آیت ابتلائے ابراہیم علیہ السلام

ویکی شیعہ سے
(آیۂ ابتلا سے رجوع مکرر)
آیت ابتلائے ابراہیم علیہ السلام
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامابتلائے ابراہیم
سورہبقرہ
آیت نمبر124
پارہ1
صفحہ نمبر19
محل نزولمدینہ
موضوععقائد
مضمونامامت حضرت ابراہیمؑ


آیت ابتلائے ابراہیم سورہ بقرہ کی 124ویں آیت کو کہا جاتا ہے جس میں خداوند متعال کی جانب سے کئی امتحانات اور آزمائشوں میں مبتلاء کرنی کے بعد حضرت ابراہیم کو منصب امامت عطا کرنے کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ شیعہ علماء اس آیت کو امام کا انتخاب خدا کی جانب سے اور امام کے معصوم ہونے پر قرآنی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

شیعہ اور اہل سنت متکلمین اور مفسرین اس آیت سے متعلق بہت بحث کرتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اس آیت میں "کلمات" سے مراد حضرت ابراہیم کا اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کی قربانی سے متعلق دیکھنے والا خواب تھا۔ بعض اسے حضرت ابراہیم کو مورد آزمائش قرار دینے والی تمام شرعی اور عقلی تکلیفیں قرار دیتے ہیں۔ علامہ طباطبایی کے مطابق بھی "کلمات" سے مراد حضرت ابراہیم کا خدا کے ساتھ عہد و میثاق اور آپ کے امتحانات اور آزمائشات ہیں۔

مفسرین لفظ "امامت" کی تفسیر سیاسی رہبری، باطنی ولایت اور نبوت سے کرتے ہیں۔

آیت اور اس کا ترجمہ

وَ إِذِ ابْتَلی إِبراهیمَ رَبُّه بِکلماتٍ فَأتَمَّهُنَّ قالَ إِنّی جاعِلُک لِلنّاسِ إِماماً قالَ وَمِنْ ذُرّیتی قالَ لاینالُ عَهدی الظّالِمینَ


(اور وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیم کا ان کے پروردگار نے چند باتوں کے ساتھ امتحان لیا۔ اور جب انہوں نے پوری کر دکھائیں ارشاد ہوا۔ میں تمہیں تمام انسانوں کا امام بنانے والا ہوں۔ انہوں نے کہا اور میری اولاد (میں سے بھی(؟ ارشاد ہوا: میرا عہدہ (امامت) ظالموں تک نہیں پہنچے گا۔



سورہ بقرہ: آیت 124


لفظ "کلمات" سے مراد

آیت ابتلا کے مطابق خدا نے حضرت ابراہیم کو "کلمات" کے ذریعے آزمایا۔ لفظ "کلمات" سے کیا مراد ہے اس سلسلے میں مفسرین کئی احتمالات دیتے ہیں:[1]

  • حضرت ابراہیم کا اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کی قربانی سے متعلق دیکھنے والا خواب؛
  • بدن کی نظافت اور پاکیزگی سے متعلق دی گئی احکامات یا نظافت کے دس احکامات؛
  • سورہ توبہ کی آیت نمبر 112، سورہ احزاب کی آیت نمبر 35 اور سورہ مؤمنون کی آیت نمبر 1 سے 9 تک میں بیان کی گئی 30 اخلاقی نکات؛
  • حضرت ابراہیم کا سورج، چاند اور ستارہ پرستوں کے ساتھ احتجاجات، حضرت ابراہیم کو آگ میں پھیکنا، آبائی وطن سے ہجرت اور اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کی قربانی؛
  • حضرت ابراہیم کو تمام عقلی اور شرعی تکالیف سے آزمانا؛
  • مناسک حج کی انجام دہی۔[2]

تفسیر مجمع‌البیان میں طَبْرسی مذکورہ آیت میں لفظ "کلمات" کو درج بالا تمام احتمالات کے ساتھ سازگار قرار دیتے ہوئے امام صادقؑ سے ایک حدیث بھی نقل کرتے ہیں جس کے مطابق اس آیت میں لفظ "کلمات" سے مراد پنج‌تن آل عبا ہیں؛ یہ وہی ہستیاں ہیں جن کے وسیلے سے حضرت آدم کا توبہ بھی قبول ہوا۔[3]

علامہ طباطبایی اس بات کے معتقد ہیں کہ اگرچہ قرآن میں لفظ "کلمات" کا مصداق معین نہیں ہوا لیکن مذکورہ آیت کے سیاق و سباق سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ لفظ "کلمات" میں حضرت ابراہیم کا خدا کے ساتھ منعقد ہونے والے عہد و پیمان اور وہ تمام چیزیں شامل ہیں جن کے ذریعے حضرت ابراہم مورد آزمائش قرار پائے ہیں؛ جیسے سورج، چاند، ستاروں اور بت پرستوں کے ساتھ احتجاجات، ہجرت اور بیٹے کی قربانی‌۔[4] علامہ طباطبائی کی مطابق کلمات کو ختم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم نے ان تمام چیزوں کو انجام دیا جو ان سے طلب کیا گیا تھا اسی بنا پر آپ امامت جیسے عظیم مقام پر فائز ہوئے۔[5]

حضرت ابراہیم کی امامت سے مراد

مذکورہ آیت میں مفسرین کے درمیان مورد بحث قرار پانے والے الفاظ میں سے دوسرا لفظ "امام" ہے اس کے بارے میں بھی مفسرین نے مختلف نظریات پیش کئے ہیں:

  • شیخ طوسی تفسیر تبیان میں فرماتے ہیں کہ اس آیت میں امامت سے مراد سیاسی رہبر اور ولایت ہے۔ آپ سیاسی رہبر اور ولایت کو نبوت اور رسالت کے شئونات اور وظائف میں سے قرار دیتے ہیں؛ اس بنا پر آپ معتقد ہیں کہ تمام انبیاء جو نبوت پر فائز ہوئے سب کے سب ولایت اور امامت کے مقام پر فائز نہیں ہوئے تھے بلکہ ان میں سے بعض انبیاء امامت کے مقام پر فائز ہوئے تھے۔[6]
  • علامہ طباطبایی کے مطابق اس آیت میں مقام امامت سے مراد ہدایت باطنی ہے؛ اس مقام تک پہنچنے کے لئے انسان کے وجود میں مختلف کمالات اور معنوی مقامات وجود میں آنے کی ضرورت ہوتی ہے جن کے حصول کے لئے انسان کو سخت محنت اور کوشش کرنا پڑتا ہے۔[7]
  • تیسری صدی ہجری کے اہل سنت مفسر طبری مذکورہ آیت میں "امامت" سے حضرت ابراہیم کی عالمی امامت سے تفسیر کی ہیں۔ ان کے مطابق اس آیت کے مطابق حضرت ابراہیم اپنے زمانے کے علاوہ دوسرے زمانوں حتی دوسرے انبیاء کے بھی امام تھے اور تمام توحیدی شرایع کو ان کی پیروی کرنی چاہئے۔[8]
  • اہل سنت کے ایک اور مفسر فخر رازی "امامت" سے حضرت ابراہیم کی نبوت مراد لیتے ہیں۔[9]
  • آیت اللہ جعفر سبحانی اس بات کے معتقد ہیں کہ اس آیت میں مقام امامت سے مراد زندگی کے ہر شعبے میں حضرت ابراہیم کا اسوہ اور نمونہ ہونا ہے۔ آپ کے مطابق یہ مقام ان ہستیوں کو دی جاتی ہے جو حتی ترک اولی کے بھی مرتکب نہ ہوئے ہوں۔ آپ کہتے ہیں کہ یہ مقام امامت عصمت سے بھی بالاتر ہے اور صرف بعض انبیاء اس مقام تک پہنچے ہیں۔[10]

اس آیت کا امام کی عصمت پر دلالت

شیعہ علماء مذکورہ آیت میں "لاینالُ عَهدی الظّالِمینَ[؟؟] کی عبارت سے امام کے معصوم ہونے پر استدلال کرتے ہیں۔[11] وہ کہتے ہیں کہ اس آیت کے مطابق امام کو معصوم اور کسی قسم کے گناہ اور ظلم بری ہونا چاہئے کیونکہ حضرت ابراہیم کی ذریہ اس شرط پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے خدا نے اس جملے کے ذریعے حضرت ابراہیم کی اپنی ذریہ میں بھی امام قرار دینے کی دعا کو رد کیا ہے۔[12]

شیعہ نظریے پر اعتراض

شیعہ علماء کے درج بالا نظریے پر یہ اشکال اور اعتراض کی جاتی ہے کہ ظالم اسے کہتے ہیں جو گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوئے ہوں اور اس گناہ سے توبہ نہ کیا ہو۔ اس بنا پر وہ گناہگار جس نے توبہ کیا ہو اس پر ظالم صدق نہیں آتا ہے۔ پس اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مذکورہ آیت امام کی عصمت پر دلالت نہیں کرتی۔[13]

شیعہ علماء کا جواب

شیخ طوسی اور فضل بن حسن طبرسی اس اعتراض کے جواب میں کہتے ہیں کہ "لاینالُ عَهدی الظالمین"[؟؟] میں موجود نفی مطلق ہے؛ یعنی یہ نفی ہر اس ظلم کو شامل کرتی ہے جو کسی بھی زمانے میں انجام دی گئی ہو۔ اس بنا پر یہ نہیں کہا جا سکتا ہے یہ آیت اس شخص کو شامل نہیں کرتی جو کسی زمانے میں ظالم تھا لیکن بعد میں توبہ کیا ہے۔ پس اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے مذکورہ شخص کو اس آیت سے خارج کرنے کے لئے ایک اور دلیل کی ضرورت ہے جبکہ ایسی کسی دلیل کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔[14]

علامہ طباطبایی بھی اس اعتراض کے جواب میں کہتے ہیں کہ یہ بات واضح ہے کہ حضرت ابراہیم نے اپنی ذریہ میں سے صرف ان لوگوں امامت کی درخواست نہیں کی ہے جنہوں نے ظلم کرنے کے بعد توبہ نہیں کی ہیں۔ بلکہ ان کی یہ درخواست یا تو ان لوگوں کے لئے ہے ج­نہوں نے کوئی ظلم انجام ہی نہیں دیا یا یہ کہ انہوں نے ان اشخاص کے لئے بھی درخواست کی جنہوں نے ظلم کی بعد توبہ کی ہیں؛[15] لیکن چونکہ خدا نے حضرت ابراہیم کی اس درخواست کو ان کی ذریہ کے ظالم ہونے کی وجہ سے رد کیا ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ آیت میں امامت کی نفی ان لوگوں کو بھی شامل کرتی ہے جنہوں نے ظلم کرنے کے بعد توبہ بھی کی ہیں۔[16]

حوالہ جات

  1. طبرسی، مجمع البیان، ۱۴۰۸ق، ج۱، ص۳۷۷-۳۷۸؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۸۰ش، ج۱، ص۴۳۶-۴۴۵۔
  2. طبرسی، مجمع البیان، ۱۴۰۸ق، ج۱، ص۳۷۷-۳۷۸۔
  3. طبرسی، مجمع البیان، ۱۴۰۸ق، ج۱، ص۳۷۷-۳۷۸۔
  4. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۳ق، ج۱، ص۲۷۰.
  5. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۳ق، ج۱، ص۲۷۰۔
  6. شیخ طوسی، تبیان، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۴۴۹.
  7. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۳ق، ج۱، ص۲۷۲۔
  8. طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۶۱۰۔
  9. فخر رازی، مفاتیح الغیب، ۱۴۲۰ق، ج۴، ص۳۶۔
  10. ملاحظہ کریں: سبحانی، منشور جاوید، ۱۳۸۳ش، ج۵، ص۲۳۵-۲۳۷۔
  11. طبرسی، مجمع‌البیان، ۱۴۰۸ق، ج۱، ص۳۸۰۔
  12. طبرسی، مجمع البیان، ۱۴۰۸ق، ج۱، ص۳۸۰؛ فاضل مقداد، اللوامع الالہیہ، ۱۴۰۵ق، ص۳۳۲-۳۳۳؛ سید مرتضی، الشافی فی الامامۃ، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۱۴۱۔
  13. جرجانی، شرح‌المواقف، ۱۴۱۲ق، ج۸، ص۳۵۱؛ فخر رازی، مفاتیح‌الغیب، ۱۴۲۰ق، ج۴، ص۴۲۔
  14. شیخ طوسی، التبیان، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۴۴۹؛ طبرسی، مجمع‌البیان، ۱۳۷۹ش، ج۱، ص۲۰۲۔
  15. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۳ق، ج۱، ص۲۷۴۔
  16. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۳ق، ج۱، ص۲۷۴۔

مآخذ

  • جرجانی، میر سید شریف، شرح المواقف، قم، منشورات الشریف الرضی، ۱۴۱۲ھ۔
  • سبحانی، جعفر، منشور جاوید، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، ۱۳۸۳ش۔
  • سید مرتضی، علی بن حسین، الشافی فی الامامۃ، تہران، مؤسسۃ الصادق، ۱۴۰۷ھ۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی، ۱۳۹۳ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن (تفسیر الطبری)،‌ بیروت،‌ دار المعرفۃ، ۱۴۱۲ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار المعرفۃ، ۱۴۰۸ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، قم، مکتب الاعلام الاسلامی، ۱۴۰۹ھ۔
  • فاضل مقداد، مقداد بن عبداللہ، اللوامع الالہیۃ، قم، مکتبۃ المرعشی، ۱۴۰۵ق۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، مفاتیح‌الغیب (التفسر الکبیر)، بیروت،‌ دار احیاء التراث العربی، الطبعۃ الثالثۃ، ۱۴۲۰ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران،‌ دار الکتب الاسلامیہ، چاپ چہل و یکم، ۱۳۸۰ش۔