ابوبکر کی خلاقت یقینی ہوگئی لیکن مہاجر اور انصار کے ایک گروہ نے اس کی بیعت سے انکار کردیا ان میں سے بعض کے نام جو منابع میں ذکر ہوئے ہیں یہ ہیں۔: [[علی(ع)]]، [[سعد بن عبادہ]]، [[عباس بن عبدالمطلب]]، [[فضل بن عباس]]، [[زبیر بن عوام]]، [[خالد بن سعید]]، [[مقداد بن عمرو]]، [[سلمان فارسی]]، [[ابوذر غفاری]]، [[عمار بن یاسر]]، [[براء بن عازب]]، [[ابی بن کعب]]، [[حذیفہ بن یمان]]، [[خزیمہ بن ثابت]]، [[ابو ایوب انصاری]]، [[سہل بن حنیف]]، [[عثمان بن حنیف]]، [[ | اس میٹینگ میں اگرچہ ابوبکر کی خلاقت یقینی ہوگئی لیکن مہاجر اور انصار کے ایک گروہ نے اس کی بیعت سے انکار کردیا ان میں سے بعض کے نام جو منابع میں ذکر ہوئے ہیں یہ ہیں۔: [[علی(ع)]]، [[سعد بن عبادہ]]، [[عباس بن عبدالمطلب]]، [[فضل بن عباس]]، [[زبیر بن عوام]]، [[خالد بن سعید]]، [[مقداد بن عمرو]]، [[سلمان فارسی]]، [[ابوذر غفاری]]، [[عمار بن یاسر]]، [[براء بن عازب]]، [[ابی بن کعب]]، [[حذیفہ بن یمان]]، [[خزیمہ بن ثابت]]، [[ابو ایوب انصاری]]، [[سہل بن حنیف]]، [[عثمان بن حنیف]]، [[ابو الہیثم بن التیہان]]، [[سعد بن ابی وقاص]] اور [[ابوسفیان بن حرب]]۔<ref> یعقوبی، ج۲، ص۱۲۳-۱۲۶؛ بلاذری، انساب، ج۱، ص۵۸۸؛ ابن عبدربہ، ج۴، ص۲۵۹-۲۶۰؛ طبرسی، احمد، ج۱، ص۹۷؛ ابن ابی الحدید، ج۲، ص۴۴-۶۱</ref> ان میں سے سعد ابن عبادہ خود خلافت کا مدعی تھا اور ابوسفیان اور اس کے حامی دنیوی مقاصد رکھتے تھے<ref>بلاذری، ج۱، ص۵۸۸؛ حسین، علی و فرزندانش، ص۳۳-۳۴</ref> جن ادلہ کی وجہ سے سقیفہ میں ابوبکر کو خلافت کے لیے ترجیح دیا تھا؛ یعنی اسلام میں پہل کرنا، اسلام کے لیے خدمات اور رسول سے قرابت، انہی کی وجہ سے ایک گروہ علی علیہ السلام کی خلافت کو مستند کرتے تھے۔ اور علی علیہ السلام اور بنی ہاشم صرف مخالفوں کو ان کے اپنے دلائل پر عمل پیرا کرنے کے لیے احتجاج کرتے تھے۔ <ref>الامامہ، ج۱، ص۱۱-۱۲؛ بلاذری، انساب، ج۱، ص۵۸۲؛ یعقوبی، ج۲، ص۱۲۵-۱۲۶؛ نہجالبلاغہ، خطبہ ۶۷؛ آیتی، حواشی، ص۱۰۸-۱۰۹</ref> اور خلافت کو علی (ع) کا حق سمجھتے تھے اور شیعیان علی کا ایک اور گروہ اسلامی معاشرے کی رہبری اور پیغمبر کی جانشینی کا مسئلہ مذہبی عالیترین مقام سمجھتے تھے آیہ «اِنَّ اللّہ اصْطَفی آدَمَ وَ نوحاً وَ آلَ اِبْراہیمَ وَ آلَ عِمْرانَ عَلَی الْعالَمینَ، ذُرّیہ بَعْضُہا مِنْ بَعْضٍ…»<ref>آل عمران، آیہ ۳۳-۳۴</ref> سے تمسک کرتے ہوئے قائل تھے کہ حضرت محمد ؐ اور اسکی خاندان حضرت ابراہیم کی ذریت میں سے ہیں اور انہی فضایل کے مالک ہیں <ref>جعفری، ص۱۴</ref> اور اسی طرح آیہ «اِنَّما وَلیکُمُ اللّہ وَ رَسولُہ وَ الَّذینَ آمَنوا الّذینَ یقیمونَ الصّلوہ وَ یؤتونَ الزّکوہ وَہمْ راکِعونَ»<ref>مائدہ، آیہ ۵۵</ref> اور دوسری چند آیتیں<ref>نک: مفید، الجمل، ص۳۲-۳۳؛ نیز طباطبائی، شیعہ، ص۱۱۳؛ ابومجتبی، ص۴۸۸</ref>، اسیطرح متواتر روایتوں [[حدیث یوم الدار|حدیثدار]]<ref>طبری، تاریخ، ج۲، ص۳۱۹-۳۲۱؛ احمدبن حنبل، ج۱، ص۱۱۱؛ ابن اثیر، الکامل، ج۲، ص۶۲-۶۳؛ ابن ابی الحدید، ج۱۳، ص۲۱۲؛ ہندی، ج۱۳، ص۱۳۱-۱۳۳</ref>، [[حدیث منزلت]]<ref>گنجی، ص۲۸۱؛ ہندی، ج۱۳، ص۱۵۰-۱۵۱؛ ابن سعد، ج۳، ص۲۳-۲۴؛ مفید، الجمل، ص۳۳-۳۴؛ ترمذی، ج۶، ص۶۴۰-۶۴۱؛ ابن صباغ، ص۳۹</ref> و [[حدیث غدیر]]<ref>محب طبری، ذخائر، ص۶۷-۶۸؛ ابن کثیر، ج۵، ص۲۰۸-۲۱۴، ج۷، ص۳۴۶-۳۵۱</ref>، سے استناد کرتے ہوئے، خلافت میں «نص اور تعیین» کے قائل تھے۔<ref>طباطبائی، شیعہ، ص۱۱۳-۱۱۴</ref> | ||
سعد بن عبادہ نے اپنی عمر کے آخری لمحے تک ابوبکر اور عمر کی بیعت نہیں کی اور عمر کی خلافت کے دوران [[شام]] کی طرف سفر کیا اور حوران کے مقام پر رات کی تاریکی میں مقتول پایا گیا۔<ref>الامامہ، ج۱، ص۱۰؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۲۲-۲۲۳؛ ابن سعد، ج۳، ص۶۱۶-۶۱۷</ref> لیکن بلاذری نے مدائنی، ابومخنف اور کلبی سے ایک روایت میں ذکر کیا ہے کہ عمر نے ایک مرد کو حوران بھیجا اور اسے حکم دیا کہ سعد بن عبادہ کو لالچ دیکر بیعت لیں اور اگر قبول نہیں کیا تو اس کے خلاف اللہ سے مدد مانگو۔ یہ مرد سعد سے ملا اور اس سے بیعت نہ لے سکا تو اسے ایک تیر مار کر قتل کردیا۔ بلاذری اس کے بعد ایک مشہور روایت کو ذکر کرتا ہے جس کے مطابق سعد [[جنّوں]] کے ہاتھوں مارا گیا۔<ref>بلاذری، ج۱، ص۵۸۹؛ قس: ابن عبدربہ، ج۴، ص۲۶۰؛ لامنس، ۱۴۲</ref> | سعد بن عبادہ نے اپنی عمر کے آخری لمحے تک ابوبکر اور عمر کی بیعت نہیں کی اور عمر کی خلافت کے دوران [[شام]] کی طرف سفر کیا اور حوران کے مقام پر رات کی تاریکی میں مقتول پایا گیا۔<ref>الامامہ، ج۱، ص۱۰؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۲۲-۲۲۳؛ ابن سعد، ج۳، ص۶۱۶-۶۱۷</ref> لیکن بلاذری نے مدائنی، ابومخنف اور کلبی سے ایک روایت میں ذکر کیا ہے کہ عمر نے ایک مرد کو حوران بھیجا اور اسے حکم دیا کہ سعد بن عبادہ کو لالچ دیکر بیعت لیں اور اگر قبول نہیں کیا تو اس کے خلاف اللہ سے مدد مانگو۔ یہ مرد سعد سے ملا اور اس سے بیعت نہ لے سکا تو اسے ایک تیر مار کر قتل کردیا۔ بلاذری اس کے بعد ایک مشہور روایت کو ذکر کرتا ہے جس کے مطابق سعد [[جنّوں]] کے ہاتھوں مارا گیا۔<ref>بلاذری، ج۱، ص۵۸۹؛ قس: ابن عبدربہ، ج۴، ص۲۶۰؛ لامنس، ۱۴۲</ref> |