ذبح اسماعیل

ویکی شیعہ سے

ذبح اسماعیل وہ حکم اور امتحان تھا کہ جو خدا کی طرف سے خواب میں حضرت ابراہیمؑ کو دیا گیا تاکہ اپنے بیٹے کی قربانی پیش کریں۔ ابراہیم اور ان کے بیٹے نے متفقہ طور پر اللہ کے حکم کو عملی کر دیا مگر جبرئیل نے چھری کو اثر کرنے سے روک دیا اور اسماعیل کی جگہ پر ایک جنتی دنبہ ذبح ہو گیا۔ عید قربان کے دن قربانی کی سنت ذبح اسماعیل کی یاد ہے۔ بعض روایات کے مطابق رمی جمرات حضرت ابراہیمؑ نے اس وقت کیا کہ جب حضرت اسماعیلؑ کو ذبح کرنے کیلئے جا رہے تھے۔ اہل تشیع آیات کے سیاق اور روایات کی بنا پر اسماعیل کو ذبیح قرار دیتے ہیں۔ یہودی، حضرت اسحاق کو ذبیح کہتے ہیں اور اہل سنت کے اندر اس بارے میں اختلاف ہے۔

ابراہیمؑ کا خواب

قرآن کی تصریح کے مطابق حضرت ابراہیمؑ کو خواب میں یہ حکم دیا گیا کہ اپنے بیٹے کو ذبح کر دیں: « یا بُنَی إِنِّی أَرَی فِی الْمَنَامِ أَنّی أَذْبَحُک» اے میرے بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تجھے ذبح کر رہا ہوں۔[1] بعض روایات کے مطابق ابراہیمؑ کو یہ خواب تین مرتبہ دکھایا گیا۔ ابراہیمؑ کو خواب میں حکم دیا گیا کہ اپنے بیٹے کو ذبح کر دیں۔ اگلی رات دوبارہ اسی خواب کو دیکھا۔ یقین ہو گیا کہ یہ خواب اللہ کا حکم ہے۔ تیسری رات پھر خواب تکرار ہوا۔[2] البتہ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ بعید نہیں ہے کہ خواب دیکھنے کے بعد ابراہیمؑ میں تردید باقی رہی ہو اور خدا نے واضح وحی کرکے اسے دور کر دیا ہو۔[3]

بیٹے کو ذبح کرنا

حضرت ابرہیمؑ نے خواب کی داستان اور اللہ کا حکم اسماعیل کے گوش گزار کیا اور ان کی رائے جاننا چاہی۔ قرآن نے اس صلاح مشورے کو ان الفاظ میں نقل کیا ہے: بیٹے! میں نے خواب دیکھا ہے کہ تجھے ذبح کر رہا ہوں، تمہاری کیا رائے ہے؟ (بیٹے) نے کہا: بابا جان! جو حکم ملا ہے اسے عملی کریں۔ اللہ کی مشیت سے آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔[4] اللہ کے حکم پر عمل درآمد کرنے کا عزم کرنے کے بعد اسماعیل نے کہا: بابا! میرا منہ ڈھانپ دیجئے اور میرے پاؤں باندھ دیں۔ ابراہیم نے بیٹے کا منہ ڈھانپ دیا مگر ان کے پاؤں نہیں باندھے۔[5] جب اسماعیل (منہ کے بل لیٹ گئے اور ان کی) پیشانی مٹی پر آ گئی[6] تو ابراہیمؑ نے بیٹے کی گردن پر چھری رکھ کر آسمان کی طرف دیکھا اور چھری چلا دی۔ مگر جبرئیل نے چھری کو کاٹنے سے روک دیا۔ چند مرتبہ یہ عمل واقع ہوا۔[7] پھر وحی نازل ہوئی: «یا إِبْرَاهِیمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیا» اے ابراہیمؑ! تو نے خواب کو سچ کر دکھایا (اور پروردگار کا حکم اجرا کر دیا)۔[8] آخرکار حضرت اسماعیلؑ کی جگہ پر ایک جنتی دنبہ ابراہیمؑ کے ہاتھوں ذبح کر دیا گیا۔[9] قرآن اس امتحان کو اس سے تعبیر کرتا ہے: « إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبینُ» بلاشبہہ یہ (اہم اور) آشکار امتحان ہے۔[10] بعض روایات کے مطابق شیطان نے اس حکم الہٰی کی انجام دہی کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ڈالی۔ اس نے اپنے ہدف تک پہنچنے کیلئے حضرت ابراہیمؑ، ان کی زوجہ اور فرزند کو بہکانے کی بہت کوشش کی مگر تینوں مقامات پر وہ ناکام ہوا۔[11]

حضرت ابراہیمؑ کی بوڑھے سے گفتگو

بعض شیعہ منابع میں حضرت ابراہیمؑ اور ایک بوڑھے کی گفتگو نقل ہوئی ہے: ایک بوڑھے نے ابراہیمؑ سے کہا: تم اس بچے سے کیا چاہتے ہو؟ ابراہیم: میں چاہتا ہوں کہ اسے ذبح کر دوں۔ بوڑھا: سبحان اللہ! تم ایک ایسے بچے کو مارنا چاہتے ہو کہ جس نے لمحہ بھر بھی اللہ کی معصیت نہیں کی۔ ابراہیم: خدا نے مجھے اس لڑکے کو ذبح کرنے کا حکم دیا ہے۔ بوڑھا: نہیں! بلکہ تیرے پروردگار نے تجھے اس کام سے نہی کی ہے اور شیطان نے تجھے خواب میں یہ کام کرنے کو کہا ہے۔ ابراہیم: تجھ پر افسوس ہے، یہ حکم خدا کی طرف سے تھا۔ خدا کی قسم! اب تجھ سے کلام نہیں کروں گا۔ بوڑھا: اے ابراہیمؑ! تو ایک رہبر ہے کہ جس کی دوسرے پیروی کرتے ہیں۔ اگر تو نے اپنے بیٹے کو ذبح کر دیا تو لوگ بھی اپنے بیٹوں کو ذبح کرنا شروع کر دیں گے۔ ابراہیم نے دوبارہ اس سے کلام نہیں کیا۔[12]

ذبیح؛ اسماعیل یا اسحاق

تفصیلی مضمون: ذبیح اللہ

قرآن نے صرف ابراہیم کے بیٹے کا ذکر کیا ہے: (ابراہیم نے) کہا: میرے بیٹے![13] تاہم اس میں اختلاف ہے کہ یہ فرزند اسماعیل تھے یا اسحاق۔ اہل تشیع اسماعیل کو ذبیح سمجھتے ہیں۔[14] وہ اپنا دعویٰ ثابت کرنے کیلئے سورہ صافات کی آیات 100-107 سے استدلال کرتے ہیں کہ جن میں اسماعیل کی پیدائش کے بعد اسحاق کی ولادت اور ذبح کا ماجرا بیان کیا گیا ہے۔[15] اسی طرح معصومینؑ سے روایات نقل کی گئی ہیں کہ جن میں اسماعیل کو ذبیح کے عنوان سے متعارف کیا گیا ہے۔[16] ذبیح کے بارے میں اہل سنت کا اختلاف ہے۔[17] ان میں سے بعض کچھ روایات[18] کی بنیاد پر ذبیح اللہ کا لقب اسحاق سے مخصوص سمجھتے ہیں۔[19] کچھ شیعہ مؤلفین اس گروہ کی مورد استدلال روایات کو اسرائیلیات کے زیر اثر سمجھتے ہیں اور یہ احتمال دیتے ہیں کہ یہ روایات یہود کی وضع کردہ ہیں۔[20] بعض دیگر اہل سنت روایات کے ایک اور مجموعے سے استدلال کرتے ہوئے اسماعیل کو ذبیح قرار دیتے ہیں۔[21] فخر رازی اور ابن عاشور نے احتمال دیا ہے کہ ذبیح اسماعیل ہیں۔[22]

تورات میں ذبح فرزند

توریت میں ذبح فرزند کی داستان کچھ اس طرح منقول ہے: ان واقعات کے بعد خدا نے اَوراهام (ابراهیم) کا امتحان لیا اور ان سے کہا: اب اپنے بیٹے کو، اپنے اکلوتے بیٹے کو کہ جس سے محبت کرتے ہو، ییصحاق (اسحاق) کو، اٹھا کر سرزمین مُوریا جاؤ۔ وہاں پر ایک پہاڑ پر کہ جس کا تجھے بتاؤں گا، اس کو قربان کر دو۔[23] تاہم جب ابراہیم نے بیٹے کو قربان کرنے کا ارادہ کیا اور اپنے بیٹے کی طرف چھری کو بڑھایا کہ اپنے بیٹے کا سر کاٹ دے ’’تو خدا کے فرشتے نے آسمان سے آواز دی اور کہا: اپنا ہاتھ اس جوان کی طرف مت بڑھاؤ اور اس کو چھوڑ دو کیونکہ اب میں نے دیکھ لیا ہے کہ تیرے اندر خدا کا خوف ہے؛ کیونکہ تم نے میرے لیے اپنے اکلوتے بیٹے سے دریغ نہیں کیا۔[24] آخرکار خدا نے ایک دنبہ بھیجا اور ابراہیم نے اسے بیٹے کی جگہ قربان کر دیا۔[25] البتہ توریت کے سفر تکوین میں مختلف مقامات پر آیا ہے کہ ذبیح قربانی کے وقت ابراہیم کے اکلوتے بیٹے تھے اور دوسری طرف سے یہ مسلم ہے کہ اسحاق اسماعیل کے بعد پیدا ہوئے اور جس وقت ذبح کا حکم آیا اس وقت وہ ابراہیم کے اکلوتے بیٹے نہیں تھے۔[26]

حوالہ جات

  1. سورہ صافات، آیہ 102۔
  2. قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 1364ش، ج16، ص101۔
  3. فخر رازی، مفاتیح الغیب، 1420ھ، ج26، ص346۔
  4. سورہ صافات، آیہ 102۔
  5. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص208۔
  6. سورہ صافات، آیہ 103۔
  7. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص208۔
  8. سورہ صافات، آیہ 104- 105۔
  9. کلینی، الکافی، 1407، ج4، ص208۔
  10. سورہ صافات، آیہ 106۔
  11. ابن ابی حاتم، تفسیر القرآن العظیم، 1419ھ، ج10۔
  12. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص208۔
  13. سورہ صافات، آیہ 102۔
  14. مازندرانی، شرح فروع الکافی، 1429ھ، ج4، ص402۔
  15. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج19، ص129۔
  16. ر.ک. قمی، تفسیر القمی، 1404، ج2، ص226؛ شیخ صدوق، عیون أخبار الرضا علیہاالسلام، 1378ھ، ج1، ص210۔
  17. قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، 1364ش، ج16، ص100۔
  18. سیوطی، الدر المنثور، 1404ھ، ج5، ص281-285۔
  19. قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، 1364ش، ج16، ص100۔
  20. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج19، ص119-120۔
  21. قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، 1364ش، ج16، ص100۔
  22. فخر رازی، مفاتیح الغیب، 1420ھ، ج26، ص351؛ ابن عاشور، التحریر و التنویر، بی‌تا، ج23، ص70-69۔
  23. کتاب مقدس، سِفر پیدائش، 22: 1- 2۔
  24. کتاب مقدس، سِفر پیدائش، 22: 10-12۔
  25. کتاب مقدس، سِفر پیدائش، 22: 13۔
  26. کتاب مقدس، سفر تکوین،‌22: 2۔

مآخذ

  • کتاب مقدس، تورات، ترجمہ انجمن کلیمیان ایران۔
  • ابن عاشور، محمد بن طاہر، التحریر و التنویر، بی‌ جا، بی ‌نا، بی ‌تا۔
  • ابن ابی‌ حاتم، عبد الرحمن بن محمد، تفسیر القرآن العظیم، تحقیق: الطیب، اسعد محمد، مکتبۃ نزار مصطفی الباز، عربستان سعودی، چاپ سوم، 1419 ھ۔
  • سیوطی، جلال الدین، الدر المنثور فی تفسیر المأثور، قم، کتابخانہ آیت ‌اللہ مرعشی نجفی، 1404 ھ۔
  • شاذلی، سید بن قطب بن ابراہیم، فی ظلال القرآن، بیروت، قاہرہ، دار الشروق، چاپ ہفدہم،1412 ھ۔
  • شیخ صدوق، عیون اخبار الرضاؑ، محقق و مصحح: لاجوردی، مہدی، تہران، نشر جہان، چاپ اول، 1378 ھ۔
  • صادقی تہرانی، محمد، البلاغ فی تفسیر القرآن بالقرآن، مؤلف، قم، چاپ اول، 1419 ھ۔
  • فخر الدین رازی، ابو عبد اللہ محمد بن عمر، مفاتیح الغیب،‌ بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ سوم، 1420 ھ۔
  • فیض کاشانی، ملا محسن، تفسیر الصافی، تحقیق: اعلمی، حسین، تہران، انتشارات الصدر، چاپ دوم، 1415 ھ۔
  • قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لأحکام القرآن، انتشارات ہران، ناصر خسرو، تچاپ اول، 1364 شمسی۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، محقق و مصحح: موسوی جزائری، سید طیب،‌ قم، دار الکتاب، چاپ سوم، 1404 ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق و مصحح: غفاری، علی اکبر، آخوندی، محمد، تہران،‌ دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407 ھ۔
  • مازندرانی، محمد ہادی بن محمد صالح، شرح فروع الکافی، محقق و مصحح: محمودی، محمد جواد، درایتی، محمد حسین،‌ قم، دار الحدیث للطباعۃ و النشر، چاپ اول، 1429 ھ۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت،‌ دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403 ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران،‌ دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، 1374 شمسی۔