بسم اللہ الرحمن الرحیم

ویکی شیعہ سے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم، غلام حسین امیرخانی کے قلم سے
بسم اللہ الرحمن الرحیم، غلام حسین امیرخانی کے قلم سے
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامبسم اللہ
سورہتوبہ کے علاوہ باقی تمام سورتیں
آیت نمبرتمام سورتوں کی ابتدا اور سورہ نمل میں آیت 30
پارہ19
صفحہ نمبر379
موضوععقائد


بسم اللہ الرحمن الرحیم جو بَسمَلَہ یا تَسمِیہ کے نام سے بھی جانی جاتی ہے، اللہ تعالی کے نام سے کسی کام کو شروع کرنے کے معنی میں ہے۔ یہ عبارت قرآن میں 114 مرتبہ تکرار ہوئی ہے۔ قرآن کی تمام صورتوں سوائے سورہ توبہ کے، شروع اور سورہ نمل میں دو بار، ایک بار شروع میں جبکہ دوسری بار آیت نمبر 26 میں آیا ہے۔ "بسم اللہ" کی فضیلت اور منزلت کے بارے میں بہت ساری روایات نقل ہوئی ہیں جن میں کاموں کا آغاز "بسم اللہ" سے کرنے پر تاکید کی گئی ہے۔ "بسملہ" قرآن کی سورتوں کا جز ہے یا نہیں، اس بارے میں علماء کا اختلاف ہے بعض اسے جز جبکہ بعض اس کے عدم جزئیت کے قائل ہیں۔ جزئیت اور عدم جزئیت کا یہ اختلاف اس کے نماز میں پڑھنے پر بھی اثر انداز ہے۔ "بسملہ" اسلامی فن و ادب میں بھی مورد توجہ قرار پایا ہے۔

حقیقت بسملہ

بَسمَلہ سے مراد"بسم اللّہ" یا بسم اللّہ الرحمن الرحیم کا پڑھنا یا لکھنا ہے۔ اس لفظ بسمِ اللہ الرَحمنِ الرَحیمِ کے نام کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ: "البسملہ آیہ من الکتاب و الفاتحہ"۔ [1] بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ فصیح عربی زبان میں "بسملہ" کا مرسوم نہیں تھا، لیکن بعض ماہرین لغت جیسے ابن سکیت اور مطرزی نے عرب کے نامور شعراء کے اشعار سے بعض قرائن و شواہد کو ذکر کرتے ہوئے فصیح عربی زبان میں اس کے استعمال کو ثابت کیا ہے۔ اسلام سے پہلے اس کے استعمال کے بارے میں کوئی خاص معلومات ہمارے اختیار میں نہیں ہے اور یہ احتمال دیا جاتا ہے کہ پہلی بار ابن ابی ربیعہ کے اشعار میں اسے استعمال کیا گیا ہے۔ [2] [3] لفظ بسملہ پیغمبر اکرم(ص) اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کی احادیث میں بھی استعمال نہیں ہوا ہے اور صرف ایک روایت میں کفعمی نے پیغمبر صلی اللّہ علیہ وآلہ و سلّم سے نقل کیا ہے جس میں اسے بطور مصدر استعمال کیا ہے۔[4] اسی طرح شہید ثانی نے آیت "بسملہ" کی تفسیر کرتے ہوئے ایک روایت کو یوں نقل کیا ہے۔ "لا تترک البسملۃ..." یہاں اس کے بارے میں بھی یہ احتمال دیا جا سکتا ہے کہ حدیث "لاتدع بسم‌اللہ الرحمن الرحیم..." کی عبارت شہید ثانی کے ہاں تغییر لفظ دیا ہو۔ [5]

اس وقت مسیحی بھی "بسملہ" کو "بسم الاب و الابن و روح القدس" کے معنی میں استعمال کرتے ہیں[6]

"بِسمِ اللہ الرَحمنِ الرَحیمِ" کی آیت جسے اختصار کے طور پر "بسم‌اللہ" لکھی یا پڑھی جاتی ہے کو "تسمیہ" کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔

ساختار بسلمہ

بسملہ پانچ اجزاء سے مرکب ہے جن کے بارے میں مختلف جہات سے تحقیق اور بررسی کی گئی ہے۔ بسملہ عربی قواعد کے اعتبار سے ایک جار و مجرور سے تشکیل پایا ہے جس میں کوئی فعل یا مبتدا و خبر موجود نہیں ہے۔ اس کا فعل مختلف صورتوں میں تقدیر میں ہے۔ اس مختصر آیت میں استعمال ہونے والے اسماء کی تعداد چار ہیں جن میں سے تین اسماء حسنی الہی ہیں اور تین اسماء پر مشتمل ایک گروہ تشکیل دیتے ہیں۔

آیت کے اجزاء

باء

حرف جرّ "ب" کو الصاق، استعانت اور مصاحبت کے معنی میں لیا گیا ہے۔ چونکہ حرف جر سے پہلے فعل یا شبہ فعل کا ہونا ضروری ہے تاکہ جار و مجرور اس کا متعلق بن سکتے، اس بنا پر "بسم" سے پہلے ایک فعل تقدیر میں ہے جو یا اقراء یا ابدأ وغیرہ میں سے ایک ہے۔

اسم

"اسم" کی اصل کے بارے میس دو عمدہ قول موجود ہیں:

  1. "سمو" سے مشتق ہوا ہے اور اسکی جمع "اسماء" ہے جو بلندی کے معنا میں ہے۔[7]
  2. "وسم" سے مشتق ہوا ہے جو علامت لگانا کے معنا میں ہے۔[8]

اللہ

قرآن میں لفظ جلالہ تمام اسماء الہی کو شامل کرتا ہے۔ مقدسی نے لفظ جلالہ کے اصل کے بارے میں پانج قول ذکر کیا گیا ہے۔[9] "پرتویی از قرآن" نامی تفسیر میں مختصرا یوں کہا ہے: "الہ" کا فعل عبد، تحیر، تضرع اور سکون کے معنی میں آیا ہے۔ "الہ" معبود کا نام چاہے حق ہو یا باطل۔ لفظ جلالہ یعنی "اللہ" حمزہ کو حذف کرکے الف اور لام کے اضافہ کے ساتھ اسی معبود حقیقی کا نام ہے اور یہ لفظ خدا کے تمام صفات کو شامل کرنے والا ہے۔[10]

یہ نام مختلف "سامی" زبانوں میں بہت سارے مشتقات کا حامل ہے جس کی اصل پرانے ادیان کی طرف لوٹتی ہے۔ فراوان در زبانہای مختلف سامی است و ریشہ آن بہ ادیان کہن بازمی‌گردد. سامی اقوام میں اللہ کی پرستش کافی پرانی تاریخ کا حامل ہے اور یہ نام ان کیلئے بطور خاص اسلام سے پہلے کے دو یا تین صدیوں میں سب سے زیادہ مانوس اسماء میں سے تھے یہاں تک کہ بعض اشخاص کا نام بھی عبداللہ رکھا جاتا تھا۔ عرب متعدد خداوں کے پرستش کے ساتھ ساتھ ایک متقدر آسمانی خدا کے اوپر بھی اعتقاد رکھتے تھے جسے وہ خالق سمجھتے تھے۔ بابل والے اسے "ال" کہتے تھے۔ نَبطیی اسے "ہلا" کے نام سے پہچانتے تھے۔ ہرودت کہتے ہیس کہ "نبطی" "آلیلاہ" نامی خدا کے پوجا کرتے تھے۔ یہ لفظ آرامی زبان میں "Eloi" اور اکادی زبان میں "Allatu" کی صورت میں عرب کے قدیم معبود کے معنی میں آیا ہے۔ [11] قُرطُبی بعض مفسرین سے نقل کرتے ہیں کہ لفظ "لات" نیز لفظ "اللہ" سے لیا گیا ہے۔[12]

رحمان اور رحیم

یہ دو نام متعدد بار ایک دوسرے کے ساتھ آیا ہے۔ یہ دونوں نام ایک ہی اصل "رحم" سے لیا گیا ہے ("ندمان" اور "ندیم" کی طرح) جس کے معنی مہر و محبت اور عطوفت کے ہیں ۔[13]

رحمان اور رحیم میں فرق

قرآن میں استعمال کے حوالے سے یہ دو نام مختلف معانی کا حامل ہیں:

  • قرآن میں "رحمان" ہمیشہ "رحیم" پر مقدم ہے۔ جس کی مختلف دلائل میں سے ایک یہ ہے کہ "رحمان" بعنوان "عَلَم" استعمال ہوتا ہے اور سوائے خدائے متعال کے کسی اور کیلئے یہ نام نہیں رکھا جاتا جبکہ "رحیم" ایک صفت ہے جو خدا کے علاوہ غیر خدا کیلئے بھی نام رکھ سکتے ہیں پس در واقع اسم کو اسے کے صفت پر مقدم کیا ہے جو عربی قواعد کے اعتبار سے ایک لازمی امر ہے۔[14]
  • "رحمان" کبھی بھی بغیر "الف و لام" (الرحمان) کے نہیں آیا ہے جبکہ رحیم میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔
  • "رحمان" یا اکیلا استعمال ہوا ہے یا ترکیب کی شکل میں صرف لفظ "رحیم" کے ساتھ مرکب ہوا ہے جبکہ لفظ "رحیم" دوسرے اسماء کے ساتھ بھی مرکب ہوا ہے۔[15]
  • "رحمان" غیر منصرف کی طرح ہے اور تنوین " ً ٍ ٌ" (دو زبر، دو زیر اور دو پیش) قبول نہیں کرتا ہے اگرچہ اس کے اندر غیر منصرف اسماء کے شرائط نہیں پائے جاتے
  • "رحمان" صرف ذات پروردگار پر اطلاق ہونے میں منحضر ہونے کی وجہ سے جمع، تثنیہ اور مؤنث وغیرہ نہیں بن سکتا۔ جبکہ "رحیم" کا جمع "رحماء" کی صورت میں قرآن میں آیا ہے اور عربی زبان میں اس کے تثنیہ اور مؤنث بھی موجود ہیں۔
  • قرآن کریم میں "فَعلان" کا وزن مبالغہ‌ کیلئے استعمال ہوا ہے جو "فعیل" کے وزن میں موجود نہیں ہے ایسا مبالغہ جو صرف اور صرف ذات پروردگار میں موجود ہو۔ اس موضوع کی طرف بہت زیادہ مفسرین نے اشارہ کیا ہے۔[16]
  • "رحمان" قرآن میں صرف خداوند عالم پر علم کی شکل میں اطلاق ہوا ہے اور خدا کے علاوہ کسی اور کو اس نام کے ذریعے نام رکھنا مناسب نہیں ہے۔ "رحمان" بعض مواقع پر صفت کی شکل میں بھی خدا پر اطلاق ہوتا ہے جیسے اس آیت میں: وَ رَبُّنا الرَّحمنُ المُستَعانُ عَلی ما تَصِفونَ [17]۔ لیکن لفظ "رحیم" کبھی کبھار صفت کی شکل میں پیغمبر اکرم(ص) پر بھی اطلاق ہوا ہے جیسے اس آیت میں : لَقَد جاءَکُم رَسولٌ مِن اَنفُسِکُم عَزیزٌ عَلَیه ما عَنِتُّم حَریصٌ عَلَیکُم بِالمُؤمِنینَ رَءوفٌ رَحیمٌ[18]۔
  • "رحیم" اپنی استعمالات میں صرف رأفت و رحمت کے معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ جبکہ "رحمان" کبھی کبھار جملے کی نزاکت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے خدا کی "قہاریت" اور "جباریت" پر بھی دلالت کرتا ہے۔ جیسے اس آیت میں: قالَت اِنّی اَعوذُ بِالرّحمنِ مِنکَ اِن کُنتَ تَقِیاً [19]

"بسم اللہ" تاریخ کے آئینے میں

دیگر ادیان و مذاہب میں

خدا کی ذکر پر مبنی عبارت "بسم اللہ" اسلام کے علاوہ دوسرے ادیان و مذاہب میں بھی موجود تھیں اور ہیں۔ زَمَخشَری کہتے ہیں عرب اسلام سے پہلے بھی اس سے مشابہ عبارتیں جیسے "لات" اور "العزی" وغیرہ استعمال کرتے تھے۔[20] نولدکہ کہتے ہیں کہ عبری اور عیسائی مقدس کتابوں میں خدا کے نام کو مکررا ذکر کرنا "بسم اللہ" کی طرح شمار کیا جاتا ہے۔[21]

اسلام میں

احادیث میں پیغمبر اکرم(ص) کی سنتوں میں سے ایک "بسم اللہ الرحمن الرحیم" پڑھنا بھی ذکر ہوا ہے۔ ابن سعد [22]، مسعودی [23] شعبی، اعمش، ابومالک اور قَتادہ نے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) بعثت کے ابتدائی ایام میں "بسمک اللہم" پڑھتے تھے۔ابن ہشام [24] کی روایت کے مطابق صلح حدیبیہ کے موقع پر قریش کی جانب سے "سہیل بن عمرو" نے "بسم اللہ الرحمن الرحیم" کی جگہ "بسمک اللہم" لکھنے پر زور دیا اس سے پتہ چلتا ہے کہ "بسمک اللہم" لکھنا عربوں میں رائج تھا۔ اسی روایت میں آگے چل کر آیا ہے کہ جب سورہ ہود کی آیت نمبر 41 و قالَ ارکَبُوا فیها بِسم اللّہ مَجریها و مُرسیها نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم(ص) نے "بسم اللہ" کہا اور جب سورہ اسراء کی آیت نمبر ۱۱۰ قُلِ ادعُواللّہ اَوِ ادعُوا الرَّحمن نازل ہوئی تو آپ(ص) نے "بسم اللہ الرحمن" ادا فرمایا اور آخر کار سورہ نمل کی آیت نمیر30 انَّہ مِن سُلَیمان و اءِنَّہ بِسم اللّہ الرحمن الرحیم نے "بسم اللہ الرحمن الرحیم" کو آخری شکل دی۔ لیکن یہ روایت درست نظر نہیں آتی کیونکہ سورہ نمل مکہ کی زندگی کے اوسط میں نازل ہوئی ہے جبکہ یہ احتمال پایا جاتا ہے کہ اس سے پہلے "بسم اللہ" کامل طور پر استعمال ہوتا تھا۔

اس کے علاوہ طبری [25]اور واحدی نیشابوری [26] نے ابن عباس اور دیگر اصحاب سے نقل کیا ہے کہ "بسم اللّہ الرحمن الرحیم" قرآن مجید کی پہلی آیت ہے جو سورہ علق کی ابتداء میں پیغمبر اکرم(ص) پر نازل ہوئی اور شیعہ احادیث میں یہ آیت قرآن کی ابتدائی آیت کے طور پر معرفی ہوئی ہے۔ کلینی[27] نے امام صادق علیہ‌السلام سے نقل کرتے ہیں کہ آپ(ع) نے فرمایا: تمام آسمانی کتابوں کا آغاز "بسم اللہ الرحمن الرحیم" سے ہوتا ہے۔ یہ عباریت قرآن کی تمام سورتوں کی ابتداء میں آئی ہے سوائے سورہ توبہ کے۔

بسم اللہ کا پہلا ترجمہ

ایک روایت کے مطابق پہلی بار سلمان فارسی نے ایرانیوں کی درخواست پر سورہ حمد اور "بسم اللہ" کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا۔ اس ترجمے میں "بسم اللہ" کا ترجمہ "بنام یزدان بخشاوندہ" کے ذریعے کیا۔ [28] تفسیر طبری کے ترجمے میں [29] جس کا مترجم ایک ناشناس فرد ہے، نے "بسم اللہ" کا ترجمہ "بہ نام خدای مہربان بخشایندہ" کی صورت میں کیا ہے۔ آجکل مختصر تفاوت کے ساتھ "بسم اللہ" کا ترجمہ "بہ نام خداوند بخشندہ مہربان" کی صورت میں باقی ہے۔

بسم اللہ کی اہمیت

بسم اللہ ، خط ثلث میں

حدیثی، تفسیری اور فقہی کتابوں میں بہت ساری روایات "بسم اللہ" کی اہمیت، آثار اور اس کی تلاوت کرنے کے ثواب کے بارے میں نقل ہوئی ہیں:

  • بسملہ قرآن کی سب سے باکرامت‌ اور باعظمت آیت ہے۔[30]
  • خدا کے اسماء میں سے ایک اسم ہے۔ [31]
  • اس آیت کا خدا کے "اسم اعظم" سے قربت آنکھ کی سیاہی کا سفیدی سے قربت کی طرح ہے۔[32].
  • بعض دعاوں میں خدا کو "بسم اللہ الرحمن الرحیم" کا واسطہ دینا اس کی اہمیت کی دلیل ہے۔ [33].
  • خدا کی تعظیم کی خاطر اسے خوبصورت انداز میں خوشخط لکھنا بخشش کا سبب ہے۔[34]
  • جب بھی معلم کسی بچے سے کہے: "بسم‌اللّہ الرحمن الرحیم" پڑھو اور وہ اسے پڑھ دے تو خدا اس معلم، بچے اور اس کے والدین کو جہنم کی آگ سے آزادی کا پروانہ لکھ دیتا ہے۔[35]
  • خدا کا ذکر اور بطور خاص "بسم اللہ" ہر کام کی ابتداء میں پڑھنے پر تاکید ہوئی ہے "کُلُّ أَمرٍ ذی بالٍ لَم یبْدَأ بِاسمِاللّه فَهوَ اَبْتَر [36] کسی کام کی ابتداء میں بسم اللہ کا نہ پڑھنا اس کام میں برکت نہ ہونے کا باعث بنتا ہے۔ پیغمبر اکرم(ص) اور ائمہ اطہار(ع) کی احادیث میں بطور عام ہر کام کی ابتداء میں بسم اللہ پڑھنے پر تاکید کے علاوہ بعض خاص کاموں جیسے کھانا کھاتے وقت، خط لکھتے وقت، سوتے وقت اور جاتے وقت بسم اللہ پڑھنے پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔
  • "بسم اللہ" مسلمانوں کے شعار اور نشانی کی صورت اختیار کر گئی ہے اور اس کو بلند آواز میں پڑھنا مومن کی نشانی قرار دی گئی ہے۔ چنانچہ پیغمبر اکرم(ص) تلاوت قرآن کے وقت "بسم اللہ" کو بلند آواز میں تلاوت فرماتے تھے جس کی وجہ سے مشرکین آپ سے منہ موڑ لیتے تھے۔ [37]. "بِسمِ اللّہ الرَحمنِ الرَحیمِ" اسلام پر دلالت کرنے کے اعتبار سے "کلمہ شہادتین" کے بعد سب سے زیادہ مؤثر قرار دیا گیا ہے۔اسی وجہ سے یہ مسلمانوں کا شعار بن گیا ہے کہ ہر کام سے پہلے "بسم اللہ" پڑھتے یا لکھتے ہیں۔ [38]
  • ہر تحریر کی ابتداء میں "بسم اللہ" لکھنا سنت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ البتہ ایک روایت میں اشعار کی ابتداء میں "بسم اللہ" کے نہ پڑھنے پر تاکید کی گئی ہے، [39]

سورتوں میں "بسم اللہ" کی جزئیت یا عدم جزئیت

آیا "بسم اللہ" جو قرآن کی ہر سورت کی ابتداء میں مذکور ہے اس سورت کا جز ہے اور ایک مستقل آیت شمار ہوتی ہے یا نہ صرف ایک سورت کو دوسری سورت سے جدا کرنے کیلئے قرآن میں ذکر ہوا ہے اور کسی سورت کا جز نہیں ہے، اس بارے میں مفسرین کا آپس میں ختلاف پایا جاتا ہے۔ سورہ توبہ کی آیت نمبر 30 میں مذکور "بسم اللہ" کا اس سورت کے اجزاء میں سے ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ لیکن سورتوں کی ابتداء میں اس آیت کا اس سورت کے اجزاء میں سے ہونے اور نہ ہونے کے بارے میں تین نظریے پائے جاتے ہیں:

  • مکہ، کوفہ[40]، امامیہ [41] اور شافعیہ[42] قراء کا نظریہ: "بسم اللہ" قرآن کی تمام سورتوں سوائے سورہ توبہ، کا جزء ہے۔
  • بعض شافعیہ[43] اور احمد بن حنبل (ایک روایت کی بنا پر) [44] کا نظریہ: بسم اللہ صرف سورہ فاتحہ کا جزء ہے۔
  • مدینہ، بصرہ، شام کے قراء اور حنفی اور مالکی فقہاء کا نظریہ: بسم اللہ قرآن کا جزء نہیں ہے صرف تبرک اور ایک سورت کو دوسری سورت سے جدا کرنے کی خاطر سورتوں کی ابتداءمیں ذکر کیا گیا ہے۔ یہ نظریہ حنفیہ [45] اور مالکیہ [46] کا بھی مورد تائید نظریہ ہے۔

فخر رازی 17 دلیل ذکر کر کے یہ ثابت کرتا ہے کہ "بسملہ" قرآن کا جزء ہے۔ [47]

نماز کی قرأت میں "بسم اللہ" پڑھنا

علم قرأت کے ماہر علماء نے بالاتفاق کہا ہے کہ قرائت کے ہر حصے کو پڑھنے سے پہلے "بسم اللہ" پڑھنا لازمی اور ضروری ہے اور "بسم اللہ " کے بغیر قرائت کو کوئی بھی جائز نہیں سمجھتے ہیں۔ [48]

ایک سے زیادہ سورہ پڑھنے کی صورت میں "بسم اللہ" پڑھنے کا حکم

  • صرف ایک بسم اللہ؛ بعض فقہاء ایک سے زیادہ سورہ پڑھنے کی صورت میں صرف ایک بار "بسم اللہ" پڑھنے کو کافی سمجھتے ہیں۔ اور ایک سے زیادہ سورتوں یا ایک سورہ کو بسم اللہ کے ساتھ وصل کرنے کے بارے میں اختلاف کیا ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ دو سورتوں کو بسم اللہ کے ذریعے جدا کرنا صحیح نہیں ہے بلکہ دونوں سورتوں کو ملا کر پڑھنا چاہئے۔
  • ہر سورے کی ابتداء میں "بسم اللہ" پڑھنا ضروری ہے؛ ابن کثیر، عاصم، کسائی اور قالون معتقد ہیں کہ ایک سورہ کو دوسری سورت سے "بسم اللہ" کے ذریعے جدا کرنا ضرور ہے مگر یہ کہ سورہ انفال اور برائت ہو کیونکہ ان کے درمیان "بسم اللہ" نہیں ہے۔ [49]

"بسم اللہ" کا مستقل آیت ہونے اور نہ ہونے میں جو اختلاف پایا جاتا ہے وہ روایات سے سرچشمہ لیتا ہے۔ چنانچہ ابن عباس نے پیغمبر اکرم(ص) سے روایت کی ہے جس کے مطابق پیغمبر اکرم کسی سورت کی اختتام اور بعد والی سورت کو شروع کرتے وقت "بسم اللہ" کے نازل ہونے سے معلوم کیا جاتا تھا۔ [50]. بعض نے اس روایت سے یہ نتیجہ لیا ہے کہ "بسم اللہ" کوئی مستقل آیت نہیں ہے بلکہ صرف تبرک کی خاطر ہر سورت کی ابتداء میں آتا تھا۔ جبکہ اس کے مقابلے میں بعض کا خیال ہے کہ مصحف شریف کی تمام بنیادی نسخوں میں ہر سورہ کی ابتداء سوائے سورہ توبہ کے، "بسم اللہ" لکھی ہوئی ہے۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ قرآن کو جمع کرتے وقت کلام خدا کی حفاظت اور اسے ہر قسم کی تحریف سے بچانے کی خاطر ہر قسم کی اضافی چیز حتی سورتوں کے نام تک کو درج کرنے سے گریز کی گئی تھی اس صورت حال میں اگر "بسم اللہ" ہر سورت کا جزء نہیں ہے تو اس کے معنی یہ ہے کہ قرآن میں 113 "بسم اللہ" اضافہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ابن عباس سے ایک اور روایت نقل کرتے ہیں جس میں یوں آیا ہے کہ جو شخص بھی "بسم اللہ" نہ پڑھے گویا اس نے قرآن کی 113 آیت نہیں پڑہی ہے۔ [51].

نماز میں پڑھنا اور جہرت و اخفات میں اختلاف

شیعہ نظریہ

تمام شیعہ فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ "بسم اللہ" نماز کی ابتداء میں پڑھنا واجب ہے۔ اسی طرح نماز مغرب و عشاء اور نماز صبح میں اسے بلند آواز میں پڑھنے کو واجب اور آہستہ پڑھنے والی نمازوں میں اس کے بلند پڑھنے کو مستحب قرار دیتے ہیں۔[52] نقل ہوا ہے کہ امام علی(ع) نماز میں "بسم اللہ" کو بلند آواز کے ساتھ پڑھنے پر اصرار فرماتے تھے۔ شافعی سے منقول ہے کہ معاویہ نے ایک دفعہ مدینے میں نماز پڑھی جس میں "بسم اللہ" رکوع اور سجود سے پہلے "تکبیر" نہیں پڑھی۔صحابہ نے اس پر اعتراض کیا اور کہا کہ ہماری نماز کو تم نے چوری کی ہے، معاویہ نے اسی نماز کو "بسم اللہ" اور تکبیر کے ساتھ دبارہ انجام دیا۔ فخررازی [53] ان دو روایات پر تمسک کرتے ہوئے استدلال کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم(ص) کی سنت "بسم اللہ" کو بلند آواز میں پڑھنا ہے۔ مخفی نہ رہے شاید معاویہ نے بھی جان بوجھ کر اور حضرت علی علیہ‌السلام کی جہر و اخفات کے حوالے سے روش سے آگاہی کے بعد ان کی مخالفت میں ایسا اقدام انجام دیا۔ بسم اللہ فقط نماز اور بعد دوسرے امور جن میں "بسم اللہ" یا نام خدا لینا واجب ہے مثلا حیوان کو ذبح کرتے وقت وغیرہ۔ [54]

اہل سنت نظریہ

"بسم اللہ" کے آیت ہونے اور نہ ہونے میں موجود اختلاف اس کے نماز میں پڑھنے اور جہر اور اخفات سے پڑھنے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے مختلف روایات نقل کیئے جاتے ہیں جو اس اختلاف کا سبب بنا ہے: [55]

  • پڑھنا واجب ہے: شافعی اور ایک روایت کی بنا پر احمدبن حنبل اور بعض دیگر علماء کا عقیدہ ہے کہ "بسم اللہ" کا پڑھنا سورہ فاتحہ کی دوسری آیات کی طرح واجب ہے۔
  • پرھنا مکروہ ہے: مالک بن انس نے کہا ہے کہ بسملہ کا پڑھنا خواہ اخفات کی صورت میں ہو یا جہر کی صورت میں، مکروہ ہے۔
  • پڑھنا مستحب ہے: اس حوالے سے تیسرا قول یہ ہے کہ اس کا پڑھنا جائز بلکہ مستحب ہے۔
  • پڑھنا حرام اور بدعت ہے: بعض "بسملہ" پڑھنے کو حرام سمجھتے ہیں، عبداللہ بن مغفل کی ایک روایت کے مطابق اس کا پڑھنا بدعت ہے۔[56].

شیعہ اور اہل سنت کے تمام مذاہب سوائے جنبلی وضوء کرتے وقت "بسم اللہ" پڑھنے کو مستحب سمجھتے ہیں۔

بسم اللہ اور فن خوشنویسی

ایک معروف حدیث میں آیا ہے کہ جو بھی "بسم اللہ" کو خوشخط لکھے تو اسے بہت زیادہ نعمتوں کی بشارت دی گئی ہے۔[57]؛ اسی لئے "بسم اللہ" کو خوشخط لکھنا کی طرف تمام مسلمانوں بطور خاص خوشنویس حضرات کی توجہ رہی ہے اور مختلف زبانوں اور مختلف خطوط میں اور مختلف فنون میں "بسم اللہ" کو خوبصورت انداز میں لکھ کر مساجد اور دیکر مقدس مقامات میں مناسب جگہوں پر اسے زینت اور تبرک کی خاطر نصب کئے جاتے ہیں۔ [58].

ظہور اسلام کے بعد رائج الوقت سکوں پر منقش کرنے والی عبارات میں سے ایک "بسم اللہ" بھی تھا۔ خلفاء کے دور خلافت اور ایران اور دوسرے ملکوں میں اسلام کی نفوذ کے بعد اسوقت کے رائج سکے جن پر ایرانی بادشاہوں کی تصویر منقش ہوا کرتی تھی۔ مسلمان انہی سکوں پر سورہ حمد، توحید اور بسم اللہ میں سے مناسب کلمات کو لکھتے تھے۔ [59] پہلا اسلامی سکہ، "سکۃ بغلیہ" ہے جسے "حَجّاج بن یوسف نے سنہ ۷۵ ہجری قمری میں ایک طرف "بسم اللہ" اور دوسری طرف خود حجاج کا نام لکھنے کا حکم دیا اس کے ایک سال بعد اس عبارت کی جگہ"اللہ احد، اللہ صمد" لکھ دیا۔ [60] لیکن بے وضو ہاتھوں سے اسے لمس کرنے کے حوالے سے علماء کی طرف سے اعتراض کی وجہ سے یہ عبارت بہت ہی کم سکوس پر لکھی جانے لگی۔

حوالہ جات

  1. تفسیر سید مصطفی خمینی، ج‌۱، ص‌۶۵
  2. ۲۶۹۳
  3. ابن فارس، ۱۴۰۴، ج ۱، ص۳۲۸ـ ۳۲۹؛ ہمو، ۱۳۸۲، ج ۱، ص۲۷۱؛ قیسی، ج ۱، ص۱۳-۱۴؛ فیومی، ذیل واژہ ؛ قرطبی، ج ۱، ص۹۷؛ سیوطی، المزہر، ج ۱، ص۴۸۲۴۸۵؛ مرتضی زبیدی، ج ۷، ص۲۳۸؛ لین، ج ۱، ص۲۰۶
  4. کفعمی، ص۸۳حاشیہ
  5. علوم الحدیث، ش ۴، ص‌۱۷۷
  6. شرتونی، ج ۱، ص۴۴؛ معلوف، ذیل «بسمل»
  7. طریحی، ۲/۸۸۸
  8. زبیدی، ۸/۳۵۰؛ ۱۰/۱۸۳
  9. ص۶۴۵
  10. طالقانی، ۱/۲۴
  11. مرکاتانت، ۱۶۱/IV؛ طباطبایی، ۱۹/۳۸؛ مشکور، ج۱/۳۲-۳۳؛ جفری، ۱۲۵؛ واعظ زادہ خراسانی، ج۲، ص۶۲۷-۶۲۹ و ۶۳۵
  12. قرطبی، ۱۷/۱۰
  13. ابن قتیبہ، ۱۲
  14. طوسی۱/۲۹
  15. ژومیہ، ۲۳
  16. ابن کثیر، ۲۲؛ طبرسی، ۱/۶؛ طوسی، ۱/۲۷
  17. الانبیاء، ۱۲۱
  18. توبہ/128
  19. نیز مریم، ۴۵ مریم، ۹۶ ئ ۷۰ النباء، ۳۸
  20. ج۱، ص۲۹، ۱۴۰۷ نک: Idols an Images, pre-Islamic Arabia and the Quran
  21. GO، یکم، ۱۱۲، ۱۱۶
  22. ج ۱، ص۲۶۳
  23. ص ۲۲۵
  24. ج ۲، ص۷۸۴
  25. جامع البیان، ج ۱، ص۳۸
  26. ص ۶،۱۱
  27. ج ۲، ص۶۲۸
  28. شمس الائمۃ سرخسی، ج ۱، ص۳۷؛ علی شواخ اسحاق، ج ۲، ص۱۲
  29. ج ۱، ص۱۰
  30. تفسیر عیاشی، ج‌۱، ص‌۲۱ـ‌۲۲؛نورالثقلین، ج‌۱، ص‌۸
  31. المستدرک، ج‌۱، ص‌۵۵۲‌؛ تفسیر ابن‌کثیر، ج‌۱، ص‌۱۸؛ بحارالانوار، ج‌۹، ص‌۲۲۲، ۲۲۵
  32. طبرسی، ج ۱، ص۸۹؛ سیوطی، الدرالمنثور، ج ۱، ص۸،۱۰
  33. دربارۃ احادیث شیعی نیز رجوع کنید بہ خمینی، ج ۱، ص۵۰ـ۵۶
  34. تفسیر قرطبی، ج‌۱، ص‌۶۵‌؛ الدرالمنثور، ج‌۱، ص‌۲۶۲۷
  35. مجمع البیان، ج‌۱، ص‌۹۰؛ الدر المنثور، ج‌۱، ص‌۲۵
  36. ابن حنبل، ج ۲، ص۳۵۹؛ سیوطی، الدرالمنثور، ج ۱، ص۱۰
  37. آیۃ ۴۶ سورۃ اسراء اسی مطلب کی طرف اشارہ ہے۔ حویزی، ج ۳، ص۱۷۲
  38. الکاشف، ج‌۱، ص‌۲۴
  39. سیوطی، الدرالمنثور، ہمانجا
  40. زمخشری، ج ۱، ص۱
  41. طبرسی، ج۱، ص۸۹، ۱۴۰۶
  42. نوویی، ج۳، ص۳۳۴، بی‌تا
  43. طریحی، ج۱، ص۲۰۲، ۱۴۰۸
  44. نووی، ج۳، ص۳۳۴
  45. نک فخر رازی، ج۱، ص۱۷۹، ۱۴۱۰؛ قرطبی، ج ۱، ص۱۹۴، ۱۴۰۵
  46. نک: قرطبی، ج۱، ۹۴
  47. ج۱، ص۱۷۳-۱۷۷
  48. ابن جزری، ج ۱، ص۲۶۳
  49. ہمان، ج ۱، ص۲۵۹
  50. سیوطی، الدرالمنثور، ج ۱، ص۷
  51. زمخشری، ہمانجا؛ فخررازی، ج ۱، ص۲۰۷ـ۲۰۸
  52. طوسی، ۱۳۷۷-۱۳۸۲، ہمانجا؛ ہمو، ۱۴۰۰، ص۷۶؛ حکیم، ج ۶، ص۱۷۴-۱۷۵
  53. ج ۱، ص۲۰۴
  54. مائدہ : ۴۵؛ انعام : ۶، ۱۱۸، ۱۲۱؛ محقق حلی، ج ۳، ص۲۰۰، ۲۰۴
  55. مسلم بن حجاج، ج ۱، ص۲۹۹-۳۰۰؛ سیوطی، المزہر، ج ۱، ص۱۱
  56. فخررازی، ج ۱، ص۲۰۵
  57. سیوطی، الدرالمنثور، ہمانجا؛ شیمل، ص۸۱
  58. برای نمونہ‌ہا رجوع کنید بہ ہراتی ؛ و نیز رجوع کنید بہ ایرانیکا، ذیل «بسم اللہ»
  59. مقریزی، ص۱۵؛ دیانت، ج ۲، ص۷۳ـ ۷۴
  60. کرْملی، ص۱۳

مآخذ

  • ابن جزری، النشر فی القراءات العشر، چاپ علی محمد ضباع، مصر، بی‌تا.
  • ابن حنبل، مسند الامام احمدبن حنبل، بیروت، بی‌تا.
  • ابن سعد، الطبقات الکبری، چاپ احسان عباس، بیروت، بی‌تا.
  • ابن عربی، رحمۃ من الرحمن فی تفسیر و اشارات القرآن، دمشق، ۱۴۱۰/۱۹۸۹.
  • ہمو، الفتوحات المکیۃ، بیروت، بی‌تا.
  • ابن فارس، الصاحبی فی فقہ اللغۃ و سنن العرب فی کلام‌ہا، بیروت، ۱۳۸۲/ ۱۹۶۳.
  • ہمو، معجم مقاییس اللغۃ، چاپ عبدالسلام محمد ہارون، قم، ۱۴۰۴.
  • ابن ہشام، السیرۃ النبویہ، چاپ سہیل زکار، بیروت، ۱۴۱۲/ ۱۹۹۲.
  • علی شواخ اسحاق، معجم مصنفات القرآن الکریم، ریاض، ۱۴۰۳۱۴۰۴/ ۱۹۸۳-۱۹۸۴.
  • محسن حکیم، مستمسک العروۃ الوثقی، نجف ۱۳۸۹/۱۹۶۱، چاپ افست قم، ۱۴۰۴.
  • عبدعلی بن جمعہ حویزی، کتاب تفسیر نورالثقلین، چاپ ہاشم رسولی محلاتی، چاپ افست قم، ۱۳۸۳-۱۳۸۵.
  • مصطفی خمینی، تفسیر القرآن الکریم، چاپ محمد سجادی اصفہانی، تہران، ۱۳۶۲ش.
  • علی اکبر دہخدا، لغت نامہ، زیر نظر محمد معین، تہران، ۱۳۲۵-۱۳۵۹ش.
  • ابوالحسن دیانت، فرہنگ تاریخی سنجش‌ہا و ارزش‌ہا، تبریز ۱۳۶۷ش.
  • محمودبن عمر زمخشری، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، بیروت، بی‌تا.
  • عبدالرحمان بن ابی بکر سیوطی، الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور، بیروت، بی‌تا.
  • ہمو، المزہر فی علوم اللغۃ و انواع‌ہا، چاپ محمد احمد جادالمولی، علی محمد بجاوی و محمد ابوالفضل ابراہیم، قاہرہ، بی‌تا.
  • سعید شرتونی، اقرب الموارد فی فصح العربیۃ و الشوارد، بیروت، ۱۹۹۲.
  • محمدبن احمد شمس الائمۃ سرخسی، کتاب المبسوط، استانبول، ۱۴۰۳/۱۹۸۳.
  • فضل بن حسن طبرسی، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، چاپ ہاشم رسولی محلاتی و فضل اللہ یزدی طباطبائی، بیروت، ۱۴۰۸/۱۹۸۸.
  • محمدبن جریر طبری، ترجمہ تفسیر طبری : فراہم آمدہ در زمان سلطنت منصوربن نوح سامانی ۳۵۰ تا ۳۶۵ ہجری، چاپ حبیب یغمائی، تہران، ۱۳۶۷ش.
  • ہمو، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، بی‌تا.
  • محمدبن حسن طوسی، کتاب الخلاف فی الفقہ، تہران، ۱۳۷۷-۱۳۸۲.
  • ہمو، النہایۃ فی مجرد الفقہ و الفتاوی، بیروت، ۱۴۰۰/۱۹۸۰.
  • عبدالرزاق کاشی، تفسیر القرآن الکریم (معروف بہ تفسیر ابن عربی)، چاپ مصطفی غالب، بیروت ۱۹۷۸، چاپ افست تہران، بی‌تا.
  • احمدبن یحیی عمری، التعریف بالمصطلح الشریف، چاپ محمد حسین شمس الدین، بیروت ۱۴۰۸/۱۹۸۸.
  • محمدبن عمر فخررازی، التفسیر الکبیر، قاہرہ، بی‌تا. چاپ افست تہران، بی‌تا.
  • احمدبن محمد فیومی، المصباح المنیر، بیروت، ۱۹۸۷.
  • محمدبن احمد قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ج ۱، بیروت، ۱۳۷۲/۱۹۵۲.
  • عبدالکریم بن ہوازن قشیری، لطائف الاشارات، چاپ ابراہیم بسیونی، قاہرہ، ۱۹۸۱-۱۹۸۳.
  • مکی بن حموش قیسی، کتاب الکشف عن وجوہ القراءآت السبع و علل‌ہا و حجج‌ہا، چاپ محیی الدین رمضان، بیروت، ۱۴۰۷/۱۹۸۷.
  • اَنستاس ماری کرْملی، النقود العربیۃ و علم النِّمیات، قاہرہ، ۱۹۳۹: چاپ افست بیروت، بی‌تا.
  • ابراہیم بن علی کفعمی، المصباح، چاپ افست قم، ۱۴۰۵.
  • محمدبن یعقوب کلینی، الکافی، چاپ علی اکبر غفاری، بیروت، ۱۴۰۱.
  • جعفربن حسن محقق حلی، شرایع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، چاپ عبدالحسین محمدعلی، نجف، ۱۳۸۹/ ۱۹۶۹.
  • محمدبن محمد مرتضی زبیدی، تاج العروس من جواہر القاموس، چاپ سنگی مصر، ۱۳۰۶.
  • علی بن حسین مسعودی، التنبیہ و الاشراف، چاپ عبداللہ اسماعیل صاوی، قاہرہ، بی‌تا.
  • مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، استانبول ۱۴۰۱/۱۹۸۱؛ لویس معلوف، المنجد فی اللغۃ و الاعلام، بیروت ۱۹۷۳-۱۹۸۲، چاپ افست تہران، ۱۳۶۲ش.
  • احمدبن علی مقریزی، النقود الاسلامیۃ، چاپ محمد بحرالعلوم، نجف، ۱۳۸۷/ ۱۹۶۷.
  • احمدبن محمد میبدی، کشف الاسرار وعدۃ الابرار، چاپ علی اصغر حکمت، تہران، ۱۳۶۱ش.
  • علی بن احمد واحدی نیشابوری، اسباب النزول، بیروت ] بی‌تا. [ ؛ محمد مہدی ہراتی، تجلی ہنر در کتابت بسم اللہ، مشہد، ۱۳۶۷ش.
  • EI 2 s.v. "Basmala" (by B. Carra de Vaux and L.Gardet);
  • Encyclopaedia Iranica , s.vv. "Besmella  h. I: Origin of the formula" (by Philippe Gignoux), "Besmella  h. II: In Exegesis, Jurisprudence, and cultural life" (by Hamid Algar);
  • Edward William Lane, An Arabic-English lexicon , Beirut 1980;
  • Annemarie Schimmel, Calligraphy and Islamic culture , New York 1984.