"فطرہ" کے نسخوں کے درمیان فرق
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) اصلاح شناسہ |
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) م لینک دہی |
||
سطر 1: | سطر 1: | ||
{{احکام}} | {{احکام}} | ||
{{فقہی توصیفی مقالہ}} | {{فقہی توصیفی مقالہ}} | ||
'''فِطرہ''' یا '''فطرانہ''' مالی <nowiki>[[واجب|واجبات]]</nowiki> میں سے ایک ہے جسے عید فطر کے دن ادا کیا جاتا ہے۔ فطرہ کی مقدار ہر شخص کے لئے تین کلو ہے جسے گندم، جو، خرما، چاول اور کشمش جیسے روزمرہ غذا سے نکالا جاتا ہے۔ البتہ قیمت بھی دے سکتے ہیں۔ | '''فِطرہ''' یا '''فطرانہ''' مالی <nowiki>[[واجب|واجبات]]</nowiki> میں سے ایک ہے جسے [[عید فطر]] کے دن ادا کیا جاتا ہے۔ فطرہ کی مقدار ہر شخص کے لئے تین کلو ہے جسے گندم، جو، خرما، چاول اور کشمش جیسے روزمرہ غذا سے نکالا جاتا ہے۔ البتہ قیمت بھی دے سکتے ہیں۔ | ||
فقہا کے فتوؤں کے مطابق فطرہ اس شخص پر واجب ہوتا ہے جو عید کی رات غروب کے دوران بالغ، عاقل اور ہوشیار ہو نیز فقیر اور غلام نہ ہو۔ ایسے شخص پر اپنا فطرہ اور ہر اس شخص کا فطرہ واجب ہے جو اس کی کفالت | فقہا کے فتوؤں کے مطابق فطرہ اس شخص پر [[واجب]] ہوتا ہے جو [[عید فطر|عید]] کی رات غروب کے دوران بالغ، عاقل اور ہوشیار ہو نیز فقیر اور غلام نہ ہو۔ ایسے شخص پر اپنا فطرہ اور ہر اس شخص کا فطرہ واجب ہے جو اس کی زیر کفالت شمار ہوتا ہے۔ | ||
بعض فقہا کے فتوے کے مطابق زکاتِ فطرہ کے مَصرَف مالی زکات کے وہی آٹھ مصرف ہیں؛ جبکہ بعض دیگر فقہا کا کہنا ہے کہ احتیاط واجب کے طور پر فطرہ کو صرف شیعہ فقیر کو دیا جاسکتا ہے۔ | بعض [[مجتہد|فقہا]] کے فتوے کے مطابق زکاتِ فطرہ کے مَصرَف «[[زکات|مالی زکات]]» کے وہی آٹھ مصرف ہیں؛ جبکہ بعض دیگر فقہا کا کہنا ہے کہ [[احتیاط واجب]] کے طور پر فطرہ کو صرف شیعہ فقیر کو دیا جاسکتا ہے۔ | ||
==لغوی معنی== | ==لغوی معنی== |
نسخہ بمطابق 09:00، 7 اپريل 2023ء
بعض عملی اور فقہی احکام |
---|
یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
فِطرہ یا فطرانہ مالی [[واجب|واجبات]] میں سے ایک ہے جسے عید فطر کے دن ادا کیا جاتا ہے۔ فطرہ کی مقدار ہر شخص کے لئے تین کلو ہے جسے گندم، جو، خرما، چاول اور کشمش جیسے روزمرہ غذا سے نکالا جاتا ہے۔ البتہ قیمت بھی دے سکتے ہیں۔
فقہا کے فتوؤں کے مطابق فطرہ اس شخص پر واجب ہوتا ہے جو عید کی رات غروب کے دوران بالغ، عاقل اور ہوشیار ہو نیز فقیر اور غلام نہ ہو۔ ایسے شخص پر اپنا فطرہ اور ہر اس شخص کا فطرہ واجب ہے جو اس کی زیر کفالت شمار ہوتا ہے۔
بعض فقہا کے فتوے کے مطابق زکاتِ فطرہ کے مَصرَف «مالی زکات» کے وہی آٹھ مصرف ہیں؛ جبکہ بعض دیگر فقہا کا کہنا ہے کہ احتیاط واجب کے طور پر فطرہ کو صرف شیعہ فقیر کو دیا جاسکتا ہے۔
لغوی معنی
فطرہ کے کئی معنی ہیں:
- خلقت کے معنی میں: یعنی کسی مخلوق کی شکل و صورت جسے خدا نے اسے دی ہو، اس معنی کے اعتبار سے زکات فطرہ سے مراد خلقت کی زکات ہوگی اسی وجہ سے زکات فطرہ کو زکات بدن بھی کہا جاتا ہے کیونکہ زکات فطرہ انسان کے جسم کا مختلف آفتوں اور مصیبتوں سے بچنے کا سبب ہوتا ہے۔
- اسلام کے معنی میں: اس صورت میں زکات فطرہ سے مراد زکات اسلام ہوگی۔ یہاں اسلام اور زکات فطرہ کے درمیان جو نسبت ہے وہ یہ ہے کہ زکات فطرہ اسلام کے شعائر میں سے ہے۔
- روزہ کے مقابلے میں افطار کے معنی میں: اس صورت میں زکات فطرہ سے مراد روزہ کھولنے کی زکات ہوگی۔[1]
احادیث کی روشنی میں
- امام صادقؑ سے اس آیت قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَکیٰ (ترجمہ: وہ شخص فائز المرام ہوا جس نے اپنے آپ کو (بداعتقادی و بدعملی سے) پاک کیا۔)[؟–؟][2] کے بارے میں سوال ہوا تو آپؑ نے فرمایا: "اس سے مراد وہ شخص ہے جس نے فطرہ ادا کی ہو"۔ کہا گیا: پھر وَ ذَکرَ اسْمَ رَ بِّهِ فَصَلَّیٰ (ترجمہ: اور اپنے پروردگار کا نام یاد کیا اور نماز پڑھی۔)[؟–؟][3] سے کیا مراد ہے تو فرمایا: "اس سے مراد وہ شخص ہے جس نے صحرا میں جا کر نماز عید ادا کی۔"[4]
- امام صادقؑ فرماتے ہیں: روزے کا کمال زکات فطرہ کی ادائیگی میں ہے۔ جس طرح نماز کا کمال پیغمبر اکرمؐ اور آپ کی آل پر صلوات بھیجنے میں ہے۔ کیونکہ جس نے روزہ رکھا لیکن عمدا فطرہ ادا نہ کیا تو گویا اس نے روزہ رکھا ہی نہیں اسی طرح جس نے نماز ادا کی لیکن پیغمبر اکرمؐ اور آپ کی آل پر صلوات بھیجنے کو ترک کیا تو گویا اس نے نماز پڑھی ہی نہیں۔ خداوند متعال نماز سے پہلے زکات ادا کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرماتے ہیں : قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَکیٰ وَ ذَکرَ اسْمَ رَ بِّهِ فَصَلَّیٰ (ترجمہ: وہ شخص فائز المرام ہوا جس نے اپنے آپ کو (بداعتقادی و بدعملی سے) پاک کیا۔ (14) اور اپنے پروردگار کا نام یاد کیا اور نماز پڑھی۔)[؟–؟][5]
- امام علیؑ فرماتے ہیں: "جو بھی فطرہ ادا کرتا ہے خداوند عالم اس کے ذریعے اس کے مال میں سے زکات کی کمی رہ گئی ہے اسے پورا کرتا ہے۔[6]
- امام صادقؑ نے فرمایا: جس نے بھی اپنا روزہ کسی اچھی بات یا اچھے کام سے اختتام کو پہنچایا، خدا اس کا روزہ قبول کرتا ہے۔ لوگوں نے سوال کیا فرزند رسولؐ، اچھی بات سے کیا مراد ہے؟ تو آپ نے فرمایا: اس بات کی گواہی دینا کہ خدا کے سوائے کوئی معبود نہیں ہے اور اچھے کام سے مراد فطرہ کی ادائیگی ہے۔"[7]
- امام صادقؑ نے اپنے وکیل متعب سے فرمایا: "جاؤ جن جن کے اخراجات ہمارے ذمہ ہے ان سب کا فطرہ ادا کرو اور کسی ایک کو بھی نہ چھوڑو۔ کیونکہ اگر کسی کو چھوڑا یا فراموش کیا تو مجھے ڈر ہے کہ وہ فوت ہو جائے" معتب نے سوال کیا: فوت سے کیا مراد ہے؟ (عربی میں فوت کا ایک معنی مفقود ہونا بھی ہے شاید راوی نے اس لئے یہ سوال کیا تاکہ معلوم ہوجائے کہ فوت سے مراد کیا ہے) تو امام نے فرمایا: "موت"۔ [8]
حکم
زکات فطرہ ایک واجب عبادت ہے اس لئے اس کی ادائیگی میں قصد قربت شرط ہے۔[9]
واجب ہونے کی شرائط
- بلوغ اور عقل: پس زکات فطرہ (نابالغ اور دیوانہ) سے ساقط ہے۔[10]
- ہوش میں ہو: جو شخص ماہ رمضان کی آخری تاریخ کو بے ہوشی کی حالت میں ہو تو اس پر زکات فطرہ واجب نہیں ہے۔[11]
- بینیازی: فقیر پر زکات فطرہ واجب ہے۔ مشہور قول کی بنا پر فقیر سے مراد وہ شخص ہے جس کے پاس ابھی یا مستقبل میں اپنی اور اپنے اہل و عیال کے سال بھر کا خرچہ نہ ہو۔ یعنی ابھی کو مال موجود بھی نہیں ہے یا کوئی ایسا شغل بھی نہیں ہے جس سے وہ اپنا خرچہ پورا کر سکے۔[12] گذشتہ بعض فقہاء نے فرمایا ہے کہ: فقیر وہ شخص ہے جو زکات کے کسی ایک نصاب یا اس کی قیمت کا مالک نہ ہو۔ [13] بعض فقہاء سے منقول ہے کہ جس شخص کے پاس فقط ایک دن اور رات کا خرچہ ہو تو اس پر بھی زکات واجب ہے۔[14] البتہ فقیر پر بھی فطرہ کے مستحب ہونے میں کوئی شک نہیں ہے اور کم از کم یہ کہ ایک صاع(تقریبا تین کلو گرام) گندم یا دوسری اشیاء جو وہ فطرہ کے طور پر دینا چاہتا ہے، کو اپنے اہل خانہ کے ایک فرد کے ہاتھ میں دے اور وہ دوسرے کو اسی طرح پورا اہل خانہ آخر میں اسے فطرہ کے عنوان سے اپنے اہل خانہ کے علاوہ کسی اور فقیر کو دے دے۔ [15]
- اس بات میں فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے کہ زکات فطرہ واجب ہونے کیلئے علاوہ بر مخارج سال خود فطرہ کا بھی مالک ہونا شرط ہے یا نہیں؟۔ اس صورت میں اگر اسے بھی شرط قرار دے تو جس کے پاس پورے ایک سال کے خرچے کی علاوہ فطرہ کی مقدار کا بھی مالک نہ ہو تو یعنی سال کے اخراجات کے علاوہ کچھ نہ ہو تو اس پر زکات فطرہ واجب نہیں ہے۔
- تعض فقہاء غنی بالفعل اور غنی بالقوھ یعنی ابھی اخراجات اس کے پاس ہونے اور کسی شغل کے ذریعے رفتہ رفتہ اخراجات کے حاصل ہونے میں فرق کے قائل ہوئے ہیں اس وقت دوسری صورت میں یہ شرط رکھی ہے کہ سال کے اخراجات سے ہٹ کر زکات فطرہ کا بھی مالک ہو۔[16]
- فطرہ واجب ہونے کے لئے عید کی رات مغرب تک شرائط کا موجود ہونا ضروری ہے۔ بنابراین اگر کوئی عید کی رات مغرب سے پہلے تک تو شرائط رکھتا ہو لیکن مغرب کے دوران اس میں شرائط مفقود ہو جائے تو اس پر فطرہ واجب نہیں ہے۔ ہاں اگر عید کی رات مغرب سے عید کی صبح نماز عید تک شرائط محقق ہو جائے مثلا اس دوران کوئی نابالغ، بالغ ہو جائے تو اس پر فطرہ ادا کرنا مستحب ہے واجب نہیں ہے۔[17]
- بعض معاصرین کہتے ہیں: اگر عید کی رات مغرب سے عید کے صبح نماز عید تک شرائط متحقق ہو جائے تو فطرہ بنابر احتیاط واجب ہے۔[18] بعض دیگر کہتے ہیں: عید کی رات مغرب کے وقت شرائط کا موجود ہونا کافی ہے اس سے پہلے شرائط کا موجود ہونا ضروری نہیں ہے.[19]
وہ افراد جن پر فطرہ واجب ہے
جو بھی عید الفطر کی رات غروب کے وقت کسی شخص کے ہاں کھانے والے سمجھے جائیں ضروری ہے کہ وہ شخص ان کا فطرہ دے، قطع نظر اس سے کہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے مسلمان ہوں یا کافر اگر اس شخص میں فطرہ کے واجب ہونے کے شرائط ہوں میں اس پر ان سب کا فطرہ واجب ہے۔[20]
آیا بیوی کا فطرہ اس کے شوہر پر اسی طرح غلام کا فطرہ اس کے آقا پر ہر صورت میں واجب ہے اگرچہ یہ اس کے عیال میں شامل نہ ہوتے ہوں؟ یا صرف اس صورت میں واجب ہے کہ یہ ان کے عیال میں شامل ہوتا ہو؟ یا ان کا نفقہ ان پر واجب ہونے کی صورت میں واجب ہے؟ فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔[21] البتہ اختلاف صرف اس صورت میں ہے کہ زوجہ اور غلام کسی اور کا عیال شمار نہ ہوتے ہوں ورنہ اگر یہ دونوں کسی اور کے عیال میں شمار ہوتے ہوں تو شوہر اور مالک سے ان کا فطرہ ساقط ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔[22]
جس شخص کا فطرہ کسی اور پر واجب ہے خود اس کے اوپر اس کا فطرہ واجب نہیں[23] اگرچہ وہ اسکا فطرہ ادا نہ بھی کرے . لیکن اس صورت میں کہ معیل(وہ شخص جو گھر کا ذمہ دارہے) فقیر ہو جبکہ عیال غنی ہو تو اس صورت میں عیال کے اوپر اپنی طرف سے اپنا فطرہ ادا کرنا واجب ہے یا نہیں؟ علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ [24]
مہمان کا فطرہ
مہمان کا فطرہ میزبان پر واجب ہے۔ اگرچہ اس مسئلے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے کہ آیا عید کی رات ایک دفعہ افطاری کھانے سے مہمان کا فطرہ میزبان پر واجب ہوتا ہے یا نہیں؟ بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ مہمان کا فطرہ میزبان پر واجب ہونے کیلئے مہمان کا عنوان صدق آنا کافی ہے اگرچہ افطار سے ایک لمحہ پہلے ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن بقیہ حضرات معتقد ہیں کہ صرف اس مہمان کا فطرہ میزبان پر واجب ہے جسے عرف میں میزبان کا عیال اور کھانے والا شمار کیا جاتا ہو۔ اس مسئلے میں دیگر اقوال بھی ہیں منجملہ: پورے ماہ رمضان میں مہمان رہنے کی شرط؛دوسرے نصف میں مہمان رہنا؛ آخری عشرے میں مہمان رہنا یا آخری دو راتوں میں مہمان رہنا وغیرہ۔[25]
جنس اور مقدار
زکات فطرہ کے جنس کے بارے میں فقہاء کے کلمات مختلف ہیں۔ بعض فقط گندم، جو، خرما اور کشمش کو ذکر کرتے ہیں۔ جبکہ دوسرے حضرات مذکورہ اشیاء کے علاوہ مکئی اور خشک دھی کو بھی ذکر کرتے ہیں۔ ایک تیسرا گروہ مذکورہ اشیاء پر دودھ کو جبکہ چوتھا گروہ چاول کو بھی اضافہ کرتے ہیں۔
متاخرین میں سے مشہور علماء زکات فطرہ کی جنس کو عرف عام میں غالبا اور اکثرا استعمال ہونے والی چیز کو قرار دیتے ہیں۔[26]
زکات فطره میں مذکورہ اشیاء کی قیمت کی ادائیگی بھی کافی ہے۔[27]
زکات فطرہ کی مقدار ہر شخص کے مقابلے میں دودھ کے علاوہ باقی اشیاء میں ایک صاع (تقریبا 3 کیلوگرام) ہے۔ جبکہ دودھ میں اس کی مقدار کو بعض نے چار رطل ذکر کیا ہے اگرچہ مشہور دودھ میں بھی باقی اشیاء کی طرح ایک صاع ذکر کرتے ہیں۔ قول اول کی بنا پر رطل سے مراد "رطل عراقی" ہے یا "رطل مدنی" علماء کے درمیان اختلاف ہے۔[28]
زمان وجوب
- متأخرین میں سے مشہور کا قول ہے کہ زکات فطرہ ماہ رمضان کی آخری تاریخ کو مغرب کے وقت واجب ہوتی ہے۔ بعض نے فطرہ کے وجوب کے وقت کو عید کے دن فجر تک ذکر کیا ہے۔[29] فطرہ کی ادائیگی کے آخری وقت کے بارے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے بعض اسے نماز عید کی ادائیگی کے وقت جبکہ بعض عید کے دن زوال اور بعض اسے اسی روز مغرب تک ذکر کرتے ہیں.[30]
- ماہ رمضان میں چاند رات سے پہلے فطرہ کی ادائیگی کے جواز میں بھی علماء کا اختلاف ہے۔ جائز ہونے کی صورت میں ماہ رمضان کی پہلی تاریخ سے ہی جائز ہو گی۔[31]
- اگر کوئی شخص مقرره مدت میں فطرہ ادا نہ کرے تو اس صورت میں اگر قصد قربت کے ساتھ اپنے مال سے اسے الگ کر کے رکھا ہو تو اسی کو فطرہ کے طور پر ادا کرنا واجب ہے لیکن اگر اس نے الگ نہ کیا ہو تو آیا زکات اس کے گردن سے ساقط ہو گی یا نہیں اور اگر اس سے ساقط نہ ہونے کی صورت میں فطرہ کو ادا کی نیت سے ادا کرنا چاہئے یا قضا کی نیت سے مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔[32]
- اگر فطرہ کو اپنے مال سے الگ رکھا ہو اور ادائیگی کی امکان کے باوجود ادا نہ کی گئی ہو تو شخص اس کا ضامن ہے۔[33]
مصرف
- فقہاء کے درمیان مشہور قول کی بنا پر زکات فطرہ کا مصرف وہی زکات مال کا مصرف ہے۔[34]
- بعض قدماء کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ زکات فطرہ فقط فقراء کے ساتھ مختص ہے۔[35] بعض معاصرین بھی زکات فطرہ کو فقط فقیروں کے ساتھ مختص ہونے کو احتیاط مستحب قرار دیتے ہیں۔[36]
- فقہاء کے ایک گروہ کے مطابق مؤمن(شیعہ) فقیر نہ ہونے کی صورت میس فطرہ سنی مستحق کو دینا جائز ہے۔[37]
- مالک فطرہ کو براہ راست مستحق کو ادا کر سکتا ہے اگرچہ امام یا نائب امام کو دینا افضل ہے۔[38]
- قول مشہور کی بنا پر کسی پ فقیر کو ایک صاع سے کم مقدار میں زکات کے عنوان سے دینا جائز نہیں ہے مگر یہ کہ فقراء بہت زیادہ ہوں اور سب کو ایک ایک صاع دینا ممکن نہ ہو اس صورت میں بعض فقہاء اس بات کے قائل ہیں کہ ایک فقیر کو ایک صاع سے کم بھی ادا کی جا سکتی ہے۔ لیکن ایک صاع سے زیادہ دینا یہاں تک کہ اس کا فقر دور ہو جائے جائز ہے۔[39]
- مستحب ہے پہلے اپنے رشتہ دار فقراء کو فطرہ دی جائے پھر ہمسایوں میں سے جو فقیر ہوں انہیں دیا جائے اسی طرح اہل علم فقراء کو دوسروں پر ترجیح دینا بھی مستحب ہے۔[40]
- سید غیر سید سے زکات مال اور فطرہ نہیں لے سکتا لیکن خمس اور دوسری وجوہات اگر اس کی زندگی کے اخراجات پورا نہ کرسکے اور زکات لینے پر محبور ہو تو غیر سید کا فطرہ بھی لے سکتا ہے۔[41]
حوالہ جات
- ↑ عاملی، مدارک الأحکام، ج۵، ص۳۰۷؛ انصاری، کتاب الزکاة، ص۳۹۷.
- ↑ اعلی، ۱۴
- ↑ اعلی، ۱۵
- ↑ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ج۱، ص۵۱۰.
- ↑ اعلی: ۱۴-۱۵.، صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ج۲، ص۱۸۳.
- ↑ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ج۲، ص۱۸۳.
- ↑ صدوق، التوحید، ص۲۲.
- ↑ کلینی، الکافی، ج۷، ص۶۶۸.
- ↑ یزدی، العروۃ الوثقی، ج۴، ص۲۰۴.
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، ج ۱۵، ص۲۷۹
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، ج ۱۵، ص۴۸۵.
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، ج ۱۵، ص۴۸۸ ـ ۴۹۰
- ↑ الخلاف، ج ۲، ص۱۴۶.
- ↑ مختلف الشیعۃ، ج ۳، ص۲۶۱
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، ج ۱۵، ص۴۹۲.
- ↑ حکیم، مستمسک العروۃ، ص۹، ص۳۹۰ ـ ۳۹۲.
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، ج ۱۵، ص۴۹۹
- ↑ منہاج الصالحین (خویی)، ج ۱، ص۳۲۰
- ↑ یزدی، العروۃ الوثقی، ج ۴، ص۲۰۵ ـ ۲۰۶.
- ↑ حکیم، مستمسک العروۃ، ج ۹، ص۳۹۶ ـ ۳۹۷.
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، ج ۱۵، ص۵۰۲ ـ ۵۰۴
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، ج ۱۵، ص۵۰۴.
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، ج ۱۵، ص۵۰۵
- ↑ یزدی، العروۃ الوثقی، ج ۴، ص۲۰۹.
- ↑ یزدی، العروۃ الوثقی، ج۴، ص۲۰۷ ـ ۲۰۸؛ خویی، موسوعۃ الخوئی، ج ۲۴، ص۳۹۳ ـ ۳۹۴.
- ↑ بحرانی، الحدائق الناضرة، ج ۱۲، ص۲۷۹؛ نراقی، مستند الشیعۃ، ج ۹، ص۴۰۵ ـ ۴۰۶؛ نجفی، جواہر الکلام، ج ۱۵، ص۵۱۴ ـ ۵۱۸
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، ج ۱۵، ص۵۱۸
- ↑ خویی، موسوعۃ الخوئی، ج ۲۴، ص۴۵۳
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، ج ۱۵، ص۵۲۷؛ یزدی، العروۃ الوثقی، ج ۴، ص۲۲۲
- ↑ بحرانی، الحدائق الناضرۃ، ج ۱۲، ص۳۰۱.
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، ج ۱۵، ص۵۲۹.
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، ج ۱۵، ص۵۳۴ ـ ۵۳۶.
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، ج ۱۵، ص۵۳۸
- ↑ نجفی، جواiر الکلام، ج ۱۵، ص۵۳۸
- ↑ المقنعۃ، ص۲۵۲
- ↑ یزدی، العروۃ الوثقی، ج ۴، ص۲۲۵
- ↑ طوسی، النہایۃ، ص۱۹۲؛ حلی، الجامع للشرائع، ص۱۴۰ ؛ عاملی، شرائع الإسلام، ج ۱، ص۱۳۱ ـ ۱۳۲.
- ↑ حائری، ریاض المسائل، ج ۵، ص۲۲۱ ـ ۲۲۰.
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، ج ۱۵، ص۵۴۱ ـ ۵۴۲؛ حکیم، مستمسک العروۃ، ج ۹، ص۴۳۸ ـ ۴۳۹
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، ج ۱۵، ص۵۴۲ ـ ۵۴۳
- ↑ امام خمینی، توضیح المسائل، ص۲۹۸، ر.ک: امام خمینی، تحریرالوسیلہ(ترجمہ فارسی)، ج۱، ص۳۸۶؛ یزدی، العروہ الوثقی(محشی)، ج۴، ص۱۳۷ ـ ۱۳۶.
مآخذ
- امام خمینی، تحریر الوسیلہ(ترجمہ فارسی)، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، تہران، ۱۳۸۶ش.
- امام خمینی، توضیح المسائل، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، تہران، ۱۳۸۷ش.
- انصاری، مرتضی، کتاب الزکاۃ، کنگرہ شیخ اعظم انصاری، قم، ۱۴۱۵ق.
- بحرانی، یوسف بن احمد، الحدائق الناظرہ فی احکام العترہ الطاہرہ، جامعہ مدرسین، قم، ۱۴۰۵ق.
- حائری، علی بن محمد، ریاض المسائل فی تحقیق الاحکام بالدلائل، قم، موسسہ آل البیت علیہم السلام، ۱۴۱۸ق.
- حکیم، محسن، مستمسک العروۃ الوثقی، موسسہ دارالتفسیر، قم، ۱۴۱۶ق.
- حلی، حسن بن یوسف، مختلف الشیعہ فی احکام الشریعہ، جامعہ مدرسین، قم، ۱۴۱۳ق.
- حلی، یحیی بن سعید، الجامع للشرایع، موسسہ سیدالشہداءالعلمیہ، قم، ۱۴۰۵ق.
- خویی، ابوالقاسم، منہاج الصالحین، نشر مدینہ العلم، قم، ۱۴۱۰ق.
- خویی، ابوالقاسم، موسوعہ الامام الخوئی، موسسہ احیاء آثار الامام الخوئی، قم، ۱۴۱۸ق.
- صدوق، محمد بن علی، التوحید، مصحح: حسینی، ہاشم، جامعہ مدرسین، قم، ۱۳۹۸ق.
- صدوق، محمد بن علی، من لایحضرہ الفقیہ، مصحح: غفاری، علی اکبر، جامعہ مدرسین، قم، ۱۴۱۳ق.
- طوسی، محمد بن حسن، الخلاف، جامعہ مدرسین، قم، ۱۴۰۷ق.
- طوسی، محمد بن حسن، النہایہ فی مجرد الفقہ و الفتاوی، دارالکتاب العربی، بیروت، ۱۴۰۰ق.
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، دارالحدیث، قم، ۱۴۲۹ق.
- مفید، محمد بن محمد، المقنعہ، کنگرہ جہانی ہزارہ شیخ مفید، قم، ۱۴۱۳ق.
- نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، دار احیاءالثراث العربی، بیروت، ۱۴۰۴ق.
- نراقی، احمد بن محمد، مستند الشیعہ فی احکام الشریعہ، موسسہ آل البیت علیہم السلام، قم، ۱۴۱۵ق.
- یزدی، سید کاظم طباطبایی، العروہ الوثقی فیما تعم بہ البلوی(محشی)، جامعہ مدرسین، ۱۴۱۹ق.
- عاملی، محمد بن علی موسوی، مدارک الاحکام فی شرح عبادات شرائع الاسلام، موسسہ آل البیت علیہم السلام، بیروت، ۱۴۱۱ق.