آیت بر

ویکی شیعہ سے
(آیت برّ سے رجوع مکرر)
آیہ برّ
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامآیہ بر
سورہبقرہ
آیت نمبر177
پارہ2
صفحہ نمبر27
شان نزولتغییر قبلہ کے بعد مسلمانوں میں مشاجرت
موضوعاعتقادی، اخلاقی
مضموننیکی اور نیکوکاروں کے اوصا


اخلاق
اخلاقی آیات
آیات افکآیہ اخوتآیہ اطعامآیہ نبأآیہ نجواآیہ مشیتآیہ برآیہ اصلاح ذات بینآیہ ایثار
اخلاقی احادیث
حدیث قرب نوافلحدیث مکارم اخلاقحدیث معراجحدیث جنود عقل و جہل
اخلاقی فضائل
تواضعقناعتسخاوتکظم غیظاخلاصخشیتحلمزہدشجاعتعفتانصافاصلاح ذات البینعیب‌پوشی
اخلاقی رذائل
تکبرحرصحسددروغغیبتسخن‌چینیتہمتبخلعاق والدینحدیث نفسعجبعیب‌جوییسمعہقطع رحماشاعہ فحشاءکفران نعمت
اخلاقی اصطلاحات
جہاد نفسنفس لوامہنفس امارہنفس مطمئنہمحاسبہمراقبہمشارطہگناہدرس اخلاقاستدراج
علمائے اخلاق
ملامہدی نراقیملا احمد نراقیمیرزا جواد ملکی تبریزیسید علی قاضیسید رضا بہاءالدینیسید عبدالحسین دستغیبعبدالکریم حق‌شناسعزیزاللہ خوشوقتمحمدتقی بہجتعلی‌اکبر مشکینیحسین مظاہریمحمدرضا مہدوی کنی
اخلاقی مآخذ
قرآننہج البلاغہمصباح الشریعۃمکارم الاخلاقالمحجۃ البیضاءرسالہ لقاءاللہ (کتاب)مجموعہ وَرّامجامع السعاداتمعراج السعادۃالمراقبات

آیہ بِرّ سورہ بقرہ کی 177ویں آیت ہے جو نیکی اور نیکوکاروں کی توصیف میں نازل ہوئی ہے۔ اس آیت کے مطابق نیکی صرف خدا، آخرت، ملائکہ اور آسمانی کتابوں پر ایمان لانا نیز انفاق، نماز قائم کرنا، زکات ادا کرنا، عہد و پیمان پر برقرار رہنا اور تقوا اختیار کرنا نہیں ہے۔ حضرت محمدؐ سے نقل ہوا ہے کہ جو شخص اس آیت پر عمل کرے اس کا ایمان مکمل ہو گا۔ بعض مفسرین کے مطابق یہ آیت مکہ سے مدینہ ہجرت کے بعد اور بعض کے نزدیک تغییر قبلہ کے بعد نازل ہوئی ہے۔

متن اور آیت کا ترجمہ

لَيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَالْمَلآئِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّآئِلِينَ وَ فِي الرِّقَابِ وَ أَقَامَ الصَّلاةَ وَ آتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُواْ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاء والضَّرَّاء وَ حِينَ الْبَأْسِ أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَ أُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ


نیکی صرف یہی تو نہیں ہے کہ تم (نماز میں) اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو۔ بلکہ (حقیقی) نیکی تو یہ ہے کہ آدمی خدا پر، روزِ آخرت پر، فرشتوں پر، (اللہ کی) کتابوں پر اور سب پیغمبروں پر ایمان لائے۔ اور اس (خدا) کی محبت میں اپنا مال (باوجودِ مال کی محبت کے) رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، مانگنے والوں اور (غلاموں، کنیزوں اور مقروضوں کی) گردنیں چھڑانے میں صرف کرے، نماز قائم کرے، زکوٰۃ ادا کرے (دراصل) نیک لوگ تو وہ ہوتے ہیں کہ جب کوئی عہد کر لیں تو اپنا عہد و پیمان پورا کرتے ہیں اور تنگ دستی ہو یا بیماری اور تکلیف ہو یا ہنگام جنگ ہو وہ بہرحال ثابت قدم رہتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو (سچے) ہیں اور یہی متقی و پرہیزگار ہیں۔



سورہ بقرہ: آیت 77


شأن نزول

اس آیت کی شأن نزول کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے بعض اس کی شأن نزول کو مکہ سے مدینہ ہجرت کے بعد قرار دیتے ہیں[1] اور بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ یہ آیت تحویل قبلہ کے بعد نازل ہوئی ہے۔[2] مفسرین کا یہ گروہ کہتے ہیں کہ جب قبلہ بیت المقدس سے مکہ کی طرف تبدیل ہوا تو مسلمانوں کے درمیان اختلاف ایجاد ہونے لگا اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔[3]

ایمان کی تکمیل

بہت ساری تفاسیر میں حضرت رسولؐ سے اس آیت کے بارے میں ایک حدیث نقل ہوئی ہے جس کے مطابق جو کوئی اس آیت پر عمل کرے گا اس کا ایمان مکمل ہو جائے گا۔[4] علامہ طباطبایی دوسروں کے بر خلاف اس آیت کو انبیاء کے ساتھ مختص نہیں سمجھتے بلکہ کہتے ہیں کہ اگرچہ اس آیت پر عمل کرنا سخت ہے لیکن انبیاء کے علاوہ معصومین اور اولی الالباب بھی اس میں شامل ہیں یعنی ہر وہ شخص جو ہر حالت میں اور ہر جگہ خدا کی یاد میں ہوتے ہیں۔[5]

برّ کے معانی

لفظ "بِرّ" کے مختلف معانی ہیں من جملہ یہ کہ اس سے مراد ایمان، خیر،‌ احسان، لطف، صدق، تقوا اور ہر وہ فعل جو خدا کی خشنودی کا سبب ہو، ہے۔ بعض مفسرین اسے تمام عبادات اور اعمال خیر کے لئے جامع اسم قرار دیتے ہیں جو انسان کو خدا کے نزدیک کرتا ہے۔[6] آیت اللہ مکارم شیرازی اس بات کے معتقد ہیں کہ لفظ "بِرّ" میں وصف کا معنا پایا جاتا ہے اور اس سے مراد نیکوکار کے ہیں، آپ کی نظر میں اس لفظ کا اصل معنی "بیابان اور وسیع مکان" کے ہیں اور نیکوکاروں کی روحی وسعت کے پیش نظر انہیں بھی "برّ" کہا جاتا ہے۔[7]

اس آیت میں لفظ "برّ" کے معنی کے بارے میں مفسرین نے کئی اقوال نقل کئے ہیں؛[8] بعض معتقد ہیں کہ اس سے مراد یہاں اس آیت میں صرف نماز ہے،[1] بعض نماز کے علاوہ تمام شرعی عبادات کو بھی شامل کرتے ہیں جن کے اوپر خدا نے حکم دیا ہے۔[9] مفسرین کا ایک گروہ اس سے یہودیوں کی وہ نماز جو وہ مغرب کی طرف پڑھتے ہیں اور عیسائیوں کی وہ نماز جو وہ مشرق کی طرف پڑھتے ہیں، مراد لیتے ہیں۔[8] یہ گروہ اس سے پہلی آیات میں یہودیوں اور عیسائیوں کی توبیخ کو اس نظریے کے لئے دلیل قرار دیتے ہیں۔[10]

علامہ طباطبایی لفظ "بِرّ" کے معنی کے بارے میں اس بات کے معتقد ہیں کہ خدا وند عالم اس طرح کے دوسرے موارد کی طرح یہاں پر مصادیق کو ذکر کرنے کے ذریعے اس لفظ کی تعریف کی ہیں پس یہاں بھی خدا نے نیکی کے مصادیق کو ذکر کر کے حقیقت میں نیکی کی تعریف کی ہیں۔[11]

مضامین

اس آیت کے مضامین کا پہلا حصہ لفظ "برّ" کے معنی سے وابستہ‌ ہے، اس بنا پر بعض نے چونکہ "بر" سے مراد نماز لیا ہے، اس حصے کا معنا یہ کرتے ہیں کہ "نیکی صرف یہ نہیں ہے کہ نماز پڑھی جائے لیکن اس پر عمل نہ کریں"۔[1] اسی طرح بعض نے کہا ہے کہ اس حصے سے مراد یہ ہے کہ "نیکی صرف نماز پڑھنا اور شرعی عباتوں کو انجام دینا نہیں ہے"۔[12] اس سلسلے میں وہ لوگ جو اس بات کے معتقد تھے کہ لفظ "بِرّ" سے مراد یہیودیوں اور عیسائیوں کی نماز ہے، وہ اس آیت کے مفہوم کو ان کی اس کام پر توبیخ قرار دیا ہے جس کے ذریعے وہ بیت المقدس کی طرف رخ کرنے صرف نیکی سے تعبیر کرتے ہیں۔ [13] بعض کہتے ہیں کہ مسلمانوں اور اہل کتاب کے درمیان مشاجرے کے بعد یہ آیت نازل ہوئی ہے، بنابراین آیت کا مخاطب مسلمان اور اہل کتاب‌ دونوں ہیں اور آیت کا مفہوم اس صورت میں یہ ہے کہ "نیکی صرف قبلہ اور عبادیت کی سمت میں منحصر نہیں ہے"۔[14]

تفسیر مجمع‌البیان میں آیا ہے کہ نماز اور دوسری عبادات مخصوص مصلحتوں کی بنا پر انسان کو انحراف سے بچانے کے لئے واجب ہوئی ہیں اور خدا نے ان کی انجام دہی کا حکم دیا ہے، اس بنا پر نیکی یہ ہے کہ ان عبادتوں اور نمازوں کی اصل مصلحت تک پہنچنا ہے نہ یہ کہ کسی خاص سمت کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا نیکی ہو۔[15]

نیکوکار کون لوگ ہیں؟

اکثر مفسرین کے مطابق قرآن کی اس آیت کے مطابق نیکوکار اس شخص کو کہا جاتا ہے جس میں کم از کم درج ذیل اعتقادی، اخلاقی اور عملی صفات موجود ہوں:[16]

  • خدا، آخرت، ملائکہ اور انبیاء پر ایمان رکھتا ہو: علامہ طباطبایی اس بات کے معتقد ہیں کہ خدا پر ایمان میں تمام عقاید اور معارف شامل ہیں جن کی انجام دہی کا خدا نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے۔ علامہ کی نظر میں اس آیت میں ایمان سے مراد ایمان کامل ہےجس میں کوئی شک و شبہہ اور ابہام نہ ہو اور یہ ایمان انسان کو عمل اور اخلاق میں انحراف سے محفوظ رکھے۔[17]
  • انفاق: جملہ "وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّہِ[؟؟]" کی تفسیر میں کئی اقوال مطرح ہیں؛ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد ایسے وقت میں مال خرچ کرنا ہے جس وقت اس مال کی ضرروت ہو نہ اس وقت جب کام کی سکت باقی نہ رہی ہو اور مال دولت کی ضرورت بھی ختم ہو گئی ہو؛ بعض اس کی تفسیر یہ بیان کرتے ہیں کہ اس سے مراد ایسے اموال کا خرج کرنا ہے جسے انسان دوست رکھتا ہو، یعنی جس چیز کو خود پسند کرتے ہو اس سے خرچ کرو اسی طرح بعض مفسرین نے محبت اور دوستی کے ساتھ انفاق کرنے کو اس کی تفسیر قررا دیا ہے یعنی جب اپنا مال خرچ کر رہے ہوں تو اسے دل کھول کر محبت کے ساتھ دوسروں پر خرچ کریں، اور بعض نے اس کی تفسیر یہ بیان کی ہیں کہ اس سے مراد خدا کی راہ میں محبت کے ساتھ خرچ کرنا اور صرف خدا کی خشنودی کے لئے خرچ کرنا ہے۔[18]
  • نماز قائم کرنا: مراد واجب نماز‌یں ہیں۔
  • زکات ادا کرنا: مراد واجب زکات ہے۔
  • عہد و پیمان کی رعایت کرنا: بعض مفسرین عہدو پیمان کی رعایت کرنے سے مراد انسان کا خدا کے ساتھ کئے ہوئے عہد و پیمان لیتے ہیں۔ علامہ طباطبایی اور فخر رازی اس تفسیر کے مخالف‌ ہیں اور اس بات کے معتقد ہیں کہ اس جملہ کا معنا ہر قسم کے عہد کو شامل کرتا ہے۔[19]
  • صبر: یہاں صبر سے مراد فقر، بیماری اور جنگ میں صبر کرنا ہے۔[20]
  • سچائی: اس آیت کے آخر میں ایک بار پھر جملہ "أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا[؟؟]" لانے کی علت یہ بیان کرتے ہیں کہ "صدق" یعنی سچائی ایک ایسی صفت ہے جو تمام فضائل علم اور عمل کو شامل کرتی ہے۔[21]
  • تقوا: علامہ طباطبایی اس بات کے معتقد ہیں کہ تقوا کو سب سے آخر میں ذکر کرنے کی دلیل یہ ہے کہ جب تک نیکی اور سچائی متحقق نہ ہو تقوا بھی متحقق نہیں ہوتا ہے۔[22]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. 1.0 1.1 1.2 طبری، جامع‌البیان فی تفسیر القرآن، ۱۴۱۲ق، ج۲،‌ ص۵۵۔
  2. طبرسی، مجمع‌البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص ۴۷۵؛ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، ج۲، ص۹۵۔
  3. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج۱، ص۵۹۷۔
  4. قمی کاشانی، منہج‌الصادقین،‌ ۱۳۳۰ش، ج۱، ص۳۷۲؛ شریف لاہیجی، تفسیر لاہیجی،‌ ۱۳۷۳ش، ج۱، ص۱۵۵؛ طباطبایی، المیزان،‌ ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۴۳۱۔
  5. طباطبایی، المیزان،‌ ۱۴۱۷ق، ج۱، ص ۴۳۰۔
  6. ابن معصوم مدنی، الطراز الأول و الكناز لما عليہ من لغۃ العرب المعول، ۱۴۲۶ق، ج۷، ص۷۶۔
  7. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج۱، ص۵۹۸۔
  8. 8.0 8.1 ملاحظہ کریں: طبری، جامع‌البیان فی تفسیر القرآن، ۱۴۱۲ق، ج۲،‌ ص۵۵؛ طبرسی، مجمع‌البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص ۴۷۵۔
  9. طبرسی، مجمع‌البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص ۴۷۵؛
  10. طبری، جامع‌البیان فی تفسیر القرآن، ۱۴۱۲ق، ج۲،‌ ص۵۶۔
  11. طباطبایی، المیزان،‌ ۱۴۱۷ق، ج۱، ص ۴۲۸۔
  12. طبرسی، مجمع‌البیان فی تفسیر القرآن، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص ۴۷۵؛ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، ج۲، ص۹۵۔
  13. فخر رازی،‌ مفاتیح الغیب، ۱۴۲۰ق، ج۵، ص۲۱۱۔
  14. قمی کاشانی، منہج‌الصادقین،‌ ۱۳۳۰ش، ج۱، ص۳۷۰۔
  15. طبرسی، مجمع‌البیان فی تفسیر القرآن، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص ۴۷۶۔
  16. طباطبایی، المیزان،‌ ۱۴۱۷ق، ج۱، ص ۴۲۸- ۴۲۸؛ قمی، تفسیر القمی،‌۱۳۶۷ش،‌ ج۱، ص۶۵؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج۱، ص۵۹۸-۶۰۱؛ مظہری، تفسیر المظہری،‌ ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۱۷۳؛ ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، ۱۴۱۹ق، ج۱، ص ۳۵۴-۳۵۵؛ فخر رازی، مفاتیح الغیب،‌ ۱۴۲۰ق، ج۵، ص۲۱۴۔
  17. طباطبایی، المیزان،‌ ۱۴۱۷ق، ج۱، ص ۴۲۸- ۴۲۹۔
  18. طبرسی، مجمع‌البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص ۴۷۶-۴۷۷؛ قمی کاشانی، منہج‌الصادقین،‌ ۱۳۳۰ش، ج۱، ص۳۷۰-۳۷۱؛ فخر رازی، مفاتیح الغیب،‌ ۱۴۲۰ق، ج۵، ص۲۱۵-۲۱۶۔
  19. طباطبایی، المیزان،‌ ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۴۲۹؛ فخر رازی، مفاتیح الغیب،‌ ۱۴۲۰ق، ج۵، ص۲۱۹۔
  20. فخر رازی، مفاتیح الغیب،‌ ۱۴۲۰ق، ج۵، ص۲۲۰۔
  21. طباطبایی، المیزان،‌ ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۴۲۹-۴۳۰؛ فخر رازی، مفاتیح الغیب،‌ ۱۴۲۰ق، ج۵، ص۲۲۰۔
  22. طباطبایی، المیزان،‌ ۱۴۱۷ق، ج۱، ص ۴۳۰۔

مآخذ

  • قرآن کریم، ترجمہ فولادوند۔
  • ابن کثیر، اسماعیل‌بن عمر، تفسیر القرآن العظیم، محقق محمد حسین شمس الدین، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۹ق۔
  • ابن معصوم مدنی، علیخان‌بن احمد، الطراز الأول و الکناز لما علیہ من لغۃ العرب المعول، مشہد، موسسہ آل البیت لاحیاء التراث، ۱۴۲۶ق۔
  • دہخدا، علی‌اکبر، لغت‌نامہ دہخدا، تہران، دانشگاہ تہران، ۱۳۷۷ش۔
  • شریف لاہیجى، محمدبن على، تفسیر شریف لاہیجى، تحقیق میرجلال‌الدین حسینى ارموى، تہران، داد، ۱۳۷۳ش۔
  • طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۷ق۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع‌البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصرخسرو، ۱۳۷۲ش۔
  • طبری، محمدبن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، لبنان، دار المعرفہ، ۱۴۱۲ق۔
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، مصحح احمد حبیب عاملی، بیروت، دار احیاء التراث العربی۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، مفاتیح الغیب، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۲۰ق۔
  • فضل‌اللہ، سید محمد حسین، من وحی القرآن، بیروت، دارالملاک للطباعۃ و النشر، ۱۴۱۹ق۔
  • قرشی بنابی، علی اکبر، قاموس القرآن، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۱ش۔
  • قمی کاشانی، ملا فتح اللہ، منہج الصادقین، تہران، چاپخانہ محمد حسن علمی، ۱۳۳۰ش۔
  • قمی، علی‌بن ابراہیم، تفسیر القمی، تحقیق سید طیب موسوی جزائری، قم، دارالکتاب، ۱۳۶۷ش۔
  • مراغی، احمدمصطفی، تفسیر المراغی، بیروت، دار الاحیاء التراث العربی۔
  • مظہری، محمد ثناءاللہ، تفسیر المظہری، پاکستان، مکتبہ رشدیہ، ۱۴۱۲ق۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۴ش۔