طالوت اور جالوت کی جنگ

ویکی شیعہ سے
داوود و جالوت، جرمنی کے نقاش اسمر شیندلر کا شاہکار

طالوت اور جالوت کی جنگ قرآنی قصوں میں سے ایک ہے، جس میں بنی اسرائیل کے بادشاہوں میں سے ایک طالوت اور بنی اسرائیل کے دشمنوں میں سے ایک جالوت کے درمیان ہونے والی لڑائی کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ قصہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 246 تا 251 میں بیان ہوا ہے۔ قرآن کے مطابق، خدا کی تعلیمات سے انحراف کے بعد، بنی اسرائیل فلسطینیوں کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہوئے اور عہد کا صندوق کھو بیٹھے۔ خدا نے طالوت نامی ایک نامعلوم شخص کو ان کا بادشاہ بنایا۔ یہودیوں کی ایک بڑی فوج اس کے گرد جمع ہو گئی۔ لیکن کئی آزمائشوں کے بعد، ان میں سے چند ہی اس کے ساتھ رہے۔ جنگ کے دن حضرت داؤد نے فلاخن سے پتھر مار کر جالوت کو قتل کر دیا اور بنی اسرائیل جیت گئے۔

شیعہ مفسرین کے نزدیک یہ قرآنی قصہ ظلم و فساد کے خلاف جہاد کی اہمیت، قیادت اور امامت کے لیے ضروری خصوصیات اور الہی امتحانات میں استقامت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ نیز، یہ قصہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ فتح کے لیے عددی برتری کافی نہیں ہے اور آخری فتح اہل ایمان کی ہے۔

طالوت پر تحقیق کرنے والے محققین نے قرآن میں مذکور طالوت اور عہد نامہ قدیم میں مذکور شاؤل دونوں کو ایک شخص قرار دیا ہے۔ تاہم اس جنگ کی قرآنی روایت عہد نامہ قدیم سے مختلف ہے۔ یہ کہانی 21ویں صدی میں بھی اسرائیلی حکام کے سیاسی ادبیات شامل ہے۔

اہمیت

طالوت اور جالوت کی جنگ قرآن قصوں میں سے ایک ہے۔ یہ قصہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 246 تا 251 میں بیان ہوا ہے۔ شیعہ مفسرین اور محققین کی رائے میں اس قصے سے جہاد کی اہمیت، حکمرانوں کی خصوصیات اور کافروں پر مومنوں کی فتح جیسے مسائل کو سمجھا جاسکتا ہے۔[1] طالوت کے قصے کے تحت شیعہ مفسرین نے استدلال کیا ہے کہ عوامی قائدین میں حکمت اور جرأت جیسی صفات ہونی چاہئیں۔[2] شیعہ احادیث میں بھی ان صفات کو شیعہ ائمہؑ کی خصوصیات کے طور پر بیان ہوئی ہیں۔[3] اسی طرح بعض احادیث میں امام مہدیؑ کے اصحاب کے انتخاب کو طالوت کے اصحاب کے خدائی امتحانات سے موازنہ کیا گیا ہے۔[4]

طالوت کے لشکر کی تشکیل

مسلم مفسرین کی روایت کے مطابق حضرت موسیٰؑ کے بعد بنی اسرائیل نے الہی سنتوں اور روایات سے دوری اختیار کی اور ان میں تفرقہ پیدا ہوگیا۔ اسی وجہ سے وہ فلسطینیوں کے ہاتھوں شکست کھا گئے اور اپنی سرزمین سے نکالے گئے، اور عہد کے صندوق سے بھی محروم ہو گئے۔[5] یہودیوں نے حضرت شموئیل پیغمبر سے کہا کہ وہ دشمن سے لڑنے کے لیے انہیں ایک کمانڈر منتخب کریں۔[6] اللہ تعالی نے طالوت نامی ایک نامعلوم شخص کو ان کا سپہ سالار مقرر کیا۔ ذرائع کے مطابق یہودیوں نے احتجاج کیا کہ طالوت ایک اعلیٰ نسب اور دولت سے محروم ہے۔؛[7] لیکن اللہ نے عہد کا صندوق انہیں الہی نشانی کے طور پر واپس کر دیا اور انہوں نے اسے قبول کر لیا۔[8] مفسرین کے مطابق اس الٰہی نشانی کے بعد طالوت کے گرد ایک بڑا ہجوم جمع ہوگیا۔[9]

جالوتیوں سے جنگ

قرآنی آیات کی بنا پر طالوت نے اپنی فوجوں کی قوت ارادی کو جانچنے کے لیے کہا کہ وہ عنقریب ایک دریا تک پہنچ جائیں گے اور جو سفر جاری رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے وہ اس دریا سے تھوڑی سی مقدار کے سوا نہ پیے؛[10] لیکن اس کے اکثر ساتھیوں نے اپنی خوب پیاس بجھائی۔[11] بعض مآخذ کے مطابق، کئی ہزار لوگوں نے نافرمانی کی۔[12] طالوت نافرمانوں کی اکثریت کو چھوڑ کر میدان جنگ میں چلا گیا۔[13] باقی ممبران میں سے کچھ اپنی آبادی کی اقلیت سے خوفزدہ تھے؛ لیکن تقدیر الٰہی پر یقین رکھنے والے طالوت کے ساتھ رہے۔[14] جنگ کے آغاز میں کسی کو اس سے لڑنے کی ہمت نہ تھی۔ "حضرت داؤد" نامی نوجوان نے فلاخن؟؟؟؟ کے ذریعے ایک پتھر پھینکا اور وہ پتھر جالوت کی پیشانی پر لگا اور وہ ہلاک ہو گیا۔[15] جالوت کے قتل نے فلسطینی فوج کو خوفزدہ کر دیا اور وہ طالوت کی چھوٹی فوج سے بھاگ گئے اور بنی اسرائیل جیت گئے۔[16]

واقعہ سے مفسرین کے اقتباس

ظلم کے خلاف جہاد کی اہمیت

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ قرآن نے طالوت اور جالوت کی لڑائی کو بیان کر کے ظلم و فساد کے خلاف جہاد کی اہمیت کی نشاندہی کی ہے۔[17] قرآن کی آیات کے مطابق بنی اسرائیل نے جالوت کی بدعنوانی سے لڑنے کے لیے خدا سے ایک کمانڈر طلب کیا اور جہاد کے دوران اس کے حکم پر عمل کرنے کا وعدہ کیا؛ لیکن جہاد کے دوران وہ اپنے وعدے سے مکر گئے؛[18] لیکن جو گروہ باقی رہا وہ دشمن کو شکست دینے میں کامیاب رہا۔[19]

حکمرانوں کی خصوصیات

سورہ بقرہ کی آیات 246 سے 251 میں علم اور قابلیت کو عوامی قائد کی دو اہم خصوصیات کے طور پر درج کیا گیا ہے اور لیڈر کے انتخاب میں دولت یا خاندانی عزت جیسے دیگر معیارات کو اہم معیار نہیں مانتے ہیں۔[20] شیعہ مفسرین میں سے فضل بن حسن طبرسی نے طالوت کے قصے پر استدلال کرتے ہوئے امام کا اپنی امت میں سب سے زیادہ عقلمند اور بہادر ہونے کو ضروری سمجھا ہے۔[21] امام رضا علیہ السلام کی ایک روایت میں اس مسئلہ کی تصریح کی گئی ہے۔[22]

ایک اور روایت میں، طالوت کی حکمرانی کو ایک ایسی حکومت کی مثال سمجھا گیا ہے جو خدا کی طرف سے عطا ہوئی ہے، نہ کہ زبردستی اور لوگوں کو فتح کرنے کے ذریعے۔[23] علامہ طباطبائی کے نزدیک ان آیات کے مطابق حاکم کو چاہیے کہ وہ معاشرے کے معاملات کو اس طرح چلاے کہ معاشرے کا ہر فرد اس کمال تک پہنچ جائے جس کا وہ مستحق ہے۔ ایسی حکومت کے لیے حکمران کے پاس معاشرتی زندگی کے تمام مفادات کا علم اور ان مصلحتوں کو نافذ کرنے کی طاقت دونوں ہونا ضروری ہے اور یہ دونوں چیزیں طالوت میں پائی جاتی تھیں۔[24]

امتحان الہی میں استقامت کی اہمیت

محسن قرائتی کے مطابق، اس آیت سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ جو لوگ خدا کی راہ میں لڑنے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ خدائی امتحانات کے بعض مراحل میں کامیاب ہوتے ہیں؛ لیکن وہ دوسرے مرحلے میں ناکام رہتے ہیں۔[25] وہ طالوت کی فوج کے امتحانی مراحل کی درجہ بندی اس طرح کرتے ہیں کہ بہت سے لوگ جنہوں نے شروع میں اپنی تیاری کا اعلان کیا تھا، جنگ کے حکم کے بعد دستبردار ہو گئے: کچھ طالوت کی گمنامی اور غربت کی وجہ سے جنگجوؤں سے الگ ہو گئے، باقی میں سے کچھ نے طالوت کے براہ راست حکم کی نافرمانی کی اور ممنوعہ ندی کا پانی پیا اور کچھ لوگ دشمن کی تعداد کے سامنے خوفزدہ ہو گئے۔ اس لیے صرف ایک قلیل تعداد طالوت کے شانہ بشانہ لڑی۔[26] بعض روایات میں وہ دریا جس سے طالوت کے ساتھیوں کو آزمایا گیا تھا، قائم آل محمد کے ظہور کے وقت لوگوں کی آزمائش کے لیے ایک مثال کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔[27]

مومنین کی اقلیت کو کافروں کی اکثریت پر کامیابی

اسلامی نصوص میں طالوت کے بہت بڑے لشکر پر طالوت کے چھوٹے لشکر کی فتح کو کافروں پر مومنوں کی فتح کی علامت سمجھا گیا ہے، اگرچہ مومنین کی تعداد کافروں سے کم ہی کیوں نہ ہو۔[28] امام باقرؑ سے روایت ہے کہ آخر کار صرف 313 افراد نے طالوت کے حکم کی تعمیل کی اور جالوت کے ساتھ جنگ ​​میں حصہ لیا۔[29] محققین کا کہنا ہے کہ قرآنی نقطہ نظر کے مطابق طالوت کے چھوٹے لشکر کی فتح کا باعث بننے والی چیز ان کے ایمان کی مضبوطی تھی۔[30]

عہد عتیق میں جنگ کا واقعہ

محققین کا خیال ہے کہ قرآن میں طالوت وہی ہے جو عہد نامہ قدیم میں شاؤل ہے۔[31] شاؤل کو عہد نامہ قدیم میں ایک نبی کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے؛ لیکن بعض اوقات وہ ایسے کام کرتا ہے جو خدا کو پسند نہیں ہیں۔[32] مثال کے طور پر، خدا کی مرضی کے خلاف، وہ جالوتیوں کے گھروں کو تباہ کرنے اور آگ لگانے سے اجتناب کرتا ہے۔[33] نیز جب اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کو بنی اسرائیل کا بادشاہ بنایا تو طالوت ان سے حسد کرنے لگے اور اسی وجہ سے حضرت داؤد علیہ السلام کو جنگ کی صف اول میں بھیج دیا۔[34] آخر کار، شاؤل فلسطینیوں سے شکست کھاتا ہے اور خودکشی کر لیتا ہے۔[35]

صہیونی حکمرانوں کا اس واقعے کی طرف اشارہ

بعض ذرائع نے جالوت کو عمالیق نامی قوم (قدیم فلسطین کا ایک قبیلہ) کا بادشاہ اور کمانڈر سمجھا ہے۔[36] اسرائیل کے وزیراعظم (سنہ 2024ء) بنجمن نیتھن یاہو نے طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد فلسطینیوں کو عمالیق کہا۔[37] نیتھن یاہو شاؤل کی جنگ کے کسی ضمنی کہانی کا حوالہ دے رہے تھے۔ پرانے عہد نامے کی داستان کے مطابق، اللہ تعالی نے شاؤل کو حکم دیا کہ وہ عمالیق کو قتل کرے اور ان کی عورتوں، چھوٹے بچوں اور مویشیوں کو تباہ کر دے؛ کیونکہ شاؤل سے 350 سال پہلے بنی اسرائیل کو اپنی سرزمین سے گزرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔[38]

حوالہ جات

  1. قرائتی، تفسیر نور، 1388ش، ج1، ص388؛ سیدی کوہساری، «فلسفۀ جہاد در داستان طالوت و جالوت...» ص360؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج2، ص233؛ جعفری، «نکات جالبی از داستان طالوت و جالوت»، ص34.
  2. طبرسی، فضل بن حسن، إعلام الوری بأعلام الہدی، تہران، ص411.
  3. قمی مشہدی، تفسیر کنز الدقائق، 1367ش، ج2،  ص381.
  4. نعمانی، الغیبۃ، 1397ق، ج1،  ص316.
  5. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج2، ص230.
  6. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج2، ص230.
  7. طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1352ش، ج2، ص286، ابن‌قتیبۃ، المعارف، 1992م، ص45؛ مسعودی، مروج الذہب، 1409ق، ج1، ص67؛ ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ج24، ص440.
  8. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج2، ص232.
  9. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج2، ص233.
  10. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج2، ص617.
  11. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج2، ص233؛ طباطبائی، المیزان، 1417ق، ج2، ص293.
  12. شبر، تفسیر القرآن الکریم، 1412ق، ص78.
  13. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج2، ص233؛ طباطبائی، المیزان، 1417ق، ج2، ص293.
  14. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج2، ص233.
  15. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج2، ص233.
  16. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج2، ص233.
  17. سینی کوہساری، «فلسفۀ جہاد در داستان طالوت و جالوت...» ص360
  18. جعفری، «نکات جالبی از داستان طالوت و جالوت»، ص31.
  19. جعفری، «نکات جالبی از داستان طالوت و جالوت»، ص34.
  20. حسینی کوہساری، «فلسفۀ جہاد در داستان طالوت و جالوت...» ص359؛ کدکنی و میبدی، «بررسی تطبیقی انتخاب طالوت...»، ص170.
  21. طبرسی، فضل بن حسن، إعلام الوری بأعلام الہدی، تہران، ص411.
  22. قمی مشہدی، تفسیر کنز الدقائق، 1367ش، ج2،  ص381.
  23. قمی مشہدی، تفسیر کنز الدقائق، ج11، ص243
  24. طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن،1352 ش، ج2، ص286.
  25. قرائتی، تفسیر نور، 1388ش، ج1، ص388.
  26. قرائتی، درسہایی از قرآن، ص1670.
  27. نعمانی، الغیبۃ، 1397ق، ج1،  ص316.
  28. قرطبی، جامع الاحکام القرآن، 1364ش، ج3، ص 255.
  29. کلینی، الکافی، 1407ق، ج8، ص316.
  30. جعفری، «نکات جالبی از داستان طالوت و جالوت»، ص34.
  31. نعمتی پیرعلی، دل‌آرا «بررسی تطبیقی داستان طالوت در قرآن و عہد عتیق»، ص9.
  32. نعمتی پیرعلی، دل‌آرا «بررسی تطبیقی داستان طالوت در قرآن و عہد عتیق»، ص10-12.
  33. نعمتی پیرعلی، دل‌آرا «بررسی تطبیقی داستان طالوت در قرآن و عہد عتیق»، ص12.
  34. نعمتی پیرعلی، دل‌آرا «بررسی تطبیقی داستان طالوت در قرآن و عہد عتیق»، ص12.
  35. نعمتی پیرعلی، دل‌آرا «بررسی تطبیقی داستان طالوت در قرآن و عہد عتیق»، ص12.
  36. زمخشری، کشاف، 1407ق، ج1، ص296.
  37. «نتانیاہو ہمچنان از عہد عتیق برای توجیہ قتل عام مردم غزہ استفادہ می‌کند»، پایگاہ خبری سیاق.
  38. کدکنی و میبدی، «بررسی تطبیقی انتخاب طالوت...»، ص173.

مآخذ

  • ابن‌قتیبۃ، عبداللہ بن مسلم، المعارف، قاہرۃ، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، 1992م.
  • جعفری، یعقوب، «نکات جالبی از داستان طالوت و جالوت»، درسہایی از مکتب اسلام، سال 45، شمارہ 4، تیر 1384ش.
  • حسینی کوہساری، سید اسحق، «فلسفۀ جہاد در «داستان طالوت و جالوت» از دیدگاہ قرآن کریم.»، فلسفہ دین، دورہ یازدہم، شمارہ 2، تابستان 1393ش.
  • زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف بیروت، دار الکتاب العربی، 1407ق.
  • شبر، سیدعبداللہ، تفسیر القرآن الکریم، بیروت، دارالبلاغۃ للطباعۃ و النشر، 1412ق.
  • شفیعی، سعید، «طالوت»، دانشنامہ جہان اسلام»، جلد 30، تہران، بنیاد دائرۃالمعارف بزرگ اسلامی، بی‌تا.
  • طباطبایی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1352ش/1393ق.
  • طبرسی، فضل بن حسن، إعلام الوری بأعلام الہدی، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، بی‌تا.
  • قرائتی، محسن، تفسیر نور، تہران، مرکز فرہنگی درسہایی از قرآن، 1388ش.
  • قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لأحکام القرآن، تہران، ناصر خسرو، 1364ش.
  • قمی مشہدی، محمد بن محمدرضا، تفسیر کنز الدقائق و بحر الغرائب، تہران، وزارۃ الثقافۃ و الإرشاد الإسلامی. مؤسسۃ الطبع و النشر، 1367ش.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، 1407ق.
  • کدکنی ہاشم؛ فاکر میبدی، محمد، «بررسی تطبیقی انتخاب طالوت بہ‌عنوان پادشاہ بنی‌اسرائیل در تفسیر قرآن و عہد عتیق» مطالعات تفسیری، شمارہ 33، بہار 1397ش.
  • محسن قرائتی، درسہایی از قرآن، درسہایی از قرآن، ص1670، مرکز فرہنگی درسہایی از قرآن، بی‌تا.
  • سعودی، ابو الحسن علی بن الحسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، قم، دارالہجرۃ، 1409ق.
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، 1374ش.
  • «نتانیاہو ہمچنان از عہد عتیق برای توجیہ قتل عام مردم غزہ استفادہ می‌کند»، پایگاہ خبری سیاق، تاریخ اتشار مطلب، 13 آبان 1402ش، تاریخ بازدید 10 آبان 1403ش.
  • نعمانی، محمد بن ابراہیم، الغیبۃ، تہران، مکتبۃ الصدوق، 1397ش.
  • نعمتی پیرعلی، دل‌آرا «بررسی تطبیقی داستان طالوت در قرآن و عہد عتیق»، معرفت ادیان، شمارہ 37، زمستان 1397ش.