آیات افک
آیت کی خصوصیات | |
---|---|
آیت کا نام | آیات افک |
سورہ | نور |
آیت نمبر | 11-26 |
پارہ | 18 |
صفحہ نمبر | 351-352 |
شان نزول | واقعہ افک |
محل نزول | مدینہ |
موضوع | اخلاقی |
مضمون | مسلمانوں کے ایگ گروہ کی طرف سے کسی مسلمان پر تہمت لگانا |
آیات افک سورہ نور کی آیت نمبر 11 سے 26 تک کو کہا جاتا ہے جن میں مسلمانوں کے ایک گروہ کی طرف سے کسی مسلمان پر تہمت لگائے جانے کی طرف اشارہ ہے۔ خدا نے ان آیات میں بےجا تہمت لگانے اور افواہ پھیلانے پر لوگوں کی سرزنش کی ہیں۔
اکثر شیعہ مفسرین کے مطابق آیات افک کی شأن نزول حضرت عائشہ کی طرف سے ماریہ قبطیہ پر لگائی گئی تہمت ہے جس پر قرآن میں ماریہ کے دفاع میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں؛ لیکن اہل سنت مفسرین کہتے ہیں کہ یہ آیات منافقین کی طرف سے حضرت عایشہ پر لگائی گئی تہمت کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ یہ واقعہ سنہ 5ھ کو مدینہ میں پیش آیا۔
متن آیات
متن | ترجمہ |
---|---|
إِنَّ الَّذِینَ جَاءُوا بِالْإِفْک عُصْبَةٌ مِّنکمْ ۚ لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَّکم ۖ بَلْ هُوَ خَیرٌ لَّکمْ ۚ لِکلِّ امْرِئٍ مِّنْهُم مَّا اکتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ ۚ وَالَّذِی تَوَلَّىٰ كِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِیمٌ ﴿۱۱﴾ لَّوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنفُسِهِمْ خَیرًا وَقَالُوا هَٰذَا إِفْک مُّبِینٌ ﴿۱۲﴾ لَّوْلَا جَاءُوا عَلَیهِ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ ۚ فَإِذْ لَمْ یأْتُوا بِالشُّهَدَاءِ فَأُولَٰئِک عِندَ اللَّهِ هُمُ الْکاذِبُونَ ﴿۱۳﴾ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَیکمْ وَرَحْمَتُهُ فِی الدُّنْیا وَالْآخِرَةِ لَمَسَّکمْ فِی مَا أَفَضْتُمْ فِیهِ عَذَابٌ عَظِیمٌ ﴿۱۴﴾ إِذْ تَلَقَّوْنَهُ بِأَلْسِنَتِکمْ وَتَقُولُونَ بِأَفْوَاهِکم مَّا لَیسَ لَکم بِهِ عِلْمٌ وَتَحْسَبُونَهُ هَینًا وَهُوَ عِندَ اللَّهِ عَظِیمٌ ﴿۱۵﴾ وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُم مَّا یکونُ لَنَا أَن نَّتَکلَّمَ بِهَٰذَا سُبْحَانَک هَٰذَا بُهْتَانٌ عَظِیمٌ ﴿۱۶﴾ یعِظُکمُ اللَّهُ أَن تَعُودُوا لِمِثْلِهِ أَبَدًا إِن کنتُم مُّؤْمِنِینَ ﴿۱۷﴾ وَیبَینُ اللَّهُ لَکمُ الْآیاتِ ۚ وَاللَّهُ عَلِیمٌ حَکیمٌ ﴿۱۸﴾ إِنَّ الَّذِینَ یحِبُّونَ أَن تَشِیعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِینَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ فِی الدُّنْیا وَالْآخِرَةِ ۚ وَاللَّهُ یعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴿۱۹﴾ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَیکمْ وَرَحْمَتُهُ وَأَنَّ اللَّهَ رَءُوفٌ رَّحِیمٌ ﴿۲۰﴾ یا أَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّیطَانِ ۚ وَمَن یتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّیطَانِ فَإِنَّهُ یأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنکرِ ۚ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَیکمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَکیٰ مِنکم مِّنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَٰکنَّ اللَّهَ یزَکی مَن یشَاءُ ۗ وَاللَّهُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ ﴿۲۱﴾ وَلَا یأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنکمْ وَالسَّعَةِ أَن یؤْتُوا أُولِی الْقُرْبَیٰ وَالْمَسَاکینَ وَالْمُهَاجِرِینَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ ۖ وَلْیعْفُوا وَلْیصْفَحُوا ۗ أَلَا تُحِبُّونَ أَن یغْفِرَ اللَّهُ لَکمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِیمٌ ﴿۲۲﴾ إِنَّ الَّذِینَ یرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوا فِی الدُّنْیا وَالْآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ ﴿۲۳﴾ یوْمَ تَشْهَدُ عَلَیهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَیدِیهِمْ وَأَرْجُلُهُم بِمَا کانُوا یعْمَلُونَ ﴿۲۴﴾ یوْمَئِذٍ یوَفِّیهِمُ اللَّهُ دِینَهُمُ الْحَقَّ وَیعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ الْمُبِینُ ﴿۲۵﴾ الْخَبِیثَاتُ لِلْخَبِیثِینَ وَالْخَبِیثُونَ لِلْخَبِیثَاتِ ۖ وَالطَّیبَاتُ لِلطَّیبِینَ وَالطَّیبُونَ لِلطَّیبَاتِ ۚ أُولَٰئِک مُبَرَّءُونَ مِمَّا یقُولُونَ ۖ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ کرِیمٌ ﴿۲۶﴾ | بےشک جو لوگ جھوٹا بہتان گھڑ کر لائے ہیں وہ تم ہی میں سے ایک گروہ ہے۔ تم اسے اپنے حق میں برا نہ سمجھو۔ بلکہ وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ اس (گروہ) میں سے ہر آدمی کیلئے اتنا حصہ ہے جتنا اس نے گناہ کمایا ہے۔ اور جو ان میں سے اس (گناہ) کے بڑے حصہ کا ذمہ دار ہے اس کیلئے عذاب بھی بہت بڑا ہے۔ (11) ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم لوگوں نے یہ (بہتان) سنا تھا تو مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں اپنوں کے حق میں نیک گمان کرتے اور کہتے کہ یہ تو ایک کھلا ہوا بہتان ہے۔ (12) وہ اس پر چار گواہ کیوں نہیں لائے؟ سو جب یہ لوگ گواہ نہیں لائے تو یہ اللہ کے نزدیک جھوٹے ہی ہیں۔ (13) اور اگر تم پر دنیا و آخرت میں خدا کا فضل و کرم اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو جس بات میں تم پڑ گئے تھے (اور اس کا چرچا کیا تھا) تمہیں سخت عذاب پہنچتا۔ (14) جب تم لوگ اس (بہتان) کو ایک دوسرے کی زبان سے نقل کر رہے تھے اور اپنے مونہوں سے وہ بات کہہ رہے تھے جس کا خود تمہیں علم نہیں تھا۔ اور تم اسے ایک معمولی بات سمجھ رہے تھے۔ حالانکہ اللہ کے نزدیک وہ بہت بڑی بات تھی۔ (15) اور ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے یہ (افواہ) سنی تھی تو کہہ دیتے کہ ہمارے لئے زیبا نہیں ہے کہ یہ بات منہ سے نکالیں۔ سبحان اللہ! یہ تو بڑا بہتان ہے۔ (16) اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ تم مؤمن ہو تو آئندہ کبھی اس قسم کی بات نہ کرنا۔ (17) اور اللہ تمہارے لئے (اپنی) آیتیں کھول کر بیان کرتا ہے۔ اور اللہ بڑا جاننے والا، بڑا حکمت والا ہے۔ (18) اور جو لوگ چاہتے ہیں کہ اہلِ ایمان میں بے حیائی و برائی کی اشاعت ہو (اور اس کا چرچا ہو) ان کیلئے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (19) اور اگر تم پر اللہ کا فضل و کرم اور اس کی رحمت نہ ہوتی اور یہ کہ اللہ بڑا شفقت والا، بڑا رحم کرنے والا ہے (تو تم دیکھ لیتے کہ اس بہتان تراشی کا کیا انجام ہوتا)۔ (20) اے ایمان والو! شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔ اور جو کوئی شیطان کے نقش قدم پر چلتا ہے تو وہ اسے بے حیائی اور ہر طرح کی برائی کا حکم دیتا ہے اور اگر تم پر خدا کا فضل و کرم اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی بھی کبھی پاک و صاف نہ ہوتا۔ لیکن اللہ جسے چاہتا ہے اسے پاک و صاف کر دیتا ہے اور اللہ بڑا سننے والا، بڑا جاننے والا ہے۔ (21) اور جو لوگ تم میں سے مال و دولت اور وسعت والے ہیں وہ قسم نہ کھائیں کہ وہ قرابتداروں، مسکینوں اور راہِ خدا میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ نہیں دیں گے۔ چاہئے کہ یہ لوگ معاف کر دیں اور درگزر کریں۔ کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں بخش دے؟ اور اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (22) جو لوگ پاکدامن، بے خبر اور ایماندار عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا و آخرت میں لعنت ہے اور ان کیلئے بہت بڑا عذاب ہے۔ (23) جس دن ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ پاؤں ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ ان کے اعمال کے متعلق جو وہ کیا کرتے تھے۔ (24) اس دن اللہ انہیں پورا پورا بدلہ دے گا جس کے وہ حقدار ہیں اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ اللہ ہی حق ہے جو نمایاں ہے (اور حق کا ظاہر کرنے والا ہے)۔ (25) ناپاک باتیں، ناپاک لوگوں کے لئے (زیبا) ہیں اور ناپاک آدمی ناپاک باتوں کیلئے موزوں (مناسب) ہیں اور اچھی اور ستھری باتیں اچھے آدمیوں کیلئے (مناسب) ہیں۔ اور اچھے اور ستھرے آدمی اچھی اور ستھتری باتوں کے (لائق) ہیں اور یہ ان باتوں سے بری الذمہ ہیں جو لوگ (ان کے بارے میں) کہتے ہیں ان کیلئے مغفرت ہے اور باعزت روزی۔ (26) |
شأن نزول
آیات افک کے لئے دو شأن نزول ذکر ہوئی ہیں:
- مسلمانوں کا غزوہ بنی مُصطَلِق سے واپسی پر بعض منافقین کی جانب سے حضرت عایشہ پر لگائی گئی تہمت۔[1] اس شأن نزول کو شیعہ مورخ سید جعفر مرتضی عاملی سمیت شیعہ مفسرین علامہ طباطبایی اور آیت اللہ مکارم شیرازی نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔[2]
- حضرت عایشہ کی جانب سے ماریہ قبطیہ پر لگائی گئی تہمت۔[3] اس شأن نزول کو شیعہ متکلم اور مورخ آیت اللہ سبحانی اور آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی نے نادرست قرار دیا ہے۔[4]
چنانچہ آیت اللہ جعفر سبحانی کتاب "فروغ ابدیت" میں لکھتے ہیں کہ اہل سنت محدثین اور مفسرین نے ان آیات کی شأن نزول کو منافقین کی جانب سے حضرت عایشہ پر لگائی گئی تہمت قرار دیتے ہیں۔[5] علامہ طباطبایی پہلی شأن نزول کو اہل سنت جبکہ دوسری شأن نزول کو شیعہ نقطہ نگاح سے ترجیج دیتے ہوئے دونوں کو اشکال سے خالی نہیں قرار دیتے ہیں۔[6] ان تمام باتوں کے باوجود بعض شیعہ علماء اہل سنت نظریے کے ساتھ ہماہنگ نظر آتے ہیں جیسے شیخ طوسی تفسیر تبیان میں، فضل بن حسن طبرسی مجمع البیان میں اور ابوالفتوح رازی روض الجنان میں۔[7]
افک کا معنی
فضل بن حسن طبرسی مجمع البیان میں ان آیات میں لفظ افک سے مراد ایک ایسا جھوٹ قرار دیتے ہیں جو حقیقت کو تبدیل کر کے الٹا پیش کرتے ہیں۔[8] لفظ اِفک عربی زبان میں اس چیز کو کہا جاتا ہے جو اپنی اصلی اور طبیعی حالت سے خارج ہو گئی ہو؛ اسی طرح اس سے مراد تہمت اور جھوٹ بھی لیتے ہیں، کیونکہ تہمت اور جھوٹ بھی حق سے انحراف کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اور ان میں حقیقت کو الٹا پیش کیا جاتا ہے۔[9]
مضامین
قرآن کریم سورہ نور کی آیت نمبر 11 سے 26 تک میں کسی مسلمان پر فحشا کی تہمت لگائے جانے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اس کام پر ان لوگوں کی سرزنش کرتے ہیں۔[10] قرآن کریم کی ان آیات کے مطابق جس شخص پر تہمت لگائی گئی ہے وہ ایک مشہور شخص اور پیغمبر اکرمؐ کے قریبی رشتہ دار ہیں اور تہمت لگانے والے مسلمانوں کا ایک گروه ہے۔[11]
خدا نے ان آیات میں تہمت لگانے والوں کو بہت بڑے عذاب سے ڈرایا ہے اور مؤمنین کو ایسے افواہوں پر بغیر کسی دلیل و چھان بین کے اعتماد کرنے پر سرزنش کرتے ہیں۔[12]
حوالہ جات
- ↑ ابن ہشام، سیرۃ النبویۃ، دار المعرفۃ، ج۲، ص۲۹۷-۳۰۲؛ واقدی، المغازی، ۱۴۱۴ق، ص۴۲۶-۴۳۵۔
- ↑ العاملی، الصحیح من سیرہ النبی الاعظم، ۱۳۶۷ش، ج۱۲، ص۷۷-۷۸، ص۸۱ و ۹۷؛ علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۳ق، ج۱۵، ص۱۰۱-۱۰۶؛ مکارم شیرازی، الامثل، ۱۴۲۱ق، ج۱۱، ص۴۰و۴۱۔
- ↑ قمی، تفسیر القمی، ۱۳۶۷ش، ج۲، ص۹۹؛ یوسفی غروی، موسوعۃ التاریخ الاسلامی، ۱۴۲۳ق، ج۳، ص۳۵۰؛ عاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم، ۱۴۲۶ق، ج۱۲، ص۳۲۰، ۳۲۶۔
- ↑ سبحانی، فروغ ابدیت، ۱۳۸۴ش، ص۶۶۶؛ حسینیان مقدم، «بررسی تاریخی تفسیری حادثہ افک»، ۱۳۸۴ش، ص۱۷۲؛ مکارم شیرازی، الامثل، ۱۴۲۱ق، ج۱۱، ص۴۱۔
- ↑ سبحانی، فروغ ابدیت، ۱۳۸۴ش، ص۶۶۰۔
- ↑ علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۳ق، ج۱۵، ص۸۹۔
- ↑ شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج۷، ص۴۰۸ و ۴۱۵-۴۱۷؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۲۰۵-۲۰۷؛ ابوالفتوح رازی، روض الجنان، ۱۳۷۱ش، ص۱۱۲ و ۱۱۴-۱۱۵.
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۲۰۶۔
- ↑ قرشی، قاموس قرآن، ۱۳۷۱ش، ج۱، ص۸۹.
- ↑ علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۳ق، ج۱۵، ص۸۹۔
- ↑ علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۳ق، ج۱۵، ص۸۹۔
- ↑ مکارم شیرازی، الامثل، ۱۴۲۱ق، ج۱۱، ص۴۶۔
مآخذ
- ابن ہشام، عبدالملک، السیرہ النبویہ، تحقیق مصطفی السقا و ابراہیم الأبیاری و عبدالحفیظ شلبی، بیروت، دارالمعرفۃ، بیتا۔
- ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، مشہد، بنیاد پژوہشہای اسلامی آستان قدس رضوی، ۱۳۷۱ش۔
- حسینیان مقدم، حسین، «بررسی تفسیری تاریخی حادثہ افک»، مجلہ تاریخ اسلام در آینہ پژوہش، شمارہ ۷، پاییز ۱۳۸۴۔
- سبحانی، جعفر، فروغ ابدیت، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۴ش۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بیتا۔
- علامہ طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، ۱۳۹۳ق/۱۹۷۳م۔
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دارالمعرفۃ، ۱۴۰۶ق/۱۹۸۶م۔
- قرشی بنابی، علیاکبر، قاموس قرآن، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۱۔
- قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، قم، دارالکتاب، ۱۳۶۷ش۔
- عاملی، جعفر مرتضی،الصحیح من سیرۃ النبی الأعظم، قم، دارالحدیث، ۱۴۲۶ق۔
- مکارم شیرازی، ناصر، الأمثل فی تفسیر کتاب اللہ المنزل، قم، مدرسہ امام علی بن ابیطالب، ۱۴۲۱ق۔
- واقدی، محمد بن عمر، المغازی، تحقیق مارسدن جونس، قم، مکتب الاعلام اسلامی، ۱۴۱۴ق۔
- یوسفی غروی، محمدہادی، موسوعۃ التاریخ الاسلامی، قم، مجمع الفکر الاسلامی، ۱۴۲۳ق۔